آپ «کوئی منظر ہو، تو ہی جلوہ نما لگتاہے ۔ ابرار سالک» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 8: | سطر 8: | ||
کوئی منظر ہو ، تو ہی جلوہ نما لگتاہے | کوئی منظر ہو ، تو ہی جلوہ نما لگتاہے آسماں بھی ترا پیوند قبا لگتا ہے | ||
جب سے آنکھوں میں بسا گنبد خضریٰ کاجمال زرد پتے کو بھی دیکھوں تو ہرا لگتا ہے | |||
حجلۂ جاں تری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے گوشۂ دل میں نہاں غار حرا لگتا ہے | |||
تو مری ذات کی پہنائی میں ہے محوِ خرام لوحِ جاں پر ترا نقش کف پا لگتا ہے | |||
شدتِ یاس میں پڑھتا ہوں میں جب حرفِ درود کاسۂ سرترے قدموں میں دھرا لگتا ہے | |||
ایک احساسِ لطافت سے ہے تنِ آسودہ دل کے زخموں پہ ترا دستِ شفا لگتا ہے | |||
صرف توہی تو نہیں اس سے معطر سالک سارا عالم اسی خوشبو میں بسا لگتا ہے | |||
صرف توہی تو نہیں اس سے معطر سالک | |||
سارا عالم اسی خوشبو میں بسا لگتا ہے | |||