نعت۔ ہیئت اور اصنافِ سخن ۔ مشاہد رضوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ANL Mushahid Razvi.jpg

مشاہد رضوی
مضامین
شاعری

نعت : ہیئت اوراصنافِ سُخن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت اصنافِ ادب کی سب سے مقدس و محترم اور پاکیزہ صنف ہے ۔لفظِ نعت اپنی ابتداے آفرینش سے تاحال صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و خصائل ، شمائل و فضائل اور مدح و توصیف کے اظہار کے لیے مختص ہے ۔نعت کا شمار دیگر اصنافِ سخن میں ایک معتبرومحترم اور تقدس مآب صنف کی حیثیت سے ہوتا ہے ۔ہر چند کہ نعت ہر زبان میں کہی جارہی ہے لیکن بعض ناقدین کے نزدیک نعت اب بھی صنفِ سخن کا درجہ نہیں پاسکی بہ قول اُن کے وجہ صرف اتنی ہے کہ نعت کی کوئی متعین ہیئت نہیں ہے۔ جب کہ صنفی شناخت کے لیے صرف ہیئت معیار نہیں بل کہ موضوع بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور موضوعی اہمیت کے لحاظ سے نعت وہ مہتم بالشان صنف ہے کہ دوسری کوئی صنف اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں، نعت ہماری شاعری کی سب سے زیادہ محبوب ،طاقت ور ،مؤثر ،پاکیزہ ،تنوع اور مقدار ومعیار کے اعتبار سے نمایاں اور ممتاز صنف ہے۔اس ضمن میں اربابِ علم و فن کی گراں قدر آرا نشانِ خاطر ہوں  :

ارباب ِ علم و فن کی آراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ظہیر غازیپوری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت بلاشبہ ایک اہم اور قابلِ توجہ صنف ِ سخن ہے ۔اردو نعت نے جب ایک مستقل صنف کا درجہ حاصل کرلیا ہے تو اس کے فنی حسن و قبح پر بے باکانہ انداز میں گفتگو ہونی چاہئے تاکہ قارئین اور تخلیق کاردونوں حقائق سے واقف ہو سکیں ۔‘‘ [1]

ڈاکٹر سید وحید اشرف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت یقیناً ایک صنف ِ شاعری ہے اور فارسی میں ایم ۔اے کے نصاب میں فارسی نعتیہ قصیدے شامل ہیں۔اردو میں جب مرثیہ کو نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے تو نعتیہ شاعری کو کیو ں نہیں شامل کیا جا سکتا ۔‘‘ [2]

ڈاکٹر سید طلحہ رضوی برق داناپوری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’حمد ،قصیدہ ،مثنوی ،مرثیہ ،سلام وغیرہ کی طرح نعت بھی اردو فارسی کی ایک مستقل صنفِ سخن کی حیثیت حاصل کر چکی ہے ۔لہٰذا نعت اردو شاعری کے اصناف ِ سخن میں یقیناً شامل ہے ۔‘‘[3]

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’یہ صنف (نعت) اسلامی ارادت و عقیدت کی بنا پر ہی نہیںبل کہ اپنے شعری محاسن کی وجہ سے بھی بے مثال ہے ۔اس لیے دوسری اصنافِ سخن میں یہ بھی شمار ہوتی ہے اور بے حد مقبول ہے۔‘‘[4]

ساجد لکھنوی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’اصنافِ سخن میں نعت ہی ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس کا دنیا کی ہر زبان کے ادب میں بہت کافی سرمایہ موجود ہے اور ہر مذہب اور ملت کے شاعر نے اس صنف ِ سخن کے اضافے میں حصہ لیاہے اور فخرِکائنات ،سید الرسل، محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کیا ہے ۔‘‘[5]

ڈاکٹر محبوب راہی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت کے اردو کی صنفِ سخن ہونے سے کون انکارکر سکتا ہے۔ نوا سۂ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) اور ان کے رفقا کے غم کے اظہار کے لیے اردو شاعر ی نے مرثیہ جیسی متا ثر کن اور زندۂ جاوید صنف کو زندہ کیا تو کیا خود سرورِ کائنات کے تئیں اظہار عقیدت کے لیے ’’نعت ‘‘ ایک آزاد صنفِ سخن قرار نہیں دی جاسکتی ،اوروں کی راے کچھ بھی ہو میری اپنی حتمی راے ’’نعت ‘‘ کے اردو شاعری کی ایک لاثانی اور لافانی صنفِ سخن قرار دیے جانے کے حق میں ہے ۔‘‘ [6]

ڈاکٹر شمس الر حمن فاروقی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’آپ نے حمد کو صنف سخن میں شمار کیا ہے اور صحیح شمار کیا ہے ۔اسی انداز کی چیز نعت بھی ہے یعنی یہ صنفِ سخن اس معنی میں ہے کہ اس کا موضوع متعین ہے اگرچہ ہیئت متعین نہیں ۔ملحوظ رہے کہ بعض اصناف موضوع سے زیادہ اپنی ہیئت سے پہچانی جاتی ہیں ،جیسے غزل،رباعی۔بعض اصناف میں ہیئت اور موضوع دونوں کی قید ہوتی ہے ،جیسے قصیدہ۔اور بعض اصناف صرف موضوع کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں ،مثلاً مرثیہ ،حمد، نعت وغیرہ۔لہٰذانعت کو صنف قرار دینے میں کوئی قباحت نہیں۔اسے ہمیشہ صنف ہی قرار دیا گیا ہے۔‘‘ [7]



