نعت: تعریف، تقاضے اور روایت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Naat kainaat - naatia masail.jpg

مصنف  : ڈاکٹر ابرار عبدالسلام

کتاب : نعتیہ ادب ۔ مسائل و مباحث


نعت: تعریف،تقاضے اور روایت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت ہمارے ادب کی ایک مستقل صنفِ سخن ہے۔ قریباً ہر شاعر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور کمال کمال کیا ہے، صرف کلمہ گویاں ہی نہیں، دیگر مذاہب کے شعرا نے بھی بہ قول شخصے، کچھ یوں اپنی عاقبت کا سامان کرلیا ہے۔ نعت بڑی نازک صنف ہے۔ شاعری کی تمام اصناف میں شاید سب سے زیادہ نازک۔(شکیل عادل زادہ ص،۵۰۹)

محمدV شناسی کی طرح خدا شناسی کا ادّعا بھی نوع بشر کے حیطۂ اختیارسے باہر ہے۔ بجز محمدؐ کون ہے، جو خدا کو اس طرح جاننے کا دعویٰ کرسکے، جس طرح جاننے کا حق ہے۔ بقول راقم:

آشنائے مصطفیٰ ہے ذات رب

اور قیصر مصطفیٰ رب آشنا

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ حمد گوئی یا نعت نگاری کے حوالے سے کوئی بھی سعادت زور بازو کا حاصل نہیںہے، بلکہ خدائے بخشندہ کی بخشش ہے، جو بحمدللہ! ’’نعت رنگ‘‘ اس کے مرتب اور ادارتی عملے کو بہرصورت نصیب ہے۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ نعت ہمیشہ حضورV سے محبت اور وابستگی کے والہانہ اظہار کا ایک ذریعہ متصور ہوتی ہے۔ کئی عاشقان باصفا تو ایسے بھی ہیں، جو اپنے آپ کو فروتر ظاہر کرنے کے لیے ثنائے رسولV کو ایک جسارت بلکہ سوء ادب خیال کرتے ہیں:

کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا

گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں


بایں ہمہ عقیدے کی حد تک نعت شعرا اور غیر شعرا کا ہمیشہ مرکزِ نگاہ رہی ہے، البتہ فکری وفنی نقطئہ نظر سے نعت کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ تاحال یہ فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کہ نعت ایک باقاعدہ صنف سخن ہے یا نہیں۔ـــ نقدونظر کے حوالے سے بھی خوش اعتقادی آڑے آئی ہے اور جو کچھ نعت میں کہا جاتا رہا ہے، اس پر نہ صرف صاد کیا گیا ہے بلکہ تنقیدی زاویہ نگاہ سے نعت کو پڑھنا یا سننا سوء ادب تصور ہوا ہے۔ اس صورت حال نے تاریخی، علمی، فکری اوراعتقادی اعتبار سے (خصوصاً قرآن و حدیث کی ارشادات کے تعلق سے) ایک لمحۂ فکریہ کی جو صورت پیدا کر دی ہے، اس کا ’’نعت رنگ‘‘ نے بخوبی ادراک کیا ہے۔ یہ اسی کا کارنامہ ہے کہ آ ج نعت کے ضمن میں علمی، ادبی، انتقادی، تاریخی اور مذہبی جانچ اور پرکھ کے دروازے وا ہوچکے ہیں اور سرگزشتۂ خمار رسوم وقیود نعت گو شعرا کے درفکر وخیال پر دلیل وبرہان دستک دینے لگے ہیں۔ اس قلمی جہاد میں ’’نعت رنگ‘‘ کے جن قلمکاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے، ان میں ڈاکٹر سیّد ابوالخیرکشفی سرفہرست ہیں۔ ڈاکٹر کشفی اردو ادب کی تدریس، تنقید، تحقیق اور تخلیق ہر لحاظ سے ممتاز و ممیز مقام کے مالک ہیں۔ نقدو نظر ک حوالے سے تو ان کی عظمت مسلّم ہے۔ آج کل وہ نعتیہ ادب میں جو اضافے کررہے ہیں، وہ علمی، ادبی اور تاریخی اعتبار سے نہایت اہم ہے۔(قیصر نجفی ص،۷۴۵۔۷۴۴)


نعت کہنے سے پہلے آداب ِ نعت سے واقفیت ضرور حاصل کرے کیوں کہ یہ صرف شعر کہنے والی بات نہیں ، یہ تو محبوب ِ ربّ ِجلیل کی بارگاہ میں باریابی پانے کی جستجو کا مرحلہ ہے - محبت ِ رسول کے میزان پر ایمان تولنے کا معاملہ ہے - ایمان و عقیدت کے قبلہ و کعبہ کی طرف جان و دل کرنے کا سلسلہ ہے - قطرے کو گُہر کرنے ، ذرّے کو رشک ِ آفتاب کرنے کا وَل وَلہ ہے اور کیوں نہ ہو ، نعت گوئی میرے معبودِ کریم کی سنّت ہے ، یہ وہ وصف و سعادت ہے جو مشتِ خاک کو قربِ ایزدی عطا کرتی ہے - روایت ہے کہ سجدے میں بندہ اپنے ربِّ کریم کے بہت قریب ہوتا ہے ، اسے بہت پیارا لگتا ہے ، شاید یہ وجہ بھی ہو کہ سجدے میں بندے کا جسم ربِّ کریم کے محبوبِ کریم کے مبارک نام ’’ محمد ‘‘ V کی مکتوبی ساخت کا نقشِ جمیل بن جاتا ہے - (کوکب نورانی ص،۳؍۱۱۱)


نعت کا موضوع کبھی پرانا نہیں ہوتا، آفتاب کی کرنوں پر بھی کبھی بڑھاپا نہیں طاری ہوا، تارے کبھی پرانے نہیں ہوئے، حضورِ اقدسV کے احسانات کو یاد کرنے کی خو کو رجعت پسندی سمجھنے والوں کی عقلیں محرومِ بینائی ہوسکتی ہیں، ان پر عجز و پیری کا دور آسکتا ہے مگر وہ ذات سرکارِ رسالت پناہ کی ذاتِ اقدس کو انسانی آبادی نے یہ کہہ کر پکارا ہے اور اسی طرح تاقیامت فریاد کرتی رہے گی:(عبداللہ عباس ندوی ص،۶۶۷)

دو عالم بہ کاکل گرفتار داری

بہر مو ہزاراں سیہ کار داری

تو سر تا بہ پا رحمتی یا محمدؐ

نظر جانب ہر گنہ گار داری


نعت ،صنف سخن کی حیثیت سے:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جناب انور خلیل نے کہا ہے:


میرے خیال میں نعت کو علاحدہ صنف سخن کہنا صائب نہیں۔۔۔ ہیئت کے لحاظ سے اصنافِ سخن شمار ہوتی ہیں جب کہ نعت کسی بھی صنفِ سخن میں کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے میں نعتیہ ادب کی اصطلاح کو صنفِ سخن پر ترجیح دیتا ہوں۔

عارف منصور ص ۴۰۸ پر لکھتے ہیں:


اصنافِ سخن کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک ہیئت کے حوالے سے جیسے نظم، مسدس، ہائیکو وغیرہ اور دوسرے موضوعات کے حوالے سے جیسے حمد، نعت نوحہ مرثیہ۔


عارف منصور کی اس توضیح سے ص۵۲۲ پر لکھے گئے جناب کوکب نورانی کے اس اعتراض کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔ جناب کوکب نورانی لکھتے ہیں:


لوگوں نے کتنی غلطی پھیلا رکھی ہے کہ حمد کے معنی ہیں خدا کی تعریف اور نعت کے معنی ہیں رسول کی تعریف۔(احمد صغیر صدیقی ص،۷۹)


بایں ہمہ عقیدے کی حد تک نعت شعرا اور غیر شعرا کا ہمیشہ مرکزِ نگاہ رہی ہے، البتہ فکری وفنی نقطئہ نظر سے نعت کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ تاحال یہ فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کہ نعت ایک باقاعدہ صنف سخن ہے یا نہیں۔ـــ (قیصر نجفی ص،۷۴۵)


تعجب ہے کہ ارباب نقدونظر نے صنف نعت کو اپنی تحریروں میں وہ مقام اور درجہ نہیں دیا جو دوسری اصناف سخن کو دیا ہے آخر کیوں؟ غالباً اس کی وجہ مذہب سے کم تعلقی اور رسولV کی تعریف وتوصیف کے حوالے سے اس کو (نعوذباللہ) یک رخہ سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا، صنف نعت پر جستہ جستہ کام ہوا جو نہ ہونے کے برابر ہے، نعتوں کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں اور ایک آدھ کتاب تاریخ نعت کے حوالے سے منظرعام پرآئی ہے جس سے سیری نہیں ہوتی۔ آپ کاکام ٹھوس ہے اور آپ نے نعت کو ادبیات کی اعلیٰ اصناف میں شامل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(تابش دہلوی ص،۲۴۲)


اردو میں جب سے شعروادب لکھا جارہا ہے اس وقت سے حمد و نعت بھی کہی جارہی ہے لیکن برکت و تبرک کے لیے.....اس جذبے سے بلند ہوکر جن شعرائے کرام نے نعت کو ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے اپنایا۔ان میں حضرات محسن کاکوروی، امیر مینائی، احمد رضاخان بریلوی کے نام خصوصیت سے لیے جاسکتے ہیں۔ اب رہی بات علامہ اقبال کی ..... انھوں نے واقعی حمد اور نعت کو ایک نیا رخ دیا ہے اور کشفی صاحب کے مطالبہ پر پوری اترتی ہے...... یعنی اقبال کے یہاں قرآن و حدیث کا مطالعہ اور کائنات کا مشاہدہ نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑوںسے نسبت ہی بڑا بناتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری اسی وجہ سے سے بلند تر ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے اکتساب نور کرتے ہیں۔ اب رہی مولانا الطاف حسین حالیؔ کی نظم’’مدّو جزر اسلام‘‘ تو اس کے ادبی محاسن اپنی جگہ لیکن برادرِ محترم جمال پانی پتی صاحب نے نہایت پتے کی بات کہی ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’انھوں نے (مولانا حالیؔ نے) اس بات پر غور نہیں کیا کہ حضور نبی کریم V کی بے مثل بشریت اور عبدیت کاملہ کو ہم جیسے عام انسانوں کی سطح کے برابر لانے سے نعت گوئی کا حق تو رہا درکنار، خود ایمان کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘‘(سلطان جمیل نسیم ص،۴۳۲ ۔۴۳۱)


جناب سید حسین احمد نے اصنافِ سخن کی تعریف و تقسیم کرنے والوں کے حوالے سے (شاید) یہ لکھا ہے ، مجھ سا کم علم و کم فہم یہ جاننا چاہتا ہے کہ ’’ صنفِ سخن ‘‘ کی تعریف کی بنیاد کیا ہے ؟ ’نعت کو ’’ مضامین سخن ‘‘ اور ادب تو خود انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے یعنی نعت بلا شبہ سخن تو ہے صرف ’’صنف ‘‘ کا سابقہ اس کے ساتھ لگانے کے لئے فنی طور پر جو اعتراض انہیں مانع ہے وہ فارم اور اجزائے ترکیبی کے تعین و تقرر کا ہے - اس بارے میں مروجہ فنی اور تیکنیکی قواعد و ضوابط سے واقف نہ ہونے کے باوجود یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اُردو معاشرے میں اصناف ِ سخن کی تعریف و تقسیم وغیرہ سے پہلے بھی نعت تھی بلکہ اُردو نہیں تھی اور نعت تھی ، شاعری میںغزل ، نظم ،رباعی ، مرثیہ وغیرہ کی تقسیم سے پہلے نعت تھی اور اسےنعت ہی کہا اور شمار کیا گیا - نعتیہ غزل یا نعتیہ رباعی کے نام تو بہت بعد کے دَور میں لکھے پکارے گئے ہیں - اس پہلے سے موجود نعت کو کیا کہا جائے گا ؟ اُردو دان طبقے کا اپنے معاشرے میں حمد و نعت کی اصطلاحی تقسیم طے کرلینے کا یہ مطلب نہیں کہ عربی دان طبقے اور عرب معاشرے میں بھی یہی استعمال بلفظہ منوایا جائے - لفظ ’’ ثناء ‘‘ کی مثال سامنے ہے ، اُردو دان طبقہ اس کی معنوی حد بندی پر کوئی اصرار نہیں کرتا - متعدد لفظوں کی ایک فہرست یہ فقیر ہی فراہم کرسکتا ہے جن کے اصل لغوی اور ہمارے ہاں اصطلاحی معنوں کا استعمال مختلف ہے ، اس کے باوجود ان الفاظ کے وسیع استعمال پر اختلاف نہیں کیا جاتا - شعر کہنے والے کو صرف شاعر کہا جاتا ہے خواہ وہ کسی ایک مروجہ صنف ہی میں کلام کہے ، ہر صنف کے حوالے سے اس کا نام نہیں پُکارا جاتا، یعنی نظم کہنے والے کو صرف ناظم نہیں کہا جاتا بلکہ نظم کالفظ بھی لغت میں وسعت رکھتا ہے اور کئی معنی دیتا ہے اور کیا باقی اصنافِ سخن میں ’’ نظم ‘‘ نہیں ؟ کیا بے نظمی اور بدنظمی پائی جاتی ہے ان میں ؟ ’’ غزل ‘‘ کے لفظ کے لئے ذرا لغت کھولئے اور دیکھئے کیا کیا معانی درج ہیں - غزل نگار کو غازل کیوں نہیں پکارا جاتا ؟ کیا غزل ’’ سیاسی ‘‘ نہیں ہوتی ؟ کیا مضامین اور موضوعات کا سابقہ دیگر مروجہ اصنافِ سخن کے ساتھ نہیں پکارا جاتا ؟جب معاشرے میں ’’نعت ‘‘ کے اصطلاحی طور پر ایک معنی و مفہوم پر اتفاق کیا جاسکتا ہے تو اس کے ’’ صنف ِ سخن ‘‘ مانے جانے میں کیا حقیقی عذر مانع ہے ؟ میری یہ عرض اگر شاعری کے متفقہ اصول و قواعد کے مطابق فضول ہے تو معذرت خواہ ہوں - (کوکب نورانی ص،۳؍۱۹۳۔۱۹۲)

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا مضمون ’’نعت ، بحیثیت صنف سخن‘‘ اہم مضمون ہے۔ ہمارے بعض ناقدین صرف مخصوص موضوع اور کوئی مخصوص ہیئت نہ ہونے کی بنا پر نعت کو ’’صنف سخن‘‘ تسلیم نہیں کرتے جبکہ یہی ناقدین ’’مرثیے‘‘ کو صنف سخن کا درجہ دیتے ہیں جبکہ یہ بھی موضوعی صنف ہے اور جو لوگ ’’مسدس‘‘ کو اسکی ’’ہیئت‘‘ قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اس کی مسدسی ہیئت تو انیسؔ و دبیرؔ کی وجہ سے مقبول ہوگئی ورنہ ان سے قبل اور آج بھی مسدس کو مرثئے کی حتمی ہیئت تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس طرح رباعی کی ہیئت تسلیم شدہ ہے، آج بھی دیگر شعری ہئیتوں میں مرثیے کہے جارہے ہیں اس لیے جس طرح مرثیے کو موضوع کے اعتبار سے صنف سخن کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح نعت کو بھی ’’صنف سخن ‘‘ تسلیم کرلینا چاہئے۔(ڈاکٹر اشفاق انجم ص،۲۷؍۴۹۸)


