ثنا کی نکہتیں ۔ عشق رسول کا استعارہ
مضمون نگار : ڈاکٹر منصور آفریدی
’’ثنا کی نکہتیں‘‘ عشق رسول کا استعارہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نبی کی مدح وثنا میں کائنات کی ہرشے اپنے وقت وجود سے مصروف ہے۔ یہ مصروفیت مخلوق کے لیے سعادت کی بات ہے۔ جن و بشر، پرند وچرند، زمین وآسمان سب کسی نہ کسی طور پر مدحت سرکارمیں مصروف ہیں۔ان میں اشرف المخلوقات سے ملقب ہونے والی مخلوق جسے قرآن کی زبان میں احسن تقویم کہاگیاہے ،اس کاانداز قدرے مختلف ہے ۔یہ اپنے نبی کی شان میں بہتر الفاظ اور بہتر صیغے کی تلاش میں مگن رہتی ہے۔ یوں تو تقدیس رسالت کابیان قرآن کے بعد اب کوئی کیا کر سکتا ہے مگر ہر عاشق اپنے معشوق ،ہرمحب اپنے محبوب کی تعریف اپنے انداز و ادا سے کرنے میں آزاد ہے اور یہی خواہش اس کی تسکین کا سبب بھی۔لوگ آزاد ہوکرکسی کوہم خیال بنانا تو پسند کرتے ہیں مگر کسی کا ہم خیال ہوکرکوئی کیسے آزاد ہوسکتا ہے ۔ اپنی زمین اپنانقشہ ،اپنا آسمان ،اپنے چاند تارے ،افکارکی سطح پر تخیلاتی قوتوں کی بنیاد پربہت آسان ہے مگر کیا کسی کی زمین لے کراس پر اپنا نقشہ اپنے تفکرات وتخیلات کے عین مطابق بنایاجاسکتا ہے ؟عام طورپر اس کا جواب نفی میں ہوگا، جو بعید ازقیاس بھی نہیں ‘آئیے ہم ایک ایسے اقلیم نعت کی بات کرتے ہیں جنھوں نے اپنی سلطنت کا میدان دیارغیر کو ٹھہرایا بعدہٗ ایسی حکمرانی کی کہ صاحب زمین اگرچہ زندہ نہیں مگر ان کے مؤیدین و معتقدین اور پرستاروں نے اتنا ضرور کہا کہ اگراس دور میں غالب ہوتے تو سید محمد نور الحسن نور کا قدم چوم لیتے اور یہ کہتے کہ میرا پورا دیوان آپ کی نعتیہ شاعری پرقربان ۔ ’’ثناکی نکہتیں‘‘ غالب کی زمین میں کہی گئی نعتوں کا مجموعہ ہے جو لاشعوری میں نہیں بلکہ شعوری کوشش کے بعد وجود عمل میں آئی ہے۔یہ کتاب اپنی جگہ اس لیے منفرد ہے کہ غالب کی زمین پر اور بھی لوگوں نے طبع آزمائی کی ہے مگر نور الحسن نورصاحب کا میدان ذرا چنوتی دینے والا ہے ۔ کہاں غزل کی زمین اورنعت کا گل گویا پتھریلی زمین میں زعفران اُگانے کا عمل ہے ۔عشق جونہ کروائے اور وہ عشق جس کے لیے خود خدا فرمائے’’اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو پہلے میرے محبوب سے محبت کرو‘‘اہل ایمان کا اس سے بہتر عمل اور کیا ہو سکتا ہے جہاں قدم قدم پر عقیدت کے گل کھلتے ہوں۔سیدنور الحسن نور کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ سخت زمینوں کوبہ آسانی نرم و گداز بنادیتے ہیں ۔’’ثناکی نکہتیں ‘‘اس طوربھی منفردہے کہ دیوان غالب کی زمینوں کی سنگلاخی دیکھیں اوران کے ہنر کا کمال ،کس طرح سرسبز و شاداب بناتے چلے جاتے ہیں ؎
