آپ «دکنی مثنویوں میں نعت ۔ ڈاکٹر نسیم الدین فریس» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 708: سطر 708:


نصرتی اور ہاشمی کے ایک ہم عصر محمد امین ایاغی نے علی عادل شاہ ثانی کے عہد حکومت (۱۶۵۶ تا ۱۶۷۲ء) میں ’’نجات نامہ‘‘ کے عنوان سے ایک مذہبی مثنوی تصنیف کی۔ اس مثنوی میں لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے اور گناہ گاروں کو قیامت میں جو سزائیں دی جائیں گی ان کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ایاغی نے احوال قیامت کے بیان سے قبل حمد و نعت بھی لکھی ہے۔ نعتیہ اشعار میں پہلے وہ نبی اکرمؐ کے بعض فضائل و محاسن کا ذکر کرتا ہے ‘ پھر آپؐ کی شریعت پر چلنے کی تلقین کرتا ہے ۔ آپؐ کی شان و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:
نصرتی اور ہاشمی کے ایک ہم عصر محمد امین ایاغی نے علی عادل شاہ ثانی کے عہد حکومت (۱۶۵۶ تا ۱۶۷۲ء) میں ’’نجات نامہ‘‘ کے عنوان سے ایک مذہبی مثنوی تصنیف کی۔ اس مثنوی میں لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے اور گناہ گاروں کو قیامت میں جو سزائیں دی جائیں گی ان کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ایاغی نے احوال قیامت کے بیان سے قبل حمد و نعت بھی لکھی ہے۔ نعتیہ اشعار میں پہلے وہ نبی اکرمؐ کے بعض فضائل و محاسن کا ذکر کرتا ہے ‘ پھر آپؐ کی شریعت پر چلنے کی تلقین کرتا ہے ۔ آپؐ کی شان و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:
محمد نبی تاجِ پیغمبراں
محمد نبی تاجِ پیغمبراں
سپہ دار دیں ، سرور سروراں
سپہ دار دیں ، سرور سروراں
شہنشاہ تاج لولاک کا
شہنشاہ تاج لولاک کا
کہ پل میں کیا سیر افلاک کا
کہ پل میں کیا سیر افلاک کا
اسے تاج و اقبال و رفعت دیا
اسے تاج و اقبال و رفعت دیا
اپس کن بلا بھیج عزت دیا
اپس کن بلا بھیج عزت دیا
ذکر فضائل کے بعد ایاغی مسائل کی طرف آتا ہے اور امت کو نصیحت کرتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی بات قبول کرنا ضروری ہے ‘ جو آپؐ کی بات نہیں سنے گا قیامت کے دن حسرت سے ہاتھ چبائے گا
ذکر فضائل کے بعد ایاغی مسائل کی طرف آتا ہے اور امت کو نصیحت کرتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی بات قبول کرنا ضروری ہے ‘ جو آپؐ کی بات نہیں سنے گا قیامت کے دن حسرت سے ہاتھ چبائے گا
خدا کا حبیب وہ خدا کا رسول
خدا کا حبیب وہ خدا کا رسول
جو کچ وہ کہا ہے سو کرنا قبول
جو کچ وہ کہا ہے سو کرنا قبول
جو کوئی نئیں سنا ہے محمد کی بات
جو کوئی نئیں سنا ہے محمد کی بات
قیامت میں چابے گا حسرت کے ہات
قیامت میں چابے گا حسرت کے ہات
ایاغی کی مثنوی نجات نامہ دکنی مثنویوں میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس کے نعتیہ اشعار میں پند و وعظ کا رنگ غالب ہے۔ اس مثنوی کا موضوع احوال قیامت کا بیان فرائض کی پابندی اور امر کی ادائیگی اور نواہی سے اجتناب کی تلقین ہے۔ ایاغی پر واعظا نہ رنگ اس قدر چھایا ہوا ہے کہ اس نے نعتیہ اشعار میں بھی امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کا درس دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
ایاغی کی مثنوی نجات نامہ دکنی مثنویوں میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس کے نعتیہ اشعار میں پند و وعظ کا رنگ غالب ہے۔ اس مثنوی کا موضوع احوال قیامت کا بیان فرائض کی پابندی اور امر کی ادائیگی اور نواہی سے اجتناب کی تلقین ہے۔ ایاغی پر واعظا نہ رنگ اس قدر چھایا ہوا ہے کہ اس نے نعتیہ اشعار میں بھی امر بالمعروف اور انہی عن المنکر کا درس دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
دنیا کی بڑائی نہ کام آئے گی
دنیا کی بڑائی نہ کام آئے گی
دغل باز دنیا نکل جائے گی
دغل باز دنیا نکل جائے گی


