آپ «نعت کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروضات ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Nasir Abbas Nayyer.jpg|link=ناصر عباس نیر]]
مضبون نگار: [[ڈاکٹر ناصر عباس نیر]]
 
مضمون نگار: [[ناصر عباس نیر | ڈاکٹر ناصر عباس نیر]]
 
مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27 ]] | [[روزنامہ جسارت ]] <ref> [http://esunday.jasarat.com/2018/03/04/%D9%86%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DA%86%DA%BE-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DA%86%DA%BE-%D8%BA%DB%8C%D8%B1-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%88%D8%B6/ روزنامہ جسارت ] </ref>


ABSTRACT: The article placed below is based on analytical study of emotionality and religiosity takes place in the Genre of Naat .Depth of emotions and belief has been assessed in the light of creative instincts to find out poetic aesthetics in such poetry. Poetic forms have also been separately discussed being based on Forms and Content in order to signifying differences of both kinds of poetry. Sentiments of faith and belief aroused out of hatred of colonialism have also taken into account for the sake of highlighting under current spirit of poetic expressions.


ABSTRACT: The article placed below is based on analytical study of emotionality and religiosity takes place in the Genre of Naat .Depth of emotions and belief has been assessed in the light of creative instincts to find out poetic aesthetics in such poetry. Poetic forms have also been separately discussed being based on Forms and Content in order to signifying differences of both kinds of poetry. Sentiments of faith and belief aroused out of hatred of colonialism have also taken into account for the sake of highlighting under current spirit of poetic expressions.


