آپ «زمرہ:اعظم چشتی» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 3: | سطر 3: | ||
=== اعظم چشتی === | === اعظم چشتی === | ||
==== شخصیت و فن ==== | ==== شخصیت و فن ==== | ||
===== نعت خوانی کی ابتدا ===== | |||
منظور الکونین صاحب نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے انہیں گود ہی میں ایسا اکرام ملا تھا ۔ وہ بہت حسین، بہت خوش نوا، بہت خوش گلو ، بہت خوش لباس اور مجلسی زندگی میں بہت خوش گفتار ہستی تھی ۔ آپ گفتگو کرتے تو مجلس سے اٹھنے کا دل نہ کرتا اور جو ایک بار مل لیتا وہ بار بار ملتا تھا ۔ | |||
==== واقعات ==== | |||
===== سید منظور الکونین کے بارے پیشین گوئی ===== | |||
===== | |||
اعظم چشتی کا سحر محبت رسول کا ایک ایسا چھینٹا ہے کہ کائنات میں جہاں کہیں بھی جاو اس کی پھوار محسوس ہوتی ہے ۔ کوئی بھی اس سے نہ بچ سکا ۔1950 کی بات ہے کہ نور مسجد کے سامنے ایک محفل نعت میں میرے چچا جان مجھے سٹیج پر لے گئے ۔ میری ملاقات اعظم چشتی صاحب سے کرائی ۔ میری بغل میں ان کی کتاب "غذائے روح" تھی ۔ میں تلاوت کے بعد اپنی توتلی زبان میں " کدی ساڈے وال پھیرا پا کملی والے" پڑھی ۔ اس کے بعد جب اعظم چشتی صاحب اپنی نعت پڑھنے آئے تو نعت مبارکہ پڑھنے سے پہلے میرے بارے فرمایا کہ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ صاحبزادہ صاحب کا یہ جو بھتیجا ہے یہ بہت بڑا نعت خواں بنے گا ۔ | |||
==== فروغ نعت میں کردار ==== | |||
===== | ===== مجلس ِ حسان کی بنیاد ===== | ||
1952 میں محمد علی ظہوری اور علامہ ریاض الدین سہروردی کے ساتھ مل کر بزم حسان کی بنیاد ڈالی اور اس کے پہلے صدر قرار پائے ۔ آپ کے صدارت میں ہر شہر میں "یوم حسان منایا جاتا [ مزید معلومات درکار ہیں ]] | |||
===== پاکستان جمیعت حسان ===== | |||
1970 میں "پاکستان جمعیت حسان" کی بنیاد رکھی ۔ اعظم چشتی اسے کے پہلے صدر اور محمد علی ظہور اسے پہلے نائب صدر منتخب کیے گئے ۔ | |||
==== نعت گوئی پر آراء ==== | |||
" جن لوگوں نے رنگ تغزل کو مسلمان کیا ہے ان میں محمد اعظم چشتی سر ِ فہرست ہے " | |||
==== شخصیت و فن ==== | |||
حسان پاکستان کے لقب سے پکارے جانے والے پاکستان کے پہلے مستند نعت خواں محمد اعظم چشتی قائد اعظم سے لے کر ضیاء الحق تک کے ایوان صدارت و وزارت کے پسندیدہ نعت خواں رہے۔ آستانوں، علماء و مشائخ ، نجی محافل ہوں یا بڑی محافل ، اہل نعت ہوں یا خاں صاحب و میر عالم گھرانے آپ کو ہر اہل نعت نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور آپ کی خوش الحانی و مقنا طیسی شخصیت سے ضرور متاثر ہوا ۔ [ابتدائی پیراگراف بہتر کرنا ہے ] | |||
محمد اعظم چشتی ایک صوفی ، بزرگ درویش عالم دین مولوی محمد دین چشتی کے گھر 15 مارچ 1921ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک جھمرہ بُرج 102 میں پیدا ہوئے۔آپ کے والدِ گرامی ایک عالمِ دین اور صوفی باصفا انسان تھے جو عربی اور فارسی کے ماہر تھے ۔ ان کی بار ے مشہور ہے کہ وہ مثنوی روم کے حافظ بھی تھے ۔ گھر میں عربی اور فارسی ایسے سمجھی جاتی تھی جیسے مادری زبان ہو ۔ والدہ بھی عالمہ فاضلہ، قاریہ اور حافظہ تھیں۔ یہی فیضان تھا جس نے اعظم چشتی کو 13 سال کی عمر میں "گلستان" "بوستان" کا حافظ بنا دیا ۔ آپ کے والد 1932ء میں لاہور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی داتا کے قدموں میں بسر کردی۔ | |||
انہوں نے میٹرک کے بعد درسِ نظامی،اُردو فاضل ،دورہ حدیث،تفسیر قرآن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ آپ کو علم ِقُرآن، علمِ حدیث، فقہ، منطق ،فلسفہ جیسے علوم کے ساتھ ساتھ پنجابی، اردو ، عربی ا ور فارسی پر دسترس حاصل تھی۔ والد صاحب کے آستانے سلسلہ چشتیہ نظامی چکوڑی شریف ضلع گجرات میں اس وقت کے گدی نشین حضرت پیر سید غلام سرور شاہ چکوڑوی جو پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے کے ہاتھ پر بیعت کی ا ۔ آپ کو اپنے آستاں سے بے پناہ محبت تھی اور باقاعدگی کے ساتھ آپ چکوڑی شریف گجرات حاضری دیتے اور شیخ کی فیوض و برکات سے مُستفید ہوتے۔انہیں اپنی مرشد کی طرف سے خلافت بھی عطا ہوئی لیکن کبھی کوئی مرید نہ کیا | |||
نعت خوانی کا سفر : | |||
منظور الکونین صاحب نے ٹی وی پروگرام نعت کائنات میں ایک بار فرمایا کہ عشق ِ رسول جس کے مقدر میں ہو وہ پالنے ہی میں نظر آجاتا ہے ۔ اعظم چشتی حادثاتی طور پر نعت خواں محمد اعظم چشتی نہ بنے ۔ منظور الکونین کی اعظم چشتی کے بارے یہ رائے بالکل درست ٹھہرتی ہے ۔ محمد اعظم چشتی نے چار سال کی عمر میں پہلی نعت مبارکہ پڑھی ۔ | |||
[اس کے بعد نعت خوانی کا مزید سفر بھی لکھنا ہوگا ] | |||
اعظم چشتی | ===== محمد اعظم چشتی اور فن ِ گائیکی===== | ||
جیسے نعت گوئی کا تعلق فنون لطیفہ کی شاخ شاعری سے ہے درحقیت وہی تعلق نعت خوانی اور موسیقی کا بھی ہے ۔ جس طرح ایک نعت گو شاعر نعت کہتے ہوئے غزل کو مسلمان کرتا ہے ویسے ہی نعت خواں آواز کے اتار چڑھاو اور گلے بازی کے ہنر کو مشرف بہ نعت کرکے نعت خوانی میں ڈھالتا ہے ۔ فن گائیکی کے مبادیات اور رموز و فن سے شناسائی نعت خوانی کے لیے اگر جزو لازم نہیں تو نہ سہی لیکن نعت خوانی میںان کی اہمیت سے انکار حسن نعت خوانی کے فہم و ادراک سے لا علمی کے سوا کچھ نہیں ۔ اگرچہ محمد اعظم چشتی کی آواز نے ہمیشہ صبائے نعت کی دوش پر سفر کیا لیکن وہ فن و سر کی تمام باریکیوں کے شناسا و تربیت یافتہ تھے ۔ ملک پاکستان کے کئی مشہور گویوں [ اگر نام دیے جا سکیں تو اچھا ہے ] سے ان کی سنگت اور دوستانہ رہا اور آ پ نے اہل فن سے کسب فیض کیا ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ محمد اعظم چشتی وہ پہلے نعت خواں جنہوں نے نعت خوانی کو ایک فن کی حیثیت سے روشناس کرایا ۔ | |||
فن ِ گائیکی میںان کےباقاعدہ اُستاد بڑے غلام علی خان ہوئے جو پاکستان چھوڑ کر انڈیا واپس چلے گئے،اُس کے بعدانہوں نے اُستاد برکت علی خاں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔چونکہ وہ ایک نعت خوان کے حوالے سے جانے جاتے تھے عوامی محافل میں یہ بتانا کہ وہ گویوں سے سیکھے ِ ہوئے ہیں ایسا قابل قبول نہ ہوتا اور یہ کہناکہ میری طبع ہی میری اُستاد ہےتکبر کی نشانی سمجھا جاتا اس لیے ونعت سے منسلک ایک بزرگ حکیم فضل الٰہی کی صحبت بھی اختیار کی۔ حکیم فضل الٰہی کا شمار پاکستان کے عظیم استاد نعت خوانوں میں ہوتا ہے جو لاہور میں ہی پیدا ہوئے ۔ | |||
===== اعظم چشتی کا دور نعت خوانی ===== | |||
محمد اعظم چشتی کا دور نعت خوانی چھ دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں اعظم چشتی نے اپنی وفات 1993 تک نعت خوانی کی ۔ یہ 46 سال کا ایک طویل دورانیہ بنتا ہے ۔ | |||
جب اعظم چشتی گلشن نعت میں نمودار ہوئے تو یہ دور بابا محمد علی شکر گڑھی المعروف ٹربئی والے ، سرفراز پاپا، مستری علی محمد جالندھری، جان محمد جانی،جان محمد بٹ امرتسری ، بابا محمد علی ملتانی، غلام محی الدین ، محمدیونس اور کچھ اور بزرگ نعت خوانوں کا دور آخر تھا ۔ پھر نعت خوانی کے منظر نامے پر اعظم چشتی ایک لمبے عرصے کے لیے جلوہ افروز رہے اور پاکستان کا گوشہ گوشہ ان کی نعت خوانی سے مستفیض ہوا۔ ابتدائی دور ریڈیو کا دور تھا ۔پاکستان بھر کے عشاقان نعت کی آنکھیں محمد اعظم چشتی کے چہرے سے نا شناسا تھیں لیکن ان کی سماعتوں برقیاتی لہروں پر سفر کرتی ہوئی محمد اعظم چشتی کی سحر آفریں آواز سے سیراب ہوتیں ۔ کراچی کے سعید ہاشمی ہوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نعت خوانوں کے نام اور شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب ان کی نعت کے اسیر ہوئے اور اسی آواز کے حلقہ بگوش ہو کر دنیائے نعت میں نعت خواں کی حیثیت سے وارد ہوئے ۔ | |||
مجلسی شخصیت : | |||
آپ انتہائی شفیق، حلیم، ملنسار اور ، خوش طبع و خوش اخلاق نعت خواں تھے ۔ان کی جاذب و پر کشش شخصیت میں سحر تھا اور ہر دل ِ گداز ان کا اسیر ہوا۔ منظور الکونین فرماتے ہیں | آپ انتہائی شفیق، حلیم، ملنسار اور ، خوش طبع و خوش اخلاق نعت خواں تھے ۔ان کی جاذب و پر کشش شخصیت میں سحر تھا اور ہر دل ِ گداز ان کا اسیر ہوا۔ منظور الکونین فرماتے ہیں | ||
"اگر کوئی ان کی محفل میں بیٹھ جاتا تو اٹھنے کا دل نہ کرتا اور جو ایک بار مل لیتا وہ بار بار ملتا" | "اگر کوئی ان کی محفل میں بیٹھ جاتا تو اٹھنے کا دل نہ کرتا اور جو ایک بار مل لیتا وہ بار بار ملتا" | ||
=====خوش ذوقی و نفاست ===== | =====خوش ذوقی و نفاست ===== | ||
م آپ کے لباس کے متعلق کوئی ایسا انسان جو آپ سے ملا اور متاثر نہ ہوا یہ نہیں سُنا، بہت باذوق و خوش لباس تو تھے ہی مگر خوش احساس بھی۔ ہمیشہ اچھی خوشبو لگانا معمول تھا، خوش خوراک تھے اور اپنے گھر تمام آنے والوں کی خوب مہما ن نوازی کرتے۔ فن موسیقی سے خوب لگاؤ تھا اکثر نجی محافل میں گایک حضرات آپ کو مدعو کرتے اور آپ کے فنِ نعت خوانی سے مستفید بھی ہوتے۔ | |||
=====گھریلو زندگی ===== | =====گھریلو زندگی ===== | ||
کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ، اخلاق حسنہ سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب تھے ۔ وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں، ایک زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے | کسی انسان کی عظمت و خوش قسمتی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو کہ وہ اپنے فن کی بنیاد پر دنیا میں اپنا نام بنائے ، اخلاق حسنہ سے دوستوں کے دل جیتے اور اطوار و محبت سے گھر میں مسیحا کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں ۔ محمد اعظم چشتی ایسی ہی گونا گوں صلاحیتوں سے عطا یاب تھے ۔ وہ ایک معروف نعت گو، ایک بے مثال نعت خواں، ایک زندہ دلی مجلسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے وا شوہر اور اولاد کے بہترین تربیت کرنے والے کامیاب باپ ثابت ہوئے ۔ کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت کے ثمرات کی نشانی ہے ۔ ان کے خانوادے میں اکثر بیٹے اور بیٹیاں نعت گوئی اور نعت خوانی سے منسلک ہیں ۔ یہ فیض صرف ایک نسل تک ہی ہ رہا اب تو آپ کے پوتے پوتیاں بھی گلشن نعت میں اپنے حصے کے پھول کھلا رہے ہیں ۔ اللہ رب الکریم نے آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے نوازا جن میں | ||
* جمشید چشتی نعت گو نعت خواں شاعر ہیں اور آج کل فارسی نعت گوئی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر فرما رہے ہیں | |||
* ارشاد اعظم چشتی اپنے والد کے رنگ کے معروف کلاسیکل نعت خواں ہیں ۔ | |||
* وغیرہ وغیرہ | |||
کسی اولا دکا اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا اس باپ کے تربیت و شخصیت | =====وصیت:===== | ||
آپ کی وصیت تھی کہ جب میں پردہ کروں تو میرا آخری مقام کوٹ عبدالمالک زاہد ٹاؤن میں ہوگا ، یہ 11 کنال جگہ ہے جو آپ نے اپنی زندگی میں خریدی ، اس مقصد کے لیے خریدی کہ یہاں جامعہ حسّان، اعظم چشتی ہسپتال، اعظم نعت اکیڈمی و لائبریری و مدرسہ بنانا تھا اور یہاں پر کام ہو رہا ہے ۔ | |||
31 جولائی 1993ء بروز پیر وقت صبح 7:45 بجے آپ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے، آپ کا جنازہ علامہ مقصود احمد قادری جو مسجد داتا دربار کے امام تھے نے قبرستان میانی صاحب میں پڑھایا اور دعا حضرت پیر کبیر علی شاہ نے کروائی۔ آپ کے خانوادہ میں بشریٰ اعظم، عطیہ اعظم، وجاہت حسین چشتی، ارشاد اعظم چشتی، یاسمین اعظم، جمشید اعظم چشتی، اسرار حسین چشتی شامل ہیں۔ | |||
* جمشید چشتی نعت گو نعت خواں شاعر | |||
* | |||
===== | |||
مجموعہ ہائے کلام: | مجموعہ ہائے کلام: | ||
غذائے روح (1944ء) نعتیں | غذائے روح (1944ء) نعتیں | ||
سطر 201: | سطر 69: | ||
ا نیندرے، پنجابی نعتیں | ا نیندرے، پنجابی نعتیں | ||
اور آخری مجموعہ "'معراج" اُردو نعتیں جو آپ کے وصال کے بعد آپ کے بیٹے جمشید اعظم چشتی نے مکمل کیا۔ | اور آخری مجموعہ "'معراج" اُردو نعتیں جو آپ کے وصال کے بعد آپ کے بیٹے جمشید اعظم چشتی نے مکمل کیا۔ | ||
==== احباب کی آراء ==== | ==== احباب کی آراء ==== | ||
قاری محمد یونس قادری | =====قاری محمد یونس قادری لاہور: ===== | ||
قرآن ہے قصیدہ رسالت مآب کا | |||
ایک ایک لفظ بول رہا ہے کتاب کا | |||
نعت | نعت سنتِ الٰہی ہے۔ نعت سعادت دا دین ہے۔ نعت درِ حبیب پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔ نعت کے لیے صرف جسم کی پاکیزگی ضروری نہیں بلکہ روح کی طہارت بھی ضروری ہے۔ ذکرِ مصطفےٰ کے لیے جذبہ باوضو اور حرفِ تقدس کی ردا اوڑہے نہ ہوں تو نعت ہونی ہی نہیں چاہیے ۔ | ||
کیا فکر کی جولانی کیا عرضِ ہنر مندی | |||
توصیفِ پیمبر ہے توفیقِ خداوندی | |||
جانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی حرفِ تقدس، طہارت اور نفاست کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لباس میں نفاست، کردار میں طہارت اور کلام میں لطافت تھی۔ آپ نے نعت خوانوں کو ایک معیار عطا کیا اور نعت خوانی کے ایسے اسلوب دیے جو کہ نعت خوانی کی بنیاد ہیں ۔ | |||
کلیاتِ اعظم کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آپ کے ہر شعر سے قرآن وحدیث کا نور نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر آپ نے ادبِ رسالتؐ کو بہت ملحوظِ خاطر رکھا۔ اس ضمن میں آپ کے یہ اشعار ملا حظہ ہوں؛ | |||
اس خالقِ کونین کی مرضی بھی ادھر ہے | |||
اختر حسین قریشی | اے سید ابرار رضا تیری جدھر ہے | ||
میں نے شاگردی کے لیے محمد علی ظہوری صاحب کے دست مبارک پر بیعت کی لیکن میرا دل ہمیشہ اعظم چشتی کا مداح رہا ،میں ایک کم علم و کم فہم انسان، اعظم چشتی کے فن نعت اور نعت خوانی پر کیا بات کروں وہ ایک نعت خوانی کی عظیم درسگاہ تھے۔ ایک دفعہ میں ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر کے سٹوڈیو میں موجود تھا جہاں اعظم چشتی بھی ساتھ تھے تو کوئی نعت خواں نعت مبارکہ کی ریکارڈنگ کے لیے آیا تو یہ کلام پڑھنا شروع کیا؛ "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " تو پروڈیوسر و نعت خواں عبدالشکور بیدل نے اُسے پکڑا اور سٹوڈیو میں لے آئے اور کہا کہ جب تک اعظم چشتی ہے ہمیں اور کوئی نعت خواں اُن جیسا یا کم تر نہیں چاہیے ہاں اگر کوئی اُن سے اچھا ہو تو آئے۔ یہ بات سن کر مجھے اعظم چشتی صاحب کے مقام کا پتہ چلا۔ عبدالشکور بیدل ماتورِنعت خوانی میں بہت سخت رویہ رکھتے اور فقط ایسے مستند نعت خواں کو نعت مبارکہ پڑھنے کی اجازت دیتے جو معیارِ نعت سے آشنا ہوتا ۔ | اس گھر میں قدم رکھتے ہیں جبریل بھی ڈر کر | ||
اے جانِ زمانہ وہ فقط تیرا ہی گھر ہے | |||
محمد علی | بات بالکل اسی طرح ہے جس طرح خواجہ غلام فخر الدین سیالوی نے اپنے شعر میں فرمایا؛ | ||
نعت گوئی سے زیادہ ان کی نعت خوانی کے انداز میں ایک انفرادیت ہے۔ بیاج کے بغیر تاویر نعت خوانی اور کسی مصرعہ پر گرہ لگانے میں ان کی ادائیگی کے جوہر زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ خوش روئی، خوش گوئی اور خوش پوشاکی کی ان تینوں صفات کا کسی ایک شخص میں جمع ہونا غیر معمولی بات ہے۔ | اپنی پلکوں سے درِ یار پہ دستک دینا | ||
اونچی آواز ہوئی عمر کا سرمایہ گیا | |||
منیر ہاشمی ملتان: | یہ شعر ذکرِ مصطفےٰ کے ادب کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے؛ | ||
ہزارِ بشویم دھن بمشک و گلاب | |||
ہنوز نام تو گفتن کمال ہے بے ادبی است | |||
اہل اللہ کے نقطہ نظر میں دین سارے کا سارا ادبِ رسالتؐ کا نام ہے۔ عبادت وریاضت انسان کو اس منزل تک نہیں پہنچا سکتی جس مقام پر انسان لمحوں میں ادبِ رسالتؐ کے ذریعے پہنچ جاتا ہے۔ | |||
ادب گہ ہست زیرِ آسماں از عرش نازک تر | |||
نفس گم کردہ می آئید جنید و بایزید انجاہ | |||
اگر کسی انسان میں اللہ و رسول ﷺ کا کرم اور فیض دیکھنا ہو تو اس مومن بندے کو اللہ تعالیٰ ادب، عجز، صبر کی دولت سے مالا مال کردیتے ہیں۔ – ہمیں جب کوئی دوست کسی اعلیٰ دنیاوی عہدہ کے حامل انسان سے ملوانے کے لیے لے جاتا ہے تو پہلے ہی اس بات کی تمہید باندھتا ہے کہ بڑے ادب سے پیش آنا، زیادہ گفتگو نہیں کرنی وغیرہ وغیرہ۔ تو اللہ اپنے محبوب کی بارگاہ میں کیسے ممکن ہے ادب کے انعام کے بنا کسی انسان کو پیش کر دے۔ | |||
میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے حسّانِ پاکستان الحاج محمد اعظم چشتی کی زندگی کے آخری سالوں کی محافل میں آپ کی صحبت میسر رہی خاص طور پر ایک محفل آپ کے ساتھ یاددگار ہوئی جب حکیم محمد آصف نقشبندی نے مغلپورہ، لال پل پر ایک محفل سجائی جس میں نعت خوانوں کی بڑی معتبر شخصیات تھیں۔ وہاں مجھے نقابت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ حفیظ تائب کے حوالے سے حضرت اعظم چشتی صاحب کو آخر میں نعت پڑھنے کے لیے بلایا جانا تھا لیکن بانی محفل کو اور مجھے فرمانے لگے کہ مجھے آج بخار ہے تلاوت کے بعد مجھے پڑھوا دیں تا کہ میں گھر جا کر آرام کر سکوں۔ جب میں نے آپ کی دست بوسی کی تو آپ کا جسم واقعی بہت گرم تھا۔ میں نے تلاوت کے بعد آپ کا اعلان کردیا۔ | |||
دوران نعت آپ کی ایسی کیفیت بن گئی کہ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپ چار پانچ گھنٹے مسلسل نعت پڑھتے رہے یہ عشق کی وابستگی ہے مکینِ گنبدِ خضرا سے جو اب محافل میں کم نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر پر انوار کی بارش کرے اور ہمیں بھی مدحتِ مصطفیٰ ؐکی خیرات عطا کرے۔ میں سمجھتا ہوں نعت ورثہ وہ تحریک ہے جو مشنِ خداوندی ہے۔ جس کا اعلان خود بھی کائنات نے ورفعنالک ذکرک کی صورت میں کیا۔ جو اس ذکر کی نوکری میں شامل ہو جاتا ہے وہ بھی بلند ہو جاتا ہے۔ دنیا کی وراثت قبر تک ختم ہو جاتی ہے لیکن ' نعت ورثہ ' کی وراثت قبر و حشر میں کام آئے گی۔ | |||
میں پیکرِ محبت واخلاص صابر درویش اور نعت ورثہ کی جملہ انتظامیہ کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت اپنے حبیب کریمؐ کے صدقے میں اس مشن میں اخلاص عطا فرمائے۔ نبی پاکؐ کا ذکر کرتے کرتےجب روح نکلے تو مدینے والے آقا کا دیدار ہو جائے۔ آمین ثم آمین! | |||
