آپ «شعر اور شہد۔ دلاور علی آزر کی شاعری کا محاکمہ» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
مضمون نگار: [[علی صابر رضوی]]
مضمون نگار[[علی صابر رضوی]]
===شعر اور شہد۔ دلاور علی آزر کی شاعری کا محاکمہ===
===شعر اور شہد۔ دلاور علی آزر کی شاعری کا محاکمہ===


سطر 28: سطر 28:


· رب کی طرف سے شہد کی مکھی کے دل پر خیال کااترنا
· رب کی طرف سے شہد کی مکھی کے دل پر خیال کااترنا
·  اس مکھی کا امرِ خداوندی سے پہاڑوں ، درختوں یا اونچی چھتوں پر گھر بنانا
·  اس مکھی کا امرِ خداوندی سے پہاڑوں ، درختوں یا اونچی چھتوں پر گھر بنانا
· ہر قسم کے پھلوں کا رس چوسنا یا رس کشید کرنے کے لیے سفر کرنا
· ہر قسم کے پھلوں کا رس چوسنا یا رس کشید کرنے کے لیے سفر کرنا
· کشید کے سفر میں اپنے رب کے بنائے راستوں پر آنا جانا
· کشید کے سفر میں اپنے رب کے بنائے راستوں پر آنا جانا
· دوسروں کے لیے راستہ بنانا یعنی ایک مقام تلاش کرنا اور دیگر مکھیوں کو راستہ دکھانا
· دوسروں کے لیے راستہ بنانا یعنی ایک مقام تلاش کرنا اور دیگر مکھیوں کو راستہ دکھانا
· جسم میں جداگانہ رنگ کے سیال کی تخلیق
· جسم میں جداگانہ رنگ کے سیال کی تخلیق
· اس سیال میں انسانوں کے لیے شفا ہونا
· اس سیال میں انسانوں کے لیے شفا ہونا
· غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں
· غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں


سطر 81: سطر 74:


جو کچھ ملا حضور کے  صدقے سے ہے ملا
جو کچھ ملا حضور کے  صدقے سے ہے ملا
اور جو نہیں ہے اس کی  ضرورت نہیں مجھے
اور جو نہیں ہے اس کی  ضرورت نہیں مجھے


سطر 92: سطر 84:


چیختا ہوں کہ مدینے  کوئی لے جائے مجھے
چیختا ہوں کہ مدینے  کوئی لے جائے مجھے
لیکن آواز گناہوں میں  دبی جاتی ہے
لیکن آواز گناہوں میں  دبی جاتی ہے




شاید کسی کلی کی تلاوت  کا وقت ہو
شاید کسی کلی کی تلاوت  کا وقت ہو
مہکا ہوا نہالِ عقیدت پہ بور ہے
مہکا ہوا نہالِ عقیدت پہ بور ہے




میں  نے آنکھوں میں تری دید کی خواہش رکھ دی
میں  نے آنکھوں میں تری دید کی خواہش رکھ دی
یہ اجالا ہی گھنیرا نظر  آتا ہے مجھے
یہ اجالا ہی گھنیرا نظر  آتا ہے مجھے


سطر 113: سطر 102:


انھی کے اسم کی برکت سے  دیکھتے ہوں گے
انھی کے اسم کی برکت سے  دیکھتے ہوں گے
پسِ نگاہ تہِ آب دیکھتے  ہوئے لوگ
پسِ نگاہ تہِ آب دیکھتے  ہوئے لوگ




یہ اسمِ نُورِ سحر  روشنی کی اصل سے ہے
یہ اسمِ نُورِ سحر  روشنی کی اصل سے ہے
شبِ سیاہ کی زد میں  درود پڑھتے ہیں
شبِ سیاہ کی زد میں  درود پڑھتے ہیں


سطر 129: سطر 116:


کتنی  روشن ہے چراغوں کی سنواری ہوئی رات
کتنی  روشن ہے چراغوں کی سنواری ہوئی رات
نعت کہنے کی تمنا میں  گزاری ہوئی رات
نعت کہنے کی تمنا میں  گزاری ہوئی رات




وہ آنکھ خرچ ہو گئی آیت  کی فصل پر
وہ آنکھ خرچ ہو گئی آیت  کی فصل پر
وہ ہونٹ صرف ہو گئے  قرآن کے لیے
وہ ہونٹ صرف ہو گئے  قرآن کے لیے




