نقد ِ نعت کی تخلیقی جہات

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


کتاب: نقد ِ نعت کی تخلیقی جہات

مرتبہ: صبیح رحمانی

پبلشر : نعت ریسرچ سنٹر ، کراچی

تعارف کنندہ : عبد العزیز دباغ

نقد ِ نعت کی تخلیقی جہات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صبیح رحمانی کی نئی تالیف’’نقد نعت کی تخلیقی جہات‘‘ فروری ۲۰۲۲ ء میں منظر عام پر آئی ہے۔

جناب صبیح رحمانی کا فکر و نظر کا شیش محل نعت کائنات کی وسعتوں کو کچھ یوں محیط ہے کہ تخلیقی شعور کا انعکاسی عمل ایک جاری و ساری وجود پا کر نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا ، وسعت پذیری اور کشادگی کے ادبی دھارے کو شفاف بہاؤ میں ڈھالتا چلا جاتا ہے اور یہ شفاف دھارا کہیں تھمتا نہیں بلکہ ادبی نعت کے تقسیم انوار کا ایک لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے۔ اس جمالیاتی وسعتِ قلب و نظر کے ساتھ وہ ایک زیرک نباض بھی ہیں جو نعتیہ ادب کی تنقیدی اور تخلیقی تحریروں پہ ہاتھ رکھتے ہی ان کی تاریخی، عصری، فکری، فنی، جمالیاتی اور ماورائی قدر و منزلت، استفادی اور اطلاقی اہمیت اجاگر کرنے لگتے ہیں اور ان کی معنوی اور اسلوبیاتی ترفع کے حوالے سے تنقیدی اور تخلیقی معاملات کو اپنی قلم رو کے توسیعی امور میں شامل کر لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ فن تالیف کا سہارا لے کر ایسی تحریروں کو اپنے فکر و نظر کے شیش محل میں ذکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاں تاب نور کے ترشحات کے سپرد کر دیتے ہیں تاکہ عمل انعکاس سے انہیں جہان نعت کے ارض و سما میں ہر جہت ترویج مل سکے۔ جمالیات نعت کی اس وسعت پسندی پر سیدی صبیح رحمانی کی عمر بھر کی جد و جہد یقیناً ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنی اسی سعی مشکور کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’اللہ رب العزت نے جن جواہر پاروں سے میری آنکھیں روشن کی ہیں ، میں انہیں اپنی ذات تک محدود نہیں رکھنا چاہتا۔ میری آرزو ہے کہ رنگ و نور کا یہ سلسلہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی برکت کا یہ فیض حق تعالیٰ نے جس طرح عام کیا ہے میں اس کام میں ہرممکن اپنا حصہ ڈالتا رہوں۔ مضامین کا یہ مجموعہ بھی اسی خواہش کی ایک عملی تعبیر ہے۔‘‘

جناب صبیح رحمانی نےتخلیق نعت سے تنقید وتحقیق نعت تک مسلسل مطالعہ کیا ہے، نعتیہ ادب کو متعدد زاویوں سے دیکھا ہے اور وسیع تناظر میں سمجھا ہے۔ یوں وہ اس بحر بے کراں کے ساحل سے ایسے موتی چن لینے میں کامیاب ہوتے گئے ہیں جو اہل فکر و دانش کے نزدیک بھی اہمیت کے حامل ٹھہرے اور جنھیں بعد ازاں نعتیہ ادب کے لئے بھی اہم گردانا گیا ۔وہ بلاشبہ جدید نعت کے فروغ کے حوالے سے ایک معمار کی حیثیت رکھتے ہیں۔انہیں وسعت قلب و نظر کی نعمت عظمیٰ عطا ہوئی ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نعتیہ ادب پر بات کرتے ہوئے عصری تناظر میں تنقید کے سارے ہی دبستانوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اس سے اگر ایک طرف تنقیدی مباحث میں وسعت پیدا ہوگی تو دوسری طرف ان سے بعض ایسے افکار بھی سامنے آئیں گے جو تنقیدہی نہیں بلکہ تخلیق کے لئے بھی مفید ہو سکتے ہیں۔