اختر حسین قریشی لاہور: میں نے شاگردی کے لیے محمد علی ظہوری صاحب کے دست مبارک پر بیعت کی لیکن میرا دل ہمیشہ اعظم چشتی کا مداح رہا ،میں ایک کم علم و کم فہم انسان، اعظم چشتی کے فن نعت اور نعت خوانی پر کیا بات کروں وہ ایک نعت خوانی کی عظیم درسگاہ تھے۔ ایک دفعہ میں ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر کے سٹوڈیو میں موجود تھا جہاں اعظم چشتی بھی ساتھ تھے تو کوئی نعت خواں نعت مبارکہ کی ریکارڈنگ کے لیے آیا تو یہ کلام پڑھنا شروع کیا؛ "ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے " تو پروڈیوسر و نعت خواں عبدالشکور بیدل نے اُسے پکڑا اور سٹوڈیو میں لے آئے اور کہا کہ جب تک اعظم چشتی ہے ہمیں اور کوئی نعت خواں اُن جیسا یا کم تر نہیں چاہیے ہاں اگر کوئی اُن سے اچھا ہو تو آئے۔ یہ بات سن کر مجھے اعظم چشتی صاحب کے مقام کا پتہ چلا۔ عبدالشکور بیدل ماتورِنعت خوانی میں بہت سخت رویہ رکھتے اور فقط ایسے مستند نعت خواں کو نعت مبارکہ پڑھنے کی اجازت دیتے جو معیارِ نعت سے آشنا ہوتا ۔ | |||
محمد علی ظہوری : آپ بیان کرتے ہیں کہ نعت گوئی سے زیادہ ان کی نعت خوانی کے انداز میں ایک انفرادیت ہے۔ بیاج کے بغیر تاویر نعت خوانی اور کسی مصرعہ پر گرہ لگانے میں ان کی ادائیگی کے جوہر زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ خوش روئی، خوش گوئی اور خوش پوشاکی کی ان تینوں صفات کا کسی ایک شخص میں جمع ہونا غیر معمولی بات ہے۔ | |||
منیر ہاشمی ملتان: آپ بیان کرتے ہیں کہ یہ مصرعہ میری طرف سے اپنے اُستاد محترم کی شخصیت و فن کے بارے میں بہت مناسب ہے ؛ | |||
اک سوہنا اک منہ دا مٹھا اُتوں قاتل نین نشیلے | |||
ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔ دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔ | ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ جو بھی آپ کے حلقہ اثر میں آ گیا وہ نایاب و بیش قیمت ہوا ۔ خوش الاکن،خوش فہم، خوش اخلاق ،خوش گو اور طبیعت میں ایسا مزاح کہ صوفیانہ محافل میں بھی محفل باغ و بہار ہو جاتی۔ پاکستان و دُنیا میں نعت خوانی کو جو تصویر آج نظر آ رہی ہے اس کے نقش و نگار قبلہ اعظم چشتی نے ہی بنائے۔ دُنیائے نعت میں ایسا نعت خواں آپ سے پہلے کبھی نہ آیا ہوگا ۔ ایسی گرہ بندی کہ ایک شعر پر چار پانچ گھنٹے لگ جاتے یہ منظر مجھے دیکھنے کے بار ہا مواقع ملے۔ گرہ بندی کے لیے آپ جانتے ہیں علم اور حافظہ خوب چاہیے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہوا تھا۔ آپ کی شخصیت و فن میرے فہم و فراست سے بالا ہے، کیا بیان کروں۔ | ||
سید منظور الکونین راولپنڈی: | سید منظور الکونین راولپنڈی: جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔ | ||
اختر بزمی راولپنڈی : میرے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ آپ کی شخصیت پر کوئی رائے دوں ، نعت خوانی ہو یا شخصیت اپنی مثال آپ ہی تھے کوئی دوسرا مثل اعظم چشتی نہ تھا نہ ہوگا ۔ | |||
جب میں نے نعت کے ماحول میں آنکھ کھولی تو تمام دوسرے اساتذہ کے علاوہ چشتی صاحب شروع ہی سے میری سماعتوں کے ذوق کی آبیاری کرتے رہے اور میرا معیارِ نعت خوانی ان سے قریب تر تھا۔ | |||
اختر بزمی راولپنڈی : | |||
ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا جس کے شاگرد بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔ | ملک عبدالمصطفیٰ سعیدی بہاولپور: نعت خوانی پر کیا تبصرہ کروں یہ کافی ہے کہ نعت خوان کیا ہوتا ہے اگر دیکھنا ہو تو اعظم چشتی صاحب کو دیکھ لیں، پُر وقار شخصیت ،خوش الحان،خوش لباس ،خوش طبع، خوش اخلاق انسان ہیں۔ وہ اُستاد کیسا ہوگا جس کے شاگرد بدرالدین بدر ، تاج الدین اوکاڑوی،منیر ہاشمی،ثناء اللہ بٹ ، الطاف الرحمان پاشا جیسے ہوں گے۔ | ||
لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ: نعت گوئی ہو یا نعت خوانی ، فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں سابقہ اور آنے والوں میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے۔ آپ کی شخصیت میں ایسا جادو ہے جو ہر ملنے والے پر یکساں اثر کرتا ہے۔ | |||
لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ: | سعید ہاشمی کراچی: جب میں نو عمر تھا تو ریڈیو پاکستان پر آپ کی نعت مبارکہ سنتا اور اُنہیں پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ آپ کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے بلا شبہ آپ پاکستان کے عظیم نعت خواں ہیں۔ | ||
نعت گوئی ہو یا نعت خوانی ، فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں سابقہ اور آنے والوں میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے۔ آپ کی شخصیت میں ایسا جادو ہے جو ہر ملنے والے پر یکساں اثر کرتا ہے۔ | ارباب ظفر اللہ پشاور: کلام یوں پڑھتے کہ محسوس ہوتا کہ الفاظ کو تاثیر مل رہی ہو، آپ نے نعت خوانی کی جو بنیاد رکھی آج بھی اُ س پر پاکستان کے طول عرض پر خوبصورت عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ نعت خوانی میں آپ کا نام ہمیشہ تابندہ و روشن رہے گا ۔ | ||
سعید ہاشمی کراچی: | |||
جب میں نو عمر تھا تو ریڈیو پاکستان پر آپ کی نعت مبارکہ سنتا اور اُنہیں پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ آپ کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے بلا شبہ آپ پاکستان کے عظیم نعت خواں ہیں۔ | |||
ارباب ظفر اللہ پشاور: | |||
کلام یوں پڑھتے کہ محسوس ہوتا کہ الفاظ کو تاثیر مل رہی ہو، آپ نے نعت خوانی کی جو بنیاد رکھی آج بھی اُ س پر پاکستان کے طول عرض پر خوبصورت عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ نعت خوانی میں آپ کا نام ہمیشہ تابندہ و روشن رہے گا ۔ | |||
محمد اسماعیل تبسم مظفر آباد آزاد کشمیر : جو بھی نعت خواں ہے کیسے ممکن ہو کہ آپ سے متاثر نہ ہو ا ہو اور کیسے ممکن ہے کہ آپ کے فنِ نعت خوانی سے مستفید نہ ہوا ہو ۔ | محمد اسماعیل تبسم مظفر آباد آزاد کشمیر : جو بھی نعت خواں ہے کیسے ممکن ہو کہ آپ سے متاثر نہ ہو ا ہو اور کیسے ممکن ہے کہ آپ کے فنِ نعت خوانی سے مستفید نہ ہوا ہو ۔ | ||
غلام مصطفیٰ مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر : حسّانِ پاکستان کا نعت خوانی میں کوئی ثانی نہیں ، آپ ایک سچے پکے عاشقِ رسول ﷺ ہیں۔ میری عمر کم وبیش 75 سال ہے جب میں چھوٹا سا تھا تو قبلہ اعظم چشتی کا کلام ریڈیو پر سنتا تھا اور اُسے اُسی طرح پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ اعظم چشتی میرے روحانی اُستاد ہیں۔ | |||
غلام مصطفیٰ مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر : | |||
حسّانِ پاکستان کا نعت خوانی میں کوئی ثانی نہیں ، آپ ایک سچے پکے عاشقِ رسول ﷺ ہیں۔ میری عمر کم وبیش 75 سال ہے جب میں چھوٹا سا تھا تو قبلہ اعظم چشتی کا کلام ریڈیو پر سنتا تھا اور اُسے اُسی طرح پڑھنے کی کوشش کرتا ۔ اعظم چشتی میرے روحانی اُستاد ہیں۔ | |||
صابر سردار فیصل آباد : اگر نعت خوانی کے اسلوب اور اس کی کوئی بہترین تعریف بیان کرنا ہو تو اعظم چشتی کی نعت خوانی بہترین نمونہ ہوگی ۔ بلاشبہ نعت گوئی، نعت خوانی اور فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں۔ | صابر سردار فیصل آباد : اگر نعت خوانی کے اسلوب اور اس کی کوئی بہترین تعریف بیان کرنا ہو تو اعظم چشتی کی نعت خوانی بہترین نمونہ ہوگی ۔ بلاشبہ نعت گوئی، نعت خوانی اور فنِ نعت میں آپ بے مثل ہیں۔ | ||
صدیق اسماعیل کراچی: آپ کے ملقہو میری رائے گویا سورج کو چرا غ دکھانے کے مترادف ہوگی۔ | |||
صدیق اسماعیل کراچی: آپ | |||
افضل نوشاہی لاہور: آپ نے نعت خوانی کو ایک باقاعدہ انداز دیا، اس کے خد و خال بنائے اور جو شکل آپ نے تخلیق کی نعت خوانی ہر دور میں اُس کی مرہون منت رہے گی۔ | افضل نوشاہی لاہور: آپ نے نعت خوانی کو ایک باقاعدہ انداز دیا، اس کے خد و خال بنائے اور جو شکل آپ نے تخلیق کی نعت خوانی ہر دور میں اُس کی مرہون منت رہے گی۔ | ||
مرغوب ہمدانی لاہور: اپنے نام کی نسبت سے اعظم تھے، ہیں اور رہیں گے۔ کیا اخلاص کیا عقیدت تھی، کیا شخصیت۔ بس بحیثیت نعت گو، نعت خواں آپ واقعی اعظم ہیں۔ والد گرامی حکیم منظور ہمدانی گھر میں اکثر محافل کرواتے ایک دفعہ گھر میں محفل کا انعقاد تھا، شدید بارش تھی، آپ نہ آئے، فون کرنے پر بتایا بارش ہے تو والد صاحب نے مجھے لینے کے لیے بھیجا۔ جب میں آپ کے گھر پہنچا تو آپ انتظار کر رہے تھے اور مجھے یہ سعادت ملی کہ آپ کو گھر لایا۔ اتنا بڑا نعت خواں کوئی بات نہ کی اور ساتھ چل پڑے، کیا اخلاص تھا! | مرغوب ہمدانی لاہور: اپنے نام کی نسبت سے اعظم تھے، ہیں اور رہیں گے۔ کیا اخلاص کیا عقیدت تھی، کیا شخصیت۔ بس بحیثیت نعت گو، نعت خواں آپ واقعی اعظم ہیں۔ والد گرامی حکیم منظور ہمدانی گھر میں اکثر محافل کرواتے ایک دفعہ گھر میں محفل کا انعقاد تھا، شدید بارش تھی، آپ نہ آئے، فون کرنے پر بتایا بارش ہے تو والد صاحب نے مجھے لینے کے لیے بھیجا۔ جب میں آپ کے گھر پہنچا تو آپ انتظار کر رہے تھے اور مجھے یہ سعادت ملی کہ آپ کو گھر لایا۔ اتنا بڑا نعت خواں کوئی بات نہ کی اور ساتھ چل پڑے، کیا اخلاص تھا! | ||
ثناء اللہ بٹ لاہور: نعت اوج نمبر 2 میں اپنے مضمون میں یوں بیان کرتے ہیں؛ | |||
