مشکوٰۃِ بخشش
مشکوٰۃِ بخشش ، مشاہد رضوی کا نعتیہ دیوان ہے ۔ اس میں شامل کلام الفبائی ترتیب کے لحاظ سے لکھے گئے ہیں۔ مشہور ادیب و ناقد سہیل احمد صدیقی ، کراچی نے اس نعتیہ دیوان پر اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اس مجموعۂ نعت کو اردو کے نعتیہ ادب میں عمدہ اضافہ قرار دیا ہے۔
مشکوٰۃِ بخشش میں شامل مقدمہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مشکوٰۃِ بخشش۔ اردو کے نعتیہ ادب میں عمدہ اضافہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
تحریر: سہیل احمد صدیقی،کراچی
مشکوٰۃِ بخشش، مشاہد رضوی کا دوسرا نعتیہ مجموعہ کلام ہے، اس سے قبل ، انہیں ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کی شکل میں ابتداء کی سعادت نصیب ہوئی۔’’ صنعتِ تشطیر‘‘ پر مشتمل ایک شعری مجموعہ ’’ تشطیراتِ بخشش‘‘ اور گزشتہ سال لگاتار گیارہ کتب کی اشاعت نے بھی انہیں ممتاز کردیا ہے۔ہم یہاں اُن کے اس کارنامے پر تفصیلی گفتو سے قاصر ہیں جو اُنہوں نے ادب ِ اطفال کے لیے تحریکی انداز میں انجام دیا، نیز امہات المؤمنین اور مشاہیر صحابہ کرام(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متعلق تصنیف و تالیف اس پر مستزاد.......سر دست ، اُن کے تازہ نعتیہ گلدستے پر کچھ خامہ فرسائی کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رَضوی عہد جدید کے اُن منفرد اہل قلم میں شامل ہیں جن کا خامہ کبھی تھکتا دکھائی نہیں دیتا، خصوصاً جس طرح انہوں نے خود کو حمد و ثنائے کبریا و مدحت مصطفی (ﷺ) میں مشغول اور مخصوص کیا ہے ، وہ یقینا لائق ستائش و قابل تقلید ہے۔ہم اکثر رسماً کہا کرتے ہیں : ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست.......یا۔ ؎ اللہ اگر توفیق نہ دے ، انسان کے بس کی بات نہیں، مگر یہ حقیقت مسلّم ہے کہ جب حمد و نعت کی بات ہوگی تو ہر کس و ناکس کے لیے محض طبع آزمائی بربنائے خوش طبعی ، ممکن نا ہوگی۔ہمارے بزرگوں میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغہ شخصیات کا ہونا ، یقینا باعث فخر ہے کہ نا صرف اعلیٰ پائے کے نعت گو تھے، پابند شریعت تھے، ذی علم سخنور تھے، بلکہ بیک وقت متعدد علوم وفنون پر حاوی تھے ۔ آج ایسے سائنس داں کی تلاش بھی کی جاتی ہے کہ اُ ن کے محض سائنسی کارنامو ں کا ہی پور ااحاطہ کرتے ہوئے وہ سارا علم اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں منتقل کرے.......مگر، محض یہ حسرت و تأسف کافی نہیں، ہمیں کم از کم اُ ن کے علمی سرمائے سے اکتساب کی ایسی سعی تو کرنی لازم ہے کہ جیسے عطر فروش کی دکان سے کچھ عطر ، مفت ہی سہی، بطور نمونہ لے کر اپنے بدن سے مَس کرلیں۔اس تمہید کے پیش نظر ، برادرم مشاہد رَضوی کا نعت گوئی میں انہیں ’مثال‘(Ideal) بنانا اور حتیٰ المقدور ، اُ ن کی اتباع کرنا، خصوصاً ، قرآنی آیات اور احادیث سے خوشہ چینی کی ’’سنت ِ رَضوی‘‘پر عمل ، خود مشاہد کو دوسرے نعت گو شعرائے عصر کے لیے مثال بناتا ہے۔
مشکوٰۃ بخشش کی ابتداء میں حمدیہ کلام دیا گیا ہے۔ مشاہد اس ضمن میں بہت محتاط ہیں ، لہٰذا انہوں نے ذات باری تعالیٰ کے لیے توصیفی الفاظ بھی کہیں اور سے چننے کی بجائے ، اسماء الحسنیٰ سے انتخاب کیے ہیں۔ اچھی کاوش ہے، اس سے قبل ، اُن کے کئی معاصر، بشمول یہ خاکسار، یہ سعی کرچکے ہیں.......اس طرح شاعر کی کسی ناموزوں عبارت سے ممکنہ طور پر حفاظت بھی ہوتی ہے اور خالق کے اپنے الفاظ ہی میں اُس کی حمد و ثناء کرنے سے ثواب کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ شعر بھی ہوگیا ، ورد بھی ہوگیا ، بات بھی بن گئی ، کام بھی ہوگیا!