لہٰذا تما م گراں قدر خیالات ونظریات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح حمد ، غزل ، قصیدہ ، مرثیہ، رباعی، مستزاد، مثنوی وغیرہ میں اصنافِ سخن کی ہیئت و ساخت کی واضح شکل نظر آتی ہے۔نعت کی کوئی خاص ہیئت و ساخت کا تعین اب تک نہیں ہوسکا ہے ۔ بہ ہر حال اسے غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی، قطعہ، مرثیہ ، مستزاد، مسدس، مخمس، دوہا، ماہیا، سانیٹ، ترائیلے ، ہائیکو، ثلاثی وغیرہ میں لکھا جا سکتا ہے ۔اس صنفِ سخن کی مقبولیت کا آج یہ عالم ہے کہ ادب کی ہر صنف میں شعرا نعتیہ کلام تحریر کررہے ہیں اور اس کی آفاقیت اور عالم گیریت میں بہ تدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔نعت اپنے ابتدائی دور میں قصیدے کے فارم میں کہی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عربی کی شاعری میں جہاں نعت گوئی کا آغاز ہوا مافی الضمیر کے اظہار کے لیے قصیدے کی ہیئت رائج تھی ،یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نعت عصری اور زمانی تقاضوں کی ہم مزاج صنف ہے کیوںکہ جس عہد میں جو صنفِ سخن مروج تھی اسی میں نعتیہ کلام تحریر کیا گیا ۔غزل چوںکہ ہماری شاعری کی مقبول صنف ہے اور ہردور میںاپنی داخلی خصوصیات اور ہیئت کے سبب پسندیدہ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ نعتیہ مضامین کے لیے بھی سب سے زیادہ غزل کی صنف ہی مستعمل رہی ہے۔ساجد لکھنوی کے بہ قول:

’’ابتداے اردو شاعری سے اگر آپ بہ نظر غائر مطالعہ کریں تو آپ کو پچانوے فی صد نعتیں غزل کے فارم میں ملیں گی ۔‘‘ [8]

یہاں یہ کہناغیر مناسب نہ ہوگا کہ نعت گوئی کاسلسلہ اردو میں ابتدا ہی سے جاری ہے اردو کا غالباً ایک بھی شاعر خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم ، سکھ ہویا عیسائی ،یا کسی اور عقیدے کا ایسا نہ ملے گا کہ اس نے نعت نہ کہی ہو،یہ اردو کے اپنے مزاج اور تہذیب کی دین ہے۔ذخیرۂ نعت کے مطالعہ کی روشنی میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداء ً فارسی اور اردومیں لکھی گئی نعتیں زیادہ تر غزل کی ہیئت میں ہیں۔ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ نعت ایک موضوعی صنف ہے وہ کسی ایک ہیئت میں محصور نہیں رہی، بالخصوص اردو میں یہ قصیدہ ، مثنوی، مرثیہ ، قطعہ ، رباعی ، نظم ، معریٰ نظم ، آزاد نظم، آزاد غزل، مخمس، مسدس، مثلث، مربع، ثلاثی، سانیٹ ، ہائیکو، ترائیلے، ماہیے ، دوہا ، کہہ مکرنی وغیرہ تک میں لکھی جارہی ہے اور اس لیے موضوعی تقدس کے شانہ بشانہ ہیئتی تنوع کے لحاظ سے بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ نعت سب سے زیادہ طاقت ور،مؤثر،نمایاں اور ممتاز صنفِ سخن ہے اور یہ صرف اپنے موضوعی تقدس اور اسلامی ارادت کی بنا پر ہی نہیں بلکہ اپنے شعری محاسن کی وجہ سے بھی بے مثال صنف تصور کی جاتی ہے ۔

آج جب ہم ادب کے شعری اثاثے عموماً نعتیہ شاعری کا خصوصاً تحقیقی مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات مکمل طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ نعت گوئی ادب کی جملہ اصناف میں جاری و ساری ہے۔ ادب کی مختلف اصناف میں لکھے گئے نعتیہ کلام کی مثالیں ذیل میں خاطر نشین کریں ۔

=== صنفِ غزل میںنعت===

غزل اردو شاعری کی ایک ہر دل عزیز صنف ِ سخن ہے ۔ ہر دور میں شعرا نے اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔اردو شاعری کا بہت بڑا سرمایہ غزل کی شکل میں محفوظ ہے ۔غزل کے معنی ’’سخن با یا ر گفتن‘‘ کے ہیں۔ عشق و محبت غزل کے خمیر میں داخل ہے ۔ لیکن غزل صرف محبت کے موضوعات ہی تک محدود نہیں ۔اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں سماجی و سیاسی مسائل ، فلسفہ و تصوف اور انسانی زندگی کے مختلف پہلووں کی ترجمانی موجود ہے ۔

ظاہری ساخت کے اعتبار سے غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ، اسے مطلع کہا جاتا ہے۔پہلے مطلع کے بعد آنے والے مطلع کو حُسنِ مطلع کہتے ہیں۔آخری شعر میں شاعر اپنا تخلص پیش کرتا ہے جسے مقطع کہتے ہیں۔غزل کے تمام مصرعے کسی ایک بحر میں ہوتے ہیں اسی طرح شاعر کو قافیہ و ردیف کی پابندی بھی کرنی پڑتی ہے ۔غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے جو جداگانہ مضامین کی عکاسی کرتا ہے ۔

اردو شاعری کی ابتدا ہی سے غزل نے مقبولیت حاصل کرلی تھی اور تاحال اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے قلی قطب شاہ معانیؔ سے لے کر بانیؔ تک عوام و خواص میں غزل کی مقبولیت حیرت انگیز ہے ۔ موجودہ زمانے میں فلم اور ٹی وی کے پھیلاو نے موسیقی میں غزل گایکی کو بھی خاصا رواج دیا اور عوام میں پسندیدہ بنا یا ہے۔

اس میںولی، میرؔ، سوداؔ، انشاءؔ، آتشؔ، مصحفیؔ، ناسخؔ، ذوقؔ، مومنؔ، غالبؔ، ظفرؔ، داغؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، جوشؔ، فراقؔ، یگانہؔ، حسرتؔ، جگرؔ،ریاضؔ، اصغرؔ، آرزوؔ، تاباںؔ، مجروحؔ، جذبیؔ، اخترؔ، ناصرؔ، شکیبؔ، بانیؔ، ظفر ؔاقبال، زیبؔ، خلیلؔ، اور ندا ؔوغیرہ نے عہد بہ عہد نام پیداکیا ہے ۔ان شعرا کی غزل کا مطالعہ زبان اور اس کے شعری برتاو کی تبدیلیوں اور غزل کی مختلف روایات کا مطالعہ بھی ہے۔

غزل ہردور میں اپنی داخلی خصوصیات اور ہیئت کے سبب پسندیدہ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ نعتیہ مضامین کے لیے بھی سب سے زیادہ غزل کی صنف ہی مستعمل رہی ہے۔بیشرشعرا نے غزل ہی کے فارم میں نعتیں کہی ہیں ذیل میںمفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوری ؔ بریلوی کا غزل کی ہیئت میں تحریر کیا گیا نعتیہ کلام نشانِ خاطرکیجیے ؎