ثناء اللہ بٹ لاہور: | "برکت علی خان مرحوم کی گائیکی سے بہت متاثر تھے۔ کئی برس شب و روز نزاکت علی خان مرحوم اور سلامت علی خان کے رفیق سفر رہے۔ صوفی غلام تبسم مرحوم کے علم و فضل کے بھی معترف تھے۔ شاعری میں حمد و نعت ،منقبت ،کافی، غزل، دوہے، گیت، نظم، چوبرگے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ نیز اعظم، رنگ و بو، غذائے روح اور انیندرے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہیں۔ ان کے شاگردوں کی فہرست بے شمار مداحانِ رسولؐ پر مشتمل ہے۔ | ||
" | محمد اعظم چشتی مرحوم کا حلقہ شاگردان پاکستان کے طول و عرض ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کے بیشتر شاگرد ان کا انداز اپنائے ہوئے ہیں جب کہ یہ بات کسی بھی اور اُستاد کے شاگردوں کے حصے میں نہیں آتی۔ جتنا بہتر اور معیاری کلام تقلید استاد میں ان کے شاگرد محافل میں پڑھتے ہیں اور کسی حلقہ کے نعت خواں نہیں پڑھتے۔ یہ بھی اعظم چشتی مرحوم کے حلقہ تلامذہ کا طرہّ امتیاز ہے کہ تمام کلام زبانی یاد ہے، کتاب استعمال نہیں کرتے۔ | ||
شہزاد ناگی لاہور: اعظم چشتی اپنے نام کی مناسبت سے نعت خوانی میں پاکستان کے اعظم ہیں ۔ نہ مثل ہے نہ آپ کی کوئی مثال۔ ایک مرتبہ کسی محفل میں مجھے سنا تو اشرف چشتی اور ثناء اللہ بٹ سے کہا کہ "ایہہ چڑی کتھے سنبھال کے رکھی اے!" جب کبھی مجھے محفل میں دیکھتے تو بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک مرتبہ ریڈیو لاہور سنٹر سے آپ کی قیادت میں نعت خواں ایوان صدر گئے تو وہاں اُس وقت کے صدر جناب ضیاء الحق نے اُنہیں محفل میں اپنے سے آگے بٹھایا۔ یہ دیکھ کر مجھے ضیاء الحق کی عقیدت اور اعظم چشتی کی عظمت کا احساس ہوا۔ آپ کی نذر میرا یہ شعر دورِ حاضر کے حوالے سے بہت مناسب ہے۔ | |||
شہزاد ناگی لاہور: | ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں | ||
اعظم چشتی اپنے نام کی مناسبت سے نعت خوانی میں پاکستان کے اعظم ہیں ۔ نہ مثل ہے نہ آپ کی کوئی مثال۔ ایک مرتبہ کسی محفل میں مجھے سنا تو اشرف چشتی اور ثناء اللہ بٹ سے کہا کہ "ایہہ چڑی کتھے سنبھال کے رکھی اے!" جب کبھی مجھے محفل میں دیکھتے تو بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک مرتبہ ریڈیو لاہور سنٹر سے آپ کی قیادت میں نعت خواں ایوان صدر گئے تو وہاں اُس وقت کے صدر جناب ضیاء الحق نے اُنہیں محفل میں اپنے سے آگے بٹھایا۔ یہ دیکھ کر مجھے ضیاء الحق کی عقیدت اور اعظم چشتی کی عظمت کا احساس ہوا۔ | ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم | ||
صادق رحمانی کراچی: بلاشبہ آپ پاکستان کے سب سے بہترین نعت خواں ہیں ،ان سے بہت ملاقاتیں رہیں ہمیشہ بہت عزت و حوصلہ افزائی کرتے ۔ | صادق رحمانی کراچی: بلاشبہ آپ پاکستان کے سب سے بہترین نعت خواں ہیں ،ان سے بہت ملاقاتیں رہیں ہمیشہ بہت عزت و حوصلہ افزائی کرتے ۔ | ||
سید الطاف حسین کاظمی: اعظم چشتی کی نعت گوئی اور نعت خوانی میں آپ کی تعلیم و تربیت اور ماحول کی بہت اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے نعت گوئی میں بھی کمال کلام لکھے تو نعت خوانی میں بھی کمال نعتیں پڑھیں۔ اہل نعت میں نعت سننے کا رجحان جناب اعظم چشتی کے منفرد انداز و آواز کا مرہون منت ہے جو عوام و خاص میں یکساں مقبول ہوا۔ آپ کو بیشمار زبانوں میں یکساں مہارت حاصل تھی ۔ آپ کی نعت خوانی میں سب سے بڑا وصف آپ کی گرہ بندی تھا۔ ایسی گرہ بندی کرتے کہ آج تک ایسا معیار کبھی دیکھنے کو نہ ملا ۔ | |||
سید الطاف حسین کاظمی: اعظم چشتی کی نعت گوئی اور نعت خوانی میں آپ کی تعلیم و تربیت اور ماحول کی بہت اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے نعت گوئی میں | خورشید احمد کراچی: خورشید احمد فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں جو کچھ بھی ہوں حضرت کی دعا ہے ۔ میں بچپن میں اعظم صاحب کو سنا کرتا تھا اور ان سے بہت متاثر تھا ۔ ملنے کی بہت حسرت تھی۔ وہ موقع اس طرح ہوا کہ حیدر آباد میں ایک زمیندار کے گھر ایک سالانہ محفل ہوا کرتی تھی اور وہ تین لوگوں کو بلایا کرتے تھے۔ مہدی حسن، فریدہ خانم اور اعظم چشتی۔ آغاز اعظم چشتی کیا کرتے تھے اور پھر محفل موسیقی شروع ہو جاتی تھی ۔ کسی نہ کسی طرح مجھے اعظم چشتی کے سامنے دو اشعار پڑھنے کا موقع مل گیا ۔ بہت کم عمر اور کم ہنر تھا ، میں نے کیا سنایا ہوگا؟ جب محفل کا اختتام ہوا تو میں اعظم چشتی کی دست بوسی کے لیے انہیں ڈھونڈتا ہوا اُن کے قریب پہنچ گیا، تو انہوں نے مجھے گلے لگایا اور کہا کہ بیٹا نعت خوانی میں جیسی عزت اللہ نے مجھے دی ہے ویسی ہی عزت تمہیں بھی دے گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا! | ||
شہزاد مجددی لاہور: آپ کا شمار پاکستان کے صف اوّل کے نعت خوانوں میں ہوتا ہے جن سے ملک کے معروف نعت خوان فیضیاب ہوئے، وسیع حلقہ تلامذہ رکھتے تھے۔ نعت گوئی کا بہت اعلیٰ ذوق تھا نعت گو شاعر بھی تھے۔ یہ بات بہت قابل تحسین ہے کہ وہ ہمیشہ علمائے اکرام سے بہت عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے، اپنا لکھا ہوا کلام پہلے اساتذہ و علمائے اکرام کو دکھاتے، شرعی و شعری دونوں طرح کی اصلاح کے بعد مجموعہ عوام میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ بات آج کے ثناء خوانوں کے لیے بہت بڑا درس ہے۔ اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے۔ | شہزاد مجددی لاہور: آپ کا شمار پاکستان کے صف اوّل کے نعت خوانوں میں ہوتا ہے جن سے ملک کے معروف نعت خوان فیضیاب ہوئے، وسیع حلقہ تلامذہ رکھتے تھے۔ نعت گوئی کا بہت اعلیٰ ذوق تھا نعت گو شاعر بھی تھے۔ یہ بات بہت قابل تحسین ہے کہ وہ ہمیشہ علمائے اکرام سے بہت عقیدت و محبت کا رشتہ رکھتے، اپنا لکھا ہوا کلام پہلے اساتذہ و علمائے اکرام کو دکھاتے، شرعی و شعری دونوں طرح کی اصلاح کے بعد مجموعہ عوام میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ بات آج کے ثناء خوانوں کے لیے بہت بڑا درس ہے۔ اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے۔ | ||
میرا کریم بھی کتنا کریم ہے اعظمؔ | میرا کریم بھی کتنا کریم ہے اعظمؔ | ||
کہ میرا عیب بھی جس کو ہنر نظر آئے | کہ میرا عیب بھی جس کو ہنر نظر آئے | ||
بدر السلام بدر، نقیب ، اسلام آباد: میں لاہور کی ایک محفلِ نعت میں شرکت کے لیا گیا تو وہاں موسیقی سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب بھی تھے۔ بات چلی تو کہنے لگے کہ ہم اپنے گھر جب بھی محفل کرواتے ہیں ہمیشہ اعظم چشتی کو ہی مدعو کرتے ہیں۔ آپ نعت خوانی میں اتنے سریلے ہیں کہ ہم داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کیسا انسان ہے کہ خوبصور ت آواز و انداز اور سُر لَے سے خوب شناسائی ہوتے ہوئے انہوں نے نعت خوانی کو زندگی کا حصول بنایا۔ | بدر السلام بدر، نقیب ، اسلام آباد: میں لاہور کی ایک محفلِ نعت میں شرکت کے لیا گیا تو وہاں موسیقی سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب بھی تھے۔ بات چلی تو کہنے لگے کہ ہم اپنے گھر جب بھی محفل کرواتے ہیں ہمیشہ اعظم چشتی کو ہی مدعو کرتے ہیں۔ آپ نعت خوانی میں اتنے سریلے ہیں کہ ہم داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کیسا انسان ہے کہ خوبصور ت آواز و انداز اور سُر لَے سے خوب شناسائی ہوتے ہوئے انہوں نے نعت خوانی کو زندگی کا حصول بنایا۔ | ||
گلو کار مہدی حسن خاں کراچی: انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اعظم چشتی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے جو ریکارڈ پر موجود ہیں: "میں غزل کا مہدی حسن ہوں ،اعظم چشتی نعت خوانی کے مہدی حسن ہیں۔" | |||
غلام علی : اعظم چشتی ایک درویش صفت انسان تھے۔ ان کی سریلی آواز دلوں میں اتر جاتی تھی۔ وہ سر کا بہت گہرا شعور رکھتے تھے۔ عشق رسول ﷺ ان کے دل میں تھا جس کے باعث ان کی آواز میں بہت سوز و گداز تھا ۔ میں جب بھی ان کی نعت سنتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ | |||
اُستاد حسین بخش گلو ( شام چوراسی گھرانہ ) لاہور: اعظم صاحب ایسے سریلے نعت خواں تھے کہ موسیقی کی دنیا کے سارے فنکار ایک ہی نعت خواں کو سننا پسند کرتے ہیں اور وہ ہیں اعظم چشتی صاحب ۔ اگر آپ کلاسیکل گائیک ہوتے تو بھی پوری دنیا میں ان کا نام ہوتا۔ آپ سرکار دو عالمﷺ کے سچے عاشق تھے ۔ اُن جیسا سریلا نعت خواں نہ ان سے پہلے کوئی تھا اور نہ ان کے بعد ہوگا ۔ | |||
استاد غلام حسن شگن (گوالیار گھرانہ ) لاہور: اعظم چشتی ایک درویش اور نبی اکرم ﷺ کے سچے عاشق تھے۔ اُن کی آواز کا سوز اس عشق کی وجہ سے دلوں کو حرم بنا دیتا تھا ۔ میں اکثر ان سےاپنے لیے دعا کرنے کی درخواست کیا کرتا تھا۔ اُن کے چہرے پر بھی عشق رسول ﷺ کا نور چمکتا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی پتہ چل جاتا کہ یہ منبر بہت مقدس و کریم ہے۔ بہت گانے والے انہیں اپنا مرشد مانتے تھے۔ | |||
استاد عبدالستار خاں تاری طبلہ نواز لاہور: اعظم چشتی کا شمار برصغیر کے ان پانچ سریلے ترین لوگوں میں ہوتا ہے جو پہلے سُر سے ہی بغیر کسی سہارے کے گاتے اور پڑھتے ہیں اور وہ مکمل اور پورا لگتا ہے جس کی کوئی مثال ہی نہیں اس کی ترتیب یوں ہے؛ | |||
