آپ «لفظ -مشکور- کا معمہ» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 3: سطر 3:
[[زمرہ: زبان و بیان]]
[[زمرہ: زبان و بیان]]


تحریر : [[غلام مصطفیٰ دائمؔ ]]
تحریر : [[غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان ]]


{{ٹکر 1 }}
{{ٹکر 1 }}


=== [[اردو]] میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ "مشکور" کا معمّہ ===
=== اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول اور لفظِ "مشکور" کا معمّہ ===


ایک زبان جب اپنے مخصوص اظہاریے کے لیے دیگر زبانوں سے الفاظ اخذ کرتی ہے تو اس سے نہ صرف اِس زبان کا دامنِ لفظ وسیع تر ہوتا جاتا ہے بلکہ دوسری تہذیب و ثقافت سے آشنائی اور لسانی یگانگت کا تعلق بھی استوار ہوتا ہے۔ تاہم یہ "اخذِ الفاظ" کا سلسلہ نہ صرف کسی مخصوص زبان سے اپنا رشتہ بناتا ہے بلکہ کئی زبانوں کے روزمرے اور محاوروں تک کو اپنے اندر کھپانے کی کامیاب سعی کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ضرورت کی بنا پر ہو تو فبہا، ورنہ حد سے متجاوز ہو کر دوسری زبانوں کے لفظی اثاثے پر نظر رکھنا قرینِ دانش مندی نہیں۔ کیوں کہ حد سے بڑھا ہوا ’’اخذِ الفاظ‘‘ منفی نتائج کا سبب بنتا ہے۔
ایک زبان جب اپنے مخصوص اظہاریے کے لیے دیگر زبانوں سے الفاظ اخذ کرتی ہے تو اس سے نہ صرف اِس زبان کا دامنِ لفظ وسیع تر ہوتا جاتا ہے بلکہ دوسری تہذیب و ثقافت سے آشنائی اور لسانی یگانگت کا تعلق بھی استوار ہوتا ہے۔ تاہم یہ "اخذِ الفاظ" کا سلسلہ نہ صرف کسی مخصوص زبان سے اپنا رشتہ بناتا ہے بلکہ کئی زبانوں کے روزمرے اور محاوروں تک کو اپنے اندر کھپانے کی کامیاب سعی کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ضرورت کی بنا پر ہو تو فبہا، ورنہ حد سے متجاوز ہو کر دوسری زبانوں کے لفظی اثاثے پر نظر رکھنا قرینِ دانش مندی نہیں۔ کیوں کہ حد سے بڑھا ہوا ’’اخذِ الفاظ‘‘ منفی نتائج کا سبب بنتا ہے۔
سطر 14: سطر 14:


زبان تہذیبی عناصر سے اپنا لفظی سرمایہ جمع کرتی ہے۔ یہی اخذِ الفاظ وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتاہے اور جو زبان کسی تہذیب کے جتنا قریب ہوتی ہے اتنا ہی اس سے الفاظ مستعار لیتی ہے۔
زبان تہذیبی عناصر سے اپنا لفظی سرمایہ جمع کرتی ہے۔ یہی اخذِ الفاظ وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتاہے اور جو زبان کسی تہذیب کے جتنا قریب ہوتی ہے اتنا ہی اس سے الفاظ مستعار لیتی ہے۔
===  [[اردو]] میں اخذِ الفاظ کا اصول : ===
===  اردو میں اخذِ الفاظ کا اصول : ===


اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنی حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیر حتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔ اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں۔
اس کا کلیدی اصول یہی ہے کہ وہ لفظ اپنی حقیقی تلفظ و معنیٰ کی رعایت کیے بغیر دوسری زبان میں دخیل ہوتا ہے اور یہاں آ کر اپنا نیا اور غیر حتمی معنیٰ زیبِ تَن کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف لفظ کو نیا استعاراتی پسِ منظر فراہم ہوتا ہے بلکہ اس میں بین المتن نئے علائم کا دخول بھی ممکن ہوتا ہے۔ اس کی مثال بہت سے الفاظ ہیں۔
سطر 24: سطر 24:
رشید حسن خان نے مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ :
رشید حسن خان نے مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ :


”[[عربی]] میں جو لفظ [[فارسی]] سے، سریانی سے، عبرانی سے، [[ہندی]] سے آئے ہیں، ان کے تلفظ اور معنی دونوں کے تعیّن کا حق اب اہل عرب کو حاصل ہوگیا ہے، یا وہ الفاظ بدستور اُنھی دوسری زبانوں کے قاعدوں کے اسیر رہے ہیں؟۔۔۔ [[انگریزی]] میں سیکڑوں ہزاروں الفاظ لاطینی سے، یونانی سے، سنسکرت سے، [[عربی]] سے آئے ہیں، سب لفظوں کے تلفظ و معنی میں تصرف کا پورا حق انگریزوں کو حاصل ہوگیا یا نہیں؟
”عربی میں جو لفظ فارسی سے، سریانی سے، عبرانی سے، ہندی سے آئے ہیں، ان کے تلفظ اور معنی دونوں کے تعیّن کا حق اب اہل عرب کو حاصل ہوگیا ہے، یا وہ الفاظ بدستور اُنھی دوسری زبانوں کے قاعدوں کے اسیر رہے ہیں؟۔۔۔ انگریزی میں سیکڑوں ہزاروں الفاظ لاطینی سے، یونانی سے، سنسکرت سے، عربی سے آئے ہیں، سب لفظوں کے تلفظ و معنی میں تصرف کا پورا حق انگریزوں کو حاصل ہوگیا یا نہیں؟


یہ ظلم آخر [[اردو]]  پر کب تک جاری رہے گا کہ جس لفظ کو وہ چاہے جتنا اپنا لے، لیکن اسے بولتے ہوئے وہ پابند دوسری زبانوں کی رہے گی اور اس کی تذکیر و تانیث میں، اس کے اعراب میں ، اس کی جمع بنانے میں ، اسے حالتِ ترکیب میں لانے میں [[اردو]] والے بے بسی سے منہ دوسروں ہی کا دیکھتے رہیں گے! ذرا کسی دوسری زبان والے کے سامنے یہ اصول بیان کرکے تو دیکھیں کہ لفظ آپ کا لیکن اس کا املا، اس کا تلفظ، اس کی گرامر سب دوسروں کی“۔ <ref>[١] ماہنامہ تحریک (دہلی) جولائی ١٩٦٤ء - بحوالہ : زبان اور قواعد، صفحہ ١٧ تا ١٨ </ref>
یہ ظلم آخر اردو پر کب تک جاری رہے گا کہ جس لفظ کو وہ چاہے جتنا اپنا لے، لیکن اسے بولتے ہوئے وہ پابند دوسری زبانوں کی رہے گی اور اس کی تذکیر و تانیث میں، اس کے اعراب میں ، اس کی جمع بنانے میں ، اسے حالتِ ترکیب میں لانے میں اردو والے بے بسی سے منہ دوسروں ہی کا دیکھتے رہیں گے! ذرا کسی دوسری زبان والے کے سامنے یہ اصول بیان کرکے تو دیکھیں کہ لفظ آپ کا لیکن اس کا املا، اس کا تلفظ، اس کی گرامر سب دوسروں کی“۔ <ref>[١] ماہنامہ تحریک (دہلی) جولائی ١٩٦٤ء - بحوالہ : زبان اور قواعد، صفحہ ١٧ تا ١٨ </ref>




[[علامہ شبلی نعمانی | شبلی نعمانی ]] لکھتے ہیں کہ :
[[علامہ شبلی نعمانی | شبلی نعمانی ]] لکھتے ہیں کہ :


