آپ «نعت رنگ - شمارہ نمبر 25 - اپنی بات - صبیح رحمانی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 5: سطر 5:


الحمدللہ! نعت رنگ اپنی اشاعت کی پچیسویں منزل سرکرنے میں کامیاب وکامران ہوا۔تقریباً بیس سال پہلے نعت کی تخلیقی رو‘کو نئے شعورسے ہم آہنگ کرنے‘نعتیہ ادب کوادب کے مرکزی دھارے سے ملانے اوراس کی فکری اورتنقیدی جہتوں کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ادب کے بامعنی سرمائے کا حصہ بنانے کے لیے جو سفر آغاز کیا گیا تھا اس نے کامیابیوں کی کتنی منازل طے کیں؟ اس کا اندازہ کرنا تومستقبل میں ادب کے مورخین کاکام ہے سواسے ان ہی پرچھوڑدینا چاہیے ۔مگر اس مرحلے پر مجھے نعت رنگ کی ابتدا سے لے کر آج تک اس کے تمام قلمی معاونین کے ساتھ ساتھ زیر نظر شمارے میں شامل ان تمام دوستوں کا بطورِ خاص شکریہ اداکرنا ہے جنہوں نے نعت رنگ کواپنے افکار کی رنگارنگی سے خوبصورت اور فکر انگیز بنایا۔ ان تمام دوستوں اوربزرگوں کے تعاون اورقلمی معاونت کے نتیجے میں نعت رنگ کے گذشتہ شماروں میں صنفِ نعت کی تنقید وتحقیق کے حوالے سے جو کام ہواہے و ہ اردو زبان وادب کی تاریخ کے حوالے سے عقیدت نگاری کے باب میں اب تک کی جانے والی متفرق کوششوں کوایک واضح اورمنفرد جہت عطاکرتاہے۔شمارہ 25 تک آتے آتے نعت رنگ کاشعری،ادبی،تخلیقی اورتنقیدی اثاثہ اس اہمیت کا حامل ضرور ہوگیاہے کہ آئندہ صنف نعت پرکسی بھی کام کے لیے اسے لازمی حوالے کی حیثیت حاصل رہے گی۔یہ سب ربِّ کریم کی تائید وتوفیق کے ساتھ ساتھ نعت رنگ کے قلمی معاونین کی مخلصانہ اورپُرخلوص کاوشوں کاہی نتیجہ ہے۔
الحمدللہ! نعت رنگ اپنی اشاعت کی پچیسویں منزل سرکرنے میں کامیاب وکامران ہوا۔تقریباً بیس سال پہلے نعت کی تخلیقی رو‘کو نئے شعورسے ہم آہنگ کرنے‘نعتیہ ادب کوادب کے مرکزی دھارے سے ملانے اوراس کی فکری اورتنقیدی جہتوں کوواضح کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ادب کے بامعنی سرمائے کا حصہ بنانے کے لیے جو سفر آغاز کیا گیا تھا اس نے کامیابیوں کی کتنی منازل طے کیں؟ اس کا اندازہ کرنا تومستقبل میں ادب کے مورخین کاکام ہے سواسے ان ہی پرچھوڑدینا چاہیے ۔مگر اس مرحلے پر مجھے نعت رنگ کی ابتدا سے لے کر آج تک اس کے تمام قلمی معاونین کے ساتھ ساتھ زیر نظر شمارے میں شامل ان تمام دوستوں کا بطورِ خاص شکریہ اداکرنا ہے جنہوں نے نعت رنگ کواپنے افکار کی رنگارنگی سے خوبصورت اور فکر انگیز بنایا۔ ان تمام دوستوں اوربزرگوں کے تعاون اورقلمی معاونت کے نتیجے میں نعت رنگ کے گذشتہ شماروں میں صنفِ نعت کی تنقید وتحقیق کے حوالے سے جو کام ہواہے و ہ اردو زبان وادب کی تاریخ کے حوالے سے عقیدت نگاری کے باب میں اب تک کی جانے والی متفرق کوششوں کوایک واضح اورمنفرد جہت عطاکرتاہے۔شمارہ 25 تک آتے آتے نعت رنگ کاشعری،ادبی،تخلیقی اورتنقیدی اثاثہ اس اہمیت کا حامل ضرور ہوگیاہے کہ آئندہ صنف نعت پرکسی بھی کام کے لیے اسے لازمی حوالے کی حیثیت حاصل رہے گی۔یہ سب ربِّ کریم کی تائید وتوفیق کے ساتھ ساتھ نعت رنگ کے قلمی معاونین کی مخلصانہ اورپُرخلوص کاوشوں کاہی نتیجہ ہے۔


کاش نعت رنگ کی اشاعت کے تسلسل اوراس کی ہمہ جہت خدمات اورمقبولیت کے وسیع ہوتے ہوئے دائرے کو اس سلورجوبلی شمارے کی صورت میں دیکھنے کے لیے آج ڈاکٹر غلام مصطفی خاں،ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ،ڈاکٹر سیدمحمد ابوالخیر کشفی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشفق خواجہ،ڈاکٹر عاصی کرنالی،پروفیسر شفقت رضوی ،پروفیسر حفیظ تائب،ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی،مظفروارثی ،رشید وارثی ، پروفیسر محمد اکرم رضا،حنیف اسعدی،اد یب رائے پوری،تابش دہلوی،شبنم رومانی،سرشار صدیقی ، پروفیسرجعفر بلوچ،شفیق الدین شارق،جمال پانی پتی،پیرزادہ محمد اقبال فاروقی،علامہ عبدالحکیم شرف قادری ،مولانا اسید الحق قادری ،ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی،عبدالعزیز خالد ،ڈاکٹر نجم الاسلام اور آفتاب کریمی جیسی شخصیات ہمارے درمیان موجودہوتیں جنہوں نے ہرمرحلے پر نعت رنگ کو اپنی توجہ ، پسندیدگی،رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے نوازا۔دم تحریر ان میں سے ہر ایک کا مسکراتا چہرہ میرے سامنے ہے اور میراحوصلہ بڑھارہاہے بالکل اسی طرح جس طرح نعت رنگ کی ہر نئی اشاعت پران کی محبتیں میرے عزم کومستحکم کرنے کا باعث بنتی تھیں۔نعت رنگ کے رنگوں میں اعتماد اوراعتبار کے جتنے بھی رنگ ہیں وہ اس کے قلمی معاونین اور سرپرستوں کی حوصلہ افزائی ہی سے نمایاں ہوئے ہیں۔دعاہے کہ ربِ کریم ان مرحومین کو اس خدمت کااجر اپنی شان کے مطابق عطافرمائے اور جو حیات ہیں انہیں تادیر صحت وسلامتی کے ساتھ ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے سائبان میں رکھے۔
کاش نعت رنگ کی اشاعت کے تسلسل اوراس کی ہمہ جہت خدمات اورمقبولیت کے وسیع ہوتے ہوئے دائرے کو اس سلورجوبلی شمارے کی صورت میں دیکھنے کے لیے آج ڈاکٹر غلام مصطفی خاں،ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ،ڈاکٹر سیدمحمد ابوالخیر کشفی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مشفق خواجہ،ڈاکٹر عاصی کرنالی،پروفیسر شفقت رضوی ،پروفیسر حفیظ تائب،ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی،مظفروارثی ،رشید وارثی ، پروفیسر محمد اکرم رضا،حنیف اسعدی،اد یب رائے پوری،تابش دہلوی،شبنم رومانی،سرشار صدیقی ، پروفیسرجعفر بلوچ،شفیق الدین شارق،جمال پانی پتی،پیرزادہ محمد اقبال فاروقی،علامہ عبدالحکیم شرف قادری ،مولانا اسید الحق قادری ،ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی،عبدالعزیز خالد ،ڈاکٹر نجم الاسلام اور آفتاب کریمی جیسی شخصیات ہمارے درمیان موجودہوتیں جنہوں نے ہرمرحلے پر نعت رنگ کو اپنی توجہ ، پسندیدگی،رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے نوازا۔دم تحریر ان میں سے ہر ایک کا مسکراتا چہرہ میرے سامنے ہے اور میراحوصلہ بڑھارہاہے بالکل اسی طرح جس طرح نعت رنگ کی ہر نئی اشاعت پران کی محبتیں میرے عزم کومستحکم کرنے کا باعث بنتی تھیں۔نعت رنگ کے رنگوں میں اعتماد اوراعتبار کے جتنے بھی رنگ ہیں وہ اس کے قلمی معاونین اور سرپرستوں کی حوصلہ افزائی ہی سے نمایاں ہوئے ہیں۔دعاہے کہ ربِ کریم ان مرحومین کو اس خدمت کااجر اپنی شان کے مطابق عطافرمائے اور جو حیات ہیں انہیں تادیر صحت وسلامتی کے ساتھ ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے سائبان میں رکھے۔
سطر 12: سطر 13:
==== منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کا قیام ====
==== منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کا قیام ====