مرثیہ اور نعت:مماثلت کی چند جہتیں:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سیّد حسین احمد کا مضمون ’’کیا نعت ایک صنفِ سخن ہے‘‘ ایک مختصر سی تحریر ہے، جسے نعت اور مرثیے کا ایک تقابلی جائزہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ یہ درست ہے کہ عہد سوداؔ سے قبل مرثیے کا کوئی فارم مقرر نہیں تھا اور نہ ہی اجزائے ترکیبی متعین تھے۔ سوداؔ نے فارم اور میر ضمیرؔ نے اجزائے ترکیبی مقرر کرکے مرثیے کو ایک باقاعدہ صنفِ سخن بنا دیا۔ ہمارے خیال میں ہئیت کے اختصاص اور فنی صورت گری کے باوصف مرثیہ ایک طویل عرصے تک ایک صنف سخن کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اور مرثیہ گوشاعر کو ’’بگڑا ہوا شاعر‘‘ کہا جاتا رہا۔ تاآںکہ علامہ شبلی نعمانی نے ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ لکھ کر مرثیے کی فنی اہمیت کو اجاگر کیا۔ یہ شبلی ہی تھے، جنھوں نے مرثیے کے سرپر ایک باقاعدہ صنف سخن کا تاج رکھا۔ مقام حیرت ہے کہ نعت بھی صدیوں سے ویسے حالات سے دوچار ہے، جیسے حالات مرثیے کو اپنے ارتقائی سفر میں درپیش تھے، مگر افسوس کہ اب تک نعت کو نہ تو کوئی سودا ملا ہے، نہ میرضمیر اور نہ ہی کوئی شبلی نعمانی ــ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے، جس پر اہل فکر ونظر اور صاحبان علم ودانش کو توجہ دینا چاہیے۔(قیصر نجفی ص،۷۴۶)

اُردو میں نعتیہ ادب :تخلیقی اظہار کی چند صورتیں:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ ادب کے سلسلے میں کسی دقیق مطالعہ کا میں دعویٰ نہیں کرتا لیکن جو کچھ پڑھا اور دوسروں کی رائے سے متاثر ہوئے بغیر جو رائے قائم کی ہے ممکن ہے درست نہ ہو۔ لیکن یہ میری رائے ہے اور اسی طور قبول کرنا میرے حق کو تسلیم کرنا ہے۔ میرا مطالعہ یہ نظریہ قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ اردو میں نعت گوئی چار نوع کی ہے۔

۱۔ وہ نعت جو جذبۂ صادق اور خلوص بے پایاں کے ساتھ لکھی گئی ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ قاری اور نعت خواں پر پڑھنے کے دوران ایک خاصی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

۲۔ کمالِ فن کے اظہار کے لیے لکھی گئی نعت، اس کا اثر دل پر کم ہوتا ہے۔ البتہ دماغ غور و فکر پر مائل ہوتا ہے۔ اس کی داد دی جاتی ہے اس سے کیف طاری نہیں ہوتا۔

۳۔ روایت کی پاسداری میں کہی جانے والی نعت۔

۴۔ بس یوں ہی کہی ہوئی نعت! جب سب کہتے ہیں تو ہم کیوں نہ کہیں کے جذبے سے وجود میں آنے والی نعت۔

ذرا سی توجہ سے ہر نعت کو ان میں سے کسی قسم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں (۱) اور (۲) کے امتزاج سے جو نعت وجود میں آتی ہے وہ ہر اعتبار سے کامیاب ہوتی ہے۔ (شفقت رضوی ص،۴۷۷)

تخلیق نعت کی خصوصیات:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بات درحقیقت یہ ہے کہ ہر شعر کہنے والا نعت نہیں کہہ سکتا ہے۔ اس کے لیے شعری سلیقہ، رسول اللہV سے عشق، رسالت کے تقدس سے آگہی، مقامِ رسالت کا شعور اور لفظوں کو موتیوں کی طرح شعری مالا کا روپ دینا آنا ضروری ہے کہ کوئی لفظ مقامِ رسالت کے منافی نہ ہواور کوئی شعر تقدس رسالت کے خلاف نہ ہو اور یہ سب اُس وقت آتا ہے جب وہ ایک تہذیبی روایت، ماحول فضاے ربانی سے گزر رہا ہو جس کی برتر مثال حضورV کے دور کی مدنی زندگی ہے کہ حضورV کا ہر صحابی حضورV کے عشق سے سرشار نظر آتا ہے۔اس کا اندازہ کچھ بنی نجار کی لڑکیوں کے ان استقبالیہ اشعار سے بھی ہوتا ہے کہ اُن کے لیے رسول اللہV کی ذات کیا تھی اور وہ اُس ہستی میں کس کل کا منظر دیکھ رہی تھیں یا اُن کو دکھایا جا رہا تھا:

طلع البدر علینا

من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا

ما دعیٰ للّٰہ داع

ایھا المبعوث فینا

جئت بالامر المطاع

اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیا ماحول تھا کہ بنی نجار کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بلندپایہ روایت کی بنا ڈال رہی تھیں۔ حضورV کے مدینہ شریف میں ظہور فرمانے سے پہلے ہی اہلِ ایمان کے گھروں میں سرشاری کی کیفیت تھی۔ حضورV سے محبت کا ذکر بلند تھا اور یہ نعتیہ اشعار اُس ذکر و شوق کا نتیجہ تھے۔ یہ لفظ ہمیشہ کے لیے زندگی پا گئے، امر ہوگئے۔ اب میں اُس فضا، اُس تقدس، اُس ماحول کی طرف آتا ہوں جو ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیرکشفی کی یادوں میں محفوظ ہے اور جس کا سفر آج بھی جاری ہے، لیکن وقت نے اسے نئی جہتیں دے دی ہیں۔ اور اب یہ گھروں کے آنگنوں، راہ داریوں اور حویلیوں سے نکل کر عوامی سطح پر ایمان افروز محافل کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اب یہ ایک ایسیPoetic sensibility ( شعری حسیت) ہے جو تقدس کی زر مالائوں کا روپ دھار چکی ہے، نعتیہ شاعری نے عربی ادب میں عشقِ نبیV سے اظہار کی ایکDynamic (متحرک) اور پُراثر شکل اختیار کرلی جب کہDevotional (جاںنثاران) شاعری کی اصناف میں کوئی دوسری شکل رائج نہ ہوسکی اس میں ایک تو یہ کہ نبی پاکV سے محبت کرنے اور اُس کے اظہار کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ فعل سمجھا گیا۔ دوسرے یہ کہ صحابۂ کرامؓ نے آپV سے محبت کا وہ معیار قائم کیا جو روحِ زمانہ کے ساتھ سفر کر رہا ہے، ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیرکشفی نے یادوں کے دریچوں سے پردے اٹھا کر وہ کہکشاں دکھائی ہے جو شہرِ نبیV کی فضائوں کو چھو رہی ہے۔(سلیم یزدانی ص،۴۴۲۔۴۴۱)

نعت گوئی کی خصوصیات:[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت، نہایت مقدس و محترم صنف سخن ہے لہٰذا اس کی تقدیس و طہارت کا تقاضا ہے کہ مضامین و افکار بھی ایسی ہی صفات کے حامل ہوں ، ان کے اظہار کا ذریعہ زبان ہے تو اس کا بھی صحیح اور پاکیزہ و شستہ ہونا لازمی ہے۔ اس لیے الفاظ کا انتخاب انتہائی غو ر و فکر اور احتیاط کا طالب ہے ۔ اگر ایک بھی نامناسب لفظ در آیا تو وہ ساری شعری فضا کو مکدر کردیتا ہے۔ زبان کے ساتھ فنِ شاعری اور عروض کا علم بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ یہی شاعری کی اساس ہیں۔مضمون کتنا ہی اعلیٰ ہو، زبان کتنی ہی عمدہ ہو، بیان لاکھ خوب صورت سہی لیکن اگر شعر میں فنی عیب یا عروض کی خامی موجود ہو تو وہ ایک زنگ آلود آئینے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔(ڈاکٹر اشفاق انجم ص،۱۳۳) نعت گوئی کے لیے ان خصوصیات کے علاوہ حقیقت و صداقت کیساتھ سنّت و شریعت ، سیرتِ پاک، قرآن و حدیث کا قابل قدر علم اور اس کی پاسداری بھی لازم ہے۔ ہمارے اکثر شعرا کا تو یہ حال ہے کہ وہ مدینہ منورہ کی تعریف و توصیف میں کہے گئے اشعار کو بھی نعت کہتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دیوبندی ، بریلوی ، سلفی، نجدی جیسے تنازعات بھی نعت میں شامل ہوگئے ہیں جب کہ ان کے لیے اردو میں ایک بہترین صنفِ سخن ’’ ہجو ‘‘ موجود ہے ، شعرا ہجویہ نظمیںنہ کہتے ہوئے اس قبیل کے اشعار نعت میں کہتے ہیںجو مجھے تو مناسب نہیں معلوم ہوتے ۔(ڈاکٹر اشفاق انجم ص،۱۳۴) نعت گو/ نعت گوئی کے لیے شرائط: ’’ثنائے رسولV‘‘ کے ضمن میں میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ شہر غزل، نعت گو کی تربیت گاہ ہے۔ رموزِشعر سے آشنائی ضروری ہے۔ نعت گو کو شعر کی باریکیوں، نزاکتوں اور لطافتوں سے آگاہ ہونا چاہیے جمالیاتی قدروں کی پاسداری کا اہل ہو تو اسے اقلیم نعت میں داخلے کی اجازت ملنی چاہیے، آنسوؤں سے وضو کرنے کا سلیقہ جانتا ہو تو قلم اٹھائے۔ بارگاہ رسالت مآبV میں ہد یہ نعت پیش کیا جائے تو نعت فنی حوالے سے بھی اعتبارو اعتماد کے معیارات پر پورا اُترتی ہو۔ ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا یہاں تو ذرا سی بھی لغزش یا شوخی سوئے ادب میں شمار ہوگی اس لیے احتیاط اور ادب پہلی شرط ہے لیکن مجھے ڈاکٹر صاحب کے ان خیالات سے اختلاف کرنے کی اجازت دیجیے کہ ’’زبان کے ساتھ فن شاعری اور عروض کا علم بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ یہی شاعری کی اساس ہے‘‘۔ یقینا زبان کے ساتھ فن شاعری اور عروض کا علم بھی شاعر کے لیے ضروری ہے لیکن یہ شاعری کی اساس نہیں۔ شاعری تو دل کے آبگینوں کے رقص میں آنے کا نام ہے، شاعری کی اساس تخیل ہے، شاعرانہ اپروچ ہے۔ اظہار کا کھرا پن ہے۔ ندرتِ فکر اور سوچ کی بلند پروازی ہے۔ جذبے کی سچائی اور اثر پزیری کے اوصاف زندہ شعر کی بولتی علامتیں ہیں، شاعری جمالیاتی شعور کے ابلاغ کا نام ہے، گزارش ہے کہ پہلے شاعری وجود میں آئی۔ فن شاعری کے ضابطے اور اصول اساتذہ کی شاعری سے اخذ کیے گئے کون کافر علم عروض کی اہمیت سے انکار کرسکتا ہے لیکن ہر شاعر کے لیے علم عروض کا ’’ماہر‘‘ ہونا بھی تو ضروری نہیں۔اگر مذکورہ کلیے کو حرف آخر سمجھ لیا جائے تو علم عروض کے ماہرین ہی کو شعر لکھنے کا حق حاصل ہوگا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک اچھا عروضی ایک اچھا شاعر نہیں ہوسکتا وہ ہر وقت جمع تفریق کے چکر ہی میں رہتا ہے۔ شاعری تو ایک خداداد صلاحیت کا نام ہے، شعوری کوششوں سے محض ان صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا جاسکتا ہے، شاعر پیدا ہوتے ہیں۔ عروض کی کتابیں پڑھ کر شاعر نہیں بنا جاسکتا، علم عروض شاعری کی اساس نہیں بلکہ شاعری علم عروض کی بنیاد ہے، کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ آج لاشعوری طورپر زبان و بیان کا نیا ضابطۂ تحریر مرتب ہو رہاہے۔(ریاض حسین چودھری ص،۳۹۲) ہمارے بزرگ جو کچھ لکھ گئے ہیں ہم اس سے ہدایت بھی حاصل کرسکتے ہیں اور عبرت بھی بشرطیکہ دیدۂ بینا رکھتے ہوں...... آپ شاید میرے اس مشورے پر ہنس دیں لیکن میں اپنے نوجوان اور جدید شعرا کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ جس طرح دنیا کا کوئی بھی فن...... گانے بجانے سے لے کر.....کرکٹ، فٹبال اور شاعری تک بغیر سیکھے نہیں آتا...... اس لیے وہ جس شعبے سے بھی متعلق ہوں اس کے بارے میں پرانی سے پرانی اور نئی سے نئی ہر اہم بات ضرور سیکھیں اور معلوم کریں...... خاص طور سے نئے شاعروں کو یہ چاہیے کہ وہ مطالعہ اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ جو آئمہ فن آج موجود ہیں ان سے بھی رہنمائی حاصل کریں۔ اس لیے کہ شاعری میں مشکل ترین صنف نعت ہے...... ذرا سے ڈگمگائے اور گئے۔ (سلطان جمیل نسیم ص،۴۳۲) نعت لکھنا بقول عرفی تلوار کی دھار پر چلنے کا عمل ہے ۔تہذیب وادب کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ شعری جمالیات کا التزام آسان کام نہیں ہے ۔نعت نگاری کے لیے محض سرکارِ دوعالم ؐ کی محبت وعقیدت ہی کافی نہیں ہے ۔اس کے لیے اُس ذات عظیم کی حتی الامکان تفہیم بھی چاہیے ۔یوں تو حقیقت محمدیؐ کوخالق کائنات کے سوا کون جانتا ہے ۔مگر ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذہنوں میں ختمی مرتبت ؐ کاکیا تصور ہے ،یہ بات نعت نگاری میں بہت اساسی اہمیت رکھتی ہے ۔رسول کریمؐ کے مقام بشریت اور مقام نبوت کے متوازن تصور ہی سے ایک مودب اوراثر انگیز نعت تخلیق کی جاسکتی ہے ۔ یہاں غزل کے عام محبوب اور محب والی کیفیت زیبا نہیں ہے ۔ نعت آقا اورغلام کے رشتے پراستوار ہوتی ہے ۔یہاں برابری گستاخی ہے ۔ یہ حفظ مراتب کی دنیا ہے یہاں تعظیم کی کڑی شرطیں ہیں ۔اور انہی پابند یوں اور شرائط میں رہتے ہوئے ایک نعت نگار کواپنے جمال فن اور تخلیقی شعور کے نگ دکھا نے پڑتے ہیں ۔ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے نعت پر تنقید کاباقاعدہ آغاز کیااور قدیم اور جدید نعتوں کے مضامین اور اسالیب پر معروف اہل قلم سے انتقادی مقالات لکھوائے ۔جس کی وجہ سے ادب کے عام قاری کو نعت کاایک نیا شعور ملا۔(فراست رضوی ص،۲۵؍۹۰۲) قرآن کا ترجمہ کرنے کے لئے صرف عربی داں ہونا کافی نہیں ، اسی طرح نعت کہنے کے لئے صرف شاعر ہونا کافی نہیں ورنہ خود ظہیر صاحب وہ اوصاف کیوں لکھ رہے ہیں جن کے بعد ان کے نزدیک مشکل نہیں ہوسکتی ؟ نعت نگاری میں ان اوصاف کے باوجود بھی کوئی لغزش بعید از امکان نہیں -(کوکب نورانی ص،۳؍۱۵۶) اس بارے میں عرض ہے کہ نعت نگار ہو یا سیرت نگار ، انہیں ’’ شرک ‘‘ کی صحیح تعریف اور اس کی بنیادی باتوں سے آگہی ہونی چاہیے اور یہ آگہی حقائق اور ادلّہ شرعیہ کے مطابق ہو ۔ علمائے حق اہلِ سنّت و جماعت نے عقائد و نظریات پر جو کتابیں یاد گار بنائی ہیں ان کا مطالعہ ضرور کیا جائے ۔(کوکب نورانی ص،۳؍۲۴۸) ان باتوں کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ نعت گوئی کے لیے نعت گو کا سیرت ِ رسولِ کریمVسے پوری طرح واقف ہونا ، بلاشُبہ بہت اچھی اور اہم شرط ہے لیکن’’ پوری طرح واقفیت ‘‘ تو کیا ، بنیادی ضروری واقفیت میں بھی ’’ کچھ ‘‘ ہی شمار ہوں گے ۔ نظم و نثر میں نعت کہنے والوں کو ضرور چاہیے کہ وہ سیرت ِ رسولِ کریم V پر لکھی گئی مستند کتابوں کا توجہ سے مطالعہ ضرور کریں اور خود اپنی فہم کی تائید و تصدیق بھی جب تک حقائق و براہین سے نہ پائیں ، اسے بیان نہ کریں ۔(کوکب نورانی ص،۳؍۲۴۷) میری عرض صرف اتنی ہے کہ کوئی شعر کہے یا تُک بندی کرے مگر نعت شریف صرف وہی کہے جو نعت شریف کہنے کو غایت درجہ سعادت جانے اور خود کو بخوبی یہ باور کرالے کہ اس کی ہر قابلیت و صلاحیت کی نہایت کے باوجود اس سے ذاتِ ممدوح(V)کی مدح وثنا کا حق ادا نہیں ہوسکتااورذاتِ ممدوح (V)کی محبت وتعظیم کے ہرہر تقاضے کا ہر مرحلے اور ہر لمحے پاس ولحاظ رہے۔(کوکب نورانی ص،۳؍۳۳۱)