حبس جب بڑھنے لگا ہم نے  پکارا تجھ کو
حبس جب بڑھنے لگا ہم نے  پکارا تجھ کو
سانس لینے میں ترے اسم  نے آسانی کی
سانس لینے میں ترے اسم  نے آسانی کی




ماسِوائے صاحبِ کُن کس  کی آزر یہ بساط
ماسِوائے صاحبِ کُن کس  کی آزر یہ بساط
کون رکھے آب روئے مدحِ  ممدوحِ خُدا
کون رکھے آب روئے مدحِ  ممدوحِ خُدا




تمام عکس ہیں اُس نُور  کے لیے آزر
تمام عکس ہیں اُس نُور  کے لیے آزر
تمام آئینے بے تاب ساتھ  ہیں میرے
تمام آئینے بے تاب ساتھ  ہیں میرے




ہوتے ہوتے ہُوا وہ اِسم  رواں سینے میں
ہوتے ہوتے ہُوا وہ اِسم  رواں سینے میں
کُھلتے کُھلتے دلِ  منصور کا دروازہ کُھلا
کُھلتے کُھلتے دلِ  منصور کا دروازہ کُھلا




آسماں اور زمیں ایک  ہُوئے وَصل کی رات
آسماں اور زمیں ایک  ہُوئے وَصل کی رات
اُن کے نزدیک بہت دُور  کا دروازہ کُھلا
اُن کے نزدیک بہت دُور  کا دروازہ کُھلا




میں نبھاؤں گا محمد کے  کرم سے اس کو
میں نبھاؤں گا محمد کے  کرم سے اس کو
وعدہٕ عشق کی صورت ہے  مجھے وعدہٕ نعت
وعدہٕ عشق کی صورت ہے  مجھے وعدہٕ نعت




ورنہ  اس کی دہر میں وقعت نہ تھی قیمت نہ تھی
ورنہ  اس کی دہر میں وقعت نہ تھی قیمت نہ تھی
آپ نے رتبہ بڑھایا  حضرتِ انسان کا
آپ نے رتبہ بڑھایا  حضرتِ انسان کا




بات کیجے عرب کے صحرا  کی
بات کیجے عرب کے صحرا  کی
نعت سنیے کھجور سے پہلے
نعت سنیے کھجور سے پہلے


سطر 182: سطر 159:


مصدر کی ابتداء ہے سخن  ہائے مصطفےٰ
مصدر کی ابتداء ہے سخن  ہائے مصطفےٰ
صوت و صدا کی پیر ہے  میرے نبی کی بات
صوت و صدا کی پیر ہے  میرے نبی کی بات




چمک رہی ہے سفینے کے  آئینے میں وہ موج
چمک رہی ہے سفینے کے  آئینے میں وہ موج
دمک رہا ہے کہیں راہ  میں کنارۂ نور
دمک رہا ہے کہیں راہ  میں کنارۂ نور




صد شکر شرح ِ لفظ و  معانی کے باب میں
صد شکر شرح ِ لفظ و  معانی کے باب میں
کرتا ہوں دل سے برتری  تسلیم نعت کی
کرتا ہوں دل سے برتری  تسلیم نعت کی




لکھو تو نعت کے زمرے  میں یہ بھی آتا ہے
لکھو تو نعت کے زمرے  میں یہ بھی آتا ہے
پڑھو تو حمد کی مد میں  درود پڑھتے رہو
پڑھو تو حمد کی مد میں  درود پڑھتے رہو




کِھلتی ہے مری خاک میں  اِمکان کی خُوشبُو
کِھلتی ہے مری خاک میں  اِمکان کی خُوشبُو
مِلتی ہے مُجھے اپنی  خبر اُن کی طرف سے
مِلتی ہے مُجھے اپنی  خبر اُن کی طرف سے




یہ اَطلس و کمخواب میں  گُم ہوتے ہُوئے لوگ
یہ اَطلس و کمخواب میں  گُم ہوتے ہُوئے لوگ
سُن لیں گے کہ مِٹّی  میں ترانہ ہے تُمھارا
سُن لیں گے کہ مِٹّی  میں ترانہ ہے تُمھارا




چلتا ہُوں سنبھل کر  مَیں سرِ عرصۂ دُنیا
چلتا ہُوں سنبھل کر  مَیں سرِ عرصۂ دُنیا
سیکھا ہے بہت کُچھ تری  رَفتار سے مَیں نے
سیکھا ہے بہت کُچھ تری  رَفتار سے مَیں نے