سرجھکا دے ان کے درپر خامۂ تحریر کا
کھول دیتے ہیں مرے سرکار در تقدیر کا
ہو چبھن ایسی کہ بن جائیں یہ آنکھیں اشکبار
کاش ہو جائے نشانہ دل نبی کے تیر کا
جب سے جاگا ہے خیال مصطفیٰ کا ماہتاب
ایک حلقہ سا مرے اطراف ہے تنویر کا
اب اس زمین پرغالب کی غزل دیکھ لیں۔ بعض لوگوں نے اگرچہ غالب کے اس کلام کوحمد کا بھی درجہ دیا ہے تاہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے دونوں کی زبان وبیان کا موازنہ کیا جائے تو نور صاحب کی شاعری کی جاذبیت کا اعتراف کیے بغیرنہیں رہ سکتے ۔ دوسرا کلام اپنی روایتی شان کے ساتھ جلوہ بارہے ۔یہاں قابل ذکر دوایسے اشعار پیش کرتاہوں جہاں روایت پسندی ،ترقی پسندی ، جدیدیت اورمابعد جدیدیت مفاہیم وتراکیب دیکھ کرسب کے سب سربہ گریباں ہیں کہ آخر ایک خانقاہ کاپروردہ الفاظ کے ادراک کا دروبست اورنشست و برخاست کاعالمِ بصیرت افروز کیوں کر ہوا۔
آخر یہ برف پگھلی تو نعت رسول سے
ورنہ خیال و فکر پہ طاری جمود تھا
گھر میں چراغ نعت تھا روشن تمام شب
اک سیل رنگ و نور کا پیہم ورود تھا
برف کا پگھلنا اور فکر وخیال کا جمود طاری ہونا مناسبات لفظی کی رعایت کا کتنا خوب صورت مرقع ہے ۔ یہ اہل فن پر آشکار ہے ۔ گھر میں چراغ رات کا روشن ہونا اور سیل رنگ ونور کا پیہم ورود صرف محسوس کرنے کی شے ہے ۔نورؔ صاحب کا ہی یہ خاصہ ہے جو عرق ِ نعت سے اپنی ذات وکائنات روشن کرنے میں حق بجانب ہیں جہانِ فکر وخیال کی رعنائیاں ان کے افکار و تصورات پر تصدق ہونے میں کوئی تاخیر نہیں کرتے ؎
سوچتا رہتا تھا میں کیسے ہے روشن آسماں
خاکِ طیبہ دیکھ کر راز مہِ اختر کھلا
نعت آقا نے عطا کی ایسی بینائی کہ بس
جب مری آنکھیں کھلیں مجھ پر نیا منظر کھلا
جھک گیا میرا قلم نعت نگاری کے لیے
ورنہ آسان نہ تھا اتنا نمایاں ہونا
میری بستی میں بہاروں کی خبر لایا ہے
یاد آقا تری زلفوں کا پریشاں ہونا
کاش اے نورؔ قدم رکھ دیں شہ کون ومکاں
چاہتا ہے مرا سینہ مہ تاباں ہونا
جو فراق مصطفی میں مری آنکھ سے نکلتے
مرے بہتے آنسوؤں پر مہ نو نثار ہوتا
شب خواب وعدہ ہوتا جو حضور کے کرم کا
در آرزو پہ روشن گل انتظار ہوتا ہے
در مصطفیٰ سے میری کبھی واپسی نہ ہوتی
مجھے اپنی زندگی پر اگر اختیار ہوتا