نعتیہ ادب اور احتیاط کے تقاضے:
حافظ(افضل فقیر) صاحب کو اللہ نے جو غیرمعمولی بصیرت اور بیان کا جو حیران کن سلیقہ عطا کیا تھا وہ اس دیباچے سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ انھوںنے شعر و شاعرکے ضمن میں جن چار مقدمات کا ذکر کرنے کے بعد کمال وسعت نظر کے ساتھ ان کی جو توضیح کی ہے اس سے خود میرے بعض اشکالات رفع ہوئے۔ البتہ مضمون کے آخر میں عرفی شیرازی کے نعتیہ قصیدے کے جو دو شعر انھوںنے درج فرمائے ان میںسے پہلے میں عرفی وہ احتیاط ملحوظ نہ رکھ سکا جس کی اس جیسے عالی دماغ شاعر سے توقع تھی۔ عرفیؔ بعض اور مقامات پر بھی ایسا پیرایۂ بیان اختیار کرتا ہے مثلاً اس کے ایک اور نعتیہ قصیدے کا ایک شعر ہے:

عیسیٰ مگسِ تکلم تو حلوائے دکانِ آفرینش اب آپ غور فرمایئے کہ کیا اس شعر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخفیف کا پہلو صاف نمایاں نہیں؟ بہرحال کہنا یہ ہے کہ متقدمین خواہ وہ فارسی ادب سے متعلق ہوں خواہ اردو سے، ان امور پر وہ توجہ نہیں دے سکے جس کا تقاضا نعت گوئی کرتی ہے۔ اس تمام تر کے باوجود اردو اور فارسی کا کلاسیکی نعتیہ ادب اس کا مستحق ہے کہ اس کے قابل لحاظ حصے کو ادب عالیہ میں شمار کیا جائے۔(ڈاکٹر تحسین فراقی ص،۲۴۵) نعت میں محتاط رویوں کی ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا گیا، لیکن دورِ موجود میں یہ ضرورت کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے کہ پہلے عام طور پر وہ لوگ نعت کہتے تھے جن کا فطری رجحان اس موضوع کی طرف ہوتا تھا اور وہ دینی تعلیم رکھتے تھے لیکن پاکستان میں ہر شاعر نعت کہنے کی سعادت حاصل کررہا ہے اور نعت کے موضوعات میں بہت وسعت آرہی ہے۔ اس لیے نعت میں احتیاط کے تقاضوں کو سامنے لانے کی ضرورت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ غالباً یہی محسوس کرتے ہوئے رشید وارثی اور عزیزاحسن نے اس کام کے لیے بڑے بھرپور انداز میں قلم اُٹھایا ہے۔ دونوں حضرات قرآن پاک اور حدیث مبارکہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور اُن کا ادبیات کا مطالعہ بھی وافر ہے، پھر انھوںنے پہلے ہونے والے احتساب سے بہتر انداز اختیار کیا ہے۔۔۔ رشید وارثی نے ذم کے پہلو رکھنے والے اشعار کی نشان دہی کی، لیکن شعرا کرام کے نام نہیں دیے۔ یہ روش اس اعتبار سے بہتر ہے کہ مقصود نعت نگاروں کی تحقیر نہیں، بلکہ ذم کے پہلوئوں کو سامنے لانا ہے، تاکہ نعت، معیاری بن سکے۔ عزیزاحسن نے البتہ پورے اعتماد اور جرأت سے شعراے کرام کے نام لے کر بے احتیاطیوں کی نشان دہی کی ہے، لیکن انھوںنے اپنا زاویۂ نظر یہ بتایا ہے: محبتیں بھی رہیں دل کو ٹھیس بھی نہ لگے کسی کے سامنے اس طرح آئنہ رکھیے اشتہارات سے پتا چلا ہے کہ یہ دونوں حضرات اور ادیب رائے پوری ان موضوعات پر کتابیں تیار کرلیتے ہیں۔ اللہ انھیں مزید فکری بالیدگی اور توازن سے نوازے۔(حفیظ تائب ص،۲۸۱) افسوس یہ ہے کہ اس زمانے میں بہت سے لوگوں نے نعت کو فیشن کے طور پر یا رواج عام کی پابندی کی مجبوری کی بنا پر اختیار کرلیا ہے۔ دوسری مشکل یہ کہ اکثر شعرائے کرام کو زبان پر پوری طرح قدرت نہیں، لہٰذا ان سے عجب عجب طرح کی بے تمیزیاں اور بھونڈے پن سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ یا پیغمبرِ اسلام سے یوں مخاطب ہوتے ہیں گویا نعوذ باللہ ان کو کچھ دے رہے ہوں، یعنی اظہارِ محبت اس طرح ہوتا ہے کہ اپنی محبت کا ذکر زیادہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ Vکو گویا اپنی ثنا اور توصیف کا مستفید قرار دیے جانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ کی زیرِنظر کتاب میں کچھ مختصر تحریریں ایسی ہیں جن میں نعت گوئی کے آداب سے بحث کی گئی ہے، لیکن تشنگی محسوس ہوتی ہے کیوںکہ بنیادی باتیں پوری طرح زیرِبحث نہیں آئیں۔ دیگر مضامین میں جناب حسن محمود جعفری کا مضمون بہت خوب ہے لیکن مغربی حوالوں کی کثرت کے باوجود کوئی بنیادی نتیجہ پوری طرح واضح ہوکر نہیں ملا۔(شمس الرحمٰن فاروقی ص،۵۱۲۔۵۱۱)

نعت گوئی کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر یہ صدق جذبے سے کی جائے تو اس میں بڑا اثر ہوتا ہے، لیکن اگر اسے فیشن اور تقلید کے طورپر اختیار کیا گیا تو اس میں وہ تاثر اور والہانہ پن پیدا نہیں ہوتا جس کے بغیر نعت، نعت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ان دنوں نعت گوئی نے ایک فیشن کی صورت اختیار کرلی ہے جسے ٹیلی وژن، ریڈیو اور نعتیہ مشاعروں نے مزید فروغ دیا ہے۔ دل کی گہرائیوں اور رسول اکرمV سے گہری محبت اور عقیدت کے تحت نعت کہنا اورمحض قادرالکلامی کے زور پر شعر موزوں کرنا ایک بات نہیں ہے۔ اس لیے نعت گو تو بے شمار ہیں لیکن بہزاد لکھنوی جیسے نعت گو معدودے۔ بہرحال آپ کی کوشش قابلِ تعریف ہے۔ شکریہ(شہزادمنظر ص،۵۵۲)