اُن کی ہر ایک بات پہ  قُربان شاعری
اُن کی ہر ایک بات پہ  قُربان شاعری
مُجھ کو عزیز اِس سے  زیادہ حدیث ہے
مُجھ کو عزیز اِس سے  زیادہ حدیث ہے




ایک  بے سایہ کے سائے میں رہیں گے وہ درخت
ایک  بے سایہ کے سائے میں رہیں گے وہ درخت
جِن درختوں پہ ثَمر  کھول دیے جائیں گے
جِن درختوں پہ ثَمر  کھول دیے جائیں گے


سطر 233: سطر 201:


ہر عکسِ دگر ضم ہوا  ادراک میں آ کر
ہر عکسِ دگر ضم ہوا  ادراک میں آ کر
آئینہ سرِ طاقِ حرم آپ  نے رکھا
آئینہ سرِ طاقِ حرم آپ  نے رکھا




سرکار کی آمد پہ کھلا  منظرِ ہستی
سرکار کی آمد پہ کھلا  منظرِ ہستی
آئینہ ہوئے یوں درو  دیوارِ دو عالم
آئینہ ہوئے یوں درو  دیوارِ دو عالم




کس محبت سے کیا عشق نے  سرشار مجھے
کس محبت سے کیا عشق نے  سرشار مجھے
دل دھڑکتا ہے تو یاد  آتے ہیں سرکار مجھے
دل دھڑکتا ہے تو یاد  آتے ہیں سرکار مجھے




ماسواءۓ نعت کیا دیوان  کی تکمیل ہو
ماسواءۓ نعت کیا دیوان  کی تکمیل ہو
آئینہ ہوگا سخن تکمیلِ  نعتِ پاک سے
آئینہ ہوگا سخن تکمیلِ  نعتِ پاک سے




پر  ہوئی جب سے مری آنکھ کسی جلوے سے
پر  ہوئی جب سے مری آنکھ کسی جلوے سے
غور کرنے پہ اندھیرا  نظر آتا ہے مجھے
غور کرنے پہ اندھیرا  نظر آتا ہے مجھے


سطر 261: سطر 224:


آکر یہاں ملتے ہیں چراغ  اور ستارہ
آکر یہاں ملتے ہیں چراغ  اور ستارہ
لگتا ہے اسی غار میں  دربارِ دو عالم
لگتا ہے اسی غار میں  دربارِ دو عالم




کہاں قفل ِ عکس کھلا  ابھی کہاں وا ہوا درِ آئنہ
کہاں قفل ِ عکس کھلا  ابھی کہاں وا ہوا درِ آئنہ
وہی حیرتیں وہی ردو کد  مد اے رسولِ خدا مدد
وہی حیرتیں وہی ردو کد  مد اے رسولِ خدا مدد




درود  پڑھتے ہوئے دل کے ساتھ میں بھی تو ہوں
درود  پڑھتے ہوئے دل کے ساتھ میں بھی تو ہوں
حضور  دیکھیے اس سل کے ساتھ میں بھی تو ہوں
حضور  دیکھیے اس سل کے ساتھ میں بھی تو ہوں




نہالِ عشقِ محمد ہے  بارور آزر
نہالِ عشقِ محمد ہے  بارور آزر
کہ شاخ شاخ یہاں بور کا  علاقہ ہے
کہ شاخ شاخ یہاں بور کا  علاقہ ہے




اسی چراغ نے روشن کیا  ستارۂ نور
اسی چراغ نے روشن کیا  ستارۂ نور
خمیرِ ذاتِ محمد ہے  استعارۂ نور
خمیرِ ذاتِ محمد ہے  استعارۂ نور




چمک رہی ہے سفینے کے  آئینے میں وہ موج
چمک رہی ہے سفینے کے  آئینے میں وہ موج
دمک  رہا ہے کہیں راہ میں کنارۂ نور
دمک  رہا ہے کہیں راہ میں کنارۂ نور




فقیر رات کی چادر سے چن  رہے ہوں گے
فقیر رات کی چادر سے چن  رہے ہوں گے
یہ  ریزہ ریزہ تبرک یہ پارہ پارۂ نور
یہ  ریزہ ریزہ تبرک یہ پارہ پارۂ نور




