پروفیسر ڈاکٹر اسحاق قریشی از ریاض احمد قادری
تحریر : ریاض احمد قادری
ڈاکٹر اسحاق قریشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا زبزم ناز یک دانائے راز آید بروں
یہ شعر مفسر قرآن ، محققِ دوراں ، نابغہ عصر ، مبلغِ عشقِ رسول ﷺ جناب پروفیسرڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ؒ پر صادق آتا ہے ۔ آپ 16 ستمبر 2021 بروز جمعرات صبح سات بجے ہم سب سے بچھڑ گئے اور داعی ء اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعونَ ان کے سانحہ ارتحال کی خبر جنگل میں آگ کی طرح ملک کے طول و ارض میں پھیل گئی اور ہر جگہ صفِ ماتم بچھ گئی ۔ وہ عمر بھر عشقِ رسولﷺ کے داعی کے طور پر مصروف ِ عمل رہے ۔ ان کی تقریر کا ہر لفظ عشقِ رسولﷺ سے تراشا ہوا ہوتا تھا۔ ان کی زبان پر حضورﷺ کا نام آتے ہی نہ صرف وہ بلکہ انہیں سننے والے بھی عشقِ رسولﷺ کے بحرِ بے کنار میں ڈوب جاتے تھے۔ ان کی خطابت میں ایک سوز تھا ایک گداز تھا ایک کیف تھا وہ اپنے سننے والے کو عہدِ نبوی ﷺ میں لے جاتے تھے۔ جو کچھ بھی وہ بیان کرتے اس کا ماحصل عشقِ رسول ﷺ تھا ور ناموسِ رسول ﷺ پر جان قربان کر نے کا جذبہ، حضورﷺ کی حرمت پر قربان ہونے اور نثار ہونے کا عزم مصمم، انہوں نے عشاقان ِ مصطفیٰ ﷺ کی ایک پوری جماعت تیار کردی جس میں صفِ اول میں ان کا اپنا خاندان ہے ان کے بھائی ، ان کے بھتیجے، داماد ، بہنوئی ، بھانجے، پوتے، نواسے ، اور دیگر رشتہ دار اس جماعتِ عاشقانِ مصطفیٰﷺ کا ہراول دستہ ہیں
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ہفتہ 5 مارچ1938ءمیں انڈیا کے ضلع امرتسر میں نامور بزرگ عظیم عالم دین اور خطیب حضرت علامہ محمد بشیر الحق صدیقی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں پیدا ہوے ۔ آپ کا پانچ بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا۔ آپ خواجہ محمد الیاس ؒ ، جنا ب محمد ابرار صدیقی ؒکے چھوٹے بھائی اور پروفیسر محمد ریاض قریشی، اور پروفیسر عبدالرزاق صدیقی کے بڑے بھائی تھے ۔ آپ کی عمر ابھی 9 برس ہی تھی اور انڈیا میں ابتدائی تعلیم کے مراحل سے گزر رہے تھے کہ مملکت خداداد پاکستان کا قیام معرض وجود میں آگیا۔اپنی فیملی کے ساتھ ہجرت کرکے شاھدرہ لاہور تشریف لائے اور لاہورکو اپنا مسکن بنالیا ۔
آپ نے اپنے والد گرامی سے فارسی،عربی سمیت تمام دینی کتب کی تکمیل کی ۔ڈاکٹر محمداسحاق قریشی میٹرک کے امتحان میں بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے شاھدرہ پہنچے تو شاھدرہ لاہور کے لوگوں نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے آپ کا والہانہ استقبال کیا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔یہ ان کے روشن مستقبل کی ابتدا تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے اور اورنٹیئل کالج پنجاب یونیورسٹی سے نمایاں نمبروں کے ساتھ ایم اے عربی گولڈ میڈل کے ساتھ اور ایم اے اسلامیات کے امتحانات پاس کئے آپ کی تعیناتی عربی میں بطور لیکچرر ہوئی ۔آپ کا خاندان کچھ عرصہ تک لاہور میں رہا پھر مستقل طور پر لائلپور فیصل آباد میں مقیم ہوگئے ۔ اور مدنپورہ کو اپنا مسکن بنایا گلی نمبر ایک میں جامع مسجد حنفیہ کی خطابت جناب علا،ہ بشیر الحق صدیقی ؒ نے سنبھالی۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج ساہیوال میں بطور لیکچرار عربی تقرری ہوئی ، متعدد شہروں کے کالجز میں خدمات انجام دینے کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل آباد تشریف لائے اور ریٹائرمنٹ تک گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اسی کالج میں آپ نے 1981 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے " بر صغیر میں عربی میں نعت گوئی " پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ کالج کے برسر بھی رہے صدر شعبہ عربی بھی رہے ۔ پرنسپل بھی رہے
اسی دوران ڈاکٹر صاحب مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے جن میں ڈائریکٹر کالجز فیصل آباد ڈویژن ،صدر شعبہ عربی و اسلامیات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد بطور خاص شامل ہیں۔ 4 مارچ 1998 کو آپ کی ریٹائر منٹ کا دن تھا گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں بہت بڑی تقریب منعقد ہوئی ۔ جس میں ملک بھر سے جید علمائے کرام ، مشائخ عظام اور ماہرین تعلیم شامل ہوئے ۔کالج کی طرف سے آپ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر "سپاس محبت "شائع کیا گیا۔ اس میگزین میں انہیں منظوم و منثور خراج تحسین پیش کیا گیا۔ 4 مارچ 1998 ہی کو ان کی گریڈ بیس میں ترقی ہوئی اور انہوں نے اسی دن گورنمنٹ اسلامیہ کالج فیصل آباد میں بطور پرنسپل جائن کیا اور اسی دن ریٹائر بھی ہوئے ۔
گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے محی الدین اسلامک یونیورسٹی نیریاں شریف آزاد کشمیر میں بطور وائس چانسلر خدمات سر انجام دیں اور یونیورسٹی کو دنیا بھر میں مقبول کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔۔ مفتی محمد رمضان جامی روزنامہ 82 نیوز 17 ستمبر 2021 میں لکھتے ہیں
"ڈاکٹر صاحب انتہائی متقی پارسا شخصیت اور بے پناہ اوصاف کے مالک تھے۔ اللہ تعالی نے انہیں تحریر و تقریر میں بے مثال ملکہ عطا فرمایا تھا جو چند ہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے ۔انتہائی علمی گفتگو فرماتے تھے ۔چھوٹے چھوٹے جملوں میں انتہائی پر مغز کلام فرماتے، ہزاروں کے مجمع سے بھی خطاب فرماتے تو لوگوں پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا، عربی زبان و ادب پر گہرا عبور حاصل تھا آپ کو عربی نعت میں پی ایچ ڈی کرنے پر اللہ تعالی نے جو عزت عطا فرمائی تو ایک نمایاں اعزاز ہے آپ خطاب میں عربی دوانین کے اشعار پڑھتے اور فارسی زبان وادب گہرا لگاؤ رکھتے تھے"
آپ اپنے والد محترم علامہ بشیر الحق صدیقیؒ کے وصال 12 نومبر 1992کے بعد ان کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمانے لگے ۔18 جون 1995 کو آپ کی والدہ ماجدہ انتقال فرما گئیں۔یہ بھی آپ کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا۔ آپ کے برادر اکبر جناب محمد ابرار صدیقی ؒ 10 مارچ 2017 کو انتقال فرماگئے ۔جبکہ خواجہ محمد الیاس ؒ ان سے پہلے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے تھے ۔ آپ ہمیشہ صوفیانہ افکار کو اپناتے آپ پیر خادم حسین چوراہی چوراشریف کے دست حق پرست پر بیعت تھے ۔تصوف سے گہرا لگاؤ تھا ۔آپ نے ایک درجن سے زائد سیرت ،تصوف اور مختلف موضوعات پہ کتب تصنیف فرمائیں ۔
ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں " مجھے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طالب علمی دور میں جب کبھی موقع ملتا میں حضور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں اکتساب فیض کی غرض سے لائل پور حاضر ہوتا تو آپ کمال شفقت فرماتےکئی بار اپنے درس حدیث میں زانوئے تلمذ طے کرنے کا اعزاز بخشا۔" 1963 میں ان کے وصال پر آپ نے قومی و مقامی اخبارات و رسائل میں مضامین شائع کروائے۔ اور اپنی عقیدت کے پھول نچھا ور کئے ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صاحب نے اپریل 2002 میں مرکز تحقیق فیصل آباد کی بنیاد رکھی ۔جس کا پہلا صدر دفتر جامعہ قادریہ رضویہ ٹرسٹ فیصل آباد میں قائم کیا گیا۔مرکز تحقیق میں ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی رحمہ اللہ صدر صاحبزادہ عطاء المصطفی نوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نائب صدر ڈاکٹرعبدالشکور ساجد انصاری ؒ جنرل سیکرٹری منتخب ہوے اور پھر ملک بھر کے پروفیسرز،ڈاکٹرز اور دانشور حضرات مرکز تحقیق فیصل آباد کے پلیٹ فارم سے منسلک ہوگئے اورڈاکٹر صاحب کی قیادت پہ اطمینان کا اظہار کیا۔ مرکز تحقیق فیصل آباد کے پلیٹ فارم سے تقریبا نصف درجن سے زائد مختلف عنوانات پر ملکی سطح کے سیمینارز کا اہتمام کیا گیا۔ ان سیمینارز میں پیش کیے جانے والے مقالہ جات کو حتمی شکل دیکر شائع کیا گیامرکز تحقیق فیصل آباد کے قیام کے بعد ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی صاحب نے جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد میں درس قرآن کا آغازکیا۔ یہ درس قرآن جامعہ حنفیہ مدنپورہ میں بھی جاری رہتا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی رحمہ اللہ اور محسن اھل سنت صاحبزادہ عطاء المصطفی نوری رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان گہری محبت تھی۔ اس مثلث کا تیسرا زاویہ عاشقِ رسول جناب ڈاکٹر عبدالشکور ساجد ؒ تھے۔ اب یہ تینوں اکابرینِ امت اس دنیا میں نہیں رہے اور اپنے خالق کے حضور پیش ہو چکے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے تفسیر ضیاء القرآن کی تکمیل پہ ضیاء القرآن شریف کے اوصاف پر ایک مضمون لکھا جس کے آخر میں پیشین گوئی فرمائی کہ حضور ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے دماغ میں سیرت النبی پہ مشتمل کتاب کا مسودہ بھی موجود ہے جس کا متوقع نام ضیاء النبی ہوسکتاہے۔ یہ ان کا روحانی تصرف تھا ۔ بعد میں پیر کرم شاہ ؒ نے اسی نام سے سیرت النبی ﷺ تحریر فرمائی۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ملک پاکستان میں خانقاہی نظام کی بحالی کے لیے کوشاں رہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں موجود متعدد سلاسل کی خانقاہوں کے مشائخ کے ساتھ گہرا تعلق تھا انہوں نے تصوف کے موضوع پر کتب لکھیں متعدد تصوف سیمینار کروائے ۔ان کی زندگی میں مدن پورہ کی جامع حنفیہ مسجد ایک عظیم علمی روحانی اور مذہبی مرکز بن گئی جس میں مختلف تقریبات میں ملک بھر سے مشائخ عظام اور جید علمائے کرام تشریف لایا کرتے۔ ملک بھر کے نامور نعت خواں بھی ان کی محبت میں اس مسجد میں آتے اور نعتیہ نذرانے پیش کرتے رہے۔