جناب رضوی صاحب کے تحقیقی مضمون کے علاوہ نعت سے متعلق کچھ تنقیدی مضامین بھی زیرنظر تالیف میں شامل ہیں۔ ان مضامین میںجناب عاصی کرنالی،جناب رشیدوارثی اورجناب عزیزاحسن کے مضامین خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ان مضامین میں ایسی تراکیب، استعارے اور مضامین کی نشان دہی کی گئی ہے جو ہماری نعتیہ شاعری میں اکثر استعمال ہوتے ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو ان مروجہ مضامین میں شان رسالت میں گستاخی کے پہلونکلتے ہیں جن سے اجتناب برتنا چاہیے۔ نعتیہ شاعری دراصل پل صراط پر چلنے سے بھی مشکل کام ہے کیوںکہ یہاں معمولی سی بے احتیاطی بھی دین ودنیا میں خسارہ کا سبب بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے میدان نعت گوئی کو ایک ایسی ’’ادب گاہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو عرش سے بھی ’’نازک تر‘‘ ہے اور جہاں ’’جنیدوبایزید‘‘ جیسے صاحبان بصیرت بزرگوں کے بھی ہوش گم ہوجاتے ہیں مذکورہ تینوں مقالے نعت گو شعرا کے لیے ہدایت ورہنمائی کے نکات سے پوری طرح آراستہ ہیں جن کا مطالعہ عام قارئین کے علاوہ بہت سے نعت گوشعراء کے لیے بھی خاطر خواہ افادیت کا حامل ثابت ہوگا۔(حکیم محمد سعید ص،۴۳۰) (۱) ’’نعت رنگ‘‘ کے مضامین سے یہ خوش آئند حقیقت بڑی واضح طورپر میرے سامنے آئی ہے کہ حمد و نعت غزل کی زمین سے گزرتے ہوئے اپنی ادبی حیثیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔ اس بیش بہا تبدیلی کے پیشِ نظر آپ اتفاق کریں گے کہ نعت خواں حضرات کو بھی اپنے لب و لہجے کو زیادہ سے زیادہ غزل سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے جو اب تک کم کم نظر آتا ہے۔ عوامی سطح پر بھی سامعین کی توجہ اور تربیت کا اہتمام کرنا ہو گا تاکہ ماحول بنانے میں آسانی ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غزلیہ حمد و نعت کا سُننا سنانا کسی خاص طبقہ تک محدود ہو کر رہ جائے یا پھر اس کے قبولِ عام ہونے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہو۔ (۲) اکثر ایسی نعتیں بھی سننے میں آتی ہیں جن کی طرز فلمی گانوں پر بنائی جاتی ہیں اور کئی بڑے بڑے نعت خواں بھی اس روش پر چل نکلتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کے ایسا کسی مجبوری سے ہوتا ہو یا کچھ سامعین اسے پسند بھی کرتے ہوں لیکن مجھے ذاتی طور پر اس سے نعت کا تقدس مجروح ہوتا دکھائی دیتا ہے اور میرے نزدیک اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔ تھوڑی سی کوشش اور ریاضت سے کوئی منفرد طرز موزوں کرنا چنداں مشکل نہیں ہونا چاہیے ـ۔ یہ بھی کہوں گا کے اگر کوئی لکھاری جان بوجھ کر کسی فلمی گانے کی تضمین لکھنے کی کوشش کرے تو میرے نزدیک یہ بھی نامناسب ہے۔ (۳) میرے خیال میں روائتی صنفِ حمدو نعت کے لیے موسیقی کے استعمال سے بھی چنداں گریز کرنا چاہیے۔ ادب اور روحانیت کا تقاضہ ہے کہ خاموشی سے الفاظ میں ڈوب کر کلام کو سنا اور سمجھا جائے جیسے کے صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔ مجھے احساس ہے کی ہمارے ہاں اس بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں اسی لیے میں نے روایتی صنف کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ موسیقی کا اس طرح کا استعمال روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے اور میرے خیال میں یہ جدت طرازی بھی پیشہ ورانہ سوچ کی آئینہ دار ہے۔ (۴) اگلی بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ محافل میں نوٹوں کو عامیانہ انداز میں اُچھال اُچھال کر نچھاور کرنا یا مغرب کی تقلید میں ہاتھ کھڑے کر کے دائیں بائیں لہرانا حمد و نعت کے شانِ شایاں ہر گز نہیں لگتا۔ میرے لیے ایسے مظاہرے ایک غیر ضروری آزمائش سے کم نہیں ہوتے۔ دم سادھ لیتا ہوں اور سر جھک جاتا ہے۔ ساری توجہ ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ ثناخواں حضرات کی خدمت بے شک دل کھول کے کریں لیکن دکھاوے کا شائبہ نہ ہو۔ اس سے عزتِ نفس کے مجروح ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے ۔ دوسری طرف لطف و سرُور کی کیفیت میں روح کے ساتھ جسم کا وجد ایک قدرتی امر ہے البتہ وقار کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔ (۵) یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ہمارے ہاں سامعین کی ایک بڑی تعداد اشعار میں استعمال شدہ بیش تر الفاظ، تراکیب یا تشبیہات کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ گویا عرفِ عام میں یہ اُن کے سر سے گزر جاتی ہیں ۔ اگرچہ اس کے باوجود اُن کا شوق و وجدان دیدنی ہوتا ہے۔ غزلیہ نعت و حمد میں تو مشکل گوئم کا غالب ہونا ویسے بھی قرینِ قیاس ہے ایسے میں اگر ثناخواں مشینی انداز میں بولتے چلے جانے کی بجائے اندازِ بیاں میں لچک پیدا کرے ، تلفظ پر زور دے اور کہیں کہیں رُک کر ضروری وضاحتیں کرنے کا فن اپنائے تو مجھے یقین ہے کہ نہ صرف سننے والوں کی دلچسپی بڑھے گی بلکہ نعت خواں کی قدرومنزلت میں بھی اضافہ ہو گا۔ صرف ایک دو مرتبہ اتنا کہہ دینا ہی کافی نہیں کہ ’’میرے ساتھ مل کر پڑھیں‘‘ بلکہ چاہیے یہ کہ دیگر پہلوؤں سے بھی سامعین کو ساتھ لے کر چلا جائے تاکہ اس کارِ خیر کے جملہ مقاصد کے حصول کا بہتر موجب ہو۔ ـ(۶) جب سے ٹی وی نے ثناخوانی کی بڑھ چڑھ کر سرپرستی شروع کی ہے جہاں اس صنف کو کئی اعتبار سے تقویت ملی ہے وہیں تجارتی مفاد کے در آنے سے معیار میں اکھاڑ پچھاڑ کا سماں بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔ اکثر غیر ضروری شو ، شا اور نت نئی اختراعوں کے استعمال سے کافی حد تک مقصود سامع کے دل کو نہیں بلکہ جیب کو ٹٹولنا لگتا ہے۔ہر چھوٹا بڑا اپنا لوہا منوانے کے درپے ہے ۔ معیار سے زیادہ مقدار پر زور ہے۔ انوار کی بجائے سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کی بارش ہو رہی ہے۔ اکثر سُر پر اتنا زور دیا جاتا ہے یا یہ ایسی بے ربط ہوتی ہے کہ شعریت سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اس روش کی اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے تو نعت و حمد کے حوالے سے یہ حرف و صوت کی خدمت نہیں لگتی۔ (خضر حیات ص، ۳۲۷۔۳۲۵) (۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ جو القاب مستعمل ہیں مثلاً ’’مولائے کل‘‘، ’’آقائے دوجہاں‘‘، ’’سرکاردوعالم‘‘ وغیرہ میں ان پر اکثر غور کرتا ہوں یہ تمام القاب مجھے رب رحمان ورحیم کے محسوس ہوتے رہے ہیں مثلاً آقا ومولا تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مولائے کل‘‘ کہا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیاکہیں گے؟ ہمارے سامنے ’’رحمت للعالمین‘‘ ، ’’رسول مقبول‘‘، ’’نبی کریم‘‘، ’’حبیب خدا‘‘ وغیر ہ جیسے القاب بھی تو ہیں بہرحال میری خواہش ہے کہ اس طرف بھی کوئی صاحب علم مضمون نگار توجہ دے تو کیا ہی اچھی بات ہوگی اگر علامہ اقبال اور مولانا حضرات کچھ کہتے ہیں تو اسے سند بناکر سب کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ بذریعۂ تحقیق غلط اور درست کا فیصلہ کیا جائے۔(احمد صغیر صدیقی ص،۴۵) (۸) نہ جانے کیوں اس خیال کے شعر نعت میں مجھے اچھے نہیں لگتے۔ جن میں آنحضور کی ذات گرامی کو فاسق و فاجروں کے طرف دار، عاصیوں کے دل کی راحت وغیرہ کہا جاتا ہے ـــ بہرحال اپنی اپنی سوچ ہے بے شک کہنے والا جن معنوں میں یہ کہتا ہے وہ میں جانتا ہوں مگر سطح پر یہ باتیں مجھے پسند آتیں۔(احمد صغیر صدیقی ص،۵۷) (۹) نعت میں اس قسم کا خیال پیش کرنا جس سے روضۂ رسولV کے مقابلے میں کعبے کا احترام مجروح ہو یا سرزمین مدینہ کے مقابلے میں ’’مکہ‘‘ کا احترام کم ہوجائے مناسب نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دو جگہ کے اشعار ضرور دیکھیے۔ صفحہ نمبر79 پر منظور حسین منظور کا شعر:(امیر الاسلام صدیقی ص،۲۲۹) یہ ارض مقدس ہے زیارت گہہ عالم کعبہ سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے (۱۰) اس ضمن میں ایک بات عرض کرنا چاہوںگا کہ بہت سی نعتوں میں شعرا مدحِ رسولؐ سے زیادہ ’’گنبدِ خضرا‘‘ یا ’’طیبہ‘‘ وغیرہ کی شان میں ’’نعت‘‘ کہتے نظر آتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بات بنتی ہے۔ کوثر علی صاحب کی نعت کا قافیہ ردیف ہی ’’بہارِ طیبہ‘‘، ’’کنارِ طیبہ‘‘ ہے۔اس میں تمام تر مدح طیبہ کی ہے۔ الفاظ اور بیان کے لحاظ سے یہ نعت بہت عمدہ ہے مگر سارا زور طیبہ پر ہے۔ جیسے معراج کی شب راہ فلک روشن تھی یوں چمکتی ہے ہر اک راہ گزار طیبہ ایک شعر جناب ولی اللہ ولی کا دیکھیں: ہائے گستاخ خاکہ ہے ان کا لیے جن کی صورت پر نازاں ہیں لوح و قلم پتا نہیںکیاکہاہے انھوںنے۔۔۔(احمد صغیر صدیقی ص،۸۱۔۸۰) نعت گوئی اور تربیت کے تقاضے: مولانا الطاف حسین حالی نے شاعروں، خصوصاً غزل گو شاعروں کے لیے جو پندنامہ لکھا ہے یعنی مقدمۂ شعر و شاعری۔۔۔ اس میں غزل اور مضامین غزل کے بارے میں جو اندازِ نقد اختیار کیا گیا ہے اس معیار پر خود مولانا حالی کی غزل پوری نہیں اُترتی۔ مقدمۂ شعرو شاعری کی اہمیت اور قدر و قیمت اپنی جگہ لیکن جذبات و خیالات کا بہائو اور تخلیقی جذبہ۔۔۔ تنقید کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لیکن اس کے باوجود تنقید ہی تربیت کا باعث ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ابوالخیرکشفی صاحب نے نعت کے موضوعات پر ایک بصیرت افروز مضمون تحریر فرمایا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے تو میں بالکل ہی متفق ہوں کہ دوسروں سے الگ اپنی راہ تراشنے کے شوق میں، جدت کے گرداب میں بہت سے شاعر پھنس جاتے ہیں۔ یوں وہ زبان سے غفلت برتتے ہیں اور نئے موضوعات تک رسائی حاصل کرنے کی جگہ اپنے اسلوب کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ یہ صرف نعت گو شاعروں کا حال نہیں ہے بلکہ آج کل جو بھی قلم سنبھال کے ادب کے میدان میں اُترتا ہے وہ ان ہی مذکورہ سامانِ حرب سے لیس ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی جائے تو جواب ملتا ہے، بات سمجھ آرہی ہے نا۔۔۔ گویا اصل مقصد بات سمجھ آنا ہی رہ گیا ہے۔ پھر ایسے شاعروں کو جو اپنی راہ تراشنے کے شوق میں جدت کے گرداب میں پھنس جاتے ہوں..... زبان سے غفلت برتتے ہوں اور اپنے اسلوب کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہوں، ہمارے کشفی صاحب کا مشورہ یہ ہے کہ وہ مطالعۂ حدیث اور مشاہدۂ کائنات کے ذریعہ ہی رسول اکرم V کی حقیقی عظمت کی بارگاہ میں بار پاسکتے ہیں..... بھائی! ہمارا شاعر تو رسالے کا بھی وہی صفحہ پڑھتا ہے جس پر اس کاکلام بلاغت نظام شائع ہوا ہو...... اور جو شاعر ’’پڑھے لکھے‘‘ ہونے کے دعویدار ہیں وہ مشاہدۂ کائنات اور مطالعۂ قرآن و حدیث کے بجائے دیگر فلسفیوں کی کتاب پڑھتے ہیں۔ نعت صرف ضرورتاً کہتے ہیں یعنی ریڈیو، ٹی وی کے مشاعروں کے لیے۔ (سلطان جمیل نسیم ص،۴۳۱) نعت گوئی: چندتجاویز: سلیم شہزاد نے اپنے مضمون میں آزاد نظم میں نعت کی جلوہ گری پر بات کی ہے اور اچھا لکھا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صابر سنبھلی کے مضمون میں دی گئی کئی باتوں کی عملی تعبیر ملتی ہے۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ نعت میںہیئت کے تجربے زیادہ ہونے چاہییں۔ اسے غزل کے انداز تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ نعت صرف غزل کے انداز ہی میں نہیں متعدد دوسری ہئیتوں میں کہی جارہی ہے۔جناب سلیم شہزادکایہ مضمون بہت محنت اورعمدگی سے لکھاہواہے۔(احمد صغیر صدیقی ص،۷۹۔۷۸) نعتیہ شاعری پس منظر اور روایت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے کچھ معجزات ان کی حیات میں ظہور میں آئے ہوں یا نہ آئے ہوں، ان کی وفات کے بعد جو درود و سلام، لا تعدولا تحصیٰ، ان کی ذات گرامی پر بھیجے گئے وہ اپنی جگہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ یہ میرے نزدیک سب سے بڑا اور سچا معجزہ ہے، جس کا جواب محال ہے۔ نعتوں کا سلسلہ الگ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی اور برگزیدہ شخصیت کے لیے، اتنے منظومات، سلام، گیت، بھجن یا مدحتیں لکھی گئی ہوںگی۔ حضرت عیسیٰؑ کی شان میں بہت سے odes, hymns, songs لکھے گئے ہیں، جیسے سپنسر کا Ode to the Nativity of Christ (برمیلاد مسیح) (۴۶۹) مگر ان کی تعداد اس کا عشر عشیر بھی نہ ہو گی۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ خود غیرمسلموں نے اس میدان میں دل کھول کر طبع آزمائی کی اور بہت کچھ داد سخن آرائی دی، جس کا اعتراف واجب ہے۔ یہ سلسلہ قرون اولیٰ سے جاری ہے، اس کا آغاز جناب رسالت مآبV کے حین حیات میں ہو گیا تھا، اور برابر فروغ پذیر رہا۔ حتیٰ کہ بیسیوں صدی میں گزشتہ سب زمانوں سے بڑھ گیا۔ ہمارے ہاں تحریک پاکستان سے بھی اس کو تقویت ملی، جس میں ایک نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل اور دین کی عظمت مدنظر تھی، جو جناب رسالت مآب کی ذات مکرم سے عبارت ہے، بقول اقبال: ’’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘‘ اس صدی کے آغاز میں بعض خلاف مذہب تحریکات کے ردعمل کے طور پر بھی دنیا بھر کے مذہبی حلقوں میں ایک ہلچل پیدا ہوئی، جس میں سوویت یونین کے خلاف کچھ شعوری تحریک کا بھی دخل تھا۔ جس کی روحانیت سے عاری نظام فکر اور محض مادی تصور حیات نے دنیا بھر میں بہت سے انسانوں کے ایمان کو متزلزل کر دیا تھا۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک طرف روس کے خلاف سرد جنگ زوروں پر تھی اور یہ اس مہم کا آخری مرحلہ تھا جو ستر بہتر برس خصوصاً امریکہ کی طرف سے بہ شدت و بہ ہر حیلہ جاری رہی۔ دوسری طرف جنرل صاحب نے اسلامی نظام رائج کرنے کا سبز باغ دکھایا، جس سے مومنین کے دل میں ایک نئی امنگ پیدا ہوئی اور اس سے اہل تخلیق بھی متاثر ہوئے۔ چناںچہ انیس سو اسی (۱۹۸۰ء) کی دہائی میں سب سے زیادہ نعتیں لکھی گئیں اور جو نعتیہ مجموعے جب سے اب تک شائع ہوئے ان کی تعداد تمام ہند اسلامی تاریخ کے نعتیہ مجموعوں سے بڑھ گئی۔

      حب رسول مسلمان کا جزو ایمان ہے، اور اس کا اظہار بصورت نعت ایک فطری اور اندرونی تقاضا ہے۔ چناںچہ کوئی بیرونی تحریک یا تقریب بھی تخلیقی ذہن کو اس طرف بآسانی مائل کر سکتی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اب وہ جوش و جذبہ جسے بڑی طاقتیں اپنے مفید مطلب سمجھتی تھیں اور اسے ہوا دینے پر مائل تھیں، انھیں کھٹکنے لگا ہے۔ اب وہ اسے تقویت دینے کی جگہ اسے دبانے پر مائل ہیں۔ مگر بقول مولانا ظفر علی خاں:
  نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا مذکورہ تاریخی پس منظر سے قطع نظر، ثنائے رسول بھی صلوٰۃ و سلام کی طرح، ہمارا محبوب مشغلہ، بلکہ فریضہ اور ایک مبارک ادبی روایت ہے۔ یہ ہمیشہ سے جاری تھا اور جاری رہے گا۔ ’’نعت رنگ‘‘ کے کتابی سلسلے نے اس مقدس روایت کو منظم institutionalized صورت میں جاری رکھا ہے، اور بڑے دل پذیر، رنگا رنگ، روح پرور، ایمان افروز مجموعے شائع کیے ہیں۔ میں آپ کے ذوق اور لگن کا معترف و مداح ہوں۔ جزاہم اللّٰہ خیر الجزاء۔ (شان الحق حقی ص،۴۷۱۔۴۷۰) جس عرق ریزی سے آپ نے اس شمارے کو ترتیب دیا ہے اُس کا اظہار اس میں شامل نثر و نظم کے شہ پاروں سے ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی تہذیب ہو اُس میں اعلیٰ ترین مقام اُس کے مذہبی شہ پاروں کو ہوتا ہے۔ یونان کے دیومالائی ادب کو اور دیوی دیوتائوں کے شان میں کہے گئے گیتوں اور زمزموں کو جو مقام یونانی ادب میں حاصل ہے، وہ بعد میں معرضِ وجود میں آنے والے ادب کو نہیں ہے، یہی صورتِ حال بھارت کے کلاسیکل ادب کی ہے۔ سنسکرت میں جو ادبِ عالیہ نظر آتا ہے، اُس میں اظہار، وجدان کی سرحدوں کو چھوتا نظر آتا ہے، اُس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسا ادب تخلیق کیف و مستی کی فضا میں ہوتا ہے۔ اور یہ خاص و عام سب کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ’رگ وید‘ میں بھارت میں آئے ہوئے آریوں کی عظیم شاعری اور مناجاتیں اُس دور کی بے مثال شاعری تصور کی جاتی ہے، اس لیے یہ وجدانی ذوق شوق کی مظہر ہیں۔ یہی حال کتاب متیٰ، مرقس کی انجیل اور اُس سے پہلے تورات، زبور اور کتبِ انبیا کی حمدیہ شاعری کا ہے جو تخلیقی اعتبار سے بلند پایہ کلام ہے۔ نعتیہ شاعری کی روایت عربی ادب سے فارسی ادب اور پھر اردو کے دامن کو گل رنگ کرتی ہے۔ عربی کے چار بڑے عربی شعرا جنھوںنے عربی شاعری کو شعری محاسن سے مالامال کیا، وہ کعب بن مالک انصاریؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن زہیرؓ تھے۔ یہ چاروں حضرت محمدV کے صحابی تھے۔ ان میں سے حضرت حسان بن ثابتؓ کو حضورV نے خاص طور سے یہود و مشرکین کے شعرا کی مخالفانہ شاعری کے جواب میں شعر کہنے کی اجازت دی تھی،انھوںنے نعت گوئی کے فن کوبلندیوں تک پہنچایااورپھریہ ایک مستقل صنف شاعری کے طور پر عربی ادب کی شناخت بن گئی۔ آج عربی کا شعری ادب نعتیہ شاعری سے مالامال ہے۔(سلیم یزدانی ص،۴۴۱۔۴۴۰) اُردو زبان اور نعت: گو اردو زبان اور اس میں نعت گوئی کی تاریح اتنی قدیم نہیں لیکن چوںکہ اردو زبان شروع ہی سے مومنہ ہے لہٰذا اردو زبان کا دامن نعت سے بھرا ہوا ہے لیکن نعت پر نقد و تبصرہ کے حوالے سے اتنا کام نہیں ہوا جتنی اردو نعت کی وسعت ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی جامعات میں شاید کان پور یونی ورسٹی (بھارت) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو نعت پر پہلا تحقیقی مقالہ سیّد رفیع الدین اشفاق کے ہاتھوں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد اور ڈاکٹر ریاض مجید پاک و ہند کی دو ایسی شخصیات ہیں، جنھوںنے رفیع الدین اشفاق صاحب کے بعد نعت پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد شخصیات اور رسائل و جرائد نے نعت پر بہت کچھ لکھا اور مختلف رسائل و جرائد کے نعت پر خاص نمبر شائع کیے۔ میں طوالت سے بچنے کی خاطر شخصیات اور رسائل کے نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ لیکن پاکستان میں ڈاکٹر ریاض مجید کا مقالہ اور ’نقوش‘، ’نعت کائنات‘، ’الرشید نعت نمبر‘ اور ’اوج نعت‘ (مرتبہ آفتاب نقوی) وہ کام ہے جو نعت کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ پاک و ہند میں نعت کی تعریف، تاریخ، مختلف زبانوں میں نعت کی ہیئت و کمیت نعت کے لوازمات، مضامین و مواد، ادب اور تقاضے، ماخذ و مصادر الغرض گوناگوں گوشوں اور پہلوئوں کا احاطہ کیا گیاہے اور میرا خیال تھا کہ اس کام کے بعد اردو نعت پر کوئی کیا لکھ سکے گا؟ لیکن ’’نعت رنگ‘‘ کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ اردو نعت کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کہنا اور لکھنا باقی ہے۔ اسی بہت کچھ، کہنے اور لکھنے میں ’’نعت رنگ‘‘ وہ کردار ادا کررہا ہے کہ بہت جلد اسے خود ایک حوالے کا مقام حاصل ہوجائے گا۔ ’’نعت رنگ‘‘ کی تہذیب و تدوین جس عقیدت، محبت، خلوص اور علمی پیاس و لگن کے ساتھ ہورہی ہے وہ قابل قدر و تعریف ہے اور مستقبل میں اردو نعت پر تحقیق و تدقیق کرنے والوں کے لیے حوالۂ ناگزیر ہے۔(ڈاکٹر قبلہ ایاز ص،۷۳۷) کیا یہ ایک تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ حصول پاکستان کی جنگ اسی اردوزبان میں لڑی گئی تھی۔اردوزبان قصرِاخوت کابنیادی پتھرہے۔تراجم قرآن، تفاسیر سیرت النبی کی کتب، میلاد نامے تمام تر اسلامی ادب حتیٰ کہ ممتازعلما ومشائخ کی تقاریر اردوزبان کا گراںقدر سرمایہ ہیں ۔ معیار اور مقدار کے حوالے سے بھی حمدونعت کے لیے اردزبان ہی کو اظہار کا وسیلہ بنایاگیا ہے۔اردوزبان وادب سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ امرباعثِصد افتخار ہے کہ آج بھی زیادہ ترنعت غزل کی ہیت میں کہی جارہی ہے۔ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی نعت کائنات میں غزل کی ہیت بھی مقبول ترین ہیت ہوگی۔(اگرچہ نئی نئی اضافِ سخن میں بھی مدحت نگاری کاعملِ دلپذیر جاری رہے گا) (ریاض حسین چودھری ص،۲۶؍۶۲۲)

