پاکستان میں اردونعت کا ادبی سفر۔ایک مطالعہ ، پروفیسر انوار احمد زئی
ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
Professor Anwar Ahmad Zai has introduced a book 'Pakistan Main Urdu Naat ka Adabi Safar' written by Dr. Aziz Ahsan. Professor Ahmad Zai has applauded the efforts of author of the book and has delineated some salient features of the same with his analytical notes. He has also added some references of Books published in Hyderabad with the names of Poets and compilers of certain collections of devotional poetry, in his article. He has also appreciated the insight of the author to provide literary evaluation of poetic matter presented in the book.
پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر۔۔۔ایک مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ڈاکٹر عزیز احسن کا نام نعتیہ ادب کے انتقادی حوالوں میں اب استناد کے درجے پر ہے۔ موصوف کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی نعت کی تاریخ کے ساتھ اس کے ارتقاء اور بطور صنفِ ادب جیسے موضوعات پر مشتمل تھا جسے موصوف نے اس شان سے نبھایا کہ یہ مقالہ صنفِ نعت کی تفہیم اور تحسین کا حوالہ بن گیا۔ یہاں یہ بات کرنا غیرمتعلق نہیں ہوگا کہ ڈاکٹر عزیز احسن کے یہاں نقد و نظر کے پیمانے بھی روایتی اور رواجی نہیں ہیں۔ ان کے انتقادی رویے میں جو ارتکازِ فن نظر آتا ہے وہ ان کے درون کے جذبوں کا آئینہ دار ہے۔ وہ محض تحقیق کی غرض سے فن نعت گوئی کامطالعہ نہیں کرتے بلکہ وہ حُبِّ رسول کی سرشاری کی ناقابل بیان خوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کرتے ہیں اور پھر اپنے موضوع کو اسی کیفیت سے معنبر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس قدر یقین سے یہ تاثر قائم کرنے کی وجہ میرے سامنے ان کی تازہ کاوش ہے جسے ’’پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
نعت ریسرچ سینٹر کے زیراہتمام شائع ہونے والی اس انتقادی دستاویز کو کیا نام دیا جائے؟ یہ سوال مشکل ہے۔ اس لئے کہ عموماً بعض تخلیقات کو آسانی کے ساتھ کسی ایک عنوان کے تحت لے آیا جاتا ہے اور پھر اسے تحقیقی کام، تنقیدی جائزے، تاریخی کاوش یا توسیعی، توصیفی، توجیہی نوعیت کی اصطلاح سے تعبیر کردیا جاتا ہے مگر یہ سب تقاضے اگر یکجا نظر آئیں تو آپ اس نگارش کو کیا نام دیں گے۔ سوائے اس کے کہ اسے بھی نعت سے نسبت کا صدقہ یا تصرف تسلیم کرلیا جائے اس لئے کہ عزیز احسن کا منشور حیات ہی یہ ہے کہ
اک صنفِ سخن جس کا تعلق ہے نبیؐ سے
صد شکر کہ نسبت ہے طبیعت کو اسی سے
’’ پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر ‘‘ میں موجود یہ اشارہ بجائے خود اہم ہے کہ ماضی قریب تک اردو کے علمی خزینے میں نعتوں کی خوشبو تبرک کے طور پر محسوس ہوتی تھی۔ شاعری کے مجموعوں میں حمد و نعت سے آغاز کو ایمانی جمال سے آراستہ اور فکری جہت سے مرصع جان کر تبرک کا استعارہ سمجھا جاتا تھا، اور بس!! پھر یوں ہوا کہ نعت کو جو ازمنہ قدیم ہی سے بطور صنف ہمارے روحانی اور ایمانی ورثے میں اپنا خاص اور مقتدر مقام رکھتی چلی آئی ہے، اسے نئے جذبوں اور نئے اسلوب کے ساتھ کہا جانے لگا جس کے لئے ڈاکٹر عزیز احسن نے اپنی جانب سے ایک عجب دعویٰ کیا ہے جس پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے، وہ کہتے ہیں ’’میرے نزدیک اقبال کا یہ شعر جدید نعتیہ شاعری کا نقطۂ آغاز ہے۔‘‘
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
اگر ڈاکٹر عزیز احسن کا یہ دعویٰ درست مان لیا جائے تو اقبال کے تخصصات میں ایک امتیاز کا اور اضافہ ہوگا جس پر مزید کام کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی عزیز احسن نے کچھ ایسے شعراء کے ایسے نعتیہ اشعار بھی اس کاوش میں شامل کئے ہیں جن سے ندرتِ اظہار کے نئے دریچے کھلتے ہیں۔۔۔ فی الحال اس تعلق سے ایک حوالہ!