قفسِ جسم سے چھٹتے ہی یہ پرّاں ہوگا

مرغِ جاں گنبدِ خضرا پہ غزل خواں ہوگا

روز و شب مرقدِ اقدس کا جو نگراں ہوگا

اپنی خوش بختی پہ وہ کتنا نہ نازاں ہوگا

اس کی قسمت کی قسم کھائیں فرشتے تو بجا

عید کی طرح وہ ہر آن میں شاداں ہوگا

اس کی فرحت پہ تصدق ہوں ہزاروں عیدیں

کب کسی عید میں ایسا کوئی فرحاں ہوگا

چمنِ طیبہ میں تو دل کی کلی کھلتی ہے

کیا مدینہ سے سوا روضۂ رضواں ہوگا

آپ آجائیں چمن میں تو چمن جانِ چمن

خاصہ اک خاک بسر دشتِ مغیلاں ہوگا

جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں

جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہوگا

دردِ فرقت کا مداوا نہ ہوا اور نہ ہو

کیا طبیبوں سے مرے درد کا درماں ہوگا

نورِ ایماں کی جو مشعل رہے روشن پھر تو

روز و شب مرقدِ نوریؔ میں چراغاں ہوگا

اک غزل اور چمکتی سی پڑھو اے نوریؔ

دل جلا پائے گا میرا ترا احساں ہوگا

صنفِ قصیدہ میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قصیدے کی ابتدا عربی شاعری سے ہوئی ۔ عربی سے یہ صنفِ سخن فارسی شاعری میں پہونچی اور فارسی کے اثرسے اردو شاعری میں اس صنفِ سخن کو فروغ حاصل ہوا ۔قصیدہ ایک موضوعی صنفِ سخن ہے ۔جس میں کسی کی مدح یا ہجو کی جاتی ہے لیکن زیادہ تر قصائد مدح و توصیف ہی کی غرض سے لکھے گئے ہیں ۔اس کے علاوہ مناظرِ قدرت ، پند و نصائح، معاشی بدحالی، سیاسی انتشار وغیرہ جیسے موضوعات بھی قصیدے میں بیان کیے جاتے ہیں، قصیدے کے اجزاے ترکیبی یہ ہیں۔ (1)تشبیب(2)گریز(3)مدح(4) دعا یا حُسنِ طلب ۔

پہلا شعر قصیدے کا مطلع کہلا تا ہے یہاں سے قصیدے کا پہلا جز تشبیب شروع ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے تعلق سے فخر وامتنا ن پر مشتمل اشعار کہتا ہے ۔دوسرا جزگریز جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاعر اپنی تعریف ترک کرکے ممدوح کی مدح و توصیف کی سمت رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد مدح کا مرحلہ آتا ہے جو تشبیب سے طویل تر ہوتا ہے اگرچہ ذوقؔ و غالبؔ کے قصیدوں میں مدح کے اشعار کم تعداد میں ملتے ہیں۔حُسنِ طلب اس کے بعد کی منزل ہے جس میں قصیدہ خواں اپنے ممدوح کی جانب سے لطف واکرام کی توقع ظاہر کرتا ہے ،پھر ممدوح کے لیے دعا پر قصیدہ ختم ہوجاتا ہے ۔جس قصیدے میں اس کے تمام اجزاے ترکیبی موجود ہوں اور جس میں راست ممدوح سے خطاب کیا گیا ہو اسے خطابیہ قصیدہ کہتے ہیں۔قصیدے میں یوں تو صرف مدح خوانی مقصود ہوتی ہے لیکن اکثر قصائد میں ہجویہ ،واعظانہ،اور دوسرے بیانیہ مضامین بھی نظم کیے گئے ملتے ہیں۔اس اعتبار سے انھیں مدحیہ ،ہجویہ، واعظانہ وغیرہ بھی کہا جاتاہے ۔اردو میں سوداؔ، انشاءؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے قصائد معروف ہیں۔مدح و توصیف کے مقصد سے بعض شعرا نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ،خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم ، اور دیگر اکابرِ دین کے بھی قصیدے لکھے ہیں جن میں مومنؔ ، محسن ؔ ، رضاؔ بریلوی، عبدالعزیز خالدؔ او ر بہت سے دوسرے نئے شعرا کے نام آتے ہیں۔ذیل میںحضرت نوریؔ بریلوی کا صنفِ قصیدہ میں تحریر کیا گیا نعتیہ کلام خاطر نشین ہو ؎

بہ خطِ نور اس در پر لکھا ہے

یہ بابِ رحمتِ ربِّ عُلا ہے

سر خیرہ جو اس در پر جھکا ہے

ادا ہے عمر بھر کی جو قضا ہے

مقابل در کے یوں کعبہ بنا ہے

یہ قبلہ ہے تو تُو ، قبلہ نما ہے

یہاں سے کب کوئی خالی پھرا ہے

سخی داتا کی یہ دولت سرا ہے

جسے جو کچھ ملا جس سے ملا ہے

حقیقت میں وہ اس در کی عطا ہے

یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں

اسی در سے انھیں ٹکڑا ملا ہے

شبِ معراج سے ظاہر ہوا ہے

رسل ہیں مقتدی تو مقتدا ہے

خدائی کو خدا نے جو دیا ہے

اسی در سے اسی گھر سے ملا ہے

شہ عرش آستاں اللہ اللہ!

