نور نامہ ۔ ملاں
نور نامہ سراِئیکی شاعری کی پہلی دستیاب کتاب ہے ۔ یہ ایک طویل نعتیہ نظم ہے ۔ مصنف کے حالات زندگی کے بارے کوئی نہیں جانتا تاہم یہ معلومات حاصل ہیں کہ اس کے شاعر نے ملاں تخلص اختیار کیا ۔ اس کا اندازہ اس شعر سے ہوتا ہے ۔
پنج سو سال جو گذرئیے آ ہے ہجرت باجھ رسولاں ملاں کہے غریب وچارا کم علماواں کولوں
محققین اس کاسنِ تصنیف 500ھ بتاتے ہیں جبکہ معروف محقق حافظ محمود شیرانی کا کہنا ہے کہ یہ ’’نورنامہ ‘‘ 752ھ میں سامنے آیا ۔ ڈاکٹر نصراللہ خان ناصرنے اسی شعر کو اس نور نامے کے سنِ تصنیف500 ھ کے جواز کے طور پر درج کیا ہے۔اس نورنا مہ کی زبان صاف اور اسلوب متاثر کن ہے،واقعہ ء معراج کے حوالے سے چند اشعار دیکھیے:
ہویا سوار براق دے اُتے ونج چڑھیا اَسمانے
حضرت تائیں ظاہر کیتس کل اسرار خزانے
نو اسمان کیتے رب پیدا ہر اَسمانے چڑھیا
گنبد عرش ٹکانیں ہویا قدم نبی ؐجاں دھریا
ساز وضوں ڈوں نفل رکعتاں ترت گذار سدھایا
کُنڈی پانڑی ہلدے آہے جاں پھر سجدے آیا
ترجمہ:’’حضورؐبراق پر سوار ہو کر آسمان تک پہنچے تو اللہ تعالی نے انؐ پر تما م اسراراور خزانے ظاہر کر دیے،سرکار دوعالمؐ نے مسجد اقصی میں دو رکعت نماز نفل پڑھائی،پھرآپ ؐ عرش پر تشریف لے گئے اور تمام آسمانوں کی سیر کی ۔اس سفر میں اتنا ہی وقت لگا کہ جب حضورؐ واپس تشریف لائے تو ابھی تک وضوکا پانی بہہ رہا تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی‘‘۔
مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نور نامہ - ملاں | نور نامہ - امام الدین بھکوی | معراج نامہ - میاں قبول | معراج نامہ - دودے شاہ | حلیہ مبارک - اعظم چانڈیو | معراج نامہ - پیارا شہید | معراج نامہ - میاں قادر یار | معراج نامہ - حافط محمد یار |