فروری [[2015]] میں ماہ ربیع النور کے سلسلے میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اجتماعات میں شرکت کی غرض سے دو ڈھائی ماہ کینیڈامیں قیام رہا مجھے معلوم ہوا کہ [[ڈاکٹر طاہرالقادری]] صاحب بھی[[:زمرہ:کینیڈا | کینیڈا ]]ہی میں تشریف رکھتے ہیں۔چنانچہ ڈاکٹر ضیاء الحق رازی جو [[ڈاکٹر طاہرالقادری]] کے تحقیقی امور میں معاون ومددگار کے طورپر ڈاکٹر صاحب کے قریب ہیں ،ان سے خواہش کا اظہار کیا کہ ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔ رازی صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ [[ڈاکٹر طاہرالقادری]] صاحب نے باوجود علالت کے مجھے خصوصی طورپر ملاقات کا شرف عطا فرمایا ۔اس طرح ایک معینہ وقت پرمیں اور میرے نہایت عزیز دوست سید نہال احمد ،ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے ڈاکٹرصاحب کی صحت کے مسائل ان کے چہرے سے عیاں تھے پھر بھی نعت کے تعلق سے انہوں نے ہمیں خاصا وقت دیا۔میں نے انہیں نعت ریسرچ سینٹر کے قیام،مقاصد اورمنصوبوں کے بارے میں تفصیلاًآگاہ کیا اور اس کے تحت شائع ہونے والی چند مطبوعات ان کی خدمت میں پیش کیں ۔ ساتھ ہی منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کے قیام کے لیے درخواست بھی پیش کردی۔اورانہیں یہ بھی بتایا کہ میں نے پاکستان کی تمام بڑی جامعات کواس سلسلے میں خطوط لکھے تھے ۔مگراس کے جواب میں مجھے یہ طریقِ کار بتایا گیا کہ نعت چیئر کے لیے یونیورسٹی کو پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی توجہ سے میری گزارشات کو سنا مطبوعات کو دیکھا اوراپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نعت ریسرچ سینٹر کی خدمت کوسراہا اورساتھ ہی منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کے لیے بھرپور آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’ اگر منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر قائم نہ ہوسکی تو اس ادارے کے وجودکا جوا ز ہی نہ رہے گا‘‘۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے منہاج القرآن یونیورسٹی کے حوالے سے اپنی ترجیحات اورتوقعات کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا جسے جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ان کی نظر یونیورسٹی کے نصاب،نصب العین،نظم وانتظام کے ساتھ تعلیمی اورتحقیقی معیارات کے تمام زاویوں پر بھی بہت گہری ہے۔ وہ منہاج القرآن یونیورسٹی کو دنیا کی عظیم الشان جامعات کے مقابل ایک نمایاں حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں اوراپنے اس خواب کوتعبیر سے ہمکنار کرنے کے لیے انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادگان ڈاکٹر حسن محّی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محّی الدین قادری کو ذہنی،علمی اورفکری طو ر پر جس طرح تیارکیاہے وہ ان کے منصوبہ ساز ذہن اورقائدانہ صلاحیتوں کاعکاس ہے ۔ جولوگ قوموں کی زندگی میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں وہ اپنے رہنمایانہ کردار کوعملی زندگی میں اسی طرح شعور اورسلیقے سے ظاہر ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو میں نعت کے تنقیدی زاویوں پربھی بات کی اورمحافلِ نعت میں در آنے والی اکثربے تمیزیوں کی طرف اشارے بھی کیے۔ جس سے ان کے گہرے تنقیدی شعور اورشاعرانہ ذوق کا اظہاربھی ہوا۔
فروری [[2015]] میں ماہ ربیع النور کے سلسلے میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اجتماعات میں شرکت کی غرض سے دو ڈھائی ماہ کینیڈامیں قیام رہا مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب بھی کینیڈا ہی میں تشریف رکھتے ہیں۔چنانچہ ڈاکٹر ضیاء الحق رازی جو ڈاکٹر طاہرالقادری کے تحقیقی امور میں معاون ومددگار کے طورپر ڈاکٹر صاحب کے قریب ہیں ،ان سے خواہش کا اظہار کیا کہ ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔ رازی صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے باوجود علالت کے مجھے خصوصی طورپر ملاقات کا شرف عطا فرمایا ۔اس طرح ایک معینہ وقت پرمیں اور میرے نہایت عزیز دوست سید نہال احمد ،ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے ڈاکٹرصاحب کی صحت کے مسائل ان کے چہرے سے عیاں تھے پھر بھی نعت کے تعلق سے انہوں نے ہمیں خاصا وقت دیا۔میں نے انہیں نعت ریسرچ سینٹر کے قیام،مقاصد اورمنصوبوں کے بارے میں تفصیلاًآگاہ کیا اور اس کے تحت شائع ہونے والی چند مطبوعات ان کی خدمت میں پیش کیں ۔ ساتھ ہی منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کے قیام کے لیے درخواست بھی پیش کردی۔اورانہیں یہ بھی بتایا کہ میں نے پاکستان کی تمام بڑی جامعات کواس سلسلے میں خطوط لکھے تھے ۔مگراس کے جواب میں مجھے یہ طریقِ کار بتایا گیا کہ نعت چیئر کے لیے یونیورسٹی کو پانچ کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی توجہ سے میری گزارشات کو سنا مطبوعات کو دیکھا اوراپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نعت ریسرچ سینٹر کی خدمت کوسراہا اورساتھ ہی منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کے لیے بھرپور آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’ اگر منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر قائم نہ ہوسکی تو اس ادارے کے وجودکا جوا ز ہی نہ رہے گا‘‘۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے منہاج القرآن یونیورسٹی کے حوالے سے اپنی ترجیحات اورتوقعات کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا جسے جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ان کی نظر یونیورسٹی کے نصاب،نصب العین،نظم وانتظام کے ساتھ تعلیمی اورتحقیقی معیارات کے تمام زاویوں پر بھی بہت گہری ہے۔ وہ منہاج القرآن یونیورسٹی کو دنیا کی عظیم الشان جامعات کے مقابل ایک نمایاں حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں اوراپنے اس خواب کوتعبیر سے ہمکنار کرنے کے لیے انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادگان ڈاکٹر حسن محّی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محّی الدین قادری کو ذہنی،علمی اورفکری طو ر پر جس طرح تیارکیاہے وہ ان کے منصوبہ ساز ذہن اورقائدانہ صلاحیتوں کاعکاس ہے ۔ جولوگ قوموں کی زندگی میں تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں وہ اپنے رہنمایانہ کردار کوعملی زندگی میں اسی طرح شعور اورسلیقے سے ظاہر ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو میں نعت کے تنقیدی زاویوں پربھی بات کی اورمحافلِ نعت میں در آنے والی اکثربے تمیزیوں کی طرف اشارے بھی کیے۔ جس سے ان کے گہرے تنقیدی شعور اورشاعرانہ ذوق کا اظہاربھی ہوا۔


یہ ملاقات میرے لیے کئی حوالوں سے بڑی اہم ثابت ہوئی ایک تو [[ڈاکٹر علامہ محمد طاہر القادری]] صاحب جیسی ہمہ جہت علمی ودینی شخصیت سے ہم نشینی اوردوسرے اپنی درخواست کی قبولیت (نعت چیئر کا قیام ) یہ دونوں باتیں میرے لیے روحانی سرشاریوں کا باعث بنیں ۔خدا کرے منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کا جلدباقائدہ قیام عمل میں آئے اورامت اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہو۔آمین
یہ ملاقات میرے لیے کئی حوالوں سے بڑی اہم ثابت ہوئی ایک تو ڈاکٹر علامہ محمد طاہر القادری صاحب جیسی ہمہ جہت علمی ودینی شخصیت سے ہم نشینی اوردوسرے اپنی درخواست کی قبولیت (نعت چیئر کا قیام ) یہ دونوں باتیں میرے لیے روحانی سرشاریوں کا باعث بنیں ۔خدا کرے منہاج القرآن یونیورسٹی میں نعت چئیر کا جلدباقائدہ قیام عمل میں آئے اورامت اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہو۔آمین


==== فروغِ نعت کے نئے آفاق ====
==== فروغِ نعت کے نئے آفاق ====
سطر 20: سطر 21:
فروغِ نعت کے نئے آفاق پر گفتگو کرتے ہوئے مجھے نعت رنگ کے ابتدائی اداریے یاد آرہے ہیں جن میں اکثرمیں نے صنف نعت سے اربابِ ادب کی عدم توجہی کا گلہ کرتے ہوئے ان خواہشات کا اظہار کیا کہ نعتیہ ادب کو بھی ادب سمجھ کر قبول کیا جائے اور اس کے محاسن اور ادبی پہلوؤں کا جائزہ بھی اتنی ہی سنجیدگی سے لیا جائے جتنی سنجیدگی سے ادب کی دیگر اصناف کو دیکھا جاتا ہے۔ نعت رنگ کو نعت شناسی کی ایک تحریک کا رنگ دیتے ہوئے یہ بات ہمیشہ میرے پیش نظر رہی ہے کہ نعت صرف ایک صنف سخن ہی نہیں ہے بلکہ اس کا موضوعِ عظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات اقدس کے حوالے سے اسلام اورامتِ مسلمہ کے تما م گوشوں کو محیط ہے ۔اسی لیے نعت گوئی ہمارے لیے محض تہذیبِ نفس یا تطہیر نطق کا وسیلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی تعمیر‘ اصلاح اوردینِ اسلام کی تبلیغ و توسیع کا ذریعہ بھی ہے۔ درحقیقت نعت رنگ کا سارا سفر اسی شعور کو عام کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
فروغِ نعت کے نئے آفاق پر گفتگو کرتے ہوئے مجھے نعت رنگ کے ابتدائی اداریے یاد آرہے ہیں جن میں اکثرمیں نے صنف نعت سے اربابِ ادب کی عدم توجہی کا گلہ کرتے ہوئے ان خواہشات کا اظہار کیا کہ نعتیہ ادب کو بھی ادب سمجھ کر قبول کیا جائے اور اس کے محاسن اور ادبی پہلوؤں کا جائزہ بھی اتنی ہی سنجیدگی سے لیا جائے جتنی سنجیدگی سے ادب کی دیگر اصناف کو دیکھا جاتا ہے۔ نعت رنگ کو نعت شناسی کی ایک تحریک کا رنگ دیتے ہوئے یہ بات ہمیشہ میرے پیش نظر رہی ہے کہ نعت صرف ایک صنف سخن ہی نہیں ہے بلکہ اس کا موضوعِ عظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات اقدس کے حوالے سے اسلام اورامتِ مسلمہ کے تما م گوشوں کو محیط ہے ۔اسی لیے نعت گوئی ہمارے لیے محض تہذیبِ نفس یا تطہیر نطق کا وسیلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی تعمیر‘ اصلاح اوردینِ اسلام کی تبلیغ و توسیع کا ذریعہ بھی ہے۔ درحقیقت نعت رنگ کا سارا سفر اسی شعور کو عام کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔


یہ بات خاصی خوش آ ئند ہے کہ نعت کے ادبی فروغ کے لیے ’’[[نعت رنگ]]‘‘ کی بیس سالہ جدوجہد کے نتیجے میں نعت کی ادبی مقبولیت کا اب ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ معاصر ادبی منظر نامے پر نعت کے تخلیقی وفور کی ایک تازہ لہر نظر آتی ہے جس میں اردو کے نامور شعراکے دوش بدوش نوآموز شعرا بھی نعت گوئی کو اپنے تخلیقی اظہارکا ذریعہ بنارہے ہیں۔ نعت رنگ میں تنقیدی مباحثوں اورمکالموں کے روشن ہونے سے آداب نعت گوئی کے باب میں شعراکا احساس ذمہ داری بڑھتا ہوادکھائی دیتاہے۔ نعت کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھنے میں جو اندیشے مانع تھے وہ دورہوئے ہیں اور علمی ، لسانی،عروضی اورتنقیدی زاویوں سے بے لاگ گفتگوکی ایک ایسی فضا قائم ہوئی ہے جس ادبی سطح پر نعت کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہورہاہے نعت کو دانستہ یا نا دانستہ نظر انداز کرنے والے حلقوں میں بھی اس کو بطورِ صنفِ سخن دیکھنے اور اس کی اہمیت کوتسلیم کرنے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔اس عمل میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں طرح کے ادبی ادارے اب خاصے فعال نظر آرہے ہیں۔بقول مجاز ؔ کچھ اس طرح کا منظر نامہ بن رہا ہے :
یہ بات خاصی خوش آ ئند ہے کہ نعت کے ادبی فروغ کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ کی بیس سالہ جدوجہد کے نتیجے میں نعت کی ادبی مقبولیت کا اب ایک ایسا ماحول بن گیا ہے کہ معاصر ادبی منظر نامے پر نعت کے تخلیقی وفور کی ایک تازہ لہر نظر آتی ہے جس میں اردو کے نامور شعراکے دوش بدوش نوآموز شعرا بھی نعت گوئی کو اپنے تخلیقی اظہارکا ذریعہ بنارہے ہیں۔ نعت رنگ میں تنقیدی مباحثوں اورمکالموں کے روشن ہونے سے آداب نعت گوئی کے باب میں شعراکا احساس ذمہ داری بڑھتا ہوادکھائی دیتاہے۔ نعت کو تنقیدی کسوٹی پر پرکھنے میں جو اندیشے مانع تھے وہ دورہوئے ہیں اور علمی ، لسانی،عروضی اورتنقیدی زاویوں سے بے لاگ گفتگوکی ایک ایسی فضا قائم ہوئی ہے جس ادبی سطح پر نعت کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہورہاہے نعت کو دانستہ یا نا دانستہ نظر انداز کرنے والے حلقوں میں بھی اس کو بطورِ صنفِ سخن دیکھنے اور اس کی اہمیت کوتسلیم کرنے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔اس عمل میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں طرح کے ادبی ادارے اب خاصے فعال نظر آرہے ہیں۔بقول مجاز ؔ کچھ اس طرح کا منظر نامہ بن رہا ہے :


ذہنِ انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں  
ذہنِ انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں  
سطر 32: سطر 33:
==== جشنِ نعت، حیدرآباددکن ====
==== جشنِ نعت، حیدرآباددکن ====


[[2002]] میں ادارۃ الانصار اور سالارِ جنگ میوزیم حیدرآباد دکن کے زیرِ اہتمام دوروزہ عظیم الشان کل ہند سیمینار بعنوان ’’جشنِ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ منعقد ہوا۔ ہندوستان بھر سے اہم ادبی شخصیات نے اس سیمینار میں شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔ انہی مقالات پر مشتمل ایک مجموعہ ’’مقالاتِ نعت‘‘ میرے پیشِ نظر ہے جسے اسد سنائی(جو خود بھی دکن ایک معتبر نعت گو ہیں) نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد ، دکن نے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے تعاون سے دسمبر [[2013]] میں شائع کی ہے۔ مقالات کے اس مجموعے میں ڈاکٹر شاہ خسرو حسینی، ڈاکٹر قاضی جمال حسین،سلیم شہزاد، ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط، علیم صبا نویدی، ڈاکٹر مصطفےٰ شریف، ڈاکٹر سید طلحہٰ رضوی برق، ڈاکٹر محمد علی اثر، ڈاکٹر رحمت یوسف زئی، ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس، سکندر احمد، ڈاکٹر لطف الرحمٰن، ڈاکٹر عبدالحمید، ڈاکٹرراہی فدائی، ڈاکٹر مظفر شہ میری اور ڈاکٹرسید شاہ محمدحسیب الدین حمیدی کی تحریریں شامل ہیں۔ نعت کے ایک خدمت گزار کی حثیت سے یہ بات میرے لیے نہ صرف بہت اہمیت رکھتی ہے بلکہ خوشی کا باعث بھی ہے کہ اس مجموعے کے تمام مقالہ نگار بھارت ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کی طرح بھارت میں بھی نعت شناسی کی فضا بن رہی ہے۔ بھارت کی جامعات میں نعت پر لکھے جانے والے تحقیقی مقالات سے قطع نظر اب اس طرح کے ادبی اداروں کا وہاں نعتیہ ادب پر سیمینار منعقد کرنا اور ان میں پیش کیے گئے مقالات کا سرکاری اداروں کے تعاون سے شائع ہونا ، نعت شناسی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب جناب وہاب اشرفی کے رسالے ’’مباحثہ‘‘ میں کچھ پرانے ترقی پسندوں اس تعصب کے برملا اظہار کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ ادبی رسائل میں حمد و نعت کے شائع ہونے سے اردو جیسی سیکولر زبان کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ مقالاتِ نعت کی اشاعت کے اور [[:زمرہ : رسائل و جرائد | ادبی رسائل و جرائد]] میں نعت کی شمولیت باعثِ اطمینان ہے۔ [[نعت رنگ(ہندوستانی ایڈیشن)]] اور [[جہانِ نعت]] (مدیر : غلام ربانی فدا ) جیسے نعتیہ جرائد کا بھارت سے اشاعت پذیر ہونا،ادبی پرچوں کانعت کو اپنی اشاعتوں کی اپنی زینت بنانااورنعت نمبروں کی اشاعت کا اہتمام کرنا وہاں کے ادبی منظر نامے پر ایک مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔
[[2002]] میں ادارۃ الانصار اور سالارِ جنگ میوزیم حیدرآباد دکن کے زیرِ اہتمام دوروزہ عظیم الشان کل ہند سیمینار بعنوان ’’جشنِ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم‘‘ منعقد ہوا۔ ہندوستان بھر سے اہم ادبی شخصیات نے اس سیمینار میں شرکت کی اور مقالات پیش کیے۔ انہی مقالات پر مشتمل ایک مجموعہ ’’مقالاتِ نعت‘‘ میرے پیشِ نظر ہے جسے اسد سنائی(جو خود بھی دکن ایک معتبر نعت گو ہیں) نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد ، دکن نے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے تعاون سے دسمبر [[2013]] میں شائع کی ہے۔ مقالات کے اس مجموعے میں ڈاکٹر شاہ خسرو حسینی، ڈاکٹر قاضی جمال حسین،سلیم شہزاد، ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط، علیم صبا نویدی، ڈاکٹر مصطفےٰ شریف، ڈاکٹر سید طلحہٰ رضوی برق، ڈاکٹر محمد علی اثر، ڈاکٹر رحمت یوسف زئی، ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس، سکندر احمد، ڈاکٹر لطف الرحمٰن، ڈاکٹر عبدالحمید، ڈاکٹرراہی فدائی، ڈاکٹر مظفر شہ میری اور ڈاکٹرسید شاہ محمدحسیب الدین حمیدی کی تحریریں شامل ہیں۔ نعت کے ایک خدمت گزار کی حثیت سے یہ بات میرے لیے نہ صرف بہت اہمیت رکھتی ہے بلکہ خوشی کا باعث بھی ہے کہ اس مجموعے کے تمام مقالہ نگار بھارت ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کی طرح بھارت میں بھی نعت شناسی کی فضا بن رہی ہے۔ بھارت کی جامعات میں نعت پر لکھے جانے والے تحقیقی مقالات سے قطع نظر اب اس طرح کے ادبی اداروں کا وہاں نعتیہ ادب پر سیمینار منعقد کرنا اور ان میں پیش کیے گئے مقالات کا سرکاری اداروں کے تعاون سے شائع ہونا ، نعت شناسی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب جناب وہاب اشرفی کے رسالے ’’مباحثہ‘‘ میں کچھ پرانے ترقی پسندوں اس تعصب کے برملا اظہار کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ ادبی رسائل میں حمد و نعت کے شائع ہونے سے اردو جیسی سیکولر زبان کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ مقالاتِ نعت کی اشاعت کے اور ادبی رسائل و جرائد میں نعت کی شمولیت باعثِ اطمینان ہے۔ نعت رنگ(ہندوستانی ایڈیشن) اور جہانِ نعت (مدیر : غلام ربانی فدا ) جیسے نعتیہ جرائد کا بھارت سے اشاعت پذیر ہونا،ادبی پرچوں کانعت کو اپنی اشاعتوں کی اپنی زینت بنانااورنعت نمبروں کی اشاعت کا اہتمام کرنا وہاں کے ادبی منظر نامے پر ایک مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔


==== عالمی اردو کانفرنس اور نعت ====
==== عالمی اردو کانفرنس اور نعت ====


[[19؍اکتوبر]] [[2014]]ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی کے زیرِ اہتمام ساتویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں پہلی بار نعت پر بطور صنفِ سخن ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس کا عنوان ’’اردو زبان اور نعتیہ ادب‘‘ تھا۔ یہ اجلاس جن حالات میں منعقد ہوا اور جیسی بے توجہی کا شکار رہا اس کے باوجود، آرٹس کونسل کے اربابِ حل و عقد کو مبارکباد پیش کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب نعت کو بطور صنفِ سخن پہلی بار کسی عالمی اردو کانفرنس میں جگہ ملی۔اس اجلاس کی صدارت افتخار عارف نے کی اور اظہارِ خیال کرنے والوں میں پروفیسرسحر انصاری ، [[ڈاکٹر عزیز احسن]]، گوہر اعظمی،شوکت عابد، احمد شاہ، محمود احمد خان اور [[سید صبیح الدین صبیح رحمانی | راقم الحروف]] شامل تھے۔ آرٹس کونسل کے سیکریٹر جنرل، جناب احمد شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئندہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں نعتیہ شاعری پر ایک اجلاس ہمیشہ منعقد کیا جائے گا۔ ہم نعت ریسرچ سینٹر کی جانب سے آرٹس کونسل‘ پاکستان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے نعت شناسی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
[[19؍اکتوبر]] [[2014]]ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی کے زیرِ اہتمام ساتویں عالمی اردو کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں پہلی بار نعت پر بطور صنفِ سخن ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس کا عنوان ’’اردو زبان اور نعتیہ ادب‘‘ تھا۔ یہ اجلاس جن حالات میں منعقد ہوا اور جیسی بے توجہی کا شکار رہا اس کے باوجود، آرٹس کونسل کے اربابِ حل و عقد کو مبارکباد پیش کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب نعت کو بطور صنفِ سخن پہلی بار کسی عالمی اردو کانفرنس میں جگہ ملی۔اس اجلاس کی صدارت افتخار عارف نے کی اور اظہارِ خیال کرنے والوں میں پروفیسرسحر انصاری ، ڈاکٹر عزیز احسن، گوہر اعظمی،شوکت عابد، احمد شاہ، محمود احمد خان اور راقم الحروف شامل تھے۔ آرٹس کونسل کے سیکریٹر جنرل، جناب احمد شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئندہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں نعتیہ شاعری پر ایک اجلاس ہمیشہ منعقد کیا جائے گا۔ ہم نعت ریسرچ سینٹر کی جانب سے آرٹس کونسل‘ پاکستان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے نعت شناسی کی تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔


==== انجمن ترقیء اردو اور نعت ====
==== انجمن ترقیء اردو اور نعت ====


[[17جنوری]] [[2015]] کو انجمن ترقی اردو، کراچی نے پہلی مرتبہ ایک مذاکرہ بعنوان ’’صنفِ نعت، ادبی اور ثقافتی ورثہ‘‘منعقد کیا ۔جس میں شیخ الجامعہ اردو یونیورسٹی جناب ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی، [[ستیا پال آنند | ڈاکٹر ستیہ پال آنند]]، پروفیسر سحر انصاری،پروفیسر انوار احمد زئی، [[ڈاکٹر عزیز احسن]]،محترمہ شائستہ زیدی، طاہرسلطانی، صاحبزادہ عباس وغیرہم نے مقالات پیش کیے اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بحسن و خوبی اس اجلاس کی نقابت کے فرائض انجام دیے۔ اس مذاکرے میں مقررین اور مقالا نگاروں کے علاوہ شہر کے کثیر اہلِ علم نے شرکت کی ۔اس کاوش پر انجمن ترقی اردو کے اربابِ بست و کشاد ہماری دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
[[17جنوری]] [[2015]] کو انجمن ترقی اردو، کراچی نے پہلی مرتبہ ایک مذاکرہ بعنوان ’’صنفِ نعت، ادبی اور ثقافتی ورثہ‘‘منعقد کیا ۔جس میں شیخ الجامعہ اردو یونیورسٹی جناب ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، پروفیسر سحر انصاری،پروفیسر انوار احمد زئی، ڈاکٹر عزیز احسن،محترمہ شائستہ زیدی، طاہرسلطانی، صاحبزادہ عباس وغیرہم نے مقالات پیش کیے اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بحسن و خوبی اس اجلاس کی نقابت کے فرائض انجام دیے۔ اس مذاکرے میں مقررین اور مقالا نگاروں کے علاوہ شہر کے کثیر اہلِ علم نے شرکت کی ۔اس کاوش پر انجمن ترقی اردو کے اربابِ بست و کشاد ہماری دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔


==== حلقہء اربابِ ذوق، کراچی ====
==== حلقہء اربابِ ذوق، کراچی ====


[[22؍جولائی]] [[2013]] ء کو آرٹس کونسل کراچی میں، حلقہء اربابِ ذوق کی تنقیدی نشست کا اہتمام ہوا جس میں [[عزیز احسن | ڈاکٹر عزیزؔ احسن]] نے ’’نعتیہ ادب میں تنقید کی اہمیت‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ بعد ازاں اسی حلقے کی ایک اور تنقیدی نشست منعقدہ اتوار ۶؍جولائی ۲۰۱۴ ء میں [[عزیز احسن | ڈاکٹر عزیزؔ احسن]] کو ’’آزاد نظم میں نعتیہ اقدار‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی دعوت دی گئی اور انہوں نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ہم حلقہء اربابِ ذوق ، کراچی کے احباب کی نعت سے دلچسپی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جناب [[عقیل عباس جعفری]] اور ان کے رفقا ء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ اس ادبی فورم پر انہوں نے دیگر اصنافِ سخن کی طرح نعت کو بھی اہمیت دی اور تنقیدی نشست میں اس پر گفتگو کا اہتمام کیا۔
22؍جولائی [[2013]] ء کو آرٹس کونسل کراچی میں، حلقہء اربابِ ذوق کی تنقیدی نشست کا اہتمام ہوا جس میں ڈاکٹر عزیزؔ احسن نے ’’نعتیہ ادب میں تنقید کی اہمیت‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ بعد ازاں اسی حلقے کی ایک اور تنقیدی نشست منعقدہ اتوار ۶؍جولائی ۲۰۱۴ ء میں ڈاکٹر عزیزؔ احسن کو ’’آزاد نظم میں نعتیہ اقدار‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی دعوت دی گئی اور انہوں نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ہم حلقہء اربابِ ذوق ، کراچی کے احباب کی نعت سے دلچسپی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جناب عقیل عباس جعفری اور ان کے رفقا ء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ اس ادبی فورم پر انہوں نے دیگر اصنافِ سخن کی طرح نعت کو بھی اہمیت دی اور تنقیدی نشست میں اس پر گفتگو کا اہتمام کیا۔


==== سنڈے میگزین ، روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی اور گوشۂ نعت ====
==== سنڈے میگزین ، روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی اور گوشۂ نعت ====


