آپ «اردو نعت میں مابعد جدیدیت کے اثرات ، کاشف عرفان» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 308: سطر 308:
(اشفاق انجم)
(اشفاق انجم)


مابعد جدیدیت ایک متن پر دوسرے متن کے تخلیق کے رجحان کواہمیت دیتی ہے ۔[[نعت نگاری]] میں ایک متن کے حوالے سے متن میں دوسرے تخلیقی رجحان کو [[علامت | علامت نگاری]] کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ شاعری میں [[علامت]] تخلیقی بنیادوں پرآتی ہے لہٰذا لفظ ہمہ جہت ہوجاتا ہے اوراُس کے کئی معنی لیے جاسکتے ہیں ۔
مابعد جدیدیت ایک متن پر دوسرے متن کے تخلیق کے رجحان کواہمیت دیتی ہے ۔نعت نگاری میں ایک متن کے حوالے سے متن میں دوسرے تخلیقی رجحان کو علامت نگاری کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ شاعری میں علامت تخلیقی بنیادوں پرآتی ہے لہٰذا لفظ ہمہ جہت ہوجاتا ہے اوراُس کے کئی معنی لیے جاسکتے ہیں ۔


اِس حوالے سے ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی رائے بڑی دلچسپ ہے ۔
اِس حوالے سے ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی رائے بڑی دلچسپ ہے ۔
سطر 314: سطر 314:
’’میرے نزدیک اِ س سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں کہ کوئی شخص تخلیقی لفظ کی تلاش لغت کی کتاب میں کرے ۔لُغت کی کتاب میں اِس لفظ کاجو کسی تخلیقی فن پارے میں آتا ہے صرف ڈھانچہ ہوتاہے ۔اُس کی پوری ذات نہیں ہوتی۔‘‘(5)
’’میرے نزدیک اِ س سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں کہ کوئی شخص تخلیقی لفظ کی تلاش لغت کی کتاب میں کرے ۔لُغت کی کتاب میں اِس لفظ کاجو کسی تخلیقی فن پارے میں آتا ہے صرف ڈھانچہ ہوتاہے ۔اُس کی پوری ذات نہیں ہوتی۔‘‘(5)


آفاقی شاعری میں لفظ منشور یا Prism(ایک کلون شیشے کاٹکڑا جس میں سے گزرکر روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے )سے نظرآنے والے رنگوں کی طرح نظرآتا ہے منشور میں روشنی کی شعاع ایک طرف سے داخل ہوتی ہے اور ودسری طرف سے سات رنگوں میں تقسیم ہوکر باہردیکھنے والی آنکھ کونظر آتی ہے ۔بڑی علامتی شاعری میں لفظ معنی کی کئی تہیں بناتا ہے اورشعر لفظوں کی اسی ہمہ جہتی کے باعث آفاقیت اور کلاسیکی درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔یادرہے کہ [[علامت]] [[تشبیہ]] اور[[استعارہ]] سے مختلف ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے الفاظ میں علامت کی تعریف دیکھتے ہیں ۔
آفاقی شاعری میں لفظ منشور یا Prism(ایک کلون شیشے کاٹکڑا جس میں سے گزرکر روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوتی ہے )سے نظرآنے والے رنگوں کی طرح نظرآتا ہے منشور میں روشنی کی شعاع ایک طرف سے داخل ہوتی ہے اور ودسری طرف سے سات رنگوں میں تقسیم ہوکر باہردیکھنے والی آنکھ کونظر آتی ہے ۔بڑی علامتی شاعری میں لفظ معنی کی کئی تہیں بناتا ہے اورشعر لفظوں کی اسی ہمہ جہتی کے باعث آفاقیت اور کلاسیکی درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔یادرہے کہ علامت تشبیہ اوراستعارہ سے مختلف ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے الفاظ میں علامت کی تعریف دیکھتے ہیں ۔


