آپ «زمرہ:اعظم چشتی» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 5: | سطر 5: | ||
==== شخصیت و فن ==== | ==== شخصیت و فن ==== | ||
حسان پاکستان کے لقب سے پکارے جانے والے پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا، مستند ومعتبر، نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔ قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔ علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز آپ کی خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔ | حسان پاکستان کے لقب سے پکارے جانے والے پاکستان کے خوش لحن و خوش نوا، مستند ومعتبر، نعت گو و نعت خواں محمد اعظم چشتی عشق رسالت مآب کی ایسی آبشار تھے کہ اس کے چھینٹے جہاں گرے ، نعت کے چشمے پھوٹے اور یہ آبشار اپنی دریا میں ملنے سے پہلے خطہ ہند کو نعت سے سیراب کر گئی ۔ قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔ علماء مشائخ ، نعت خوانان، نعت گو شعراء، رامش گران اور سامعین الغرض ہر شخص نے ان کی نعت خوانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہر دل ِ گداز آپ کی خوش الحانی و مقناطیست کا اسیر ہوا۔ | ||
محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102 میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ مثنوی روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔ آپ کے والد 1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔ | محمد اعظم چشتی ایک درویش صفت صوفی و عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102 میں پیدا ہوئے۔ان کے والدِ گرامی جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے کے بار ے مشہور ہے کہ وہ مثنوی روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔ آپ کے والد 1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔ | ||
انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ | انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ حدیث،تفسیر قرآن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اعظم چشتی کو علم ِقُرآن، علمِ حدیث، فقہ، منطق ،فلسفہ جیسے علوم کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو ، عربی ا ور فارسی پر دسترس حاصل تھی۔ والد صاحب کے آستانے سلسلہ چشتیہ نظامی چکوڑی شریف ضلع گجرات میں اس وقت کے گدی نشین حضرت پیر سید غلام سرور شاہ چکوڑوی جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ کو اپنے آستاں سے بے پناہ محبت کیوجہ سے باقاعدگی کے ساتھ چکوڑی شریف حاضری دیتے اور شیخ کی فیوض و برکات سے مُستفید ہوتے۔انہیں اپنی مرشد کی طرف سے خلافت بھی عطا ہوئی لیکن کبھی کوئی مرید نہ کیا | ||
=====نعت خوانی کا سفر :===== | =====نعت خوانی کا سفر :===== | ||
منظور الکونین صاحب نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے انہیں گود ہی میں ایسا اکرام ملا تھا ۔ محمد اعظم چشتی کے بارے سید منظور الکونین کا یہ دعوی حقیقت پر مبنی ہے ۔ محمد اعظم چشتی نے چار سال کی عمر میں پہلی نعت مبارکہ پڑھی ۔ | |||
[اس کے بعد نعت خوانی کا مزید سفر بھی لکھنا ہوگا ] | |||
===== اعظم چشتی کا دور نعت خوانی ===== | ===== اعظم چشتی کا دور نعت خوانی ===== | ||
محمد اعظم چشتی کا دور | محمد اعظم چشتی کا دور نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ نعمت ِ پاکستان سے پہلے انہوں نے امرتسر کی فضاوں کو اپنے درودی نغمات سے مہکایا ۔ معروف شاعر و ادیب شہزاد احمد، لاہور فرماتے ہیں کہ ہم امرتسر میں رہتے تھے جہاں نعت کی سرگرمیاں عروج پر اور مساجد پر رونق تھیں۔ امرتسرمیں جان محمد کی بہت شہرت تھی ۔ وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے ۔ لیکن لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ محمد اعظم چشتی نام کا ایک اس سے بھی اچھا نعت خواں موجود ہے ۔ پھر ہماری خوش قسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو سعادتیں نصیب ہوئیں ان میں ایک سعادت یہ بھی تھی کہ ہم نے اعظم چشتی کو سنا | ||
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔ جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو جان محمد امرتسری کے ساتھ ساتھ یہ دور بابا محمد علی شکر گڑھی المعروف ٹربئی والے ، سرفراز پاپا، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی، بابا محمد علی ملتانی، غلام محی الدین ، محمدیونس اور کچھ اور بزرگ نعت خوانوں کا دور آخر تھا ۔ پھر نعت خوانی کے منظر نامے پر اعظم چشتی ایک لمبے عرصے کے لیے آئیکون کی حیثیت سے جلوہ افروز رہے اور پاکستان کا گوشہ گوشہ ان کی نعت خوانی سے مستفیض ہوا۔ ابتدائی دور ریڈیو کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتیں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی کی کیف آفریں آواز سے سیراب ہوتیں رہیں ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نعت خوانوں کے نام اور شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے وارد ہوئے ۔ | |||
محمد علی | |||
===== کاروباری زندگی ===== | ===== کاروباری زندگی ===== | ||
لاہور منتقل ہونے کے بعد کاچھو پورہ کے ایک پیر بھائی اور دوست امین چشتی کے ساتھ باہمی شراکت داری کی بنیاد پر برانڈرتھ روڈ پر سٹیل کا کاروبار شروع کیا جس میں امین چشتی ہی زیادہ متحرک رہے ۔ یہ کاروبار 1952 تک چلا بعد ازاں مزاج و طبیعت کی بنا پر علیحدگی اختیار کرلی -1952 میں | لاہور منتقل ہونے کے بعد کاچھو پورہ کے ایک پیر بھائی اور دوست امین چشتی کے ساتھ باہمی شراکت داری کی بنیاد پر برانڈرتھ روڈ پر سٹیل کا کاروبار شروع کیا جس میں امین چشتی ہی زیادہ متحرک رہے ۔ یہ کاروبار 1952 تک چلا بعد ازاں مزاج و طبیعت کی بنا پر علیحدگی اختیار کرلی -1952 میں لاہور کارپٹ کے نام سے عثمان گنج اور فاروق گنج میں اپنا کاروبار شروع کیا اور ایک منیجر فروز صاحب کو بھی ملازمت پر رکھا ۔ کاروبار پھلتا پھولتا رہا ۔ ساٹھ کی دہائی میں آپ کا قالینوں کا کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ اور اس فیکٹری کے بنے ہوئے قالین اپنی نفاست اور خوبصورتی کے باعث افغانستان اور ایران تک جاتے تھے۔ اتنے پھیلے ہوئے کاروبار کے دور میں سبھی بچے ابھی نابالغ اور کم سَن تھے جو کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں تھے ۔ معاونت کے لیے فیروز نامی ایک صاحب کو مینجر بھی رکھا ہوا تھا لیکن کاروباری مصروفیات کی وجہ محافل نعت سے دوری آن پڑی ۔ اِکا دُکا محفل میں نعت سرائی کے لیے جاتے۔ یہ صورتحال ان کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی کہ کاروبار کرتے ہیں تو سرکار کی مدح سرائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور اگر محافل میں تسلسل سے جاتے ہیں تو کاروبار متاثر ہوتا ہے داتا دربار کی حاضری میں بھی وقفہ پڑ گیا ۔راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جب داتا دربار حاضری کے لیے گئے تو وہاں ایک مجذوب نے آپکو بلایا اور مخاطب ہوا کہ "اعظم آجکل کتھے ہوناں ایں" [ اعظم آج کل کدھر ہوتے ہو ]۔ آپ نے اپنی کاروباری مصروفیات کا ذکر کیا تو مجذوب نے کہا "اعظم تیرے لئی بارہ گاہ ِ رسالت مآب تو پیغام اے کہ تیرا کم صرف نعت خوانی کرنا اے ۔ ہور کج نئیں[ اعظم تمہارے لیے بارگاہ رسالت سے پیغام ہے کہ تمہارا کام صرف نعت خوانی کرنا ہے ۔ اور کچھ نہیں ]۔آپ نے بڑے ادب سے کہاں جی انشاء اللہ یہ کاروبار 1965 تک چلتا رہا ۔ پھر مکمل خدمت ِ نعت میں مکمل یکسوئی کے لیے لاہور کارپٹ اپنے ایک قریبی دوست شیخ احمد حسن کے ہاتھ فروخت کردی ۔ وہ فیکٹری لاہور ش شیخ احمد حسن تو انتقال کرچکے ہیں لیکن وہ اپنی اولاد کے لیے کروڑوں نہیں اربوں کا بزنس اور جائیدادیں چھوڑ کر گئے ہیں ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پیر حضرت محبوب عالم ہر سال پنے والد گرامی کے عرس مبارکہ پراعظم چشتی کو مدعو کیا کرتے ایک دو بار آپ نہ جا سکے توپیر صاحب نے مریدین کو پیغام دیا کہ اعظم چشتی کو ہر صورت لاو۔ آپ جب وہاں پہنچے تو حضرت محبوب عالم نے مخاطب ہو کر کہا اعظم چشتی آپکے لیے میرے پاس پیغام آیا ہے کہ اعظم چشتی سے کہوں کہ خود کو نعت خوانی کے لیے وقف کرے - [حوالہ : جمشید اعظم چشتی سے نعت ورثہ کی گفتگو ] | ||
دونوں روائیتوں میں سے ممکن ہے کوئی ایک درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں درست ہوں ۔ لیکن خلاصہ یہ ہے کہ کاروبار سے بے رغبتی کسی اشارے پر تھی ۔ | دونوں روائیتوں میں سے ممکن ہے کوئی ایک درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں درست ہوں ۔ لیکن خلاصہ یہ ہے کہ کاروبار سے بے رغبتی کسی اشارے پر تھی ۔ | ||
سطر 118: | سطر 54: | ||
===== پاکستان سے محبت ===== | ===== پاکستان سے محبت ===== | ||
پاکستان | آزادی ِ پاکستان کے جلسے و جلوس میں اعظم چشتی نے بھر پور کردار ادا کیا اور جلسے جلسوں میں نعتیں پڑھ کر آزادیِ پاکستان کی تحریک کو عشقِ مصطفیٰﷺ کی شمع سے خوب روشن کیا۔ پاکستان سے محبت کا یہ عالم دیکھیے کہ کئی ایک ملی نغمے اور ترانے بھی لکھے اور پڑھے ۔ آپ نے جہاں نعت گوئی و نعت خوانی کی، وہاں ضرورت پڑنے پر ملک کی محبت میں ملی نغمے و ترانے بھی لکھے اور پڑھے جس سے پاکستان سے آپ کی محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ | ||
نعت ِ پاکستان کے ایک بہت معروف نعت خواں "اختر حسین قریشی" ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ 1993ء میں کوثر نیازی کی قیادت میں مَیں اور اعظم چشتی صاحب "رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس "میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئے۔ جب واپسی ہوئی تو جہاز سے اترتے وقت اعظم چشتی صاحب جب آخری سیڑھی پر پہنچے تو کچھ کلمات پڑھنے لگے میں بڑے غور سے اُنہیں دیکھ رہا تھا اور کچھ دیر بعد سجدہ میں گر گئے اور زمیں کو چوم لیا۔ | |||
پاکستان کے ایک بہت معروف نعت خواں "اختر حسین قریشی" ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ 1993ء میں کوثر نیازی کی قیادت میں مَیں اور اعظم چشتی صاحب "رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس "میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئے۔ جب واپسی ہوئی تو جہاز سے اترتے وقت اعظم چشتی صاحب جب آخری سیڑھی پر پہنچے تو کچھ کلمات پڑھنے لگے میں بڑے غور سے اُنہیں دیکھ رہا تھا اور کچھ دیر بعد سجدہ میں گر گئے اور زمیں کو چوم لیا۔ | |||
=====گھریلو زندگی ===== | =====گھریلو زندگی ===== | ||
کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ، اخلاق حسنہ سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب تھے ۔ وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں، ایک زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے والے شوہر اور اولاد کے بہترین تربیت کرنے والے کامیاب باپ ثابت ہوئے ۔ | کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ، اخلاق حسنہ سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب تھے ۔ وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں، ایک زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے والے شوہر اور اولاد کے بہترین تربیت کرنے والے کامیاب باپ ثابت ہوئے ۔ کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت کی کامرانی کی علامت ہے ۔ ان کے خانوادے میں اکثر بیٹے اور بیٹیاں نعت گوئی اور نعت خوانی سے منسلک ہیں ۔ یہ فیض صرف ایک نسل تک ہی نہ رہا اب تو آپ کے پوتے پوتیاں بھی گلشن نعت میں اپنے حصے کے پھول کھلا رہے ہیں ۔ اللہ رب الکریم نے آپ کو چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا | ||
کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت کی کامرانی کی علامت ہے ۔ ان کے خانوادے میں اکثر بیٹے اور بیٹیاں نعت گوئی اور نعت خوانی سے منسلک ہیں ۔ یہ فیض صرف ایک نسل تک ہی نہ رہا اب تو آپ کے پوتے پوتیاں بھی گلشن نعت میں اپنے حصے کے پھول کھلا رہے ہیں ۔ اللہ رب الکریم نے آپ کو چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا | |||
* دو بڑی بیٹیاں بشرِی اعظم ، عطیہ اعظم ہیں ۔ | * دو بڑی بیٹیاں بشرِی اعظم ، عطیہ اعظم ہیں ۔ | ||
سطر 190: | سطر 72: | ||
مسافر وہی اچھا جو مسافر خانے میں قیام تو کرے لیکن دھیان منزل کی طرف رکھے ۔ اعظم چشتی نے نہ صرف نعت گوئی و نعت خوانی سےاپنی آخرت کا ساماں کیا بلکہ اپنی آنے والوں نسلوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم بھی دیا کہ وہ اس کار ِ خیر سے منسلک رہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں زاہد ٹاون، کوٹ عبدالمالک میں ایک 11 کنالہ قطعہ اراضی خرید کر نعت اکیڈمی و لائبریری، مدرسے مسجد اور ہسپتال کے لیے وقف کر دیا ۔ اپنی زندگی کے بعد بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کے لیے اولاد کو وصیت فرما دی کہ میری تربت بھی یہیں بنائی جائے ۔ | مسافر وہی اچھا جو مسافر خانے میں قیام تو کرے لیکن دھیان منزل کی طرف رکھے ۔ اعظم چشتی نے نہ صرف نعت گوئی و نعت خوانی سےاپنی آخرت کا ساماں کیا بلکہ اپنی آنے والوں نسلوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم بھی دیا کہ وہ اس کار ِ خیر سے منسلک رہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں زاہد ٹاون، کوٹ عبدالمالک میں ایک 11 کنالہ قطعہ اراضی خرید کر نعت اکیڈمی و لائبریری، مدرسے مسجد اور ہسپتال کے لیے وقف کر دیا ۔ اپنی زندگی کے بعد بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کے لیے اولاد کو وصیت فرما دی کہ میری تربت بھی یہیں بنائی جائے ۔ | ||