’’باریاب‘‘ میں انور مسعود، جو شعری نسبتوں میں اپنی وجۂ شہرت مزاحیہ و فکاہیہ انداز سے رکھتے ہیں، جب نعت کہتے ہیں تو عجب رنگ کے ساتھ:
وہ چاہتا تھا رہ و رسمِ زندگی بدلے
بگڑ گیا تھا جو اندازِ بندگی بدلے
بھٹک گیا تھا جو اسلوبِ آگہی بدلے
اُسے یہ دُھن تھی کہ اندر سے آدمی بدلے
وہ دورِ حضرتِ گردوں رکاب کیا کہنا
وہ انقلابِ سعادت مآب کیا کہنا
ندرتِ اظہار، شاعر کی ذات سے وابستہ ہوتی ہے مگر اس کو استحسان کی منزل سے گزار کر تقابلی انداز میں نعت فہموں تک پہنچانا اپنی جگہ قابل تحسین بات ہے۔ عزیز احسن نے اپنی تازہ کاوش میں کمال یہ کیا ہے کہ پہلے تو آزادی کے بعد نعت کے تعلق سے پاکستان میں ہونے والی یا محسوس کی جانے والی یا تسلیم کی جانے والی ارتقائی کیفیت کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا۔ اس میں ایک طرف تو نعت گو شعراء میں سے ہر ایک کا مختصر ادبی تعارف اور فکری تاثر پیش کیا اور پھر التزام کے ساتھ ان کے نمونہ ہائے کلام دیئے ہیں، دوسری طرف ان تخلیقات کے پس منظر کو اور رسائل و جرائد کے حوالوں کو مرکوزِ نظر رکھا گیا ہے۔ پھر جن نعت گو شعراء کے منصہ شہود پر آچکے ہیں ان کے حوالے اور اشارے دیئے گئے ہیں جبکہ نہایت اہم اور موضوع سے ذرا مختلف مگر چونکا دینے والا بظاہر لازمی اور ضروری موضوع آخر میں شامل کیا گیا ہے اور یہ حصّہ آدابِ نعت گوئی کے بارے میں۔ گویا کہ نعت کہنے کو طبیعت کس شاعر کی نہیں چاہتی مگر صرف رجحانِ طبع ہی کافی نہیں اس فن کو برتنے اور اس نعمت کو حاصل کرنے کے لئے جس احتیاط، اہتمام، التزام اور احترام کی ضرورت ہے اس کا مختصر نصاب بھی دیدیا گیا ہے۔ اسی لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ نعت پر متذکرہ موضوع کا ہرگز یہ تقاضہ نہ تھا کہ اس آخری باب کو بھی ضبطِ تحریر میں لایا جاتا مگر سچ یہ ہے کہ یہی القائی کیفیت ہے جو عزیز احسن کے جذبۂ حُبِّ رسولؐ کا انعام ہے۔
اس تحقیقی اور تنقیدی(انتقادی) زاویوں پر مشتمل اس تخلیق میں کئی مراحل ایسے آتے ہیں جہاں رک کر بار بار زیربحث ذیلی عنوان پر غور کرنے کو جی چاہتا ہے اور پھر اس میں مصنف کے اپنے خیال کی پرکھ کی داد کے ساتھ ساتھ موضوع کو آگے بڑھانے کو بھی جی کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک مرحلہ دورانِ مطالعہ اس وقت آیا جب موصوف نے حضرت ابوالخیرکشفی کے ایک اعتراض کو محاکاتی انداز میں بیان کیا ہے۔ کشفی مرحوم کا اعتراض فیض احمد فیض پر تھا کہ انہو ں نے (فیض نے) اتنا کہا اور شاعری کی دنیا میں اہم مقام حاصل کرلیا مگر انہیں نعت کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔ یہ اعتراض جب فیض تک پہنچا تو انہوں نے ہاجرہ مسرور کے گھر پر ہونے والی ملاقات میں کشفی مرحوم سے کہا ’’آپ تو ادب کے استاد ہیں، کیا آپ اپنے طالب علموں کو اس بُتِ ہزار شیوہ سے متعارف نہیں کراتے جسے غزل کہتے ہیں۔ اگر آپ نے ہمدردی اور دلِ بیدار کے ساتھ میری غزلوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو نعت کے اشعار مل جاتے ‘‘ اور پھر فیض نے اپنا یہ شعر پڑھا۔