تصور سے خدا یاد آرہا ہے

یہ وہ محبوبِ حق ہے جس کی رویت

یقیں مانو کہ دیدارِ خدا ہے

رمی جس کی رمی ٹھہری خدا کی

کتاب اللہ میں اللہ رمیٰ ہے

ہَوا سے پاک جس کی ذاتِ قدسی

وہ جس کی بات بھی وحیِ خدا ہے

وہ یکتا آئینہ ذاتِ اَحد کا

وہ مرآتِ صفاتِ کبریا ہے

جہاں ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ

جہاں شاہ و گدا سب کا ٹھیا ہے

کرم فرمایئے اے سرورِ دیں

جہاں منگتوں کی یہ پیہم صدا ہے

خزانے اپنے دے کے تم کو حق نے

نہ قاسم ہی کہ مالک کردیا ہے

جسے جو چاہو جتنا چاہو دو تم

تمہیں مختارِ کل فرما دیا ہے

نہیں تقسیم میں تفریق کچھ بھی

کہ دشمن بھی یہیں کا کہہ رہا ہے

ضیاے کعبہ سے روشن ہیں آنکھیں

منور قلب کیسا ہو گیا ہے

مَے محبوب سے سرشار کردے

اویسِ قرَنی کو جیسا کیا ہے

گما دے اپنی الفت میں کچھ ایسا

نہ پاؤں مَیں میں مَیں جو بے بقا ہے

عطا فرما دے ساقی جامِ نوریؔ

لبالب جو چہتوں کو دیا ہے

صنفِ رباعی میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

رباعی اس نظم کو کہتے ہیں جس میں صر ف چار مصرع ہوں، پہلا ، دوسرا اور چوتھا ہم قافیہ ہو ، دوسرا شعر خصوصاًچوتھامصرع نہایت بلند اورعجیب ہوتاکہ سننے والا متحیر ہوجائے۔یوں تو چار مصرعوں میں ایک ہی مضمون قطعہ میں بھی بیان کیا جاتا ہے لیکن چار مصرعوں کے قطعے کے لیے کوئی عروضی وزن مخصوص نہیں جب کہ رباعی بحرِ ہزج کے چوبیس مخصوص اوزان میں کہی جاتی ہے ۔ وزن کی قید کے باوجود رباعی میں اتنا تصرف جائز ہے کہ ایک ہی رباعی میں چاروں مصرعے چوبیس میں سے چار مختلف اوزان لے کرکہے جاسکتے ہیں۔ عروضیوں نے ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘ کے وزن کو بھی رباعی کا وزن قرار دیا ہے ۔

رباعی اور غزل کے موضوعات میں فرق صرف دو اور چار مصرعوںمیں بیان کرنے کا ہے اگرچہ رباعی میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کا چوتھا مصرع ’’زور دار‘‘ ہویعنی اس میں خیال کی بلندی پائی جائے کہ سننے والا متحیر ہوجائے۔

رباعی کی ایجاد کا سہرا فارسی شاعر رودکیؔ کے سر باندھاجاتا ہے ۔عمر خیامؔ نے صرف رباعیاں کہی ہیںجن کے سبب مشہورِ عالم شعرامیں اس کا شمار ہونے لگا ۔اردو میں یہ صنفِ شعر ابتدا ہی سے موجود ہے اور اس پر طبع آزمائی استادِ فن ہونے کے مترادف خیال کی جاتی ہے۔میرؔ، سوداؔ، ناسخؔ، انیسؔ، دبیرؔ، غالبؔ، مومنؔ اور ذوقؔسے لے کرامجدؔ، جوشؔ، فراقؔ، یگانہؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، فانیؔ، اخترؔ، سہیلؔاور رواںؔ ؔوغیرہ شعرا نے رباعیاں کہی ہیں ۔ہمارے شعرا نے نعتیہ موضوعات کے اظہار کے لیے رباعی کا بھی سہارالیا چناںچہ اس میں نعتیہ کلام بہ کثرت ملتے ہیں ۔ذیل میں حضرت نوریؔ بریلوی کی نعتیہ رباعیاںخاطر نشین کیجیے ؎

دنیا تو یہ کہتی ہے سخن ور ہوں میں

ارے شعرا کا آج سرور ہوں میں

میں یہ کہتا ہوں یہ غلط ہے سوبار غلط

سچ تو ہے یہی کہ سب سے احقر ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدکار ہوں مجرم ہوں سیاہ کار ہوں میں

اقرار ہے اس کا کہ گنہ گار ہوں میں

بہ ایں ہمہ ناری نہیں نوری ہوں ضرور

مومن ہوں تو فردوس کا حق دار ہوں میں

صنفِ قطعہ میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قطعہ کے معنی ٹکڑے کے ہوتے ہیں اصطلاحاً قصیدے یاغزل کی طرح مقفّا چند اشعار جن کا مطلع نہیں ہوتااور جن میںایک ہی مربوط خیال پیش کیا جاتاہے۔یعنی قطعہ نظم نگاری کی ایک ہیئت ہے ۔قطعے میں کم سے کم دو اشعار ہونے چاہئیںزیادہ کی تعدا د مقرر نہیں ۔اردو میںاقبالؔ، چکبستؔ، سیمابؔاور جوشؔ وغیرہ کے قطعے مشہور ہیں ۔شعر انے قطعہ میں بھی نعتیہ موضوعات کو برتا ہے ۔حضرت نوریؔ بریلوی کانعتیہ قطعہ ملاحظہ کیجیے ؎

کفش پا ان کی رکھوں سر پہ توپاؤں عزت

خاکِ پا ان کی ملوں منھ پہ تو پاؤں طلعت

طیبہ کی ٹھنڈی ہوا آئے تو پاؤں راحت

قلبِ بے چین کو چین آئے تو جاں کو راحت

صنفِ مرثیہ میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مرثیہ عربی لفظ ’’رُثا ء‘‘بہ معنی ’’ مُردے پر رونا‘‘ سے مشتق ہے ۔ قدیم ترین موضوعی صنفِ سخن ہے ، دنیا بھر کی شاعری میں جس کے عمدہ نمونے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ہومر ؔکی ’’ایلیڈ‘‘، فردوسیؔ کی’’ شاہ نامہ‘‘ اور ویاسؔ کی ’’مہا بھارت‘‘ جیسی رزمیہ نظموں سے لے کر مرثیے کا سلسلہ واقعاتِ کربلا کے رزمیوں تک پھیلا ہوا ہے ۔رزم میں کام آنے والے سورماوں کے سوگ اور ماتم کے علاوہ مرثیہ بزرگانِ قوم ،خویش واقارب اور مشاہیر کی موت پر بھی لکھا گیا ملتا ہے ۔کربلا کو موضوع بنا کر کہے گئے مراثی کربلائی اور دیگر شخصیات پر کہے گئے مراثی شخصی مرثیے کہلاتے ہیں ۔