گلشن نعت کا یہ چھتنار شجر 31 جولائی 1993ء بروز پیر وقت صبح 7:45 پر آغوش ِ زمین میں محو استراحت ہوا۔ آپ کا جنازہ داتا دربار کے امام | گلشن نعت کا یہ چھتنار شجر 31 جولائی 1993ء بروز پیر وقت صبح 7:45 پر آغوش ِ زمین میں محو استراحت ہوا۔ [ کیابیماری سے فوت ہوئے تھے؟ ] آپ کا جنازہ علامہ مقصود احمد قادری جو مسجد داتا دربار کے امام تھے نے قبرستان میانی صاحب میں پڑھایا اور دعا حضرت پیر کبیر علی شاہ نے کروائی۔ وصیت کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کو زاہد ٹاون ہی میں سپرد خاک کیا گیا ۔ | ||
آج کل یہاں جامعہ حسّان، اعظم چشتی ہسپتال، اعظم نعت اکیڈمی و لائبریری و مدرسہ پر کام جاری ہے ۔ | |||
۔ آپ کے خانوادہ میں بشریٰ اعظم، عطیہ اعظم، وجاہت حسین چشتی، ارشاد اعظم چشتی، یاسمین اعظم، جمشید اعظم چشتی، اسرار حسین چشتی شامل ہیں۔ | ۔ آپ کے خانوادہ میں بشریٰ اعظم، عطیہ اعظم، وجاہت حسین چشتی، ارشاد اعظم چشتی، یاسمین اعظم، جمشید اعظم چشتی، اسرار حسین چشتی شامل ہیں۔ | ||
مجموعہ ہائے کلام: | مجموعہ ہائے کلام: | ||
سطر 203: | سطر 84: | ||
==== محمد اعظم چشتی اور علم موسیقی ==== | ==== محمد اعظم چشتی اور علم موسیقی ==== | ||
علم موسیقی کے بارے "سید منظور الکونین " | علم موسیقی کے بارے "سید منظور الکونین " ہیں | ||
"علم موسیقی ایک قلز م ِ ذخار ہے جس کے کنارے کی گیلی ریت پر بھی ابھی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ۔ ہنوز خشک ریت اور ساحلی پتھروں پر حیرت اور استعجاب میں ڈوبے ہوئے یہی سوچ رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو اس بحر بے کراں کے شناور اور غواص تھے " [ منظور الکونین، نعت اور موسیقت، کتابی سلسلہ نعت نیوز ، شمارہ نمبر 4، ص 20 ] | "علم موسیقی ایک قلز م ِ ذخار ہے جس کے کنارے کی گیلی ریت پر بھی ابھی رسائی ممکن نہیں ہوسکی ۔ ہنوز خشک ریت اور ساحلی پتھروں پر حیرت اور استعجاب میں ڈوبے ہوئے یہی سوچ رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو اس بحر بے کراں کے شناور اور غواص تھے " [ منظور الکونین، نعت اور موسیقت، کتابی سلسلہ نعت نیوز ، شمارہ نمبر 4، ص 20 ] | ||
جو نسبت نعت گوئی کو فنون لطیفہ کی شاخ شاعری سے ہے درحقیت وہی تعلق نعت خوانی اور موسیقی کا بھی ہے ۔ جس طرح ایک نعت گو شاعر نعت کہتے ہوئے غزل کو مسلمان کرتا ہے ویسے ہی نعت خواں فن ِ گائیکی کو مشرف بہ عقیدت کرکے نعت خوانی میں ڈھالتا ہے ۔یاد رہے کہ ممانعت آلات ِ موسیقی کے استعمال پر ہے ۔ فقط گائیکی یا نغمہ سرائی | |||
جو نسبت نعت گوئی کو فنون لطیفہ کی شاخ شاعری سے ہے درحقیت وہی تعلق نعت خوانی اور موسیقی کا بھی ہے ۔ جس طرح ایک نعت گو شاعر نعت کہتے ہوئے غزل کو مسلمان کرتا ہے ویسے ہی نعت خواں فن ِ گائیکی کو مشرف بہ عقیدت کرکے نعت خوانی میں ڈھالتا ہے ۔یاد رہے کہ ممانعت آلات ِ موسیقی کے استعمال پر ہے ۔ فقط گائیکی یا نغمہ سرائی کی نہیں ۔ نغمہ سرائی اس وقت غلط ہو گی جب اشعار کا موضوع نا مناسب ہوگا ۔ صالح مضامین والے اشعار کی خوش الحانی اور تقدیسی نغمہ سرائی پر روک نہیں ۔ وگرنہ تو نعت خوانی ہی کی ممانعت قرار پا جائے ۔ اب اگر تقدیسی نغمہ سرائی یا نعت خوانی کا تعلق کسی فن سے قائم ہوتا ہےتو اس فن کو دائرہ ءِ شریعت میں رہتے ہوئے سیکھنا کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟ منظور الکونین تو مزید فرماتے ہیں | |||
" | |||
اور پھر آگے چل کے فرماتے ہیں | |||
" نعت خواں کے لیے ضروری ہے کہ خوش الحان ہونے ساتھ ساتھ وہ موسیقی سے اس حد تک واقف ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی طبعزاز طرزوں میں پڑھ سکے نہ کہ فلمی گانوں کی طرزوں پر۔ اور طبعزاد پڑھنے کے لیے کلاسیکی موسیقی اس طرح آنی چاہیے کہ کم از کم دس راگ اور زیادہ سے زیادہ پچاس راگوں پر عبور حاصل ہو کیونکہ نعت خوانی باقاعدہ ایک تسلیم شدہ فن ہے " | " نعت خواں کے لیے ضروری ہے کہ خوش الحان ہونے ساتھ ساتھ وہ موسیقی سے اس حد تک واقف ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی طبعزاز طرزوں میں پڑھ سکے نہ کہ فلمی گانوں کی طرزوں پر۔ اور طبعزاد پڑھنے کے لیے کلاسیکی موسیقی اس طرح آنی چاہیے کہ کم از کم دس راگ اور زیادہ سے زیادہ پچاس راگوں پر عبور حاصل ہو کیونکہ نعت خوانی باقاعدہ ایک تسلیم شدہ فن ہے " | ||
محمد اعظم چشتی کی آواز نے | نعت خوانی کے لیے موسیقی کا کتنا علم ہونا چاہیے ؟ یہ بحث تو جاری رہے گی ۔ کچھ احباب "سید منظور الکونین" کی رائے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں ۔ ان کی بات اگر مان بھی لی جائے تو فن گائیکی کے مبادیات اور رموز و فن سے شناسائی نعت خوانی کے لیے اگر جزو لازم نہیں تو نہ سہی لیکن نعت خوانی میں ان کی اہمیت سے انکار حسن ِ نعت خوانی کے فہم و ادراک سے لا علمی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس میں کیا شک کہ حسن توازن میں چھپا بیٹھا ہے ۔ اگر نعت خوانی کو صرف فن سمجھ لیا جائے تو نعت خوانی کی روح متاثر ہوتی ہے اور اگر نعت خوانی سے فن ِ گائیکی کو نکال دیا جائے تو اس کے صوتی آہنگ میں ایسی کجی رہ جائے گی جو اہل فن اور لطیف حسِ جمال رکھنے والے سامعین کی سمع خراشی کا سبب بنے گی ۔ | ||
محمد اعظم چشتی کی آواز نے ہمیشہ صبائے نعت کی دوش پر سفر کیا اور وہ روایتی و بازاری نغمہ سرائی سے دور رہے لیکن وہ فن ِ گائیکی کے تمام نشیب و فراز اور باریکیوں کے شناسا و تربیت یافتہ تھے ۔ ملک پاکستان کے کئی مشہور گویوں سے ان کی سنگت اور دوستانہ رہا اور آ پ نے اہل فن سے کسب فیض کیا ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ محمد اعظم چشتی وہ پہلے نعت خواں جنہوں نے نعت خوانی کو ایک فن کی حیثیت سے روشناس کرایا ۔ یہ ان کا امتیاز ہے کہ انہوں نے ایک بازاری و درباری فن کو اتنا پاکیزہ بنا دیا کہ وہ نعت خوانی کی صورت میں عرفان کا وسیلہ ہوگیا ۔ فن ِ گائیکی میں ان کےباقاعدہ اُستاد بڑے غلام علی خان ہوئے جو پاکستان چھوڑ کر انڈیا واپس چلے گئے،اُس کے بعدانہوں نے اُستاد برکت علی خاں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ یہاں پھر "سید منظور الکونین" کی رائے پیش کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں | |||
"میرے نعت خوانی کے ابتدائی دور میں نعت کے حوالے سے جو بڑے بڑے نام تھے ان میں محمد اعظم چشتی مرحوم سرخیل نعت خوانان تھے ۔ علم و ادب کے میدان میں بھی یکتا تھے اور انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی ہوئی تھی اور ان کے انداز کا باقاعدہ ایک School of Thought بن گیا تھا ۔ " | "میرے نعت خوانی کے ابتدائی دور میں نعت کے حوالے سے جو بڑے بڑے نام تھے ان میں محمد اعظم چشتی مرحوم سرخیل نعت خوانان تھے ۔ علم و ادب کے میدان میں بھی یکتا تھے اور انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی ہوئی تھی اور ان کے انداز کا باقاعدہ ایک School of Thought بن گیا تھا ۔ " | ||
اعظم چشتی چونکہ نعت خوان کے حوالے سے جانے جاتے تھے تو عوامی محافل میں یہ بتانا کہ وہ گویوں سے سیکھے ِ ہوئے ہیں ایسا قابل قبول نہ ہوتا اور یہ کہناکہ میری طبع ہی میری اُستاد ہےتکبر کی نشانی سمجھا جاتا اس لیے نعت سے منسلک ایک بزرگ حکیم فضل الٰہی کی صحبت بھی اختیار کی۔[ حوالہ : نعت ورثہ کی ارشاد اعظم چشتی سے ایک گفتگو ] حکیم فضل الٰہی کا شمار پاکستان کے عظیم استاد نعت خوانوں میں ہوتا ہے جو لاہور ہی میں پیدا ہوئے ۔ | |||