کلاسیکل : استاد سلامت علی خاں | |||
غزل: مہدی حسن | |||
فوک: طفیل نیازی | |||
پلے بیک سنگر: لتا منگیشکر | |||
نعت خواں : محمد اعظم چشتی | |||
یہ پانچوں لوگ بلاشبہ برصغیر کے سُریلے ترین لوگ ہیں ۔ | |||
شفقت امانت علی (پٹیالہ گھرانہ) لاہور: اعظم چشتی صاحب جب عروج پر تھے میں اس وقت بہت چووٹا تھا بس اتنا یاد ہے کہ میرے والد صاحب استاد امانت علی خاں صبح ریڈیو لگا کر بیٹھ جاتے کہ اعظم چشتی کی نعت نشر ہو گی۔ وہ اعظم چشتی صاحب کی نعتیں بڑے شوق سے اور باقاعدہ سنا کرتے تھے اور کہتے کہ نعت خوانوں میں ایک ہی نعت خواں سننے والا ہے اور وہ اعظم چشتی ہے۔ پھر میں بڑا ہوا تو میں نے اعظم چشتی صاحب کو سنا واقعی ان کی آواز ِ پُر سوز کانوں سے سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ | |||
شیر علی، مہر علی قوال: نعت خوانی میں جو اسلوب اعظم چشتی نے متعارف کروائے وہ نعت خوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ نعت خوانی میں مثلِ اعظم چشتی نہ کوئی آپ سے پہلے تھا، نہ ہے، نہ ہوگا۔ | |||
شفقت سلامت علی خاں (شام چوراسی گھرانہ) لاہور: اعظم چشتی صاحب میرے والد استاد سلامت علی خاں کے بہت قریبی دوست تھے۔ والد صاحب کے ساتھ ان کی بہت بے تکلفی تھی۔ میں نے اپنے والد کو اکثر دیکھا کہ وہ اعظم چشتی صاحب کے گھر جایا کرتے تھے۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ اعظم چشتی جیسا سریلا اور پختہ نعت خواں میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں علمِ موسیقی پر بھی عبور حاصل تھا ۔ لے تال اور سُر کا ایسا گیان کسی اور نعت خواں کو نصیب نہیں ہوا جیسا اعظم چشتی صاحب کو ہے۔ خصوصی طور پر اعظم چشتی صاحب کو آواز کی مختلف خصوصیات اور بہاریوں کا گہرا شعور تھا سن کر بتا دیتے تھے کہ فلاں پڑھنے والے، گانے والے کی آواز میں کیا خوبی اور کیا خامی ہے۔ اعظم چشتی صاحب کی آواز تانپورہ کے تاروں پر ایسے رچ جاتی کہ ساز اور آواز ایک ہو جاتے۔ | |||
نعت ویو؛ اعظم چشتی کی مشہور نعتیں سنیں: | نعت ویو؛ اعظم چشتی کی مشہور نعتیں سنیں: | ||
اعظم چشتی روایتی اور کلاسیکل رنگ کے بے مثال نعت خواں تھے۔ ان کی نعت خوانی کا سحر آج تک نہیں ٹوٹا۔ پاکستان کے اولین نعت خوانوں میں سے ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ہر خطے کے عاشقان ِ مصطفیٰ ﷺ ان کی آواز سے شناسا ہیں۔ اعظم چشتی سُر اور لَے کو سمجھنے والے نعت خوانوں میں سے تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی تربیت ہی سُر اور لَے میں ہوئی۔ استاد بڑے غلام علی خاں اور استاد برکت علی خان سے گہرے مراسم تھے اور ان سے کسب ِ فیض حاصل کیا ۔ | اعظم چشتی روایتی اور کلاسیکل رنگ کے بے مثال نعت خواں تھے۔ ان کی نعت خوانی کا سحر آج تک نہیں ٹوٹا۔ پاکستان کے اولین نعت خوانوں میں سے ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ہر خطے کے عاشقان ِ مصطفیٰ ﷺ ان کی آواز سے شناسا ہیں۔ اعظم چشتی سُر اور لَے کو سمجھنے والے نعت خوانوں میں سے تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی تربیت ہی سُر اور لَے میں ہوئی۔ استاد بڑے غلام علی خاں اور استاد برکت علی خان سے گہرے مراسم تھے اور ان سے کسب ِ فیض حاصل کیا ۔ | ||
==== اعزازات ==== | ==== اعزازات ==== | ||
بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔ | بے شمار اہلِ نعت، علماء و مشائخ، نعت گو و نعت خواں نے آپ کو بابائے نعت اور حسّانِ پاکستان کالقب دیا مگر سید منظور الکونین کا آپ کو حسّانِ پاکستان کہنا یقناً ایک سند ہے کیونکہ آپ نعت گوئی و نعت خوانی کے جس سمندر میں غوطہ زن ہوئے اُس کی گہرائی تک پہنچنا کم نعت خوانوں کو نصیب ہوا اور آپ نے یہ لقب کسی نسبت یا تعلق کی بنا پر نہیں دیا بلکہ شخصیت و فن ِنعت خوانی سے متاثر ہو کر دیا۔ اہلِ نعت جانتے ہیں کہ نعت خوانی میں کلام کا منتخب کر نا ہو یا ادب یا اشعار کا چناؤ سید منظور الکونین اپنا مقام جُدا رکھتے ہیں۔ آپ نے کبھی کسی کی خوشامد نہ کی اور حق بات کہی جو کسی کو اچھی لگی یا بُری کبھی پروا نہیں کی۔ اعظم چشتی کو حسّان ِ پاکستان کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سُر و فکر دونوں سے ودیعت کیے گئے۔ نعت خوانی کی تو صفِ اول کے نعت خواں ٹھہرے اور نعت گوئی کی تو بہت سے شعرا نے ان پر رشک کیا۔ نعت خوانی کی تربیت کے لیے اُستاد بڑے غلام علی خاں اور شاعری میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی صحبت اور تربیت حاصل رہی۔ احمد ندیم قاسمی سے بھی قرب رہا۔ | ||
سطر 352: | سطر 150: | ||
جنہیں پرائڈ آف پرفارمنس ملا، جنہیں روضہ رسول ﷺ کے اندر درود و سلام پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جنہیں آزادیِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے پہلی نعتِ مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا، جنہیں پی ٹی وی کی نشریات کے آغاز پر پہلی نعتِ مبارکہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، پرائم منسٹر اور ایوانِ صدر میں نعت پڑھنے کا اعزا حاصل ہوا ، پہلےنعت خواں جنہیں بیرونِ ملک نعت خوانی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں کل پاکستان مقابلہ نعت جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں جج بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ پہلے نعت خواں جن کی برسی کے موقعہ پر ریڈیو پاکستان نے ایک محفلِ نعت کا انعقاد کیا۔ پہلے نعت خواں جن کے دو بیٹوں کو بھی پاکستان بھر میں نعت خوانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں جی ایچ کیو کی تقریبات میں نعت خوانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں پاکستان براڈ کاسٹنگ کی طرف سے ایکسیلنس ایوارڈ ملا! | جنہیں پرائڈ آف پرفارمنس ملا، جنہیں روضہ رسول ﷺ کے اندر درود و سلام پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جنہیں آزادیِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے پہلی نعتِ مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا، جنہیں پی ٹی وی کی نشریات کے آغاز پر پہلی نعتِ مبارکہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، پرائم منسٹر اور ایوانِ صدر میں نعت پڑھنے کا اعزا حاصل ہوا ، پہلےنعت خواں جنہیں بیرونِ ملک نعت خوانی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں کل پاکستان مقابلہ نعت جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں جج بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ پہلے نعت خواں جن کی برسی کے موقعہ پر ریڈیو پاکستان نے ایک محفلِ نعت کا انعقاد کیا۔ پہلے نعت خواں جن کے دو بیٹوں کو بھی پاکستان بھر میں نعت خوانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں جی ایچ کیو کی تقریبات میں نعت خوانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلے نعت خواں جنہیں پاکستان براڈ کاسٹنگ کی طرف سے ایکسیلنس ایوارڈ ملا! | ||
==== سنہری | ==== سنہری واقعات ==== | ||
===== روضہ ء رسول میں حاضری ===== | ===== روضہ ء رسول میں حاضری ===== | ||
روضۂ رسولﷺ کے اندر حاضری: 1975ء میں وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی ایک وفد کی صورت میں حج و عمرہ کی سعادت کے لئے گئے جس میں معروف سیاسی، سماجی، مذہبی اور ادبی شخصیات شامل تھیں۔ اس موقعہ پر حج کی سعادت حاصل کی اور روضۂ رسول ﷺ کے سامنے کھڑے ہوکر بلند آواز سے درود و سلام پیش کیا۔ یہ وہ خوش قسمت گھڑیاں تھیں جب اعظم چشتی کو روضۂ رسولﷺ کے اندر جاکر درد و سلام کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ ایسی کیفیات کہ زبان بیاں کرنے سے قاصر ہو۔ جس کا ذکر آپ نے حد ممکن زندگی بھر چھپائے رکھا ، آپ پہلے نعت خواں تھے جن کو یہ اعزا حاصل ہوا بعد ازاں کئی ایک نعت خوانوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ جو لوگ آپ سرکار ﷺ کی زیارت ہونے پر عوام و خاص میں اظہار کریں وہ بھی معتبر ہیں ، مقصد اہل محبت کو بتانا اور جو لوگ ایسے معاملات کو چھپا لیں اُن کی محبت کا بھی اپنا انداز ہوتا ہے۔ اعظم چشتی نے روضۂ رسول ﷺ کی حاضری کو ہر عام و خاص سے پنہاں رکھا یہ اُن کی محبت کا اپنا انداز ہے۔ | |||
===== قائد اعظم اور اعظم چشتی: ===== | |||
سندھ کے ایک دورے پر قائداعظم اور عبداللہ ہارون کے ساتھ ایک دورے پر تھے۔ دورانِ سفر قائد اعظم نے فرمایا کہ اعظم جناح کیپ پہنا کرو۔ اعظم چشتی بتاتے ہیں کہ میں نے اُسی دن بندر روڈ کراچی جا کر جناح کیپ خریدی، اُس کے بعد زندگی بھر جناح کیپ پہنی، اس سے پہلے آپ ترکی ٹوپی پہنتے تھے۔ آزادی ِ پاکستان کے جلسے و جلوس میں اعظم چشتی نے بھر پور کردار ادا کیا اور جلسے جلسوں میں نعتیں پڑھ کر آزادیِ پاکستان کی تحریک کو عشقِ مصطفیٰﷺ کی شمع سے خوب روشن کیا۔ پاکستان سے محبت کا یہ عالم دیکھیے کہ کئی ایک ملی نغمے اور ترانے بھی لکھے اور پڑھے ۔ آپ نے جہاں نعت گوئی و نعت خوانی کی، وہاں ضرورت پڑنے پر ملک کی محبت میں ملی نغمے و ترانے بھی لکھے اور پڑھے جس سے پاکستان سے آپ کی محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ | |||