جب سے منظر میں در آیا  منظرِ عز العرب
جب سے منظر میں در آیا  منظرِ عز العرب
کُھل  گیا سارے زمانوں پر درِ عز العرب
کُھل  گیا سارے زمانوں پر درِ عز العرب




لکھ رہا ہُوں جس سے آزر  مدحِ ممدوحِ خُدا
لکھ رہا ہُوں جس سے آزر  مدحِ ممدوحِ خُدا
مل  گیا ہے مُجھ کو بھی اک شہ پرِ عز العرب
مل  گیا ہے مُجھ کو بھی اک شہ پرِ عز العرب




سنہری جالی کی روشنی سے محیط گنبد کی سبزگی تک
سنہری جالی کی روشنی سے محیط گنبد کی سبزگی تک
عجیب دربار ہے جسے سب زمانے حسرت سے دیکھتے ہیں
عجیب دربار ہے جسے سب زمانے حسرت سے دیکھتے ہیں


سطر 328: سطر 281:


جو لفظ نعت میں اظہار  ہونے لگتے ہیں
جو لفظ نعت میں اظہار  ہونے لگتے ہیں
سخن میں وہ ابد آثار  ہونے لگتے ہیں
سخن میں وہ ابد آثار  ہونے لگتے ہیں




ہر اک مرض کی دوا  مصطفےٰ کے ہاتھ میں ہے
ہر اک مرض کی دوا  مصطفےٰ کے ہاتھ میں ہے
شفا کا اصل پتا مصطفےٰ  کے ہاتھ میں ہے
شفا کا اصل پتا مصطفےٰ  کے ہاتھ میں ہے




یہ عین حق ہے سند میں  درود پڑھتے رہو
یہ عین حق ہے سند میں  درود پڑھتے رہو
ہمیشہ کفر کی رد میں  درود پڑھتے رہو
ہمیشہ کفر کی رد میں  درود پڑھتے رہو




اس لیے قافلۂ شوق نجف  جاتا ہے
اس لیے قافلۂ شوق نجف  جاتا ہے
راستہ یہ بھی مدینے کی  طرف جاتا ہے
راستہ یہ بھی مدینے کی  طرف جاتا ہے




خطیبِ اعظمِ حق کا خطاب  ہے اِمروز
خطیبِ اعظمِ حق کا خطاب  ہے اِمروز
اکٹھے ہوں گے عرب کے  جوان مسجد میں
اکٹھے ہوں گے عرب کے  جوان مسجد میں




آفاق کو چُھوتی ہُوئی  دَھن اُن کے لیے ہے
آفاق کو چُھوتی ہُوئی  دَھن اُن کے لیے ہے
وہ صدق ہیں آوازۂ کُن  اُن کے لیے ہے
وہ صدق ہیں آوازۂ کُن  اُن کے لیے ہے




لکھتا ہُوں غزل اُن کی  اطاعت کے لیے مَیں
لکھتا ہُوں غزل اُن کی  اطاعت کے لیے مَیں
یہ نعت ، یہ لہجہ ، یہ  سَخُن اُن کے لیے ہے
یہ نعت ، یہ لہجہ ، یہ  سَخُن اُن کے لیے ہے




بھرے ہیں رنگ نئی  واردات کی میں نے
بھرے ہیں رنگ نئی  واردات کی میں نے
بدل  کے رکھ دی ہے تصویر نعت کی میں نے
بدل  کے رکھ دی ہے تصویر نعت کی میں نے




ہر لفظ سند ہے مرے سچل  مرے سائیں
ہر لفظ سند ہے مرے سچل  مرے سائیں
یہ نعت کی حد ہے مرے  سچل مرے سائیں
یہ نعت کی حد ہے مرے  سچل مرے سائیں




جاں ”ح“ کی حمایت کے  لیے دی گئی مجھ کو
جاں ”ح“ کی حمایت کے  لیے دی گئی مجھ کو
دل ”م“ کی مد ہے مرے  سچل مرے سائیں
دل ”م“ کی مد ہے مرے  سچل مرے سائیں




اس تیرگی میں راہ کی  پہچان کے لیے
اس تیرگی میں راہ کی  پہچان کے لیے
اس تیرگی میں راہ کی  پہچان کے لیے
اس تیرگی میں راہ کی  پہچان کے لیے




مجھ سے یوں آپ کی تعریف  لکھی جاتی ہے
مجھ سے یوں آپ کی تعریف  لکھی جاتی ہے
نعت کہنے کی اجازت مجھے  دی جاتی ہے
نعت کہنے کی اجازت مجھے  دی جاتی ہے