”[[فارسی]] اور [[اردو]]  پر موقوف نہیں، ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ آ کر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتے۔ البتہ چونکہ [[اردو]] کوئی مستقل زبان نہیں بلکہ عربی، فارسی، ہندی کا مجموعہ ہے، اس لیے اس کو عربی[[فارسی]]کے الفاظ پر تصرف کا بہت کم حق حاصل ہے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے اس بات کا التزام زیادہ موزوں ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ صحیح تلفظ اور ترکیب کے ساتھ قائم رکھے جائیں۔ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں ہو سکتا کہ اساتذۂ قدیم و جدید نے [[عربی]] و[[فارسی]]کے بہت سے الفاظ کو [[اردو]] میں غلط طور سے برتا اور آج وہی غلط استعمالات فصیح اور بامحاورہ خیال کیے جاتے ہیں“۔ <ref>مقالاتِ شبلیؒ، جلد دوم، صفحہ ٦٠ ۔ دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ </ref>
”فارسی اور اردو پر موقوف نہیں، ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ آ کر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتے۔ البتہ چونکہ اردو کوئی مستقل زبان نہیں بلکہ عربی، فارسی، ہندی کا مجموعہ ہے، اس لیے اس کو عربی فارسی کے الفاظ پر تصرف کا بہت کم حق حاصل ہے۔ اس لیے جہاں تک ہو سکے اس بات کا التزام زیادہ موزوں ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ صحیح تلفظ اور ترکیب کے ساتھ قائم رکھے جائیں۔ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں ہو سکتا کہ اساتذۂ قدیم و جدید نے عربی و فارسی کے بہت سے الفاظ کو اردو میں غلط طور سے برتا اور آج وہی غلط استعمالات فصیح اور بامحاورہ خیال کیے جاتے ہیں“۔ <ref>مقالاتِ شبلیؒ، جلد دوم، صفحہ ٦٠ ۔ دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ </ref>




حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "نقش سلیمان" میں لکھتے ہیں:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "نقش سلیمان" میں لکھتے ہیں:


"لفظوں کے لینے اور نکالنے میں [[عربی]] و[[فارسی]]و سنسکرت ڈکشنریوں کو کسوٹی بنانا اور ان میں سے دیکھ دیکھ کر لفظوں کو چننا اور کام میں لانا ہماری زبان کے حق میں زہر ہے اس کی سچی کسوٹی رواج اور چلن ہے آج جو لفظ عربی، فارسی، ترکی، ہندی، مرہٹی، گجراتی، پرتگالی اور [[انگریزی]]  کے عام طور سے برتے جا رہے ہیں، وہ ٹھیٹ ہندوستانی الفاظ ہیں، ان کو اسی تلفظ کے ساتھ بولنا چاہیے، جس کے ساتھ وہ بولے جاتے ہیں“۔  <ref>نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٧، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ </ref>
"لفظوں کے لینے اور نکالنے میں عربی و فارسی و سنسکرت ڈکشنریوں کو کسوٹی بنانا اور ان میں سے دیکھ دیکھ کر لفظوں کو چننا اور کام میں لانا ہماری زبان کے حق میں زہر ہے اس کی سچی کسوٹی رواج اور چلن ہے آج جو لفظ عربی، فارسی، ترکی، ہندی، مرہٹی، گجراتی، پرتگالی اور انگریزی کے عام طور سے برتے جا رہے ہیں، وہ ٹھیٹ ہندوستانی الفاظ ہیں، ان کو اسی تلفظ کے ساتھ بولنا چاہیے، جس کے ساتھ وہ بولے جاتے ہیں“۔  <ref>نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٧، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ </ref>




سید انشاؔ نے دریائے لطافت میں لکھا ہے کہ :
سید انشاؔ نے دریائے لطافت میں لکھا ہے کہ :


”جاننا چاہیے کہ جو لفظ [[اردو]] میں آیا، وہ [[اردو]] ہوگیا خواہ وہ لفظ [[عربی]] ہو یا فارسی، ترکی ہو سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، [[اردو]] کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کی [[اردو]] میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز [[اردو]] کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔ اور جو [[اردو]] کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو“۔  <ref> بحوالہ : دریائے لطافت مترجم، صفحہ نمبر ٣٥٣ </ref>
”جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا، وہ اردو ہوگیا خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اصل کی روح سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ، اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح۔ اس کی صحت اور غلطی، اس کی اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے۔ چونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے، وہ غلط ہے، گویا اصل میں صحیح ہو۔ اور جو اردو کے موافق ہے، وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو“۔  <ref> بحوالہ : دریائے لطافت مترجم، صفحہ نمبر ٣٥٣ </ref>