اردو شاعری میںمرثیہ واقعاتِ کربلا کو موضوع بنا کر کہی گئی نظموں سے بہ طورِ صنف قائم ہواقدیم دکنی شعرااشرف بیابانیؔ، محمد قطب شاہ قلیؔ، ملاوجہیؔ، غواصیؔ، فائزؔ، شاہیؔ، کاظمؔ، ابنِ نشاطیؔ، ہاشمیؔ، نصرتیؔوغیرہ کے کلام کو مرثیے کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ شمالی ہند میں بھی یہ روایت اسی زمانے میں اسماعیلؔ امروہوی، آبروؔ، یک رنگؔ، حاتمؔ، مسکینؔ، حزینؔ، غمگینؔ، فضلی ؔوغیرہ کے کلام میں ملتی ہے ۔میرؔ و سوداؔ نے مربع بندوں میں کثرت سے کربلائی مرثیے نظم کیے ہیں ۔اس ہیئت کے علاوہ مرثیہ مختلف ہیئتوں میں بھی لکھا گیا ہے لیکن لکھنوی شعرا نے اس صنف کے لیے مسدس کی ہیئت اختیار کر لی اور مسلسل تقلید نے جسے مرثیے کی روایت بنادیا۔میر ضمیرؔ، میرانیسؔاور مرزا دبیرؔ نے مرثیہ نگاری میںفن کارانہ اضافے کیے گویا انھیں پر اس صنف کا اتما م ہوگیا ۔جہاں دیگر اصناف میں نعتیہ کلا م ملتے ہیں، وہیں مرثیہ میں بھی نعتیہ موضوع پر شعرا نے بند تحریر کیے ہیں، مرثیے میں نعتیہ بند کی مثال نشانِ خاطر کیجیے ؎

خواہاں نہیں یاقوتِ سخن کا کوئی گر آج

ہے آپ کی سرکار تو یاصاحبِ معراج

اے باعثِ ایجادِ جہاں ، خلق کے سرتاج

ہوجائے گا دم بھر میں غنی بندۂ محتاج

امید اسی گھر کی ، وسیلہ اس گھر کا

دولت یہی میری ، یہی توشہ ہے سفر کا

میں کیا ہوں ، مری طبع ہے کیا ، اے شہ شاہاں

حسّان و فرذوق ہیں یہاں عاجز و حیراں

شرمندہ زمانے سے گئے وائل و سحباں

قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں

کیا مدح کفِ خاک سے ہو نورِ خدا کی

لکنت یہیں کرتی ہیں زبانیں فصحا کی[9]

صنفِ مستزاد میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لفظی معنی ’’اضافہ کیا گیا ‘‘ ،اصطلاحاً ایسی نظم ، غزل یا رباعی کو کہتے ہیں جس کے ہر مصرع یا شعر کے بعد ایسا زائد ٹکڑا لگا ہو جو اسی مصرع یا شعر کی معنویت سے مربوط یاغیر مربوط اور مصرع سے ہم قافیہ یا غیرہم قافیہ لیکن ہم وزن فقرے سے ہم قافیہ فقروں کا اضافہ کیا گیاہو ۔اضافہ کیا گیا فقرہ اگر مصرعے سے مربوط نہ ہوتو اسے مستزادِ عارض اور مربوط ہو تو مستزادِ اَلزم کہتے ہیں ۔مستزاد میں اضافی فقروں کی تعداد متعین نہیں یعنی یہ ایک سے زائد ہوسکتے ہیں ۔اس صنف میں نعتیہ کلام کا نمونہ امام احمد رضا بریلوی کے مجموعۂ کلام ’حدائقِ بخشش‘ سے خاطر نشین کیجیے ؎

وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا

ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا

تجھے حمد ہے خدایا

تمہیں حاکمِ برایا، تمہیں قاسمِ عطایا

تمہیں دافعِ بلایا، تمہیں شافعِ خطایا

کوئی تم ساکون آیا

یہی بولے سدرہ والے ،چمنِ جہاں کے تھالے

سبھی میں نے چھان ڈالے، ترے پائے کا نہ پایا

تجھے یک نے یک بنایا

صنفِ مثنوی میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مثنوی اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شعر کے دونوں مصرعے میں قافیہ آ ئے اور ہر شعر کے دونوں مصرعوں کے قافیے الگ الگ ہوں۔ محققین اسے ایرانیوں کی ایجاد بتاتے ہیں ۔عربی میں یہ صنف نہیں پائی جاتی البتہ رجز اس سے ملتی جلتی صنف ہے ۔شبلیؔ کہتے ہیں کہ رجز کو دیکھ کر ایرانیوں نے مثنوی ایجاد کی جو ایک ہیئتی صنف ہے جس میں کسی بھی موضوع کا اظہار کیا جاسکتا ہے اگرچہ مخصوص معنوں میں اسے عشقیہ منظوم داستان تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں ابیات کی تعدا د متعین نہیں۔یہ چند ابیات سے لے کر سیکڑوں ابیات پر مشتمل ہو سکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی ہر بیت معنوں میں نا مکمل ہو یعنی تمام ابیات مل کر خیال و موضوع کی اکائی تشکیل دیں ۔’’بوستانِ سعدی‘‘ کی حکایات مختصر مثنویاں ہیںجب کہ مولانا رومؔ کی ’’مثنوی‘‘ طویل ترین مثنوی خیال کی جاتی ہے ۔اردو میں بھی عشقیہ مثنویوں کے ساتھ فلسفیانہ،واعظانہ اور اخلاقی مثنویاںبہ کثرت موجود ہیں۔

عام طور سے رزمیہ مثنوی کے لیے بحرِ متقارب اور بزمیہ کے لیے بحرِ ہزج یا بحرِ سریع مستعمل ہے ۔مثنوی کے عناصر یہ ہیں ۔

(1) حمد و نعت (2) مدح فرماں رواے وقت (3) تعریفِ شعر وسخن (4) قصد یا اصل موضوع (5) خاتمہ۔ بہت سے مثنوی نگاروں نے ان روایتی پابندیوں سے انحراف کیا ہے۔ حمد و نعت جس کا التزام عام طور سے شعرا کرتے ہیں، میرؔ اور سوداؔ کی ہجویہ مثنویاں ان سے بھی خالی ہیں۔ جہاں تک مثنوی کے مضامین اور موضوعات کا تعلق ہے تو اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ مذہبی واقعات، رموزِ تصوف، درسِ اخلاق، داستانِ حُسن و محبت ، میدانِ کارزار کی معرکہ خیزی ، بزمِ طرب کی دل آویزی ، رسوماتِ شادی، مافوق الفطرت کے حیرت زا کارنامے سبھی کچھ مثنویوں کا موضوع ہیں۔اس طرح مثنوی کے مضامین میں بڑی وسعت اور ہمہ گیری ہے ۔

