نعت اورحبُ رسول کے تقاضے(ایک گفتگو) ۔ احمد جاوید
مقالہ نگار : احمد جاوید۔لاہور
برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26
نعت اورحبِ رسول کے تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
معروف دانشور اور مذہبی اسکالر جناب احمد جاوید لاہورسے کراچی تشریف لائے تو انھوں نے 28 ؍اگست 2016 کی شام کراچی پریس کلب میں ایک طرحی مشاعرے میں شرکت فرمائی۔نعت پیش کرنے سے قبل منتظمین کے اصرار پر انھوں نے نعت اور اظہارِ حبِ رسول کے تقاضوں پربھی مختصراً گفتگو فرمائی۔ نعتیہ ادب میں احتیاط کے پہلوؤں پر مبنی چند نکات توجہ طلب ہیں چناں چہ احمد جاوید صاحب کے خطاب کا متن نعت رنگ میں پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
حسنِ اظہار کے بغیر سچائی کا بیان ہو بھی جائے تو وہ ادھورا رہتا ہے اور بعض مرتبہ مضر نکلتا ہے۔ نعت گوئی کے کچھ فنّی آداب اور اس کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلق کے روحانی اور معاشرتی مظاہر کیا ہیں؟ ایک مختصر سی گفتگو کرکے میں رخصت چاہوں گا۔ مسلمانوں کے احساسات و جذبات کا سارا نظام دو ستونوں پر بنی ہوئی عمارت کی طرح ہے۔ یعنی مسلمان اپنی افتاد طبع میں اور اپنے بنیادی مزاج میں دو احوال کا حامل ہوتا ہے، اور ان دو احوال کو اپنے اندر رکھنا اور اپنے مسلمان ہونے کے احوالی اسباب ہونے کی حیثیت سے انھیں تسلسل سے رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایمان لانا! کیوں کہ یہ ایمان کے شاہد ہیں۔ تو وہ جو دو احوال جن سے مسلمانوں کا سارا نظامِ جذبات و احساسات چل رہا ہے وہ ہیں خشیت الٰہی اور حبّ رسول! تو یہ دو چیزیں اگر ہمارے مزاج میں بنیادی محرکات کے طور پر موجود ہیں تو ہم نے گویا رسول اللہ کا عاجز مگر سچّا امتی ہونا کوالیفائی کرلیا۔ یعنی رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جن جن جہتوں سے مزّکی بنا کر بھیجے گئے تھے... تزکیہ کہتے ہیں ہدایت پر نفس کا راضی ہوجانا، ہدایت پر نفس کا مطمئن ہوجانا، یہ تزکیہ ہے۔ اور رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس تزکیے کے واحد ضامن تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جس ایک خاص جہت سے اپنے خدّام کا تزکیہ فرمایا کرتے وہ ایک جہت یہ ہے کہ نفس کے غالب ترین احوال کی حیثیت سے وہ اﷲ کی خشیت اور اﷲ کے رسول کی محبت کو اپنے تمام احساسات و جذبات کی اصل بنانے کے لائق ہوجایا کرتے تھے۔
میرے خیال اور میری ناچیز رائے میں ہمارے تنزل، انحطاط اور ہماری ہر درجے پر شرمندہ کردینے والی بے بسی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلق باﷲ اور تعلق مع الرسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یہ بنیادی فطری تقاضے نظر انداز کررکھے ہیں حتی کہ ہماری دینی تعلیم کے نظام میں بھی ان بنیادی احساسات کی تخم کاری اور ترویج کا وہ اہتمام نہیں ہے جو رسول اﷲ کی مجلسوں میں پایا جاتا تھا۔ کیوں کہ انسان جس چیز کو اہمیت و وقعت دیتا ہے ، یعنی انسان کی بناوٹ ایسی ہے یہ جس چیز کو بہت ضروری بہت اہم سمجھ کر قبول یا اختیار کرتا ہے، یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کے احساسات کا نظام اس چیز پر نہ چلے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اﷲ کو مانوں اس کی شان کے ساتھ، اﷲ کے رسولصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لاؤں آپ کی شان کے ساتھ اور وہ ان دونوں ہستوں سے تعلق کے احوال ، احساسات اور جذبات سے محروم رہ جاؤں۔ مطلب یہ انسان کی بناوٹ کے خلاف ہے۔ یہ غیر فطری ہے۔ گویا اﷲ سے نہ ڈرنا اور رسول اﷲ پر ہر سانس کے ساتھ نثار ہوتے نہ رہنا یہ غیر فطری ہے۔ یعنی اس کا غیر دینی اور غیر عقلی ہونا بعد میں دیکھا جائے گا ، یہ غیر فطری ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اﷲ کرے کہ رسول اﷲ پر ایمان اور آپ کی کامل اتباع کے سچے عزم کے ساتھ اس کی بدولت ، اﷲ تعالی ہمیں یہ دو بنیادی احوال مرحمت فرما دیں کیوں کہ جیسا انیق احمد کہہ رہے تھے اس پر مسلم انفرادیت ، مسلم اجتماعت اور مسلم ریاست سب کا دار ومدار ہے۔ اور جو انھوں نے بہت اچھی بات فرمائی کہ انسانوں کا معاشرتی آئیڈیل مساوات رہا ہے۔ یعنی انسانوں نے بہتر معاشرے کے لیے جو سب سے زیادہ بڑا خواب دیکھا ہے اس خواب کا عنوان مساوات ہے وہ کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ یعنی مساوات انسانی معاشرے کی بہترین صورت کا وہ آئیڈیل ہے جو ہمیشہ ذہن میں رہا کبھی عمل میں نہ آسکا۔ لیکن رسول اﷲ نے انسانوں کو ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے کا جذباتی ، ذہنی اور عملی بھائی بنا کر دکھا دیا یعنی رسول اﷲ نے مساوات کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے آئیڈیل مؤاخات کو عمل میں لا کر دکھا دیا۔ مواخات کو عمل میں لانے کا جو بے نظیر کارنامہ ہے وہ رسول اﷲ نے ان دو احساسات کو اپنے ماننے والوں کا مدارِ وجود بنا کر برپا کیا۔ لوگ ایک دوسرے کے بھائی بھائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی محبت سے ہوگئے تھے یہ آپ کی محبت ہے جو آپ کے امتیوں کو ایک دوسرے کا ایسا بھائی بنا سکتی ہے کہ نسبی بھائی بعد میں آئے گا یہ نسبتی بھائی پہلے آئے گا۔
تو یہ وجہ ہے کہ رسول اﷲ کی محبت آپ سے محبوبیت کا شرف حاصل کرنے کے لیے نسب کوئی Final (حتمی) یا decisive(فیصلہ کُن) چیز نہیں تھا ، نسبت بنیادی چیز تھی۔ یہ نسبت ہے جو بلال حبشیؓ کو سیدنا عمرفاروق اعظمؓ کی زبان اقدس سے ’’سیدنا‘‘ کہلواتی ہے۔ ہم اگر بس اس نسبت کو اپنے وجود کے بہترین احوال کے ساتھ قبول کرلیں تو امید ہے کہ کم از کم اگر ہم ریاست اسلامی نہ بنا سکے ، معاشرہ اسلامی بنانے میں یقیناً کام یاب ہوجائیں گے۔ مسلمانوں کی معاشرتی وحدت و مواخات حب رسول کی زندہ ، جیتی جاگتی بنیاد پر، یہ ہمارا آئیڈیل ہے اور اس آئیڈیل کو آسانی سے عمل میں لانے کا یہ راستہ ہے کہ اﷲ سے ڈرنا سیکھو اور رسول اﷲ پر مرنا سیکھو۔
دوسری بات نعت گوئی کے ایک دو لوازم کے بارے میں۔۔۔ کیوں کہ یہاں سب بہت کہنہ مشق ، قادر الکلام اور صاحبان کیفیات شعرا بیٹھے ہوئے ہیں تو ان کو اس کی ضرورت نہیں ، ویسے ہی کہہ رہا ہوں۔۔۔ نعت کے چند ضروری عناصر ہوتے ہیں، جن کو بالکلیہ نظر انداز کرکے نعت وجود میں نہیں آسکتی۔