=== نعت کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروضات ===
نعت کا بنیادی موضوع ،نبی پاک V کی عظیم المرتبت ذات ِوالا صفات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نعت کی صنفی شناخت بلحاظ موضوع ہے، بلحاظ ہیئت نہیں۔ یہیں نعت ادبی نقادوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی ہے۔یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جو اصناف اپنی ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں،وہ تخلیق کار کو موضوع لے کر ،اسلوب وتیکنیک کے انتخاب کی آزادی دیتی ہیں۔واضح رہے کہ اس آزادی کے بغیر کوئی شخص مبلغ تو ہوسکتا ہے ، تخلیق کار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی ان اصناف میں بھی ہے جو متعین موضوعاتی شناخت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا دائرہ اگرچہ نعت کے علاوہ، حمد، منقبت ،شہر آشوب وغیرہ تک پھیلا ہواہے، مگر ہم اسے فی الوقت نعت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔نعت کے اکثر نقاد اس سوال سے بچنا چاہتے ہیں، اور اس تصور میں پناہ لیتے ہیں کہ نعت ادب سے ماورا ایک مختلف قسم کا،اور ممتاز اظہارہے۔اسی بنا وہ نعت کے لیے تنقید کو روا نہیں سمجھتے۔اگر آپ نعت کا مطالعہ محض ایک مذہبی متن کے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے ضمن میں کوئی بھی فنی ،جمالیاتی ،تنقیدی بحث بلاجواز محسوس ہوگی ،لیکن اگر آپ اسے ادبی ،فنی تخلیق قرار دیتے ہیں ،اور اس پر گفتگو کے لیے روایتی تنقید یا نئی تھیوری کی اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تو پھر مذکورہ سوال پرتامل ضروری ہے۔ہماری رائے میںدونوں طرح کی اصناف (ہیئت یا موضوع کی بنیاد پر تشکیل پانے والی )میں آزادی ممکن ہے۔مثلاًمخصوص ہیئت کی حامل اصناف جیسے غزل ،مثنوی ، آزاد نظم اور نثری نظم میں موضوعاتی تنوع کی آزادی ہے۔جب کہ موضوعاتی اصناف میں ہیئت کے انتخاب کی آزادی ہے۔اس آزادی کا خالص جمالیاتی مفہوم یا مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوتے ہیں ،جب ہم ہیئت و موضوع کے پیچیدہ تعلق پر دھیان کرتے ہیں۔ تفصیل میں گئے بغیر ہم کَہ سکتے ہیں کہ موضوع اور ہیئت کا رشتہ ،ہم آہنگی کی تلاش کی آرزو سے عبارت ہے،اور ہم آہنگی کی آرزو وہیں ہوتی ہے ،جہاں ثنویت اور فاصلہ موجودہے۔ چناں چہ ایک ہی موضوع جب مختلف ہیئتوں میں ظاہر ہوتا ہے تو اس میں ہم آہنگی کی کوشش بھی نئے نئے طریقوں سے ہوتی ہے۔نئی ہیئتوں اور موضوع و ہیئت میں ایک نئی سطح پر ہم آہنگی کی سعی کی بنا پرموضوعاتی یکسانیت کاجبر قائم نہیں ہوپاتا۔ علاوہ ازیں جہاں تک نعت کا تعلق ہے ،اس کا موضوع، دیگرموضوعاتی اصناف کے موضوع سے مختلف ہے۔نبی پاکV کی ذات وصفات ،سیرت و عمل خود اپنے اندر غیر معمولی تنوع رکھتے ہیں۔ گویاصنفِ نعت کی یک موضوعی خصوصیت،ذات و صفات ِ نبی V کے تنوع سے ،ڈی کنسرکٹ ہوجاتی ہے،اور اسی کے دوران میں نعت گو بہ طور تخلیق کاروہ آزادی حاصل کرلیتاہے جس کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ہے۔
نعت کا بنیادی موضوع ،نبی پاک V کی عظیم المرتبت ذات ِوالا صفات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نعت کی صنفی شناخت بلحاظ موضوع ہے، بلحاظ ہیئت نہیں۔ یہیں نعت ادبی نقادوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی ہے۔یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جو اصناف اپنی ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں،وہ تخلیق کار کو موضوع لے کر ،اسلوب وتیکنیک کے انتخاب کی آزادی دیتی ہیں۔واضح رہے کہ اس آزادی کے بغیر کوئی شخص مبلغ تو ہوسکتا ہے ، تخلیق کار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی ان اصناف میں بھی ہے جو متعین موضوعاتی شناخت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا دائرہ اگرچہ نعت کے علاوہ، حمد، منقبت ،شہر آشوب وغیرہ تک پھیلا ہواہے، مگر ہم اسے فی الوقت نعت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔نعت کے اکثر نقاد اس سوال سے بچنا چاہتے ہیں، اور اس تصور میں پناہ لیتے ہیں کہ نعت ادب سے ماورا ایک مختلف قسم کا،اور ممتاز اظہارہے۔اسی بنا وہ نعت کے لیے تنقید کو روا نہیں سمجھتے۔اگر آپ نعت کا مطالعہ محض ایک مذہبی متن کے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے ضمن میں کوئی بھی فنی ،جمالیاتی ،تنقیدی بحث بلاجواز محسوس ہوگی ،لیکن اگر آپ اسے ادبی ،فنی تخلیق قرار دیتے ہیں ،اور اس پر گفتگو کے لیے روایتی تنقید یا نئی تھیوری کی اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تو پھر مذکورہ سوال پرتامل ضروری ہے۔ہماری رائے میںدونوں طرح کی اصناف (ہیئت یا موضوع کی بنیاد پر تشکیل پانے والی )میں آزادی ممکن ہے۔مثلاًمخصوص ہیئت کی حامل اصناف جیسے غزل ،مثنوی ، آزاد نظم اور نثری نظم میں موضوعاتی تنوع کی آزادی ہے۔جب کہ موضوعاتی اصناف میں ہیئت کے انتخاب کی آزادی ہے۔اس آزادی کا خالص جمالیاتی مفہوم یا مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوتے ہیں ،جب ہم ہیئت و موضوع کے پیچیدہ تعلق پر دھیان کرتے ہیں۔ تفصیل میں گئے بغیر ہم کَہ سکتے ہیں کہ موضوع اور ہیئت کا رشتہ ،ہم آہنگی کی تلاش کی آرزو سے عبارت ہے،اور ہم آہنگی کی آرزو وہیں ہوتی ہے ،جہاں ثنویت اور فاصلہ موجودہے۔ چناں چہ ایک ہی موضوع جب مختلف ہیئتوں میں ظاہر ہوتا ہے تو اس میں ہم آہنگی کی کوشش بھی نئے نئے طریقوں سے ہوتی ہے۔نئی ہیئتوں اور موضوع و ہیئت میں ایک نئی سطح پر ہم آہنگی کی سعی کی بنا پرموضوعاتی یکسانیت کاجبر قائم نہیں ہوپاتا۔ علاوہ ازیں جہاں تک نعت کا تعلق ہے ،اس کا موضوع، دیگرموضوعاتی اصناف کے موضوع سے مختلف ہے۔نبی پاکV کی ذات وصفات ،سیرت و عمل خود اپنے اندر غیر معمولی تنوع رکھتے ہیں۔ گویاصنفِ نعت کی یک موضوعی خصوصیت،ذات و صفات ِ نبی V کے تنوع سے ،ڈی کنسرکٹ ہوجاتی ہے،اور اسی کے دوران میں نعت گو بہ طور تخلیق کاروہ آزادی حاصل کرلیتاہے جس کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ہے۔