یہ عطیہ خداوندی تھا کہ محمد اعظم چشتی نے کبھی گلوکاری نہ کی لیکن اس اس شعبے کے نابغہ روزگار شخصیات بھی آپ کے فن کی مداح رہیں ۔آپ کے حلقہ احباب میں فریدہ خانم و نور جہاں اکثر محافل و مجالس میں آپکو مدعو کرتیں- مہدی حسن خاں صاحب جب لاہور منتقل ہوئے تو گاہے بگاہے آپکو ملنے گھر آتے ۔ شام چوراسی گھرانہ سے آپکے بہت گہرے تعلقات تھے استاد سلامت علی خاں استاد برکت علی خاں اور حسین بخش گلو آپکی خوش الحانی و فن کے قدر دان تھے ۔ -پٹیالہ گھرانہ سے استاد امانت علی خاں اور استاد فتح علی خاں آپکو گھر اکثر مدعو کرتے اور ماہ محرم و ربیع الول میں نعت مبارکہ سنتے۔ استاد نصرت فتح علی خاں ہمیشہ اپنے والد فتح علی خان و چچا استاد مبارک علی خاں کی برسی کے موقع پر آپکوو مدعو کرتے-غزل خواں غلام علی ،عالم لوہار ،شوکت علی سے غزلیں سنی اور انہیں اپنی نعت سے ان کی سماعتوں کو فیض یاب کیا ۔ | |||
فن و عقیدت کا یہ میل جول نعت خوانی کے لیے اس لحاظ سے خوش آئند رہا کہ جہاں اعظم چشتی فن ِ موسیقی کی اہم شخصیات سے رابطے میں رہ کر اپنے ہنر کے لیے مہمیز لیتے رہیے وہیں ان گلوکاروں کو نعت سے بھی روشناس کراتے رہے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نور جہاں اور سعید ہاشمی صاحب نے مل کر نعتیں پڑھیں ۔ | |||
====== گلوکاروں کی آراء====== | ====== گلوکاروں کی آراء====== | ||
سطر 257: | سطر 141: | ||
===== بزم ِ حسان کی بنیاد ===== | ===== بزم ِ حسان کی بنیاد ===== | ||
1952ء میں علامہ ریاض الدین سہروردی [امرتسری] جو عالم و شیخ ِ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نعت خوان و نعت گوبھی ہیں کہ تحریک پر لاہور کے محبان ِ نعت نے "بزم حسان" کی بنیاد رکھی ۔ محمد علی ظہوری بھی اس تحریک کا حصہ تھا ۔ عہدہ ءِصدارت کے لیے سب کی نظر اعظم چشتی پر ٹھہری ۔ انہوں نے بھی احتراما و عقیدتا یہ عہدہ قبول کر لیا ۔ نائب صدر کا عہدہ جان محمد امرتسری اور محمد علی ظہوری کو سونپا گیا۔[بحوالہ : جمشید چشتی سے نعت ورثہ کی ایک گفتگو حواشی : اعظم چشتی پر ایک ٹی وی پروگرام میں معروف ٹی وی اینکر تسلیم صابری نے اس تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر کے لیے صرف محمد علی ظہوری کا ذکر کیا ہے ] علامہ ریاض الدین سہروردی اس کے بزم کے "جنرل سیکریٹری" ٹھہرے ۔ [ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9] [ حواشی : ڈاکٹر شہزاد احمد نے 1952 میں بنائی جانے والی تنظیم کا نام "مرکزی جمعیت حسان " لکھا ہے ] ۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا ۔پہلا یوم حسان غالبا "جامع مسجد مائی لاڈو، لاہور" میں منعقد ہوا ۔ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9]۔ 1955 میں علامہ ریاض الدین سہروردی کے کراچی چلے جانے کے بعد | 1952ء میں علامہ ریاض الدین سہروردی [امرتسری] جو عالم و شیخ ِ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نعت خوان و نعت گوبھی ہیں کہ تحریک پر لاہور کے محبان ِ نعت نے "بزم حسان" کی بنیاد رکھی ۔ محمد علی ظہوری بھی اس تحریک کا حصہ تھا ۔ عہدہ ءِصدارت کے لیے سب کی نظر اعظم چشتی پر ٹھہری ۔ انہوں نے بھی احتراما و عقیدتا یہ عہدہ قبول کر لیا ۔ نائب صدر کا عہدہ جان محمد امرتسری اور محمد علی ظہوری کو سونپا گیا۔[بحوالہ : جمشید چشتی سے نعت ورثہ کی ایک گفتگو حواشی : اعظم چشتی پر ایک ٹی وی پروگرام میں معروف ٹی وی اینکر تسلیم صابری نے اس تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے نائب صدر کے لیے صرف محمد علی ظہوری کا ذکر کیا ہے ] علامہ ریاض الدین سہروردی اس کے بزم کے "جنرل سیکریٹری" ٹھہرے ۔ [ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9] [ حواشی : ڈاکٹر شہزاد احمد نے 1952 میں بنائی جانے والی تنظیم کا نام "مرکزی جمعیت حسان " لکھا ہے ] ۔ اعظم چشتی کی صدارت میں ملک کے ہر شہر میں بزمِ حسّان کے تحت یومِ حسّان اور محافلِ نعت کا اٹوٹ سلسلہ شروع ہوگیا ۔پہلا یوم حسان غالبا "جامع مسجد مائی لاڈو، لاہور" میں منعقد ہوا ۔ حوالہ : ڈاکٹر شہزاد احمد کراچی ، آئینہ ریاض سہروری ، ص 9]۔ 1955 میں علامہ ریاض الدین سہروردی کے کراچی چلے جانے کے بعد ؟؟؟ تک فروغ نعت کے لیے یہ پاکستان کی واحد تنظیم رہی ۔ | ||
===== پاکستان جمعیت حسان ===== | ===== پاکستان جمعیت حسان ===== | ||
سطر 267: | سطر 148: | ||
==== احباب کی آراء ==== | ==== احباب کی آراء ==== | ||
قاری محمد یونس قادری | =====قاری محمد یونس قادری لاہور: ===== | ||
"نعت سنتِ الٰہی ہے۔ نعت سعادت دا رین ہے۔ نعت درِ حبیب پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ نعت کے لیے صرف جسم کی پاکیزگی ضروری نہیں بلکہ روح کی طہارت بھی ضروری ہے۔ ذکرِ مصطفےٰ کے لیے جذبہ باوضو اور حرفِ تقدس کی ردا اوڑھے نہ ہوں تو نعت ہونی ہی نہیں چاہیے ۔ جانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی حرفِ تقدس، طہارت اور نفاست کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لباس میں نفاست، کردار میں طہارت اور کلام میں لطافت تھی۔ آپ نے نعت خوانوں کو ایک معیار عطا کیا اور نعت خوانی کے ایسے اسلوب دیے جو کہ نعت خوانی کی بنیاد ہیں" | "نعت سنتِ الٰہی ہے۔ نعت سعادت دا رین ہے۔ نعت درِ حبیب پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ نعت کے لیے صرف جسم کی پاکیزگی ضروری نہیں بلکہ روح کی طہارت بھی ضروری ہے۔ ذکرِ مصطفےٰ کے لیے جذبہ باوضو اور حرفِ تقدس کی ردا اوڑھے نہ ہوں تو نعت ہونی ہی نہیں چاہیے ۔ جانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی حرفِ تقدس، طہارت اور نفاست کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لباس میں نفاست، کردار میں طہارت اور کلام میں لطافت تھی۔ آپ نے نعت خوانوں کو ایک معیار عطا کیا اور نعت خوانی کے ایسے اسلوب دیے جو کہ نعت خوانی کی بنیاد ہیں" | ||
===== دیگر احباب ===== | |||
اختر حسین قریشی لاہور: میں نے شاگردی کے لیے محمد علی ظہوری صاحب کے دست مبارک پر بیعت کی لیکن میرا دل ہمیشہ اعظم چشتی کا مداح رہا ،میں ایک کم علم و کم فہم انسان، اعظم چشتی کے فن نعت اور نعت خوانی پر کیا بات کروں وہ ایک نعت خوانی کی عظیم درسگاہ تھے۔ ایک دفعہ میں ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر کے سٹوڈیو میں موجود تھا جہاں اعظم چشتی بھی ساتھ تھے تو کوئی نعت خواں نعت مبارکہ کی ریکارڈنگ کے لیے آیا تو یہ کلام پڑھنا شروع کیا؛ "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " تو پروڈیوسر و نعت خواں عبدالشکور بیدل نے اُسے پکڑا اور سٹوڈیو میں لے آئے اور کہا کہ جب تک اعظم چشتی ہے ہمیں اور کوئی نعت خواں اُن جیسا یا کم تر نہیں چاہیے ہاں اگر کوئی اُن سے اچھا ہو تو آئے۔ یہ بات سن کر مجھے اعظم چشتی صاحب کے مقام کا پتہ چلا۔ عبدالشکور بیدل ماتورِنعت خوانی میں بہت سخت رویہ رکھتے اور فقط ایسے مستند نعت خواں کو نعت مبارکہ پڑھنے کی اجازت دیتے جو معیارِ نعت سے آشنا ہوتا ۔ | |||