اردو میں کلاسیکی اور روایتی شاعری اس صنف سے مالامال ہے ۔میراں ؔجی ، نظامیؔ، اشرف بیابانیؔ، جانمؔ، عبدلؔ، ملاوجہیؔ، غواصیؔ، مقیمیؔ، نصرتیؔ، ابن نشاطی، سراجؔ، شفیقؔ، جعفرؔزٹلی، فائزؔ، آبروؔ، حاتمؔ، اثرؔ، میرؔ، سوداؔ، انشاءؔ، مومنؔ اور شوقؔ وغیرہ کی مثنویاں مشہور ہیں ۔مثنوی نگار شعرا میںمیر حسنؔ کے حصے میںجو مقبولیت اور شہرت آئی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔یہ کہا جاتا ہے کہ اردو مثنوی کی تاریخ میرحسنؔ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔علاوہ ازیں غالبؔ نے فارسی میں کئی مثنویاں لکھی ہیںاور اردو میں ایک مختصر مثنوی ’’درصفتِ انبہ‘‘ ۔حالیؔ ،اقبالؔ اور جوشؔ کا کلام بھی اس سے خالی نہیں۔ترقی پسند شعرا میں سردار جعفری نے ’’نئی دنیا کو سلام ‘‘ اور جدید شعرا میں قاضی سلیم نے ’’باغبان و گل فروش‘‘لکھ کر روایتی ہیئت میں اس صنف پر طبع آزما ئی کی ہے ۔حمد و نعت تو مثنوی کے عناصر میں شامل ہیں،ذیل میں مشہور مثنوی نگار میرحسنؔ کی مثنوی سے نعتیہ اشعار پیش ہیں ؎

نبی کون یعنی رسولِ کریم

نبوت کے دریا کا دُرِّ یتیم

ہُوا گو کہ ظاہر میں اُمّی لقب

پَہ علمِ لدُنی کھلا دل پہ سب

کیا حق نے نبیوں کا سردار اُسے

بنایا نبوت کا حق دار اُسے

محمد کے مانند جگ میں نہیں

ہوا ہے نہ ایسا ، نہ ہوگا کہیں

صنفِ دوہا میں نعت:

ہندی شاعری کی مشہور صنفِ سخن ہے ۔ جس میں دو ہم قافیہ مصرعو ں میں ایک مکمل خیال نظم کیا جاتاہے ۔اسے دوہرا بھی کہتے ہیں ۔دوہا نگاری میں بعض محققین خسروؔ اوربوعلی قلندرؔکو اولیت کا درجہ دیتے ہیں۔دوہا نگاری زیادہ تر ہندی اور علاقائی بولیوں میںہوتی تھی لوک ادب میں دوہا ان دونوں شعراے کرام سے پہلے بھی مقبول تھا۔ہندوی میںکبیرؔ، گرونانکؔ، شیخ فریدؔ شکر گنج، ملک ؔمحمد جائسی، تلسی ؔداس، سور داسؔ، خان خاناںؔ، رسکھانؔ، ملاداودؔ، سہجوؔبائی، دَیاؔ بائی، میراؔبائی، بہاریؔ، ورندؔ وغیرہ کے دوہے مشہور ہیں ۔

مشہور ناقدنظامؔ صدیقی کے بہ قول اردو دوہا نگاری کے بانی اردو دوہوں کے اوّلین مجموعہ ’’پریٖت کی ریٖت‘‘کے شاعرخواجہ دلؔ محمدہیں۔ نظیرؔ، جلیلؔمرزا خانی، جمیل الدین عالیؔ، الیاس عشقیؔ، تاجؔسعید، پرتَو ؔ روہیلہ، عادل فقیرؔ، جمیلؔ عظیم آبادی، مشتاقؔچغتائی، عبدالعزیزخالدؔ، بھگوان داس اعجازؔ، مناظر عاشقؔ ہرگانوی، جگن ناتھ آزادؔ، نادمؔبلخی، بیکلؔ اُتساہی، ندا ؔفاضلی وغیرہ اردو دوہا نگاری کے اہم نام تسلیم کیے جاتے ہیں۔اس صنف میں بیش تر شعرا نے نعتیں تحریر کی ہیں نادمؔ بلخی کے دونعتیہ مجموعے اس صنف میں ہیں۔ بیکلؔ اُتساہی کے یہاں بھی نعتیہ دوہے بہ کثرت ملتے ہیں، ذیل میںبیکلؔ کے نعتیہ دوہے ملاحظہ ہوں ؎

صدقہ مرے رسول کا بٹتا ہے چہو اور

گدا شاہ سب ایک ہیں کوئی تور نہ مور

زُلفوں سے خوشبو بٹے چہرے سے انوار

اُن کے پاوں کی دھول سے عرش و فرش اُجیار

وہ رب کا محبوب ہے سب اُس کی املاک

ہم سب اُس کے داس ہیں ہم کو کیا ادراک

صنفِ ماہیا میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ماہیا ایسے مختصرگیت کو کہتے ہیں جس میں ہجر وفراق کے دردو آلام کا ذکر کیا گیا ہو۔ ماہیا مفعو ل مفاعیلن /فاع مفاعیلن/مفعول مفاعیلن کے وزن میں تین تین مصرعوں کے بندوں میں کہا جا تا ہے۔یہ صنف اردو شاعری میں بھی مقبول ہے۔اردو میں جگن ناتھ آزادؔ، ظہیرؔ غازی پوری، نادم ؔبلخی، شارق ؔجمال، بھگوان داس اعجازؔ، بیکلؔ اُتساہی، پرکاشؔ تیواری، ستیہ پال آنندؔ، احسن امام احسنؔ وغیرہ کے ماہیے مشہور ہیں ۔دیگر اصناف کی طرح صنفِ ماہیا میںبھی نعتیہ کلام بہ کثرت ملتے ہیں ،اس صنف میں بیکلؔ اُتساہی کا نعتیہ کلام ؎

رحمت کا اشارا ہے

اِک نامِ شہِ طیبہ

جیٖنے کا سہارا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ شافعِ محشر ہیں

سرکار کے قدموں پر

ماں باپ نچھاور ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشکوں سے ضیا کیجے