سطر 16: سطر 10:




نعت گوئی کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں ،تاہم ان میں عقیدت و عشق خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت ،کسی بات کو درست سمجھ کر اس پر دل کو مرتکز کرنا ہے۔کسی بات کو درست سمجھنے کے کئی طریقے اور ذرائع ہوسکتے ہیں:ذرائع میں خود آدمی کی اپنی صلاحیت ِ امتیاز اور دوسرے لوگ اور متون شامل ہیں ۔واضح رہے کہ کسی آدمی کی صلاحیت ِ امتیاز کبھی خود مختار نہیں ہوتی،اسے کسی ’اور‘ پر انحصار کرنا پڑتا ہے،یعنی دوسروں کی آرا، تحقیقات،کتب وغیرہ پر۔اسی طرح جو صاحبِ علم اور راوی مستند سمجھے جاتے ہیں،وہ بھی علم کا ذریعہ ہوتے ہیں۔نیز زبانی یا تحریری روایت ،اورالہامی متون خود علم اور ذریعۂ علم ہیں ۔سوال یہ ہے کہ عقیدت کا تعلق ،بات اور اس کی سچائی تک پہنچنے کے ذریعے سے ہے ،یا نہیں؟کیا ہر وہ بات جسے ہم کسی بھی ذریعے سے درست سمجھیں، اس کے سلسلے میں ایک طرح کا ،یا کئی طرح کے جذبات محسوس کرتے ہیں؟ ان سوالات کے سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں،کیوں کہ ہر آدمی کے یہاں ایک ہی شے ،یا ایک ہی تصور مختلف جذبات یا احساسات کو تحریک دیتاہے۔مگر ہم اتنا ضرور کَہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں تحسین کے جذبات پیدا کرتی ہے،جن کا تعلق باہر سے ہے ؛ان باتوں کی سچائی ہمیں آسودگی دیتی ہے، جن کا تعلق ہماری نفسی الجھنوں کے دور ہونے سے جنم لیتی ہے ،اور ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں احترام و عقیدت کے جذبات ابھارتی ہے،جن کا تعلق ہماری روح سے ہے۔احترا م و عقیدت کا تعلق ،ایک طرف خود کسی مخصوص بات سے ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے سے ہے۔ یوں عقیدت ،جن احساسات کی حامل ہوتی ہے ،وہ ذریعہ اور بات دونوں کو محیط ہوتے ہیں۔قیاساً کہا جاسکتا ہے کہ عقیدت اور عقیدے میںایک طرح کا ’انٹرپلے‘ ہوتا ہے؛دونوں ایک دوسرے کے ہم قریں ہوتے رہتے ہیں،اور دونوں میں لامتناہی طور پر مکالمہ جاری رہتاہے ۔بایں ہمہ کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ،جہاں عقیدت کا عقیدے سے تعلق نہیں ہوتا۔غیر مسلموں کی نعتوں میں عقیدت بدرجہ اتم ہوتی ہے ،مگر وہ مسلمانوں کے عقیدے میں شریک نہیں ہوتے۔
نعت گوئی کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں ،تاہم ان میںعقیدت و عشق خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت ،کسی بات کو درست سمجھ کر اس پر دل کو مرتکز کرنا ہے۔کسی بات کو درست سمجھنے کے کئی طریقے اور ذرائع ہوسکتے ہیں:ذرائع میںخود آدمی کی اپنی صلاحیت ِ امتیاز اور دوسرے لوگ اور متون شامل ہیں ۔واضح رہے کہ کسی آدمی کی صلاحیت ِ امتیاز کبھی خود مختار نہیں ہوتی،اسے کسی ’اور‘ پر انحصار کرنا پڑتا ہے،یعنی دوسروں کی آرا، تحقیقات،کتب وغیرہ پر۔اسی طرح جو صاحبِ علم اور راوی مستند سمجھے جاتے ہیں،وہ بھی علم کا ذریعہ ہوتے ہیں۔نیز زبانی یا تحریری روایت ،اورالہامی متون خود علم اور ذریعۂ علم ہیں ۔سوال یہ ہے کہ عقیدت کا تعلق ،بات اور اس کی سچائی تک پہنچنے کے ذریعے سے ہے ،یا نہیں؟کیا ہر وہ بات جسے ہم کسی بھی ذریعے سے درست سمجھیں، اس کے سلسلے میں ایک طرح کا ،یا کئی طرح کے جذبات محسوس کرتے ہیں؟ ان سوالات کے سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں،کیوں کہ ہر آدمی کے یہاں ایک ہی شے ،یا ایک ہی تصور مختلف جذبات یا احساسات کو تحریک دیتاہے۔مگر ہم اتنا ضرور کَہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں تحسین کے جذبات پیدا کرتی ہے،جن کا تعلق باہر سے ہے ؛ان باتوں کی سچائی ہمیں آسودگی دیتی ہے، جن کا تعلق ہماری نفسی الجھنوں کے دور ہونے سے جنم لیتی ہے ،اور ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں احترام و عقیدت کے جذبات ابھارتی ہے،جن کا تعلق ہماری روح سے ہے۔احترا م و عقیدت کا تعلق ،ایک طرف خود کسی مخصوص بات سے ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے سے ہے۔ یوں عقیدت ،جن احساسات کی حامل ہوتی ہے ،وہ ذریعہ اور بات دونوں کو محیط ہوتے ہیں۔قیاساً کہا جاسکتا ہے کہ عقیدت اور عقیدے میںایک طرح کا ’انٹرپلے‘ ہوتا ہے؛دونوں ایک دوسرے کے ہم قریں ہوتے رہتے ہیں،اور دونوں میں لامتناہی طور پر مکالمہ جاری رہتاہے ۔بایں ہمہ کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ،جہاں عقیدت کا عقیدے سے تعلق نہیں ہوتا۔غیر مسلموں کی نعتوں میں عقیدت بدرجہ اتم ہوتی ہے ،مگر وہ مسلمانوں کے عقیدے میں شریک نہیں ہوتے۔
 