محمد علی ظہوری : آپ بیان کرتے ہیں کہ نعت گوئی سے زیادہ ان کی نعت خوانی کے انداز میں ایک انفرادیت ہے۔ بیاج کے بغیر تاویر نعت خوانی اور کسی مصرعہ پر گرہ لگانے میں ان کی ادائیگی کے جوہر زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ خوش روئی، خوش گوئی اور خوش پوشاکی کی ان تینوں صفات کا کسی ایک شخص میں جمع ہونا غیر معمولی بات ہے۔ | |||
منیر ہاشمی ملتان: ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔ دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔ | |||
سید منظور الکونین راولپنڈی: جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔ | |||
اختر بزمی راولپنڈی : میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ آپ کی شخصیت پر کوئی رائے دوں ، نعت خوانی ہو یا شخصیت اپنی مثال آپ ہی تھے کوئی دوسرا مثل اعظم چشتی نہ تھا نہ ہوگا ۔ | |||
اختر حسین قریشی | |||
میں نے شاگردی کے لیے محمد علی ظہوری صاحب کے دست مبارک پر بیعت کی لیکن میرا دل ہمیشہ اعظم چشتی کا مداح رہا ،میں ایک کم علم و کم فہم انسان، اعظم چشتی کے فن نعت اور نعت خوانی پر کیا بات کروں وہ ایک نعت خوانی کی عظیم درسگاہ تھے۔ ایک دفعہ میں ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر کے سٹوڈیو میں موجود تھا جہاں اعظم چشتی بھی ساتھ تھے تو کوئی نعت خواں نعت مبارکہ کی ریکارڈنگ کے لیے آیا تو یہ کلام پڑھنا شروع کیا؛ "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " تو پروڈیوسر و نعت خواں عبدالشکور بیدل نے اُسے پکڑا اور سٹوڈیو میں لے آئے اور کہا کہ جب تک اعظم چشتی ہے ہمیں اور کوئی نعت خواں اُن جیسا یا کم تر نہیں چاہیے ہاں اگر کوئی اُن سے اچھا ہو تو آئے۔ یہ بات سن کر مجھے اعظم چشتی صاحب کے مقام کا پتہ چلا۔ عبدالشکور بیدل ماتورِنعت خوانی میں بہت سخت رویہ رکھتے اور فقط ایسے مستند نعت خواں کو نعت مبارکہ پڑھنے کی اجازت دیتے جو معیارِ نعت سے آشنا ہوتا ۔ | |||
محمد علی | |||
نعت گوئی سے زیادہ ان کی نعت خوانی کے انداز میں ایک انفرادیت ہے۔ بیاج کے بغیر تاویر نعت خوانی اور کسی مصرعہ پر گرہ لگانے میں ان کی ادائیگی کے جوہر زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ خوش روئی، خوش گوئی اور خوش پوشاکی کی ان تینوں صفات کا کسی ایک شخص میں جمع ہونا غیر معمولی بات ہے۔ | |||
منیر ہاشمی ملتان: | |||
ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔ دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔ | |||
سید منظور الکونین راولپنڈی: | |||
جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔ | |||
اختر بزمی راولپنڈی : | |||
ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا جس کے شاگرد بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔ | ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا جس کے شاگرد بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔ | ||
لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ: نعت گوئی ہو یا نعت خوانی ، فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں سابقہ اور آنے والوں میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے۔ آپ کی شخصیت میں ایسا جادو ہے جو ہر ملنے والے پر یکساں اثر کرتا ہے۔ | |||
لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ: | سعید ہاشمی کراچی: جب میں نو عمر تھا تو ریڈیو پاکستان پر آپ کی نعت مبارکہ سنتا اور اُنہیں پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ آپ کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے بلا شبہ آپ پاکستان کے عظیم نعت خواں ہیں۔ | ||
نعت گوئی ہو یا نعت خوانی ، فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں سابقہ اور آنے والوں میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے۔ آپ کی شخصیت میں ایسا جادو ہے جو ہر ملنے والے پر یکساں اثر کرتا ہے۔ | ارباب ظفر اللہ پشاور: کلام یوں پڑھتے کہ محسوس ہوتا کہ الفاظ کو تاثیر مل رہی ہو، آپ نے نعت خوانی کی جو بنیاد رکھی آج بھی اُ س پر پاکستان کے طول عرض پر خوبصورت عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ نعت خوانی میں آپ کا نام ہمیشہ تابندہ و روشن رہے گا ۔ | ||
سعید ہاشمی کراچی: | |||
جب میں نو عمر تھا تو ریڈیو پاکستان پر آپ کی نعت مبارکہ سنتا اور اُنہیں پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ آپ کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے بلا شبہ آپ پاکستان کے عظیم نعت خواں ہیں۔ | |||
ارباب ظفر اللہ پشاور: | |||
کلام یوں پڑھتے کہ محسوس ہوتا کہ الفاظ کو تاثیر مل رہی ہو، آپ نے نعت خوانی کی جو بنیاد رکھی آج بھی اُ س پر پاکستان کے طول عرض پر خوبصورت عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ نعت خوانی میں آپ کا نام ہمیشہ تابندہ و روشن رہے گا ۔ | |||
محمد اسماعیل تبسم مظفر آباد آزاد کشمیر : جو بھی نعت خواں ہے کیسے ممکن ہو کہ آپ سے متاثر نہ ہو ا ہو اور کیسے ممکن ہے کہ آپ کے فنِ نعت خوانی سے مستفید نہ ہوا ہو ۔ | محمد اسماعیل تبسم مظفر آباد آزاد کشمیر : جو بھی نعت خواں ہے کیسے ممکن ہو کہ آپ سے متاثر نہ ہو ا ہو اور کیسے ممکن ہے کہ آپ کے فنِ نعت خوانی سے مستفید نہ ہوا ہو ۔ | ||
غلام مصطفیٰ مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر : حسّانِ پاکستان کا نعت خوانی میں کوئی ثانی نہیں ، آپ ایک سچے پکے عاشقِ رسول ﷺ ہیں۔ میری عمر کم وبیش 75 سال ہے جب میں چھوٹا سا تھا تو قبلہ اعظم چشتی کا کلام ریڈیو پر سنتا تھا اور اُسے اُسی طرح پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ اعظم چشتی میرے روحانی اُستاد ہیں۔ | |||
غلام مصطفیٰ مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر : | |||
حسّانِ پاکستان کا نعت خوانی میں کوئی ثانی نہیں ، آپ ایک سچے پکے عاشقِ رسول ﷺ ہیں۔ میری عمر کم وبیش 75 سال ہے جب میں چھوٹا سا تھا تو قبلہ اعظم چشتی کا کلام ریڈیو پر سنتا تھا اور اُسے اُسی طرح پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ اعظم چشتی میرے روحانی اُستاد ہیں۔ | |||
صابر سردار فیصل آباد : اگر نعت خوانی کے اسلوب اور اس کی کوئی بہترین تعریف بیان کرنا ہو تو اعظم چشتی کی نعت خوانی بہترین نمونہ ہوگی ۔ بلاشبہ نعت گوئی، نعت خوانی اور فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں۔ | صابر سردار فیصل آباد : اگر نعت خوانی کے اسلوب اور اس کی کوئی بہترین تعریف بیان کرنا ہو تو اعظم چشتی کی نعت خوانی بہترین نمونہ ہوگی ۔ بلاشبہ نعت گوئی، نعت خوانی اور فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں۔ | ||
