آپ «اندازِ بیاں اور از '''سید فاضل میاں میسوری''' ( انڈیا )» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{بسم اللہ }} | {{بسم اللہ }} | ||
[[ملف: | [[ملف:Ajmal Niazi.jpg|link=اجمل نیازی]] | ||
تحریر: [[ | تحریر: [[سید فاضل اشرفی میسوری ]] | ||
کتاب: [[مطاف حرف ]] | کتاب: [[مطاف حرف ]] | ||
سطر 11: | سطر 11: | ||
=== مطاف حرف ۔ اندازِ بیاں اور === | === مطاف حرف ۔ اندازِ بیاں اور === | ||
نعت گوئی توفیقِ الہیٰ اور اذنِ مصطفیٰ کے امتزاج کا حسین نقش ہے. جو اپنے دامن میں حسنِ فطرت کے تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہے. تخلیقِ کائنات سے گلدۂ | |||
مدحِ رسول میں عجب رنگ و خوشبو کے شگوفے کھلتے رہے ہیں اور قیامِ محشر تک اس میں بہارِ نو کا سلسلہ رہے گا. خلاقِ کائنات اس گلدے کے پھول اپنے چنیدہ بندوں کے دامن میں ڈالتا ہے | مدحِ رسول میں عجب رنگ و خوشبو کے شگوفے کھلتے رہے ہیں اور قیامِ محشر تک اس میں بہارِ نو کا سلسلہ رہے گا. خلاقِ کائنات اس گلدے کے پھول اپنے چنیدہ | ||
بندوں کے دامن میں ڈالتا ہے اور انہیں فیروز بختوں میں محترم المقام سید مقصود علی شاہ صاحب ہیں. جن کا دامنِ سخن رنگ برنگے گلہائے مدحت سے بھرا | |||
ہوا ہے. خدائے کریم نے اپنے محبوب نبی کی مدحت کے لیے جو الہام کے باب موصوف پر وا کیے ہیں اس پر یقیناً رشک کیا جانا چاہیے. کیوں نہ ہو کہ یہ توفیق | ہوا ہے. خدائے کریم نے اپنے محبوب نبی کی مدحت کے لیے جو الہام کے باب موصوف پر وا کیے ہیں اس پر یقیناً رشک کیا جانا چاہیے. کیوں نہ ہو کہ یہ توفیق | ||
ان کے یہاں سیادت سے ہوکے آئی ہے جس میں یکتائی اور انفرادیت کا ہونا ایک امرِ حقیقی ہے. شاہ صاحب کا لہجہ اتنا موثر و شاذ ہے کہ پڑھنے والا قاری ان | ان کے یہاں سیادت سے ہوکے آئی ہے جس میں یکتائی اور انفرادیت کا ہونا ایک امرِ حقیقی ہے. شاہ صاحب کا لہجہ اتنا موثر و شاذ ہے کہ پڑھنے والا قاری ان | ||
کے حصارِ عقیدت سے باہر نکل نہیں پاتا. کونسا رنگِ سخن ہے جو ان کی | کے حصارِ عقیدت سے باہر نکل نہیں پاتا. کونسا رنگِ سخن ہے جو ان کی نعت گوئی میں نہیں. روایتی مضامین کو بھی اس ندرت و جدت سے باندھا ہے کہ قاری | ||
عش عش کر اٹھتا ہے. ردیف و قوافی کا استعمال ہو یا بحر کی روانی ہو یا اسلوبِ بیاں ہو یا لفظیاتی جمال ہو یا کیفِ حضوری ہو یا طرزِ استغاثہ ہو ہر جہت سے آپ | عش عش کر اٹھتا ہے. ردیف و قوافی کا استعمال ہو یا بحر کی روانی ہو یا اسلوبِ بیاں ہو یا لفظیاتی جمال ہو یا کیفِ حضوری ہو یا طرزِ استغاثہ ہو ہر جہت سے آپ | ||
کا سخنِ دلنواز ایک شہپارہ معلوم ہوتا ہے. | کا سخنِ دلنواز ایک شہپارہ معلوم ہوتا ہے. | ||
ویسے تو | ویسے تو شاہ صاحب کا ہر شعر ہی جمالِ سخن کا آئینہ ہے. لیکن طوالتِ مضمون کے خوف سے بس کچھ شعر درج کر رہا ہوں جن میں موصوف کی خوش اسلوبی, | ||
جدتِ نوا, تنوعِ مضمون, حسنِ نگارش, شعری ساخت اور دیگر محاسن کی بھر پور ترجمانی ہوسکتی ہے. | |||
کمالِ عجز سے ہے عجزِ باکمال سے ہے | کمالِ عجز سے ہے عجزِ باکمال سے ہے | ||
سطر 30: | سطر 32: | ||
سوال میرا بجا طور پر سوال سے ہے | سوال میرا بجا طور پر سوال سے ہے | ||
ہر شاعر | ہر شاعر نعت حضور کی بارگاہ میں اپنے کلماتِ فن پیش کرنے کے بعد عجزِ بیاں کی منزل پہ آجاتا ہے. کہیں غالب کہہ اٹھتا ہے کہ غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں | ||
گزاشتیم | گزاشتیم, کہیں حسان الہند امام احمد رضا بریلوی کہتے ہیں حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے. شاہ صاحب کا امتیازِ فن یہ ہے کہ ان کے یہاں عجز ,نعت | ||
کا ایک جزوِ لاینفک ہے جسے آپ اول تا آخر محسوس کرسکتے ہیں. | |||
یہ بات عقائد کے باب سے ہے کہ وجودِ مصطفےٰ علیہ السلام ہی سے وجودِ کائنات ہے. وجودِ آنحضور کے بغیر کسی ایک شئے کا بھی وجود ناممکنات سے ہے. یہ | یہ بات عقائد کے باب سے ہے کہ وجودِ مصطفےٰ علیہ السلام ہی سے وجودِ کائنات ہے. وجودِ آنحضور کے بغیر کسی ایک شئے کا بھی وجود ناممکنات سے ہے. یہ | ||
ممکنات کی ساری رعنائیاں اسی وجود کی مرہونِ منت ہیں. مندرجہ ذیل شعروں میں اک غلامِ صادق کا اپنے آقا کے جود و کرم پر منحصر ہونے کا مکمل اظہار | ممکنات کی ساری رعنائیاں اسی وجود کی مرہونِ منت ہیں. مندرجہ ذیل شعروں میں اک غلامِ صادق کا اپنے آقا کے جود و کرم پر منحصر ہونے کا مکمل اظہار | ||
سطر 60: | سطر 62: | ||
نمازِ صبحِ قیامت اسی وضو سے ہو | نمازِ صبحِ قیامت اسی وضو سے ہو | ||
( | (محسن کاکوری) | ||
سید فاضل اشرفی میسوری | |||
میسور - انڈیا | |||
=== مزید دیکھیے === | === مزید دیکھیے === |