آپ «نعتِ نبیﷺ کا نعت گو عارف ۔ ڈاکٹر توفیق انصاری احمد» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
{{بسم اللہ }}
نعتِ نبیﷺ کا نعت گو عارف
[[زمرہ: احباب کی نعتیہ شاعری پر تبصرے ]]


وحید القادری عارف کی شاعری پر ایک مضمون
ڈاکٹر توفیق انصاری احمد صاحب
 
از ڈاکٹر توفیق انصاری احمد
 
شکاگو (یو ایس اے)
 
=== نعتِ نبی ﷺ کا نعت گو عارف ===


بِسمِ اللهِ الرَحمٰنِ الرَحیِم۔ الحَمدُ لله۔ الحَمدُ لله رَبِّ العَالَمِین۔ وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الَانبِيَاءِ وَ المُرسَلِین۔
بِسمِ اللهِ الرَحمٰنِ الرَحیِم۔ الحَمدُ لله۔ الحَمدُ لله رَبِّ العَالَمِین۔ وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الَانبِيَاءِ وَ المُرسَلِین۔
سطر 18: سطر 11:
نعت گوئی اک عطیہء خداوندی ہے‘ اور پھر اس عطیہء خداوندی کے طفیل‘ نعت کا کوئی شعر‘ کوئی مصرعہ‘ یا کوئی لفظ بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں قبول ہوجائے تو پھر اس نعت کا کیا کہنا۔ خوش نصیب ہے وہ نعت گو جس نے ایسی مقبول نعت گوئی کی اور اس کو امتیاز نصیب ہوا۔ شاعر ہونا ایک الگ بات ہے‘ مگر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اک اچھا اور مقبول نعت گو شاعر ہونا بڑی بات ہے۔ یہ دولت جس کے حصہ میں آجائے وہ یقیناََدولت مند ہے  ؎
نعت گوئی اک عطیہء خداوندی ہے‘ اور پھر اس عطیہء خداوندی کے طفیل‘ نعت کا کوئی شعر‘ کوئی مصرعہ‘ یا کوئی لفظ بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں قبول ہوجائے تو پھر اس نعت کا کیا کہنا۔ خوش نصیب ہے وہ نعت گو جس نے ایسی مقبول نعت گوئی کی اور اس کو امتیاز نصیب ہوا۔ شاعر ہونا ایک الگ بات ہے‘ مگر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اک اچھا اور مقبول نعت گو شاعر ہونا بڑی بات ہے۔ یہ دولت جس کے حصہ میں آجائے وہ یقیناََدولت مند ہے  ؎


سب کو مل سکتی نہیں نعتِ نبی کی دولت
سب کو مل سکتی نہیں نعتِ نبی کی دولت نعمتِ خاص ہے مدحِ شہہِ ابرار کا شوق
 