صدیق اسماعیل کراچی: آپ کے ملقہو میری رائے گویا سورج کو چرا غ دکھانے کے مترادف ہوگی۔ | |||
صدیق اسماعیل کراچی: آپ | |||
افضل نوشاہی لاہور: آپ نے نعت خوانی کو ایک باقاعدہ انداز دیا، اس کے خد و خال بنائے اور جو شکل آپ نے تخلیق کی نعت خوانی ہر دور میں اُس کی مرہون منت رہے گی۔ | افضل نوشاہی لاہور: آپ نے نعت خوانی کو ایک باقاعدہ انداز دیا، اس کے خد و خال بنائے اور جو شکل آپ نے تخلیق کی نعت خوانی ہر دور میں اُس کی مرہون منت رہے گی۔ | ||
مرغوب ہمدانی لاہور: اپنے نام کی نسبت سے اعظم تھے، ہیں اور رہیں گے۔ کیا اخلاص کیا عقیدت تھی، کیا شخصیت۔ بس بحیثیت نعت گو، نعت خواں آپ واقعی اعظم ہیں۔ والد گرامی حکیم منظور ہمدانی گھر میں اکثر محافل کرواتے ایک دفعہ گھر میں محفل کا انعقاد تھا، شدید بارش تھی، آپ نہ آئے، فون کرنے پر بتایا بارش ہے تو والد صاحب نے مجھے لینے کے لیے بھیجا۔ جب میں آپ کے گھر پہنچا تو آپ انتظار کر رہے تھے اور مجھے یہ سعادت ملی کہ آپ کو گھر لایا۔ اتنا بڑا نعت خواں کوئی بات نہ کی اور ساتھ چل پڑے، کیا اخلاص تھا! | مرغوب ہمدانی لاہور: اپنے نام کی نسبت سے اعظم تھے، ہیں اور رہیں گے۔ کیا اخلاص کیا عقیدت تھی، کیا شخصیت۔ بس بحیثیت نعت گو، نعت خواں آپ واقعی اعظم ہیں۔ والد گرامی حکیم منظور ہمدانی گھر میں اکثر محافل کرواتے ایک دفعہ گھر میں محفل کا انعقاد تھا، شدید بارش تھی، آپ نہ آئے، فون کرنے پر بتایا بارش ہے تو والد صاحب نے مجھے لینے کے لیے بھیجا۔ جب میں آپ کے گھر پہنچا تو آپ انتظار کر رہے تھے اور مجھے یہ سعادت ملی کہ آپ کو گھر لایا۔ اتنا بڑا نعت خواں کوئی بات نہ کی اور ساتھ چل پڑے، کیا اخلاص تھا! | ||
ثناء اللہ بٹ لاہور: نعت اوج نمبر 2 میں اپنے مضمون میں یوں بیان کرتے ہیں؛ | |||
ثناء اللہ بٹ لاہور: | "برکت علی خان مرحوم کی گائیکی سے بہت متاثر تھے۔ کئی برس شب و روز نزاکت علی خان مرحوم اور سلامت علی خان کے رفیق سفر رہے۔ صوفی غلام تبسم مرحوم کے علم و فضل کے بھی معترف تھے۔ شاعری میں حمد و نعت ،منقبت ،کافی، غزل، دوہے، گیت، نظم، چوبرگے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ نیز اعظم، رنگ و بو، غذائے روح اور انیندرے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہیں۔ ان کے شاگردوں کی فہرست بے شمار مداحانِ رسولؐ پر مشتمل ہے۔ | ||
" | محمد اعظم چشتی مرحوم کا حلقہ شاگردان پاکستان کے طول و عرض ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کے بیشتر شاگرد ان کا انداز اپنائے ہوئے ہیں جب کہ یہ بات کسی بھی اور اُستاد کے شاگردوں کے حصے میں نہیں آتی۔ جتنا بہتر اور معیاری کلام تقلید استاد میں ان کے شاگرد محافل میں پڑھتے ہیں اور کسی حلقہ کے نعت خواں نہیں پڑھتے۔ یہ بھی اعظم چشتی مرحوم کے حلقہ تلامذہ کا طرہّ امتیاز ہے کہ تمام کلام زبانی یاد ہے، کتاب استعمال نہیں کرتے۔ | ||
شہزاد ناگی لاہور: اعظم چشتی اپنے نام کی مناسبت سے نعت خوانی میں پاکستان کے اعظم ہیں ۔ نہ مثل ہے نہ آپ کی کوئی مثال۔ ایک مرتبہ کسی محفل میں مجھے سنا تو اشرف چشتی اور ثناء اللہ بٹ سے کہا کہ "ایہہ چڑی کتھے سنبھال کے رکھی اے!" جب کبھی مجھے محفل میں دیکھتے تو بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک مرتبہ ریڈیو لاہور سنٹر سے آپ کی قیادت میں نعت خواں ایوان صدر گئے تو وہاں اُس وقت کے صدر جناب ضیاء الحق نے اُنہیں محفل میں اپنے سے آگے بٹھایا۔ یہ دیکھ کر مجھے ضیاء الحق کی عقیدت اور اعظم چشتی کی عظمت کا احساس ہوا۔ آپ کی نذر میرا یہ شعر دورِ حاضر کے حوالے سے بہت مناسب ہے۔ | |||
شہزاد ناگی لاہور: | ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں | ||
اعظم چشتی اپنے نام کی مناسبت سے نعت خوانی میں پاکستان کے اعظم ہیں ۔ نہ مثل ہے نہ آپ کی کوئی مثال۔ ایک مرتبہ کسی محفل میں مجھے سنا تو اشرف چشتی اور ثناء اللہ بٹ سے کہا کہ "ایہہ چڑی کتھے سنبھال کے رکھی اے!" جب کبھی مجھے محفل میں دیکھتے تو بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک مرتبہ ریڈیو لاہور سنٹر سے آپ کی قیادت میں نعت خواں ایوان صدر گئے تو وہاں اُس وقت کے صدر جناب ضیاء الحق نے اُنہیں محفل میں اپنے سے آگے بٹھایا۔ یہ دیکھ کر مجھے ضیاء الحق کی عقیدت اور اعظم چشتی کی عظمت کا احساس ہوا۔ | ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم | ||
صادق رحمانی کراچی: بلاشبہ آپ پاکستان کے سب سے بہترین نعت خواں ہیں ،ان سے بہت ملاقاتیں رہیں ہمیشہ بہت عزت و حوصلہ افزائی کرتے ۔ | صادق رحمانی کراچی: بلاشبہ آپ پاکستان کے سب سے بہترین نعت خواں ہیں ،ان سے بہت ملاقاتیں رہیں ہمیشہ بہت عزت و حوصلہ افزائی کرتے ۔ | ||
سید الطاف حسین کاظمی: اعظم چشتی کی نعت گوئی اور نعت خوانی میں آپ کی تعلیم و تربیت اور ماحول کی بہت اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے نعت گوئی میں بھی کمال کلام لکھے تو نعت خوانی میں بھی کمال نعتیں پڑھیں۔ اہل نعت میں نعت سننے کا رجحان جناب اعظم چشتی کے منفرد انداز و آواز کا مرہون منت ہے جو عوام و خاص میں یکساں مقبول ہوا۔ آپ کو بیشمار زبانوں میں یکساں مہارت حاصل تھی ۔ آپ کی نعت خوانی میں سب سے بڑا وصف آپ کی گرہ بندی تھا۔ ایسی گرہ بندی کرتے کہ آج تک ایسا معیار کبھی دیکھنے کو نہ ملا ۔ | |||
سید الطاف حسین کاظمی: اعظم چشتی کی نعت گوئی اور نعت خوانی میں آپ کی تعلیم و تربیت اور ماحول کی بہت اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے نعت گوئی میں | خورشید احمد کراچی: خورشید احمد فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں جو کچھ بھی ہوں حضرت کی دعا ہے ۔ میں بچپن میں اعظم صاحب کو سنا کرتا تھا اور ان سے بہت متاثر تھا ۔ ملنے کی بہت حسرت تھی۔ وہ موقع اس طرح ہوا کہ حیدر آباد میں ایک زمیندار کے گھر ایک سالانہ محفل ہوا کرتی تھی اور وہ تین لوگوں کو بلایا کرتے تھے۔ مہدی حسن، فریدہ خانم اور اعظم چشتی۔ آغاز اعظم چشتی کیا کرتے تھے اور پھر محفل موسیقی شروع ہو جاتی تھی ۔ کسی نہ کسی طرح مجھے اعظم چشتی کے سامنے دو اشعار پڑھنے کا موقع مل گیا ۔ بہت کم عمر اور کم ہنر تھا ، میں نے کیا سنایا ہوگا؟ جب محفل کا اختتام ہوا تو میں اعظم چشتی کی دست بوسی کے لیے انہیں ڈھونڈتا ہوا اُن کے قریب پہنچ گیا، تو انہوں نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ بیٹا نعت خوانی میں جیسی عزت اللہ نے مجھے دی ہے ویسی ہی عزت تمہیں بھی دے گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا! | ||
