فصلِ بہار
فصلِ بہار ۔ مشاہد رضوی کا نعتیہ شعری مجموعہ ہے، جو کہ 63 کلام پر مشتمل ہے جسے انھوں نے ماہِ رمضان المبارک 1444ھ میں تحریر کیا تھا۔
فصلِ بہار کاانتساب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
انتساب
رسول اللہ ﷺ کے سفرِ ہجرت کے دوران
عظیم الشان ’’غارِثور‘‘
کے دہانے پر
انڈہ دینے والی ’’کبوتری‘‘
اور
جالا بُننے والی ’’ مکڑی‘‘
کے نام
فصلِ بہار میں شامل مقدمہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
گلشنِ ادب میں نعت کی فصلِ بہار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
طفیل احمد مصباحی
نعت گوئی ، شیشہ گری ، ادب آموزی اور عشق آفرینی کا فن ہے ، جو محض اوزان و بحور کی پابندی ، الفاظ و معانی کے حسنِ انتخاب ، ردائف و قوافی کے مناسب ، بر محل اور خوب صورت استعمال یا زبان و بیان کے مروجہ اصولوں کی پاس داری کا نام نہیں ۔ نعت گوئی کے لیے ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں ضروری ہیں ۔ زبان و بیان کے مروجہ اصول و آداب کی رعایت کے علاوہ الفاظ کے انتخاب اور چناؤ میں شانِ رسالت کا حد درجہ پاس و لحاظ ، معانی میں طہارت و نفاست ، بیان میں صداقت و خلوص ، گہری معنویت ، تہہ داری ، ممدوحِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا عظمت و رفعت کا شدید عرفان و احساس ، عشق و عقیدت ، ربودگی و شیفتگی ، فکر کی پاکیزگی ، روانی ، جوش ، ولولہ ، امنگ ، کسک ، سوزِ دروں اور ان تمام عناصر کے مابین ربط و ہم آہنگی بھی ضروری ہے ، تب کہیں اعلیٰ درجے کی نعتیہ شاعری وجود میں آتی ہے اور وہ شاعری ادبی تقاضوں کے عین مطابق شمار کی جاتی ہے ۔ اسی لیے بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ ’’ نعت گوئی چاول پر قل ھو اللہ احد لکھنے کا فن ہے ۔‘‘
پیکرِ علم و ادب جناب ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی دام ظلہ کی نعت گوئی مذکورہ عناصر و اجزا سے مرکب ہے ۔ ان کی نعتیہ شاعری میں زبان و بیان کے مروجہ اصولوں کی پاس داری ، فصاحت و بلاغت کا التزام ، الفاظ و معانی کا خلوص و صداقت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کا احساس ، غایت درجہ عشق و عقیدت ، فکر و اسلوب کی سادگی و پرکاری ، آسان لب و لہجہ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں وفورِ جذبات اور قرینۂ اظہار کے اعلیٰ و ارفع نقوش پائے جاتے ہیں ، جو قارئین و سامعین کے دلوں کو مسحور کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا ادبی اوصاف سے مزین یہ اشعار موزوں کرنے والا ایک قادر الکلام سخنور اور ممتاز نعت گو شاعر ہی ہو سکتا ہے :
نورِ توصیفِ پیمبر سے جو خامہ چمکا
پھر تو قرطاس کی قسمت کا ستارا چمکا
صرف ظاہر ہی نہیں ہو گیا باطن بھی منیر
چرخِ افکار پہ جب نعت کا مصرع چمکا
روشنی ان سے ہی اخلاق و وفا کی پھیلی
ان کی تعلیم سے ہی سارا زمانہ چمکا
فیض یوں نعتِ رسالت کا مشاہدؔ پہ ہوا
شادماں روح ہوئی فکر کا شیشہ چمکا
نوع ، بہ نوع خوشبو ، تر و تازہ گلاب
ہم تصدق ’’ نعتیہ گُل دان ‘‘کے
ادراک سے بلند ہے معیار آپ کا
آئینۂ یقین ہے کردار آپ کا
دونوں جہاں میں اوج کا حق دار وہ ہوا
اپنا لیا ہے جس نے بھی اطوار آپ کا
نعتیہ شاعری ایک تقدس مآب صنفِ سخن ہے ۔ اس کی تقدیسی حیثیت کے تمام تر اعتراف کے باوجود اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ نعت گوئی کے لیے صرف حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظاہری حسن و جمال اور آپ کے جود و نوال کا بیان ہی کافی نہیں ، جس کی آج کثرت ہے ۔ نعت گوئی کے معاملے میں قرآنی طریقۂ کار کی پیروی کی جائے اور حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کے ظاہری حسن کے ساتھ آپ کے باطنی حسن اور آپ کے روحانی و اخلاقی فضائل کا تذکارِ جمیل خصوصیت کے ساتھ کیا جائے ۔ اس سلسلے میں شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبالؔ کے نعتیہ نمونے کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے ۔ ’’ مثنوی اسرارِ خودی‘‘کے یہ اشعار دیکھیں کہ کس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اخلاقی فضائل موزوں کیے گئے ہیں :