مذکورہ اشعار میں ذرۂ خاک طیبہ کو مہ و اختر پر ترجیح دینا،نعت آقا سے بینائی کا ملنا، نیا منظر کھلنا ،نعت لکھ کرخود کونمایاں کرنا، زلف آقا کے لہراتے ہی بہاروں کی خبر، کف پائے اقدس سے سینے کومنور کرنا، یاد مصطفیٰ میں نکلنے والے آنسوؤں پر مہ نو کا نثار ہونا، شب خواب، گلِ انتظار، اپنی زندگی پر اختیار،یہ وہ کیفیات ہیں جو اہل دل کوخاص رحمت کے طور پرملاکرتی ہیں ورنہ الفاظ کے ادھیڑبُن کسے نہیں آتے۔ مفہوم کی ادائیگی کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب بڑے فنکاروں کاحصہ ہے یا پھر ان کاجن پرنزول رحمت کا موسم رم جھم رم جھم شب و روز جاری رہتا ہے ۔ آمد کے اشعار دوسروں کی زمین میں خود ایک کرامت ہے ۔ گویا شاعر نے اپناسب کچھ محبوب حقیقی کے لیے قربان کر دیا ہے ورنہ آورد کے اشعار اتنے اچھے کیوں کر ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح آگے کہتے ہیں ؎
اشارے کر رہی ہے اے صبا کیا ؟
بلاتے ہیں مجھے شاہ ہدیٰ کیا
ترے قدموں کی آہٹ سن رہا ہوں
مرا دل بن گیا غارِ حرا کیا
در سرکار سے بڑھ کر بھی کچھ ہے
پلٹ کر سوئے دنیا دیکھنا کیا
کھِل رہے ہیں نعت پاک سرور دیں کے گلاب
اب مکانِ دل مرا جنت نشاں ہو جائے گا
مکتب عشق نبی سے جس کو مل جائے سبق
حکمت و دانش کا وہ کوہِ گراں ہو جائے گا
دل کو بس یہ ملال رہتا ہے
میں گذر گاہِ مصطفیٰ نہ ہوا
اس کیفیت کے اشعار سے ’’ثنا کی نکہتیں‘‘نہ صرف یہ کہ منور ہے بلکہ کشت سخن کی آبیاری میں قاری کی فکر کو مہمیز کرنے میں معاون بھی۔ان کا ایک اک شعر اوراس کی روانی سیلاب وقت کی طرح معنی کی تہوں میں پہنچا دیتی ہے ؎
ملا جو بوسہ کبھی پائے ناز آقا کا
مزاج پوچھوں گا پھر میں عرش اعلیٰ کا
نبی کا نام سپر بن کے آ گیا فوراً
مری طرف جو غم کائنات نے تاکا
نبی کی مدحت ایک دیوانے کے لیے نصیبے کی بات ہے ۔اسی دیوانگی نے بلال کودین کاہلال بنایا۔ابوقحافہ کے بیٹے کوصدیق اکبر اور خطاب کے بیٹے کو فاروقِ اعظم بنایا۔ کوئی قریب رہ کر بلال ہوتاہے توقرن میں بیٹھ کر ہجر میں بھی وصل کے مزے لے رہا اویس قرنی کایہ مرتبہ ہے ۔ دیوانوں کے لیے قرب و بُعد چہ معنی دارد۔یہ پُر نور دل کسی کسی کے سینے میں ہوتاہے ۔یہ اوربات ہے کہ حسن کادل نور بن جائے اور نور، نور الحسن بن جائے ۔
سید نورالحسن نور کے نعتیہ کلام کا مطالعہ اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ انھوں نے نعت گوئی میں ان روایات کی پاسداری کی ہے جو قدیم نعت گو شعرا کے یہاں ملتی ہے ۔نورصاحب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ نعت گوئی کا معاملہ شاعری کی دیگر اصناف سے ذرا مختلف ہے ۔یہاں پر شوکت الفاظ کے اہتمام اور آہنگ کی پُر خروش آوازوں سے شاعری کو معراج حاصل نہیں ہوتی بلکہ پہلے قلب و جگر کی تطہیر کرنی پڑتی ہے پھر سوز و مستی کے ساتھ جذب و شوق کے ناپیدا کنار محسوسات میں اپنے وجود کو گم کرنا پڑتا ہے ۔ محویت کی کیفیت شاعرکو عظیم فنکار بناتی ہے تب نعت کا ایک ایک شعر عقیدت و محبت کا حسین گلدستہ بن کر دل کی دنیا کو منور و معطر کرتا ہے ۔ خانقاہی نظام کا یہ اثر ہے کہ انھوں نے نعت رسول اکرم کے لیے اُنھی مضامین وموضوعات کواختیار کیاہے جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ملتا ہے ۔ کیوں کہ آداب نعت گوئی کے اس نکتے سے بھی یہ خوب واقف ہیں۔ اظہار عقیدت کی دھن میں آگ کے دریا میں کود پڑنا تو آسان معلوم ہوتا ہے البتہ اس کے شعلوں کی لپٹ سے خود کو بچائے رکھنا کمالِ فن کا عین تقاضا ہے ۔ کامیاب وہی ہے جواس تقاضے کو پورا کرنے کا فن جانتا ہو اس کے لیے محض فنکارانہ مہارت ہی درکار نہیں بلکہ صاحب نعت کے مقام ومرتبے سے واقف ہونا بھی ازحد ضروری ہے ۔ناعت کے دل میں عشق وعرفان کاچراغ کس درجہ منور ہے ،آئیے اس روشنی میں اِن کے کچھ اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ ؎
عشق سرور دیں ہے میر کارواں اپنا
کیوں نہ راستہ دیکھے گلشن جناں اپنا
عشق سرکار دو عالم میں فنا ہو جانا
زندگی تیرا ہے محروم قضا ہو جانا
بوسۂ گنبد خضرا کی تمنا ہے تو پھر
مشورہ یہ ہے وہاں بادِ صبا ہو جانا
گذرتے ہیں دن رات نعت نبی میں
خدایا رہے میری فرصت سلامت
مٹا دے گا خود کو جو عشق نبی میں
رہے گا وہی زیر تربت سلامت
اے ناقۂ دیار صبا تو کدھر ہے آج
شہر شہ امم مرے پیشِ نظر ہے آج
مہتاب نعت پاک کی بکھری ہے چاندنی
لگتا ہے روشنی کا شجر میرا گھر ہے آج
غبار کوئے نبی سے جو غسل دلو ادو
بہار تازہ کی دیں گے خبر در و دیوار
قدم پڑے تری یادوں کے جو مرے گھر میں
تو نعت پڑھنے لگے جھوم کر در و دیوار
موجوں نے خود ہی پار کیا میری ناؤ کو
ہاتھوں میں ان کے نام کی پتوار دیکھ کر
دامن میں آگئے مرے تسکین کے گلاب
اسم نبی کو ہونٹوں پہ ضو بار دیکھ کر
جنت نے بڑھ کے چوم لیے عاصیوں کے پاؤں
محشر میں مصطفیٰ کو طرفدار دیکھ کر
ان اشعار کا مطالعہ دل و دماغ اور روح کی تازگی کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ نیز ایک اک لفظ کی نشست و برخاست عشق و آداب رسالت کے ساتھ ساتھ نت نئے تراکیب سے اپنے نبی کو یاد کرنے کا جو سلیقہ نورالحسن نور کی شاعری میں موجزن ہے یہ کتنوں کو پانی بھرنے پر مجبورکرتا ہے ۔محروم قضا ہوجانا، فرصت کا سلامت رہنا ، بادصبا ہو جانا، روشنی کا شجر ہونا، یادوں کاقدم پڑتے ہی در و دیوار کا نعت خواں ہو جانا۔ نام نبی کی پتوار ،اسم نبی کی ضیا باریاں دیکھ کر گلاب کا دامن میں آنا ،جنت کابڑھ کرعاصیوں کے قدم چومنا یہ وہ تراکیب ہیں جو اختراعی ہیں ۔بعض اشعار تو ایسے ہیں جہاں استادانہ مہارت کے ساتھ حضور سے عقیدت ومحبت اوراپنے پاکیزہ جذبات کوانتہائی دلکش ،شیریں ، مترنم اورمناسب الفاظ میں پیش کیاہے۔ ادب و احترام کاعنصر ہر شعر میں نمایاں طور پر سامنے آتاہے ۔منفرد لب و لہجہ اور دلکش طرز بیان نے تقدیس رسالت کا عمدہ نمونہ بنا دیا ہے ۔حضور کے اوصاف حمیدہ اوراخلاق کریمانہ کا ذکر قرآن وحدیث سے جس طرح مترشح ہوتے ہیں بعینہِ اُنھی کی ترجمانی اپنے اشعار سے کرتے ہیں۔سرکارکی سیرت کے چند نمونے ان کے اشعار سے پیش کرتے ہوئے آپ کوبھی سیرت النبی کے چند گوشوں کا مطالعہ کراتاچلوں ؎
سامنے رکھ لے چراغ صبح و شام مصطفی
چہرۂ کردار تیرا ضو فشاں ہوجائے گا
مسمار جس نے کردیا طاغوت کا محل
اے میرے مصطفیٰ وہ ترا خاندان ہے
وہ ہیں نبیٔ غیب داں اُن پہ کھلا ہے حال سب
آنکھ بہائے اشک کیوں، روح صدا لگائے کیوں
جتنی باتیں بھی نکلنی تھیں لب سرکار سے
سب ہوئیں وحی الٰہی ،جزو ایماں ہوگئیں
بصیرتوں کا اثاثہ نہیں ہے جن کے پاس
وہ لوگ صرف لباس بشر کو دیکھتے ہیں
جہاں پہ ملتا ہے اقراء کا پُر فضا موسم
وہیں پہ وادیٔ غار حرا نکلتی ہے
جسے نبی کے تبسم کا فیض حاصل ہو
بہار پہنے ہوئے وہ قبا نکلتی ہے
رسول پاک کی زلفِ کرم سے ہر لمحہ
نوازشات و کرم کی گھٹا نکلتی ہے
ان اشعار کی قرأت ہمیں نور فہمی میں آسانیاں فراہم کرتی ہیں۔نورصاحب کاایک اک شعر ان کی شاعرانہ عظمت کے لحاظ سے بلند پایہ ہے ۔انھوںنے تازہ کار تشبیہات ،نادراستعارات سے اپنی شاعری کوایسی ندرت فکر اور تازگی و شگفتگی بخشتی ہے کہ پیکر تراشی کاعمل آسان ہو جاتاہے ۔ ’’ثناکی نکہتیں‘‘ کامطالعہ جہانِ نعت سے متعارف کراتے ہوئے اپنے اسلوب وآہنگ کو منوانے میں کامیاب ہے۔ اپنے مخصوص لفظیات اورجدید لب و لہجے کی بنیاد پر اپنے ہم عصروں ہی نہیں بلکہ ماضی قریب اورمستقبل قریب کی نسلوں کو تحیر میں ڈالنے کے لیے ان کی شاعری کامیاب ہے۔ اخاذ طبیعت کا مالک ان کی شاعری سے خوشہ چینی کا شوق پورا کر سکتا ہے ۔فکر وفن کی اس تطہیر و تقدیس میں اس منفرد شاعری کی بنیاد پرنورصاحب کتنا کامیاب ہیں یہ مجھ سے زیادہ بہتر آپ قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں ۔میں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے ’’ثنا کی نکہتیں‘‘کا مطالعہ کیا ہے،جس نے قدم قدم پر سنبھلنے کا موقع فراہم کیا اور آداب عشق رسالت کے جام الست سے مست کیا۔مری یہ تحریر’’ثناکی نکہتیں ‘‘ کے لیے آغاز سے زیادہ نہ سمجھی جائے ۔
عطائے آل رسول ڈاکٹر منصور فریدی
۲۹؍جنوری۲۰۱۹ء مطابق :۲۲؍جمادی ا لاول۱۴۴۰ھ
مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔ |
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659 |
نئے صفحات | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
|