شہزاد مجددی لاہور: آپ کا شمار پاکستان کے صف اوّل کے نعت خوانوں میں ہوتا ہے جن سے ملک کے معروف نعت خوان فیضیاب ہوئے، وسیع حلقہ تلامذہ رکھتے تھے۔ نعت گوئی کا بہت اعلیٰ ذوق تھا نعت گو شاعر بھی تھے۔ یہ بات بہت قابل تحسین ہے کہ وہ ہمیشہ علمائے اکرام سے بہت عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے، اپنا لکھا ہوا کلام پہلے اساتذہ و علمائے اکرام کو دکھاتے، شرعی و شعری دونوں طرح کی اصلاح کے بعد مجموعہ عوام میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ بات آج کے ثناء خوانوں کے لیے بہت بڑا درس ہے۔ اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے۔ | شہزاد مجددی لاہور: آپ کا شمار پاکستان کے صف اوّل کے نعت خوانوں میں ہوتا ہے جن سے ملک کے معروف نعت خوان فیضیاب ہوئے، وسیع حلقہ تلامذہ رکھتے تھے۔ نعت گوئی کا بہت اعلیٰ ذوق تھا نعت گو شاعر بھی تھے۔ یہ بات بہت قابل تحسین ہے کہ وہ ہمیشہ علمائے اکرام سے بہت عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے، اپنا لکھا ہوا کلام پہلے اساتذہ و علمائے اکرام کو دکھاتے، شرعی و شعری دونوں طرح کی اصلاح کے بعد مجموعہ عوام میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ بات آج کے ثناء خوانوں کے لیے بہت بڑا درس ہے۔ اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے۔ | ||
میرا کریم بھی کتنا کریم ہے اعظمؔ | میرا کریم بھی کتنا کریم ہے اعظمؔ | ||
سطر 339: | سطر 186: | ||
==== اعزازات ==== | ==== اعزازات ==== | ||
بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔ | بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔ | ||
سطر 359: | سطر 198: | ||
===== جناح کیپ : ===== | ===== جناح کیپ : ===== | ||
سندھ کے ایک دورے پر قائداعظم اور عبداللہ ہارون کے ساتھ ایک دورے پر تھے۔ دورانِ سفر قائد اعظم نے فرمایا کہ اعظم جناح کیپ پہنا کرو۔ اعظم چشتی بتاتے ہیں کہ میں نے اُسی دن بندر روڈ کراچی جا کر جناح کیپ خریدی، اُس کے بعد زندگی بھر جناح کیپ پہنی، اس سے پہلے آپ ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔[ حوالہ : ارشاد اعظم چشتی سے نعت ورثہ کی گفتگو ] | سندھ کے ایک دورے پر قائداعظم اور عبداللہ ہارون کے ساتھ ایک دورے پر تھے۔ دورانِ سفر قائد اعظم نے فرمایا کہ اعظم جناح کیپ پہنا کرو۔ اعظم چشتی بتاتے ہیں کہ میں نے اُسی دن بندر روڈ کراچی جا کر جناح کیپ خریدی، اُس کے بعد زندگی بھر جناح کیپ پہنی، اس سے پہلے آپ ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔[ حوالہ : ارشاد اعظم چشتی سے نعت ورثہ کی گفتگو ] | ||
===== سید منظور الکونین کے بارے پیشین گوئی ===== | ===== سید منظور الکونین کے بارے پیشین گوئی ===== | ||
اعظم چشتی کا سحر محبت رسول کا ایک ایسا چھینٹا ہے کہ کائنات میں جہاں کہیں بھی جاو اس کی پھوار محسوس ہوتی ہے ۔ کوئی بھی اس سے نہ بچ سکا ۔1950 کی بات ہے کہ نور مسجد کے سامنے ایک محفل نعت میں میرے چچا جان مجھے سٹیج پر لے گئے ۔ میری ملاقات اعظم چشتی صاحب سے کرائی ۔ میری بغل میں ان کی کتاب "غذائے روح" تھی ۔ میں نے تلاوت کے بعد اپنی توتلی زبان میں " کدی ساڈے وال پھیرا پا کملی والے" پڑھی ۔ اس کے بعد جب اعظم چشتی صاحب تشریف لائے تو نعت مبارکہ پڑھنے سے پہلے میرے بارے فرمایا کہ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ صاحبزادہ صاحب کا یہ جو بھتیجا ہے یہ بہت بڑا نعت خواں بنے گا ۔ | |||
===== نعت مبارکہ پڑھے بغیر سلام ===== | ===== نعت مبارکہ پڑھے بغیر سلام ===== | ||
سطر 381: | سطر 212: | ||
"یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حسّانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی کی زندگی کے آخری سالوں کی محافل میں آپ کی صحبت میسر رہی خاص طور پر ایک محفل آپ کے ساتھ یاددگار ہوئی جب حکیم محمد آصف نقشبندی نے مغلپورہ، لال پل پر ایک محفل سجائی جس میں نعت خوانوں کی بڑی معتبر شخصیات تھیں۔ وہاں مجھے نقابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اعظم چشتی صاحب محفل کے شروع ہونے سے پہلے ہی موجود تھے ۔ میں نے آپ کی دست بوسی کی تو آپ کا جسم بہت گرم تھا حفیظ تائب کے حوالے سے ہونے والی اس محفل ِ نعت میں حضرت اعظم چشتی صاحب کو آخر میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جانا تھا لیکن بانی محفل کو اور مجھے فرمانے لگے کہ مجھے آج بخار ہے تلاوت کے بعد مجھے پڑھوا دیں تا کہ میں گھر جا کر آرام کر سکوں۔ ۔ محفل شروع ہوئی تو میں نے تلاوت کے بعد آپ کا اعلان کردیا۔ دوران نعت آپ کی ایسی کیفیت بن گئی کہ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپ چار پانچ گھنٹے مسلسل نعت پڑھتے رہے یہ مکین گنبد ِ خضراء سے عشق کی وابستگی کی لگن تھی جو اب محافل میں کم نظر آتی ہے۔" | "یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حسّانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی کی زندگی کے آخری سالوں کی محافل میں آپ کی صحبت میسر رہی خاص طور پر ایک محفل آپ کے ساتھ یاددگار ہوئی جب حکیم محمد آصف نقشبندی نے مغلپورہ، لال پل پر ایک محفل سجائی جس میں نعت خوانوں کی بڑی معتبر شخصیات تھیں۔ وہاں مجھے نقابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اعظم چشتی صاحب محفل کے شروع ہونے سے پہلے ہی موجود تھے ۔ میں نے آپ کی دست بوسی کی تو آپ کا جسم بہت گرم تھا حفیظ تائب کے حوالے سے ہونے والی اس محفل ِ نعت میں حضرت اعظم چشتی صاحب کو آخر میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جانا تھا لیکن بانی محفل کو اور مجھے فرمانے لگے کہ مجھے آج بخار ہے تلاوت کے بعد مجھے پڑھوا دیں تا کہ میں گھر جا کر آرام کر سکوں۔ ۔ محفل شروع ہوئی تو میں نے تلاوت کے بعد آپ کا اعلان کردیا۔ دوران نعت آپ کی ایسی کیفیت بن گئی کہ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپ چار پانچ گھنٹے مسلسل نعت پڑھتے رہے یہ مکین گنبد ِ خضراء سے عشق کی وابستگی کی لگن تھی جو اب محافل میں کم نظر آتی ہے۔" | ||
===== رسم تاج پوشی ===== | ===== رسم تاج پوشی ===== | ||
سطر 414: | سطر 222: | ||
==== مشہور شاگرد ==== | ==== مشہور شاگرد ==== | ||
ثناء اللہ بٹ | ثناء اللہ بٹ لاہور،عبدالجبار قادری، محمد اشرف چشتی لاہور، بدرالدین بدر گوجرہ، قاری سید صداقت علی لاہور، قاری خوشی محمداسلام آباد، سید الطاف الرحمٰن پاشا لاہور، محمد رفیق چشتی لاہور، کرم الٰہی نقشبندی لاہور، محمد یوسف چشتی گجرات، محمد یوسف چشتی فیصل آباد، محمد یونس چشتی گوجرہ، میاں غلام محمد لاہور، شیخ محمد بشیر لاہور، اصغر علی چشتی کنجاہ گجرات، اصغر علی چشتی لالہ موسیٰ، صفدر علی چشتی لاہور، لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ، ارشاد چشتی پسر لاہور، جمشید چشتی پسر لاہور، شبیر گوندل لاہور، قاری محبوب سلیم گوجرانوالہ، تاج الدین اوکاڑوی، عبد الوحید چشتی، عبدالرشید ساننوالہ، شیخ غلام نبی، محمد سعید صابر، محمد الیاس زاہد، غلام محی الدین اور عبدالشکور قادری یہ وہ نام ہیں جنہوں نے پاکستان میں خوب شہر پائی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شاگرد پاکستان کے طول و عرض میں ہیں جو آپ کے فنِ نعت خوانی سے مُستفید ہوئے۔ | ||
اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت سے ضرور مستفید ہوا ۔ | اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت سے ضرور مستفید ہوا ۔ | ||