دنیا کے بدل دین توں کھونکو
دنیا کے بدل دین توں کھونکو
مرے گا تو سچ، دوزخی ہونکو
مرے گا تو سچ، دوزخی ہونکو


اگر دین ہونا تو دنیا کون چھوڑ
اگر دین ہونا تو دنیا کون چھوڑ
دغل باز عیار تھے موں مروغ
دغل باز عیار تھے موں مروغ
۲۱؎
۲۱؎
=== شاہ معظم ===
=== شاہ معظم ===


شاہ معظم علی عادل شاہ ثانی کے دور کے صوفی شاعر تھے۔ انہوں نے سکندر عادل شاہ (۱۰۸۳ ۔ ۱۰۹۷ھ) کا دور بھی دیکھا۔ ان کی نظروں کے سامنے عادل شاہی سلطنت نے آخری ہچکی لی۔ شاہ معظم بیجاپور کے مشہور صوفی سید شاہ امین الدین اعلیٰ کے خلیفہ شاہ قادر نگا کو تال کے مرید و مجاز تھے ۔ دیوان غزلیات کے علاوہ معظم سے متعدد نظمیں اور مثنویاں یادگار ہیں‘ جیسے گفتار عقل و عشق‘ معراج نامہ‘ ساقی نامہ‘ مفتاح الاسرار‘ گلزار چشت اور شجرۃ الاتقیا وغیرہ۔ معظم کی تقریباً تمام مثنویوں میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ ذیل میں معراج نامہ کے کچھ نعتیہ اشعار درج کیے گئے ہیں‘ جو ۱۰۷۰ھ کی تصنیف ہے۔
شاہ معظم علی عادل شاہ ثانی کے دور کے صوفی شاعر تھے۔ انہوں نے سکندر عادل شاہ (۱۰۸۳ ۔ ۱۰۹۷ھ) کا دور بھی دیکھا۔ ان کی نظروں کے سامنے عادل شاہی سلطنت نے آخری ہچکی لی۔ شاہ معظم بیجاپور کے مشہور صوفی سید شاہ امین الدین اعلیٰ کے خلیفہ شاہ قادر نگا کو تال کے مرید و مجاز تھے ۔ دیوان غزلیات کے علاوہ معظم سے متعدد نظمیں اور مثنویاں یادگار ہیں‘ جیسے گفتار عقل و عشق‘ معراج نامہ‘ ساقی نامہ‘ مفتاح الاسرار‘ گلزار چشت اور شجرۃ الاتقیا وغیرہ۔ معظم کی تقریباً تمام مثنویوں میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ ذیل میں معراج نامہ کے کچھ نعتیہ اشعار درج کیے گئے ہیں‘ جو ۱۰۷۰ھ کی تصنیف ہے۔
مبارک نول ناؤں تیرا نبی
مبارک نول ناؤں تیرا نبی
بلاتا ہے پیاروں سوں تجھ کوں ربی
بلاتا ہے پیاروں سوں تجھ کوں ربی


عرش پر تو ہے تیرا ناؤں احد
عرش پر تو ہے تیرا ناؤں احد
ولیکن کواتا توں آپس عبد
ولیکن کواتا توں آپس عبد


سماںکے اپر تجھ کوں احمد کتے
سماںکے اپر تجھ کوں احمد کتے
زمین پر تجھے سب محمد کتے
زمین پر تجھے سب محمد کتے


سو محمود کہتے ہیں تحت الشریٰ  
سو محمود کہتے ہیں تحت الشریٰ  
ترا وصف دستا وراء الورا
ترا وصف دستا وراء الورا


سیادت کیرانج دیا ہے خطاب
سیادت کیرانج دیا ہے خطاب
اولوالعزم ہورشاہ عالی جناب
اولوالعزم ہورشاہ عالی جناب


دیارب چھترتج کوں لولاک کا
دیارب چھترتج کوں لولاک کا
عطا تج کیا تخت افلاک کا
عطا تج کیا تخت افلاک کا
۲۲؎
۲۲؎
یہ امر نہایت دلچسپ ہے کہ معظم نے مثنوی شجرۃ الاتقیا اور مثنوی مفتاح الاسرار کے نعتیہ اشعار میں بھی انہی مضامین کی تکرار کی ہے۔
یہ امر نہایت دلچسپ ہے کہ معظم نے مثنوی شجرۃ الاتقیا اور مثنوی مفتاح الاسرار کے نعتیہ اشعار میں بھی انہی مضامین کی تکرار کی ہے۔
=== مختار بیجاپوری ===
=== مختار بیجاپوری ===