’’[[علامت]] مخفی تصورات کے وسیع ترین نظام کی مجمل ترین شکل ہے ۔یہ بھی دراصل تشبیہ کے خاندان سے ہے اور کسی نہ کسی جہت سے مشابہت کارابطہ اس میں کارفرما ہوتا ہے ۔‘‘ (6)
’’علامت مخفی تصورات کے وسیع ترین نظام کی مجمل ترین شکل ہے ۔یہ بھی دراصل تشبیہ کے خاندان سے ہے اور کسی نہ کسی جہت سے مشابہت کارابطہ اس میں کارفرما ہوتا ہے ۔‘‘ (6)


علامت ایک واضح وجود ہے جو لفظوں میں اپنی معنویت پوشیدہ رکھتا ہے ۔علامت لفظوں میں پوشیدہ ہونے کے باوجود اِس کی شناخت صرف لغت سے ممکن نہیں بلکہ لفظ یااصطلاح کو معنوی پس منظر ، ماحول (جہاں یہ لفظ استعمال ہوا) اورتاریخی تناظر میں شناخت کیاجاتا ہے ۔غزل میں علامت کے استعمال کی کچھ مثالیں دیکھیں ۔
علامت ایک واضح وجود ہے جو لفظوں میں اپنی معنویت پوشیدہ رکھتا ہے ۔علامت لفظوں میں پوشیدہ ہونے کے باوجود اِس کی شناخت صرف لغت سے ممکن نہیں بلکہ لفظ یااصطلاح کو معنوی پس منظر ، ماحول (جہاں یہ لفظ استعمال ہوا) اورتاریخی تناظر میں شناخت کیاجاتا ہے ۔غزل میں علامت کے استعمال کی کچھ مثالیں دیکھیں ۔
سطر 344: سطر 344:
(محمد اظہار الحق)
(محمد اظہار الحق)


اردو نعت نگاری میں [[علامت]] کاگہرا اور تہذیب میں گُندھا ہوا استعمال خال خال ہی نظرآتا ہے ۔اِس کی بنیادی وجہ شعراء کی تن آسانی اور سامع کی آسان پسندی ہے ۔ نعت خوانی میں ایسے کلام کا چناؤ جس کی شاعرانہ حیثیت مُسّلم نہ ہو عوامی مزاج کے بگاڑ کاسبب بنا پھراردو غزل کابڑا شاعر نعت کی جانب آنے میں ہچکچا ہٹ محسوس کرتا رہا۔ ان سب وجوہات کے باوجود ایسا نہیں کہ [[نعت گوئی | اردو نعت]] میں بڑی علامتی شاعری بالکل ہی نہیں ہوئی ۔اردو نعت نگاری میں علامت کے استعمال کی چند مثالیں دیکھیں ۔
اردو نعت نگاری میں علامت کاگہرا اور تہذیب میں گُندھا ہوا استعمال خال خال ہی نظرآتا ہے ۔اِس کی بنیادی وجہ شعراء کی تن آسانی اور سامع کی آسان پسندی ہے ۔ نعت خوانی میں ایسے کلام کا چناؤ جس کی شاعرانہ حیثیت مُسّلم نہ ہو عوامی مزاج کے بگاڑ کاسبب بنا پھراردو غزل کابڑا شاعر نعت کی جانب آنے میں ہچکچا ہٹ محسوس کرتا رہا۔ ان سب وجوہات کے باوجود ایسا نہیں کہ اردو نعت میں بڑی علامتی شاعری بالکل ہی نہیں ہوئی ۔اردو نعت نگاری میں علامت کے استعمال کی چند مثالیں دیکھیں ۔


سیرت ہے تری جوہرِ آئینۂ تہذیب  
سیرت ہے تری جوہرِ آئینۂ تہذیب  
سطر 458: سطر 458:


۴)نعت رنگ شمارہ ۲۴،مرتّب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی
۴)نعت رنگ شمارہ ۲۴،مرتّب صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی


=== مزید دیکھیے ===
=== مزید دیکھیے ===
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)