نعمتِ خاص ہے مدحِ شہہِ ابرار کا شوق


(علامہ قدرؔ عریضیؒ)
(علامہ قدرؔ عریضیؒ)
سطر 26: سطر 17:
نعتِ نبی ﷺ کے شوق کی ابتداء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شوق ابتداءََ سرزمینِ عرب سے شروع ہوا۔ حضورِ اکرم ﷺ سے متاثر ہوکر عربی شعراء نے آپ ﷺ کی محبت میں نعتیہ اشعار و قصائد لکھے جو عہدِ نبوی ﷺ میں مشہور و مقبول ہوئے۔ مدینہ میں آپ ﷺ کی آمد  کے موقع پر عورتوں اور بچوں نے خوش ہو کر نعتیہ ترانے گائے اور پھر فتحِ مکہ کے موقع پر اسی طرح اللہ کی وحدانیت اور آپ ﷺ کی رسالت کے اعتراف میں حمدیہ و نعتیہ اشعار پڑھے گئے۔ عہدِ رسالت ﷺ میں کئی ایک عربی شعراء نے نعت کے میدان میں طبع آزمائی کی اور اُن کو‘ اُن کے درجات کے مطابق‘ دربارِ رسالتﷺ میں باریابی کا شرف حاصل ہوا۔ مگر ان سب سے بڑھ چڑھ کر حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی  شرف حاصل ہےکہ حضورِ اکرم ﷺ نے آپ کو منبر پر بٹھا کر بنفسِ نفیس خصوصی طور پر آپ کی لکھی ہوئی نعت سماعت فرمائی۔ ایسی خوش نصیبی ‘ شائد ہی کسی نعت گو یا نعت خواں کو نصیب ہوئی ہو۔ حضرتِ حساّن رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم نعت کا راستہ متعین کرتے ہیں  ؎
نعتِ نبی ﷺ کے شوق کی ابتداء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شوق ابتداءََ سرزمینِ عرب سے شروع ہوا۔ حضورِ اکرم ﷺ سے متاثر ہوکر عربی شعراء نے آپ ﷺ کی محبت میں نعتیہ اشعار و قصائد لکھے جو عہدِ نبوی ﷺ میں مشہور و مقبول ہوئے۔ مدینہ میں آپ ﷺ کی آمد  کے موقع پر عورتوں اور بچوں نے خوش ہو کر نعتیہ ترانے گائے اور پھر فتحِ مکہ کے موقع پر اسی طرح اللہ کی وحدانیت اور آپ ﷺ کی رسالت کے اعتراف میں حمدیہ و نعتیہ اشعار پڑھے گئے۔ عہدِ رسالت ﷺ میں کئی ایک عربی شعراء نے نعت کے میدان میں طبع آزمائی کی اور اُن کو‘ اُن کے درجات کے مطابق‘ دربارِ رسالتﷺ میں باریابی کا شرف حاصل ہوا۔ مگر ان سب سے بڑھ چڑھ کر حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی  شرف حاصل ہےکہ حضورِ اکرم ﷺ نے آپ کو منبر پر بٹھا کر بنفسِ نفیس خصوصی طور پر آپ کی لکھی ہوئی نعت سماعت فرمائی۔ ایسی خوش نصیبی ‘ شائد ہی کسی نعت گو یا نعت خواں کو نصیب ہوئی ہو۔ حضرتِ حساّن رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم نعت کا راستہ متعین کرتے ہیں  ؎


رہبر کی رہِ نعت میں گر حاجت ہو
رہبر کی رہِ نعت میں گر حاجت ہو نقشِ قدمِ حضرتِ حسّان بس ہے
 
نقشِ قدمِ حضرتِ حسّان بس ہے


(حضرتِ رضاؔ بریلویؒ)
(حضرتِ رضاؔ بریلویؒ)
سطر 36: سطر 25:
رسالت مآب ﷺ کا نامِ مبارک زبان پر لانے سے پہلے ہزار بار‘ زبان کی صفائی کے ساتھ‘ دل کی پاکیزگی اور خیالات کی ہم آہنگی بہت ضروری ہے تاکہ جو لفظ بھی آپ ﷺ کی شان میں زبان سے نکلے وہ آپ ﷺ کے شایانِ شان ہو۔ ورنہ خموشی بہتر ہے۔ اسی بات کو شاعر نے کیا خوب کہا ہے  ؎
رسالت مآب ﷺ کا نامِ مبارک زبان پر لانے سے پہلے ہزار بار‘ زبان کی صفائی کے ساتھ‘ دل کی پاکیزگی اور خیالات کی ہم آہنگی بہت ضروری ہے تاکہ جو لفظ بھی آپ ﷺ کی شان میں زبان سے نکلے وہ آپ ﷺ کے شایانِ شان ہو۔ ورنہ خموشی بہتر ہے۔ اسی بات کو شاعر نے کیا خوب کہا ہے  ؎


ناواقفِ مقامِ ادب بس خموش رہ
ناواقفِ مقامِ ادب بس خموش رہ تیری زبان اور رسولِ خدا کا نام
 
