آپ «مملکتِ نعت کے فرماں رواامام احمد رضا بریلوی ۔ پروفیسر محمد اکرم رضا، گوجرانولہ» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
{{بسم اللہ }}
[[زمرہ: مضامین و مقالات ]]
از[[ پروفیسر محمد اکرم رضا، گوجرانولہ]]
از[[ پروفیسر محمد اکرم رضا، گوجرانولہ]]


===مملکتِ نعت کے فرماں رواامام احمد رضا بریلوی===
امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو خدا نے جن لازوال علمی و فقہی کمالات، باطنی و نظری خصوصیات اور علمی و ادبی خصائص سے نواز رکھا تھا ان میں سے ایک صفتِ خاص آپ کی منفرد نعت گوئی ہے۔ اگر ایسے اساتذہٴ فکر و فن کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے اس صدی میں ثناے مصطفی کا پرچم لہرانے والوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا تو ان میں یقینا سرِ فہرست حضرتِ فاضل بریلوی کا اِسم گرامی ہوگا کہ جن کی نعت گوئی کا اعتراف اپنوں نے ہی نہیں بلکہ بیگانوں نے بھی کیا ہے۔ بلکہ ان نابغہٴ روزگار ثناگویانِ کوچہٴ مصطفی علیہ التحیة والثناء میں سے بیشتر نے انہیں فنِ نعت کے حوالے سے اہم سخن گویاں قرار دیا ہے۔ آپ کی نعتیہ شاعری کا سورج جب ایک بار چمکا تو پھر اس کی روشنی کبھی بھی ماند نہ پڑسکی بلکہ ہر آنے والے دور کا شاعر جب مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ذہن و فکر کو آمادہ کرتا ہے تو احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام بلاغت سے راہنمائی ضرور حاصل کرتا ہے۔ جب ایشیا کی مساجد سے لے کر یورپ کے اسلامی مراکز تک ہر جگہ    ؂
 
[[احمد رضا خان بریلوی | امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ]] کو خدا نے جن لازوال علمی و فقہی کمالات، باطنی و نظری خصوصیات اور علمی و ادبی خصائص سے نواز رکھا تھا ان میں سے ایک صفتِ خاص آپ کی منفرد [[نعت گوئی]] ہے۔ اگر ایسے اساتذہٴ فکر و فن کی فہرست تیار کی جائے جنہوں نے اس صدی میں ثناے مصطفی کا پرچم لہرانے والوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا تو ان میں یقینا سرِ فہرست [[احمد رضا خان بریلوی | حضرتِ فاضل بریلوی]] کا اِسم گرامی ہوگا کہ جن کی [[نعت گوئی]] کا اعتراف اپنوں نے ہی نہیں بلکہ بیگانوں نے بھی کیا ہے۔ بلکہ ان نابغہٴ روزگار ثناگویانِ کوچہٴ مصطفی علیہ التحیة والثناء میں سے بیشتر نے انہیں فنِ نعت کے حوالے سے اہم سخن گویاں قرار دیا ہے۔ آپ کی [[نعت گوئی | نعتیہ شاعری]] کا سورج جب ایک بار چمکا تو پھر اس کی روشنی کبھی بھی ماند نہ پڑسکی بلکہ ہر آنے والے دور کا شاعر جب مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ذہن و فکر کو آمادہ کرتا ہے تو [[احمد رضا خان بریلوی | | احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ]] کے کلام بلاغت سے راہنمائی ضرور حاصل کرتا ہے۔ جب ایشیا کی مساجد سے لے کر یورپ کے اسلامی مراکز تک ہر جگہ    ؂


مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
سطر 17: سطر 11:
امام احمد رضا بریلوی نے نعت کی شرعی حدود و قیود کا پورا پورا پاس کیا ہے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کی نعت عشق و عقیدت کی حسین داستان ہے۔ ایسی داستان کہ جس کا ایک ایک نقطہ ذوق و شوق کی کیفیات سے بہرہ ور کرتا اور عنایات مصطفوی کا حق دار ٹھہراتا ہے۔ نعت میں عشق و عقیدت کو وہی حیثیت حاصل ہے جو پھول میں خوشبو کو حاصل ہے۔ خوشبو پھول کے باطنی حُسن کو اجاگر کرتی اور اس کی حقیقی پہچان بن جاتی ہے۔ امام احمد رضا بریلوی بہت بڑے عاشق رسول تھے۔ یہی عشق ان کا سرمایہٴ حیات اور یہی ادب و احترام ان کا اثاثہٴ عمل اور روحانی گداز ان کے لیے ذریعہ نجات تھا۔  
امام احمد رضا بریلوی نے نعت کی شرعی حدود و قیود کا پورا پورا پاس کیا ہے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ کی نعت عشق و عقیدت کی حسین داستان ہے۔ ایسی داستان کہ جس کا ایک ایک نقطہ ذوق و شوق کی کیفیات سے بہرہ ور کرتا اور عنایات مصطفوی کا حق دار ٹھہراتا ہے۔ نعت میں عشق و عقیدت کو وہی حیثیت حاصل ہے جو پھول میں خوشبو کو حاصل ہے۔ خوشبو پھول کے باطنی حُسن کو اجاگر کرتی اور اس کی حقیقی پہچان بن جاتی ہے۔ امام احمد رضا بریلوی بہت بڑے عاشق رسول تھے۔ یہی عشق ان کا سرمایہٴ حیات اور یہی ادب و احترام ان کا اثاثہٴ عمل اور روحانی گداز ان کے لیے ذریعہ نجات تھا۔  


[[مضمون آفرینی ]] کو شاعری کی جان کہا جاتا ہے ۔ شاعر جتنا بلند مضمون باندھے گا اس کا کلام اتنا ہی زیادہ مقبولیت عام اور فکری و فنی شوکت کا مقام حاصل کرے گا۔ اعلیٰ حضرت نے نعتِ مصطفی ( صلی اللہ علیہ وسلم) رقم کرتے ہوئے مضامین آفرینی کی سربلندیوں کو چُھوتے ہوئے بھی ادب و احترامِ مصطفی کو فراموش نہیں کیا کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ اس کوچہٴ ارادت و عقیدت میں معمولی سی ٹھوکر بھی انہیں بلند مقام سے نیچے گراسکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے خود [[نعت]] کے تقدس کو ملحوظ رکھا بلکہ دوسرے شعرا کی بھی راہنمائی فرمائی۔ چنانچہ اردو کے بلند پایہ شاعر حضرت اطہر ہاپوری نے ایک نعت لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجی جس کا [[مطلع]] یہ تھا  ؂
مضمون آفرینی کو شاعری کی جان کہا جاتا ہے ۔ شاعر جتنا بلند مضمون باندھے گا اس کا کلام اتنا ہی زیادہ مقبولیت عام اور فکری و فنی شوکت کا مقام حاصل کرے گا۔ اعلیٰ حضرت نے نعتِ مصطفی ( صلی اللہ علیہ وسلم) رقم کرتے ہوئے مضامین آفرینی کی سربلندیوں کو چُھوتے ہوئے بھی ادب و احترامِ مصطفی کو فراموش نہیں کیا کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ اس کوچہٴ ارادت و عقیدت میں معمولی سی ٹھوکر بھی انہیں بلند مقام سے نیچے گراسکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ آپ نے خود نعت کے تقدس کو ملحوظ رکھا بلکہ دوسرے شعرا کی بھی راہنمائی فرمائی۔ چنانچہ اردو کے بلند پایہ شاعر حضرت اطہر ہاپوری نے ایک نعت لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجی جس کا مطلع یہ تھا  ؂


کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
سطر 29: سطر 23:
قدسی کھڑے ہیں عرش معلّٰی کے سامنے
قدسی کھڑے ہیں عرش معلّٰی کے سامنے


[[احمد رضا خان بریلوی | | اعلیٰ حضرت]] کی اس اصلاح سے اطہر ہا پوڑی کی مضمون آفرینی اور رفعتِ تخیل کو چار چاند لگ گئے۔
اعلیٰ حضرت کی اس اصلاح سے اطہر ہا پوڑی کی مضمون آفرینی اور رفعتِ تخیل کو چار چاند لگ گئے۔


[[احمد رضا خان بریلوی | | حضرت احمد رضا خاں]] صفت و ثناے حضور میں اس درجہ محو ہوئے کہ تمام زیست [[نعت]] کے علاوہ کسی اور طرز سخن کی جانب توجہ نہ کی۔ حضور آقائے دو عالم علیہ الصلوٰة والسلام تو سلطانِ اقالیم دو عالم ہیں۔ افتخارِ آدم و بنی آدم ہیں رحمت پناہِ عاصیاں اور چارہٴ بے چار گاں ہیں۔ آپ کا دربار وہ دربارِ معلّٰی ہے جہاں سے گداوٴں کو شہنشاہی اور بوریا نشینوں کو عشق و عقیدت کے نام پر کجھکلاہی عطا ہوتی ہے۔ اس لیے کون چاہے گا کہ ایک بار اس دربارِ معلّٰی سے نسبت حاصل کرکے کسی اور دروازے کی طرف دیکھے یا اپنے دور کے کسی سلطان یا امیر کا قصیدہ کہے۔ [[احمد رضا خان بریلوی | شاہ احمد رضا علیہ الرحمۃ]] کو حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے نسبت پر اس قدر ناز تھا کہ اس کا اظہار ان کے کلام میں جابجا ملتا ہے    ؂
حضرت احمد رضا خاں صفت و ثناے حضور میں اس درجہ محو ہوئے کہ تمام زیست نعت کے علاوہ کسی اور طرز سخن کی جانب توجہ نہ کی۔ حضور آقائے دو عالم علیہ الصلوٰة والسلام تو سلطانِ اقالیم دو عالم ہیں۔ افتخارِ آدم و بنی آدم ہیں رحمت پناہِ عاصیاں اور چارہٴ بے چار گاں ہیں۔ آپ کا دربار وہ دربارِ معلّٰی ہے جہاں سے گداوٴں کو شہنشاہی اور بوریا نشینوں کو عشق و عقیدت کے نام پر کجھکلاہی عطا ہوتی ہے۔ اس لیے کون چاہے گا کہ ایک بار اس دربارِ معلّٰی سے نسبت حاصل کرکے کسی اور دروازے کی طرف دیکھے یا اپنے دور کے کسی سلطان یا امیر کا قصیدہ کہے۔ شاہ احمد رضا علیہ الرحمۃ کو حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے نسبت پر اس قدر ناز تھا کہ اس کا اظہار ان کے کلام میں جابجا ملتا ہے    ؂


کروں مدحِ اہل دُوَل رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
کروں مدحِ اہل دُوَل رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
سطر 37: سطر 31:
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مرا دین پارہٴ ناں نہیں
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مرا دین پارہٴ ناں نہیں


اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة نے [[نعت]] کو ان بلندیوں پر پہنچادیا کہ زمانے کو ان کی عظمت تسلیم کرتے ہی بنی۔ [[نعت | نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم]] وہ افتخار ہے کہ نعت گو شاعر بے اختیار اس کے احساس سے اپنے جذبات کو وجدمیں لے آتا ہے۔ اس لیے [[ احمد رضا خان بریلوی | | شاہ احمد رضا خاں]] فرماتے ہیں  ؂
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة نے نعت کو ان بلندیوں پر پہنچادیا کہ زمانے کو ان کی عظمت تسلیم کرتے ہی بنی۔ نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وہ افتخار ہے کہ نعت گو شاعر بے اختیار اس کے احساس سے اپنے جذبات کو وجدمیں لے آتا ہے۔ اس لیے شاہ احمد رضا خاں فرماتے ہیں  ؂


مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم
مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم
سطر 51: سطر 45:
کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے
کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے


جب [[احمد رضا خان بریلوی | | اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمۃ]] حضور سید کائنات صلی الله علیہ وسلم کے حُسنِ باطنی اور جمالِ سیرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کا انداز بیان دیدنی ہوتا ہے ان کی نگاہوں میں حضور نبی کریم کے تمام خصائص و کمالات گھومنے لگتے ہیں حضور علیہ الصلوٰة والسّلام کی عظمتِ کردار، رفعتِ گفتار، بے پایاں رحمۃ للعالمینی، میدان محشر میں آپ کی شفیع المذنبینی، گنہگار امت کے لیے حضور کی گریہ وزاری، خطا کاروں کی بخشش کے لیے رحمت شعاری، جُود و کرم کی فراوانی، لطف و عنایات کی فراخ دامانی، اخلاق عالیہ کی رفعت، سیرت و کردار کی عظمت خدا کی اپنے محبوب پر بے پایاں عنایت اور حضورنبی کریم کا امت کے لیے ہر آن امنڈتا ہوا بحر شفاعت، یہ سب خصائص جب احمد رضا خاں کے قلم میں سمائے ہیں تو ان کے خامہٴ عنبر فشاں کو نئی توانائی اور ان کے ذوقِ مدحت کو حیرت انگیز گہرائی و گیرائی وعطا ہوتی ہے۔  
جب اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمۃ حضور سید کائنات صلی الله علیہ وسلم کے حُسنِ باطنی اور جمالِ سیرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کا انداز بیان دیدنی ہوتا ہے ان کی نگاہوں میں حضور نبی کریم کے تمام خصائص و کمالات گھومنے لگتے ہیں حضور علیہ الصلوٰة والسّلام کی عظمتِ کردار، رفعتِ گفتار، بے پایاں رحمۃ للعالمینی، میدان محشر میں آپ کی شفیع المذنبینی، گنہگار امت کے لیے حضور کی گریہ وزاری، خطا کاروں کی بخشش کے لیے رحمت شعاری، جُود و کرم کی فراوانی، لطف و عنایات کی فراخ دامانی، اخلاق عالیہ کی رفعت، سیرت و کردار کی عظمت خدا کی اپنے محبوب پر بے پایاں عنایت اور حضورنبی کریم کا امت کے لیے ہر آن امنڈتا ہوا بحر شفاعت، یہ سب خصائص جب احمد رضا خاں کے قلم میں سمائے ہیں تو ان کے خامہٴ عنبر فشاں کو نئی توانائی اور ان کے ذوقِ مدحت کو حیرت انگیز گہرائی و گیرائی وعطا ہوتی ہے۔  