محمد مختار بیجاپور کے آخری دور کا شاعر تھا۔ وہ حضرت گیسودراز کے خانوا دے کے ایک بزرگ سید محمد حسینی عرف شاہ حضرت کا مرید تھا۔ مختار نے تین مذہبی مثنویاں لکھیں‘ جن کے نام یہ ہیں:
محمد مختار بیجاپور کے آخری دور کا شاعر تھا۔ وہ حضرت گیسودراز کے خانوا دے کے ایک بزرگ سید محمد حسینی عرف شاہ حضرت کا مرید تھا۔ مختار نے تین مذہبی مثنویاں لکھیں‘ جن کے نام یہ ہیں:
(i)  معراج نامہ۔  (ii) نور نامہ ۔  (iii) مولود نامہ
(i)  معراج نامہ۔  (ii) نور نامہ ۔  (iii) مولود نامہ
مثنوی معراج نامہ ۱۰۹۴ھ میں لکھی گئی ۔ یہ تقریباً تین ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مختار کی مثنویوں میں حمد و مناجات اور نعت و مناقب کے سوا دوسروں کی مدح نہیں ملتی ‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بادشاہ سے متعلق نہیں تھا۔ محتار کی زبان صاف اور عام فہم ہے۔ اس کی مثنوی معراج نامہ کے چند اشعار دیکھیے ‘ جن میں اس نے اسم محمدؐ کے چاروں حرفوں کی وضاحت نہایت دلچسپ انداز میں کی ہے۔
مثنوی معراج نامہ ۱۰۹۴ھ میں لکھی گئی ۔ یہ تقریباً تین ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ مختار کی مثنویوں میں حمد و مناجات اور نعت و مناقب کے سوا دوسروں کی مدح نہیں ملتی ‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بادشاہ سے متعلق نہیں تھا۔ محتار کی زبان صاف اور عام فہم ہے۔ اس کی مثنوی معراج نامہ کے چند اشعار دیکھیے ‘ جن میں اس نے اسم محمدؐ کے چاروں حرفوں کی وضاحت نہایت دلچسپ انداز میں کی ہے۔
عجب دیکھ محبوب ہے بے بدل
عجب دیکھ محبوب ہے بے بدل
محمد شہ انبیا از ازل
محمد شہ انبیا از ازل
اسے چار حرفاں کا ہے ناؤں آج
اسے چار حرفاں کا ہے ناؤں آج
رکھے اس کوں لولاک کا سر پو تاج
رکھے اس کوں لولاک کا سر پو تاج
سو ہر حرف کا میں کہوں یوں بیاں
سو ہر حرف کا میں کہوں یوں بیاں
کہ ہے میم محبوبیت کا نشاں
کہ ہے میم محبوبیت کا نشاں
سوح کی دلالت حمایت اپر
سوح کی دلالت حمایت اپر
حمایت کی ساری شفاعت اپر
حمایت کی ساری شفاعت اپر
سو میم دیگر سب مدد کی خبر
سو میم دیگر سب مدد کی خبر
قیامت میں دیتا ہے امت اپر
قیامت میں دیتا ہے امت اپر
کہوں دال ہے وہ نشانِ دوا
کہوں دال ہے وہ نشانِ دوا
جو ہے دردِ عصیان کا وہ شفا
جو ہے دردِ عصیان کا وہ شفا


