آپ «قافیہ» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 20: | سطر 20: | ||
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں | صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں | ||
اس میں ہاتھ کو رات کا قافیہ باندھا گیا اور اور بات یہی تک محدود نہیں بلکہ کچھ شعرا ء نے آس ، خاص، آواز، ناراض وغیرہ کے قافیے بھی باندھے ۔ اسی طرح نعت بات، یاد، بعد جیسے الفاظ میں الف کو ع کا ہم صوت باندھا جاتا ہے ۔ | اس میں ہاتھ کو رات کا قافیہ باندھا گیا اور اور بات یہی تک محدود نہیں بلکہ کچھ شعرا ء نے آس ، خاص، آواز، ناراض وغیرہ کے قافیے بھی باندھے ۔ اسی طرح نعت بات، یاد، بعد جیسے الفاظ میں الف کو ع کا ہم صوت باندھا جاتا ہے ۔ یہ درست ہے یا غلط اس پر اختلاف ہے اور ہر گروہ اپنے اپنے دلائل رکھتا ہے | ||
==== صوتی قافیے کے خلاف دلائل ==== | ==== صوتی قافیے کے خلاف دلائل ==== | ||
اس نقطہ نظر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ز، ض، ظ اور حروف اور ایسے حروف کے دیگر گروہان میں حروف مختلف المخارج ہونے کی وجہ سے ہم آواز نہیں ہیں ۔ اس لئے "صوتی قافیے " یعنی خاص کو راس یا میراث کے ساتھ قافیہ باندھنا غلط ہے ۔ | |||
====صوتی قافیے کے حق میں دلائل ==== | ====صوتی قافیے کے حق میں دلائل ==== | ||
اس گروہ کے احباب کا کہنا ہے کہ اگرچہ عربی میں ز، ض، ظ اور الف ، ع اور س، ص ، ث وغیرہ کے مختلف مخارج ہیں لیکن اردو بولنے والے ان الفاظ کو ایک ہی مخرج سے ادا کرتے ہیں ۔ ان الفاظ سے ایک سی آواز ہی پیدا ہوتی ہیں اسی وجہ سے خاص اور راس ، بات اور نعت کا قافیہ جائز ہے ۔ | |||
[[ادارہ انحراف ]] کے فیس بک گروپ <ref> https://www.facebook.com/groups/inhiraaf/1611976942162669/?notif_t=like_tagged¬if_id=1483723132703493 </ref> پر گفتگو کرتے ہوئے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات [[ضیا بلوچ]] نے لکھا کہ | |||
"یہ سارا مسئلہ ہی اردو صوتیات و املا میں عدم مطابقت کی بنا پر پیدا ہوا ہے۔ صوتی قافیہ کی اصطلاح خود اس بات کی دلیل ہے۔ جدید لسانیات کی رو سے کسی بھی زبان کی تحریر و تقریر میں حتی الامکان مطابقت ضروری ہے ۔ ہر صوت کے لیے صرف ایک علامت مقرر کرنا ضروری ہے۔ مگر اردو میں ایسا نہیں ہے۔ اردو میں یہ پیچیدگی پائی جاتی ہے کہ عربی الفاظ کثیر تعداد میں مستعار لینے کی بنا پر ہم املا و صوت میں مطابقت برقرار نہیں رکھ سکتے کہ مارفیم لیول پر معاملہ بگڑجاتا ہے۔ مثلاً "ظن" اور "زن" میں پہلے حرف کا صوت تو ایک ہے کہ ہم "ظ" کو بھی "ز" بولتے ہیں کیونکہ اردو اصوات کی فہرست میں "ظ" شامل نہیں ہے۔مگر اس کے باوجود ہم دونوں کا املا یکساں طور پر نہیں کرسکتے کیونکہ مارفیمی سطح پر یہ دونوں الگ الگ مارفیم ہیں اگرچہ فونیمی سطح پر ان دونوں کے تلفّظ میں ذرا سا بھی فرق نہیں! ایسی ہی پیچیدگیوں کی بنا پر یہ اصطلاح وضع "ہوگئی"! | "یہ سارا مسئلہ ہی اردو صوتیات و املا میں عدم مطابقت کی بنا پر پیدا ہوا ہے۔ صوتی قافیہ کی اصطلاح خود اس بات کی دلیل ہے۔ جدید لسانیات کی رو سے کسی بھی زبان کی تحریر و تقریر میں حتی الامکان مطابقت ضروری ہے ۔ ہر صوت کے لیے صرف ایک علامت مقرر کرنا ضروری ہے۔ مگر اردو میں ایسا نہیں ہے۔ اردو میں یہ پیچیدگی پائی جاتی ہے کہ عربی الفاظ کثیر تعداد میں مستعار لینے کی بنا پر ہم املا و صوت میں مطابقت برقرار نہیں رکھ سکتے کہ مارفیم لیول پر معاملہ بگڑجاتا ہے۔ مثلاً "ظن" اور "زن" میں پہلے حرف کا صوت تو ایک ہے کہ ہم "ظ" کو بھی "ز" بولتے ہیں کیونکہ اردو اصوات کی فہرست میں "ظ" شامل نہیں ہے۔مگر اس کے باوجود ہم دونوں کا املا یکساں طور پر نہیں کرسکتے کیونکہ مارفیمی سطح پر یہ دونوں الگ الگ مارفیم ہیں اگرچہ فونیمی سطح پر ان دونوں کے تلفّظ میں ذرا سا بھی فرق نہیں! ایسی ہی پیچیدگیوں کی بنا پر یہ اصطلاح وضع "ہوگئی"! | ||
اب چونکہ قافیے کا سارا دارومدار صوت پر ہے املا پر نہیں، اس لیے قافیائی سطح پر "ظ" اور "ذ "کی مختلف علامتیں بھی ایک ہی "صوت" کے زمرے میں آئیں گی۔یہ مسئلہ انگلش آرتھوگرافی میں بھی با شدّت موجود ہے۔اسی بنا پر جارج برناڈ شا نے انگلش آرتھوگرافی کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں انگریزی آرتھوگرافی کے اصولوں کی بنیاد پر "fish" کو "ghoti" لکھوں تو معتوب نہیں ہوں گا! ان ساری باتوں کا نتیجہ اور درمیانی راہ یہ ہے کہ بھلے "خاص" اور "باس" کے آخری حروف کی شکلیں مختلف ہیں مگر چونکہ اردو میں یہ دونوں علامتیں ایک ہی صوت کی نمائندگی کرتی ہیں، سو صوتی قوافی کا استعمال برحق ہے!'' | اب چونکہ قافیے کا سارا دارومدار صوت پر ہے املا پر نہیں، اس لیے قافیائی سطح پر "ظ" اور "ذ "کی مختلف علامتیں بھی ایک ہی "صوت" کے زمرے میں آئیں گی۔یہ مسئلہ انگلش آرتھوگرافی میں بھی با شدّت موجود ہے۔اسی بنا پر جارج برناڈ شا نے انگلش آرتھوگرافی کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں انگریزی آرتھوگرافی کے اصولوں کی بنیاد پر "fish" کو "ghoti" لکھوں تو معتوب نہیں ہوں گا! ان ساری باتوں کا نتیجہ اور درمیانی راہ یہ ہے کہ بھلے "خاص" اور "باس" کے آخری حروف کی شکلیں مختلف ہیں مگر چونکہ اردو میں یہ دونوں علامتیں ایک ہی صوت کی نمائندگی کرتی ہیں، سو صوتی قوافی کا استعمال برحق ہے!'' | ||
=== حوالہ جات === | === حوالہ جات === |