[[عزیز احسن | ڈاکٹر عزیزاحسن]] ( ڈائرکٹر نعت ریسرچ سینٹر) کو سنڈے میگزین، روزنامہ جسارت، کراچی کے میگزین اڈیٹر جناب اجمل سراج نے متعدد بار دعوت دے کر ان سے نعتیہ ادب پر کئی مقالات لکھوائے جو میگزین کے ادبی حصے کی زینت بنتے رہے۔ مقالات کا یہ سلسلہ جلد ہی مقبولیت کی بلندیوں کوچھونے لگا ۔تب اجمل سراج ایک دن نعت ریسرچ سینٹر کے دفتر تشریف لائے اور بڑے خلوص سے یہ تجویز میرے سامنے رکھی کہ جسارت سنڈے میگزین اب اپنا ایک خصوصی صفحہ نعتیہ ادب کے لیے مختص کرنا چاہتا ہے،آپ اس کے لیے کوئی نام تجویز کردیں۔ الحمد للہ! اسی وقت یہ طے ہوا کہ ’’نعت کائنات‘‘ کے عنوان سے ایک صفحہ مختص کیا جائے گا جو ادبی صفحات میں ایک جداگانہ تشخص اور تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہے گا۔ اب اس صفحے پر ڈاکٹر عزیز احسن اور منظر عارفی سمیت دیگر نعت شناسوں کے مضامین اورمختلف شہروں میں منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں کی رپورٹیں قارئین کی دلچسپی کاباعث بنی ہوئی ہیں۔  
ڈاکٹر عزیزاحسن( ڈائرکٹر نعت ریسرچ سینٹر) کو سنڈے میگزین، روزنامہ جسارت، کراچی کے میگزین اڈیٹر جناب اجمل سراج نے متعدد بار دعوت دے کر ان سے نعتیہ ادب پر کئی مقالات لکھوائے جو میگزین کے ادبی حصے کی زینت بنتے رہے۔ مقالات کا یہ سلسلہ جلد ہی مقبولیت کی بلندیوں کوچھونے لگا ۔تب اجمل سراج ایک دن نعت ریسرچ سینٹر کے دفتر تشریف لائے اور بڑے خلوص سے یہ تجویز میرے سامنے رکھی کہ جسارت سنڈے میگزین اب اپنا ایک خصوصی صفحہ نعتیہ ادب کے لیے مختص کرنا چاہتا ہے،آپ اس کے لیے کوئی نام تجویز کردیں۔ الحمد للہ! اسی وقت یہ طے ہوا کہ ’’نعت کائنات‘‘ کے عنوان سے ایک صفحہ مختص کیا جائے گا جو ادبی صفحات میں ایک جداگانہ تشخص اور تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہے گا۔ اب اس صفحے پر ڈاکٹر عزیز احسن اور منظر عارفی سمیت دیگر نعت شناسوں کے مضامین اورمختلف شہروں میں منعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں کی رپورٹیں قارئین کی دلچسپی کاباعث بنی ہوئی ہیں۔  


جسارت سنڈے میگزین کی اس کاوش کواسلامی ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک بڑے حلقے نے بالخصوص اور ادبی حلقوں نے بالعموم اپنی پسندیدگی سے نوازا اور اسے مدح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ذریعے ایک خوبصورت اسلامی معاشرے کی تشکیل کی کوششوں کا حصہ بھی قرار دیا۔ہم ’’نعت کائنات‘‘ کی کامیاب اشاعتوں پر جناب [[اجمل سراج]] اور ان کے ادارے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا!
جسارت سنڈے میگزین کی اس کاوش کواسلامی ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک بڑے حلقے نے بالخصوص اور ادبی حلقوں نے بالعموم اپنی پسندیدگی سے نوازا اور اسے مدح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ذریعے ایک خوبصورت اسلامی معاشرے کی تشکیل کی کوششوں کا حصہ بھی قرار دیا۔ہم ’’نعت کائنات‘‘ کی کامیاب اشاعتوں پر جناب اجمل سراج اور ان کے ادارے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا!


==== سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد کا نعت نمبر ====
==== سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد کا نعت نمبر ====


اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد، ایک سرکاری ادارہ ہے جو پاکستان کی قومی اور علاقائی زبانوں کے ادب اور ادیبوں پر مختلف حوالوں سے کام کرتا رہتا ہے۔ سہ ماہی ادبیات ، اسی ادارے کے تحت شائع ہونے والا ایک ادبی جریدہ ہے۔ مقامِ شکرہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس ادارے کی توجہ نعتیہ ادب کی جانب بھی مبذول ہوئی ۔ ادبیات کا شمارہ 101، [[جنوری تا جون]] [[2014]] نعت نمبر کی صورت میں منصہء شہود پر آیا۔ ہم اس ضمن میں اکادمی ادبیات پاکستان اور سہ ماہی ادبیات کی مجلسِ ادارت کو اس اہم پیش رفت پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ادارہ ادبیاتِ پاکستان‘ مستقبل میں نعتیہ ادب کے فروغ میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے نعت نمبروں کے ساتھ اور نعتیہ شاعری کے جامع انتخاب کی اشاعتوں کے اہتمام کی طرف بھی توجہ کرے گا۔
اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد، ایک سرکاری ادارہ ہے جو پاکستان کی قومی اور علاقائی زبانوں کے ادب اور ادیبوں پر مختلف حوالوں سے کام کرتا رہتا ہے۔ سہ ماہی ادبیات ، اسی ادارے کے تحت شائع ہونے والا ایک ادبی جریدہ ہے۔ مقامِ شکرہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس ادارے کی توجہ نعتیہ ادب کی جانب بھی مبذول ہوئی ۔ ادبیات کا شمارہ ۱۰۱، جنوری تا جون ۲۰۱۴ ء نعت نمبر کی صورت میں منصہء شہود پر آیا۔ ہم اس ضمن میں اکادمی ادبیات پاکستان اور سہ ماہی ادبیات کی مجلسِ ادارت کو اس اہم پیش رفت پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ادارہ ادبیاتِ پاکستان‘ مستقبل میں نعتیہ ادب کے فروغ میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے نعت نمبروں کے ساتھ اور نعتیہ شاعری کے جامع انتخاب کی اشاعتوں کے اہتمام کی طرف بھی توجہ کرے گا۔  


==== نئے دکھ ====
==== نئے دکھ ====
سطر 63: سطر 64:


پھرتا ہوں کشتیوں میں سمندر لیے ہوئے <ref> ذوقی مظفر نگری </ref>
پھرتا ہوں کشتیوں میں سمندر لیے ہوئے <ref> ذوقی مظفر نگری </ref>


ایسی حالت میں حواس پرقابو رکھنا اورکچھ لکھنا کہاں ممکن رہتا ہے! مگر میری خواہش صرف یہ ہوتی ہے کہ اسم محمدصلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کے سائبان میں زندگی گزارنے والے ان خوش نصیبوں کا کچھ نہ کچھ تذکرہ مدح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی اس عصری دستاویز میں محفوظ ہوجائے ۔یہ ہماری تہذیبی ضرورت ہے ورنہ ان کے غلاموں کو ہمارے تذکرے کی ضرورت نہیں وہ جس ذکر سے رشتہ قائم کرچکے ہیں وہ ذکر ہی ان کی دائمی زندگی کی ضمانت فراہم کرتاہے بقول شاہ انصارالہٰ بادی ع  
ایسی حالت میں حواس پرقابو رکھنا اورکچھ لکھنا کہاں ممکن رہتا ہے! مگر میری خواہش صرف یہ ہوتی ہے کہ اسم محمدصلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کے سائبان میں زندگی گزارنے والے ان خوش نصیبوں کا کچھ نہ کچھ تذکرہ مدح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی اس عصری دستاویز میں محفوظ ہوجائے ۔یہ ہماری تہذیبی ضرورت ہے ورنہ ان کے غلاموں کو ہمارے تذکرے کی ضرورت نہیں وہ جس ذکر سے رشتہ قائم کرچکے ہیں وہ ذکر ہی ان کی دائمی زندگی کی ضمانت فراہم کرتاہے بقول شاہ انصارالہٰ بادی ع  
سطر 70: سطر 72:
===== شفیق احمد فاروقی المدنی (مرحوم ) =====  
===== شفیق احمد فاروقی المدنی (مرحوم ) =====  