علم تقسیم جو کرتا ہے  عدد مانگ ان سے
علم تقسیم جو کرتا ہے  عدد مانگ ان سے
اور عدد مانگ کے پھر اس کی  سند مانگ ان سے
اور عدد مانگ کے پھر اس کی  سند مانگ ان سے




حدیث  اِک عِلم ہے جِس عِلم کی اپنی ریاضی ہے
حدیث  اِک عِلم ہے جِس عِلم کی اپنی ریاضی ہے
یہاں ہر حاشیے پر حاشیہ  بَردار کُھلتے ہیں
یہاں ہر حاشیے پر حاشیہ  بَردار کُھلتے ہیں




آپ ہی اِبتدا آپ ہی اِنتہا ہَست اور بُود کے اِن خد و خال کی
آپ ہی اِبتدا آپ ہی اِنتہا ہَست اور بُود کے اِن خد و خال کی
آپ حُسنِ اَزل آپ حُسنِ اَبد آپ سا کون ہے باخُدا سیّدی
آپ حُسنِ اَزل آپ حُسنِ اَبد آپ سا کون ہے باخُدا سیّدی




مری آرزو ترا عشق ہے کسی شکل میں اسے ڈھال دے
مری آرزو ترا عشق ہے کسی شکل میں اسے ڈھال دے
کہ نکل سکیں مرے خال و خدا مدد اے رسولِ خدا مدد
کہ نکل سکیں مرے خال و خدا مدد اے رسولِ خدا مدد


سطر 411: سطر 348:


سخن وری میں ہدایت کا  حق ادا کیا جائے
سخن وری میں ہدایت کا  حق ادا کیا جائے
لکھو وہ نعت کہ مدحت کا  حق ادا کیا جائے
لکھو وہ نعت کہ مدحت کا  حق ادا کیا جائے




وہ رحمتوں کے خزینے سے  ہو کے آتا ہے
وہ رحمتوں کے خزینے سے  ہو کے آتا ہے
جو خواب میں بھی مدینے  سے ہو کے آتا ہے
جو خواب میں بھی مدینے  سے ہو کے آتا ہے




میں اکیلا تھا زمیں پر  کہکشاں تک لے گیا
میں اکیلا تھا زمیں پر  کہکشاں تک لے گیا
آسمانی شخص آیا آسماں  تل لے گیا
آسمانی شخص آیا آسماں  تل لے گیا


سطر 429: سطر 363:


سخن کرنا عجب انداز میں  تُم
سخن کرنا عجب انداز میں  تُم
غزل میں بھی غریقِ نعت  رہنا
غزل میں بھی غریقِ نعت  رہنا




مدحت میں صرف ان کی عطا  کام آئے گی
مدحت میں صرف ان کی عطا  کام آئے گی
جلتا نہیں چراغ ہنر ان  کے سامنے
جلتا نہیں چراغ ہنر ان  کے سامنے




نعت کہتے ہوئے کب تھا  مجھے اندازہ نعت
نعت کہتے ہوئے کب تھا  مجھے اندازہ نعت
ہر سخن ساز پہ کھلتا  نہیں دروازہ نعت
ہر سخن ساز پہ کھلتا  نہیں دروازہ نعت




سچ ہے مگر یہ کتنی  نرالی حدیث ہے
سچ ہے مگر یہ کتنی  نرالی حدیث ہے
اولاد دے گی باپ کوگالی  حدیث ہے
اولاد دے گی باپ کوگالی  حدیث ہے




خدا تک اب مجھے سرکار  لے کے جائیں گے
خدا تک اب مجھے سرکار  لے کے جائیں گے
خداکا شکر کہ سرکار تک  پہنچ گیا میں
خداکا شکر کہ سرکار تک  پہنچ گیا میں


سطر 457: سطر 386:


مرے لیے تو مبارک ہے  چشمِ نم کی مثال
مرے لیے تو مبارک ہے  چشمِ نم کی مثال
کہ اس ندی میں دعا کے  چراغ بہتے ہیں
کہ اس ندی میں دعا کے  چراغ بہتے ہیں




میں ایسی آتشِ سر سبز  کی تلاش میں ہوں
میں ایسی آتشِ سر سبز  کی تلاش میں ہوں
جو میرے دل میں فروزاں  کرے شرارۂ نور
جو میرے دل میں فروزاں  کرے شرارۂ نور