=== قاضی محمد بحری ===
=== قاضی محمد بحری ===
عادل شاہی سلطنت کے زوال کے بعد گوگی علاقہ سگر(کرناٹک) کے ایک صوفی شاعر قاضی محمد بحری نے ۱۱۱۲ھ میں ’’من لگن‘‘ کے نام سے ایک عارفانہ مثنوی لکھی جسے تصوف کے حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس مثنوی میں حمد و توحید کے بعد نعتیہ باب ’’درنعت خواجہ کائنات محمدؐ‘‘ ہے۔ اس باب کا آغاز بحری نے بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ وہ قلم سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں اے قلم اٹھ اس گھڑی گھر نہ جائیں بلکہ تھوڑی دیر ’’نعت نگر‘‘ کی سیر کرآئیں۔  
عادل شاہی سلطنت کے زوال کے بعد گوگی علاقہ سگر(کرناٹک) کے ایک صوفی شاعر قاضی محمد بحری نے ۱۱۱۲ھ میں ’’من لگن‘‘ کے نام سے ایک عارفانہ مثنوی لکھی جسے تصوف کے حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس مثنوی میں حمد و توحید کے بعد نعتیہ باب ’’درنعت خواجہ کائنات محمدؐ‘‘ ہے۔ اس باب کا آغاز بحری نے بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ وہ قلم سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں اے قلم اٹھ اس گھڑی گھر نہ جائیں بلکہ تھوڑی دیر ’’نعت نگر‘‘ کی سیر کرآئیں۔  
اٹھ اے قلم اس گھڑی گھر نہ جائیں
اٹھ اے قلم اس گھڑی گھر نہ جائیں
ٹک نعت کا سیر کرآئیں
ٹک نعت کا سیر کرآئیں
لیکن اچانک انہیں اپنی بے بضاعتی کا خیال آتا ہے کہ نعت کہاں اور میں ناداں کہاں؟ اگر میں نادان نہ ہوتا تو ایسے مشکل کام میں ہاتھ ڈال کر خوش نہ ہوتا۔
لیکن اچانک انہیں اپنی بے بضاعتی کا خیال آتا ہے کہ نعت کہاں اور میں ناداں کہاں؟ اگر میں نادان نہ ہوتا تو ایسے مشکل کام میں ہاتھ ڈال کر خوش نہ ہوتا۔
پن نعت کہاں کہاں یو ناداں
پن نعت کہاں کہاں یو ناداں
ناداں جو  نہیں تو کیئو ہے شاداں
ناداں جو  نہیں تو کیئو ہے شاداں
آگے کہتے ہیں کہ مجھ سا بے علم راز کی باتیں کہنا چاہتا ہے ‘ گویا کہ قلم میں آفتاب کو قید کرنا چاہتا ہے۔ ایک معمولی سی چیونٹی ساتویں آسمان تک کیوں کر چڑھ سکتی ہے یا پتے پر بیٹھ کر سمندر کیسے پار کرسکتی ہے؟
آگے کہتے ہیں کہ مجھ سا بے علم راز کی باتیں کہنا چاہتا ہے ‘ گویا کہ قلم میں آفتاب کو قید کرنا چاہتا ہے۔ ایک معمولی سی چیونٹی ساتویں آسمان تک کیوں کر چڑھ سکتی ہے یا پتے پر بیٹھ کر سمندر کیسے پار کرسکتی ہے؟
یعنی منگے بولنے کوں یو بھید
یعنی منگے بولنے کوں یو بھید
کرنے کوں قلم میں قید خورشید
کرنے کوں قلم میں قید خورشید
کیو چیونٹی سات چرخ چڑ جائے
کیو چیونٹی سات چرخ چڑ جائے
یا مار سمد میں پات پر جائے
یا مار سمد میں پات پر جائے
اپنی بے علمی کے اظہار کے بعد وہ پھر قلم سے کہتے ہیں کہ معذرت کے راستے میں اٹک کر مت رہ بلکہ عذرو حیلے چھوڑ کر صاف نعت کی پناہ میں آجا۔
اپنی بے علمی کے اظہار کے بعد وہ پھر قلم سے کہتے ہیں کہ معذرت کے راستے میں اٹک کر مت رہ بلکہ عذرو حیلے چھوڑ کر صاف نعت کی پناہ میں آجا۔
اب رہ نکو معذرت کی راہ میں
اب رہ نکو معذرت کی راہ میں
آ نعت کے ناتھ کی پنہ میں
آ نعت کے ناتھ کی پنہ میں
آنحضرت کی اولیت کے اظہار میں وہ حروف تہجی سے کنا یہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’آپؐ عین ہیں۔‘‘ اس ’’عین‘‘ (حقیقت محمدی) سے سارے حروف ابجد (یعنی کائنات) کی تخلیق ہوئی۔ اس عین نے عالم شہادت میں اپنا جلوہ دکھانے کے لیے اسلام کے علم کو ظاہر کیا اور اپنے ہاتھ میں شرع کی شمشیر لے کر ساری دنیا کو دین کی دعوت دی۔