شمعِ نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
بات یہاں تک ہوتی تو موضوع سے متعلق ان کے تقاضے پورے ہوجاتے مگر عزیز احسن نعت گو بھی ہیں اور نعت فہم بھی اس لئے ان سے نہ رہا گیا اور انہوں نے فیض اور کشفی مرحوم کے مکالمے میں خود کو شامل کرلیا (عملاً نہیں تبصرے اور انتقادِ فن نعت گوئی کی صورت، اس نگارش کو تکمیل تک لے جانے کے لئے) سووہ رقمطراز ہیں:
’’فیض صاحب کے مکالمے کے بعد کشفی صاحب تو مطمئن ہوگئے تھے لیکن نعتیہ ادب کو معروضی انداز سے دیکھنے والے تو اس شعر میں بھی ’’جگر کے داغ‘‘ کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل سے انتساب مناسب نہیں سمجھتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سراپا رحمت ہیں، ان کی محفل میں تو جگر کے داغ مٹائے جاتے ہیں۔ زخموں کے لئے نگاہِ لطف و کرم کا مرہم فراہم کیا جاتا ہے۔ وہاں داغ نہیں ملتے، داغوں کا مداوا کیا جاتا ہے۔‘‘
یہ ہے معروضی انتقادی رویہ، جس میں بے لاگ تبصرہ اور بے غرض اور برملا اظہارِ تمنا صریر خامہ بن جاتا ہے۔ مجھے اس مرحلے پر یہ خیال بھی آیا کہ حضرت فیض نے اپنی غزلوں میں ایسے اشعار کی تلاش کا کام قاری پر کیوں چھوڑ دیا جہاں ان کے بقول بتِ ہزار شیوہ صفت غزل میں کوئی حوالۂ بت شکن بھی آسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے عزیز احسن کی فکری جہت کی تائید میں یہ خیال بھی آیا کہ خود ہم نے بطور سامع بھی اپنے انداز اور رویے سے ایسی غلطیاں کی ہیں جن کے باعث مجرد غزل اور نعت کی تفہیم میں الجھاؤ پیدا ہوگیا ہے۔ مانا کہ نعت گوئی کے لئے کسی بھی صنفی سانچے کی ضرورت نہیں۔ نعت غزل کے انداز میں بھی ہوسکتی ہے اور نظم یا کسی اور صنف کی صورت میں بھی، مگر اس کا اظہار اتنا واشگاف ہونا چاہئے کہ اسے نعت یا نعت کا شعر ہی سمجھا جائے، اسے سمجھانے کے لئے کسی شارح، کسی ناقد، کسی ناصح اور کسی استاد کی ضرورت پیش نہ آئے۔ یہ بات میں اس لئے بھی عرض کررہا ہوں کہ ہم نے بعض غزلوں کو اور خصوصاً فارسی غزلوں کو جو مقتدر شعراء اور اکابر سخنوروں سے منسوب ہیں انہیں قوالوں کے گائے جانے پر نعت سمجھ لیا ہے، اس کی تصحیح بہت ضروری ہے۔ ایسی مثالیں کئی ہیں، خفیف سے اشارے کے طور پر توحضرت امیر خسرو کی غزل کے اس مطلع کو بھی بنایا جاسکتا ہے کہ:
خبرم رسیدہ ام شب کہ نگار خواہی آمد
دلِ من فدائے را ہے کہ سوار خواہی آمد
اس غزل کے اگلے اشعار صاف طورپر بلکہ چیخ چیخ کر اسے روایتی غزل بتارہے ہیں اور قوالی میں غزل سن کر داد دینے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ متدین اکابر اور صوفیا غزلوں کی سماعت بھی بڑی توجہ اور محبت سے کرتے رہے ہیں، مگر انہیں نعت سمجھ کر سننا، اپنی جگہ جواب طلب سوال ہے۔ایسی دوسری مثال بھی حضرت امیر خسرو کی شہرہ آفاق غزل سے منسوب ہے جس کا مطلع ہے۔
