غزل
غزل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
غزل کے لغوی معنوی ایسا کلام جس میں عورتوں کے حسن و عشق کا بیان ہو۔ عربی میں غزل کا مطلب عورتوں سے باتیں کرنا ہوتا ہے۔ادبی اصطلاح میں غزل نظم کی وہ صنفِ سخن ہے جس میں عشق و محبت، حسن و جمال، گل و بلبل کے تذکرے، محبوب کے خدوخال کی تعریف ، اس کے جور و ستم، ہجر و فراق کی تڑپ ، کرب و اضطراب اور محبوب کے وصال کی آرزو،جنون و عشرت، خزاں بہار، یاس و امید، شادی و غم کا ذکر ہو لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ غزل کے مضامین میں بھی اضافے اور تبدیلیاں رونماہوتی رہی ہیں اور ہجر و وصال کی داستان کے ساتھ فلسفہ، تصوف، سیاست و حیات انسان کے مختلف مسائل، دقیق خیالات اور سنجیدہ مضامین بھی غزلوں میں بیان ہونے لگے ہیں ۔
غزل کا ہر شعر دوسرے شعر سے معنی و موضوع کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی ایک شعر کو دوسرے شعر سے کوئی معنوی مناسبت نہیں ہوتی اگر غزل میں شاعر اپنے موضوع کے بیان اور خیالات کو ظاہر کرنے کے لیے ایک سے زیادہ اشعار کا استعمال کرے تو یہ اشعار قطعہ بند اشعار کہلاتے ہیں ۔
غزل کی اصطلاحات و اجزاء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مطلع[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں ، جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ اگر غزل کا دوسرا شعر بھی ہم قافیہ ہو تو اسے ’حسنِ مطلع‘ یا ’مطلع ثانی‘ کہیں گے۔ مثلاً:
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
اے رضا یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
امام احمد رضا خان بریلوی کے ان شعار میں "رضا" تخلص ہے ۔ باڑا، پھولا، کلمہ ، قصیدہ قافیہ ہیں اور "نور کا " ردیف ہے ۔
مزید دیکھیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نظم | آزاد نظم | نظم معری | غزل | قصیدہ | قطعہ | رباعی | مثنوی | مرثیہ | دوہا | ماہیا | کہہ مکرنی | لوری | گیت | سہرا | کافی | ترائیلے | سانیٹ | ہائیکو |