شکیل بدایونی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Shakeel Badayuni.jpg


شکیل بدایونی کا اصل نام شکیل احمد قادری تھا . [1] شکیل بدایونی 3 اگست 1916کو اتر پردیش کے ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی ۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ سنہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سنہ 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے

شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

راولپنڈی / اسلام آبا د کی ایک بہت فعال شاعر رحمان حفیظ شکیل بدایونی کے سفرِ شاعری کا مختصر حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

شکیل بدایونی کا انتخاب کلام ( رحمان حفیظ) شکیل بدایونی بچپن سے موزوں طبع تھے، جگر مراد آبادی کے توسط سے 1944 میں مو سیقار نوشاد کی فلم " درد" کے گیت لکھے اور پھر زندگی اسی کام میں گزار دی۔ساتھ ساتھ غزل اور دیگر اصناف سخن میں طبع آزمائی جاری رکھی تاہم ترقی پسند تحریک کے اثرات کےباعث ادبی دنیا میں انہیں کوئی خاص مقام نہیں مل پایا لیکن آج بھی وہ اپنی نسل کے مقبول ترین شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔" جب پیار کیا تو ڈرنا کیا" اور " چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو" جیسے نغمات انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ہندوستانی حکومت نے انہیں گیت کارِ اعظم کے خطاب سے بھی نوازا۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی 1969 میں لکھی جو 2014 میں شائع ہوئی ۔۔

ان کے 5 شعری مجموعے نغمہ فردوس ، صنم و حرم ، رعنائیاں ، رنگینیاں ، شبستاں شائع ہوئے اور کلیات شکیل کی اشاعت بھی ان کی زندگی میں ہو گئی تھی ۔ [2]

نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شکیل بدایونی کے دل میں عشق رسول اس قدر موجزن تھاکہ اس کی کوئی تھاہ نہیں تھی۔جب ہی تو ایسی نعتیں ان کی دل کی گہرائیوں سے نکلیں۔ ان کا ایک نعتیہ مجمو عہ کلام 1950ءمیں ”نغمہ فردوس“ کے نام سے شائع ہوکر مقبولیت پاچکا ہے

ان کی سب مشہور نعت " نہ کلیم کا تصور نہ خیال طور سینا ہے ۔ ادبی اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والا شاید کوئی ایسا شخص ہو گا جو اس نعت مبارکہ سے واقف نہ ہو۔ یہی حال اس کی دھن بنانے والے موسیقارکا ہے۔نوشاد جو موسیقار اعظم کہلاتے ہیں، کی شہرت بھی اس قدر ہے کہ ان کے بارے میں کچھ لکھنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ رہی گانے والی ہستی جس کو لوگ لت ا کے نام سے جانتے ہیں۔ تو اس نے بھی اس نعت کو گا کر حق گائیکی ادا کر دیا اور شاید اسی نعت کا صدقہ ہے کہ شکیل اور نوشاد کے علاوہ لتا ءکو بھی جو ہندو مذہب کی پیروکارہے، قدرت نے دنیاوی نعمتوں سے نوازا۔

فلموں میں نعتوں کا استعمال سب سے پہلے شکیل بدیوانی ہی نے کیا تھا۔ انہوں نے اپنی سب سے پہلی فلم ”درد“ میں بھی بڑی خوبصورت نعت تھی۔جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔اس کے بول تھے ” بیچ بھنورمیں آج پھنسا ہے دل کا سفینہ شاہ مدینہ“ یہ نعت ثریا نے نوشاد کی موسیقی میں گائی تھی۔ [3]

اور پھر لتا منگیشکر کی گائی ہوئی وہ لازوال نعت جو اس نے ہدایت کار کے آصف کی فلم مغلِ اعظم کے لیے گائی تھی جسے شاعر شکیل بدایونی نے لکھا اور جس کی سحر انگیز دھن موسیقار نوشاد نے بنائی تھی۔ جس کے بول تھے: [4]

اے میرے مشکل کشا فریاد ہے فریاد ہے

آپ کے ہوتے ہوئے دنیا مری برباد ہے

بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ

گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ

یہ نعمت فلم میں مدھوبالا پر فلمائی گئی تھی۔


مشہور کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

20 اپریل 1971 کو ممبئی میں انتقال ہوا۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ مگر قبرستان کی انتظامیہ نے اور دوسرے بہت سی مشہور شخصیات کی طرح 2010 میں ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ [5]

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اقبال عظیم | بیدم شاہ وارثی | حفیظ جالندھری | خالد محمود خالد | ریاض سہروردی | عبدالستار نیازی | کوثر بریلوی | نصیر الدین نصیر | منور بدایونی | مصطفیٰ رضا نوری | محمد علی ظہوری | محمد بخش مسلم | محمد الیاس قادری | صبیح رحمانی | قاسم جہانگیری | یوسف قدیری | قمر انجم | سید ناصر چشتی | صائم چشتی | وقار احمد صدیقی | شکیل بدایونی | ساغر صدیقی | حامد لکھنوی | حبیب پینٹر

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]