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہرسو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم
اس مطلع میں پھر بھی خفیف سے نعتیہ اشارے کی موجودگی کو قبول کر بھی لیا جائے تو اس غزل کے اگلے اشعار تو پھر توجہ اور سوچ دونوں کو دعوت دیتے ہیں، یعنی یہ کہ:
پری پیکر نگارے سرو قدِ لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم
خصوصاً آفتِ دل کی ترکیب، تفکرِ مزید کی دعوت دیتی ہے۔۔۔ البتہ اس غزل کا مقطع یقینانعت ہے یعنی یہ کہ:
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
اسی طرح کسی غزل میں التزاماً نعت کا شعر آجائے تو اس کی وجہ سے پوری غزل کو نعت سمجھنا مناسب نہیں اس لئے یہ عمل عزیز احسن ہی کے انتقادی رویوں کا مطالبہ کرتا ہے۔
نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہورہا ہے کہ حضرت امیر خسرو کی متذکرہ بالا غزل کے بارے میں ہمارے سوئے ظن ہی کے تناظر میں رحمن کیانی نے یہ اشعار تخلیق کئے جن کا تذکرہ کسی حوالے کے بغیر عزیز احسن نے بھی کیا ہے۔
ان کی توصیف میں بھی سوء ادب کی باتیں
نعت میں ساقی و مے، بزمِ طرب کی باتیں
بے محابانہ قد و عارض و لب کی باتیں
شام ہجراں کا بیاں وصل کی شب کی باتیں
ایسی باتیں کہ اگر منہ سے نکل جاتی ہیں
سن کے بے پردہ خواتین بھی شرماتی ہیں
باعثِ شرم و ندامت ہیں جو سوچیں سمجھیں
حسن اور عشق نگاراں کی رواجی باتیں
قافیوں اور ردیفوں کو بدل کر جن میں
شاعرانِ عجم و ہند کی بنتی نعتیں
تالیاں پیٹ کے سُر تال میں گانے کے لئے
زیر محرابِ حرم رقص دکھانے کے لئے
اس تعلق سے ذرا عزیز احسن کا تجزیاتی اور تقابلی جائزہ ملاحظہ فرمائیں، وہ کہتے ہیں کہ:
’’حالی سے قبل کی نعتیہ شاعری کا وافر حصہ ایسے ہی مضامین پر مشتمل تھا۔ حالی نے مسدس میں چند نعتیہ بند لکھ کر اس روش کو بدلنے کی کوشش کی اور یقیناًبعد کی شاعری پر حالیؔ کے نظریۂ نعت کے اثرات مرتب ہوئے اور سیرت النبیؐ کے جواہر نعتیہ اشعا ر میں اپنی چمک دکھانے لگے۔‘‘
عزیز احسن نے اپنے طویل تجزیاتی مقالے میں خود ہی اپنی محدودات اور مقصودِ تحقیق کو بیان کردیا ہے ، وہ کہتے ہیں:
’’اس مقالے میں ہمیں مختصراً یہ بتانا ہے کہ پاکستان میں نعت میں کن کن شعراء کی شعری کاوشیں منظرِعام پر آئیں۔ کن کن شعراء نے اس صنف کو باقاعدہ صنفِ سخن کے طور پر اپنایا اور کون کون سے اہل ہنر مدحیہ شاعری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ نعت گوئی کا علمی سطح پر کن کن لوگوں نے تنقیدی اور تحقیقی جائزہ لیا۔ اور یہ کام کس حد تک اطمینان بخش ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہے کہ مختلف شعراء کے انفرادی نعتیہ مجموعوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اجتماعی انتخاب مرتب کرنے میں کن کن اہلِ فکر و نظر نے دلچسپی لی اور ان کی ان کاوشوں سے نعت کو ادبی سطح پر روشناس کرانے میں کیا مدد ملی ؟ ‘‘