ان معروضات کی روشنی میں ہم کَہ سکتے ہیں کہ جب عقیدت ،نعت کی بنیاد بنتی ہے تو یہ ایک سادہ سا، سامنے کا ،عام سا معاملہ نہیں ہوتا۔ نعت کا تخلیقی عمل،محض چند بندھے ٹکے موضوعات تک محدود نہیں ہوتا۔یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں رسمیت کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ،مگر یہ ان شعرا کے یہاں ہوتا ہے ،جن کی نعتیہ شاعری کا محرک محض ثواب یا دنیوی اجرو شہرت ہوتے ہیں،لیکن جن شعرا کے یہاں حقیقی عقیدت موجود ہوتی ہیں،یعنی جنھوں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں نبی پاک V کی حقیقت کو محسوس کیا ہوتا ہے ،اور غیر شعوری انداز میں احترام و سپاس کے جذبات محسوس کیے ہوتے ہیں،ان کی شاعری رسمی نہیں ہوتی۔ تاہم شرط یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض جذبہ ،شعر کے لیے کافی نہیں ہوتا؛وہ تو محرک ہوتا ہے ، اور محرک کیا کرسکتا ہے ،اگر معروض ِ تحریک کمزور یا سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت بہت سوں کے یہاں موجود ہوسکتی ہے ،مگر وہ خود اپنے آپ میں نعتیہ شاعری کا واحد محرک نہیں ہوسکتی۔یہ بھی درست ہے کہ عقیدت کا گہرا جذبہ ،کسی بھی دوسرے حقیقی،گہرے جذبے کی طرح اپنا اظہار چاہتا ہے ، مگر عقیدت ،نعت میں اسی وقت منقلب ہوتی ہے،جب شعر گوئی کی عمومی صلاحیت موجود ہو۔
ان معروضات کی روشنی میں ہم کَہ سکتے ہیں کہ جب عقیدت ،نعت کی بنیاد بنتی ہے تو یہ ایک سادہ سا، سامنے کا ،عام سا معاملہ نہیں ہوتا۔ نعت کا تخلیقی عمل،محض چند بندھے ٹکے موضوعات تک محدود نہیں ہوتا۔یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں رسمیت کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ،مگر یہ ان شعرا کے یہاں ہوتا ہے ،جن کی نعتیہ شاعری کا محرک محض ثواب یا دنیوی اجرو شہرت ہوتے ہیں،لیکن جن شعرا کے یہاں حقیقی عقیدت موجود ہوتی ہیں،یعنی جنھوں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں نبی پاک V کی حقیقت کو محسوس کیا ہوتا ہے ،اور غیر شعوری انداز میں احترام و سپاس کے جذبات محسوس کیے ہوتے ہیں،ان کی شاعری رسمی نہیں ہوتی۔ تاہم شرط یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض جذبہ ،شعر کے لیے کافی نہیں ہوتا؛وہ تو محرک ہوتا ہے ، اور محرک کیا کرسکتا ہے ،اگر معروض ِ تحریک کمزور یا سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت بہت سوں کے یہاں موجود ہوسکتی ہے ،مگر وہ خود اپنے آپ میں نعتیہ شاعری کا واحد محرک نہیں ہوسکتی۔یہ بھی درست ہے کہ عقیدت کا گہرا جذبہ ،کسی بھی دوسرے حقیقی،گہرے جذبے کی طرح اپنا اظہار چاہتا ہے ، مگر عقیدت ،نعت میں اسی وقت منقلب ہوتی ہے،جب شعر گوئی کی عمومی صلاحیت موجود ہو۔
سطر 53: سطر 48:




[[مظفر وارثی]] کی نعت میں،جو عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے، عقیدت و عقیدے میں باہمی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔اب پنڈت دتاتریہ کیفی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے ،جن میں عقیدت موجودہے۔
مظفر وارثی کی نعت میں،جو عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے، عقیدت و عقیدے میں باہمی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔اب پنڈت دتاتریہ کیفی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے ،جن میں عقیدت موجودہے۔


ہو شوق نہ کیوں نعت ِرسولِ دوسرا کا
ہو شوق نہ کیوں نعت ِرسولِ دوسرا کا
سطر 64: سطر 59:




[[میر تقی میر]] اور کلاسیکی عہد کے دیگر شعرا کے یہاں ،نعت کا موضوع عقیدت کے ساتھ ساتھ ثواب و مغفرت کا بھی ہوتا تھا۔مثلاً یہ شعر دیکھیے:
میر تقی میراور کلاسیکی عہد کے دیگر شعرا کے یہاں ،نعت کا موضوع عقیدت کے ساتھ ساتھ ثواب و مغفرت کا بھی ہوتا تھا۔مثلاً یہ شعر دیکھیے:


جلوہ نہیں ہے نظم میں حسنِ قبول کا
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسنِ قبول کا
سطر 71: سطر 66:




واضح رہے کہ اس وضع کے نعتیہ اشعار محض نعت گو کے دلی اخلاص کو ظاہر نہیں کرتے ،بلکہ ثقافتی سطح پرایک نئی نشانیات کو ۔۔۔یعنی کچھ نئی ثقافتی علامتوں اور رسمیات کوجو مخصوص معانی کی حامل ہوتی ہیں۔۔۔۔ متعارف کرواتے ہیں۔اس نشانیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مختلف سماجی وذہنی سرگرمیوں کی دنیویت میں مذہبی والوہی تقدیس شامل ہوتی ہے۔اور اس کے طفیل اس فاصلے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جو دنیویت اور مذہبیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،اور جس کے بڑھنے سے نہ صرف سماجی گروہوں میں نظریاتی تفریق گہری ہوتی ہے ،بلکہ گروہوں میں انتہاپسندانہ میلانات بھی پید اہوتے ہیں ۔یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتیں سماجی ہم آہنگی اور ثقافتی رواداری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔مثلاً[[عزیز الحسن مجذوب | خواجہ عزیر الحسن مجذوب]] کا ایک شعر ہے۔
واضح رہے کہ اس وضع کے نعتیہ اشعار محض نعت گو کے دلی اخلاص کو ظاہر نہیں کرتے ،بلکہ ثقافتی سطح پرایک نئی نشانیات کو ۔۔۔یعنی کچھ نئی ثقافتی علامتوں اور رسمیات کوجو مخصوص معانی کی حامل ہوتی ہیں۔۔۔۔ متعارف کرواتے ہیں۔اس نشانیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مختلف سماجی وذہنی سرگرمیوں کی دنیویت میں مذہبی والوہی تقدیس شامل ہوتی ہے۔اور اس کے طفیل اس فاصلے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جو دنیویت اور مذہبیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،اور جس کے بڑھنے سے نہ صرف سماجی گروہوں میں نظریاتی تفریق گہری ہوتی ہے ،بلکہ گروہوں میں انتہاپسندانہ میلانات بھی پید اہوتے ہیں ۔یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتیں سماجی ہم آہنگی اور ثقافتی رواداری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔مثلاًخواجہ عزیر الحسن مجذوب کا ایک شعر ہے۔


اب بعد ِنعت ہرزہ سرائی کا منھ نہیں
اب بعد ِنعت ہرزہ سرائی کا منھ نہیں
سطر 84: سطر 79:




عشق نبی V کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد V ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیV کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورت ِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیV میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی V کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ [[احمد جاوید]] کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:
عشق نبی V کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد V ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیV کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورت ِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیV میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی V کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ احمد جاوید کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:


کا ش اس بات سے محفوظ رہیںیہ لب وگوش
کا ش اس بات سے محفوظ رہیںیہ لب وگوش
سطر 91: سطر 86:




گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی V کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذبہ محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول Vکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی، بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے)۔ جدید شاعری میں منفی قلب ِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورتِ حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، [[خالد احمد]] کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں۔
گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی V کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذبہ محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول Vکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی، بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے)۔ جدید شاعری میں منفی قلب ِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورتِ حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، خالد احمد کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں۔


زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض ِعشق رسول ہوں
زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض ِعشق رسول ہوں
سطر 98: سطر 93:




یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوئوں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلب ِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبیV کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی V میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوئوں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔[[علامہ اقبال]] کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوئوں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلب ِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبیV کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی V میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوئوں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔


سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
سطر 108: سطر 103:
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول


کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول ([[بیدم وارثی]])
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول (بیدم وارثی)


میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے


کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا ([[پیر نصیر الدین پیر]])
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا (پیر نصیر الدین پیر)




مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے، مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول V سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی V کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوئوں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میںتعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگر اقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ [[اقبا]]ل کی شاہکار نظم’ مسجد ِقرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی، اور جو تکمیلِ فن کا مظہر ہوتی ہے۔
مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے، مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول V سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی V کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوئوں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میںتعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگر اقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اقبال کی شاہکار نظم’ مسجد ِقرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی، اور جو تکمیلِ فن کا مظہر ہوتی ہے۔


مرد ِخد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ
مرد ِخد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ
سطر 138: سطر 133:




آخر ی بات !اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔[[نعت]] اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں [[نعت]] کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میں جب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول V کی طرف رجوع کرنے لگے۔پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔ نعتیہ شاعری مذہبی قومی شناخت کی تشکیل کا ذریعہ بنی،لیکن اس موضوع پر گفتگو کسی اور موقع پر! ٭٭٭
آخر ی بات !اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔نعت اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں نعت کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میں جب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول V کی طرف رجوع کرنے لگے۔پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔ نعتیہ شاعری مذہبی قومی شناخت کی تشکیل کا ذریعہ بنی،لیکن اس موضوع پر گفتگو کسی اور موقع پر! ٭٭٭
 
=== مزید دیکھیے ===
 
{{تازہ ترین }}
{{منتخب مضامین}}
 
=== حواشی و حوالہ جات ===
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)