عصری صورت حال اور نعت کی ضرورت اور اہمیت:
ڈاکٹرشعیب نگرامی کا ’’مقالہ‘‘ الاماشاء اللہ تنقیدنگاری کی ایک خوب صورت مثال ہے جس پر بے ساختہ انھیں داد دینے کو جی چاہتا ہے افسوس وہ اپنے مخصوص مسلکی فریم سے باہر ہی نہیں نکل سکے۔ مفروضوں پر مبنی بہتان تراشیوں کے پہاڑ تحقیق (تخلیق؟)کرلینا کہاں کی دانش وری ہے۔ موضوع نعت ہے لیکن مدرسوں کے نصاب تعلیم میں قرآن وحدیث کو تبرکاً شامل کرنے کی پھبتی بھی کسی جارہی ہے۔ گویا مقصود تنقیدِ نعت نہیں اپنے مخصوص مسلک کی تنگناؤں کی رونمائی ہے ارشاد فرماتے ہیں:

عربی کی نعت کو توحیدِ خالص کی ڈگر سے ہٹاکر شرک کے غار میں دھکیلنے کے گناہ گار ساتویں صدی کے اندلسی الاصل شاعر ابن ہانی اور اسکندریہ کے نعت گو شاعر محمدبن سعیدالبوصری تھے۔ جن کے بارے میں ایک دوسرے استاد محمدالبخار کہا کرتے تھے کہ مذکورہ دونوں شعرا نے شرکیہ نعت گوئی کا شجرِ خبیثہ لگایا تھا جو آج بھی پھل پھول رہا ہے۔ موصوف نے حسان بن ثابت، زہیربن کعب اور عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی ذکر کیاہے، یقینا وہ جانتے ہوں گے کہ ان شعرائے دربارِ رسالت مآبV نے نعت سے دفاع رسولV کا کام لیا تھا اور کفار و مشرکین کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دیاتھا۔ ڈاکٹرشعیب نگرامی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نعت آج بھی دفاع رسولV کے منصب جلیلہ پر رونق افروز ہے۔ طائف کے اوباش لڑکوں کے قہقہے آج بھی فضاؤں میں زہر گھول رہے ہیں،آج بھی سفاک لمحے ابوجہل اور ابولہب کی چیرہ دستیوں کی یاد دلارہے ہیں۔ حق وباطل کا معرکہ آج بھی جاری ہے، حق، باطل کے ساتھ سمجھوتے کا روادار نہ کل تھا اور نہ آج ہے۔ آج دشمنانِ اسلام اور منکرین رسول کا دائرہ مزید وسیع ہوچکا ہے۔ گستاخانہ خاکوں سے لے کر نعوذباللہ قرآن پاک کو جلانے تک کے روح فرسا واقعات اِسی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں بعض اوقات ذہن مسلک کے گردوغبار میں اس قدر الجھ جاتا ہے کہ نہ زبان قابو میں رہتی ہے اور نہ قلم ہی گرفت میں آتا ہے۔ زبان ہذیان بکنے لگتی ہے اور قلم گالیاں تخلیق کرنے لگتا ہے انتہاء پسندی دہشت گردی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کسی تحریر یا کسی شعر کا من مانا مفہوم اخذ کرکے بہتان تراشی کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔ کفروشرک کا الزام لگانے کے بعد خود ہی فتویٰ صادر فرمانا قلم فروشوں کی پرانی عادت ہے۔موصوف نے ایک ہی سانس میں نعتیہ شاعری کے ۸۰ فیصد حصّہ کو شرکیہ شاعری قرار دے ڈالاہے اور تو اور انھوںنے اقبال کو بھی نہیں بخشا۔ ع نگاہِ عشق ومستی میں رہی اوّل وہی اخر کیا تاجدارِ کائناتV، نبی آخرالزماںV، حضوررحمت عالمV رسولِ اوّل وآخر نہیں؟ وہ صاحبِ علم جو رباعی اور دواشعار کے مابین فنی فرق سے بھی آگاہ نہیں، اس کے لکھے کو اعتبار اور اعتماد کی سند دی جاسکتی ہے؟ ارباب نقدونظر اس زہرفشانی کا تریاق دریافت کریں ورنہ یہ زہر سارے جسم میں سرایت کرجائے گا۔ گزارش یہ ہے کہ توحید تو ہمیشہ خالص ہی ہوتی ہے ۔ اس میں ملاوٹ کا تصور بھی بند ے کو کفر و شرک کے الاؤ کا ایندھن بنادیتا ہے۔ اللہ ایک ہے اور وہ ہرقسم کے عیب سے پاک ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہے اور اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔ وہ وحدہ لاشریک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ کوئی ثانی نہیں، کوئی ہمسر نہیں وہ یکتا اور تنہا ہے۔ لائقِ بندگی صرف اور صرف خدا کی ذات ہے سجدہ صرف اُسی کو روا ہے ہم اُسی کی عبادت کرتے ہیں اور اُسی سے مدد مانگتے ہیں۔ وہ پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے۔ وہ اپنی تمام مخلوقات کا روزی رساں ہے، وہی بیماروں کو شفا دیتا ہے۔ وہی زمین کے سینے سے خوشۂ گندم اگاتا ہے۔ ہماری ایک ایک سانس اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، وہی طاقت کا سرچشمہ ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، وہی کائنات رنگ وبو کا مالک ومختار ہے۔ آقائے محتشمV اُس کے بندے اور رسول ہیں، وہ بندے اور رسول جن کے سرِ اقدس پر قادرِ مطلق نے ختم نبوت کا تاج سجایا۔ انھیں کل جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔ تاجدارِ مدینہ اللہ کے وہ بندے اور رسول ہیں جن کی قدم بوسی کے لیے یہ جہان رنگ وبو تخلیق کیاگیا۔ جس رسول اوّل وآخر پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اور ربِ کائنات ایمان والوں کو حکم دیتا ہے کہ تم بھی رسولِ رحمت پر خوب خوب درود وسلام بھیجاکرو، حضورV اللہ کے وہ بندے اور رسول ہیں جن پر ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز نازل کی گئی۔ قرآن عظیم میں جن کے محاصرومحاسن کی دھنک سجائی گئی ہے، جنھیں مہمانِ عرش ہونے کا اعزاز بخشاگیا ہے جن کے وسیلے سے ہمیں ایمان نصیب ہوا۔ جنھیں زمین کے سارے خزانوں کی ُکنجیاں عطا کی گئیں، قیامت کا دن شافعِ محشرV کی عظمتوں اور رفعتوں کے ظہور کا دن ہے۔ربّ کائنات آپ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسٰی علیہ السلام تک ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول اپنی امتوں سمیت حضورV کے خیمۂ عافیت کی تلاش میں نکلیںگے، سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہوگا۔ نفسانفسی کا عالم ہوگا۔ ساقیٔ کوثر حوضِ کوثر پر پیاسوں کو پانی پلارہے ہوں گے، سب سے پہلے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ سب سے پہلے آپ جنت الفردوس میں داخل ہوں گے، رہی علم غیب اور تصرفاتِ رسول کی بات تو گزارش ہے کہ اللہ رب العزت کا علم لامحدود ہے اور یہ علم اس کاذاتی علم ہے۔ اللہ خالق ہے اور حضورV اس کی مخلوق ہیں، حضورV کا علم ذاتی نہیں عطائی ہے ، اللہ رب العزت کا عطاکردہ ہے۔ حضورV کو اُن کے ربِ عظیم نے کتنا علم اور کیا کیا عطا کیا ہے ، مَیں اور آپ اس کا تعین کرنے والے کون ہوتے ہیں، کیا قاسم آقا حضورV کی کنیت نہیں؟ ہر عہد میں ہر نعت گو کا یہی عقیدہ رہا ہے سوویت روس کے بکھرنے کے بعد یہود، ہنوداور نصاریٰ نے اپنی توپوں کا رخ اُمتِ مسلمہ کی طرف کردیا تھا۔ اسلامیان عالم کو ہرمحاذ پر پسپائی اختیارکرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، نعتیہ شاعری پر شرکیہ شاعری کا لیبل لگاکر آپ اپنے کن آقاؤں کو خوش کررہے ہیں، کیا آپ ان عالمی قزاقوں کے ہاتھ مضبوط نہیں کررہے؟ فکری مغالطوں کی چلیں لاکھ آندھیاں پرچم اُڑے گا اور بھی اونچا حضور کا بدقسمتی ہے کچھ لوگ حضورV کی دکھی امت کو مزید خانوں میں تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازش میں مصروف ہیں۔ مکینِ گنبدخضرا سے غلامی کا رشتہ ازسرنو استوار کرنے کے بجائے یہ غلامیٔ رسول کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ کو جدید علوم میں مہارت حاصل کرکے اپنے کھوئے ہوئے مقام کو اغیار کے ہاتھوں سے چھیننا ہے۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علم و حکمت کی ہر روشنی تاجدارِ کائنات، حضور رحمت عالمV کے قدموں کی خیرات ہے، نعت درود و سلام کے پیکرشعری کا نام ہے۔ آقاV کی سیرتِ مقدسہ سے اکتساب شعور کرنے کی سعی ہے۔ نعت کے خلاف ہرسازش پیغمبر اسلامV کے خلاف ایک کھلی سازش ہے۔ پیغمبراسلامV کے خلاف سازش دین اسلام کو للکارنا ہے۔اس کی توقع دشمنانِ اسلام سے تو کی جاسکتی ہے کسی کلمہ گو سے نہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ یہ لوگ دشمنانِ اسلام کے ہاتھ مضبوط کرکے کون سا مذہبی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، چلیے بات مختصر کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنی محافل اور مجالسوں میں (بقول آپ کے) یہ ۲۰ فی صد غیرشرکیہ شاعری پڑھتے ہیں، یقینا نہیں پڑھتے، تو پھر یہ تنقید برائے تنقید ہی ہوئی نا؟(ریاض حسین چودھری ص،۳۸۹۔۳۸۷)

واقعہ یہ ہے کہ اردو نعت عصری آگہی، ملّی شعور اور اجتماعی درد کا مرقع ہے۔ خصوصاً عصرحاضر میں ملت اسلامیہ پر مصائب و آزمائش کا طوفان ٹوٹ پڑا ہے، اس کی بھرپور عکاسی نعتیہ شاعری میں بھی ہوتی ہے۔(شاہ رشاد عثمانی ص،۳۴۶)