تیری زبان اور رسولِ خدا کا نام


(شاہد الیافعیؒ)
(شاہد الیافعیؒ)
سطر 44: سطر 31:
نعت در حقیقت اک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں طبع آزمائی کر کے نعت گوئی کا حق ادا کرنا نا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب خود اپنے محبوب ﷺ کی مدحت کی ہے تو پھر کوئی بندہ بھلا کہاں اس کی برابری کر سکتا ہے۔ نعت کی حقیقی معراج بہر صورت اللہ اور اللہ کے محبوب ﷺ کے درمیان مخفی ہے۔ حضرتِ رضاؔ بریلویؒ کیا خوب فرماتے ہیں  ؎
نعت در حقیقت اک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں طبع آزمائی کر کے نعت گوئی کا حق ادا کرنا نا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب خود اپنے محبوب ﷺ کی مدحت کی ہے تو پھر کوئی بندہ بھلا کہاں اس کی برابری کر سکتا ہے۔ نعت کی حقیقی معراج بہر صورت اللہ اور اللہ کے محبوب ﷺ کے درمیان مخفی ہے۔ حضرتِ رضاؔ بریلویؒ کیا خوب فرماتے ہیں  ؎


ائے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مدّاحِ رسول
ائے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مدّاحِ رسول تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی
 
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی


ایک اور مقام پر شاعر حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اعتراف کرتا ہے    ؎
ایک اور مقام پر شاعر حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اعتراف کرتا ہے    ؎


میں نغمہ نعتِ نبی کا  گاؤں‘ زبان ایسی کہاں سے لاؤں
میں نغمہ نعتِ نبی کا  گاؤں‘ زبان ایسی کہاں سے لاؤں سرودِ ذکرِ رسول چھیڑوں‘ میں تان ایسی کہاں سے لاؤں
 
سرودِ ذکرِ رسول چھیڑوں‘ میں تان ایسی کہاں سے لاؤں


یقیناََ حضور رحمت للعالمین ﷺ کی ذاتِ گرامی کا صدقہ ہے کہ نعتِ نبی ﷺ عرب سے ہوتی ہوئی ایران پنہچی‘ ایران سے ہندوستان آئی اور پھر ہندوستان سے سارے عالم میں پھیل گئی۔ اُردو ادب کی نعتیہ شاعری میں نعت گو شعراء نے نئی نئی ترکیبوں کے ساتھ ‘ نئے نئے مضامین باندھے اور سرورِ دوعالم ﷺ سے اپنے عشق و محبت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ نعتیہ اشعار کی صورت میں عقیدت کی سدا بہار خوشبو ہر طرف مہکنے لگی۔
یقیناََ حضور رحمت للعالمین ﷺ کی ذاتِ گرامی کا صدقہ ہے کہ نعتِ نبی ﷺ عرب سے ہوتی ہوئی ایران پنہچی‘ ایران سے ہندوستان آئی اور پھر ہندوستان سے سارے عالم میں پھیل گئی۔ اُردو ادب کی نعتیہ شاعری میں نعت گو شعراء نے نئی نئی ترکیبوں کے ساتھ ‘ نئے نئے مضامین باندھے اور سرورِ دوعالم ﷺ سے اپنے عشق و محبت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ نعتیہ اشعار کی صورت میں عقیدت کی سدا بہار خوشبو ہر طرف مہکنے لگی۔
سطر 64: سطر 47:
جناب سید وحید قادری عارفؔ کو زبان و بیان پر ملکہ حاصل ہے۔ تقریباََ تمام مروّجہ اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ سنبھل کر شعر کہتے ہیں اور بہت عمدہ کہتے ہیں۔ خاندانی اقدارات و ارادات میں آنکھیں کھول کر ملکِ عرب میں عرصہء دراز سے تعیّناتی کے باعث خوش نصیبوں کے زمرہ میں شامل ہو کر ‘ نعتِ نبی ﷺ کو حرزِ جان بنا چکے ہیں۔ آپ کا نعتیہ کلام ’’سرمایہء حیات‘‘ ترتیب و طباعت کے مراحل سے گذر رہا ہے۔ ہر نعت اپنی جگہ جامع و عمدہ ہے۔ نعتیہ کلام سے چند اشعار بطور نمونہء کلام ملاحظہ فرمائیں    ؎
جناب سید وحید قادری عارفؔ کو زبان و بیان پر ملکہ حاصل ہے۔ تقریباََ تمام مروّجہ اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ سنبھل کر شعر کہتے ہیں اور بہت عمدہ کہتے ہیں۔ خاندانی اقدارات و ارادات میں آنکھیں کھول کر ملکِ عرب میں عرصہء دراز سے تعیّناتی کے باعث خوش نصیبوں کے زمرہ میں شامل ہو کر ‘ نعتِ نبی ﷺ کو حرزِ جان بنا چکے ہیں۔ آپ کا نعتیہ کلام ’’سرمایہء حیات‘‘ ترتیب و طباعت کے مراحل سے گذر رہا ہے۔ ہر نعت اپنی جگہ جامع و عمدہ ہے۔ نعتیہ کلام سے چند اشعار بطور نمونہء کلام ملاحظہ فرمائیں    ؎


تسکینِ دلِ مضطر کے لئے بس اُن کا تصور کافی ہے
تسکینِ دلِ مضطر کے لئے بس اُن کا تصور کافی ہے یہ بھی تو ہے اک اندازِ کرم‘ اندازِ کرم کا کیا کہنا
 
یہ بھی تو ہے اک اندازِ کرم‘ اندازِ کرم کا کیا کہنا
 
ہو طلب جتنی یہاں اس سے سوا ملتا ہے
 
کون ہے ایسا سخی‘ اُن کی سخاوت کے سوا


دیدار کے پیاسوں کو دیدار کی حسرت ہے
ہو طلب جتنی یہاں اس سے سوا ملتا ہے کون ہے ایسا سخی‘ اُن کی سخاوت کے سوا


بس اتنی نوازش اب ائے بحرِ کرم کرنا
دیدار کے پیاسوں کو دیدار کی حسرت ہے بس اتنی نوازش اب ائے بحرِ کرم کرنا


کرمِ شاہِ مدینہ کے تصدق عارفؔ
کرمِ شاہِ مدینہ کے تصدق عارفؔ میری قسمت میں یہاں بارہا آنا آیا


میری قسمت میں یہاں بارہا آنا آیا
یہ وہ در ہے جہاں فرطِ ادب سے فرشتے بھی کھڑے ہیں سر جھکا کر


یہ وہ در ہے جہاں فرطِ ادب سے
اُن کا دامن کیا ملا‘ اسرارِ ہستی کھل گئے آدمی کی یوں ہوئی خود سے شناسائی کہ بس


فرشتے بھی کھڑے ہیں سر جھکا کر
مرادیں اپنی پاتے ہیں جہاں پر اصفیاء سارے وہیں شرمندہ شرمندہ پسِ دیوار میں بھی ہوں


اُن کا دامن کیا ملا‘ اسرارِ ہستی کھل گئے
دور ہوں آپ کے قدموں سے یہ سچ ہے آقا میری حالت سے مگر آپ خبردار تو ہیں


آدمی کی یوں ہوئی خود سے شناسائی کہ بس
کسی سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کیسے تھے کہا کہ دیکھ لو قرآن پوچھتے کیا ہو


مرادیں اپنی پاتے ہیں جہاں پر اصفیاء سارے
خوابِ غفلت میں کٹی عمرِ گذشتہ ساری اب مگر ہوش میں آنے کے زمانے آئے
 
وہیں شرمندہ شرمندہ پسِ دیوار میں بھی ہوں
 
دور ہوں آپ کے قدموں سے یہ سچ ہے آقا
 
میری حالت سے مگر آپ خبردار تو ہیں
 
کسی سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کیسے تھے
 
کہا کہ دیکھ لو قرآن پوچھتے کیا ہو
 
خوابِ غفلت میں کٹی عمرِ گذشتہ ساری
 
اب مگر ہوش میں آنے کے زمانے آئے


جنابِ عارف ؔ سلیس زبان میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں جس میں بے ساختگی کا عنصر شامل ہے۔ جگہ جگہ عربی و فارسی تراکیب کا استعمال کلام میں جامعیّت پیدا کرتا ہے۔ ایک ہی مضمون کو الگ الگ انداز سے باندھنے کا سلیقہ قدم قدم نمایاں ہے۔ جی چاہتا ہے کہ بس پڑھیئے اور لطف لیتے جائیے  ؎
جنابِ عارف ؔ سلیس زبان میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں جس میں بے ساختگی کا عنصر شامل ہے۔ جگہ جگہ عربی و فارسی تراکیب کا استعمال کلام میں جامعیّت پیدا کرتا ہے۔ ایک ہی مضمون کو الگ الگ انداز سے باندھنے کا سلیقہ قدم قدم نمایاں ہے۔ جی چاہتا ہے کہ بس پڑھیئے اور لطف لیتے جائیے  ؎


ہمیں نسبت ہماری ٹوٹنے دیتی نہیں عارفؔ
ہمیں نسبت ہماری ٹوٹنے دیتی نہیں عارفؔ بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے
 
بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے
 
جوشِ رحمت اس طرف عصیاں کی کثرت اِس طرف 
 
جب کبھی  سوچا  ندامت  سے  پسینے  سے  چلے
 
مدینہ کھینچ لاتی ہے ہمیں نسبت غلامی کی
 
خدا کی شان ہم کمتر بھی کا والاحسب نکلے
 
بیاں  کرنے  لگا  ہوں  مدحتِ  سرکار  میں  عارف ؔ  
 
عجب اک کیف طاری قلب سے نوکِ زباں تک ہے


مری قسمت مری قسمت ہے عارفؔ
جوشِ رحمت اس طرف عصیاں کی کثرت اِس طرف  جب کبھی  سوچا  ندامت  سے  پسینے  سے  چلے


گذر جو اُن کے در پر ہو رہی ہے
مدینہ کھینچ لاتی ہے ہمیں نسبت غلامی کی خدا کی شان ہم کمتر بھی کا والاحسب نکلے


آپ کے در کے غلاموں کی غلامی مل جائے 
بیاں  کرنے  لگا  ہوں  مدحتِ  سرکار  میں  عارف ؔ   عجب اک کیف طاری قلب سے نوکِ زباں تک ہے


اپنی  اوقات  جو سمجھی  تو  یہی  سمجھی  ہے
مری قسمت مری قسمت ہے عارفؔ     گذر جو اُن کے در پر ہو رہی ہے


کچھ لکھا یا نہ لکھا اس کے سوا کیا عارفؔ
آپ کے در کے غلاموں کی غلامی مل جائے  اپنی  اوقات  جو سمجھی  تو  یہی  سمجھی  ہے


ہے  یہی  اپنا  ہُنر‘  نعتِ نبی لکھی  ہے
کچھ لکھا یا نہ لکھا اس کے سوا کیا عارفؔ ہے  یہی  اپنا  ہُنر‘  نعتِ نبی لکھی  ہے


اگر کسی کو نعتِ نبی ﷺ لکھنے کا ہُنر آجائے  اور وہ ہُنر اُس کا مقدر ہوجائے تو یہ بڑی بات ہے۔ جناب وحید قادری عارفؔ ‘ نہ صرف نام کے عارف ہیں بلکہ وہ نعتِ نبی ﷺ کے نعت گو عارف بھی ہیں کہ اُن کو قُربتِ حرمین کے ساتھ  دولتِ دارین بھی نصیب ہوئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نعتِ نبی ﷺ کے نعت گو عارف نے اپنے نعتیہ کلام کو بجا طور پر ’’سرمایہء حیات‘‘ کا جاوداں نام دے دیا ہے۔
اگر کسی کو نعتِ نبی ﷺ لکھنے کا ہُنر آجائے  اور وہ ہُنر اُس کا مقدر ہوجائے تو یہ بڑی بات ہے۔ جناب وحید قادری عارفؔ ‘ نہ صرف نام کے عارف ہیں بلکہ وہ نعتِ نبی ﷺ کے نعت گو عارف بھی ہیں کہ اُن کو قُربتِ حرمین کے ساتھ  دولتِ دارین بھی نصیب ہوئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نعتِ نبی ﷺ کے نعت گو عارف نے اپنے نعتیہ کلام کو بجا طور پر ’’سرمایہء حیات‘‘ کا جاوداں نام دے دیا ہے۔
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: