دور حاضر میں نعت گوئی کے تقاضے
مضمون نگار: مجیداختر
برصغیر میں نعت گوئی کی تاریخ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نعت گوئی کا عمومی مقصد جنابِ رسالتمآب کی تعریف و توصیف اورلکھنے، پڑہنے اور سننے والوں کیلئے حصولِ ثواب ہوا کرتا ہے ۔ ماضی قدیم سے لیکر اب تک، شعرا بطورِ خاص نعت گوئی کو اپنے لئے باعثِ فخروسعادت سمجھتے آئے ہیں ۔ برصغیر میں پہلے پہل صوفیا و مشائخ نے تبلیغِ دین کا فرض ادا کیا ۔ ان کے ہاں رسولِ مکرم ص سے بے انتہا عقیدت پائی جاتی تھی اور ایامِ ولادتِ رسولِ اکرم ص کے موقع پرمحافلِ میلاد کا انعقاد ایک بہت بڑا دینی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ فارسی بطورسرکاری زبان رائج تھی ۔ بیشتر صوفیا خود قادرالکلام شعرا تھے۔ لہٰذہ سماع کی محافل میں یہ کلام پیش کئے جاتے ۔ نظام الدین اولیا کے چہیتے مرید امیر خسرو نے یہ اجتہاد کیا کہ ہندی زبان میں مذہبی کلام کہے اور انہیں عوام الناس میں رواج دیا ۔
برصغیر میں نعت گوئی کا فروغ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
برصغیر کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی اور قومی منظر نامے کے تحت علامہ اقبال، الطاف حسین حالی ومولانا ظفرعلی خاں تک آتے آتے نعت صرف عقیدت کا پیرایۂ اظہار نہیں رہی بلکہ ایک مقصد اور ایک پیغام بھی ساتھ لے کر چلی ۔ کم و بیش اسی دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں میں کچھ طبقات نےایک نئی فکر کو فروغ دیا جس کے تحت نعت گوئی اور محافلِ میلاد کے انعقاد و اہتمام کا شعار اتنا اہم نہیں تھا ۔ نتیجتاً ایک طبقہ جو اس روش کا معتقد اور اس پہ عمل پیرا تھا، ان کے ہاں اپنے عقائد کے تحفظ ، تائید اور فکرِ جدید کے رد کیلئے مزاحمتی اور طنزیہ مضامین نعت کا حصہ بنے جو ایک بڑی حد تک اب بھی رائج ہیں اور محافلِ میلاد میں ایسے مضامین قلمبند کرنے والے شعرا یا پڑھنے والے نعت خوانوں کی خوب پذیرائی ہوا کرتی ہے زمانہٗ رسالتمآب سے لیکر دورِ حاضر تک نعت گوئی شعرا کا شعار رہا ہے۔ ۔
دورِ حاضرمیں نعت گوئی کے تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ہر دور کے سماجی وملّی تقاضے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ یہ دیکھنا اور سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ جن شب و روز سے ہم گزر رہے ہیں اور جن حالات کا ہمیں سامنا ہے ان میں نعت گوئی کی کیا صورت ہونی چاہئے۔ عقلمندی، دور اندیشی اوردانشوری اس امر کی متقاضی ہے کہ عصرِ حاضر کے معاملات اور نزاکتوں کو سمجھا جائے اور پھر کوئی راہ متعین کی جائے ۔دورِ حاضر میں ہمارے ملک کی مذہبی فضا ایک مہیب تناؤ اکا شکار ہے ۔ اس تناؤ کے دور میں نعت گو حضرات کی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو ہونی بہت ضروری ہے ۔ یہ تو طے شدہ امر ہے کہ ۔۔۔۔ میرے مولا بلالو مدینے مجھے ۔۔۔۔ یا اس قسم کے افتادہ پا مضامین کا ترک لازم ہے دوسرے یہ کہ فرائض و سنن و نوافل سے لیکر مساجد اور قرآنِ پاک کی تفسیر تک قوم بہت سے واضح اورمتصادم دھڑوں میں بٹ چکی ہے ۔ ایسے میں ایک نعت کی صنف ہے جو قومی سطح پر بہت مضبوط نہ ہونے کے باوجود ابھی تک مختلف الفکر طبقات کو متحد رکھے ہوئے ہے ۔میرے نزدیک ہماری ذمہ داری ہے کہ نعت کواس کشمکش اور فرقہ واریت سے بچا لیا جائے ۔ اس مرحلہٗ دشوار پرمیرے فاضل قارئینِ کرام مجھے اجازت دیں کہ ذرا کھل کر بات کی جائے ۔نعت گو حضرات کو چاہئیے کہ
- افراط و تفریط سے بچیں ۔
- صرف وہ مضامین باندھے جائیں جو کتبِ سیئر سے ثابت ہیں اوربغیر کسی مخالفت کے قبولِ عام رکھتے ہیں اور جن سے رسولِ گرامی قدر کی محبت و عقیدت دلوں میں بڑھنے کی راہیں کھلتی ہوں ۔
- ان مضامین سے پرہیز لازم ہے جن سے کسی خاص طبقے کے عقائد کا پرچارہوتا ہو۔ خاص طور پر متصادم خیالات و روایات سے بچنا ضروری ہے ۔
- نعت کو صرف ذکرِ فضائلِ رسالتمآب ہی تک محدود رکھا جائے ۔ یہ امر اسلئے بھی ضروری ہے کہ میں دیکھ رہاہوں کہ اس امر میں احتیاط نہ برتی گئی تو بہت جلد نعت بھی ہماری اور تمہاری ہوتے ہوتے فرقہ واریت کا شکار ہوجائے گی ۔ لہٰذہ اس امر کا اہتمام وقت کی اشد ضرورت ہے کہ نہ شعرا اہلِ بیتِ عظام کے مناقب نعت میں رقم کریں نہ ہی اصحابِ ثلاثہ کے فضائل موضوع بنائے جائیں ۔
- ان روایات کو نظم نہ کیا جائے جو ایک خاص مکتبِ فکر کی ترجمانی کرتی ہوں ۔ احباب بخوبی جانتے ہیں کہ میرا اشارہ کن روایات و واقعات کی طرف ہے ۔ مجھے واقعات کی صحت سے بحث نہیں ہے، وہ سب کچھ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے ۔ پیشِ نظرصرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ نعت کو تقسیم ہونے سے بچا لیا جائے ۔
آدابِ نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
آداب ِ نعت گوئی کے بارے قولِ مشہور ہے کہ
باخدا دیوانہ باشد، بامحمد ہوشیار
نعت کہنا دودھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے ۔ ایک جانب فنِ شاعری، زبان و بیان، نشست وبرخواست، وسیع مطالعہ اورعصری شعور ضروری ہیں ۔ تو دوسری جانب اثر انگیز نعت کیلئے حضورِ والا سے ایک نسبتِ خاص کا ہونا اور ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا بدرجہٗ اتم ضروری ہے ۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں لہٰذہ ایسے عامیانہ مضامین و لفظیات اور تشبیہہ و استعارات جو عام عشق و محبت کی وارداتوں میں رقم ہوتے ہوں ان سے احتراز لازم ہے ۔
- بلا اشد ضرورتِ شعری، ذاتِ سرورِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تو یا تم سے مخاطب کرنا بھی سوٗ ادب ہے ۔ بے حد اہتمام کرنا چاہئیے کہ شعر چاہے بدلنا یا نکالنا پڑے لیکن خطاب شانِ شایان ہو ۔
- ایسے مضامین جن سے شرک کا شبہ ہوتا ہو، ان سے بھی بچنا چاہئیے۔
- بے جا غلو بھی نازیبا ہے
- اکثر دیکھا گیا ہے کہ شعرا انبیاٗ ؑ ماسبق کی روایات یا سیرتِ حضورِ صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم کے واقعات بطور تلمیح رقم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دو مصارع میں کسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ کرنا اور ذاتِ ختمی مرتبت کے مقامِ عالیہ کا تعین بھی کرنا ۔ ایک مشکل امر بن جاتا ہے اور بہت زیادہ مشق و مطالعہ کا متقاضی ہے ۔
- جس طرح غزل یانظم کا شاعراپنی ذاتی واردات ، اپنے زمانے کے واقعات وحادثات اورماضی کی روایات کے آمیزے سے مضامین کسب کرتا ہے۔ اسی طرح نعت کے شاعر کیلئے بھی ضروری ہے کہ اپنی وارداتِ قلبی رقم کرے، اپنے گردوپیش سے بھی واقف رہے اور نعت کی روایت سے بھی جڑا رہے ۔
- من گھڑت یا ضعیف روایات و واقعات کو قلمبند کرنے سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے ۔
- تاریخِ اسلام سے کما حقہ واقفیت اور سیرتِ رسولِ گرامی قدر کا گہرا مطالعہ ، مضامین میں گہرائی کا ضامن ہے ۔ سطحی اور افتادہ پا مضامین سے بچنے کی سعی کرنی چاہئے ۔