آنحضرت کی اولیت کے اظہار میں وہ حروف تہجی سے کنا یہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’آپؐ عین ہیں۔‘‘ اس ’’عین‘‘ (حقیقت محمدی) سے سارے حروف ابجد (یعنی کائنات) کی تخلیق ہوئی۔ اس عین نے عالم شہادت میں اپنا جلوہ دکھانے کے لیے اسلام کے علم کو ظاہر کیا اور اپنے ہاتھ میں شرع کی شمشیر لے کر ساری دنیا کو دین کی دعوت دی۔
او عین جو ابجد اس کوں فرزند
او عین جو ابجد اس کوں فرزند
سیوٹ کوں اپس دکھاونے چھند
سیوٹ کوں اپس دکھاونے چھند
تختی پوشہادتی ہو اظہار
تختی پوشہادتی ہو اظہار
اسلام کے علم کوں کیا بار
اسلام کے علم کوں کیا بار
شمشیر لے شرع کا پس ہت
شمشیر لے شرع کا پس ہت
یکبار کیا جگت کوں دعوت
یکبار کیا جگت کوں دعوت
من لگن میں بحریؔ نے ’’درصفت معراج مبارک‘‘ کاعلاحدہ باب رکھا ہے۔ اس میں انہوں نے واقعہ معراج کے اسرار و غوامض بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضورکی معراج جسمانی تھی۔ انہوں نے معراج جسمانی کے لیے ایک نادر تشبیہ تلاش کی ہے کہ آپ جسم اطہر کے ساتھ سات آسمانوں میں سے یوں گزر گئے جیسے سوئی گودڑی کی سات تہوں میں سے نکل جاتی ہے۔
من لگن میں بحریؔ نے ’’درصفت معراج مبارک‘‘ کاعلاحدہ باب رکھا ہے۔ اس میں انہوں نے واقعہ معراج کے اسرار و غوامض بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضورکی معراج جسمانی تھی۔ انہوں نے معراج جسمانی کے لیے ایک نادر تشبیہ تلاش کی ہے کہ آپ جسم اطہر کے ساتھ سات آسمانوں میں سے یوں گزر گئے جیسے سوئی گودڑی کی سات تہوں میں سے نکل جاتی ہے۔
معراج کیا اسی بدن سات
معراج کیا اسی بدن سات
اما او بدن بدل ہے من سات
اما او بدن بدل ہے من سات
یوں پھوڑ گیا گگن سواو دھن
یوں پھوڑ گیا گگن سواو دھن
جوں گودڑی سات تہہ کی سوزن
جوں گودڑی سات تہہ کی سوزن
ساتویں آسمان سے آگے آنے کے بعد آپ نے اپنی سواری کو لامکاں کے میدان میں آگے بڑھایا؎
ساتویں آسمان سے آگے آنے کے بعد آپ نے اپنی سواری کو لامکاں کے میدان میں آگے بڑھایا؎
اٹ واں لے ترنگ کوں بھکیلیا
اٹ واں لے ترنگ کوں بھکیلیا
میداں میں لا مکاں کے ٹھیلیا
میداں میں لا مکاں کے ٹھیلیا
آگے بڑھنے سے قبل آپ نے تن ‘ قلب‘ روح اور نور کو جو کثرت کے مظہر ہیں‘ اسی مقام پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مقام ِ نور اور منزہ و لطیف آن میں پہنچے۔
آگے بڑھنے سے قبل آپ نے تن ‘ قلب‘ روح اور نور کو جو کثرت کے مظہر ہیں‘ اسی مقام پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مقام ِ نور اور منزہ و لطیف آن میں پہنچے۔
یو دیہہ‘ یودل ‘ یو جیو‘ یو جیوت
یو دیہہ‘ یودل ‘ یو جیو‘ یو جیوت
کثرت کے شریک‘ شرک کے کوت
کثرت کے شریک‘ شرک کے کوت
اس چار کوں چھوڑ انگے دیا چل
اس چار کوں چھوڑ انگے دیا چل
تو تھان ہے نوری آن نرمل
تو تھان ہے نوری آن نرمل
اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس مقام پر نہ ’’ان‘‘ تھانہ ’’گن‘‘ تھا۔ نہ معرفت ہے نہ انا ہے نہ صفت ہے۔
اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس مقام پر نہ ’’ان‘‘ تھانہ ’’گن‘‘ تھا۔ نہ معرفت ہے نہ انا ہے نہ صفت ہے۔
جس آن منے نہ ان تھانہ ان تھا
جس آن منے نہ ان تھانہ ان تھا
نہ گیان نہ گرب تھا نہ گن تھا
نہ گیان نہ گرب تھا نہ گن تھا
۲۳؎
۲۳؎
واقعہ یہ ہے کہ بحری نے من لگن کے نعتیہ اشعار کو تصوف و معرفت کے حقائق و بصائر کا آئینہ بنادیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ بحری نے من لگن کے نعتیہ اشعار کو تصوف و معرفت کے حقائق و بصائر کا آئینہ بنادیا ہے۔


براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)