اپنے منشور کے اس واشگاف اعلان کے بعد جس طرح اس مقصد کے حصول کے لئے تحقیقی زاویے بنا کر عزیز احسن نے اپنے اہداف پورے کئے ہیں انہیں دیکھ کر مسرت بخش حیرت ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے۔ کتنا بڑا ذخیرہ نعت ہے جس سے گزرنے کی ہمت کی گئی ہے اور کس قدر وسیع جولانگاہِ فکر ہے جس کا احاطہ کیا گیا ہے اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ عزیز احسن کا تازہ کام بھی تحقیقی منصب کے جملہ تقاضے پورے کرتا نظر آتا ہے اور کسی بھی طرح پی ایچ ڈی کے مقالے کا ہم سر ہے۔ خدا کرے کہ انہیں اس کام پر ڈی لٹ کی سند کا مستحق سمجھا جاسکے۔
عزیز احسن کے موجودہ کام میں جو ایک اور امتیازی شا ن محسوس کی جاسکتی ہے وہ ایک جیسے مضامین یا ایک ہی زمین کی تعریف میں آنے والی نعتوں کا خوبصورت اور بدیہی حوالہ، اکابر شعراء اور خصوصاً فارسی سرمایے سے تعلق کا اشارہ کرتے ہوئے گزرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی نظر میں قاری کو اساتذہ کے کلام سے ہم رنگ جدید شعراء کے انداز کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان میں خسرو، سعدی، جامی، امیر مینائی، غالب، حالی اور اقبال سب آجاتے ہیں، کچھ اشارتاً کچھ کنایتاً۔۔۔ او ر کچھ صراحتاً اسی طرح عزیز احسن نے غیرمسلم شعراء اور خصوصاً صاحبانِ کتب شعراء کی نعتوں کا بالالتزام تذکرہ کیا ہے جس سے اندازا ہوتا ہے کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ کی شخصیت بلاامتیازِ مذہب و مسلک سب کے لئے نمونہ علم و عمل ہے۔ اس نوع کے حوالے تشکیل پاکستان سے قبل بھی ملتے ہیں اور بعد میں بھی۔ یہاں عزیز احسن نے بطور خاص مسیحی نعت گو نذیر قیصرکی شاعری کو بھی موضوع بنایا ہے اور اس ضمن میں جو خلاقانہ فقرہ تشکیل دیا ہے اسے شاعر کے جملہ کلام پر اجمالی تبصرہ کہا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں:
’’نذیر قیصرکی مدحیہ شاعری کا محرک آرزوئے تخلیق کا بے ساختہ پن ہے جس نے اس شاعری کو پرکشش بنادیا ہے‘‘
ان کے صرف دو اشعار
چوموں پاؤں ہجرت والے
ہجرت والے برکت والے
کونپل کونپل شبنم شبنم
لمحے بھیج ، بشارت والے
منفرد انداز، حِسّی کیفیت، محسوساتی منصب اور عقیدت سے آراستہ تمنا۔ مجھے یہاں ایک اور غیرمسلم شاعر یاد آرہا ہے جس کا مولود پاکستان ہے، خطہ نوشہرہ ہے اور جو پاکستان کی تشکیل کے بعد بہت برے حال میں نقل مکانی پر مجبور ہوا تھا اور جس نے اور نعتوں کے ساتھ ایک نعت، نظم کی صورت میں، جدّہ کے مستقر پر اس دوران کہی جب وہ ریاض جانے والی پرواز کے انتظار میں تھا، اس نعت کا روپ اور آہنگ بھی جدا ہے، اس لئے میں نے چاہا کہ اس قدر وقیع اور بسیط کاوش سے آراستہ اس کتاب میں یہ نعت بھی آجائے۔شاعر کا نام ہے ستیا پال آنند اور نعت یوں ہے !