ان کے نامور اور قابل فخر شاگرد جناب ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس جی سی یونیورسٹی فیصل آباد لکھتے ہیں۔ " ان کے پاس صدیقی اور فاروقی نسبتیں ضرور تھیں۔ زندگی بھر علم نافع پھیلانے کا تجربہ بھی تھا۔ مرکز تحقیق اور کئی دیگر اداروں کی سرپرستی کرتے ہوئے ’’فروغِ تحقیق‘‘ کی خدمت بھی، مگر یہ سارے اعزازات اور یہ ساری خدمات اپنی جگہ لیکن رب کے حضور وہ نبی کریمﷺکی محبت کو فروغ دینے والے، نفوسِ انسانی میں محبتِ رسول کی شمع جلانے والے، جن کی سطر سطر سے محبتِ رسول کی خوشبو آتی تھی۔ اور نفع بخشی آپ کا وطیرہ رہا۔آپ کی انسان دوستی کی صفت کا اعتراف سب نے کیا۔ شیخ محمد عنایت اللہ، سید ابوبکر غزنوی، پروفیسر عبدالقیوم، صوفی محمد ضیاء الحق اور علامہ علاؤ الدین صدیقی جیسے اساتذہ سے روحانی اور تعلیمی غذا حاصل کرنے والا محمد اسحاق قریشی کیوں نہ انسان دوستی اور انسان نوازی کی صفت سے مزین ہوتا۔ آپ کی تصانیف میں برصغیرپاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، عقائد وارکان، بہارِ چشت، جمال نقشبند، نفحاتِ سیرت، رفیق نبوت، نفحاتِ تصوف۔ اس کے علاوہ خطبات و مقالات کی طویل فہرست ہے۔ "
وہ ایک ثقہ ادیب اور دانش ور تھے۔ بے شمار کتب سیرت و نعت کے دیباچے تحریر فرمائے۔ وہ نعتیہ محافل، نعتیہ مشاعروں میں شرکت فرماتے اور نعت رسول ﷺ پر بھرپور خطبہ ارشاد فرماتے۔ ان کی گفتگو بہترین نثر اور انشا پردازی کی مثال ہوتی۔ ڈھلے ڈھلائے جملے، ادبی تراکیب ، تشبیہات سے مزین گفتگو،ان کی تقریر نثری نعت ہوتی تھی۔ وہ نثر مین شاعری کرتے تھے۔ ملک بھر کے ادیبوں اور شاعروں میں مقبول تھے۔ ملک بھر کی روحانی اور تصوف کانفرنسوں میں شرکت فرماتے۔ لاہور میں داتا گنج بخش ؒ کے عرس پر ہر سال متعدد تقریبات کے مرکزی مقرر ہوتے تھے۔ داتا گنج بخش ؒ یونیورسٹی کا قیام ان کا خواب تھا جو ابھی پورا نہیں ہوا لیکن ان شا ء اللہ پورا ہو جائے گا۔
16 ستمبر بروز جمعرات 2021 کو شام سات بجے فیصل آباد کے سب سے بڑے اقبال پارک میں آپ کی نماز جنازہ امین الملت جناب پیر امین الحسنات آف بھیرہ شریف نے پڑھائی۔ ہزاروں عاشقان رسول نے اس عظیم عاشق رسول کی نماز جنازہ ادا کی ۔ آپ کو اپنے والد اور والدہ کے پہلو میں بڑے قبرستان غلام محمد آباد فیصل آباد میں سپرد خاک کیا گیا
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
آپ کے صاحبزادگان میں جناب محمد امجد قریشی ایوب ریسرچ فیصل آباد میں ریسرچ آفیسر ہیں جبکہ دوسرے محمد عاصم قریشی محکمہ سوئی گیس سرگودھا روڈ فیصل آباد میں ہیں ۔ ایک بیٹی اسلامیات کی پروفیسر ہیں دوسری بیٹی ڈاکٹر ہیں ۔اب ان کے جانشین ان کے بھتیجے اور داماد جناب پروفیسر محمد سلیم صدیقی ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے ۔