سطر 47: سطر 47:




”سید انشاء پہلے شخص نے جنھوں نے عربی[[فارسی]]زبان کا تتبع چھوڑ کر [[اردو]] زبان کی ہیئت و اصلیت پر غور کیا اور دونوں کے قواعد و ضوابط وضع کیے۔ اور جہاں کہیں تتبع کیا بھی تو وہاں زبان کی حیثیت کو نہیں بھولے“ صرف و نحو کے قواعد بھی بڑی جامعیت اور عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ اس بارے میں جن جن باتوں کا انھوں نے خیال کیا ہے، متاخرین کو بھی وہ نہیں سُوجھیں۔ حالانکہ ایسا عمدہ نمونہ موجود تھا۔ اس سے سید انشاء اللہ خان کے دماغ اور ذوقِ زبان کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی فصاحت و غیر فصاحت و صحت و غیر صحت کے متعلق (اوپر جو حوالہ ذکر ہوا) کتنی سچی رائے دی ہے۔  <ref>مقدمہ «دریائے لطافت» صفحہ ٠٤  </ref>
”سید انشاء پہلے شخص نے جنھوں نے عربی فارسی زبان کا تتبع چھوڑ کر اردو زبان کی ہیئت و اصلیت پر غور کیا اور دونوں کے قواعد و ضوابط وضع کیے۔ اور جہاں کہیں تتبع کیا بھی تو وہاں زبان کی حیثیت کو نہیں بھولے“ صرف و نحو کے قواعد بھی بڑی جامعیت اور عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ اس بارے میں جن جن باتوں کا انھوں نے خیال کیا ہے، متاخرین کو بھی وہ نہیں سُوجھیں۔ حالانکہ ایسا عمدہ نمونہ موجود تھا۔ اس سے سید انشاء اللہ خان کے دماغ اور ذوقِ زبان کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی فصاحت و غیر فصاحت و صحت و غیر صحت کے متعلق (اوپر جو حوالہ ذکر ہوا) کتنی سچی رائے دی ہے۔  <ref>مقدمہ «دریائے لطافت» صفحہ ٠٤  </ref>




سطر 59: سطر 59:




”مشکور [[عربی]] میں بمعنیٰ ستودہ، پسندیدہ۔ جیسے جعل اللّٰه سعيكم مشكوراً۔ مشکور بمعنیٰ ممنون نہیں آیا۔ تعجب ہے کہ مولانا شبلیؒ نے بھی ممنون کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔
”مشکور عربی میں بمعنیٰ ستودہ، پسندیدہ۔ جیسے جعل اللّٰه سعيكم مشكوراً۔ مشکور بمعنیٰ ممنون نہیں آیا۔ تعجب ہے کہ مولانا شبلیؒ نے بھی ممنون کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے۔


آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
سطر 73: سطر 73:




”عربی میں مشکور اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے اسی لیے مشکور کی جگہ بعض [[عربی]] کی قابلیت جتانے والے اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ شاکر یا متشکر بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنی چاہیے!
”عربی میں مشکور اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے اسی لیے مشکور کی جگہ بعض عربی کی قابلیت جتانے والے اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ شاکر یا متشکر بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریے کے ساتھ واپس کرنی چاہیے!
خود لفظ شکریہ کو دیکھیے کہ اصل [[عربی]] مگر شکل [[عربی]] نہیں اب اس سے ہم نے دو الفاظ بنائے ہیں: شکر اور شکریہ! خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور انسانوں کا شکریہ وہ ناشکرا ہے جو زبان کی اس توسیع کی قدر نہیں کرنا چاہتا“۔  <ref>نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٨، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ</ref>
خود لفظ شکریہ کو دیکھیے کہ اصل عربی مگر شکل عربی نہیں اب اس سے ہم نے دو الفاظ بنائے ہیں: شکر اور شکریہ! خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور انسانوں کا شکریہ وہ ناشکرا ہے جو زبان کی اس توسیع کی قدر نہیں کرنا چاہتا“۔  <ref>نقوشِ سلیمانی، صفحہ ٩٨، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ</ref>