میں عشق کو ترتیل تک تو  لے جاؤں
میں عشق کو ترتیل تک تو  لے جاؤں
کہ لفظ لفظ سے تفسیرِ  نور کھیچ سکے
کہ لفظ لفظ سے تفسیرِ  نور کھیچ سکے




نہالِ عشقِ محمد ہے  بارور آزر
نہالِ عشقِ محمد ہے  بارور آزر
کہ شاخ شاخ یہاں بور کا  علاقہ ہے
کہ شاخ شاخ یہاں بور کا  علاقہ ہے




کس نے دن کے طاقچے کو  رنگ بخشا سرمئی
کس نے دن کے طاقچے کو  رنگ بخشا سرمئی
کون صحرا کو سنہری  سائباں تک لے گیا
کون صحرا کو سنہری  سائباں تک لے گیا




بس خط میں نعت نذر کروں  گا جو ہو قبول
بس خط میں نعت نذر کروں  گا جو ہو قبول
خط لکھ رہا ہُوں صاحبِ  اُم الکتاب کو
خط لکھ رہا ہُوں صاحبِ  اُم الکتاب کو




حرفِ علت کوگرانے کی  ضرورت نہ رہی
حرفِ علت کوگرانے کی  ضرورت نہ رہی
اس  نے ترتیب دیے آکے جب اوزانِ عرب
اس  نے ترتیب دیے آکے جب اوزانِ عرب




میں نِبھاؤں گا محمّد  کے کرم سے اِس کو
میں نِبھاؤں گا محمّد  کے کرم سے اِس کو
وعدہِ عِشق کی صُورت ہے  مُجھے وعدہِ نَعت
وعدہِ عِشق کی صُورت ہے  مُجھے وعدہِ نَعت




ملا تھا تُجھ سے جو آسماں کے دبیز پردے کی چھاؤنی میں
ملا تھا تُجھ سے جو آسماں کے دبیز پردے کی چھاؤنی میں
دِکھا دیا سب کو اُس کا چہرہ،بتا دیا سب کو راز اُس کا
دِکھا دیا سب کو اُس کا چہرہ،بتا دیا سب کو راز اُس کا




کُھلا ہے کیسا عجیب منظر ، اُٹھایا جانے لگا ہے لنگر
کُھلا ہے کیسا عجیب منظر ، اُٹھایا جانے لگا ہے لنگر
جزیرۂ دل سے بحرِ جاں میں اُتر رہا ہے جہاز اس کا
جزیرۂ دل سے بحرِ جاں میں اُتر رہا ہے جہاز اس کا


سطر 511: سطر 429:


قدم پڑے ہیں مدینے کی  خاک پر کس کے
قدم پڑے ہیں مدینے کی  خاک پر کس کے
کہ چپہ چپہ زمیں طور کا  علاقہ ہے
کہ چپہ چپہ زمیں طور کا  علاقہ ہے




گلے لگاو کہ خوشبو ہو  منتقل آزر
گلے لگاو کہ خوشبو ہو  منتقل آزر
کہ آنے والا مدینے سے  ہو کے آتا ہے
کہ آنے والا مدینے سے  ہو کے آتا ہے




مدت سے ہوں میں منتظرِ  خاکِ مدینہ
مدت سے ہوں میں منتظرِ  خاکِ مدینہ
پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ  خاکِ مدینہ
پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ  خاکِ مدینہ




خواہش ہے کہ اس خاک میں  تدفین ہو میری
خواہش ہے کہ اس خاک میں  تدفین ہو میری
کھلتا ہے اگر مجھ پہ  درِ خاکِ مدینہ
کھلتا ہے اگر مجھ پہ  درِ خاکِ مدینہ




اسم پڑھتے ہوئے ہونٹوں  نے مرا بوسہ لیا
اسم پڑھتے ہوئے ہونٹوں  نے مرا بوسہ لیا
پل میں اوقات بڑھا دی  مری پیشانی کی
پل میں اوقات بڑھا دی  مری پیشانی کی




اک روز پہنچ جائیں گے  تجھ در پہ یقیناً
اک روز پہنچ جائیں گے  تجھ در پہ یقیناً
آنکھوں میں تری راہ گزر  رکھے رہیں گے
آنکھوں میں تری راہ گزر  رکھے رہیں گے


براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)