جدید اُردونعت: یہ اکیس ویں صدی کی پہلی دہائی ہے۔ نقد و نظر کے پیمانے بھی تبدیل ہورے ہیں، شہرِ ادب میں تازہ کاری کی مسلسل بارشوں سے فرسودگی اور بوسیدگی کا زنگ بھی اُتررہا ہے۔ آج کی نعت اعلیٰ حضرت کے زمانے کی نعت سے بہت مختلف ہے۔ نعت کی کائنات بھی ہر آن پھیلتی جارہی ہے۔ اگرچہ نعت گو کا اساسی رویہ وہی رہے گا جس سے ایوانِ نعت روزِ ازل سے گونج رہا ہے۔ لیکن سوچ اور اظہار کے ارتقائی سفر کے مختلف مراحل پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا، ہر زمانے کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، اس کا ڈکشن بھی بڑی حد تک بدل جاتا ہے۔ آج کے نقاد کو بھی اَن گنت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اب ادبی منظرنامہ نئے رنوں کی رنگ آمیزی سے بڑی حدتک تبدیل ہوچکا ہے۔ نعت وہ واحد صنفِ سخن ہے جس نے تمام اصنافِ سخن میں اپنے وجود کو منوایا ہے حتیٰ کہ نثر میں بھی نعت کے خوب صورت نمونے مل جاتے ہیں، ہدایتِ آسمانی کی آخری دستاویز قرآن حکیم اس کی روشن تر مثال ہے۔ جدید اردو نعت میں موضـوعات کے تنوع کو بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ آپ کا فکر انگیز اداریہ اس حوالے سے نئی سمتوں کی نشان دہی کر رہا ہے اور مستقبل کے نعت گو اور نقاد کی درست رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ جمود کو توڑنا اور افقِ شعر پر نئے آفاق کی تسخیر بذاتِ خود ایک اجتہادی اور جہادی عمل ہے اور ’’نعت رنگ‘‘ اس اجتہادی اور جہادی عمل میں پہلے دن سے شریک ہے، نعت کائنات ہے اور ہم اس کائناتِ نعت میں سانس لے رہے ہیں۔ نقد و نظر کے نئے حوالوں کے ظہور اور نئے پیمانوں کی تشکیل کے بغیر اب آگے بڑھنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ انتخابی تنقید کا نظریہ بڑا توانا اور جان دار ہے۔ عملی سطح پر یقینا اس کی پزیرائی ہوگی۔ انتخابی تنقید کا نظریہ ایک دبستانِ تنقید کے طورپر جلد ہی اپنے تخلیقی اور تنقیدی وجود کو منوا لے گا۔ آپ کے اس نقطئہ نظر میں کافی وزن ہے کہ تنقید کے تمام دبستانوں سے اکتسابِ شعور کیا جائے، ابتدائی خاکہ آپ نے دے دیا ہے اب اس ابتدائی خاکے میں رنگ آمیزی کا فریضہ بھی اربابِ علم و فن کو دینا چاہیے، پاک و ہند کے ممتاز نقاد حضرات کا آپ کو تعاون اور اعتماد حاصل ہے۔ ڈاکٹر سیّد محمد یحییٰ نشیط، ڈاکٹر محمد اسحق قریشی، پروفیسر محمد اقبال جاوید، ڈاکٹر ریاض مجید، حسن محمود جعفری، پروفیسر محمد اکرم رضا، پروفیسر افضال احمد انور، عزیزاحسن، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم اور دیگر اربابِ فکر و نظر کے دروازوں پر دستک دیجیے کہ وہ شہرِ قلم کے دروازے وا کریں۔ ڈاکٹر ابوالخیرکشفی زندہ ہوتے تو آپ کو خوب خوب شاباش دیتے۔(ریاض حسین چودھری ص،۳۸۴) پاکستان میں نعت گوئی: پاکستان میں ۱۹۸۰ء کے بعد نعت گوئی کا چلن عام ہوا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر نعتیہ مشاعروں کی کثرت دیکھ کر بڑے بڑوں کو، راتوں رات مشہور ہوجانے کا راستہ نظر آیا۔ پھر اردو کے ادبی رسائل نے بھی شعرائے قدیم کے دواوین کی طرح اپنے وقیع رسائل کی ابتداء حمد اور نعت سے کرنے کی بنیاد رکھی۔ یوں رفتہ رفتہ نعت ادب کا حصہ بنتی چلی گئی۔ گزشتہ بیس سال میں جتنے نعتیہ مجموعے شائع ہوئے ہیں بیس برس پہلے شاید اتنی نعتیں بھی شائع نہیں ہوئی ہوں گی۔ نعت گوئی کے سلسلے میں ٹھوس علمی اور ادبی کام کی طرف صاحبانِ علم کو متوجہ کرنا...... پھر ان کے کام کوسامنے لانا۔ یہ بڑا دقّت طلب کام تھا......جو آپ بڑی عمدگی سے انجام دے رہے ہیں۔ ایک زمانہ میں ’’بگڑا شاعر مرثیہ گو‘‘ کا مفروضہ قائم کرلیا گیا تھا اسی طرح نعت اور نعت خوانی کو بھی محفلِ میلاد کی ضرورت سمجھا جانے لگا تھا۔(سلطان جمیل نسیم ص،۴۳۲) نثری نظم اور نعت: پروفیسر ڈاکٹر افضال احمد انور کا مقالہ ’’نثری نظم اور نعت‘‘ دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی جن قدیم اور جدید نثر پاروں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ نثری نظم کے عنوان سے نہیںلکھے گئے۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ غیرارادی طورپر نثری نظمیں اور نثری نعتیں تخلیق ہوتی رہیں۔ آج اپنے آبا کے اپنے انہی نقوش قلم کو بنیاد بنا کر نثری نظم ایک باقاعدہ صنفِ سخن کے طورپر سامنے آرہی ہے تو اس پر منفی ردّعمل کیوں؟ یوں لگتا ہے جیسے عبارت آرائی کو نثری نظم کا نام دیا جارہا ہے۔ لوگ عبارت آرائی کو منفی معنوں میں لیتے ہیں۔ کسی اہلِ قلم کو تضحیک کا نشانہ بنانا ہو تو اس پر عبارت آرائی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ میں اس بات کا زبردست حامی ہوں کہ قاری کو تخلیق کار کے نقطئہ نظر سے اختلاف کرنے کا جمہوری حق ملنا چاہیے، البتہ تنقید برائے تنقیص کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ عبارت آرائی بھی تخلیقی عمل کا حصہ ہے۔ یہ کسی نثرپارے کی اضافی خوبی ہے جسے بجا طورپر اب نثری نظم کا نام دیا جارہا ہے۔ نثر پر شاعری کا گمان ہونا ہی نثری نظم یا نثری نعت کا دستاویزی جواز ہے، ہمارے بعض مقررین کی تقاریر کے بعض حصوں کو بھی نثری نعت میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ عطا اللہ شاہ بخاری، صاحبزادہ فیض الحسن، شورش کاشمیری، پیر کرم شاہ الازہری اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی بعض مکمل تقاریر یا ان کے متعدد حصے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ نثری نظم اور نثری نعت کو ایک نئے تجربے کے طورپر اپنے قدم جمانے کا موقع تو دیں۔ اگر اس نئی صنفِ سخن میں تخلیقی توانائی ہوگی تو یہ زندہ رہے گی۔ ورنہ وقت سب سے بڑا اور ظالم نقاد ہے، نئی نئی اصنافِ سخن متعارف ہورہی ہیں۔ یہ سب تخلیقی عمل کی ارتقائی صورتیں ہیں۔ تخلیقی عمل بغیرکسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہتا ہے۔ جمود کا لفظ موت کے مترادفات میں شامل ہے، تخیل کا پرندہ پرِ پرواز مانگتا ہے۔ اظہار کی تنگنائوں میں اُڑنا اس کی جبلت کے خلاف ہے۔ یہ مسلسل پرواز کا تمنائی ہے۔ سانیٹ اور ہائیکو اب اجنبی اصنافِ سخن نہیں، تلاثی، کوثریہ۔۔۔ اور اب ’’اکائی‘‘ نئی اصنافِ سخن کے طورپر متعارف ہورہی ہیں۔ ’’اکائی‘‘ (حمد و نعت) کے تعارفی کلمات میں میں نے لکھا ہے: ’’ہمارے ہاں، یک مصرعی نظموں کی روایت پہلے سے موجود ہے میں نے اس میں ہیئت کی معمولی سی تبدیلی کی ہے اور اس نئی صنفِ سخن کو ’’اکائی‘‘ کا نام دیا ہے۔ اکائی میں شامل تمام یک مصرعی نظمیں ایک ہی بحر میں ہوںگی، ان ہم وز ن مصرعوں کی تعداد پر پابندی نہیں ہوگی۔ اسے شاعر کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے گا۔ قافیے اورردیف کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس پابندی سے نئے تخلیقی آفاق کی تسخیر کے امکانات محدود ہوسکتے ہیں۔ ’’اکائی‘‘ کی وسعت پزیری شاید اس کی متحمل نہ ہوسکے، یوں اس کی انفرادیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکائی میں شامل ہر مصرعی نظم کا آغاز ایک ہی یا ایک سے زیادہ الفاظ سے ہوگا۔ اور یہ لفظ یا الفاظ ہر یک مصرعی نظم میں دہرائے جائیںگے۔ اس تکرار سے ایک دل نواز آہنگ پیدا ہوگا۔ اس کا انداز عموماً خطابیہ ہوگا ہر یک مصرعی نظم الگ خیال کی حامل ہوگی، لیکن بہت سی یک مصرعی نظموں کو جب ایک مربوط نظم کی شکل دی جائے گی تو یقینا اس کا ایک مجموعی تاثر بھی مرتب ہوگا۔ اکائی کا مرکزی خیال حمد و نعت کے مضامین سے ابلاغ پائے گا۔ میری دلی خواہش ہے کہ اس نئی صنفِ سخن کو صرف اور صرف حمد و نعت کے لیے مختص رکھا جائے، زیادہ سے زیادہ اس کا دامن منقبت اور سلام تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ یہ اس کے مزاج کا تقاضا بھی ہے۔ اکائی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسے محافل میں ترنم سے پڑھا جاسکتا ہے۔ ’’اکائی‘‘ کی تازگی ہوائے خوش گوار کا ایک جھونکا ثابت ہوگی۔ اس نئی صنفِ سخن کی پزیرائی کے بارے میں پُرامید ہوں‘‘۔(ریاض حسین چودھری ص،۳۹۵۔۳۹۴) پروفیسر ڈاکٹر افضال احمد انور( فیصل آباد) نے اپنے مضمون ’’ نثری نظم..... اور نعت ‘‘ میں نثری نظم کی حتی المقدور وکالت کی ہے۔ لیکن وہ اپنے مقدمے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ نثری نظم کی حمایت میں انکے پیش کردہ دلائل اگر تسلیم کرلئے جائیں تو مسجّع و مقفّیٰ نثر، انشائیہ ، خاکہ نگاری سبھی طرز و اصناف معدوم ہوجائیں گی۔ حتٰی کہ ابن صفی کے ناولوں تک کو نثری نظم کے شاہکاروں میں شامل کرنا پڑے گا۔(ڈاکٹر اشفاق انجم ص،۱۲۱) ہندوستانی اور پاکستانی نعت گو شعرا میں فرق:

دوسری بات جو خاص طورپر آپ سے اور اپنی برادری یعنی شعرائے کرام سے عرض کروںگا کہ جب قرآن پاک میں حضور اکرمV کے ساتھ ان کے جانثار صحابہ کرام کا بھی ذکر ہے، پروردگار عالم نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا کہ میں ان سے راضی ہوں اور یہ مجھ سے راضی ہوئے۔ اسی مضمون کو میں نے اپنے دو شعروں میں عرض کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

یہاں کیا مدحِ اصحابِ حبیب کبریا ہوگی صحابہ کی حقیقت روزِ محشر آئینہ ہوگی خدا سے وہ ہوئے راضی خدا ان سے ہوا راضی صحابہ کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی ہندوستانی اور پاکستانی شعرا میں یہی فرق ہے کہ ہم لوگ اپنی نعتوں میں صحابہ کرام کا بھی ذکر کرتے ہیں اور خصوصیت سے لکھنؤ کے سنی شعرا تو نعت پاک میں ترتیب کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں جو آپ کے وہاں نہیں ملتا۔ میں نے آپ کے بھیجے ہوئے نمبر اور آپ کا خود مجموعہ کئی بار پڑھا لیکن کہیں بھی اصحابِ رسولV کا تذکرہ نہیں ہے۔ کیا آپ حضرات صدیق اکبرؓ، فاروق اعظمؓ، عثمان غنیؓ اور دوسرے جلیل القدر صحابہ کو نہیں مانتے جس کے واسطے سے اسلام ہم تک پہنچا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنینؓ کا تو ذکر ملتا ہے اور حضرت خدیجہؓ کا۔ لیکن حضور کی سب سے زیادہ چہیتی بیوی جن کے حجرۂ پاک میں آج بھی حضور آرام فرما رہے ہیں اور حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت فاروق اعظمؓ۔ پروردگار ہم سب کو نعت پاک کے ساتھ فضائل صحابہ بھی نظم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(ساجد صدیقی لکھنوی ص،۴۰۱) سندھی ادب اورنعت: مدحت رسولV کی سعادت تقریباً ہر زبان کو حاصل ہے۔ لیکن سندھی زبان نے آپ V کی ثنا اور تعریف کو ایک منفرد مقام دیا ہے مگر جغرافیائی قیود اور میڈیائی ذرائع کم ہونے کے باعث منظرعام پر نہیں آسکا۔ انشاء اللہ میں اس سلسلے میں تحقیقی مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔سندھی ادب میں نعتیہ شاعری پر تنقیدی پہلو کو یکسر فراموش کردیاگیا ہے یا ناکافی ہے۔ البتہ اصناف کے لحاظ سے جس قدر صنفوں کو نعت کا سنگھار بنایاگیا ہے، اردو ادب میں میری نظر سے نہیں گزرا۔ مثلاً سہ حرفی، صنف واسع الشفتین، صنعت عکس وترد، صنعت تحت النقاد، صنعت فوق النقاط، صنعت حروف متصل، صنعت عمودی عکس اور بغیر الف کے وغیرہ اس سلسلے میں ’’نعت رنگ‘‘ کے مؤقر مضمون نگاروں کو دعوت فکروتحقیق ہے۔(حبیب الرحمٰن سیال ص،۲۷۳) فروغِ نعت کے نئے امکانات: ارض پاک میں فروغ نعت کے لیے کی جانے والی مساعی اپنا رنگ لاچکی ہے اور اس کے لیے چھٹی ساتویں دہائی میں چھیڑی گئی مبارک تحریک کامیابی کی منزل سے کافی حد تک قریب ہے۔ آج نعت کا سب سے بڑا ذخیرہ اردو ہی میں موجود ہے اور تقسیم ملک کے بعداس میں اضافہ کرنے کا سہرا ارض پاک ہی کے سر ہے۔ نعت نگاران پاک، انگریزی، جاپانی، پنجابی وغیرہ شاعری کے اصناف او ر ہیئتوں میں جو تجربات کررہے ہیں وہ بھی خوش آئند ہے۔ بھارت میں بھی ہائیکو اور سانیٹ وغیرہ میں نعتیں لکھی جارہی ہیں۔ مگر پاک کی بہ نسبت کم تیزی اور کم جوش سے، بیکلؔ اور نظمیؔ مارہروی جیسے شعراء ہندی بحور و اوزان اور اصناف میں نعت کہنے کا تجربہ کررہے ہیں اور کافی حد تک کامیاب ہیں۔ نظمیؔ صاحب نے تو سنسکرت زبان میں کئی نعتیں کہی ہیں۔ سیّد آل رسول حسنین نظمی مارہروی امام احمد رضابریلوی قدس سرہ کے مرکز عقیدت اور مرشد خانہ خانواۂ برکاتیہ مارھرہ مطہرہ کے چشم وچراغ ہیں۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ایم اے اور مرکزی حکومت کے محکمۂ سنسر میں بمبئی میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ عالم بھی ہیں۔ اردو، فارسی زبان وادب کے باوصف عربی اور انگریزی میں بھی مہارت حاصل ہے ہندی اور سنسکرت سے بھی خاصی واقفیت ہے۔(عبدالنعیم عزیزی ص،۶۸۱) تنقیدنعت اور احتیاط کے تقاضے: نعتیہ شاعری پر تنقید ضرور کی جائے مگر علم و فہم میں توازن ضروری ہے اور واضح رہے کہ نبی پاک V کی ذات و صفات ، محامد و محاسن اور ان کے جمال و کمال کے بیان میں قلم و زبان کو حد درجہ احتیاط لازم ہے بلکہ فکر و خیال کو بھی - کوشش کی جائے کہ جو بات ہو وہ محض خامہ فرسائی کے شوق کی تکمیل نہ ہو - اللّٰہ کریم ہمیں علمِ نافع اور ادب کی توفیق عطافرمائے - عزیز احسن صاحب اس بارے میں تفصیل جاننا چاہیں تو میرے والد ِ گرامی علیہ الرحمہ کی تصنیف ِلطیف ’’ ذکرِ جمیل ‘‘ ملاحظہ فرمالیں-(کوکب نورانی ص،۳؍۷۱) نعت شریف ایسا موضوع نہیں کہ ہر کوئی محض خامہ فرسائی کے شوق میں کوئی مضمون لکھ دے ، جس طرح شاعر کو نعت کہنے کے لئے عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ عقائد اور حقائق سے آگہی ہونا ضروری ہے اسی طرح نعت شریف پر تحقیق و تنقید میں کچھ لکھنے سے پہلے بہت جان کاری کی ضرورت ہے اور لکھتے ہوئے احتیاط اس سے زیادہ ضروری ہے - اس تمام تر احتیاط کے باوجود یہ حوصلہ بھی رہنا چاہیے کہ فی الواقع غلطی پر صرف اس کا اعتراف ہی نہ کیا جائے بلکہ اس تصحیح و اصلاح کو مفید اور قابلِ قدر سمجھا جائے - (کوکب نورانی ص،۳؍۱۲۴) محترم احمد صغیر صدیقی نے ڈاکٹر شعیب نگرامی کے مقالے پر میرے ردِعمل کا بُرا منایاہے اور غصے کے عالم میں میرے اس شعر کوہدف تنقید بنایاہے۔ بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر ایک گھر ہم نے مدینے میں بنا رکھا ہے فرماتے ہیں:’’اس شعر سے تویوں لگتاہے کہ جیسے مدینے میںجوگھر بنایاگیاہے وہ کوئی چرچ ہے اس میں شاعر چھپ کر جانے کی بات کررہاہے عجیب ساشعر ہے ایسے شعر بظاہر اچھے لگتے ہیں لیکن جب ان میں اتراجاتاہے توپتہ چلتاہے کہ شعرکیساہے اوریہ کام ہماشما کانہیں۔‘‘ (ریاض حسین چودھری ص،۲۶؍۶۲۴) بات صرف اتنی ہے کہ شاعر نے تصور میں شہرحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں جوگھر بنا رکھا ہے،مرنے کے بعد وہ اس گھر منتقل ہونے کاآرزو مندہے۔تنقید ضرورکیجئے لیکن یہ بتادیجئے کہ بات شہرِحضور کی ہورہی ہے یہ چرچ کہاں سے آگیا۔(ریاض حسین چودھری ص،۲۶؍۶۲۵) نعت رنگ کے اس شمارے میں ص ۵۹ پر ڈاکٹر صاحب نے نہایت شدّت سے یہ جسارت بھی کی ، ان کے الفاظ ہیں : ’’ ہمارے نعت گو شعراء نے اس تصور کو بڑی حد تک قبول کیا ہے ، اور اسی کے مطابق عقائد ِ اسلامیہ کو بالائے طاق رکھ کر نعت ِ نبی V کو جزو ایمان سمجھ لیا ہے ، افسوس کہ علماء و فضلاء بھی اس بدعت ِقبیحہ کے مرتکب ہوئے ہیں - ‘‘ اس کے جواب میں عرض ہے کہ نعت جزوِ ایمان نہیں بلکہ جانِ ایمان ہے اور عقائد ِ اسلامیہ کو بالائے طاق رکھنے والا مومن نہیں رہتا - ڈاکٹر صاحب نے اسی صفحے پر تین اشعار لکھے ہیں ، انہوں نے ان اشعار کے بارے میں علماء و فضلاء کے بیان اور فتاوٰی ملاحظہ نہیں فرمائے ، کیا یہ سب اشعار کسی صحیح العقیدہ و قابل شخص کے ہیں؟ جب علمائے حق کی طرف سے ایسے اشعار کی سخت مذمت کی گئی ، اس کے بعد ، ڈاکٹر یحیٰی کا صرف انہی اشعار کو پیش کرتے ہوئے یوں غیر تحقیقی انداز میں تمام علماء و فضلاء او راہلِ علم پر زبانِ اعتراض دراز کرنا ہر گز درست نہیں -(کوکب نورانی ص،۳؍۵۵) نعت کے عظیم الشان سرمائے کونظرانداز کردینا کہاں کی دانشمندی ہے۔’شانِ محشر‘ اور’مرتبہ شفاعت‘ کوواوین میں لکھ کر تضحیک کانشانہ بنایاجارہاہے؟مدینہ منورہ کے ذکر ِجمیل کونعت سے خارج کرنے کی منصوبہ بندی کیارنگ لائے گی؟کل گنبدِ خضرا،موجب اقدس، روضہ رسول،درحبیب، وادیٰ بطحا،اورخلدِطیبہ کی معطر گلیوں کے ذکر کوبھی شجرِممنوعہ قرار دیاجائے گا۔تمام علامتوں،استعاروں اور تلمیحات پربھی پابندی کامطالبہ کیاجائے گا ۔ معجزات کے ذکر کوبھی نعت کے دائرے سے خارج کرنے پراصرار کیاجائے گا ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب!حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دکھی امت پہلے ہی ان گنت خانوں میں تقسیم ہوکراپنی اجتماعی قوت سے محروم ہوچکی ہے۔اسے ایک پلیٹ فارم پرلانے کی سعی کیجیے۔بکھری ہوئی ملتِ اسلامیہ کواتحاد کادرس دیجیے۔(ریاض حسین چودھری ص،۲۶؍۶۲۴) نعت نبوی اور ترجمے کے مسائل:

	حضرت مولانا جامیؒ کی مشہور ومعروف نعت’’وصل اللہ علیٰ نورکزوشد نورھا  پیدا‘‘ کااردومیں منظوم ترجمہ کیا تھا۔آپ کوبھجوانے میں تامل کیاکہ بعض مسائل ان کی یادگار نعت کے ترجمے میں بڑی بڑی رکاوٹوں کی شکل بن گئے تھے مثلاً پہلے ہی شعر(مطلع)کے دوسرے مصرعے میں جب وہ زمیں کوساکن کہتے ہیں تواکیسویں صدی میں بیٹھا ہوا آدمی کیسے ترجمہ میں زمیں کوساکن باندھ دے پھر ایسانہ کرے تونہ ترجمہ ہوانہ ترجمانی۔

یونہی چوتھے شعر کے دوسرے مصرعہ میں مولانا نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خال کوخال ہندی سے تشبہیہ دیتے ہیں تومیں ہندی خال کومشبہ بہٖ کادرجہ دیتے ہوئے لرز گیا اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زلف مبارک کامشبہ بہٖ(یامستعار منہ)شب تاریک کونہیں بناسکا ۔ تیسراالجھن کامقام یہ بناکہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کالقب مُزّمّل قرآن پاک میں بیان ہوا مگر وزن کی ضرورت کے تحت حضرت مولانا نے اسے مُزمّل ہی باندھ دیاتھا میں نے اسے بھی قرآنی تشدید مکرر کے ساتھ باندھا۔(احسان اکبر ص،۲۶؍۶۵۷)

اسلامی ادب اور نعت: میری دانست میں یہ ہے کہ شاعری تو ادب میں لامحالہ شامل ہے بلکہ نمایاں ہے لیکن دِینی موضوعات کے حوالے سے نظم و نثر کو زبان کے تحت نہیں رکھا گیا بلکہ اسے عام لوگوں کی تنقید سے بچانے کے لئے یا ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی بجائے الگ شمار کیا گیا -واضح رہے کہ اس بارے میں ، مَیں کوئی تحقیق بیان نہیں کررہا ہوں - ادب میں شعبے ہیں ، جیسے فکاہی ادب الگ شمار ہوتا ہے - ادب العالیہ درجہ بندی میں ہے - کلاسیکی ادب الگ شمار ہُوا ، اسی طرح اسلامی ادب بھی الگ شمار کیا گیا - یہ ضرور ہُوا کہ مرثیے اور قصیدے کو شعری اصناف ہی کے طور پر ادب بلکہ تعلیمی نصاب تک میں شامل رکھا گیا البتہ نعت کو اسلامی ادب میں رکھا گیا ہے - شاعری کو ادب سے خارج نہیں کیا جاسکتا تو منظوم نعت کیسے ادب سے الگ کی جاسکتی ہے ؟آپ اسے اسلامی ادب کی بجائے محض ادب کی الگ صنف شمار کروانے کی بات کررہے ہیں تو پھر اُردو ادب اور اسلامی ادب کی تفریق و تقسیم ختم کرنے کی بات کیجئے ؟مجھے رشید وارثی صاحب کے الفاظ نہایت موزوں لگے کہ ’’ اُردو کے اسلامی ادب ‘‘ … اور ہر زبان کے اسلامی ادب میں نعت شریف کا مقام کوئی ہلکا یا کم نہیں کرسکتا اور اس کے مضامین پر ہر کس و ناکس کو کلام کی جرأت نہیں ہوسکتی - نعت شریف کی عزت و توقیر ’’ ادب ‘‘ سے نہیں ، البتہ ’’ ادب ‘‘ ضرور نعت شریف کی برکت سے مزید سرفراز ہوگا - (کوکب نورانی ص،۳؍۱۲۹۔۱۲۸) نعت نبوی اور سراپا نگاری: جناب عاصی کرنالی نے لکھا ہے کہ نعت گوئی میں سراپا نگاری کا عنصر نسبۃً کم ہوتا جارہاہے اور سیرت نگاری کے اجزاوعوامل میں اضافہ ہورہا ہے ۔اس بارے میں یہ فقیر کچھ عرض کرنا چاہتاہے ۔جناب سید محمد ابوالخیر کشفی کی تحریر میں اللّٰہ کریم جَلَّ شانہٗ کا ذکر کرتے ہوئے تعظیمی کلمات نہ کہنے کا بیان گزر چکا ہے۔مجھے وہ حدیث شریف بھی یاد آرہی ہے کہ ایک صحابی نے دعاسے قبل اللّٰہ کریم جَلَّ شانہٗ کی تعریف نہیں کی تو میرے نبی کریم Vنے اسے آداب دعا تلقین فرمائے کہ پہلے اللّٰہ تعالیٰ عزّوجلّ کی تعریف کرو پھر اپنی حاجت بیان کرو۔یوں ہمیں آداب بندگی ملحوظ رکھنے کی واضح ہدایت دی گئی ہے ۔ہم قرآن کریم کو پڑھیں تو ہمارے معبود کریم جَلَّ شانہٗ نے اپنے حبیب کریم Vکا ذکر جس انداز سے فرمایا ہے وہ ہمیں تعلیم کرتاہے کہ ہم ذکر رسول Vبھی ان کی بہت تعریف وتوصیف کے ساتھ کریں اوران کے اسم مبارک ہی سے واضح ہے کہ ان کی مبارک ومکرم ہستی کی تخلیق ہی تعریف وتوصیف کے لیے ہوئی ہے۔لایمکن الثناء کما کان حقہ کہنے سے پہلے ان کے حسن وجمال اور محامد ومحاسن کا بیان حتی المقدور،حتی الامکان ،حتی الوسع بہت عمدگی سے کرنا ضروری ہے ۔میرے آقا کریم Vکے حسن وجمال کا تذکرہ بھی دنیائے کفر وشرک کو گراں گزرتاہے اور غیر مسلم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی بات ایسی کی جائے جو میرے رسول کریم Vکی تعظیم وتوقیر اور ان سے محبت وعقیدت میں اضافہ کا سبب اور ذریعہ بنے ۔خالق کائنات میرے ربّ کریم جَلّ شانہٗ نے اپنے حبیب کریم Vمیں ہر حُسن ،ہر جمال ،ہر کمال بھی اس کما ل پر رکھا کہ چودہ صدیا ں ،لکھنے والوں ،کہنے والوں نے بساط بھر لکھا اور کہا مگر کوئی بھی پوری طرح بیان نہ کرسکا نہ ہی کرسکتا ہے۔قرآن کریم ہی میں دیکھیے کہ متاع دنیاکو ’’قلیل‘‘اور رسول کریم Vکے خُلق کو’’عظیم ‘‘فرمایا گیا ہے۔جب شمار نہ ہونے والا قلیل ہے تو ’’عظیم‘‘کی شان مخلوق میں پوری طرح کون جان سکتاہے !یہ بھی عرض کروں کہ دنیا کی چند عشقیہ داستانیں جو مشہو رہیں، ان داستانوں کی شہرت محبوبان مجازی کے حُسن وجمال کی وجہ سے نہیں بلکہ ان میں مجنوں وفرہاد،راں جھا و مہیں وال وغیرہ کے جوشِ عشق ہی کی بات ہوتی ہے ،یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ غزل کے پیرائے میں محبوبان مجازی کے لیے حسن وجمال کی بابت بھی جوکچھ کہا جاتا ہے وہ مبالغہ ولفاظی بلکہ زیادہ تر خلافِ واقعہ ہی ہوتاہے ۔(کوکب نورانی ص،۳؍۳۱۷) نعت نبوی اور شعری مبالغہ: میرے نزدیک ہمارا ایمانی تشخص بہت اہم اور عظیم ہے - غیر مسلم ، میرے محبوب ِ کریم V کی مدح میں کیسا اور کتنا ہی رطب اللسان کیوں نہ ہو ، وہ کسی مومن کے برابر نہیں ہوسکتا ، بڑا یا بہت بڑا ہونا تو دُور کی بات ہے ۔۔۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید کی دو تحریریں اس شمارے میں ہیں - فرماتے ہیں : ’’ حقیقت یہ ہے کہ جس نے حضور V کے بارے میں مبالغے سے کام لیا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے - ‘‘ ( ص ۱۷۹ ) پروفیسر صاحب نے اپنے جملے کو واضح نہیں کیا ، انہیں یہ فرمانا چاہیے کہ ایسا مبالغہ جو غلط ہو ( یعنی شرعی حدود سے باہر ہو ) ورنہ شانِ مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کی کوئی حد ہی نہیں - امام بوصیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فان فضل رسول اللّٰہ لیس لہ حدٌ فیعرب عنہ ناطق بفم پروفیسر صاحب نے ۱۸۲ پر لکھا ہے کہ : ’’خیال رہے کہ نعت ذراسی بے احتیاطی ( بزعم خویش عقیدت ) سے حمد بن جاتی ہے … ‘‘ عرض کرنا چاہوں گا کہ حمد کا لفظ رسولِ پاک V کے لئے منع تو نہیں ہے ان کا تو اسمِ گرامی ہی ’’ محمد ‘‘ ( V ) ہے جس کا مادّہ ہی حمد ہے- وہ شاید مروّج اصطلاح میں مراد لیتے ہوئے فرمارہے ہیں البتہ انھوں نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ حضور ( V ) کو ان کے مرتبے سے گرادینا ، اپنے ایمان کو ختم کرلینا ہے اور مرتبے سے بڑھادینا شرک ہے ،( مرتبے سے بڑھادینا ، یعنی خدا کا شریک یا اس کے مثل یا ہمسر قرار دینا ) - (کوکب نورانی ص،۳؍۵۰) صفحہ ۵۹ پر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’ ثنائے محمدی V کو ’’ حمد ‘‘ کی شکل میں پیش کرنے کا فن کس قدر مذموم اور ناروا ہے لیکن اُردو کی نعتیہ شاعری کی بڑی مقدار میں یہی اصنامی تصور چھایا ہُوا ہے - ‘‘ ڈاکٹر صاحب سے عرض ہے کہ ثنائے نبی ( V ) کو حمد کی شکل میں نہیں تو کیا ’’ ذم ‘‘ کی شکل میں پیش کیا جانا چاہیے ؟ اور ’’ اصنامی تصور ‘‘ کے الفاظ تو دریدہ دہنی شمار ہوں گے ، وہ بتائیں کہ بڑی مقدار میں کیا وہ ثبوت پیش کرسکتے ہیں ؟ بلاشبہ نعت ، حمد ِ رسول V ہے اور نعت و مدح کہنا آسان نہیں لیکن ’’ بڑی مقدار‘‘ کے الفاظ ، ڈاکٹر صاحب کا مبالغہ ہی نہیں مغالطہ بھی ہیں - اگر توصیف ِ رسول V کو ’’ اصنامی تصور‘‘ کہا گیا ہے تو یہ شقاوت اور گستاخی ہے جس پر توبہ واجب ہے - ڈاکٹر یحیٰی صاحب ملاحظہ فرمائیں کہ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی صاحب ص ۲۲ پر لکھتے ہیں : ’’یہ شاعرانہ تخیل کا اعجاز ہے … ‘‘ لفظ اعجاز کا استعمال انہوں نے شاعرانہ تخیل کے ساتھ کیا ہے ، وہ شاعر کو کیا درجہ دیتے ہیں ، ان کی تحریر اسے واضح کرتی ہے - شاعری اور ایک شاعر کے کرشمہ و کمال کے لئے تو تعریف و توصیف کی حد نہ ہو لیکن وصف ِ رسالت V اور توصیف ِ رسول V کے بیان میں نامناسب لفظ استعمال کئے جائیں !!! وہ ہستی جس کی شان کی حد ہی نہیں ، جس کی مدح میں پورا قرآن ہے ، خالقِ کائنات خود جس کی تعریف فرماتا ہے ، جس کی جان ، جس کی خاکِ پا ، جس کے زمانے کی قسمیں یاد فرماتا ہے ، جس کی تعظیم و توقیر کا حکم دیتا ہے ، اس ہستی کے بیان میں کون انسان دعوٰی کرسکتا ہے کہ وہ اس کی شان بیان کرسکا ہے ؟ حضرت مولانا جامی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ لیس کلامی یفی بنعت کمالہ … ‘‘ اور مرزا غالب بھی لکھ گئے : غالب ثنائے خواجہ بَہ یزداں گزاشتیم کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است ( V ) علامہ اقبال فرماتے ہیں : تو فرمودی رہِ بطحا گرفتیم وگرنہ جز تو مارا منزلے نیست مزید ملاحظہ ہو ، فرماتے ہیں :(کوکب نورانی،ص۳؍۵۸۔۵۷) معنی حرفم کنی تحقیق اگر بنگری بادیدۂ صدیق اگر قوت ِ قلب و جگر گردد نبی از خدا محبوب تر گردد نبی( V) ہم غور کریں کہ نعت شریف میں محبوب وممدوح تو وہ ذات بابرکات ہے جو صادق ومصدوق ہے اور ہر حُسن ،ہرجمال اور ہر کمال کی بے مثال وباکمال جامع ہے ،سچ کہوں کہ حُسن وجمال اور کمال وہی ہے جو ذاتِ مصطفی کریم Vمیںہے ،ان کے حُسن وجمال کے بیان میں کسی مبالغے کا گمان تو تب ہو کہ کوئی کماحقہ انھیں اور ان کی حقیقت کوجانتاہو یا جان سکتا ہو۔ نعت شریف کے محبوب کریم Vکو دیکھیے ،ان کا ہر سچا چاہنے والا ان کے بے مثال حسن وجمال ،فضل وکمال اور عظمت وشان کا والہ وشید اہے ،ان پر فداہے اور یہ محبت بھی کیا پیاری اور انوکھی ہے کہ یہاں چاہنے والوں میں رقابت نہیں بلکہ مثالی قرابت ہے ،جوکوئی میرے محبوب کریم رسول پاک V کی جس قدر زیادہ محبت وتعظیم رکھتا ہے ،ان کے چاہنے والوں میں بھی وہ زیادہ محبوب ومحترم ہوجاتا ہے ۔اہلِ علم سے یہ بھی مخفی نہیں کہ بغیرتخصیص کے مدح ممکن ہی نہیں ،وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وصف بغیر موصوف کے نہیں اور کون نہیں جانتا کہ حقیقی تعریف اللّٰہ کریم جلَّ شانہٗ ہی کے لیے ہے۔میرے محبوب کریم رسول پاک Vکی تعریف وتوصیف درحقیقت اللّٰہ کریم جلَّ شانہٗ ہی کی تعریف ہے اور میرے مقدس ومطہر رسول کریم Vکی ذات وصفات میرے رب تعالیٰ جل مجدہ الکریم کی ذات و صفات پر دلیل وبرہان ہیں ۔ہر سچے مومن کو اللّٰہ کریم جل شانہٗ کے اجمل واحسن حبیب کریم Vکا ہرصحیح وسچا تذکرہ، خواہ وہ ان کے مبارک اور بے مثال حسن وجمال کاہو یا ان کی باکمال مقدس سیر ت کا ہو ،محبوب ومطلوب اور مرغوب ہے اور دنیا وآخرت میں یہی تذکرہ اور انہی کا چرچارہے گا۔(کوکب نورانی ص،۳؍۳۱۸) نعت اورعربی الفاظ:صحت تلفظ اوردرست استعمال کے مسائل: (۱) جناب تنویر پھول نے حمدونعت میں الفاظ کے مناسب استعمال پر مقالہ لکھا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے شعرا ’’خیر الامم‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے لکھتے ہیں جو درست نہیں کیونکہ خیرالامم سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہے یعنی اُمت مسلمہ میرے خیال میںیہ بات درست نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس طرح خیرالبشر درست ہے اسی طرح خیر الامم بھی درست ہے اور اُمم جمع ہے اُمت کی ۔اُمت کے معنی ہیں ۔گروہ جماعت وغیرہ اس سے صرف اُمت مسلمہ مراد لینا درست نہیں ۔( احمد صغیر صدیقی ص،۲۵؍۸۹۱) (۲) حزیں صدیقی صاحب تواس دنیا میں نہیں ہیں مگر انھوں نے اپنے متعدد شعروں میں ’’کبریا‘‘کالفظ ’’خدا تعالیٰ‘‘کے لیے استعمال کیاہے جو درست نہیں یہ لفظ ’’بڑائی‘‘ کے معنی میں ہے معنی صفت ہے ۔اسم نہیں ۔ (احمد صغیر صدیقی ص،۲۵؍۸۹۴) (۳) صفحہ نمبر ۶۵۷ پر احسان اکبر صاحب نے ’’ مزّ مّل‘‘ کے درست تلفظ ( ز اور م پر تشدید کے ساتھ) کی بات کی ہے ۔ ایک نجی گفتگو میں حضرت راغب مراد آبادی مرحوم نے راقم الحروف سے کہا تھا کہ لوگ اکثر ’’ مزمل‘‘ اور ’’حرمین‘‘ کا تلفظ غلط کرتے ہیں ، مزمل میں حرف ز اور میم نمبر ۲ پر تشدید ہے اور حرمین جمع ہے حرم کی اس لیے ح اور ر دونوں پر زبر ہے یعنی درست تلفظ ہے حَ رَ مَ ی ن ۔ اس بات کی تصدیق درود تاج سے بھی ہوتی ہے ۔صفحہ نمبر ۶۶۱ ، سطر نمبر ۴ میں ’’ السلام ُ علیک ایہا النبیV ! ‘‘ میں ہائے ہوز کی جگہ حائے حطی درست نہیں ۔ (تنویر پھول ص،۲۷؍۵۲۵) (۴) صفحہ نمبر ۱۳۲ پر تحریر ہے ’’ کبریا کا لفظ ہمارے ہاں بڑے بڑوں نے اللہ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہیــ‘‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ اُردو میں ایسا ہی ہے ، اسی سے لفظ ’’کبریائی‘‘ بھی بنا ہے جس طرح رحمن سے رحمانی اور رحیم و کریم سے رحیمی و کریمی ۔ علامہ اقبال کے اس شعر میں بھی یہی صورت ہے : اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبالؔ اُس کو بتلاتا ، مقامِ کبریا کیا ہے
      بات دراصل یہ ہے کہ ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے ۔ایک زبان کا لفظ جب دوسری زبان میں آجائے تو ضروری نہیں کہ معانی و اعراب و قواعد ہوبہو ایک ہی ہوں ، مثال کے طور پر عربی میں ’’رقیب‘‘ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے لیکن فارسی اور اُردو میں یہ لفظ جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسے سب ہی جانتے ہیں۔عربی لفظ ’’ صَدَقہ‘‘ اُردو میں حرف دال کے سکون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ، ’’کلمہ‘‘ عربی میںمونث ہے جبکہ اُردو میں مذکر ، علیٰ ہذا القیاس لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس میں کھلی چھوٹ ہو ۔ صفحہ نمبر ۲۶۶ پر عزیز لدھیانوی کے اس شعر میں لفظ ’’عرب‘‘ کے درمیانی حرف کو مفتوح کی جگہ ساکن باندھنا غلط ہے :
حق کی مدد سے بالیقیں
حامی شہِ عرب و عجم