عاشقانِ او ز خوباں خوب تر
از حسینانِ جہاں محبوب تر
دل ز عشقِ او توانا می شود
خاک ہمدوشِ ثریّا می شود
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰ است
بوریا ممنون خوابِ راحتش
تاجِ کسریٰ زیرِ پائے امتش
در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئینِ حکومت آفرید
ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم
تا بہ تختِ خسروی خوابیدہ قوم
وقتِ ہیجا تیغِ او آہن گداز
دیدۂ او اشک بار اندر نماز
در نگاہِ او یکے بالا و پست
با غلامِ خویش بر یک خواں نشست
مقامِ شکر و مسرت ہے کہ ڈاکٹر مشاہدؔ صاحب کے نعتیہ کلام میں ممدوحِ کائنات جناب احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ظاہری حسن جمال اور آپ کے متنوع فضل و کمال کے ذکر کے ساتھ آپ کے اخلاقی و روحانی فضائل کا والہانہ اظہار بھی پایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار اس پر دال ہیں :
بزمِ جہاں کے آپ نے نقشے بدل دیے
رسم و رواج ، طور طریقے بدل دیے
شیریں کلامیوں سے شہِ خوش خصال نے
اک پل میں خود سروں کے بھی لہجے بدل دیے
دے کر نبی نے درسِ مساوات و امن و عدل
یکسر کتابِ زیست کے صفحے بدل دیے
قرآں کے سنا کے سیدِ عالی وقار نے
کج مج خیال و فکر کے رستے بدل دیے
تفریقِ رنگ و نسل مٹا کر رسول نے
و اللہ کمتروں کے بھی رتبے بدل دیے
جو چلا کرتے ہیں سیرت پہ شہِ والا کی
وہی دنیا میں سر افراز رہا کرتے ہیں
ان کے اخلاقِ کریمانہ سے جانی دشمن
اپنی جاں خود ہی پیمبر پہ فدا کرتے ہیں
ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی صاحب زود گوئی اور پُر گوئی دونوں نعمتوں سے سرفراز ہیں ۔ جو کچھ کہتے ہیں ، بڑے آسان اور سادہ لب و لہجہ میں عشق و وارفتگی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر کہتے ہیں ۔ فکرِ تازہ ، آسان لہجہ اور نفاستِ اظہار ان کی نعت گوئی کا نمایاں ترین وصف ہے ۔ اس مجموعے میں شامل ان کی بعض نعوت و اشعار پر " سہلِ ممتنع " کا رنگ غالب ہے۔ یہ اشعار دیکھیں :
نورِ نعتِ نبی لے جاؤ
اور سنورتے مہکتے جاؤ
عشقِ شہِ کونین کی ضو سے
خوب چمکتے دمکتے جاؤ
پڑھ کر ان پہ درودِ مقدس
کیفِ کرم میں ڈھلتے جاؤ
لے کے نورِ سیرتِ سرور
اوج کی جانب بڑھتے جاؤ
آخری شعر میں جو آفاقی پیغام اور عصری معنویت ہے ، وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ۔ ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی ایک با کمال ادیب و شاعر ، ممتاز معلم ، کامیاب استاد ، شاہین صفت محقق ، نعتیہ ادب کے خدمت گذار اور ایک محنتی انسان ہیں ۔ حسنِ اخلاق و کردار اور حلم و تواضع کے پیکر ہیں ۔ ان کی ذات میں رضویت و برکاتیت کا حسنِ امتزاج پایا جاتا ہے۔ شوشل میڈیا پر آپ کی وقیع نگارشات اور نعتیہ کلام لوگ شوق و رغبت سے پڑھتے ہیں۔ زیرِ نظر تقدیسی مجموعۂ کلام راقم الحروف کی نظر میں ’’ گلشنِ ادب میں نعت کی فصلِ بہار‘‘ کا درجہ رکھتا ہے ۔ شاعرِ موصوف کی بارگاہ میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور ان کے عمر و اقبال کی برکت کے لیے دعا گو ہوں ۔
۱۶ ؍ مئی ۲۰۲۳ ء ، بروز منگل ، بوقت بارہ بجے شب
پی ڈی ایف کا ربط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
- فصلِ بہار نعتیہ مجموعہ 2024 | |پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کریں
مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مشاہد رضوی | لمعاتِ بخشش | مشکوٰۃِ بخشش | تشطیراتِ بخشش | نسیمِ صبحِ نور | اربعینِ مدحت | اربعینِ کرم