حضور اکرم ؐ
فقیر اک پائے لنگ لے کر
سعادتِ حاضری کی خاطر
ہزاروں کوسوں سے آپؐ کے در پر آگیا ہے
نبیؐ برحق
یہ حاضری گرچہ نامکمل ہے
پھر بھی اسے قبول کیجئے
حضورؐ، آقائےؐ محترم
یہ فقیر اتنا تو جانتا ہے
کہ قبلۂ دید صرف اک فاصلے سے اس کو روا ہے
اس کے نصیب میں مصطفی ؐکے در کی تجلیاں دور سے لکھی ہیں
نبی اکرمؐ
وہ سایۂ رحمتِ پیمبرؐ
جو صف بہ صف نمازیوں کے سروں پہ ہے
اس کا ایک پر تو
ذرا سی بخشش
ذرا سا فیضانِ عفو و رحمت
اسے بھی مل جائے
جو شہہ مرسلیںؐ
دست دعا اٹھائے کھڑا ہے اک فاصلے پہ، لیکن
نمازیوں کی صفوں میں شامل نہیں ہے آقا
عزیز احسن نے یوں تو ہر شاعر اور اس کی خدمات کا نہایت عمدہ اور مربوط طرز میں احاطہ کیا ہے مگر خصوصیت سے جن شعراء کی کاوشوں کا تفصیلی ذکر کرنا مناسب سمجھا ان میں دیگر کے علاوہ لالہ صحرائی اور صبیح رحمانی شامل ہیں۔ ان دونوں کی علمی کاوشوں کا تقاضہ بھی یہی تھا تاہم میں یہاں بطور خاص ترویج نعت اور تفہیم نعت کے تعلق سے جو کام عزیز گرامی قدر صبیح رحمانی نے انجام دیا اور مسلسل دے رہے ہیں اس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں چنانچہ موضوعِ متعلقہ کا تقاضہ ہے کہ اسے بطور خاص سمجھا جائے۔ صبیح رحمانی نہ صرف نعت گو ہیں بلکہ انہوں نے اپنے فن کو صرف حمد و نعت گوئی ہی کے لئے وقف کر رکھا ہے اور پھر جب وہ نعت کہتے ہیں تو حسن و جمال کے سارے تقاضے پورے کرنے کے بعد وجدان و شعور کے در وا کرنے کا بھی غیرمحسوس اہتمام کرتے ہیں جس کا صرف ایک حوالہ ان کے فن کی گہرائی اور گیرائی کا شاہد بن سکتا ہے۔ مطلع ہے:
ہوش و خرد سے کام لیا ہے
انؐ کا دامن تھام لیا ہے
اس کے ساتھ ہی ان کے کتابی سلسلے ’’نعت رنگ‘‘ نے جو عالمی ادب پر اثرات مرتب کئے ہیں اور جویانِ علم کے لئے سامان سیرابی فراہم کیا ہے وہ خاصّے کی چیز ہے اس لئے پاکستان میں اردو نعت کے ادبی سفر میں اس پرچے کا تذکرہ مردف غزل میں ردیف جیسا لازمی درجہ رکھتا ہے۔
عزیز احسن نے اپنے مقالے کے لئے موجود منابع سے ممکنہ حد تک استفادہ بھی کیا ہے اور ان کا احاطہ بھی۔ اس ضمن میں خود عزیز احسن معترف ہیں کہ ’’پاکستان میں نعتیہ ادب کی رفتار کا سال بہ سال جائزہ لینے کی روایت حفیظ تائب مرحوم نے قائم کی تھی۔ راجا رشید محمود ، غوث میاں، چودھری محمد یوسف ورک قادری اور طاہر قریشی وغیرھم نے نعتیہ کتب کی فہرستیں تیار کیں۔‘‘ عزیز احسن نے ان حوالوں کے ساتھ یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس ذخیرۂ عظیم و بسیط کا احاطہ ایک مقالے میں ممکن نہیں اس لئے چیدہ چنیدہ اشعار کو حوالہ بنایا جارہا ہے مگر میرا خیال ہے کہ اس خزینۂ بے بدل کا جس طور عطر کشید کیا گیا ہے وہ اس مقالے کو طبلۂ عطار بنارہا ہے۔
عزیز احسن نے ہر صنفِ سخن میں کہی جانے والی نعتوں سے اپنے مقالے کو مرصع کیا ہے، ان میں نظمیں بھی ہیں، غزلوں کے رنگ میں کہی گئیں نعتیں بھی، رباعی، مخمس،مسدس کے انداز میں آراستہ نعتیں اور پھر سرناموں کے اعتبار سے سلام اور قصیدے کے آہنگ میں کہی گئی نعتیں بھی۔ سلام میں اکبر وارثی میرٹھیؒ ، احمد رضا خاں بریلویؒ ، حفیظ جالندھری اور ماہر القادری کے مشہور عالم سلاموں کا حسین و جمیل تاثراتی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اسی طرح قصائد کی طرز میں پیش کئے گئے ہدایۂ نعت کا خصوصیت سے تذکرہ ہے جس میں قدماء کے ساتھ عہد حاضر کے شعراء میں صبا اکبر آبادی کا قصیدہ (دست دعا میں) عبدالعزیز خالد کا منحمنا (طویل میمیہ قصیدہ) اور سبطین شاہ جہاں پوری کا قصیدہ (قلزمِ انوار میں) کی طرزِ ادا کو اہتمام و احترام سے موضوعِ سخن بنایا ہے۔
اسی طرح عزیز احسن نے نہایت محنت اور کاوش سے نعت گو شعراء کی فہرست بھی مرتب کی ہے اور اُن کے مجموعہ ہائے کلام کے ناموں کو بھی ضبطِ تحریر میں لائے ہیں تاہم بعض نام ایسے ہیں جنہیں اس فہرست کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ ان میں نیر حامدی شامل ہیں جو احمد رضا بریلوی کے شہرۂ آفاق سلام ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کی تضمین کے حوالے سے مشہور ہونے والے اختر الحامدی کے بڑے بھائی تھے اور ان کا نعتیہ مجموعہ ’’نعت نیر ‘‘ کے زیرعنوان موجودہے۔ جن کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
ہوتا ہے دم زدن میں وہ عاصی خطا سے پاک
جس پر ذرا ہو چشم عنایت رسولؐ کی
ان کے برادر اختر الحامدی کی نعت کے مجموعے کا نام ’’فکر جمیل‘‘ اور ’’نعت نگر‘‘ ہے اس کے علاوہ ان کے دو مجموعے مثنوی کی طرز میں ذکر ولادت اور ذکر سفر معراج کے موضوعات پر بھی نظم کئے گئے اور شائع ہوئے ہیں ان میں سے پہلے کا نام جمالِ رسولؐ ہے اور دوسرے کا کمالِ رسولؐ۔
خلیل مارہروی جو مفتی محمد خلیل خاں برکاتی کے نام سے ایک متدین اور مقتدر شخصیت تھے اور جنہوں نے تقسیم کے بعد حیدرآباد میں پہلا دینی مدرسہ قائم کیا جو آج تک فیض رسانِ خاص و عام ہے او جس کا نام جامعہ احسن البرکات ہے۔ ان کا مجموعہ نعت بھی ’’جمالِ خلیل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے جس کی تقدیم معروف محقق ڈاکٹر محمد مسعود احمد نے تحریر کی تھی۔ درد اسعدی، اسعد شاہ جہاں پوری کے شاگردِ رشید تھے، ان کی نعتوں کا مجموعہ ’’]]چراغ کعبہ]]‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور راقم نے اس کی تقریظ لکھی تھی جبکہ درد اسعدی نے ۷۷ شعراء کے نعتیہ کلام کا انتخاب بھی شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’ثنائے خواجۂ کونین‘‘۔ بسمل آغائی کی نعتوں کا مجموعہ ’’سلسلہ خواب‘‘ مجلس مصنفین نے ۱۹۸۰ء میں شائع کیا تھا۔ حبیب نقشبندی کے مجموعے کا نام ’’نذرِ حبیب‘‘ ہے اور اسے رضوی کتب خانہ اردو بازار لاہور نے1990 ء میں شائع کیا تھا۔ تہور زیدی کے نعتیہ مجموعے کا سرنامہ ’’نمود صبح‘‘ تھا اور یہ مجموعہ1988 ء میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔ آباد محمدی کی نعتوں کے مجموعے کا نام ’’ایوانِ نعت و سلام‘‘ ہے جسے منظر بک ڈپو حیدرآباد نے شائع کیا۔ خادمی اجمیری کے مجموعۂ نعت کا نام ’’نکہت و نور‘‘ ہے جسے بزم فروغِ ادب حیدرآباد نے شائع کیا۔ بدر ساگری کا مجموعۂ نعت و حمد ’’القلم‘‘ کے زیرعنوان1985 ء میں شائع ہوا۔ پیکر اکبر آبادی کے مجموعۂ نعت کا نام ’’خیر الوریٰ‘‘ ہے۔ ضامن حسنی کے نعتیہ کلام کے مجموعے کا نام ’’ضامنِ حقیقت‘‘ ہے جسے بزمِ فروغ ادب حیدرآباد نے 1986ء میں شائع کیا۔ اسی طرح مقبول شارب کا مجموعۂ نعت بعنوان ’’مہرِ جہاں تاب‘‘ 1986ء میں بزم فروغِ ادب حیدرآباد کے زیراہتمام شائع ہوا۔
ان سب شعراء اور ان کے مجموعہ ہائے نعت کا تفصیلی تذکرہ اور تعارف سہ ماہی ادبی مجلّہ ’’عبارت‘‘ کے حیدرآباد ادب نمبر میں موجود ہے تاہم اس وقیع مقالے میں ان ناموں کا اعادہ یقیناًاس موضوع پر تحقیقِ مزیدکرنے کے لئے سودمند بھی ہوسکتا ہے اور شاید محرک بھی!!
دراصل نعت گوئی کا سفر کائنات فہمی کا سفر ہے۔ جیسے جیسے زمانہ ارتقاء پذیر رہے گا ویسے ویسے عالمِ امکاں احاطۂ تسخیر میں آتا رہے گا اور یہ ادراک حقیقت میں محتاج وجدان ہوگا۔ جسے عرفان کی ضیا ملے گی صرف وہی ذاتِ رسالت مآب سے وابستگی اور سیرت رسول ختمئ مرتبت کی تفہیم و تقلید سے منزل یاب ہوگا۔ یہ کام ایک طرف محراب ومنبر سے ہوتا رہا ہے، ہورہا ہے، ہوتا رہے گا۔ مگر دوسری طرف عہد موجود کے نوجوان کو نئے امکانات سے روشناس کرانے اور طبیعات سے مابعد الطبیعات تک کے سفر سے آشنا کرنے کے لئے نعت گو شعراء کے لفظ و معنٰی صوت و آہنگ اور دہانِ سپاس گزاراں ہی کو ذریعہ بنایا جائے تو تاثیرِ افکارِ جمیل سے نشاۃ الثانیہ کی سبیل ہوسکے گی۔ اس حوالے اور تعلق سے ہر نعت گو کی سعئ جمیل و حسین اور اس ارتقائی سفر کو تجزیاتی تحقیق اور انتقادی استناد سے گزارنے والی شخصیات کو توفیق الٰہی اور کراماتِ رسول محترمؐ سے یقیناًمقبولیت کی منزلت نصیب ہوگی (انشاء اللہ) اور ان میں عزیز احسن جیسے سرتاپا فدائے حبِ نبیؐ کا نام شامل ہو یہ تمنا اس کتاب کے ہر قاری کی ہوگی جو میری بھی ہے اور یہ آرزو بھی اس عزم کے ساتھ جو خاطر غزنوی کی زبان سے یوں ہے۔
آؤ مستقبل کو نکھاریں نعت کہیں
چن لیں حال کی سب مہکاریں نعت کہیں
گنبدِ خضریٰ کی ہریالی آنکھ میں ہے
موسمِ دل پر چھائی بہاریں نعت کہیں
ذکر نبیؐ کی شبنم شبنم چلی ہوا
رحمت کی ہر سو ہیں پھواریں نعت کہیں
ایک سفر ہے عشق سمندر صحرا کا
آؤ کشتی پار اتاریں، نعت کہیں