واصف رضا واصف کے مضامین و مقالات
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی کیف ِنعت سے سرشار ثنا گو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
از : مداح رسول مولاناواصف رضا واصف مصباحی
فروغِ نعت کےلیے متحرک وفعال رہنے والے سید صبیح الدین رحمانی صاحب کایہ کہنا بالکل بجااورحق بجانب ہےکہ ’’یہ صدی نعت کی صدی ہے‘‘اس میں کوئی تشکیک و ریب کی گنجائش نہیں، بلکہ کامل وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس تواتر اور کثرت کے ساتھ لوگ نعت سے مربوط اور نعتیہ ادب کے فروغ و ابلاغ کے لیے کمر بستہ ہیں اس کی نظیر نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔
یہ ترقی اور افزائش کا ہی ثمرہ ہے کہ جگہ جگہ نعت سینٹر، نعت لائبریری اور نعت اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا، اس پر مستزاد نعت پر تحقیقی ، تنقیدی ، تعمیری ، موضوعاتی ، تخییلی اور اسلوبی اعتبار سے کام کرنے کی ہموار راہیں بھی اس صدی کی مرہون منت ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کی مدح نگاری جہاں مکمل حزم و احتیاط چاہتی ہے وہیں خوش گوئی اور خوش نویسی پر اجر و ثواب بھی وافر مقدار میں عطا کرتی ہے۔ ثنا نگار ہمہ دم ایک لطیف کیف سے فرح و نشاط حاصل کرتا رہتاہے۔ اور اس کا پرند ِ خیال سبزشہر، سبز زمین یعنی دیارِ نور سے مضامینِ نعت کے حصول کےلیے محوِ پرواز رہتا ہے۔ یہ بڑا خوش گوار احساس ہے اور بڑی سعادت کا پیش خیمہ ہے۔
ایک ہوتا ہے نعت کہنا اور ایک نعت کی کیفیت میں رہنا، پہلا شخص جب نعت کہتا ہے تو اسے اپنے خیال کو خوب مہمیز اور انگیخت کرنا پڑتاہے۔ مگر جب نعت کے کیف میں رہنے والا شعر کہنا چاہتا ہےتو اسے کوئی تأمل و تأخر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، وہ بڑی آسانی سےنعتیہ سفرطےکرتا رہتا ہے۔
ان فیروز مند شعرا کی فہرست میں یعنی کیفیت ِ نعت میں رہنے والے حضرا ت میں ادیبِ شہیر ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی ، مالیگاؤں کانام بڑا روشن و درخشاں نظر آتا ہے۔ مشاہدؔ صاحب گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔بیک وقت اچھے ادیب ، بہترین نثرنگار ، بالغ نظر ناقد، خوش خصال انسان اور زود گوشاعر ہیں۔ مگر ان کی شاعری کامرکز و محور فقط مدحت ِرسول اکرم ﷺ ہے ، ان کی کل متاعِ شاعری صرف ثناے رسول اکرم ﷺ ہے۔ وہ خوب شعر کہتے ہیں۔بڑی سرعت سے کلام کی تکمیل کرتے ہیں۔ مگر وہ جب کہتے ہیں حضور کے حسن وجمال، گیسوے عنبریں،قامت ِزیبا،دست ِکرم ، نعلینِ نور بار، لہجۂ جاں بخش ، صفات و کمالات ، معجزات و عنایات ، کرم گستری ، بندہ پروری، حسنِ سلوک ، حسنِ کردار کو زیب ِ نعت کرتے ہیں ۔ اگر دوجملے میں کہا جائے تو مشاہدؔ صاحب کی شاعری میں موضوعِ سیرت کی دیدہ زیبی اور فکر و نگاہ کو جِلا بخشنے والی رنگارنگی ہے۔
وہ اپنے کلام کی ہیئت اور ساخت اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ قاری کو کلام کے اختتام پر سیرت کانور ، عشق کا وفور ، شعور بیدار کرنے کی تحریک اور خود احتسابی کاجذبہ بھی ملتاہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پڑھنے والا ایک نرم و گداز کیفیت سے سرشار بھی ہوتاہے۔نمونۂ کلام دیکھیں :
راہِ سنن پہ چلنے کی عادت کہاں گئی
یعنی رسولِ پاک سے الفت کہاں گئی
دعویٰ بِلا دلیل ہے عشقِ رسول کا
قول و عمل میں اُن کی شریعت کہاں گئی
جب دور ہوگئے ہو شہِ خوش خصال سے
کیوں پوچھتے ہو عظمت و شوکت کہاں گئی
نازاں تھا ذہن و فکر مسلماں پہ کُل جہاں
افسوس اب وہ فہم و فراست کہاں گئی
مذکورہ اشعار میں ڈاکٹر محمدحسین مشاہدؔ رضوی نے کس خوش اسلوبی اور درد انگیز لہجے میں خود احتسابی کی دعوت دی ہے وہ دیکھے بھی بنتا ہے اور سیرت آشنائی کے قریب بھی کرتاہے۔
مشاہدؔ صاحب کی پوری کوشش رہتی ہے کلام بڑے سادہ عام فہم اور سلیس انداز میں ہو پیچیدہ تراکیب ، مغلق تشبیہات ،اور گنجلک اندازسے حتیٰ المقدور اجتناب کی کوشش رہتی ہے۔ درج ذیل اشعار میں ہیئتی سادگی اور مضامین کی بلندی دیکھیں:
خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
شہرِ مکہ تھا شہرِ طیبہ تھا
نامِ اقدس کے اک تصور سے
حیطۂ جاں میں نُور اترا تھا
آپ آئے تو نورِ حق پھیلا
ہرسُو باطل کا گھپ اندھیرا تھا
شمعِ الفت جلائی آقا نے
ہر طرف نفرتوں کا شہرہ تھا
اُن کے صدق و صفا امانت کا
دشمنوں میں بھی خوب چرچا تھا
مزید اشعار دیکھیں:
جب بھی کرتا رہا وردِ صل علیٰ نعت ہوتی رہی بات بنتی رہی
مجھ پہ ہوتا رہا فضلِ رب العلیٰ نعت ہوتی رہی بات بنتی رہی
دن نکلتا رہا ذکر کرتا رہا ، میں دُرود آپ پر روز پڑھتا رہا
رات ڈھلتی رہی نام لیتا رہا نعت ہوتی رہی بات بنتی رہی
حیطۂ جاں میں خوشبوئیں بستی رہیں ، بزمِ احساس میں شمعیں جلتی رہیں
نور ملتا رہا شہرِ پُرنور کا نعت ہوتی رہی بات بنتی رہی
راندۂ در کو معتبر نہ سمجھ
دُزدِ ایماں کو راہ بر نہ سمجھ
وہ ہیں احوالِ قلب سے واقف
بے خبر اُن کو بے خبر نہ سمجھ
نورِ عشقِ نبی نہ ہو جن میں
اُن چراغوں کو معتبر نہ سمجھ
پورا قرآں ثناے احمد ہے
اُن کی مدحت کو مختصر نہ سمجھ
اُن کے آداب سے جو خالی ہوں
ایسے سجدوں کو کارگر نہ سمجھ
میری منزل دیارِ طیبہ ہے
ناصحا، مجھ کو دربدر نہ سمجھ
ذوقِ مدحت ملا مشاہد کو
ناقدا، اِس کو بے ہنر نہ سمجھ
نورِ سرکار ہے جب باعثِ امکانِ حیات
اس کے صدقے میں رواں کیوں نہ ہو شریانِ حیات
جن کے نعلینِ کرم کی ہیں ضیائیں پھیلیں
ان کی یادوں سے درخشاں ہے شبستانِ حیات
کامیابی نے لیے اس کے قدم کے بوسے
ان کی سیرت سے کیا جس نے بھی عرفانِ حیات
آخری خواہشِ ایمانی یہی ہے میری
جاکے طیبہ میں ہی ٹوٹے مرا پیمانِ حیات
قارئینِ کرام پر چند نمونۂ کلام اور اشعار سے خوب واضح ہوگیاہوگا کہ ان کاشعری اور فکری اسلوب کیساہے، وہ کس پیراے اور کس فارم میں نعت کہتے ہیں۔ ہم ایسے لہجے ایسے رنگ اور اسلوب کی پذیرائی کرتے ہیں اورتہہ دل سے اپنے بلنداقبال شاعر کو ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کرتے ہیں۔
نعت کے اس ارتقائی و عروج پذیر دور میں ہر نعت گو سے مزید بہتر سے بہتر اور نعت کے باب میں تازہ کاری ، نت نئے عناوین وموضوعات جذبوں کی صداقت کو دلکش انداز میں شعری پیرہن دینے اور مدحتِ رسول ﷺکرتے ہوئے سیرت کےپہلو پر بھی روشنی ڈالنے کی امید کرتے ہیں:
جب جب رہِ حیات میں کلفت کو دیکھنا
پڑھ کر دُرود سایۂ راحت کو دیکھنا
تعلیمِ نعتِ سیدِ کونین ہے یہی
قرآن میں رسول کی عظمت کو دیکھنا
جب جب مشقتوں سے تجھے سابقہ پڑے
محبوبِ کردگار کی سیرت کو دیکھنا
تاعمر سنتوں پہ عمل کر خلوص سے
پھر اپنی گورِ تیرہ میں طلعت کو دیکھنا
دعا ہے کہ باغِ حجاز کا یہ خوش نوا عندلیب فضاے نعت میں تادیر اسی طرح ہمہ دم ہمہ تن نغمہ سنج رہے، آمین ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!
از:واصف رضاواصف مصباحی مدھوبنی بہار