ممتاز ومحترم روحانی پیشوا اورخوبصورت نعت گو شاعر[[قاضی شفیق احمد فاروقی]] کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ناظم آباد میں خانقاہ گلزار سعیدیہ ان کا اوران کے سلسلے کا باعظمت نشان ہے ہم ایک ہی شہر کے باسی تھے مگر عجیب بات یہ ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات دیارِحبیب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں ہوئی میرے ایک محترم دوست ریاض احمد جو بن لادن کمپنی میں بحیثیت سول انجنئیرعرصہ 35 سال سے ملازمت کررہے ہیں اورمکہ المکرمہ میں مقیم ہیں اورتعمیرات حرمین شریفین میں تکنیکی معاونت فراہم کرنے پر مامور ہیں انہوں نے کئی بار شفیق احمد فاروقی صاحب کا ذکر کیا اورملاقات کے لیے دعوت دی چند برس پیشتر جب میں بغرض ملازمت جدہ منتقل ہوا تویہ مرحلہ بھی ان کی رفاقت ہی میں طے ہوا اورہم دونوں ایک دن شفیق صاحب سے ملنے گئے جو [[:زمرہ:مدینہ منورہ | مدینہ طبیہ]] میں مقیم تھے۔شفیق صاحب کو میں نے اسم بامسمٰی پایا۔شفقت ،دل جوئی اورمہمان نوازی ان کی شخصیت کے ایسے عناصر تھے جو ان سے ملنے والے اشخاص پرچند ہی لمحوں میں واضح ہوکر ایک دائمی نقش قائم کرلیتے تھے اس ملاقات کے بعد ان سے ایک ایساتعلق خاطر پیداہواجوان کی زندگی تک قائم رہا اکثر فون پربات ہوتی وہ اپنے نعتیہ اشعار سناتے اورکئی بار بذریعہ برقی ڈاک اپنا کلام ارسال کرتے جواباً جب میں انہیں فون یاملاقات پران کلاموں کے حوالے سے اپنے تاثرات سے آگاہ کرتا تو وہ دعاؤں سے نوازتے ۔ [[نعت رنگ]] ، میاں محمد طبیب، اوران کے محبوب خلیفہ اور[[نعت ریسرچ سنٹر، کراچی | نعت ریسرچ سینٹر، ]] کے ڈائریکٹر [[ڈاکٹر عزیز احسن]] اکثرہماری گفتگو کے مشترکہ موضوعات میں ہوتے۔شفیق صاحب کی شخصیت کا سب سے نمایاں رنگ عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کا رنگ تھا جو انہیں [[:زمرہ: کراچی |کراچی]] سے اٹھاکر [[:زمرہ:مدینہ منورہ | مدینہ طبیہ]]  لے آیا تھا مجھے ایسے کئی بزرگوں کی صحبت نصیب رہی ہے جو دنیا کے مختلف حصوں سے اٹھ کر [[:زمرہ:مدینہ منورہ | مدینہ طبیہ]] میں آگئے کہ انہیں اس عارضی زندگی کے بعد دائمی زندگی کا ہر لمحہ حضور علیہ الصواۃ السلام کے قدمین میں نصیب ہو۔شفیق صاحب کو بھی میں نے انھی کیفیتوں اوراسی جستجو میں دیکھا بقیع میں آباد ہونے کی حسرت ان کی زندگی کا سرنامہ اوران کے کلام کی نمایاں خصوصیت تھی۔
ممتاز ومحترم روحانی پیشوا اورخوبصورت نعت گو شاعرقاضی شفیق احمد فاروقی کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ناظم آباد میں خانقاہ گلزار سعیدیہ ان کا اوران کے سلسلے کا باعظمت نشان ہے ہم ایک ہی شہر کے باسی تھے مگر عجیب بات یہ ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات دیارِحبیب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں ہوئی میرے ایک محترم دوست ریاض احمد جو بن لادن کمپنی میں بحیثیت سول انجنئیرعرصہ 35 سال سے ملازمت کررہے ہیں اورمکہ المکرمہ میں مقیم ہیں اورتعمیرات حرمین شریفین میں تکنیکی معاونت فراہم کرنے پر مامور ہیں انہوں نے کئی بار شفیق احمد فاروقی صاحب کا ذکر کیا اورملاقات کے لیے دعوت دی چند برس پیشتر جب میں بغرض ملازمت جدہ منتقل ہوا تویہ مرحلہ بھی ان کی رفاقت ہی میں طے ہوا اورہم دونوں ایک دن شفیق صاحب سے ملنے گئے جو مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔شفیق صاحب کو میں نے اسم بامسمٰی پایا۔شفقت ،دل جوئی اورمہمان نوازی ان کی شخصیت کے ایسے عناصر تھے جو ان سے ملنے والے اشخاص پرچند ہی لمحوں میں واضح ہوکر ایک دائمی نقش قائم کرلیتے تھے اس ملاقات کے بعد ان سے ایک ایساتعلق خاطر پیداہواجوان کی زندگی تک قائم رہا اکثر فون پربات ہوتی وہ اپنے نعتیہ اشعار سناتے اورکئی بار بذریعہ برقی ڈاک اپنا کلام ارسال کرتے جواباً جب میں انہیں فون یاملاقات پران کلاموں کے حوالے سے اپنے تاثرات سے آگاہ کرتا تو وہ دعاؤں سے نوازتے ۔ نعت رنگ ، میاں محمد طبیب، اوران کے محبوب خلیفہ اورنعت ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عزیز احسن اکثرہماری گفتگو کے مشترکہ موضوعات میں ہوتے۔شفیق صاحب کی شخصیت کا سب سے نمایاں رنگ عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کا رنگ تھا جو انہیں کراچی سے اٹھاکر مدینہ طیبہ لے آیا تھا مجھے ایسے کئی بزرگوں کی صحبت نصیب رہی ہے جو دنیا کے مختلف حصوں سے اٹھ کر مدینہ طیبہ میں آگئے کہ انہیں اس عارضی زندگی کے بعد دائمی زندگی کا ہر لمحہ حضور علیہ الصواۃ السلام کے قدمین میں نصیب ہو۔شفیق صاحب کو بھی میں نے انھی کیفیتوں اوراسی جستجو میں دیکھا بقیع میں آباد ہونے کی حسرت ان کی زندگی کا سرنامہ اوران کے کلام کی نمایاں خصوصیت تھی۔


تمنا دل میں رکھتے ہیں کہ موت آئے مدینے میں
تمنا دل میں رکھتے ہیں کہ موت آئے مدینے میں
سطر 80: سطر 82:
رہے جاری کرم پیہم تمنا دل میں رکھتے ہیں  
رہے جاری کرم پیہم تمنا دل میں رکھتے ہیں  


بالآخراس منزل تمنا کو انہوں نے اگست [[2014]] میں پالیا اوربقیع آباد ہوئے(انااللہ وان الہٰ راجعون) ان کے صاحبزادے ضیاء فاروقی صاحب نے جب مجھے یہ خبر دی تو میرے ذہن میں ان کی خوش بختی کے حوالے سے نعت کایہ شعر تازہ ہوگیا۔
بالآخراس منزل تمنا کو انہوں نے اگست [[2014]] میں پالیا اوربقیع میںآباد ہوئے(انااللہ وان الہٰ راجعون) ان کے صاحبزادے ضیاء فاروقی صاحب نے جب مجھے یہ خبر دی تو میرے ذہن میں ان کی خوش بختی کے حوالے سے نعت کایہ شعر تازہ ہوگیا۔


شکر صدشکر کے موت آئی در آقا پر  
شکر صدشکر کے موت آئی در آقا پر  


اب مدینے سے کہیں جانے کا امکان گیا
اب مدینے سے کہیں جانے کا امکان گیا  


=====  کیف رضوانی(مرحوم) =====  
=====  کیف رضوانی(مرحوم) =====  
سطر 92: سطر 94:
انساں وہی ہے جس کو غم کائنات ہے
انساں وہی ہے جس کو غم کائنات ہے


اس خوبصورت شعر کے خالق اورممتاز مزاح نگار [[کیف رضوانی]] [[28 ستمبر]] [[2014]]  کو کراچی میں وفات پاگئے(انااللہ وان الہٰ راجعون) ان کا اصل نام سید فخر الحسن تھا ان کے کالموں کا مجموعہ ’’کاناپھوسی‘‘ اورشعری مجموعہ’’ سحر گذیدہ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکاتھا وہ اشتہار سازی کے ادارے سے منسلک رہے ۔کئی فلموں کے نغمات بھی کیف رضوانی کی شہرت کا ذریعہ بنے اور مزاح نگاری میں بھی ان کانام خاصا نمایاں رہا مگر مجھے یہ کیف رضوانی ایک درویشانہ رنگ میں ملے جس کا نقش اب تک میرے ذہن پر قائم ہے ایک محفل نعت کے اختتام پرایک بزرگ مجھ سے ملے ۔روشن نورانی چہرہ جس پرخوبصورت ریش مبارک اپنی بہار دکھارہی تھی متانت وجاہت اورگہری سنجیدگی ان کی شخصیت کے حسن کو مزید نمایا ں کررہی تھی میر ے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت دھیمے اوراپنائیت بھرے لہجے میں بولے میرانام کیف رضوانی ہے اورپھر ایک لفافہ تھماتے ہوئے بولے اس میں میری ایک نعت ہے جو میں نے آپ کے ایک کلام سے متاثرہوکر لکھی ہے آپ کے لیے لایا تھا ۔میں نے شکریہ کا اظہار کیا اور وہ لفافہ لے لیا پھر چند لمحوں میں کیف صاحب حاضرین کے ہجوم میں کہیں گم ہوگئے بعدازاں ان کا مجموعہ کلام دیکھنے کا موقع ملا تو مجھے اندازہ ہواکہ ان کی شاعری کا ہرپہلو اورہرموضوع اس امر کا مظہر تھا کہ وہ اپنے گرد وپیش کی سیاسی ،سماجی اوراس میں سانس لینے والی اجتماعی زندگی کے بناض وترجمان ہیں ان کی عطاکردہ نعت نے بھی مجھے روحانی سرشاریوں سے ہم کنار کیا۔ انہوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے شدید اورسچے جذبے کوشعری معیارات کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے چند شعر آپ بھی ملا حظہ فرمائیے اوران کے لیے دعائے مغفرت میں میرے ہمنوا بن جاےئے۔
اس خوبصورت شعر کے خالق اورممتاز مزاح نگار کیف رضوانی [[28 ستمبر]] [[2014]]  کو کراچی میں وفات پاگئے(انااللہ وان الہٰ راجعون) ان کا اصل نام سید فخر الحسن تھا ان کے کالموں کا مجموعہ ’’کاناپھوسی‘‘ اورشعری مجموعہ’’ سحر گذیدہ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکاتھا وہ اشتہار سازی کے ادارے سے منسلک رہے ۔کئی فلموں کے نغمات بھی کیف رضوانی کی شہرت کا ذریعہ بنے اور مزاح نگاری میں بھی ان کانام خاصا نمایاں رہا مگر مجھے یہ کیف رضوانی ایک درویشانہ رنگ میں ملے جس کا نقش اب تک میرے ذہن پر قائم ہے ایک محفل نعت کے اختتام پرایک بزرگ مجھ سے ملے ۔روشن نورانی چہرہ جس پرخوبصورت ریش مبارک اپنی بہار دکھارہی تھی متانت وجاہت اورگہری سنجیدگی ان کی شخصیت کے حسن کو مزید نمایا ں کررہی تھی میر ے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت دھیمے اوراپنائیت بھرے لہجے میں بولے میرانام کیف رضوانی ہے اورپھر ایک لفافہ تھماتے ہوئے بولے اس میں میری ایک نعت ہے جو میں نے آپ کے ایک کلام سے متاثرہوکر لکھی ہے آپ کے لیے لایا تھا ۔میں نے شکریہ کا اظہار کیا اور وہ لفافہ لے لیا پھر چند لمحوں میں کیف صاحب حاضرین کے ہجوم میں کہیں گم ہوگئے بعدازاں ان کا مجموعہ کلام دیکھنے کا موقع ملا تو مجھے اندازہ ہواکہ ان کی شاعری کا ہرپہلو اورہرموضوع اس امر کا مظہر تھا کہ وہ اپنے گرد وپیش کی سیاسی ،سماجی اوراس میں سانس لینے والی اجتماعی زندگی کے بناض وترجمان ہیں ان کی عطاکردہ نعت نے بھی مجھے روحانی سرشاریوں سے ہم کنار کیا۔ انہوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے شدید اورسچے جذبے کوشعری معیارات کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے چند شعر آپ بھی ملا حظہ فرمائیے اوران کے لیے دعائے مغفرت میں میرے ہمنوا بن جاےئے۔


تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں
تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں
سطر 113: سطر 115:


===== پروفیسرڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج (مرحوم) =====
===== پروفیسرڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج (مرحوم) =====


پروفیسرڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج [[1960]] میں کراچی میں پیداہوئے ۔حفظ قرآن ،قانون ،صحافت اور مطالعات اسلامی میں تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قرآن مجید کے آٹھ منتخب تراجم کواپنی تحقیق کا موضوع بناکرپی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔قرآن فہمی ان کے ذوق اورشوق کا محور رہی ۔ سو (100)کے قریب تحقیقی مقالات اورپندرہ چھوٹی بڑی فکر انگیز کتابیں ان کا تحریری اورعلمی اثاثہ ہیں۔التفسیر کے نام سے ایک خالص علمی و تحقیقی جریدہ بھی نکالتے رہے ۔جامعہ کراچی کے شعبۂ مطالعات اسلامی کے صدر شعبۂ ڈین اورسیرت چئیر کے ڈائریکٹر تھے ۔ایک متحرک ، فعال اوروسیع النظر اوروسیع القلب شخصیت جس نے کراچی کے خون آشام ماحول میں ظلم تعصب تفرقہ بازی اور جہل کی تاریکی کو علم کے چراغوں سے کم کرنے کے کوشش میں اپنی زندگی صرف کی بالآخر[[18 ستمبر]] [[2014]] کو اس جہاد میں جام شہادت نوش کرکے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔ (انااللہ وان الہٰ راجعون) موصوف کو شاعری سے بھی شغف رہا۔چند نعتیں بھی ان کے سرمای�ۂ علمی سے فراہم ہوئی ہیں ان کی ایک نعت [[2012]] میں نعت رنگ شمارہ 23 کی زینت بنی جوان کے نصیب العین جذبہ عمل اورعشق کا اعلامیہ تھی اس میں سے چنداشعار ملاحظہ ہوں:
پروفیسرڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج [[1960]] میں کراچی میں پیداہوئے ۔حفظ قرآن ،قانون ،صحافت اور مطالعات اسلامی میں تعلیمی اسناد حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قرآن مجید کے آٹھ منتخب تراجم کواپنی تحقیق کا موضوع بناکرپی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔قرآن فہمی ان کے ذوق اورشوق کا محور رہی ۔ سو (100)کے قریب تحقیقی مقالات اورپندرہ چھوٹی بڑی فکر انگیز کتابیں ان کا تحریری اورعلمی اثاثہ ہیں۔التفسیر کے نام سے ایک خالص علمی و تحقیقی جریدہ بھی نکالتے رہے ۔جامعہ کراچی کے شعبۂ مطالعات اسلامی کے صدر شعبۂ ڈین اورسیرت چئیر کے ڈائریکٹر تھے ۔ایک متحرک ، فعال اوروسیع النظر اوروسیع القلب شخصیت جس نے کراچی کے خون آشام ماحول میں ظلم تعصب تفرقہ بازی اور جہل کی تاریکی کو علم کے چراغوں سے کم کرنے کے کوشش میں اپنی زندگی صرف کی بالآخر[[18 ستمبر]] [[2014]] کو اس جہاد میں جام شہادت نوش کرکے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔ (انااللہ وان الہٰ راجعون) موصوف کو شاعری سے بھی شغف رہا۔چند نعتیں بھی ان کے سرمای�ۂ علمی سے فراہم ہوئی ہیں ان کی ایک نعت [[2012]] میں نعت رنگ شمارہ 23 کی زینت بنی جوان کے نصیب العین جذبہ عمل اورعشق کا اعلامیہ تھی اس میں سے چنداشعار ملاحظہ ہوں:
سطر 218: سطر 221:
صابر شاہ بخاری نے ماہ نامہ نعت کے شمارہ [[12 دسمبر]]  [[1994]] ،ضلع اٹک کے نعت گو شعرا میں ان کی درج ذیل غیر مطبوعہ کتب کا ذکرکیاہے کاش یہ سرمایہ جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر محفوظ ہوسکے:
صابر شاہ بخاری نے ماہ نامہ نعت کے شمارہ [[12 دسمبر]]  [[1994]] ،ضلع اٹک کے نعت گو شعرا میں ان کی درج ذیل غیر مطبوعہ کتب کا ذکرکیاہے کاش یہ سرمایہ جلد زیور طبع سے آراستہ ہوکر محفوظ ہوسکے:


(۱) علایق بخشش (نعتیہ کلام)
(۱)
علایق بخشش (نعتیہ کلام)


(۲) چادر بخشش (نعتیہ کلام )
(۲)
چادر بخشش (نعتیہ کلام )


(۳) مضراب (غزلیات)
(۳)
مضراب (غزلیات)


(۴) آوازہ حق(سیاسی نظمیں )
(۴)
آوازہ حق(سیاسی نظمیں )


(۵) تاریخ راج (کتب ورسائل پرتاریخی قطعات)
(۵)
تاریخ راج (کتب ورسائل پرتاریخی قطعات)


(۶) ربابِ تاریخ(ممتاز علما مشائخ کرام کے وصال پر قطعات )  
(۶)
ربابِ تاریخ(ممتاز علما مشائخ کرام کے وصال پر قطعات )  


(۷) خیابان عقیدت (مناقب)
(۷)
خیابان عقیدت (مناقب)


(۸) چادر رحمت (قصیدہ بردہ شریف کا منظوم اردو ترجمہ)
(۸)
چادر رحمت (قصیدہ بردہ شریف کا منظوم اردو ترجمہ)