پھر نعتِ نبی بیکلؔ

دھڑکن سے لکھا کیجے

صنفِ سانیٹ میں نعت:(Sonnet)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لفظی معنی ’’صوتِ مختصر ‘‘ سانیٹ اطالوی ادب کی صنف ِ سخن ہے جس میں ایک مضمون کو چودہ مصرعوں میں بیان کیا جاتا ہے اور بحر مخصوص ہوتی ہے ۔لیکن اردو سانیٹ کے لیے کوئی مخصوص بحر نہیں ہے ۔حنیف کیفیؔکے بہ قول اردو شاعری میں سانیٹ انگریزی کے اثر سے داخل ہوا لیکن ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے نہیںبل کہ جدت پسندی کے اظہار کے لیے اور نئے تجربے کی حیثیت سے۔ اردو سانیٹ کی ابتدا کے تعلق سے کیفیؔ نے ن۔م راشد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اردو میں پہلا سانیٹ اختر ؔجونا گڑھی نے لکھااور دوسرا خود راشدؔ نے جو راشدؔ وحیدی کے نام سے شائع ہوا ۔عام خیا ل یہ ہے کہ اختر ؔ شیرانی نے سانیٹ کو اردو میں متعارف کرایا ۔تصدق حسین خالدؔ، احمد ندیم قاسمیؔ، تابشؔمہدی، منظر ؔسلیم وغیرہ نے بھی سانیٹ لکھے ہیں ۔ان کے بعد عزیزؔتمنائی نے اس ہیئت میں شاعری کا ایک پورا مجموعہ ’’برگِ نو خیز‘‘ کے نام سے شائع کرایا ہے۔ اس صنف میں بھی نعتیں لکھی جارہی ہیں، نادم ؔ بلخی اور علیم صبا ؔنویدی کے اس صنف پر مشتمل دو نعتیہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔علیم ؔ صاحب کا ایک نعتیہ سانیٹ ذیل میںخاطر نشین ہو ؎

گرد آلود بدن تھے ہر طرف

صورتوں پر تیرہ بختی کے نقوش

زندگی میلی دشاوں کی شناخت

غیر سنجیدہ فضاوں کی شناخت

نسلِ آدم کا مقدر چاک چاک

بدنما ، بے رنگ ارادے خوف ناک

دور تک پھیلے تھے پستی کے نقوش

تیرگی عریاں کھڑی تھی صف بہ صف

جلوہ فرما جب ہوئے شاہِ ہدیٰ

صورتوں میں صورتیں پیدا ہوئیں

رحمتوں پر نیتیں شیدا ہوئیں

اور منور ہوگئے ارض و سما

جسم کو تہذیب کی خوشبو ملی

زندگانی نور افشاں ہوگئی

صنفِ ہائیکومیں نعت:) (Haiku[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہا ئیکو جاپانی صنفِ سخن ہے جو سترہ ہجاوں اور تین سطروں میں کہی جاتی ہے اس کی پہلی اور تیسری سطر میںپانچ پانچ اوردوسری سطرمیں سات ہجائیں ہوتی ہیں جن میں ایک مکمل خیال یا لفظی پیکر تشکیل دیا جاتاہے اور اس کا خاتمہ ہمیشہ کسی اسم پر ہوتا ہے ۔ اردو میں پہلی بار(1936ء)’’ساقی‘‘ کے جاپان نمبر میں اس کے نمونے سامنے آئے ،پھر مختصر نظم نگاری کے رجحان نے بہت سے شعرا کو ہائیکولکھنے کی ترغیب دی اور اردو مزاج کے مطابق بے شمار ہائیکو لکھے گئے جن میں کبھی اصل کی تقلید کی گئی اور کبھی آہنگ کی دھن میں قافیے بھی نظم کر دیے گئے ۔اردو میں علیم ؔصبا نویدی،نادم ؔ بلخی،بیکلؔ اُتساہی،ساحلؔ احمد ،شبنمؔ سنبھلی ،فرازؔ حامدی، ظہیرؔغازی پوری،شارق ؔجمال، وغیرہ کے ہائیکو مشہور ہیں ۔بیکلؔ نے جہاں دیگر اصناف میں نعتیں تحریر کی ہیں ،وہیںاس صنف میں بھی آپ کا نعتیہ کلام ملتا ہے ،ذیل میںنعتیہ ہائیکو ملاحظہ ہو ؎

قرآں کی آیات

دل سے پڑھیے تو لگتی ہے

پیارے نبی کی نعت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیٖنے کااحساس

روے تمنّا جگمگ جگمگ

ذکرِ نبی کی آس

صنفِ ثلا ثی میں نعت:

اسے مثلث اور تثلیث بھی کہتے ہیں ۔ثلاثی تین مصرعوں پر مشتمل شعری ہیئت ہے جو مختلف اوزان و بحور اور مختلف نظامِ قوافی کے استعمال سے کسی مکمل خیال کا اظہار کرتی ہے ۔پرانی شاعری میں تین تین مصرعوں پر مشتمل بندوں کی طویل نظمیں پائی جاتی ہیں ۔نئی شاعری میں ثلاثی کے نام سے صرف تین مصرعے ایک مکمل نظم کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ثلاثی کے تین مصرعے آزاد بھی ہوسکتے ہیں اور پابند بھی ۔اردو میں حمایت علی شاعرؔ،حمیدالماسؔ،عادلؔ منصوری،محمد علویؔ،رشیدافروزؔ،ساحلؔ احمد،علی ظہیر ؔ وغیرہ کی اکثر نظمیں ثلاثی میں ہیں۔ اس صنف میں بھی نعت گو شعرا نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے ؎

شغلِ ذکرِ حبیب

ہے خدا کی قسم

ہر مرَض کا طبیب [10]

خارزاروں کو لالہ زار کیا

مصطفی کی نگاہ نے ارشدؔ

 جلتے صحرا کو برف بار کیا 		

=== صنفِ ترائیلے میں نعت: (Troilet) ===

فرانسیسی ادب کی ایک معروف صنفِ سخن ہے ۔جو آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جس میں پہلے مصرعے کی تکرارچوتھے اور ساتویں مصرعے کی جگہ اور دوسرے مصرعے کی تکرار آٹھویں مصرعے کی جگہ کی جاتی ہے تیسرا اور پانچواں مصرع پہلے مصرعے کے اور چھٹا مصرع دوسرے مصرعے کے قافیے میں لکھا جاتا ہے ۔ اردو میں نریش کمار شادؔ،فرحت کیفیؔاور روف خیرؔ وغیرہ نے اس صنف میں نظمیں کہیں ہیں ۔مذکورہ صنف میں نعتیہ کلام ؎

