"مولانا حسن رضا خان بریلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 61: | سطر 61: | ||
====تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو==== | ====تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو==== | ||
تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو | |||
اللہ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو | |||
میں کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو | |||
وہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو | |||
جس بات میں مشہور جہاں ہے لب عیسی | |||
اے جان جہاں وہ تری ٹھوکر سے ادا ہو | |||
یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کو | |||
اللہ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہو | |||
مٹی نہ ہو برباد پس مرگ الہی | |||
جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو | |||
منگتا تو ہے منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے | |||
جس کو میری سرکار سے ٹکرا نہ ملا ہو | |||
اللہ یوں ہی عمر گذر جائے گدا کی | |||
سر خم ہو در پاک پر اور ہاتھ اٹھا ہو | |||
شاباش حسن اور چمکتی سی غزل پڑھ | |||
دل کھول کر آئینئہ ایماں کی جلا ہو | |||
===شراکتیں=== | ===شراکتیں=== | ||
[[صارف:تیمورصدیقی]] | [[صارف:تیمورصدیقی]] |
نسخہ بمطابق 09:07، 19 جنوری 2017ء
نمونہ کلام
آسماں گر ترے تلووں کا نظارا کرتا
آسماں گر ترے تلووں کا نظارا کرتا
روز اک چاند تصدق میں اتارا کرتا
طوف روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقف
میں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا
صر صر دشت مدینہ جو کرم فرماتی
کیوں میں افسردگی بخت کی پرواہ کرتا
چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاب
اور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا
آہ کیا خوب تھا گر حاضر در ہوتا میں
ان کے سایہ کے تلے چین سے سایا کرتا
صحبت داغ جگر سے کبھی جی بہلاتا
الفت دست و گریباں کا تماشا کرتا
کبھی کہتا کہ یہ کیا بزم ہے کیسی ہے بہار
کبھی انداز تجاہل سے میں توبہ کرتا
دل اگر رنج معاصی سے بگڑنے لگتا
عفو کا ذکر سنا کر میں سنبھالا کرتا
یہ مزے کوبی قسمت سے جو پائے ہوتے
سخت دیوانہ تھا گر خلد کی پروا کرتا
موت اس دن کو جو پھر نام وطن کی لیتا
خاک اس سر پر جو اس در سے کنارہ کرتا
اے حسن قصد مدینہ نہیں رونا ہے یہی
اور میں آپ سے کس بات کا شکوہ کرتا
تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اللہ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو
میں کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو
وہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو
جس بات میں مشہور جہاں ہے لب عیسی
اے جان جہاں وہ تری ٹھوکر سے ادا ہو
یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کو
اللہ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہو
مٹی نہ ہو برباد پس مرگ الہی
جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو
منگتا تو ہے منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے
جس کو میری سرکار سے ٹکرا نہ ملا ہو
اللہ یوں ہی عمر گذر جائے گدا کی
سر خم ہو در پاک پر اور ہاتھ اٹھا ہو
شاباش حسن اور چمکتی سی غزل پڑھ
دل کھول کر آئینئہ ایماں کی جلا ہو