سطر 575: | سطر 379: | ||
1938ء میں میٹرک پاس کیا | 1938ء میں میٹرک پاس کیا | ||
1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔ | 1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔ | ||
1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح" شائع | 1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح" شائع ہوا۔ | ||
1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا | 1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا | ||
1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی | 1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی | ||
سطر 582: | سطر 386: | ||
1958ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں اُس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ کی دعوت پر جشن کابل کے موقعہ پر افغانستان گئے ۔ اس وفد میں سیاسی و سماجی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔ | 1958ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں اُس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ کی دعوت پر جشن کابل کے موقعہ پر افغانستان گئے ۔ اس وفد میں سیاسی و سماجی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔ | ||
1964ء پی ٹی وی کی پہلی نشریات کے موقعہ پر پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ | 1964ء پی ٹی وی کی پہلی نشریات کے موقعہ پر پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ | ||
1966ء | 1966ء بزم فروغ نعت و مناقب اور نیشنل بنک آف پاکستان کے تحت ہونے والے مقابلے میں اول انعام | ||
1968ء کل پاکستان مقابلہ حسن نعت زیر اہتمام نیشنل بنک آف پاکستان پہلا انعام گولڈ ٹرافی حاصل کی جس پر خانہ کعبہ و گنبدِ خضرا کندہ تھا، اس محفل کی صدارت نیشنل بینک کے صدر سید دربار علی شاہ نے کی۔ | |||
1970ء "نیر اعظم" نعتوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ | 1970ء "نیر اعظم" نعتوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ | ||
1970ء پاکستان براڈ کاسٹنگ ادارہ نے آپ کو آپ کی بیش قیمت خدمات کے عوض آؤٹ سٹینڈنگ کیٹگری دی اور ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | 1970ء پاکستان براڈ کاسٹنگ ادارہ نے آپ کو آپ کی بیش قیمت خدمات کے عوض آؤٹ سٹینڈنگ کیٹگری دی اور ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | ||
1970ء | 1970ء کل پاکستان مقابلہ حسن نعت زیر اہتمام پاکستان نعت کونسل جس کے بانی و سرپرست جناب ادیب رائے پوری تھے، مقابلہ میں آپ کو اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر گولڈ میڈل دیا گیا۔ | ||
1970ء رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔ | 1970ء رحمت گرامو فون ہاوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔ | ||
1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔ | 1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔ | ||
1974ء حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل | 1974ء حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل ہوئی۔ | ||
1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | 1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | ||
1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔ | 1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔ | ||
سطر 635: | سطر 439: | ||
زمانے کے ادوار بدل رہے ہیں ۔ کبھی آواز صرف رو برو ہی سنی جا سکتی تھی، دور دراز سے رابطے کا ذریعہ صرف خط تھا اور کتابیں کاغذ پر لکھی جاتی تھیں ۔ دنیا ترقی کرتی گئی اور ذرائع مواصلات ترقی کرتے ہوئے آج اس قدر جدید ہو چکے ہیں کہ ہر فرد کے کمپیوٹر اور موبائل میں آوازوں، تصویروں اور حرکی مناظر کی کئی دنیائیں آباد ہیں ۔ خط و کتابت ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں ،روبرو گفتگو ٹیلی فون کالزمیں اور ملاقات وڈیو کال میں بدل چکی ہے ۔ پہلے گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں بچے کھیلتے اور بڑے گپ شپ کیا کرتے تھے ۔ آج گلوبلائیزیشن کے اس دور میں اس چوپال کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے ۔ محققین حوالہ جات کے لیے کتابوں اور مکاتب کا رخ کرتے تھے آج اس ضرورت کے لیے آن لائن ویب سائٹس، وکیپیڈیا اور یو ٹیوب جیسی سروسز سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ تو اگر ہمیں اپنے "نعت ورثے" کو بچانا ہے اور اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے تو ان جدید چوپالوں، لائیبریوں اور انسائکلوپیڈیاز میں نعتیہ مواد کا اضافہ ناگزیر ہے ۔ | زمانے کے ادوار بدل رہے ہیں ۔ کبھی آواز صرف رو برو ہی سنی جا سکتی تھی، دور دراز سے رابطے کا ذریعہ صرف خط تھا اور کتابیں کاغذ پر لکھی جاتی تھیں ۔ دنیا ترقی کرتی گئی اور ذرائع مواصلات ترقی کرتے ہوئے آج اس قدر جدید ہو چکے ہیں کہ ہر فرد کے کمپیوٹر اور موبائل میں آوازوں، تصویروں اور حرکی مناظر کی کئی دنیائیں آباد ہیں ۔ خط و کتابت ، ای میل اور ٹیکسٹ میسجز میں ،روبرو گفتگو ٹیلی فون کالزمیں اور ملاقات وڈیو کال میں بدل چکی ہے ۔ پہلے گاوں میں ایک چوپال ہوتی تھی جہاں بچے کھیلتے اور بڑے گپ شپ کیا کرتے تھے ۔ آج گلوبلائیزیشن کے اس دور میں اس چوپال کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے ۔ محققین حوالہ جات کے لیے کتابوں اور مکاتب کا رخ کرتے تھے آج اس ضرورت کے لیے آن لائن ویب سائٹس، وکیپیڈیا اور یو ٹیوب جیسی سروسز سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ تو اگر ہمیں اپنے "نعت ورثے" کو بچانا ہے اور اسے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے تو ان جدید چوپالوں، لائیبریوں اور انسائکلوپیڈیاز میں نعتیہ مواد کا اضافہ ناگزیر ہے ۔ | ||
ہم اس سیکشن میں اس حقیقت کا جائزہ لیں گے کہ سوشل میڈیا پر "محمد اعظم چشتی " کے بارے کتنی جانکاری موجود ہے ۔ | |||
===== فیس بک ===== | ===== فیس بک ===== | ||
سطر 649: | سطر 453: | ||
https://www.facebook.com/MAzamChishti/ | https://www.facebook.com/MAzamChishti/ | ||
==== نعت خوانی میں مشہور کلام ==== | ==== نعت خوانی میں مشہور کلام ==== | ||
سطر 658: | سطر 458: | ||
===== اے موت ٹھہر جا میں مدینے ===== | ===== اے موت ٹھہر جا میں مدینے ===== | ||
رنگ و بو | رنگ و بو | ||
===== غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد ===== | ===== غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد ===== | ||
سطر 917: | سطر 713: | ||
اوہ سانوں وی کر دے عطا کملی والے | اوہ سانوں وی کر دے عطا کملی والے | ||
محمد اعظمؔ چشتی | محمد اعظمؔ چشتی | ||
====نعت گوئی میں مشہور کلام ==== | ====نعت گوئی میں مشہور کلام ==== |