===== | ===== منظور الکونین کا واقعہ ===== | ||
اعظم چشتی کے | سید منظور الکونین راولپنڈی : میں ایک محفل میں شرکت کے لیے گجرات اپنے ننھیال ماموں جان صاحبزادہ مبارک محی الدین کے ہاں پہنچا۔ وہاں سے مجھے گاڑی جلال پور جٹاں قاضی صاحب کے ہاں لے گئی ۔ جب میری باری آئی تو میں اللہ کا نام لے کر حضور کو یاد کر کے اسٹیج پر آیا اور درود شریف کے بعد بہزاد لکھنوی کی مشہور نعت جو اعظم چشتی نے ہی ریڈیو پاکستان سے پڑھی ہوئی تھی؛ "غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد، اب کچھ بھی نہیں مجھ کو مدینے کے سوا یاد" نہایت حضوری کیفیت میں پڑھی۔ کوئی آنکھ نم آلود ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ہر ہر شعر میں سامعین کی داد اور حالت دیدنی تھی۔ خود محمد اعظم چشتی صاحب میرے ساتھ آواز ملا کر شامل ہو کر پڑھ رہے تھے۔ مقطع کے ساتھ نعت کا اختتام ہوا اور منتظمین ِ عرس میرے واری صدقے جارہے تھے۔ میرے بعد محمد اعظم چشتی صاحب کا اعلان ہوا۔ حسّانِ پاکستان نے کھڑے ہو کر اچانک یوں کہا؛ "دوستوں نعت تو منظور الکونین نے پڑھ دی ہے اب میرا خیال ہے کہ صلوٰۃ و سلام پڑھ لیں اور انہوں نے "یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک" سے سلام کا واقعی آغاز کر دیا اور نعت نہ پڑھی؛ یہ ان کی میرے لیے محبت تھی اور ان کی عظمت کہ میں ان کے تلامذہ میں شامل نہ تھا اور بہت جونیئر تھا لیکن انہوں نے صدقِ دل سے میری پذیرائی کی اور حوصلہ افزائی فرمائی؛ اللہ حضور کے طفیل انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ! | ||
===== پاکستان سے محبت کا واقعہ ===== | |||
راوی: ختر حسین قریشی لاہور: | |||
آپ فرماتے ہیں 1993ء میں کوثر نیازی کی قیادت میں مَیں اور اعظم چشتی صاحب "رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس "میں شرکت کے لیے نئی دہلی گئے۔ جب واپسی ہوئی تو جہاز سے اترتے وقت اعظم چشتی صاحب جب آخری سیڑھی پر پہنچے تو کچھ کلمات پڑھنے لگے میں بڑے غور سے اُنہیں دیکھ رہا تھا اور کچھ دیر بعد سجدہ میں گر گئے اور زمیں کو چوم لیا۔ ایک نعت خواں کا یہ عمل اپنی دھرتی سے بے بناہ محبت کا ثبوت تھا۔ آپ ایک سچے پاکستانی تھے جنھوں نے کئی ملی نغمے و ترانے بھی لکھے اور وہ اپنی دھرتی سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ | |||
==== فروغِ نعت خوانی میں کردار ==== | |||
=====اعظم چشتی اور فن گائیکی ===== | |||
اہل علم و تحقیق ہمیشہ سے ہی نعت گو شعراء کا فنی تقابل مرزا غالبؔ دہلوی اور دوسرے کلاسیک اُردو شعراء سے کس عقیدت و محبت کی ساتھ کرواتے ہیں اور ہر صنف کا موازنہ بھی کرتے ہیں، جیسا کہ اعلیٰ حضرت کے کئی ایک معروف کلام کا تقابل کیا گیا اور بھر پور کوشش کی کہ شعراء میں نعت گو شعرا ء کے مقام و منزلت کو منوایا جائے۔ اگر ہم نعت خوانی میں فن نعت کا تقابل کریں تو اہل نعت نہ جانے کیوں اس پر آگ سوختہ ہو جاتے ہیں اگر شاعری ایک فن ہے ،اذان دینا ایک فن ہے اور قرأت ایک فن ہے جو صدیوں سے اہلِ عرب مقابلے کروا رہے ہیں تو نعت خوانی ایک فن کیوں نہیں؟ پاکستان میں یہ لاحاصل بحث کئی دہائیوں سے رہی۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ ہر شعبہ کی طرح نعت خوانی بھی ایک فن ہے جسے سیکھے بغیر ایک اچھا نعت خواں بننا مشکل ہے۔ | |||
اعظم چشتی وہ نعت خواں ہیں جن کے پاکستان کے سبھی معروف گلوکار و صوفیانہ کلام پڑھنے والے بھی معترف رہے اور یہاں تک کے ان لوگوں نے نجی محافلِ نعت میں آپ کو بلایا، عزت دی اور سماعت کیا ۔ | |||
==== خانوادہ ==== | |||
یہ کہاوت عام ہے کہ بوھڑ یعنی برگد کے درخت کے نیچے گھاس نہیں اگتی ، کیا وہ اولاد ہوگی جس نے اعظم چشتی جیسی شخصیت کے سائے تلے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی۔ آپ کے ایک بیٹے ارشاد اعظم چشتی نے اپنے والد گرامی کی وراثت کو خوب نبھایا اور نعت خوانی کے حوالے سے خوب نام کمایا۔ آپ کی ایک پوتی زہرہ ارشاد اعظم نے بھی اپنے دادا سے متاثر ہوکر نعت خوانی شروع کی تو خوب شہرت پائی۔ دوسرے بیٹے جمشید اعظم چشتی جو نعت گو اور بہت منفرد نعت خواں بھی ہیں ، آپ ایم فل فارسی کرنے کے بعد فارسی نعت میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ گورنمنٹ سول لائینز کالج میں بحیثیت ہیڈ آف فارسی ڈیپارٹمنٹ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ | |||
==== مشہور شاگرد ==== | ==== مشہور شاگرد ==== | ||
ثناء اللہ بٹ | ثناء اللہ بٹ لاہور،عبدالجبار قادری، محمد اشرف چشتی لاہور، بدرالدین بدر گوجرہ، قاری سید صداقت علی لاہور، قاری خوشی محمداسلام آباد، سید الطاف الرحمٰن پاشا لاہور، محمد رفیق چشتی لاہور، کرم الٰہی نقشبندی لاہور، محمد یوسف چشتی گجرات، محمد یوسف چشتی فیصل آباد، محمد یونس چشتی گوجرہ، میاں غلام محمد لاہور، شیخ محمد بشیر لاہور، اصغر علی چشتی کنجاہ گجرات، اصغر علی چشتی لالہ موسیٰ، صفدر علی چشتی لاہور، لیاقت حسین گیلانی بوریوالہ، ارشاد چشتی پسر لاہور، جمشید چشتی پسر لاہور، شبیر گوندل لاہور، قاری محبوب سلیم گوجرانوالہ، تاج الدین اوکاڑوی، عبد الوحید چشتی، عبدالرشید ساننوالہ، شیخ غلام نبی، محمد سعید صابر، محمد الیاس زاہد، غلام محی الدین اور عبدالشکور قادری یہ وہ نام ہیں جنہوں نے پاکستان میں خوب شہر پائی۔ اس کے علاوہ سینکڑوں شاگرد پاکستان کے طول و عرض میں ہیں جو آپ کے فنِ نعت خوانی سے مُستفید ہوئے۔ | ||
اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت سے ضرور مستفید ہوا ۔ | |||
اور بے شمار ایسے نعت خواں ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے آپ کی نعتیں سُنیں اور اُسی انداز میں پڑھ پڑھ کر سیکھا اور نعت خوانی میں خوب مقام بنایا مثلاً حاجی دلدار علی جماعتی جھنگ، اسماعیل تبسم مظفر آباد، غلام مصطفیٰ تبسم مستانہ کوٹلی آزاد کشمیر نے دورانِ انٹرویو اس بات کا اظہار کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر نعت خواں شعوری و لاشعوری طور پر اعظم چشتی کے فن نعت سے ضرور مستفید ہوا ۔ | |||
==== اعظم چشتی بہ طور نعت گو شاعر ==== | ==== اعظم چشتی بہ طور نعت گو شاعر ==== | ||
===== صوفی غلام مصطفی تبسم ===== | ===== صوفی غلام مصطفی تبسم ====== | ||
"نیر اعظم" کا تعارف ۔ صوفی غلام مصطفی تبسم " | "نیر اعظم" کا تعارف ۔ صوفی غلام مصطفی تبسم " | ||
سطر 446: | سطر 219: | ||
اعظم کا کلام قارئین کے سامنے ہے وہ خود اس بات کا اندازہ کر لیں گے کہ وہ کلام کیسا ہے۔ میں نے یہ چند الفاظ تنقید یا تحسین کی غرض سے نہیں کہے مجھے اس کے کلام کے ساتھ ساتھ اس کی ذات اور اس کی دوستی بھی عزیز ہے۔ مجھے اس سے پیار ہے اور مشفقانہ لگاؤ ہے۔ اسی پیار اور شفقت کا اثر ہے کہ شاعر کے عقیدت مند خود اعظم بھی مجھے اس بے تکلفی کے لیے معاف فرمائیں گے۔ اخیر میں میری یہ دعا ہے کہ اللہ اسے عمرِ دراز عطا فرمائے کہ اس کارِ صواب و ثواب کو جاری رکھے اور عشقِ رسولﷺ کا جذبہ عام کرتا رہے۔ مارچ 1970ء | اعظم کا کلام قارئین کے سامنے ہے وہ خود اس بات کا اندازہ کر لیں گے کہ وہ کلام کیسا ہے۔ میں نے یہ چند الفاظ تنقید یا تحسین کی غرض سے نہیں کہے مجھے اس کے کلام کے ساتھ ساتھ اس کی ذات اور اس کی دوستی بھی عزیز ہے۔ مجھے اس سے پیار ہے اور مشفقانہ لگاؤ ہے۔ اسی پیار اور شفقت کا اثر ہے کہ شاعر کے عقیدت مند خود اعظم بھی مجھے اس بے تکلفی کے لیے معاف فرمائیں گے۔ اخیر میں میری یہ دعا ہے کہ اللہ اسے عمرِ دراز عطا فرمائے کہ اس کارِ صواب و ثواب کو جاری رکھے اور عشقِ رسولﷺ کا جذبہ عام کرتا رہے۔ مارچ 1970ء | ||
===== مولانا کوثر نیازی | ===== مولانا کوثر نیازی ==== | ||
پیش گفت نیر اعظم نعت گو شاعر و مذہبی سکالر مولانا کوثر نیازی: | پیش گفت نیر اعظم نعت گو شاعر و مذہبی سکالر مولانا کوثر نیازی: | ||