اس کتاب میں شامل تحریریں رسمی اور روایتی تنقیدی تحریریں نہیں بلکہ غیر رسمی اور غیر روایتی دیباچے اور تبصرے نما مضامین ہیں مگر ان میں اٹھائے گئے نعت کے خصوصی معاملے کی وجہ سے ان جواہر پاروں کو صاحبان دانش کی فکر کا حاصل کہا جا سکتا ہے۔ صبیح رحمانی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ تنقید کا کردار ہی یہ ہے کہ وہ کھرے کھوٹے میں امتیاز کرے ،اعلیٰ و ادنیٰ کے فرق کو واضح کرے اور تخلیقی تجربے کو عصری شعور کے تناظر میں پرکھے اور افکار کی جانچ بھی کرے۔ اگر تنقید یہ کام نہیں کرتی تو ادب میں خود اس کے اپنے کردار کے آگے سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ دوسری بات تنقید کا انداز ہے۔ہمیں بعض ناقدین ایسے ملتے ہیں جن کا تنقیدی اسلوب اپنی ایک تخلیقی جہت رکھتا ہے ۔ ان کا لہجہ، ان کا آہنگ، ان کے اظہار کا قرینہ، ایک ایسی کیفیت رکھتا ہے جیسی ہمیں ایک تخلیقی تجربے میں ملتی ہے۔ ایسی تنقید کا دائرہ کسی قدر وسیع ہوتا ہے۔ اس تالیف میں شامل مضامین کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والا اپنے فکر و نظر کے میدان میں ایک جذبی کیفیت کے تحت لکھ رہا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو تنقید کو روایتی سانچوں میں نہیں رہنے دیتی بلکہ ان سے نکال کر انہیں ایک نیا قالب عطا کرتی ہے۔ اس لحاظ سے نقد نعت کی تخلیقی جہات وجود میں آتی ہیں۔ یہ مضامین اگرچہ غیر رسمی اور غیر روایتی تحریریں ہیں مگر ان کا تخلیقی جوہر انہیں تنقیدی انفرادیت عطا کر رہا ہے ایسی انفرادیت جو رسمی تنقید کے کینوس سے وسیع تر ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ان کے پیش نظر کچھ اور چیزیں بھی ہیں جناب صبیح رحمانی اس تالیف کو اس موضوع پرپہلی جلد قرار دے رہے ہیں ۔ ہمیں اس تالیف کی جلد دوم کا انتظار رہے گا۔

یہ کتاب دراصل ایک تفصیلی مضمون کا تقاضا کرتی ہے تاکہ مشمولات کاصبیح رحمانی صاحب کے ویژن کے مطابق مطالعہ کر کے ان کے تنقیدی اور تخلیقی محاسن کا جائزہ لیا جا سکے اور ایک وسیع تر نقدِ نعت کے تصور کے خد و خال کو نمایاں کیا جا سکے۔ جناب حنیف اسعدی کی مدحت نگاری پر جناب سلیم احمد کی تحریر، یا حافظ لدھیانوی صاحب کے آھنگِ ثنا پرجناب سید عبداللہ کا تجزیاتی مکالمہ اور ڈاکٹر عرش صدیقی کا جناب عارف عبد المتین کے شعور نعت پر شگفتہ اظہاریہ اور اس تالیف میں شامل دیگر مضامین قارئین کے ذوق نعت کو جلا بخشنے والی نادر تحریریں ہیں اور اس کے لئے ہم جناب صبیح رحمانی صاحب کے حضور ھدیہ تشکر و تبریک پیش کرتے ہیں اور خیر و عافیت کے ساتھ ان کی سلامتی کے لئے دعا گو ہیں۔