ایک سرسری نظر کلام مشاہد پر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے جہاں بَرتی ہوئی ردیفوں پر طبع آزمائی کی، مشاہیر کے پہلے سے نظم کردہ ، خیالات کی نئی بندش لائے ، وہیں بعض جگہ انہوں نے مضمون آفرینی کی کوشش بھی کی۔عقیدت سے مملو کلام میں صنائع و بدائع کی تلاش یقینا کوئی اہل نظر ، ذی علم سخنور کرسکتا ہے، لیکن ان کا اکثر نعتیہ کلام ، کسی قسم کی دقیق نکتہ سنجی سے بے نیاز ہے۔چند نمونے دیکھئے:
جدھر سے گذرے وہ جانِ بہار کیا کہنا
مہک مہک اٹھی وہ رہ گزار کیا کہنا
دلِ حزیں مرا کھل جائے بن کے باغ و بہار
جو دیکھوں کوے نبی خلد زار کیا کہنا
ان اشعار میں شعریت بھی ہے ، عقیدت بھی اور کہیں غلو کا احتمال نہیں۔
کہیں وہ معجزات سے خوشہ چینی کرتے ہیں:
بس ایک پیالہ سے ستّر کو کردیا سیراب
کہ مصطفی (ﷺ) ہیںوہ بااختیار کیا کہنا
تو کہیں حدیث کی مدد سے صحیح عقیدے اور عقیدت کا امتزاج ایسے پیش کرتے ہیں کہ قاری و سامع جھوم اٹھیں:
خدا نے اُن کو بنایا ہے قاسمِ نعمت
ہے اُن کے صدقے مرا روزگار کیا کہنا
جب وہ یہ کہتے ہیں کہ حضور پُرنور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے روضے کی زیارت میری منز ل ہے تو وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ شوق ہی امام اور رہنما بھی بنتا ہے:
منزل مرے قدموں میں،خود آپ سمٹ آئے
جب دل میں چلوں لے کر، مَیں شوق زیارت کا
اور یہ دیکھئے کہ اس شعر میں کلاسیکی شعراء کا سا انداز نظر آتا ہے،جبکہ عقیدت بھی اپنی جگہ موج زن ہے:
خالق نے ازل ہی سے، سرکارِ مدینہ کو
مختار بنایا ہے، مَے خانۂ وحدت کا
جب وہ جدت طراز ی کا قصد کرتے ہیں تو ایسی ردیف میں نعت کہتے ہیں کہ نظیر کم کم ملے....یہ پوری نعت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس پر کوئی دیانت دار ناقد کچھ لکھے:
نوکِ خامہ نے کھلائے جب کہ مدحت کے گلاب
کھل اُٹھے بزمِ الم میں تب مَسرّت کے گلاب
آپ آئے تو صنم خانوں میں آیا زلزلہ
ہوگئے خوشبو بداماں ہر سو وحدت کے گلاب
دشتِ ویراں کی طرح ہو قبر اُن کی خار زار
ہوں نہ جن کے دل میں شاہِ دیں کی عظمت کے گلاب
سرخروئی دونوں عالم کی اگر مقصود ہے
زیست کے حاصل بنیں آقا کی سیرت کے گلاب
نعت لکھناہے مُشاہدؔ ، تو رہے پیشِ نظر
عشق و الفت کے کنول ، حُسنِ شریعت کے گلاب
کہیے ، عقیدت اور عقیدے کا درست امتزاج و عکاسی نظر آتی ہے کہ نہیں......ہمیں اُن معترضین سے کچھ لینا دینا نہیں جواپنی تبلیغ کا آغاز ہی اس مکروہ و شنیع فعل سے کرتے ہیں کہ ’’رسول (ﷺ) کو یہ علم نہ تھا، انہیں وہ پتہ نہ تھا......وہ ہمارے جیسے عام انسان تھے ، ان کا کام توبس ڈاکیے والا تھا......معاذاللہ! جہاں عقیدت کی جگہ تنقیص لے لے، وہاں ایمان کہاں باقی رہا؟؟؟......بات کی بات ہے کہ آج کا عام سائنس داں نہیں، بلکہ سائنس کا طالب علم بھی اس قابل ہے کہ منکرین رسالت کے جدید معترضین کے احمقانہ اعتراضات کا علمی اور سائنسی انداز میں جواب دے سکے۔ جب اللہ توفیق دے تو وہ اس ذریعے سے بھی ہدایت حاصل کرسکتے ہیں، ورنہ ، وحی میں بھی اپنے مطلب کی بات ڈھونڈنے کا شیطانی فعل تو بہت ہوا اور اس سے شان مصطفوی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
غالب ؔ جیسے یکتائے روزگار سخنور نے تو یہ کہہ کر اپنی عاجزی ظاہر کردی تھی کہ ہم نے اس عظیم ہستی کی ثناء کا معاملہ ، خدائے بزرگ و برتر پر چھوڑاجو اُن کی صحیح مرتبہ شناس ہے:
غالب ثنائے خواجہ(ﷺ) بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات ِ پاک مرتبہ دان ِ محمد (ﷺ) است
مگر مشاہد نے یہ کہہ کر عقیدت نگاری کا صحیح نمونہ رقم کیاہے:
قلم میں تاب کیا جو لکھ سکوں سرکار کی مدحت
بہ فضلِ رب زباں پر ہے شہِ ابرار کی مدحت
ایک جدید فتنہ انگیز عورت نے اپنے ایک خطاب میں دریدہ دہنی کی یہ جسارت کی تھی کہ اردو کی پوری نعتیہ شاعری کیا ہے، حضور (ﷺ) کے بال کیسے تھے، گال کیسے تھے، معاذاللہ.....جواب دینے والوں نے جواب بھی دیا اور اُس کے اندھے عقیدت مند ، اُسے پاکستان کے سب سے بڑے نجی ٹیلی وژن چینل پر عالمہ بناکر بھی لے آئے، مگر مشاہد بھی بحمد اللہ ، ہر راسخ العقیدہ مسلمان کی طرح ، یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں:
جہانِ فکر و فن اُن کا نکھر جائے سنور جائے
کہ جو کرتے ہیں ان کی زلفِ خوشبو دار کی مدحت
شعری صنائع پر لکھنا میرا منصب نہیں، نہ ہی میں اس مرتبہ بعض دیگر کتب کی طرح کلام مشاہد میں صنائع کی طرف اشارہ کروں گا، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ میرے قابل احترام دوست اپنی کتاب کی بصد احتیاط، متن خوانی(Proofreading)اور نظر ثانی ضرور کرالیں۔بعض جگہ ایسی اغلاط راہ پاگئی ہیں کہ جن سے مطلب خبط ہوتا ہے ، کئی مقامات پر انہوں نے شعوری طور پر ، مشہور و معروف اسماء اور اصطلاحات کے لیے مختلف ، شاید جدید، املا ء استعمال کرکے مجھ ایسے ’’کہنہ پسند‘‘ کو چونکادیا ہے اور محض ایک نعت کا حوالہ دے کر بات مختصر کروں گا:
ترے قلم کو مُشاہدؔ مَیں چوم لوں بڑھ کر
کہ لکھ رہا ہے وہ مدحت محبتوں کے ساتھ
اس نعت کی ردیف پر مجھے اعترا ض ہے۔ مشاہد رضوی ، اہل زبان ہیں تو انہیں چاہیے کہ چالو زبان کا استعمال ، وہاں نہ کریں کہ سند بن جائے۔محبت کی جمع بنانا اور پھر محبت سے کی بجائے محبت کے ساتھ.....ایں چہ بوالعجبیست!
مجموعی طور پر مشکوٰۃ بخشش ، یقینااردو کے نعتیہ ادب میں عمدہ اضافہ ہے اور اس پر تنقید نگاری کے لیے اہل سخنور، نعت گو شعرائے کرام کو صلائے عام ہے۔رب ذوالجلال میرے اس معاصر خورد کو دارین کی سرخروئی اور مسرت وشادمانی ،نیز علم میں اضافہ عطا کرے۔آمین بجاہ النبی الامین (ﷺ)
س ا ص/۳۔۱۰۔۲۰۱۲ء
پی ڈی ایف کا ربط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
- مشکوٰۃِ بخشش نعتیہ دیوان 2012 | [[پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کریں]]
مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مشاہد رضوی | لمعاتِ بخشش | تشطیراتِ بخشش | اربعینِ مدحت | نسیمِ صبحِ نور | فصلِ بہار | اربعینِ کرم