نعت خواں اعظم،نعت خوانِ اعظم ہے،اتنا تو مجھے معلوم تھا مگر خبر نہ تھی کہ اس کی شخصیت بیک وقت ایک نعت گو شاعر،ادبیات ، ایک ممتاز عالم، ایک سچے مسلمان اور ایک اچھے انسان کے کمالات اور محاسن کی بھی جامع ہے۔ غالباً 1961ء کی بات ہے رنگ محل لاہور میں ایک جلسہ میلاد کا اہتمام تھا میری تقریر تھی اور اعظم چشتی کو نعت پڑھنی تھی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ جس آواز پر میں برسوں سے سَر دُھن رہا تھا وہ میرے سامنے ایک سوزِ مجسم کے سینہ بے تاب سے نکل کر اہل محفل کے دل گرما رہی تھی۔ ایک خوش گلو،خوش خو اور خوش رُو انسان قیامت ڈھا گیا۔ میرے دل نے کہا کہ یہ شخص عام نعت خوانوں سے کتنا مختلف ہے، پیشہ ورانہ تو اسے چھو تک نہیں گیا۔جو بول اپنے منہ سے نکالتا ہے اس کے معنی و مطلب سے آگاہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اشعار اس کے حلق سے نہیں دل سے اُبل رہے ہیں۔ نعت پڑھتا ہے تو خود اس کا وجود اس کے کیف میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ اعظم چشتی سے یہ میری پہلی اور مختصر ملاقات تھی مگر اس نے دل پر ان مٹ نقوش ثبت کر دیے۔ جی چاہا کاش اسے بار بار سننے اور دیکھنے کے مواقع ملتے رہیں،خُدا کا شکر ہے کہ اس نے میری دعا سن لی ۔اس کے بعد اعظم کو بیسیوں مرتبہ سنا۔ سفر و حضر میں قریب سے دیکھا اور مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت محسوس ہوتی ہےکہ اس کی عظمت کا احساس ہر بار پہلے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ اعظم چشتی کو مبدا فیاض سے نہایت اعلیٰ اور متنوع صلاحیتیں ہوئی ہیں۔ شرقیہ کا فاضل، مذہبیات کا عالم، موسیقی کا ماہر اور وسیع مطالعہ رکھنے والا ادیب اور شاعر ہے۔ وہ چاہے تو کسی بھی میدان میں اپنی عمتم کے پرچم گاڑ دیتا لیکن 'یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا' کے مصداق یہ اس کی سعادت بھی ہے اور قربانی بھی کہ اس نے اس مادیت کے دور میں اپنے لیے نعت گوئی کا میدان منتخب کیا اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی مقصد عزیز کے لیے وقف کر دیں۔ جس کا ثبوت اس کے ایک شعر سے یوں ہے کہ ؛ | نعت خواں اعظم،نعت خوانِ اعظم ہے،اتنا تو مجھے معلوم تھا مگر خبر نہ تھی کہ اس کی شخصیت بیک وقت ایک نعت گو شاعر،ادبیات ، ایک ممتاز عالم، ایک سچے مسلمان اور ایک اچھے انسان کے کمالات اور محاسن کی بھی جامع ہے۔ غالباً 1961ء کی بات ہے رنگ محل لاہور میں ایک جلسہ میلاد کا اہتمام تھا میری تقریر تھی اور اعظم چشتی کو نعت پڑھنی تھی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ جس آواز پر میں برسوں سے سَر دُھن رہا تھا وہ میرے سامنے ایک سوزِ مجسم کے سینہ بے تاب سے نکل کر اہل محفل کے دل گرما رہی تھی۔ ایک خوش گلو،خوش خو اور خوش رُو انسان قیامت ڈھا گیا۔ میرے دل نے کہا کہ یہ شخص عام نعت خوانوں سے کتنا مختلف ہے، پیشہ ورانہ تو اسے چھو تک نہیں گیا۔جو بول اپنے منہ سے نکالتا ہے اس کے معنی و مطلب سے آگاہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اشعار اس کے حلق سے نہیں دل سے اُبل رہے ہیں۔ نعت پڑھتا ہے تو خود اس کا وجود اس کے کیف میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ اعظم چشتی سے یہ میری پہلی اور مختصر ملاقات تھی مگر اس نے دل پر ان مٹ نقوش ثبت کر دیے۔ جی چاہا کاش اسے بار بار سننے اور دیکھنے کے مواقع ملتے رہیں،خُدا کا شکر ہے کہ اس نے میری دعا سن لی ۔اس کے بعد اعظم کو بیسیوں مرتبہ سنا۔ سفر و حضر میں قریب سے دیکھا اور مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت محسوس ہوتی ہےکہ اس کی عظمت کا احساس ہر بار پہلے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ اعظم چشتی کو مبدا فیاض سے نہایت اعلیٰ اور متنوع صلاحیتیں ہوئی ہیں۔ شرقیہ کا فاضل، مذہبیات کا عالم، موسیقی کا ماہر اور وسیع مطالعہ رکھنے والا ادیب اور شاعر ہے۔ وہ چاہے تو کسی بھی میدان میں اپنی عمتم کے پرچم گاڑ دیتا لیکن 'یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا' کے مصداق یہ اس کی سعادت بھی ہے اور قربانی بھی کہ اس نے اس مادیت کے دور میں اپنے لیے نعت گوئی کا میدان منتخب کیا اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی مقصد عزیز کے لیے وقف کر دیں۔ جس کا ثبوت اس کے ایک شعر سے یوں ہے کہ ؛ | ||
سطر 567: | سطر 340: | ||
اعظمؔ گزر رہی ہے کس آسودگی کے ساتھ | اعظمؔ گزر رہی ہے کس آسودگی کے ساتھ | ||
سایہ ہے ان کا سر پہ مرے آسماں نہیں | سایہ ہے ان کا سر پہ مرے آسماں نہیں | ||
نومبر 1995ء | نومبر 1995ء | ||
==== سال بہ سال ==== | ==== سال بہ سال ==== | ||
سطر 573: | سطر 346: | ||
1932ء میں پہلی مرتبہ ختم پاک جو ہر جمعرات کو مزار گنج بخش پر منعقدہوتا تھا آپ کو اس موقعہ ایک بڑے کثیر التعداد سامعین کے روبرو نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا تو سامعین نے خوب داد دی اور صدقے و واری گئے ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب فیض ہجویری نے آپ کو ایک عظیم نعت خواں کی سند دی۔ یوں اعظم چشتی پاکستان کے طول و عرض میں مشہور و مقبول ہوئے۔ | 1932ء میں پہلی مرتبہ ختم پاک جو ہر جمعرات کو مزار گنج بخش پر منعقدہوتا تھا آپ کو اس موقعہ ایک بڑے کثیر التعداد سامعین کے روبرو نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا تو سامعین نے خوب داد دی اور صدقے و واری گئے ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب فیض ہجویری نے آپ کو ایک عظیم نعت خواں کی سند دی۔ یوں اعظم چشتی پاکستان کے طول و عرض میں مشہور و مقبول ہوئے۔ | ||
1936ء آل انڈیا ریڈیو ، لاہور میں پہلی نعت پڑھی جس کے پروڈیوسر صابر بھٹی تھے۔ | 1936ء آل انڈیا ریڈیو ، لاہور میں پہلی نعت پڑھی جس کے پروڈیوسر صابر بھٹی تھے۔ | ||
1938ء میں میٹرک پاس کیا | 1938ء میں میٹرک پاس کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چیک کرنا ہے | ||
1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔ | 1941ء کو آپ رشتۂ ازواج میں منسلک ہوئے، آپ کی شادی چچا زاد سے ہوئی۔ | ||
1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح" شائع | 1944ء پہلا نعتیہ مجموعہ "غذائے روح" شائع ہوا۔ | ||
1947ء پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا | 1947ء آزادی پاکستان کے قیام کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر پاکستانی کی تاریخ نعت خوانی کا آغاز ہوا اور پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا | ||
1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی | 1952ء میں بزم حسان کی بنیاد رکھی | ||
1953ء میں نعتوں کا مجموعہ "رنگ و بو" شائع ہوا ۔ | 1953ء میں نعتوں کا مجموعہ "رنگ و بو" شائع ہوا ۔ | ||
1957ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے شاہ ایران رضا پہلوی کی دعوت پر ایک وفد کی صورت میں ایران گئے جہاں اپنے فارسی کلام سے اہل ایران کو خوب متاثر کیا۔ | 1957ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے شاہ ایران رضا پہلوی کی دعوت پر ایک وفد کی صورت میں ایران گئے جہاں اپنے فارسی کلام سے اہل ایران کو خوب متاثر کیا۔ | ||
1958ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں اُس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ کی دعوت پر جشن کابل کے موقعہ پر افغانستان گئے ۔ اس وفد میں سیاسی و سماجی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔ | 1958ء سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی طرف سے ایک وفد کی صورت میں اُس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ کی دعوت پر جشن کابل کے موقعہ پر افغانستان گئے ۔ اس وفد میں سیاسی و سماجی اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔ | ||
1960ء کی دہائی میں "اعظم نعت اکیڈمی" قائم ہوئی۔ پہلے باقاعدہ کام ہوتا رہا اور پھر مصروفیت کی وجہ سے غیر رسمی استادی شاگردی کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعد ازاں نجی مصروفیات کی بنا پر اس کی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [ یہ ارشاد اعظم چشتی صاحب کی کارستانی لگتی ہے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کوئی ادارہ وجود میں آیا ہو ] | |||
1964ء پی ٹی وی کی پہلی نشریات کے موقعہ پر پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ | 1964ء پی ٹی وی کی پہلی نشریات کے موقعہ پر پہلی نعت مبارکہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ | ||
1966ء | 1966ء بزم فروغ نعت و مناقب اور نیشنل بنک آف پاکستان کے تحت ہونے والے مقابلے میں اول انعام | ||
1968ء کل پاکستان مقابلہ حسن نعت زیر اہتمام نیشنل بنک آف پاکستان پہلا انعام گولڈ ٹرافی حاصل کی جس پر خانہ کعبہ و گنبدِ خضرا کندہ تھا، اس محفل کی صدارت نیشنل بینک کے صدر سید دربار علی شاہ نے کی۔ | |||
1970ء "نیر اعظم" نعتوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ | 1970ء "نیر اعظم" نعتوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ | ||
1970ء پاکستان براڈ کاسٹنگ ادارہ نے آپ کو آپ کی بیش قیمت خدمات کے عوض آؤٹ سٹینڈنگ کیٹگری دی اور ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | 1970ء پاکستان براڈ کاسٹنگ ادارہ نے آپ کو آپ کی بیش قیمت خدمات کے عوض آؤٹ سٹینڈنگ کیٹگری دی اور ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | ||
1970ء | 1970ء کل پاکستان مقابلہ حسن نعت زیر اہتمام پاکستان نعت کونسل جس کے بانی و سرپرست جناب ادیب رائے پوری تھے، مقابلہ میں آپ کو اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر گولڈ میڈل دیا گیا۔ | ||
1970ء رحمت گرامو فون | 1970ء رحمت گرامو فون ہائوس نے آپ کی پہلی آڈیو کیسٹ ریلیز کی ۔ | ||
1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔ | 1971ء وزیر اوقاف مولانا کوثر نیازی نے پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد میں پہلی محفل نعت منعقد کروائی جس میں آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم اور دیگر مذہبی، علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے روبرو نعت مبارکہ پیش کی تو سب اعلیٰ شخصیات کو کہا کہ اب سب با ادب کھڑے ہو جائیں تاکہ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام پیش کیا جاسکے۔ | ||