’’امی شہ ارض و سما ‘‘ والا مصرع درست ہے لیکن مذکورہ بالامصرع درست نہیں ۔ (تنویر پھول ص، ۲۶؍۶۶۰) (۵) جناب منظر عارفی(کراچی)نے نعت گوئی میں لفظ ’’ارم‘‘کے استعمال کی مذمت کی ہے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ’’شداد‘‘کے بنائے ہوئے باغ کانام تھا اوربقول اُن کے ’’ارم‘‘جنت کانام بھی نہیں ہے بعض لوگ اس لفظ کو مجازاً جنت کے لیے استعمال کرتے ہیںراقم کے خیال میں اگر زبان سے الفاظ کوترک کرنے کے لیے یہ روش اوررویہ اختیار کیا گیا توپھر اردو زبان میں بلکہ پنجابی میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ’’خدا‘‘کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں جو فارسی میں’’نمبردار‘یا ’چوہدری‘کے معانی میں استعمال ہوتاہے ا و ر حقیقت یہ ہے کہ کٹر توحید پرست لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ عشق پربھی اعتراض کرتے ہیں حکیم الامت نے محبت کے لیے عشق کے لفظ کو خوب استعمال کیا ہے اور اسے خاص معنیٰ عطاکردیے ہیں جس سے عشق الٰہی اور عشق رسول تراکیب عام استعمال ہورہی ہیں ۔اس روش کے تحت ہمیںبہت سارے الفاظ ترک کرنا ہوں گے جوفارسی یا ہندی زبان سے اردو میں درآتے ہیں یہ تو وہی رویہ ہوگا جو فارسی کے مشہور شاعر فردوسی نے اپنے شاہنامہ میںاختیار کیا تھا اوراس نے بزعم خویش عربی الفاظ کا استعمال نہ کرکے خالص فارسی الفاظ استعمال کرکے’’عجم‘‘زندہ کرنے کی کوشش کی یہ رویہ آج بھی جاری ہے اس نے کہا : عجم زندہ کردم بایں فارسی بہرحال یہ منظر عارفی کا نکتہ نظرہے۔(سعید بدر ص،۲۵؍۹۱۵) صفحہ نمبر ۲۲۵ پر لفظ ’’ارم‘‘ کے استعمال پر بحث کی گئی ہے جو معلوماتی ہے اور صفحہ نمبر۲۱۷ پر ایک دوسرے مقالہ نگار نے تحریر کیا ہے ’’ قرآن وحدیث اور دیگر مذہبی کتابوں میں جن آٹھ جنتوں کا ذکر ہے ’’ارم‘‘ ان میں شامل نہیں ہے ، اس حقیقت سے جاہل و کم علم شعرا بے خبر ہو سکتے ہیں ‘‘۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے ۔ اردو زبان میں لفظ’’ارم‘‘ کا حوالہ کسی مخصوص جنت یا جنت کے کسی حصے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مجازاََجنت یا بہشت مراد ہے ، فیروز اللغات ، نسیم اللغات اور جواہر اللغات سب اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں۔ جو لوگ لفظ ’’عشق‘‘ کی طرح اسے استعمال نہ کرنا چاہیں وہ نہ کریںلیکن استعمال کرنے والوں کو ’’ جاہل و کم علم شعرا‘‘ کہنا مناسب نہیں ۔ غالب ؔ جیسا بڑا شاعر بھی لفظ ’’ارم‘‘ کو اسی مفہوم میں استعمال کرتا ہے : ’’ خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں ‘‘ ۔ عربی میں تو لفظ ’’بہشت‘‘ بھی نہیں ہے ، کیا اسے بھی استعمال کرنا قابل اعتراض ہوگا؟ عربی میں ’’رقیب‘‘ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے لیکن ہماری غزلوں میں اس کے دوسرے معنی ہیں۔ اردو میں لفظ ’’مولیٰ‘‘ سے مراد ــ’’آقا‘‘ ہے لیکن عربی میں اس سے مراد ’’ آزاد کیا ہُوا غلام ‘‘ بھی ہے۔ دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ کوئی لفظ کس مفہوم میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ حال ہی میں کچھ لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ گوشت اور دالوں کے آمیزے کو ’’حلیم‘‘ کہنا گناہ ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اسے ’’حلیم‘‘ نہیں بلکہ ’’دلیم‘‘ کہا جائے ۔ یہ سب لایعنی باتیںہیں اور زبان کو محدود کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر ’’حلیم‘‘ پر اعتراض ہے تو ’’ رقیب‘‘ اور ’’حکیم‘‘ کا کیا ہوگا؟ ’’ رقیب رُو سیاہ ‘‘ اور ’’ حکیم صاحب‘‘ ، ’’ حکیم جی‘‘ ا ن سب کو زبان سے خارج کرنا پڑے گا ۔ (تنویر پھول ص،۲۵؍۹۲۱۔۹۲۰) مجھے راجہ رشید محمود صاحب کی اس بات سے قطعی اتفاق ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اصل عربی تلفظ کو استعمال کرے تو اس پر اعتراض کرنا۔۔۔ کہاں تک جائز ہے کسی لفظ کے بولنے یا لکھنے میں مقامی طور پر یا کسی دوسرے ملک میں کوئی تبدیلی در آئے تو اس لفظ کو درست استعمال کرنے والا تو غلط نہیں ہوسکتا اور اصل لفظ ’لغو‘ قرار نہیں پاتا۔‘‘ (’’نعت رنگ‘‘ شمارہ نمبر۱۶، ۱۴۱۔۱۴۲) اگر کوئی لفظ، تلفظ یا معنی کے اعتبار سے غلط استعمال کیا جارہا ہے تو اس کے درست استعمال کو غلط اور ناروا قرار دے کر کسی صالح فکر کا تو ثبوت فراہم نہیں ہوتا۔ آج عام طور پر ’’قرآن‘‘، ’’غلطی، ’’عربی‘‘ وغیرہ الفاظ کا غلط تلفظ عوام میں رائج ہے۔ عربی الفاظ کی نزاکتوں سے ناواقف شعرائے کرام بھی اس قسم کے الفاظ شعر میں غلط موزوں کر دیتے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع ہونے والی نعتوں میں بھی اس قسم کا عیب راہ پا جاتا ہے۔ چناںچہ اربابِ بصیرت اس کی فنی گرفت فرما کر اصلاح کی ذمہ داری ادا فرماتے ہیں۔قرآن، مزمل، مدثر وغیرہ الفاظ کو اشعار میں غلط تلفظ کے ساتھ موزوں کرنے پر شعرائے کرام کی فنی گرفت کی مثالیں ’’نعت رنگ‘‘ کے صفحات میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ الفاظ کا غلط تلفظ یا غلط اِملا رائج الوقت ہے تو کیا اس کے خلاف الفاظ کا صحیح استعمال اور درست تلفظ نہیں کیا جائے گا؟ کیا جائے گا اور ضرور کیا جائے گا:

ع    ہے یہی رسم تو یہ رسم مٹا دی جائے  (ملک الظفر سہسرامی،ص۸۴۲)

نعتیہ ادب کے فروغ کی کاوشیں: حقیقت یہ ہے کہ مدتِ دراز تک ’’نعت‘‘ کو ہمارے ہاں دوسرے درجے کی صنفِ سخن سمجھا جاتا رہا ہے۔ نعت کہنے والوں کا ایک الگ ہی گروہ تھا جس کو دانش ورانِ ادب قابلِ توجہ نہیں سمجھتے تھے۔ خدا بھلا کرے اقبال صفی پوری کا کہ انھوںنے کل پاکستان نعت مشاعرے کی روایت قائم کی اور ملک کے تمام بڑے اور اہم شاعروں کو باقاعدہ نعت کہنے کی طرف راغب کیا۔ نعتیہ شاعروں سے میرا شغف انھیں مشاعروں کے سبب پیدا ہوا۔ اس کا اظہار ضروری تھا کہ یہ بات ریکارڈ پر آجائے۔ حق دار کو اس کا حق ملنا ہی چاہیے۔ دوسرا سنجیدہ کام تم نے شروع کیا ہے بلکہ دوسرا نہیں، یہ پہلا سنجیدہ کام ہے جو اس جہت میں کیا گیا ہے۔ ’’نعت‘‘ کے سیاق و سباق پر گفتگو، نعت کے سفر کی نشان دہی، اس کی صنفی اہمیت پر تنقیدی مضامین اور نعت گو شعرا کی بے احتیاطیوں پر گرفت۔ یہ سب کچھ ’’نعت رنگ‘‘ میں یک جا ہے اور یہ کام یہاں ختم نہیں ہوگیا، تم نے اس کو جاری رکھنے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ نئی نسل کی تمام کج رویوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ادا کردے گا۔ میری دلی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں۔(شبنم رومانی،ص۷۲۔۴۷۱) نعت اور خود پسندی: مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی کا طویل مراسلہ حرف حرف پڑھنے کے قابل ہے۔ ان کی یہ بات بھی گرہ میں باندھ لینے کی ہے کہ ہم میں سے اکثر خودپسندی اور خودرائی کے شکار ہیں اور دورخاپن بھی ہم میں کچھ کم نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ علمی مباحث کے علاوہ خود حمد و نعت کی شاعری پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ ان کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ لفظ ’’حمد‘‘ اور ’’محامد‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی آتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ صنف سخن کے طور پر جب ’’حمد‘‘ کا لفظ لایا جائے گا تو اس کے معنی اللہ کی تعریف ہی ٹھہریںگے۔ مولانا نے اپنے معترضین کا جواب خوب لکھا ہے، خاص کر احمد صغیر صدیقی اور ظہیر غازی پوری صاحبان کے لیے ان کے مراسلے میں بہت سی اچھی باتیں ہیں۔ مجموعی طور پر آپ کا یہ شمارہ بہت خوب ہے۔ بعض شاعر اور شاعروں کے بارے میں بعض مضامین البتہ اس بلند معیار کے نہیں ہیں جس کی آپ سے توقع ہمیشہ رہتی ہے۔(شمس الرحمٰن فاروقی ص،۵۱۳)