[[احمد رضا خان بریلوی | شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ ]]کی [[نعتیہ شاعری]] کا وہ حصہ دلوں کو بے اختیار گداز آشنا کرتا ہے جب آپ حرمین شریفین کی جانب سفر کی تیاری کرتے ہیں۔ مکہٴ معظمہ اور مدینہٴ منورہ کو دیکھنے کی تمنّا ہر صاحبِ ایمان کے دل میں مچلتی ہے اور پھر جب وہ شخصیت اس مبارک سفر پر روانہ ہورہی ہو جس نے عمر بھر عشقِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا درس دیا ہو۔ توحیدِ خداوندی کے آداب سکھائے ہوں، احترام و عقیدتِ رسول کی چمک عطا کی ہو۔ دلوں میں شمعِ عشقِ رسول جلا کر اجالا کیا ہو۔ جس کی اپنی زندگی عشقِ مصطفوی کی تصویر اور محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تفسیر ہو۔ جس کے شب و روز بیت الله کے طواف اور حرمِ نبوی کی زیارت کے تصور میں گزرتے ہوں۔ تو پھر اس پر کیف سامانی کا سحاب کس شان سے پرتوفگن ہوگا۔ اس کا تذکرہ بہار آفریں بھی ہے اور روحانی لطف و سرور کا باعث بھی ۔
شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کی نعتیہ شاعری کا وہ حصہ دلوں کو بے اختیار گداز آشنا کرتا ہے جب آپ حرمین شریفین کی جانب سفر کی تیاری کرتے ہیں۔ مکہٴ معظمہ اور مدینہٴ منورہ کو دیکھنے کی تمنّا ہر صاحبِ ایمان کے دل میں مچلتی ہے اور پھر جب وہ شخصیت اس مبارک سفر پر روانہ ہورہی ہو جس نے عمر بھر عشقِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا درس دیا ہو۔ توحیدِ خداوندی کے آداب سکھائے ہوں، احترام و عقیدتِ رسول کی چمک عطا کی ہو۔ دلوں میں شمعِ عشقِ رسول جلا کر اجالا کیا ہو۔ جس کی اپنی زندگی عشقِ مصطفوی کی تصویر اور محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تفسیر ہو۔ جس کے شب و روز بیت الله کے طواف اور حرمِ نبوی کی زیارت کے تصور میں گزرتے ہوں۔ تو پھر اس پر کیف سامانی کا سحاب کس شان سے پرتوفگن ہوگا۔ اس کا تذکرہ بہار آفریں بھی ہے اور روحانی لطف و سرور کا باعث بھی ۔


جب آپ حجِّ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرکے مدینہٴ منورہ حاضر ہوتے ہیں تو ان کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے اور مدینہ منورہ کا تصور ان سے کس طور خراجِ عقیدت حاصل کرتا ہے اس کی جھلک ملاحظہ ہو  ؂
جب آپ حجِّ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرکے مدینہٴ منورہ حاضر ہوتے ہیں تو ان کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے اور مدینہ منورہ کا تصور ان سے کس طور خراجِ عقیدت حاصل کرتا ہے اس کی جھلک ملاحظہ ہو  ؂
سطر 77: سطر 71:
اور پھر مدینہ منوّرہ کی گلیوں میں اس عاشقِ رسول کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ آنکھیں کس طرح اشکوں کی لڑیاں پروتی ہیں۔ انہیں یہاں ہر گام پر سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف آپ کی بے قراری ہے اور دوسری طرف آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازشوں کا احساس۔ اسی احساس سے سرشار ہو کر مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں کا طواف کرتے ہیں۔ گنبد خضریٰ کی زیارت کرتے کرتے جی نہیں بھرتا، دل مکینِ گنبد خضریٰ کی زیارت کے لیے مچلتا رہا۔ یہی بے قراری رنگ لائی اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی عنایاتِ بے کراں سے نوازے گئے۔  
اور پھر مدینہ منوّرہ کی گلیوں میں اس عاشقِ رسول کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ آنکھیں کس طرح اشکوں کی لڑیاں پروتی ہیں۔ انہیں یہاں ہر گام پر سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف آپ کی بے قراری ہے اور دوسری طرف آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازشوں کا احساس۔ اسی احساس سے سرشار ہو کر مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں کا طواف کرتے ہیں۔ گنبد خضریٰ کی زیارت کرتے کرتے جی نہیں بھرتا، دل مکینِ گنبد خضریٰ کی زیارت کے لیے مچلتا رہا۔ یہی بے قراری رنگ لائی اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی عنایاتِ بے کراں سے نوازے گئے۔  


[[احمد رضا خان بریلوی | شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمة ]]کا نعتیہ مجموعہ ”[[حدائق بخشش]]“ ہے جس کا اولین سالِ اشاعت 1325ھء ہے۔ [[احمد رضا خان بریلوی | رضا بریلوی علیہ الرحمة]] کے نعتیہ کلام کا ایک دلاویز اور خوبصورت حصّہ نعتیہ قصائد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے [[ صبح طبیہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا ۔ امام احمد رضا خان بریلوی | قصیدہ نور]]، [[قصیدہ معراجیہ | قصیدہ معراجیہ]] اور آپ کا طویل [[ مصطفٰے جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام۔ امام احمد رضا خان بریلوی | سلام]] خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ [[ صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا ۔ امام احمد رضا خان بریلوی |
شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمة کا نعتیہ مجموعہ ”حدائق بخشش“ ہے جس کا اولین سالِ اشاعت 1325ھء ہے۔ رضا بریلوی علیہ الرحمة کے نعتیہ کلام کا ایک دلاویز اور خوبصورت حصّہ نعتیہ قصائد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے قصیدہٴ نور، قصیدہٴ معراجیہ اور آپ کا طویل سلام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ قصیدہ ور میں بطورِ خاص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ اقدس کے حوالے سے آپ کی صفات عالیہ کو موضوعِ شاعری بنایا گیا ہے۔ یہ قصیدہ اس قدر جامع اور اثر آفریں ہے کہ بے شمار عشاقِ مصطفےٰ اسے وظیفہٴ عقیدت جان کر پڑھتے ہیں  ؂
قصیدہ نور]] میں بطورِ خاص حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ اقدس کے حوالے سے آپ کی صفات عالیہ کو موضوعِ شاعری بنایا گیا ہے۔ یہ قصیدہ اس قدر جامع اور اثر آفریں ہے کہ بے شمار عشاقِ مصطفےٰ اسے وظیفہٴ عقیدت جان کر پڑھتے ہیں  ؂


صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
سطر 92: سطر 85:
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانانور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانانور کا


”[[قصیدہ معراجیہ]]“ میں نبی کریم علیہ اصلوٰة والسلام کے سفیر معراج کے حوالے سے آپ کی عظمت و فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے ۔
”قصیدہٴ معراجیہ“ میں نبی کریم علیہ اصلوٰة والسلام کے سفیر معراج کے حوالے سے آپ کی عظمت و فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے ۔


یہ قصیدہ بذاتِ خود فکر و فن کا شہکار اور کاروانِ مدحت نعت کا افتخار ہے۔ طویل بحرمیں لکھا گیا یہ [[قصیدہ]] [[تشبیہات]]، [[استعارات]] اور برجستہ تراکیب کے حوالے سے اردو ادب کے لیے سرمایہٴ اعزاز ہے۔ یہ قصیدہ آپ کی جَوْدَت وحِدَّتِ طبع کا آئینہ دار ہے۔ روانی و تسلسل اور زبان کی لطافت و پاکیزگی کے اعتبار سے معاصرین کے معراجیہ قصائد میں سب سے بلند ہے۔ اعلیٰ حضرت کے ہم عصر مشہور نعت گو شاعر [[محسن کاکوروی]] نے انہیں دنوں معراج پر قصیدہ ” [[سمت کاشی سے چلا جانب متھرابادل]]“ لکھا تھا۔
یہ قصیدہ بذاتِ خود فکر و فن کا شہکار اور کاروانِ مدحت نعت کا افتخار ہے۔ طویل بحرمیں لکھا گیا یہ قصیدہ تشبیہات، استعارات اور برجستہ تراکیب کے حوالے سے اردو ادب کے لیے سرمایہٴ اعزاز ہے۔ یہ قصیدہ آپ کی جَوْدَت وحِدَّتِ طبع کا آئینہ دار ہے۔ روانی و تسلسل اور زبان کی لطافت و پاکیزگی کے اعتبار سے معاصرین کے معراجیہ قصائد میں سب سے بلند ہے۔ اعلیٰ حضرت کے ہم عصر مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی نے انہیں دنوں معراج پر قصیدہ ” سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرابادل“ لکھا تھا۔


[[محسن کا کوروی]] اپنا قصیدہ سنانے کے لیے بریلی میں [[احمد رضا خان بریلوی |  مولانا احمد رضا خاں]] کے پاس گئے۔ ظہر کے وقت دو شعر سننے کے بعد طے ہوا کہ [[محسن کاکوروی]] کا پورا قصیدہ عصر کی نماز کے بعد سنا جائے۔ عصر کی نماز سے قبل مولانا نے خود یہ [[قصیدہ معراجیہ]] تصنیف فرمایا۔ نماز عصر کے بعد جب یہ دونوں بزرگ اکھٹے ہوئے تو [[احمد رضا خان بریلوی | مولانا]] نے [[محسن کاکوروی]] سے فرمایا کہ پہلے میرا قصیدہ معراجیہ سن لو۔ [[محسن کاکوروی]] نے جب [[احمد رضا خان بریلوی | مولانا]]  کا [[قصیدہ]] سنا تو اپنا [[قصیدہ]] لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا [[احمد رضا خان بریلوی | مولانا]] آپ کے قصیدے کے بعد میں اپنا [[قصیدہ]] نہیں سنا سکتا۔  
محسن کا کوروی اپنا قصیدہ سنانے کے لیے بریلی میں مولانا احمد رضا خاں کے پاس گئے۔ ظہر کے وقت دو شعر سننے کے بعد طے ہوا کہ محسن کا کوروی کا پورا قصیدہ عصر کی نماز کے بعد سنا جائے۔ عصر کی نماز سے قبل مولانا نے خود یہ قصیدہ معراجیہ تصنیف فرمایا۔ نماز عصر کے بعد جب یہ دونوں بزرگ اکھٹے ہوئے تو مولانا نے محسن کاکوروی سے فرمایا کہ پہلے میرا قصیدہ معراجیہ سن لو۔ محسن کا کوروی نے جب مولانا کا قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا مولانا آپ کے قصیدے کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔  


[[احمد رضا خان بریلوی | مولانا احمد رضا خاں]] کا [[ مصطفٰے جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام۔ امام احمد رضا خان بریلوی | سلام]]  ہر لحاظ سے ادب عالیہ کا ایک حصہ ہے۔ اسے فنِّ شاعری کے حوالے سے دیکھیں، یا محبت و عقیدت کے حوالے سے ثناے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں یا الفاظ و تراکیب کی برجستگی کے حوالے سے۔  اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ [[ مصطفٰے جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام۔ امام احمد رضا خان بریلوی | سلام]]  حضور صلی الله علیہ وسلم کے نورانی سراپا کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے ایک ایک عضو پر عقیدت کی مہکبار پتیاں نچھاور کی گئی ہیں    ؂
مولانا احمد رضا خاں کا سلام ہر لحاظ سے ادب عالیہ کا ایک حصہ ہے۔ اسے فنِّ شاعری کے حوالے سے دیکھیں، یا محبت و عقیدت کے حوالے سے ثناے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں یا الفاظ و تراکیب کی برجستگی کے حوالے سے۔  اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سلام حضور صلی الله علیہ وسلم کے نورانی سراپا کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے ایک ایک عضو پر عقیدت کی مہکبار پتیاں نچھاور کی گئی ہیں    ؂


شہریارِ ارم تاجدارِ حرم
شہریارِ ارم تاجدارِ حرم
سطر 124: سطر 117:
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام


  [[احمد رضا خان بریلوی | امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی]] نامور محدث اور علومِ شریعت کے عالم کامل تھے۔ تاریخ اور سیرت مصطفوی صلی الله علیہ وسلم کے روشن ادوار پر آپ کی گہری نظر تھی۔ اس لیے آپ نے جہاں حُسنِ تغزل کی بہار بکھیرتے ہوئے اپنے آقا و مولا کے لامتناہی فیوض و برکات کا تذکرہ کیا ہے وہاں آپ نے اپنے علمی کمالات اور علوم دینیہ پر گہری گرفت رکھنے کی بنا پر بہت سے ایسے واقعات اور معجزات کی طرف بھی اشارا کیا ہے جن سے عظمت و شانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی قرآن فہمی اور احادیثِ نبوی پر عبور نے انہیں بہت مدد دی ہے ۔ بعض نعتیہ اشعار تو آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کا منظوم ترجمہ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے قرآنی آیات اور احادیث کو اس خوبی سے اپنی نعتوں میں سمویا ہے کہ ہر صاحب فکر کو ان کی قدرتِ فن کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ بعض نعتوں میں تو عربی کے الفاظ اس طرح جگہ پاگئے ہیں کہ مستقل طور پر انہی کا حصّہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان نعتوں میں عربی الفاظ کی آمیزش نے کس طرح ان نعتوں کے حُسن کو دوبالا کیا ہے اس کی بہترین مثال ان کی یہ شہرہٴ آفاق نعت ہے    ؂
  امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نامور محدث اور علومِ شریعت کے عالم کامل تھے۔ تاریخ اور سیرت مصطفوی صلی الله علیہ وسلم کے روشن ادوار پر آپ کی گہری نظر تھی۔ اس لیے آپ نے جہاں حُسنِ تغزل کی بہار بکھیرتے ہوئے اپنے آقا و مولا کے لامتناہی فیوض و برکات کا تذکرہ کیا ہے وہاں آپ نے اپنے علمی کمالات اور علوم دینیہ پر گہری گرفت رکھنے کی بنا پر بہت سے ایسے واقعات اور معجزات کی طرف بھی اشارا کیا ہے جن سے عظمت و شانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی قرآن فہمی اور احادیثِ نبوی پر عبور نے انہیں بہت مدد دی ہے ۔ بعض نعتیہ اشعار تو آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کا منظوم ترجمہ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے قرآنی آیات اور احادیث کو اس خوبی سے اپنی نعتوں میں سمویا ہے کہ ہر صاحب فکر کو ان کی قدرتِ فن کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ بعض نعتوں میں تو عربی کے الفاظ اس طرح جگہ پاگئے ہیں کہ مستقل طور پر انہی کا حصّہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان نعتوں میں عربی الفاظ کی آمیزش نے کس طرح ان نعتوں کے حُسن کو دوبالا کیا ہے اس کی بہترین مثال ان کی یہ شہرہٴ آفاق نعت ہے    ؂


[[لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا | لَمْ یَاتِ نَظیرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شُد پیدا جانا]]
لَمْ یَاتِ نَظیرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شُد پیدا جانا


جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہِ دو سرا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہِ دو سرا جانا
سطر 168: سطر 161:
اس کفِ پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام
اس کفِ پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام


[[احمد رضا خان بریلوی | امام احمد رضا]] کی حیثیت اس صدی کے نعت گو شعرا میں میرِکارواں کی ہے۔ آپ کی نعتوں نے فقط آپ کے دور کو نہیں بلکہ آنے والے ادوار کو بھی متاثر کیا۔ فقہی اور شرعی امور میں آپ سے شدید اختلاف رکھنے والے حضرات بھی جب [[نعت | نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم]] کا تذکرہ کرتے ہیں تو تمام ترتعصّب کے باوجود انہیں بھی ایوانِ نعت کی سب سے سربلند مسند پر حضرت رضا بریلوی کو ہی جگہ دینی پڑتی ہے۔ ایک مضمون کہ جہاں صفحات کی تنگ دامانی راہوارِ قلم کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہو بھلا آپ کے تمام تر شعری اوصاف کا کس طور احاطہ کرسکتا ہے۔ آج [[احمد رضا خان بریلوی | فاضل بریلوی]] کی اثر آفریں نعت گوئی اپنی تاثر انگیزی کی گرفت کو اس قدر مضبوط کرچکی ہے کہ فقط بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں آ پ کی شخصیت اور کلام پر تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں شفیق بریلوی کی کتاب ارمغانِ نعت کے حوالے سے کراچی میں 1975ء میں منعقد ہونے والی تعارفی تقریب میں مولانا کوثر نیازی کی یہ رائے خاص اہمیت رکھتی ہے:
امام احمد رضا کی حیثیت اس صدی کے نعت گو شعرا میں میرِکارواں کی ہے۔ آپ کی نعتوں نے فقط آپ کے دور کو نہیں بلکہ آنے والے ادوار کو بھی متاثر کیا۔ فقہی اور شرعی امور میں آپ سے شدید اختلاف رکھنے والے حضرات بھی جب نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو تمام ترتعصّب کے باوجود انہیں بھی ایوانِ نعت کی سب سے سربلند مسند پر حضرت رضا بریلوی کو ہی جگہ دینی پڑتی ہے۔ ایک مضمون کہ جہاں صفحات کی تنگ دامانی راہوارِ قلم کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہو بھلا آپ کے تمام تر شعری اوصاف کا کس طور احاطہ کرسکتا ہے۔ آج فاضل بریلوی کی اثر آفریں نعت گوئی اپنی تاثر انگیزی کی گرفت کو اس قدر مضبوط کرچکی ہے کہ فقط بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میںآ پ کی شخصیت اور کلام پر تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں شفیق بریلوی کی کتاب ارمغانِ نعت کے حوالے سے کراچی میں 1975ء میں منعقد ہونے والی تعارفی تقریب میں مولانا کوثر نیازی کی یہ رائے خاص اہمیت رکھتی ہے:


”بریلی شریف میں ایک شخص پیدا ہوا جو نعت گوئی کا امام تھا اور [[احمد رضا خان بریلوی | احمد رضا خاں]] جس کا نام تھا۔ ان سے ممکن ہے بعض پہلووٴں میں لوگوں کو اختلاف ہو۔ عقیدوں میں اختلاف ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عشقِ رسول ان کی نعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔“
”بریلی شریف میں ایک شخص پیدا ہوا جو نعت گوئی کا امام تھا اور احمد رضا خاں جس کا نام تھا۔ ان سے ممکن ہے بعض پہلووٴں میں لوگوں کو اختلاف ہو۔ عقیدوں میں اختلاف ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عشقِ رسول ان کی نعتوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔“


[[احمد رضا خان بریلوی | مولانا احمد رضا خاں]] نے [[نعت گوئی]] میں قرآن حکیم سے بھر پور راہنمائی لی۔ اس ضمن میں ان کے فتاویٰ رضویہ بخوبی شاہد ہیں کہ وہ [[نعت گوئی]] کے تقاضوں کو کس درجہ سمجھتے تھے او ر [[:زمرہ: نعت گو شعراء | نعت گو شعرا]] سے کس درجہ احتیاط اور ادب کی توقع رکھتے تھے۔  
مولانا احمد رضا خاں نے نعت گوئی میں قرآن حکیم سے بھر پور راہنمائی لی۔ اس ضمن میں ان کے فتاویٰ رضویہ بخوبی شاہد ہیں کہ وہ نعت گوئی کے تقاضوں کو کس درجہ سمجھتے تھے او ر نعت گو شعرا سے کس درجہ احتیاط اور ادب کی توقع رکھتے تھے۔  