ایک یہ کہ نعت رسول اﷲ کی جناب میں اظہار محبت ہے اﷲ کے شکر کے ساتھ! یعنی اﷲ تبارک و تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اس دنیا ہی میں نہیں ، اﷲ نے جنت میں پہنچایا تو وہاں بھی۔ دنیا و آخرت میں اﷲ کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت رسول اﷲ خود ہیں۔ دنیا میں رہیں گے تو دنیا کا مرکز ہیں ، جنت میں رہیں گے تو جنت کا مرکز ہیں۔ اور جنت کی کوئی بھی چیز رسول اﷲ کے ہم پلہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے دعا کرو کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمارے گناہ بخشے اور ہمیں رسول اﷲ کی مشفقانہ شفاعت کا مستحق بنائے اور کیا عجب ہے کہ ہمیں رسول اﷲ سے مرافقت کی توفیق بھی جنت میں مل جائے کہ جنت کی سب سے بڑی دو نعمتیں ہیں؛ رویت باری تعالیٰ اور معیت رسول اﷲ ۔ تو یہ دونوں نعمتیں حاصل کرنے کی تیاری کرو! دل کے لیے اﷲ سے ڈرنا لذیذ بنا دو ، دل کو اﷲ کی خشیت کی طرف راغب اور مائل کرو کسی احساسِ جبر کے بغیر۔ اور اسی طرح رسول اﷲ کے عاشق بننے کی بجائے رسول اﷲ کے عاشق ہونے کا ثبوت دو! اﷲ مجھے اور آپ کو ، سب کو توفیق عطا فرمائے۔ نعت کے جو ضروری عناصر ہیں ان میں سے ایک اظہار محبت ہے اپنی اوقات میں رہتے ہوئے۔ کیوں کہ رسول اﷲ انسانوں کے درمیان جاری نظامِ عشق و محبت میں نہیں آتے۔ آپ نعوذباﷲ، نعوذباﷲ کوئی عام محبوب نہیں ہیں۔ رسول اﷲ سے بیٹوں کی طرح محبت نہیں ہوسکتی، رسول اﷲ سے والدین کی طرح محبت نہیں ہوسکتی، رسول اﷲ سے کسی بھی محبوب کی طرح کی محبت نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ رسول اﷲ کی محبت میں بھی ایک زور وحدت ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یعنی اس میں کسی کو شریک نہیں رکھا جاسکتا۔ تو رسول اﷲ کی محبت ہے ایک ناچیز امتی کے دل کی سب سے بڑی متاع جو وہ اپنی بے بضاعتی کے باوجود سرکار دوعالم کی خدمت میں پیش کرنے کا شوق رکھتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ میرا یہ جو ناچیز سا تحفہ ہے وہ اس بارگاہِ سخاوت میں ، اس بارگاہ فیاضی میں ، بارگاہ رحمت میں اﷲ کی تائید کے ساتھ قبول ہوگا۔ مطلب یہ کہ اظہار محبت بھی محبت کے عمومی اسالیب میں نہیں ، اپنی اوقات میں رہتے ہوئے اور آپ کے محبوب خدا ہونے کے مرتبے کو نظر میں رکھتے ہوئے۔ رسول اﷲ کے لیے یہ تو کوئی لقب ہی نہیں کہ آپ محبوبِ امت ہیں، کبھی یہ استعمال نہیں ہوا کیوں کہ یہ تو آپ کی کسر شان ہے۔ آپ کے لیے لقب ہے محبوبِ الہ ، محبوب خدا، محبوب جبرئیلؑ ۔ تو مطلب یہ کہ جو خدا کا محبوب ہو اس کے عاشق کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔ اﷲ بڑا غیرت والا ہے ، بڑا حمیت والا ہے وہ اپنے محبوب کے حضور میں کسی بھی ضروری حد سے تجاوز قبول نہیں فرمائے گا۔
دوسرا یہ ہے کہ نعت میں ایک بحری حمدیہ رو بھی دوڑنی چاہیے کہ یا اﷲ تیرا احسان ، یا اﷲ تیرا شکر کہ تونے مجھے اپنے حبیب مکرم کا امتی بنایا ، کہ تو نے مجھے آخرت کے لیے پُرامید رہنے کا سبب عطا فرمایا۔ اگر رسول اﷲسے تعلق نہ ہو تو اپنی آخرت کے لیے پُرامید رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا، ٹھیک ہے نا؟ تو یہ جو ایک تشکر کی رو ہے یہ نعت کو گویا اس کی معنوی اٹھان عطا کرتی ہے۔ کیوں کہ رسول اﷲ ایسی نعمت عظمی کی قدر کرتے ہوئے میں نعت لکھ رہا ہوں اور اس نعمت کو دینے والے کے تشکر کے اظہار کا راستہ اس نعت میں نہیں مل رہا تو یہ بڑی کمی کی بات ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اگر کوئی کہے کہ اﷲ کے لیے کوئی ایسا لقب بتا دو کہ جس میں اس کی تمام صفات جمیلہ و جلیلہ شامل ہوجائیں، اﷲ کی شان میں ایسا ایکPhrase(فقرہ) بنا دو تو میں کم از کم کہوں گا وہ Phrase ہے الہِٰ محمد۔ اﷲ کے وصف کو اپنی انتہائی بلندی پر اگر بیان کرنا چاہو تو اسے کہہ دو ’’الہِٰ محمد‘‘ اب اس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی شان گویا اطمینان ہوجاتا ہے کہ ہم نے بیان کردی۔ تو اسی طرح رسول اﷲ ۔۔۔ اﷲ اور اس کے رسول کے درمیان تعلق کا ایک لاشریک مزاج ہے، اس میں وہ کسی کو مداخلت نہیں کرنے دیتا، نہ اﷲ نہ اﷲ کے رسول۔ تو اﷲ اس سے خوش ہوگا کہ اسے الہِٰ محمد کہا جائے، رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس بات سے خوش ہوں گے کہ انھیں عبداﷲ کہا گیا ہے۔۔۔ رسول اﷲ کی ہر شان بندگی کے دائرے میں بیان ہوگی۔ اﷲ تبارک و تعالی کی ہر شان الوہیت کے درجے میں بیان ہوگی، تو اس میں اختلاط نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی رسول اﷲ کو اﷲ کی بندگی سے الگ کرکے ڈیفائن کرنے کی جو بھی کوشش ہوگی وہ اﷲ کو بعد میں رسول اﷲ کو پہلے ناراض کرے گی۔ تو میری محبت کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ مجھے اپنے منہ زور جذبات کی تسکین سے زیادہ اپنے محبوب کی خوشنودی عزیز ہونی چاہیے۔ نعت گوئی کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اپنے جذبات محبت کی تسکین میرا موضوع نہیں ہے، یہ تو شرک کے برابر ہے کہ میں اپنی تسکین چاہتا ہوں اﷲ کے رسول کی تعریف کرکے۔ یہ تو گویا اپنے لیے کہا گیا ناں؟ اس میں مطلب سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خوش ہوجائیں۔ آپ کا معبود راضی ہو جائے، آپ خوش ہوجائیں۔ تو اﷲ نے بھی اپنی محبت کی انتہا پر ’’عبدہٗ‘‘ کہا، اسی طرح رسول اﷲ بھی اپنے تعارف کا انتہائی کلمہ عبداﷲ ہونا بتاتے ہیں۔ یہ شان بندگی ہمارے لیے تو شرف ہے ہی رسول اﷲ کے لیے بندگی نعوذباﷲ کوئی نقص تھوڑی ہے ، یہ تو اﷲ کی طرف سے دیا گیا سب سے قیمتی تحفہ ہے جو اﷲ نے خاص رکھا اپنی کتاب میں۔ تو اس تحفے کو رسول اﷲ کے دستِ عظمت سے چھیننے کی کوشش نہ کرو، یہ چھیننے کی کوشش ہے۔
یہ دو آداب فنی اہتمام کے ساتھ ، لفظ پر مناسب قدرت کے ساتھ ، جمالیاتی شعور کی مناسب تربیت کے ساتھ اگر ہم دو یہ آداب نعت گوئی کے عمل میں رسول اﷲ کے دکھائے اور بتائے ہوئے معیار تک لے جائیں تو ہم نے گویا نعت گوئی کی روایت کو رسول اﷲ کے ساتھ تعلق کی روایت کا سب سے کار گر اور مؤثر مظہر بنا دیا۔ نعت گوئی کی روایت اگر اخلاص اور درست محبت کے ساتھ پروان چڑھ جائے ، رواج پکڑ جائے تو رسول اﷲ سے تعلق رکھنے والے احساسات و جذبات کسی بھی تحریر کسی بھی لٹریچر کے مقابلے میں جلدی منتقل ہوجائیں گے۔ تو نعت گو حضرات اور نعت خواں حضرات دونوں پر یہ فریضۂ دعوت عاید ہوتا ہے کہ وہ رسول اﷲ کے ساتھ تعلق کے لیے درکار احساس کو پھیلائیں اپنے سامعین و مخاطبین میں مگر ان شرائط کے اندر رہتے ہوئے۔