1974ء | 1974ء حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ کل دو حج اور بیشمار عمروں کی سعادت حاصل ہوئی۔ | ||
1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | 1975ء حج و عمرہ اور روضہ رسول ﷺ کے اندر حاضری اور سلام پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ آپ پہلے نعت خواں تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ | ||
1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔ | 1979ء پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے نعت خواں تھے جنہیں نعت خوانی پہ پرائڈ آف پرفارمنس ملا ۔ یوں نعت خوانوں کے لیے اس اعزاز کا اجراء ہوا۔ | ||
سطر 595: | سطر 369: | ||
1983ء میں پیر منور حسین جماعتی کے ہمراہ ایک وفد کے ساتھ پورے یورپ کے دورہ پر گئے جہاں محافل سجائیں اور فروغِ نعت و دین کا کام کیا۔ | 1983ء میں پیر منور حسین جماعتی کے ہمراہ ایک وفد کے ساتھ پورے یورپ کے دورہ پر گئے جہاں محافل سجائیں اور فروغِ نعت و دین کا کام کیا۔ | ||
1984ء نعت گوئی کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس میں شاعری پر بہت توجہ مرکوز کی، نعت گوئی کی کتاب "معراج " جو زیرِ طبع تھی کو مکمل کیا۔ | 1984ء نعت گوئی کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اس میں شاعری پر بہت توجہ مرکوز کی، نعت گوئی کی کتاب "معراج " جو زیرِ طبع تھی کو مکمل کیا۔ | ||
1984ء بیٹے جمشیدکے علاج کے لیے | 1984ء بیٹے جمشیدکے علاج کے لیے یوـکے گئے، یہ ربیع الاوّل کا مہینہ تھا۔ نعت خوانی سے محبت تو دیکھیے کہ بیٹے کے علاج کے دوران ماہِ ربیع الاوّل کی محافل میں شرکت کرتے رہے اور یہاں تک کہ ربیع الاوّل کے جلوس کی قیادت بھی کی۔ کم وبیش 3 ماہ یوـکے رہے بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے کرم و فضل اور آپ سرکارﷺ کی نگاہِ رحمت کے تصدق آپ کا بیٹا جمشید صحت یاب ہوا۔ | ||
1987ء جامعۂ حسّان کی بنیاد رکھی۔ شیخوپورہ روڈ، زاہد ٹاؤن پر رفاہِ عامہ کے لیے بابا نوری بوری کے قریب 11 کنال جگہ خریدی اور وہاں مدفون ہونے کی وصیت کی۔ | 1987ء جامعۂ حسّان کی بنیاد رکھی۔ شیخوپورہ روڈ، زاہد ٹاؤن پر رفاہِ عامہ کے لیے بابا نوری بوری کے قریب 11 کنال جگہ خریدی اور وہاں مدفون ہونے کی وصیت کی۔ | ||
1993ء رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس میں شرکت کے لیے انڈیا گئے ۔ | 1993ء رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس میں شرکت کے لیے انڈیا گئے ۔ | ||
1993ء مارچ میں آخری عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی، شدید بیمار تھے سب اہل خانہ کے منع کرنے کے باوجود اصرار کرتے رہے کہ میری ایک حاضری باقی ہے۔ لاہور سے براہ راست مدینہ منورہ پہنچے تو بیٹے ارشاد چشتی نے استقبال کیا، حالت بہت خراب تھی سیدھا ہسپتال چلے گئے۔ 15 دن کا ویزا تھا سب اہل نعت یوں کہتے کہ دیکھیں، اعظم چشتی مدینہ آیا بھی اور حاضری نہ ہوئی، آخری رات بیٹے ارشاد چشتی سے کہا کہ مجھے روضۂ رسولﷺ پر لے چلو۔ ویل چیئر پر پہنچے تو دروازے بند تھے، بہت تکرار کے بعد ارشاد چشتی نے کہا کہ ابا کوتوال دروازہ نہیں کھولتا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹا اُسے میرےپاس بلاؤ۔ بہت منت سماجت کی تو وہ آ گیا۔ جب اعظم چشتی نے کہا میری طرف دیکھو میں اندر حاضری دینا چاہتا ہوں، کوتوال نے آپ کی طرف دیکھا؛ اللہ جانے کیا بات دل پر اثر کر گئی اور کہا کہ صرف ایک آپ ہی اندر جا سکتے ہیں۔ ارشاد چشتی کہتے ہیں؛ یہ سارا منظر دیکھ کر میں حیران ہوا کہ ایسا کیا کہا کہ آپ کو دیکھا اور اجازت مل گئی کیونکہ میں کئی سالوں سے مدینہ میں مقیم ہوں، کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ بہرحال ابا جی اندر گئے اور کئی گھنٹے حاضری دینے کے بعد واپس آ گئے۔ اس عمرہ کی سعادت کے بعد آپ نے مکمل گوشہ نشینی اختیار کر لی اور کچھ ماہ بعد وصل محبوب حق ہو گئے۔ | 1993ء مارچ میں آخری عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی، شدید بیمار تھے سب اہل خانہ کے منع کرنے کے باوجود اصرار کرتے رہے کہ میری ایک حاضری باقی ہے۔ لاہور سے براہ راست مدینہ منورہ پہنچے تو بیٹے ارشاد چشتی نے استقبال کیا، حالت بہت خراب تھی سیدھا ہسپتال چلے گئے۔ 15 دن کا ویزا تھا سب اہل نعت یوں کہتے کہ دیکھیں، اعظم چشتی مدینہ آیا بھی اور حاضری نہ ہوئی، آخری رات بیٹے ارشاد چشتی سے کہا کہ مجھے روضۂ رسولﷺ پر لے چلو۔ ویل چیئر پر پہنچے تو دروازے بند تھے، بہت تکرار کے بعد ارشاد چشتی نے کہا کہ ابا کوتوال دروازہ نہیں کھولتا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹا اُسے میرےپاس بلاؤ۔ بہت منت سماجت کی تو وہ آ گیا۔ جب اعظم چشتی نے کہا میری طرف دیکھو میں اندر حاضری دینا چاہتا ہوں، کوتوال نے آپ کی طرف دیکھا؛ اللہ جانے کیا بات دل پر اثر کر گئی اور کہا کہ صرف ایک آپ ہی اندر جا سکتے ہیں۔ ارشاد چشتی کہتے ہیں؛ یہ سارا منظر دیکھ کر میں حیران ہوا کہ ایسا کیا کہا کہ آپ کو دیکھا اور اجازت مل گئی کیونکہ میں کئی سالوں سے مدینہ میں مقیم ہوں، کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ بہرحال ابا جی اندر گئے اور کئی گھنٹے حاضری دینے کے بعد واپس آ گئے۔ اس عمرہ کی سعادت کے بعد آپ نے مکمل گوشہ نشینی اختیار کر لی اور کچھ ماہ بعد وصل محبوب حق ہو گئے۔ | ||
2012ء اعظم چشتی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی جس میں جامعہ حسّان، اعظم چشتی ہسپتال، اعظم نعت اکیڈمی و لائبریری اور ایک مدرسے پر کام ہو رہا ہے۔ جامعہ حسّان تقریباً تعمیر ہو چکی ہے۔ اس میں قریباً 150 بچے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ | 2012ء اعظم چشتی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی جس میں جامعہ حسّان، اعظم چشتی ہسپتال، اعظم نعت اکیڈمی و لائبریری اور ایک مدرسے پر کام ہو رہا ہے۔ جامعہ حسّان تقریباً تعمیر ہو چکی ہے۔ اس میں قریباً 150 بچے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ | ||
==== نعت خوانی میں مشہور کلام ==== | ==== نعت خوانی میں مشہور کلام ==== | ||
===== | ===== غیروں کی وفا یاد نہ اپنو کی وفا یاد ===== | ||
سطر 695: | سطر 396: | ||
ﷺ | ﷺ | ||
===== اج سک متراں دی ودھیری اے، کیوں دِلڑی اداس گھنیری اے ===== | ===== اج سک متراں دی ودھیری اے، کیوں دِلڑی اداس گھنیری اے ===== | ||
سطر 730: | سطر 430: | ||
حضرت پیر مہر علی شاہؒ | حضرت پیر مہر علی شاہؒ | ||
===== خود کو دیکھا تو ترا جود و کرم یاد آیا ===== | ====== خود کو دیکھا تو ترا جود و کرم یاد آیا ====== | ||
تجھ کو دیکھا تو مصور کا قلم یاد آیا | تجھ کو دیکھا تو مصور کا قلم یاد آیا | ||
صبح پھوٹی تو ترے رخ کی ضیاء یاد آئی | صبح پھوٹی تو ترے رخ کی ضیاء یاد آئی | ||
سطر 748: | سطر 445: | ||
جب بھی وہ ماہِ عرب، مہرِ عجم یاد آیا | جب بھی وہ ماہِ عرب، مہرِ عجم یاد آیا | ||
محمد اعظمؔ چشتی | محمد اعظمؔ چشتی | ||
===== ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے ===== | ===== ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے ===== | ||
سطر 767: | سطر 467: | ||
اعظمؔ ترا اندازِ طلب کتنا حسیں ہے | اعظمؔ ترا اندازِ طلب کتنا حسیں ہے | ||
محمد اعظمؔ چشتی | محمد اعظمؔ چشتی | ||
=====سارے جگ توں نرالیاں دسدیاں نے عربی سرکار دیاں گلیاں ===== | =====سارے جگ توں نرالیاں دسدیاں نے عربی سرکار دیاں گلیاں ===== | ||
سطر 791: | سطر 493: | ||
=====مجھ خطا کار سا انسان مدینے میں رہے ===== | =====مجھ خطا کار سا انسان مدینے میں رہے ===== | ||
مجھ خطا کار سا انسان مدینے میں رہے | مجھ خطا کار سا انسان مدینے میں رہے | ||
بن کے سرکار کا مہمان مدینے میں رہے | بن کے سرکار کا مہمان مدینے میں رہے | ||
سطر 854: | سطر 553: | ||
===== کوئی تیں جیہا نظریں آوے تے ویکھاں ===== | ===== کوئی تیں جیہا نظریں آوے تے ویکھاں ===== | ||
کوئی تیں جیہا نظریں آوے تے ویکھاں | کوئی تیں جیہا نظریں آوے تے ویکھاں | ||
کوئی دوسرا دل نوں بھاوے تے ویکھاں | کوئی دوسرا دل نوں بھاوے تے ویکھاں | ||
سطر 876: | سطر 573: | ||
===== اے موت ٹھہر جائیں مدینے تے جا لَواں ===== | ===== اے موت ٹھہر جائیں مدینے تے جا لَواں ===== | ||
اے موت ٹھہر جائیں مدینے تے جا لَواں | اے موت ٹھہر جائیں مدینے تے جا لَواں | ||
سطر 899: | سطر 594: | ||
محمد اعظمؔ چشتی | محمد اعظمؔ چشتی | ||
===== | ===== کدی ساڈے ول پھیرا پا کملی والے ===== | ||
کدی ساڈے ول پھیرا پا کملی والے | |||
غریباں دی قسمت جگا کملی والے! | غریباں دی قسمت جگا کملی والے! | ||
غریباں دی فریاد دکھیاں دے دکھڑے | غریباں دی فریاد دکھیاں دے دکھڑے | ||
سطر 919: | سطر 610: | ||
====نعت گوئی میں مشہور کلام ==== | ====نعت گوئی میں مشہور کلام ==== | ||
سطر 1,406: | سطر 1,076: | ||
کتاب "ثنائے رسولﷺ" از محمد علی ظہوری، صفحہ 232 | کتاب "ثنائے رسولﷺ" از محمد علی ظہوری، صفحہ 232 | ||
--------------------- | --------------------- | ||