اقبال عظیم

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 16:43، 13 جنوری 2017ء از 119.157.21.118 (تبادلۂ خیال) (نیا صفحہ: ===اقبال عظیم=== پروفیسر اقبال عظیم بینائی سے محروم محقق، ادیب ، شاعرتھے ۔ ایک نعت میں فرماتے ہیں...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

اقبال عظیم

پروفیسر اقبال عظیم بینائی سے محروم محقق، ادیب ، شاعرتھے ۔

ایک نعت میں فرماتے ہیں

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے

مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

نام[ترمیم]

نام سید اقبال احمد قلمی نام اقبال عظیم والد سید مقبول عظیم عرش ہیں

ولادت[ترمیم]

8 جولائی 1913ء میں یہ شاعر اور ادیب میرٹھ بھارت میں پیدا ہوئے۔


مختصر حالات زندگی[ترمیم]

لکھنو یونیورسٹی سے بی اے اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ ہندی اور بنگلہ کے اعلیٰ امتحانات پاس کیے۔ ساڑھے گیارہ سال یوپی کے

سرکاری مدارس میں معلمی کی۔ جولائی 1950ء میں مشرقی پاکستان آئے اور تقریباًً بیس سال سرکاری ڈگری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت

سے کام کیا۔ اپریل 1970ء میں بینائی زائل ہونے کے سبب اپنے اعزہ کے پاس کراچی آگئے۔

وفات[ترمیم]

اقبال عظیم کی وفات22 ستمبر 2000ء کوکراچی(سندھ) , پاکستان میں ہوئی


تصانیف[ترمیم]

مضراب (1975ء) غزلوں کے مجموعہ

لبَ کشا )نعتوں کا مجموعہ

قاب قوسین ،کراچی،ایوانِ اُردو،جون 1977ء ، 136 ص نعتوں کا مجموعہ ہے۔

مشرقی بنگال میں اردو آپ کی نثری تصنیف ہے۔ جس میں بنگال کی دو سو سالہ لسانی اور ادبی تاریخ کا جائزہ لیاگیا ہے۔

حکیم ناطق مرتب کردہ دیوان ہےجوشائع ہو چکا ہے۔

بوئے گُل شاعری

نثر وحشت

زبور حرم کلیات نعت

محاصل ناشر،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس.دہلی ، 1987ء (شعری کلیات)

مضراب و رباب شاعری

نادیدہ شاعری

چراغ ِآخری شب شاعری

سات ستارے سوانح [1]

نمونۂ کلام[ترمیم]

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں

میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں

پُرسشِ حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو

پُرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقبول ترین نعت :

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ


چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ

نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ


کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ


کہاں میں اور کہاں اس روضہ اقدس کا نظارہ

نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ


غلامانِ محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں

دلِ گرویدہ گرویدہ سرِ شوریدہ شوریدہ


مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں

ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ


بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے

مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ


وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر

فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ


مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ

جبیں افسرہ افسردہ قدم لرزیدہ لرزیدہ ​

ــــــــــــــــــــــــ