[[18 اپریل]] [[2015]]  کو یہ اہم نعت نگار اس جہانِ فانی سے اس یقین کے ساتھ کوچ کرگیا۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)
[[18 اپریل]] [[2015]]  کو یہ اہم نعت نگار اس جہانِ فانی سے اس یقین کے ساتھ کوچ کرگیا۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)
سطر 244: سطر 255:
مولانا رجب علی خان نعیمی المتخلص نصرت نعیمی ایک مستند عالم دین ،شعلہ نواخطیب خوش فکر نعت گو اورخوش آواز نعت خواں تھے ۔مولانا کی پیدائش [[15 مئی]] [[1946]]  کو کراچی میں ہوئی ان کے اجداد کا مسکن اجمیر شریف تھا مولانا ابتدا میں بطور نعت خواں محافلِ نعت میں شرکت کرتے رہے مگر جب علما کی صحبت میسر آئی توعلم دین سیکھنے کا شوق دامن گیر ہوا اورآپ نے جامع مسجد اللہ والی لائنز ایریا میں دارالعلوم قادریہ نعیمیہ میں داخلہ لیا اور [[1974]]  میں سند حاصل کی ۔مولانا کی مقبولیت اورتعارف کا دائرہ نعت خوانی کی وجہ سے شروع ہی میں خاصا وسیع ہوچکا تھا کیونکہ وہ بیک وقت عربی،فارسی ،پنجابی ،گجراتی اوراردو میں نعت پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے مگرجب بحیثیت عالم دین انہوں نے جوشِ خطابت کے جوہر دکھانے شروع کیے توانہیں اہلسنت والجماعت کے اکابر علما کی محبتیں اورسرپرستی بھی حاصل ہوئی اور یہیں سے مولانا کی تبلیغی اورسیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔انہیں علامہ شاہ احمد نوارنی ،علامہ شاہ فرید الحق سمیت دیگر جدیدعلما کی قربت اوررفاقت نے مزید مستعد اورفعال کیا اوریوں مولانا عقیدہ وعقیدت کے تحفظ کے لیے ان اکابر علما کے ساتھ مصروف عمل رہے نعت سے مولانا کے شغفِ نعت نے انہیں نعت خوانی سے نعت گوئی تک کا سفرکروایا جب ان کا مجموعہ کلام ’’سعادت کے موتی [[1994]] میں زیور طبع سے آراستہ ہواتو مجھ سمیت کئی احباب خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے زبان وبیان کے ساتھ شائستگی اور تخلیقی شعور نے ان کے کلام میں عشق بنی کریم ؐ کی روشنی کو مزید نمایاں کردیا تھا۔مولانا شاعری میں افسر صابری کے شاگرد تھے [[22 فروری]] [[2015]]  کو یہ اہم عالم دین اور باشعور نعت نگار نہایت خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا میں ملک سے باہر تھا واپس آیا تویہ خبر جناب منظر عارفی کی وساطت سے مجھ تک پہنچی ۔نہ کسی اخبار میں کوئی خبر دیکھی نہ اہل سنت والجماعت کے حلقوں میں کوئی نمایاں ذکر سامنے آیا۔ افسوس کہ اپنے درمیان زندگی کی علامت بن کررہنے والے لوگوں کو ہم کتنی جلدی فراموش کردیتے ہیں آئیں مولانا کے کچھ نعتیہ اشعار پڑھ کر ان کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہیں:
مولانا رجب علی خان نعیمی المتخلص نصرت نعیمی ایک مستند عالم دین ،شعلہ نواخطیب خوش فکر نعت گو اورخوش آواز نعت خواں تھے ۔مولانا کی پیدائش [[15 مئی]] [[1946]]  کو کراچی میں ہوئی ان کے اجداد کا مسکن اجمیر شریف تھا مولانا ابتدا میں بطور نعت خواں محافلِ نعت میں شرکت کرتے رہے مگر جب علما کی صحبت میسر آئی توعلم دین سیکھنے کا شوق دامن گیر ہوا اورآپ نے جامع مسجد اللہ والی لائنز ایریا میں دارالعلوم قادریہ نعیمیہ میں داخلہ لیا اور [[1974]]  میں سند حاصل کی ۔مولانا کی مقبولیت اورتعارف کا دائرہ نعت خوانی کی وجہ سے شروع ہی میں خاصا وسیع ہوچکا تھا کیونکہ وہ بیک وقت عربی،فارسی ،پنجابی ،گجراتی اوراردو میں نعت پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے مگرجب بحیثیت عالم دین انہوں نے جوشِ خطابت کے جوہر دکھانے شروع کیے توانہیں اہلسنت والجماعت کے اکابر علما کی محبتیں اورسرپرستی بھی حاصل ہوئی اور یہیں سے مولانا کی تبلیغی اورسیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔انہیں علامہ شاہ احمد نوارنی ،علامہ شاہ فرید الحق سمیت دیگر جدیدعلما کی قربت اوررفاقت نے مزید مستعد اورفعال کیا اوریوں مولانا عقیدہ وعقیدت کے تحفظ کے لیے ان اکابر علما کے ساتھ مصروف عمل رہے نعت سے مولانا کے شغفِ نعت نے انہیں نعت خوانی سے نعت گوئی تک کا سفرکروایا جب ان کا مجموعہ کلام ’’سعادت کے موتی [[1994]] میں زیور طبع سے آراستہ ہواتو مجھ سمیت کئی احباب خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے زبان وبیان کے ساتھ شائستگی اور تخلیقی شعور نے ان کے کلام میں عشق بنی کریم ؐ کی روشنی کو مزید نمایاں کردیا تھا۔مولانا شاعری میں افسر صابری کے شاگرد تھے [[22 فروری]] [[2015]]  کو یہ اہم عالم دین اور باشعور نعت نگار نہایت خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا میں ملک سے باہر تھا واپس آیا تویہ خبر جناب منظر عارفی کی وساطت سے مجھ تک پہنچی ۔نہ کسی اخبار میں کوئی خبر دیکھی نہ اہل سنت والجماعت کے حلقوں میں کوئی نمایاں ذکر سامنے آیا۔ افسوس کہ اپنے درمیان زندگی کی علامت بن کررہنے والے لوگوں کو ہم کتنی جلدی فراموش کردیتے ہیں آئیں مولانا کے کچھ نعتیہ اشعار پڑھ کر ان کے لیے دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہیں:


جب لیا نام مصطفی میں نے            
جب لیا نام مصطفی میں نے
 
پا لیا دل کا مدعا میں نے  
پا لیا دل کا مدعا میں نے  


زندگی کو قریب سے دیکھا                  
زندگی کو قریب سے دیکھا


آپ کو یاد جب کیا میں نے  
آپ کو یاد جب کیا میں نے  


ہوگئیں ساری مشکلیں آسان            
ہوگئیں ساری مشکلیں آسان


یانبی دل سے جب کہا میں نے  
یانبی دل سے جب کہا میں نے  


توشۂ یادِ مصطفی کے سوا                
توشۂ یادِ مصطفی کے سوا  


کچھ نہ زادِ سفر لیا میں  
کچھ نہ زادِ سفر لیا میں  


شافعِ روزِ حشر کے صدقے                
شافعِ روزِ حشر کے صدقے


بخشوائی ہے ہر خطا میں نے  
بخشوائی ہے ہر خطا میں نے  


دامن شاہِ دیں میں اے نصرت        
دامن شاہِ دیں میں اے نصرت


رحمتِ حق کو پا لیا میں نے
رحمتِ حق کو پا لیا میں نے
سطر 272: سطر 283:
پچھلے دنوں ہم سے بچھڑنے والوں میں بعض اہم نعت خواں حضرات بھی شامل ہیں جوایک طویل مدت تک اپنی مترنم آوازوں میں ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی خوشبو سے ہمارے معاشرے کو معطر کرتے رہے ان کاعشق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلمکی تبلیغ میں ثناخوانی کے ذریعے مصروف رہنا ان کی محبوبیت اورمقبولیت کاسبب رہاایسے محترم ثناخوانوں میں سید اوصاف علی شاہ [[6 اگست]] [[ 2014]]  کولاہور میں ،حافظ محمد حسین کسووال [[12اپریل]] [[2015]]  کو کسووال میں،معروف نعت گو اورنعت خواں عبدلستار نیازیؒ کے بڑے صاحبزادے اورمعروف ثناخواں محمد شاہد نیازی یکم/مئی [[2015]]  کولاہور میں جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے سنئیر ثناخواں مجیب الرحمن صدیقی [[12فروری]] [[2015]]  کوکراچی میں انتقال فرماگئے ۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)دم تحریر ان تمام ثناخوانوں کی آوازوں میں ان کے مختلف نعتیہ کلاموں کی بازگشت میری سماعت کوآسودہ کررہی ہے مگر مجیب الرحمن صدیقی کی پڑھی ہوئی منوربدایونی کی اس نعت کی صدا ان میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
پچھلے دنوں ہم سے بچھڑنے والوں میں بعض اہم نعت خواں حضرات بھی شامل ہیں جوایک طویل مدت تک اپنی مترنم آوازوں میں ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کی خوشبو سے ہمارے معاشرے کو معطر کرتے رہے ان کاعشق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلمکی تبلیغ میں ثناخوانی کے ذریعے مصروف رہنا ان کی محبوبیت اورمقبولیت کاسبب رہاایسے محترم ثناخوانوں میں سید اوصاف علی شاہ [[6 اگست]] [[ 2014]]  کولاہور میں ،حافظ محمد حسین کسووال [[12اپریل]] [[2015]]  کو کسووال میں،معروف نعت گو اورنعت خواں عبدلستار نیازیؒ کے بڑے صاحبزادے اورمعروف ثناخواں محمد شاہد نیازی یکم/مئی [[2015]]  کولاہور میں جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے سنئیر ثناخواں مجیب الرحمن صدیقی [[12فروری]] [[2015]]  کوکراچی میں انتقال فرماگئے ۔(انااللہ وان الہٰ راجعون)دم تحریر ان تمام ثناخوانوں کی آوازوں میں ان کے مختلف نعتیہ کلاموں کی بازگشت میری سماعت کوآسودہ کررہی ہے مگر مجیب الرحمن صدیقی کی پڑھی ہوئی منوربدایونی کی اس نعت کی صدا ان میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔


نعتِ محبوب داور سند ہوگئی                              
نعتِ محبوب داور سند ہوگئی
 
فروِعصیاں مری مستند ہوگئی  
فروِعصیاں مری مستند ہوگئی  


مجھ سا عاصی بھی آغوش رحمت میں ہے            
مجھ سا عاصی بھی آغوش رحمت میں ہے  


یہ تو بندہ نوازی کی حد ہوگئی  
یہ تو بندہ نوازی کی حد ہوگئی  


عمربھر میں نے دنیا میں نعتیں پڑھیں                
عمربھر میں نے دنیا میں نعتیں پڑھیں


میری بخشش یہیں مستند ہوگئی  
میری بخشش یہیں مستند ہوگئی  


جو تجلی منور مرے دل میں تھی                        
جو تجلی منور مرے دل میں تھی  


وہ پسِ مرگ شمعِ لحد ہوگئی
وہ پسِ مرگ شمعِ لحد ہوگئی
سطر 290: سطر 301:
رب کریم اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کے ان تما م ثنا خوانوں کی مغفرت فرمائے ۔ آمین۔
رب کریم اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم کے ان تما م ثنا خوانوں کی مغفرت فرمائے ۔ آمین۔


=== مزید دیکھیے ===
==== مزید دیکھیے ===
 


[[نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25]] | [[ نعت رنگ ]] | [[ماہنامہ کاروان نعت لاہور | کاروان ِ نعت ]] | [[ سہ ماہی فروغ نعت | فروغ نعت ]]


=== حواشی و حوالہ جات ===
[[ نعت رنگ ]] | [[ماہنامہ کاروان نعت لاہور | کاروان ِ نعت ]] | [[ سہ ماہی فروغ نعت | فروغ نعت ]]
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)