سطر 92: سطر 92:
مولانا عبد الماجد دریا آبادی سے اس لفظ بارے استفسار ہوا۔ آپ نے بذریعہ مکتوب اسے جواب مرحمت فرمایا۔ خطوطِ ماجدی صفحہ 179 سے دو خطوط ملاحظہ فرمائیں :
مولانا عبد الماجد دریا آبادی سے اس لفظ بارے استفسار ہوا۔ آپ نے بذریعہ مکتوب اسے جواب مرحمت فرمایا۔ خطوطِ ماجدی صفحہ 179 سے دو خطوط ملاحظہ فرمائیں :


(1) مشکور بمعنیٰ ممنون اصلاً [[عربی]] قاعدے سے غَلَط ہے۔ لیکن [[اردو]] میں کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے اور عوام ہی نہیں بعض خواص بھی یہی بولنے اور لکھنے لگے ہیں۔ اس لیے زیادہ سختی اب صحیح نہیں، خاص کر جب اس کا عطف ”ممنون“ کے ساتھ ہو۔
(1) مشکور بمعنیٰ ممنون اصلاً عربی قاعدے سے غَلَط ہے۔ لیکن اردو میں کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے اور عوام ہی نہیں بعض خواص بھی یہی بولنے اور لکھنے لگے ہیں۔ اس لیے زیادہ سختی اب صحیح نہیں، خاص کر جب اس کا عطف ”ممنون“ کے ساتھ ہو۔


اصلاً صحیح لفظ ”شاکر یا متشکر“ ہے۔ اور سلیس [[اردو]] میں ”شکر گزار“۔ <ref>  خطوطِ ماجدی - صفحہ ١٧٩</ref>
اصلاً صحیح لفظ ”شاکر یا متشکر“ ہے۔ اور سلیس اردو میں ”شکر گزار“۔ <ref>  خطوطِ ماجدی - صفحہ ١٧٩</ref>




(2) سوال کے جواب میں گزارش ہے کہ میرے محدود علم میں ”مشکور“ اس موقع پر [[عربی]] قاعدہ سے صحیح نہیں۔ لیکن [[اردو]] میں اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ اب اسے غَلَط کہنا بھی آسان نہیں رہا۔
(2) سوال کے جواب میں گزارش ہے کہ میرے محدود علم میں ”مشکور“ اس موقع پر عربی قاعدہ سے صحیح نہیں۔ لیکن اردو میں اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ اب اسے غَلَط کہنا بھی آسان نہیں رہا۔


بہرحال خلافِ احتیاط ضرور ہے۔ میں اس موقع پر ”شکر گزار“ لاتا ہوں۔
بہرحال خلافِ احتیاط ضرور ہے۔ میں اس موقع پر ”شکر گزار“ لاتا ہوں۔
سطر 109: سطر 109:




”عربی قواعد کے لحاظ سے لغت نویسوں کا فیصلہ بالکل صحیح ہے، لیکن ایک دوسری زبان ان قواعد کی پابند کیوں ہو؟ ”مشکور“ بمعنیٰ ”شکر گزار“ آج بھی برابر استعمال ہو رہا ہے اور پہلے بھی بے تکلف استعمال کیا گیا ہے“۔  <ref> زبان و قواعد، رشید حسن خاں - صفحہ ٥٥ - قومی کونسل برائے فروغ [[اردو]] زبان، نئی دہلی </ref>
”عربی قواعد کے لحاظ سے لغت نویسوں کا فیصلہ بالکل صحیح ہے، لیکن ایک دوسری زبان ان قواعد کی پابند کیوں ہو؟ ”مشکور“ بمعنیٰ ”شکر گزار“ آج بھی برابر استعمال ہو رہا ہے اور پہلے بھی بے تکلف استعمال کیا گیا ہے“۔  <ref> زبان و قواعد، رشید حسن خاں - صفحہ ٥٥ - قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی </ref>


