عبد الماجد دریا آبادی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


نعتیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بشکریہ : رحمان حفیظ


پڑھ صلِّ علیٰ حق کے محبوب کی ہوں باتیں

رحمت کی گھٹائیں ہوں اور نور کی برساتیں


وعدے ہیں شفاعت کے تسکین کی ہیں باتیں

آقائے دو عالمؐ کی دیکھو تو مداراتیں


غم خوارئ امت سے اک آن نہیں غافل

ظاہر میں تو ہے پردہ پردے میں ملاقاتیں


محشر میں اماں پائ صدقے میں درودوں کے

دشواری میں کام آئیں بھیجی ہوئ سوغاتیں


اک نامِ مبارک اور ورد درودوں کا

سارا یہی توشہ ہے کل ہیں یہی سوغاتیں


دارین کے کیا جلوے فردوس کے کیا نقشے

سب کا وہی دلہا ہے سب اس کی ہیں باراتیں


دیدار کی حسرت ہے اور نام کی رٹ ہر دم

اس شغل میں دن گزرے اس دھن میں کٹیں راتیں


مجھ نامہ سیہ پر بھی رحمت کی نگہ ہو جائے

وابستہ نگاہوں سے ہیں لاکھوں کراماتیں


ہم نامِ پیمبرؐ میں ہے اتنا اثر اب بھی

یونان کو دی ذلت شیطان کے دی ماتیں ٭

(مصطفاٰ کمال پاشا کے ہاتھوں یونان کو شکست کی جانب اشارا ہے )


(2)

پڑھتا ہوا محشر میں جب صل علیٰ آیا،

رحمت کی گھٹا اٹھی اور ابر کرم چھایا،


جب وقت پڑا نازک اپنے ہوئے بیگانے،

ہاں کام اگر آیا تو نام تیرا آیا،


پرسش تھی گناہوں کی اور یاس کا تھا عالم

بے کس کی خبر لینے محبوبِؐ خدا آیا


یہ نام مبارک تھا یا حق کی تجلی تھی،

دم بھر میں ہوا فاسق ابدال کا ہم پایا،


چرچے ہیں فرشتوں میں اور رشک ہے زاہد کو،

اس شان سے جنت میں شیدائے نبی آیا،


ایک عمر کی گمراہی ایک عمر کی سرتابی،

جز تیری غلامی کے آخر نہ مغر پایا،


حکمت کا سبق چھوڑا، عزت کی طلب چھوڑی،

دنیا سے نظر پھیری سب کھو کے تجھے پایا،


فاسق کی ہے یہ میت، پر ہے تو تیری امت،

ہاں ڈال تو دے دامن کا اپنے ذرا سا یا