بشیر و نذیر و سراجِ منیر

رسولِ مکرّم خدا کے حبیب

دو عالم کی رحمت، خدا کے سفیر

بشیر و نذیر و سراجِ منیر

پیامیِ توحیدِ ربِّ قدیر

وہ آئے تو جاگے ہمارے نصیب

بشیر و نذیر و سراجِ منیر

رسولِ مکرّم خدا کے حبیب[11]

کہہ مکرنی میں نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کہہ مکرنی میں عورتوں کی زبان سے کوئی بات بیان کی جاتی ہے جس میںایک سے معشوق مراد ہوتا ہے اور دوسری سے کچھ اور۔اس کا قائل معشوق کی بات کہہ کر مکر جاتا ہے کہہ مکرنیوں کو سکھیا ں اور مکرنیا ں بھی کہتے ہیں۔یہ امیر خسروؔ کی پسندیدہ صنف تھی اس میں بھی نعتیہ کلام کے نمونے ملتے ہیں ؎

ہیں وہ رب کے بڑے دُلارے

 ہم کو بھی ہیں جان سے پیارے 

کوئی نہیں ہے اُن کا ہم قد

 کیا جبریل ؟  

نہیں ، محمّد![12]

آزاد نظم میں نعت: (Free Verse)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایسی نظم جو کسی روایتی شعری ہیئت کی پابند ی نہیں کرتی اس میں مقررہ تعداد میں مصرعوں کے بند نہیںہوتے لیکن بحر ووزن کی اتنی پابندی ضرور ہوتی ہے کہ کسی وزن کا کوئی رکن منتخب کرکے اس کی تکرار کی جا ئے اس نظم میں مصرعے کا روایتی تصور مفقود ہونے کے سبب سطر (یا سطروں) کو معیا ر ماناجاتاہے سطریں بالعموم چھوٹی بڑی ہو تی ہیں جن کی طوالت کا انحصا ر خیال کی وسعت پر ہوتاہے ویسے حقیقی آزاد نظم کا تصور محال ہے جو کسی فنی پابندی کو قبول نہیں کرتی ۔

آزاد نظم مغربی شاعری کی دین ہے جس کے ابتدائی آثار بائبل میں شامل ’’نغماتِ سلیمان‘‘ اور زبور کے انگریزی تراجم میں ملتے ہیں۔ فرانسیسی شعرانے انیسویں اور انگریزی شعرا نے بیسویں صدی میں اسے شعری اظہا ر کے لیے اپنایا ۔بادلئیرؔ، والٹ وھٹمنؔ، ہاپکنزؔ، ایلیٹؔ، لارنسؔ اور بہت سے مغربی شعرا نے اسے خوب ترقی دی۔ اردو میں آزاد نظم انھیں کی تقلید میں کہی گئی۔ راشدؔ، میراجیؔ، فیضؔاور اخترالایمانؔ اردو آزاد نظم سے منسوب اہم نام مانے جاتے ہیں۔ جدید شاعری کا بڑا حصہ اسی میں تخلیق کیا گیا ہے اور چھوٹے بڑے ہر جدید شاعر کے یہاں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔کلیم الدین احمد نے لکھا ہے کہ آزاد نظم لکھنا پابند نظم لکھنے سے زیادہ دشوار ہے۔اس صنف میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی ایک نعت بہ طورِمثال خاطر نشین ہوں ؎

بحرِ ظلمت میں یا محمّد ( صلی اللہ علیہ وسلم)

ہے آپ ہی کا بس اک سہارا / فیوضِ شبنم کی خنکیوں سے

عذار گل ہے / لگی ہے پت جھڑ سے

آگ غم میں / اندھیرا بڑھتا ہی جارہا ہے

جو آشکا را ہے یا پیمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم)

ہم عاصیوں کے تم ہی مسیحا

تمہارے دم سے ہے ضوفشانی [13]

مذکورہ بالا تحقیقی جائزے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نعت کی کوئی مخصوص ہیئت متعین نہیں ہے ۔لیکن اس کی مقبولیت اور آفاقیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ادب کی جملہ اصناف میں نعتیہ کلام ملتے ہیں ۔شعرا ے کرام نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے ہر صنفِ شاعری کو برتا ہے۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی، قطعہ، مسدس، مخمس، مربع، ثلاثی، مستزاد، دوہا، ماہیا، سانیٹ، ہائیکو، کہہ مکرنی ، ترائیلے، آزادنظم وغیرہ میں نعتیہ کلام بہ کثرت ملتے ہیں جو نعت کی بے پناہ مقبولیت اور ہمہ گیریت پر دال ہے۔

(نوٹ: اس باب میں اصنافِ سخن کی تعریفیں زیادہ تر مشہور محقق و ناقد سلیم شہزاد صاحب کی مرتبہ فرہنگِ ادبیات سے لی گئی ہیں، مُشاہدؔ ۔)

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضامین میں تازہ اضافہ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

  1. مکتوب ظہیر غازی پوری ، محررہ 28؍مئی 2000ء
  2. مکتوب ڈاکٹر سید وحید اشرف، محررہ 3؍جون 2000ء
  3. مکتوب ڈاکٹر سید طلحہ رضوی برقؔ داناپوری،محررہ 28؍مئی2000ء
  4. مکتوب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، محررہ 25؍مئی 2000ء
  5. مکتوب ظہیر غازی پوری ، محررہ 28؍مئی 2000ء
  6. مکتوب ڈاکٹر محبوب راہی ، محررہ 23 ؍ مئی 2000ء
  7. مکتوب ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی ،محررہ 23؍ جولائی2008ء
  8. مکتوب ظہیر غازی پوری ، محررہ 28؍مئی 2000ء
  9. سلیم شہزاد :فرہنگِ ادبیات،منظر نما پبلشرز،مالیگاوں،1998ء،ص 711
  10. دو ماہی گلبن: نعت نمبر ،جنوری /اپریل 1999ء ،احمد آباد ،ص 42
  11. دو ماہی گلبن: نعت نمبر ،جنوری /اپریل 1999ء ،احمد آباد ،ص 42
  12. دو ماہی گلبن: نعت نمبر ،جنوری /اپریل 1999ء ،احمد آباد ،ص 42
  13. دو ماہی گلبن: نعت نمبر ،جنوری /اپریل 1999ء ،احمد آباد ،ص 182