=== مشکور بمعنیٰ شاکر - شعری امثلہ : ===
=== مشکور بمعنیٰ شاکر - شعری امثلہ : ===
سطر 190: سطر 190:




“شکور” نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس (مشکور) معنی میں اس نے رواج نہیں پایا۔  <ref>  زبان و قواعد، رشید حسن خاں - صفحہ ٥٦ - قومی کونسل برائے فروغ [[اردو]] زبان، نئی دہلی</ref>
“شکور” نام کے طور پر مستعمل ہے، مگر اس (مشکور) معنی میں اس نے رواج نہیں پایا۔  <ref>  زبان و قواعد، رشید حسن خاں - صفحہ ٥٦ - قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی</ref>






=== [[عربی]] دانوں کے رخسار پہ لطمۂ تحقیق : ===
=== عربی دانوں کے رخسار پہ لطمۂ تحقیق : ===


بعض لوگ [[اردو]] پر عربیت کا اثر و رسوخ بٹھانے کی خاطر کہہ دیتے ہیں کہ «مشکور» مفعول کا صیغہ ہے لہٰذا اسے «شکر گزار» کے معنیٰ میں بولنا درست نہیں۔ تو ایسے قابلِ قدر نابغوں سے گزارش ہے کہ لفظوں کی یہ تعمیر و تخریب [[اردو]] والوں ہی کو نہیں سوجھی بلکہ خود [[عربی]] میں کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً فاعل ہیں لیکن مفعول کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں اور کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً مفعول ہیں لیکن فاعل کے معنیٰ میں برتے جاتے ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی لفظ کبھی فاعل کے لیے استعمال ہوتا ہے کبھی مفعول کے لیے۔
بعض لوگ اردو پر عربیت کا اثر و رسوخ بٹھانے کی خاطر کہہ دیتے ہیں کہ «مشکور» مفعول کا صیغہ ہے لہٰذا اسے «شکر گزار» کے معنیٰ میں بولنا درست نہیں۔ تو ایسے قابلِ قدر نابغوں سے گزارش ہے کہ لفظوں کی یہ تعمیر و تخریب اردو والوں ہی کو نہیں سوجھی بلکہ خود عربی میں کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً فاعل ہیں لیکن مفعول کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں اور کئی ایسے صیغے ہیں جو اصلاً مفعول ہیں لیکن فاعل کے معنیٰ میں برتے جاتے ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی لفظ کبھی فاعل کے لیے استعمال ہوتا ہے کبھی مفعول کے لیے۔




سطر 224: سطر 224:




عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں [[عربی]] قواعد کو [[اردو]] پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات [[عربی]] میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔ بہرحال! [[عربی]] پسندوں کی یہ ضد اب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ [[اردو]] میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے۔
عربی حوالہ جات دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں عربی قواعد کو اردو پر لاگو کرنے کا بہت شوق ہے، انھیں معلوم ہو جائے کہ یہ اطلاقات عربی میں بھی ہوتے ہیں۔ مفعول کو فاعل کے معنیٰ میں اور فاعل کو مفعول کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مرتبہ مخصوص معنوی اور تشکیلی پس منظر بھی کارفرما ہوتا ہے۔ بہرحال! عربی پسندوں کی یہ ضد اب سرد پڑ جانی چاہیے۔ اور انھیں یہ مان لینا چاہیے کہ اردو میں مشکور کو شاکر کا معنیٰ دینے میں کوئی ایسی قیامت نہیں نیز یہ کہ اسے مخصوص لوگوں کا تفرّد کہا جائے۔
 


دائمؔ


=== مزید دیکھیے ===
=== مزید دیکھیے ===
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)