شاعری میں ان کے پیشِ نظر مداح رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) [[حسان بن ثابت | سیدنا حسان بن ثابت رضی ا لله تعالیٰ عنہ]] کی ذات گرامی مشعلِ راہ تھی۔اپنے دور کے شعرا میں مولانا کفایت علی کافی کی نعت گوئی سے متاثر تھے۔ اکابرکے ہاں جس قدر ادب و احتیاط کا غلبہ تھا ویسا ہی منظر وہ ہر دور کے نعت گو شعراء کے ہاں دیکھنا چاہتے تھے۔  
شاعری میں ان کے پیشِ نظر مداح رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) سیدنا حسان بن ثابت رضی ا لله تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی مشعلِ راہ تھی۔اپنے دور کے شعرا میں مولانا کفایت علی کافی کی نعت گوئی سے متاثر تھے۔ اکابرکے ہاں جس قدر ادب و احتیاط کا غلبہ تھا ویسا ہی منظر وہ ہر دور کے نعت گو شعراء کے ہاں دیکھنا چاہتے تھے۔  


احتیاط اور ادب کا یہ عالم تھا کہ ایک صاحب نے آپ کی بارگاہ میں حاضرہوکر اپنے اشعارسنانے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا میں اپنے چھوٹے بھائی حسن میاں یا حضرت کافی بدایونی کا کلام سنتا ہوں (اس لیے کہ ان کا کلام میزانِ شریعت پہ تُلا ہوتا ہے) اگرچہ حضرت کافی کے یہاں لفظ ” رعنا“ استعمال ہوا ہے لیکن اگر وہ اپنی غلطی پر آگاہ ہوجاتے تو یقینا اس لفظ کو بدل دیتے ۔ پھر خیال خاطر احباب کے پیش نظر ان صاحب کو کلام سنانے کی اجازت عطا کردی ان کا ایک مصرعہ یوں تھا    ع
احتیاط اور ادب کا یہ عالم تھا کہ ایک صاحب نے آپ کی بارگاہ میں حاضرہوکر اپنے اشعارسنانے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا میں اپنے چھوٹے بھائی حسن میاں یا حضرت کافی بدایونی کا کلام سنتا ہوں (اس لیے کہ ان کا کلام میزانِ شریعت پہ تُلا ہوتا ہے) اگرچہ حضرت کافی کے یہاں لفظ ” رعنا“ استعمال ہوا ہے لیکن اگر وہ اپنی غلطی پر آگاہ ہوجاتے تو یقینا اس لفظ کو بدل دیتے ۔ پھر خیال خاطر احباب کے پیش نظر ان صاحب کو کلام سنانے کی اجازت عطا کردی ان کا ایک مصرعہ یوں تھا    ع
سطر 186: سطر 179:
یہ احکامِ شریعت کو حد درجہ ملحوظ رکھنے ہی کا کما ل تھا کہ مصرعہ کی تبدیلی سے مضمون انتہائی جاندار اور شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگیا۔
یہ احکامِ شریعت کو حد درجہ ملحوظ رکھنے ہی کا کما ل تھا کہ مصرعہ کی تبدیلی سے مضمون انتہائی جاندار اور شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگیا۔


[[احمد رضا خان بریلوی | رضا بریلوی علیہ الرحمة]] کا دور مسلمانوں پر انتہائی مصیبت اور ابتلا کا دور تھا۔ حکومت تو ہاتھوں سے چھن چکی تھی بدقسمتی سے مسلمان احساسِ زیاں سے بھی محروم ہوچکے تھے۔ غیر مسلم قوتیں ا ن پر اپنے نظریات ٹھونس رہی تھیں اور دوسری طرف نیشنلسٹ مسلم زعما و علما جبّہ و دستار اور منبر و محراب کے وارث ہونے کے باوجود اسلامی نظریات کی شوکتِ دیرینہ کے تصور کو بھی پاش پاش کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ ایسے عالم میں امام احمد رضا خاں کا ذہن جاگ رہاتھا۔ ان کی نظریاتی سوچ اپنی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے نظریاتی اعتقادات سے بغاوت کرنے والی ہر قوت کو للکارا اورانہیں پیغام دیا    ؂
رضا بریلوی علیہ الرحمة کا دور مسلمانوں پر انتہائی مصیبت اور ابتلا کا دور تھا۔ حکومت تو ہاتھوں سے چھن چکی تھی بدقسمتی سے مسلمان احساسِ زیاں سے بھی محروم ہوچکے تھے۔ غیر مسلم قوتیں ا ن پر اپنے نظریات ٹھونس رہی تھیں اور دوسری طرف نیشنلسٹ مسلم زعما و علما جبّہ و دستار اور منبر و محراب کے وارث ہونے کے باوجود اسلامی نظریات کی شوکتِ دیرینہ کے تصور کو بھی پاش پاش کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ ایسے عالم میں امام احمد رضا خاں کا ذہن جاگ رہاتھا۔ ان کی نظریاتی سوچ اپنی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے نظریاتی اعتقادات سے بغاوت کرنے والی ہر قوت کو للکارا اورانہیں پیغام دیا    ؂


سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سطر 196: سطر 189:
تیری گٹھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
تیری گٹھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے


اور یہ [[نعت | نعتِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم]] کا عملی فیضان ہی تھا کہ آپ کی آواز تاریخ کے سب سے بڑے حدی خوان کی صداے درد ناک بن کر بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔ آپ کو دشنام طرازیوں اور طعنوں کے طوفان سے گزرنا پڑا مگر آپ کی [[نظم]] اور [[نثر]] نے حیرت انگیز انقلاب برپا کردیا۔ وہ محبت رسول میں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں تھے اور اس سلسلہ میں انہیں اپنے قلم کی قوت اور سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی تائید و کرم کا پورا پورا احساس تھا۔
اور یہ نعتِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا عملی فیضان ہی تھا کہ آپ کی آواز تاریخ کے سب سے بڑے حدی خوان کی صداے درد ناک بن کر بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔ آپ کو دشنام طرازیوں اور طعنوں کے طوفان سے گزرنا پڑا مگر آپ کی نظم اور نثر نے حیرت انگیز انقلاب برپا کردیا۔ وہ محبت رسول میں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں تھے اور اس سلسلہ میں انہیں اپنے قلم کی قوت اور سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی تائید و کرم کا پورا پورا احساس تھا۔


ممتاز نقاد نیاز فتح پوری آپ کے علم و فضل اور شعری محاسن پر آپ کی بھر پور گرفت کے قائل تھے۔ انہوں نے [[احمد رضا خان بریلوی | فاضل بریلوی]] کو قریب سے دیکھا تھا اور ان کی شخصیت کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا کہناہے کہ:
ممتاز نقاد نیاز فتح پوری آپ کے علم و فضل اور شعری محاسن پر آپ کی بھر پور گرفت کے قائل تھے۔ انہوں نے فاض بریلوی کو قریب سے دیکھا تھا اور ان کی شخصیت کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا کہناہے کہ:


”اردو نعت کی تاریخ میں اگر کسی فردِ واحد نے شعراے نعت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں تووہ بلاشبہ [[احمد رضا خان بریلوی | مولانا احمد رضا]] کی ذات ہے۔“
”اردو نعت کی تاریخ میں اگر کسی فردِ واحد نے شعراے نعت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں تووہ بلاشبہ مولانا احمد رضا کی ذات ہے۔“


اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں:
اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں:


”شجر علمی“ زور بیان اور وابستگی و عقیدت کے عناصر ان کی نعت میں یوں گھل مل اور رچ بس گئے ہیں کہ [[نعت | اردو نعت]] میں ایسا خوشگوار امتزاج کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا … [[نعت گوئی | اردو نعت]] کی ترویج و اشاعت میں ان کا حصّہ سب سے زیادہ ہے۔ کسی ایک شاعر نے اردو نعت پر وہ اثرات نہیں ڈالے جو [[احمد رضا خان بریلوی | مولانا احمد رضا خاں]] کی ذات نے ۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اعلیٰ معیاری نعتیں تخلیق کیں بلکہ ان کے زیر اثر نعت کے ایک منفرد دبستان کی تشکیل ہوئی“۔<ref>حضرت فاضل بریلوی کے بارے میں نیاز فتح پوری کے تاثرات ، محمد احمد قادری</ref>
”شجر علمی“ زور بیان اور وابستگی و عقیدت کے عناصر ان کی نعت میں یوں گھل مل اور رچ بس گئے ہیں کہ اردو نعت میں ایسا خوشگوار امتزاج کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا … اردو نعت کی ترویج و اشاعت میں ان کا حصّہ سب سے زیادہ ہے۔ کسی ایک شاعر نے اردو نعت پر وہ اثرات نہیں ڈالے جو مولانا احمد رضا خاں کی ذات نے ۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اعلیٰ معیاری نعتیں تخلیق کیں بلکہ ان کے زیر اثر نعت کے ایک منفرد دبستان کی تشکیل ہوئی“۔<ref>حضرت فاضل بریلوی کے بارے میں نیاز فتح پوری کے تاثرات ، محمد احمد قادری</ref>


[[احمد رضا خان بریلوی | شاہ احمد رضا خاں]] نے مدحتِ سرکار کے جس دبستان کی بنیاد ڈالی تھی اس کی بدولت آج ایک زمانہ ان کا ہمنوا نظرآتا ہے اور ہر دور میں ان کے ہمنواوٴں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فاضل بریلوی کو اول و آخر مدحتِ سرکار صلی الله علیہ وسلم سے سرو کار تھا۔ اس ضمن میں [[ محمد اسحاق قریشی | ڈاکٹر محمد اسحق قریشی]] کے یہ جملے خاص طور سے قابل ذکر ہیں:
شاہ احمد رضا خاں نے مدحتِ سرکار کے جس دبستان کی بنیاد ڈالی تھی اس کی بدولت آج ایک زمانہ ان کا ہمنوا نظرآتا ہے اور ہر دور میں ان کے ہمنواوٴں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فاضل بریلوی کو اول و آخر مدحتِ سرکار صلی الله علیہ وسلم سے سرو کار تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محمد اسحق قریشی کے یہ جملے خاص طور سے قابل ذکر ہیں:


”نعت کے مشتملات و شمائل کا ذکر ہر نعت گو کے ہاں مرغوب رہاہے۔ اس لیے کہ ان کا شمار ہی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔ [[احمد رضا خان بریلوی | فاضلِ بریلوی]] کے ہاں خصائص میں وجہِ تخلیق ہونا، سراپا نور ہونا، قاسمِ عطایا ہونا، سب سے افضل ہونا، سرتابقدم شانِ حق ہونا، جانِ ایمان ہونا، کائنات ہست و بود کی رونق و جلا ہونا اور مرکزِ عقیدت و محبت ہونا بہت نمایا ں ہیں۔ یہ خصائص ان کے ایمان کا حصّہ ہیں اسی لیے [[ردیف]] اور [[قافیہ ]]کے تنَّوع کے باوجود تذکرہ انہیں کا ہوتا رہا۔“ <ref>نعت رنگ  1</ref>
”نعت کے مشتملات و شمائل کا ذکر ہر نعت گو کے ہاں مرغوب رہاہے۔ اس لیے کہ ان کا شمار ہی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔ فاضلِ بریلوی کے ہاں خصائص میں وجہِ تخلیق ہونا، سراپا نور ہونا، قاسمِ عطایا ہونا، سب سے افضل ہونا، سرتابقدم شانِ حق ہونا، جانِ ایمان ہونا، کائنات ہست و بود کی رونق و جلا ہونا اور مرکزِ عقیدت و محبت ہونا بہت نمایا ں ہیں۔ یہ خصائص ان کے ایمان کا حصّہ ہیں اسی لیے ردیف اور قافیہ کے تنَّوع کے باوجود تذکرہ انہیں کا ہوتا رہا۔“ <ref>نعت رنگ  1</ref>


مدّعا یا طلب شفاعت شعرائے نعت کا خاص جزو رہا ہے، [[استغاثہ]] اور پھر توسّل انہیں اپنے ممدوح کی عظمت کے اظہار اور اپنی بے کسی و بے بسی کے اقرار کا قرینہ بخشتا ہے۔ اگر مدعا طلبی شاہانِ دنیا سے ہو تو یہاں بڑے سے بڑا [[قصیدہ]] بھی پست نظر آتا ہے لیکن اگر مدّعا طلبی محبوب دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے ہو تو پھر نعت گو کی ہر فکری کاوش ادبِ عالیہ کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ [[نعت]] میں بات فقط قوافی و اوزان کی نہیں بلکہ یہاں تو توسّل اور شفاعت طلبی کے لیے شاعر کی بلند خیالی بطور خاص مدنظر رکھی جاتی ہے۔ فاضل بریلوی کے ہاں یہ مضمون ہر بار نئے انداز اور نئے حسن سے جلوہ گر نظر آتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مرکز محور ہی حضور علیہ الصلوٰ ة والسلام کی رحمت بے کراں کا حصول ہے۔ فاضل بریلوی کے ہاں علم شریعت قرآن و حدیث اور سچے جذبوں کاتوازن ہے۔ وہ [[استغاثہ]] بھی پیش کرتے ہیں تو آقا و مولا صلی الله علیہ وسلم کی [[سیرت نگاری]] کو بھی مدنظر کھتے ہیں۔
مدّعا یا طلب شفاعت شعرائے نعت کا خاص جزو رہا ہے، استغاثہ اور پھر توسّل انہیں اپنے ممدوح کی عظمت کے اظہار اور اپنی بے کسی و بے بسی کے اقرار کا قرینہ بخشتا ہے۔ اگر مدعا طلبی شاہانِ دنیا سے ہو تو یہاں بڑے سے بڑا قصیدہ بھی پست نظر آتا ہے لیکن اگر مدّعا طلبی محبوب دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے ہو تو پھر نعت گو کی ہر فکری کاوش ادبِ عالیہ کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ نعت میں بات فقط قوافی و اوزان کی نہیں بلکہ یہاں تو توسّل اور شفاعت طلبی کے لیے شاعر کی بلند خیالی بطور خاص مدنظر رکھی جاتی ہے۔ فاضل بریلوی کے ہاں یہ مضمون ہر بار نئے انداز اور نئے حسن سے جلوہ گر نظر آتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مرکز محور ہی حضور علیہ الصلوٰ ة والسلام کی رحمت بے کراں کا حصول ہے۔ فاضل بریلوی کے ہاں علم شریعت قرآن و حدیث اور سچے جذبوں کاتوازن ہے۔ وہ استغاثہ بھی پیش کرتے ہیں تو آقا و مولا صلی الله علیہ وسلم کی سیرت نگاری کو بھی مدنظر کھتے ہیں۔


جب ہم اُمّتِ اسلام پر بپا ہونے والے صدمات اور مصائب کا ذکر کرتے ہیں تو [[الطاف حسین حالی]] کی یہ مناجات ہر عہد کی ترجمانی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے    ؂
جب ہم اُمّتِ اسلام پر بپا ہونے والے صدمات اور مصائب کا ذکر کرتے ہیں تو الطاف حسین حالی کی یہ مناجات ہر عہد کی ترجمانی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے    ؂


اے خاصہٴ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
اے خاصہٴ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
سطر 218: سطر 211:
امت پہ تری آگے عجب وقت پڑا ہے
امت پہ تری آگے عجب وقت پڑا ہے


یہ [[استغاثہ]] یا نوحہ اُمّتِ اسلام سقوطِ بغداد سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک ہر عہد اور ہر زمانے میں زوال آمادہ مسلمانوں کے رنج والم کا ترجمان ہے۔ حالی کے استغاثے نے اردو ادب میں باقاعدہ [[استغاثہ | استغاثہ نگاری]] کی بنیاد رکھی اسی کیفیت کی ترجمانی کرتی ہوئی رضا بریلوی کی صدائے غمناک ابھری  ؂
یہ استغاثہ یا نوحہ اُمّتِ اسلام سقوطِ بغداد سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک ہر عہد اور ہر زمانے میں زوال آمادہ مسلمانوں کے رنج والم کا ترجمان ہے۔ حالی کے استغاثے نے اردو ادب میں باقاعدہ استغاثہ نگاری کی بنیاد رکھی اسی کیفیت کی ترجمانی کرتی ہوئی رضا بریلوی کی صدائے غمناک ابھری  ؂


اَلْبَحْرُ عَلَیٰ والْمَوْج طغےٰ مَن بے کس و طوفاں ہوش ربا
اَلْبَحْرُ عَلَیٰ والْمَوْج طغےٰ مَن بے کس و طوفاں ہوش ربا
سطر 226: سطر 219:
پُر شکستہ لمحات میں غم کے ماروں کی نگاہیں سوئے مدینہ ہی اُٹھتی ہیں۔ یہاں فاضل بریلوی علیہ الرحمة کے آنسو بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شرح و غم بیان کردیے۔
پُر شکستہ لمحات میں غم کے ماروں کی نگاہیں سوئے مدینہ ہی اُٹھتی ہیں۔ یہاں فاضل بریلوی علیہ الرحمة کے آنسو بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شرح و غم بیان کردیے۔


[[نعت ]]کہتے ہوئے فاضل بریلوی کہیں بھی یاس و قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے عشق وارادت کا رشتہ اس قدر مضبوط،غیر متزلزل اور مستحکم ہے کہ وہ راہِ حیات سے لے کر میدانِ حشر تک کہیں بھی مایوس و ناامیدی کو قریب نہیں آنے دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے جس ذاتِ والا صفات کو اپنا رہبر و راہنما مانا ہے وہ محبوب دو عالم اور ممدوحِ خدا و ملائکہ ہے۔ یہ وہ ذات جس کے سر اقدس پر شفاعت کا نور آفریں تاج جگمگارہاہے۔جس کے ماتھے پر عفو و درگزر اور لطف و کرم کا جمال اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر سلام سندیلوی کی رائے ملاحظہ کیجیے:
نعت کہتے ہوئے فاضل بریلوی کہیں بھی یاس و قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے عشق وارادت کا رشتہ اس قدر مضبوط،غیر متزلزل اور مستحکم ہے کہ وہ راہِ حیات سے لے کر میدانِ حشر تک کہیں بھی مایوس و ناامیدی کو قریب نہیں آنے دیتے۔ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے جس ذاتِ والا صفات کو اپنا رہبر و راہنما مانا ہے وہ محبوب دو عالم اور ممدوحِ خدا و ملائکہ ہے۔ یہ وہ ذات جس کے سر اقدس پر شفاعت کا نور آفریں تاج جگمگارہاہے۔جس کے ماتھے پر عفو و درگزر اور لطف و کرم کا جمال اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر سلام سندیلوی کی رائے ملاحظہ کیجیے:


”مگر جہاں تک امام احمد رضاخاں کی شاعری کا تعلق ہے وہ رسمی یا روایتی نہیں۔ آپ کو مذہب سے زبردست علاقہ تھا۔ آپ کو بزرگانِ دین سے عقیدت تھی۔ آپ حُبِّ رسول میں غرق تھے اس لیے آپ کی شاعری میں صداقت موجود ہے۔ آپ کی شخصیت اور شاعری کے درمیان فاصلہ نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی شخصیت آپ کی شاعری ہے اور آپ کی شاعری آپ کی شخصیت۔ شخصیت اور شاعری میں اس قدر ہم آہنگی اردو کے بہت کم شعرا کے یہاں ملے گی۔“<ref>المیزان۔ امام احمد رضا نمبر ص 466</ref>
”مگر جہاں تک امام احمد رضاخاں کی شاعری کا تعلق ہے وہ رسمی یا روایتی نہیں۔ آپ کو مذہب سے زبردست علاقہ تھا۔ آپ کو بزرگانِ دین سے عقیدت تھی۔ آپ حُبِّ رسول میں غرق تھے اس لیے آپ کی شاعری میں صداقت موجود ہے۔ آپ کی شخصیت اور شاعری کے درمیان فاصلہ نہیں ہے۔ بلکہ آپ کی شخصیت آپ کی شاعری ہے اور آپ کی شاعری آپ کی شخصیت۔ شخصیت اور شاعری میں اس قدر ہم آہنگی اردو کے بہت کم شعرا کے یہاں ملے گی۔“<ref>المیزان۔ امام احمد رضا نمبر ص 466</ref>
سطر 389: سطر 382:


٭ ٭ ٭
٭ ٭ ٭
=== مزید دیکھیے ===
[[محمد اکرم رضا]] | [[احمد رضا خان بریلوی ]] | [[احمدرضا بریلوی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین ]] | [[حدائق بخشش ]] |
=== حواشی و حوالہ جات ===
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: