المدیح النبوی ۔ایک مطالعہ ،- ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی
ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
Professor Dr. Abu Sufyaan Islahi has presented in depth study of Arabic Naatia collection of Poetry compiled by Maulana Yaseen Akhtar Misbahi Azami. Various couplets of Arabic verses have been cited for example from the period of Ashaab-un-Nabi (R.A) till Indian era. The writer has praised the painstaking work of compiler of book which contains references of numerous Arabic research works. Arabic version of couplets also followed by prose Urdu translation to help understanding for non Arabic readers. The writer has aptly criticised the way of expression and presentation of Naat by male and female Naat Khwans with commercial objectives.
پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی۔ انڈیا
المدیح النبوی ایک مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ہندوستان میں نعت گوئی پر مباحثے اور مذاکرے کا انعقاد ہوا اور بہت سی شخصیات نے نعت گوئی کو موضوع بحث بنایا۔ ڈاکٹر عبداللہ عباس)۱(،پروفیسر رفیع الدین )۲(، ڈاکٹر سعید الاعظمی ندوی، ڈاکٹر صدر الدین ندوی)۳(اور ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے نعت گوئی کے وجوہ واسباب کی تلاش وتتبع میں قابل ذکر خدمات انجام دیں۔ راقم الحروف نے عربی نعت گو شعراء کے ذکر محاسن میں اپنی بساط بھر قلم وقرطاس کا سہارا لیا۔ شعبۂ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے عربی نعت گوئی پر سمینار کا انعقاد کیا اور اس کی روداد بھی شائع کیا۔)۴(اس تقدس کی انجام دہی کے پیچھے مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ کی محبتیں اور محمدصبیح رحمانی کی مکرر یاددہانیاں بھی پوری طرح شامل ہیں۔ خدا کرے ہندوستان کے ارباب قلم اسی طرح سرورکائنات کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے رہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ’’المدیح النبوی‘‘ ہے جسے مولانا محمدیٰسین اختر مصباحی اعظمی نے ترتیب دیا ہے جس میں ۱۴۰ شعراء کے نعتیہ کلام کو جمع کیا گیا ہے۔ اس مجموعے سے عربی نعت گوئی کا ایک مستند نیز مقدس خاکہ سامنے آجاتاہے۔ ماقبل نبوت اور مابعد آپ کے شخصی، عائلی اور دینی کوائف سامنے آجاتے ہیں، صحابہ کرام، تابعین عظام، اموی عباسی شعراء کرام، جدید شعراء اور ہندوستانی نعت گو شعراء نے حضرات شمائل نبوی کو کس عقیدت اور کس خوبصورتی سے منظوم کیا ہے جسے اسے پڑھ کر ایمان تازہ ہوجائے بلکہ ایمان کی بہار آجائے۔ غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی کیا حصہ داریاں رہیں، کس طرح اپنے جاں نثاروں کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے رہے اور دشمنان اسلام کے ساتھ کس طرح نباہ کیا ان تمام موضوعات کی جلوہ آفرینیاں اس مجموعے میں موجود ہیں۔
اس مجموعے میں موجودہ نعتوں کو موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا حصہ ’’التحمید‘‘ کے عنوان سے جس میں خالق کائنات کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے، اس میں گیارہ شعراء کے حمدیہ جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ بالعموم دنیا کی بیش تر زبانوں میں اوصاف رسول پر توجہ مبذول کی گئی ہے۔ شعراء نے رب ذوالجلال کو بہت کم موضوع بحث بنایا ہے۔ ضرورت ہے کہ شعراء خداوند قدوس کی کرشمہ سازیوں کو منظوم کریں۔ اسی طرح ارباب نثر اور ناقدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حمدیہ قصائد کے تحلیل وتجزیہ کے تئیں بے اعتنائی کا ثبوت نہ دیں۔ حمدیہ صنف پر قابل قدر توجہ دینے والوں کا سالار جدید شاعر اسماعیل صبری ہے اسی طرح اردو میں اس صنف کی طرح ڈالنے والوں میں ایک نمایاں نام اسماعیل میرٹھی کاہے۔ اسماعیلین نے عربی اور اردو حمد گوئی میں وہ خدمات انجام دی ہیں، جو ناقابل فراموش ہیں۔ خاکسار نے عربی کے حمدیہ اشعار کے تناظر میں ایک مقالہ نقوش کے قرآن نمبر (شمارہ: ۱۴۶) میں بعنوان ’’عربی شاعری میں حمدکا ارتقاء‘‘ کے تحریر کیا ہے ۔ )۵( اس مقالہ کی طباعت کے بعد مزید سینکڑوں حمدیہ اشعار کافی جستجو کے بعد ہاتھ لگے ہیں خدا کرے یہ ایک کتاب کی شکل اختیار کرجائیں۔ خود اسمٰعیل صبری کی حمدیہ شاعری پر ایک مقالہ مجلہ نعت رنگ میں سپرد قرطاس کرچکا ہوں۔)۶( بقیہ نوعناوین نعتیہ قصائد پر مشتمل ہیں جو اس طرح ہیں: (i) البشائر (ii) ذکری المولد (iii) المدائح والخصائص الکبری (iv) الاعتذار إلی سید الابرار(v) رثاء الرسول (vi) دعوۃ الکئیب (vii) الاستبراک بالآثار (viii) الحنین الی زیارۃ روضۃ النبی الامین (ix) التسلیم علی صاحب جنات النعیم ۔ اس مضمون میں انہی عناوین کے تحت مندرجہ نعیتہ قصائد سے چند اشعار کا انتخاب کرتے ہوئے عربی نعتیہ شاعری کے کچھ رنگ وآہنگ کو حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس سے قبل کچھ حمدیہ اشعار کونقل کرتے ہوئے مضمون کو آگے بڑھایا جائے گا پہلے ورقہ بن نوفل کے حمدیہ اشعار ملاحظہ ہوں۔ یہ وہی ورقہ بن نوفل ہیں جنھوں نے اعلان رسالت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی رسالت کا اعتراف کیا۔ دورِ جاہلیت میں وہ اپنے اشعار میں اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے تھے۔ مثلاً:
مسخر کل ماتحت السماء لہ
لاینبغی أن یناوی ملکہ احد
(زیر آسمان ہر شی اللہ کے دست قدرت میں ہے، کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس کی قدرت کی ہم سری کرے۔)
لاشیئ مما تریٰ تبغی بشاشتہ
ینبغی الا لہ ويودی المال والولد
(دنیا کی جتنی اشیاء کا تم مشاہدہ کررہے ہو، ان کی تروتازگی دائمی نہیں ہے، بقاء صرف اللہ کے لے ہے اور وہی اموال واولاد فراہم کرتاہے۔)
ولاسلیمان إذ تجری الریاح بہ
والإنس والجن فیما بینھم برد
(اور نہ ہی (حضرت) سلیمان علیہ السلام باقی رہے جب کہ ہوائیں ان کے اشاروں سے چلتی تھیں اور جن وانس اور ان کے مابین بسنے والی تمام خلقت آپ کی پیغامبر تھی۔)
أین الملوک التی کانت لعزمتہا
من کل أدب إلیہا وافد وفد
(وہ سلاطین کہاں ہیں؟ عزم وارادہ جن کی شناخت تھی انہی عزائم کے حامل سلاطین میں سے ہر سلطان (آج دنیا سے) جاچکا ہے۔)
ابوالعتاہیہ کے دیوان کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے یہاں بھی بہت سے حمدیہ اشعار مل جائیں گے۔ مرتب نے اس کا بھی ایک قصیدہ اس عنوان کے تحت نقل کیا ہے ۔ یہاں صرف دو شعر نقل کیے جارہے ہیں:
تعالی الواحد الصمد الجلیل
وحاشا ان یکون لہ عدیل
(ذات یکتا، بے نیاز اور صاحب جلالت بلند وبرتر ہے اور اس کا ہم پلہ ہونا بعید از قیاس ہے۔)
ھو الملک العزیز وکل شیئ
سواہ فہو منتقص ذلیل
(اللہ تعالیٰ طاقت ور بادشاہ ہے اور اس کے علاوہ تمام اشیاء ناقص اور بے جان ہیں۔)
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لفظ ’’صمد‘‘کی وسعت کو کسی زبان میں منتقل کرنا محال ہے۔ مولانا حمیدالدین فراہی نے اپنی تفسیر سورہ اخلاص میں اس لفظ کی عدیم النظیر تفسیر کی ہے۔ (۷) اس کے بعد اس توضیح وتفسیر سے متاثر ہوکر سید سلیمان ندوی نے سیر ۃ النبی میں اس پر عالمانہ انداز میں اظہار خیال کیا ہے(۸)ان دونوں دوچیزوں کو راقم الحروف نے اپنے مضمون ’’مولانا حمیدالدین فراہی اور سید سلیمان ندوی‘‘ میں پیش کیاہے مولانا فراہی نے اس کی لغوی تشریح مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے:
’’کلمہ صمد جس کا ترجمہ باہمہ کیا گیا ، اصل وضع میں بڑی چٹان کو کہتے ہیں اور چوں کہ دشمنوں کے حملہ کے وقت اس کی پناہ پکڑتے ہیں اس لیے سردار کو جو قوم کی پشت پناہ ہو اور سب لوگ اسی کی طرف متوجہ ہوں صمد کہتے ہیں۔ زبور اور دیگر کتب مقدسہ میں خدائے تعالیٰ کو اکثر چٹان ، مدد کی چٹان کہا گیا ہے‘‘۔ (۹) اندلس جسے انگریزوں نے Spain بنادیا ہے۔ تبشیری تحریک در اصل تنسیخی تحریک ہے۔ وہ اسلامی ناموں کو بگاڑنا چاہتے ہیں اسلامی ماثر ومفاخر کو تہہ خاک ڈالنے کے خواست گار ہیں۔ لیکن صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اسلامی اندلس یوں ہی دمک رہا ہے، چمک رہا ہے۔ اسی چمک کا ایک حصہ ابوالقاسم عبدالرحمن سہیلی اندلسی ہیں جن کے تین حمدیہ اشعار مرقوم ہیں:
مالی سویٰ قرعی لبابک حیلۃ
فلئن رددت فأی باب أقرع
(اے بار الٰہا! تمہارے دروازے پر دستک دینے کے بجائے میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ، اگر تم نے دھتکار دیا تو میں کس دروازے کو کھٹکھٹاؤں گا۔)
مالی سوی فقری إلیک وسیلۃ
بالافتقار إلیک فقری أدفع
(تمہارے دربار میں رسائی کے لیے میرے فقر کے ماسوا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میں اپنے فقر کو تمہارے حضور بدست احتیاج لے کر کھڑا ہوں۔)
مذکورہ چند حمدیہ اشعار کی تقدیم کے بعد اب نعتیہ اشعار پیش کیے جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ عرب نعت گو شعراء نے آپ کی بڑے سچی تصویر اتاری ہے۔ بالخصوص صحابہ کرامؓ نے تو براہ راست روبرو اتاری ہے اس بلاواسطہ اتاری گئی تصویر میں صداقت اور کس قدر حقیقت ہے۔ چشمۂ نبوت ان کے سامنے تھا، وہی آبِ زلال ان کی شاعری میں رواں دواں ہے یہ چشمۂ صافی کسی اور زبان کے شاعر کو نصیب نہیں، یہ دربار نبوت کسی اور زبان کو حاصل نہیں یہی تو وجہ ہے کہ اس میں مبالغہ نہیں، قیاس آرائیوں سے پاک صاف اور ذہنی زور آزمائیوں سے دوروں دور، صحابہ کرامؓ کے جذبات آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کے تئیں کتنے پاکیزہ تھے اس پاکیزگی نے ان کی نعتیہ شاعری کو آب حیات بنادیا ہے۔ یہی آب حیات امت مسلمہ کی شناخت ہے اور باعث طمانیت بھی۔ آج اس ظلمت کدہ میں یہی نعتیہ شاعری ہمارے لیے مشعل حیات ہے۔ اس سراج منیر کی کچھ کرنیں آپ کے حضور لے کر حاضر ہوں۔ یہ حقیقت آشکارہ ہوچکی ہے کہ صحف آسمانی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی نبوت کی بشارت موجود ہے۔ جسے مستشرقین اور علماء یہود وونصاریٰ نے اسے پس پشت ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بہر کیف سرسید نے خطبات احمدیہ( ۱۰)اور تبیین الکلام (۱۱)نے اس بشارت کو منظرعام پر لانے کے لیے بڑا عالمانہ انداز اختیار کیا ہے۔ اسی تعلق سے تبان اسعد بن أبی کرب کے دوشعر ملاحظہ ہوں:
شہدت علی أحمد انہ
رسول من اللہ باری النسم
(میں شہادت دیتا ہوں کہ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم لوگوں کو پیدا کرنے والے اللہ کی جانب سے مبعوث کیے ہوئے رسول ہیں۔)
فلومد عمری إلی عمرہ
لکنت وزیراً لہ وابن عم
(پس اگر میری عمر نے اس کی عمر تک پہنچنے میں وفا کیا تو میں اس کا اور چچا کے بیٹے کا وزیر بنوں گا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ کی بیٹی شیماء نے بھی آپ کو نذرانہ عقیدت پیش کیاہے۔ یہ وہی حضرت شیماء ہیں جنھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم والدہ محترمہ کی چھاتی سے لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے دیگر نظاروں نے حضرت شیماء کے اندر حب رسول کا عمیق وسیع سمندر سرایت کردیا۔ اس کے تقاطر کے ایک منظر سے آپ بھی محظوظ ہوں:
یا ربنا أبق لنا محمداً
حتی آراہ یافعاً وأمردا
(اے پروردگار! محمد کو ہمارے لیے باقی رکھ، تاکہ میں نظروں کے سامنے ان کے بچپن سے بلوغ تک کو دیکھوں اور بے ریش جوانی کے دن بھی )
واعطہ عزاً یدوم أبداً
(اورتوانہیں اسے ایسی عزت دے دے جسے دوام حاصل ہو۔)
ورقہ بن نوفل کی شخصیت کا ذکر ہمیشہ تاریخ اسلام میں ہوتا رہے گا احادیث کی تمام کتابوں میں آپ کا ذکر موجود ہے۔ آپ اپنے وقت کے ایک معروف عالم تھے۔ انھیں قدر کی نظروں سے دیکھا جاتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عجیب کیفیت ہوگئی تو حضرت خدیجہ آپ ہی کے پاس گئی تھیں جہاں سے آپ کو تسلی بخش جواب ملا اور ملنے والی نبوت کے باب میں بتایا گیا کہ جلد ہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا جائے گا۔ اور یہ وہی فرشتہ ہے جو دیگر انبیاء کرام کے پاس آتا رہا ہے۔
فخبر ناعن کل خبر بعلمہ
وللحق أبواب لھن مفاتح
(پس آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمنے اپنے علم کے ذریعہ ہرخیر کی اطلاع دی اور حق کے متعدد دردازی کے لیے کنجیاں ہیں۔)
کأن بن عبداللہ أحمد مرسل
الی کل من ضمت علیہ الأباطح
(گویا کہ ابن عبداللہ احمد وادیوں میں سکونت پذیر لوگوں کی طرف بھیجے گئے رسول ہیں۔)
وظن بہ أن سوف یبعث صادقاً
کما أرسل العبدان ھود وصالح
(اور احمد مرسل کی باب میں مجھے یقین ہے کہ انہیں ایک صادق کی صورت میں پیش کیا جائے گا جس طرح حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام کو رسول بناکر بھیجا گیاہے۔)
اس کے بعد چند اشعار ’’ذکری الولد‘‘ سے نقل کیے جائیں گے۔ یہ بات روز روشن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے نہ صرف عرب بلکہ دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ایک عجیب قسم کی بارش تھی جو اقتصادیات کے مسائل ومصائب کا حل پیش کررہی تھی اور دنیا کی تاریکیوں کی روشنیوں میں تبدیل کررہی تھی۔ کفروشرک اور ظلم وتشدد کا سورج غروب ہورہا تھا۔ سیرت نگاروں نے اپنے اپنے انداز سے ان حسین لمحات کی تصویر کشی کی ہے لیکن علامہ شبلی نعمانی نے اپنی سیرۃ النبی میں ’’ظہور قدسی‘‘ کے عنوان سے ایسا مثالی نقشہ کھینچا ہے کہ انسان انگشت بدنداں ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کعبہ کے اندر لے گئے اور اپنے جذبہ مسرت کا یوں اظہار کیا:
الحمدﷲ الذی أعطانی
ھذا الغلام الطیب الأردان
(ہم اس پروردگار کے شکر گزار ہیں جس نے ہمیں یہ خوش رنگ اور خوشبودار بیٹا عطا کیا۔)
قد ساد فی المھد علی الغلمان
أعیذہ باﷲ ذی الأرکان
(یقیناًیہ بچہ گو د ہی سے تمام بچوں کا سردار نظر آرہا ہے، میں اس کے لیے اس اللہ کی امان کا خواہاں ہوں جو طاقتوں والا ہے۔)
حتی یکون بلغۃ الفتیان
حتی أراہ بالغ البنیان
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم فہم وفراست میں تمام جوانوں سے آگے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بلند بالا عمارت کے مانند ہوگیا۔)
اسی سلسلے کے دو شعر ابومحمد عبداللہ الشقراطی کے ملاحظہ ہوں:
ضاء ت لمولدہ الآفاق واتصلت
بشری الھواتف فی الاشراق والطفل
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ولادت باسعادت سے آفاق عالم روشن ہوگئے۔ اور مشرق ومغرب میں یہ صدائے بشارت عام ہوگئی۔)
وصرح کسری تداعی من قواعدہ
وانقض منکر الأرجاء ذامیل
(اور کسریٰ کی درودیوار ڈھینے لگی، اور چہار جانب میلوں پر مشتمل یہ سلطنت زمین بوس ہونے لگی۔)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی آمد مبارک کا ذکر شیخ امام جعفر مدنی برزنجی نے اس انداز سے کیا:
محیا کالشمس منک مضیء
أسفرت عنہ لیلۃ غراء
(مانند آفتاب آپ کا چہرہ دمک رہا ہے آپ کی وجہ سے یہ راتیں روشن ہوگئیں۔)
لیلۃ المولد الذی کان للد
ین سرور بیومہ وازدھار
(ولادت باسعادت کی رات دین اسلام کے لیے باعث مسرت اور فصل بہاراں ثابت ہوئی یہ سب صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی آمد کے سبب تھا۔)
مولد کان منہ فی طالع الکفر
وبال علیھم ووباء
(دنیائے کفر میں ظہور قدسی انجام پذیر ہوئی، کفار کے لیے وبال (جان) اور باعث عذاب تھی۔)
مشہور جدید مصری شاعر احمد شوقی نے کئی نعتیہ قصائد منظوم کرکے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ تمام قصائد ’’الشوقیات‘‘ میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ شوقی کے اندر جب رسول کا ایک تلاطم تھا شوقی اپنے فکر اور اسلوب بیان کی بنیاد پر نعت گو شعراء میں ایک بلند مقام پر فائز ہے۔ ایرانیہ اسکالر محترمہ نسرین نزاری تلوکی نے اپنے غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ: ’’مکانۃ الفکر الدینی فی شعر شوقی‘‘ میں شوقی کی مذہبیات اور عشق رسول کا قابل قدر انداز میں جائزہ لیا ہے۔ خودر راقم الحروف نے شوقی کی نعتیہ شاعری پر ایک مقالہ مجلہ نعت رنگ میں سپرد قرطاس کیا ہے۔ (۱۴) یہاں تین اشعار نقل کیے جارہے ہیں:
وکان بیانہ للھدی سبلاً
وکانت خیلہ للحق غابا
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بیانات میں رشدوہدایت کی متعدد شکلیں تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے خیالات حق کے لیے نیزہ تھے۔)
بنیت لھم من الأخلاق رکنا
فخافوا الرکن فانھدم اضطرابا
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ستونِ اخلاق کی عمارت تعمیر کی، پس دھیرے دھیرے امت مسلمہ اس ستون کو کم کرتی گئی جس کی وجہ سے یہ اچانک زمین پر آگیا۔)
ولو حفظوا سبیلک کان نوراً
وکان من النحوس سحابا
(کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے طریقہ کار کے محافظ بنتے جو روشنی اور ادبار نحوست سے تحفظ کے لیے ابر رحمت ہے)
وما للمسلمین سواک حصن
إذا ما الضرمسھم ونابا
(جب امت مسلمہ مسائل ومصائب میں گھر جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے علاوہ اس کے لیے کوئی اور جائے پناہ نہیں )
ابراہیم عزت کے چند اشعار پر یہ سلسلہ ختم کیا جارہا ہے:
صلوا علیہ علی من دعا ﷲ محتسبا
ومن لساحتہ یھفو المحبون
(اس ذات اشرف پر درود سلام بھیجو جو خدا وند قدوس کو اپنا محتسب سمجھ کر پکارتاہے۔ اور یہ وہی شخص ہے جس کے دربار میں عشاق پر پھڑپھڑاتے ہوئے حاضری دینے کے خواہش مند ہیں۔)
یا سید الخلق فامسح غلۃ ظمئت
والحب من کاسکم یروی ویرضینا
(اے سردار انسانیت! میری شدید پیاس کو بجھادے یقیناًکاسہ رسول سے محبت ہی مجھے سیراب کرے گی اور کاسہ جاں کو خوشیوں سے لبریز کردے گی۔)
یا سید الخلق ان العجز یحرمنی
من عذبۃ القول فی الذکری لراعینا
(اے سید خلق! نعت گوئی میں میٹھے بول بولنے سے میں عاجز ہوں اپنے چاہنے والوں کے لیے۔)
یا منۃ اللہ للدنیا ورحمۃ
للعالمین اَتیناکم فزورونا
(اے احسان الٰہی! اس دنیا کے لیے اور اے رحمت ربانی! سارے جہانوں کے لیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور ہیں پس ہمیں اپنا دیدار کرادیں)
اس کا ایک باب ’’المدائح والخصائص الکبری‘‘ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن ومحامد کی جلوہ گری کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظمت ورفعت کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں کئی قصائد ہیں۔ جن سے حب رسول کے چشمے ابل رہے ہیں۔ ایمان وایقان کی کھیتیاں لہلہارہی ہیں اور امت مسلمہ کی رسالت سے گہری وابستگی سرخیل کے مانند نظر آرہی ہے۔ یہی عربی نعت گوئی ہے۔ یہی اس کا مزاج اور رنگ وآہنگ ہے۔ اسی عربی نعت گوئی نے دنیا کی بے شمار زبانوں کو آداب نعت سکھائے، اور شمائل النبی کے ساتھ ہم کلامی کے ہنر عطا کیے۔ کیا دیگر زبانوں کے کو شعراء ، عربی نعت گوئی کے اس بار احسان کو اتارسکتے ہیں۔ آئیے حسان بن ثابتؓ کے حب رسول سے خود کو سرشار کریں:
مثل الھلال مبارکاً ذا رحمۃ
سمح الخلیفۃ طیب الأعواد
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مانند ہلال مبارک ہیں ، باعث رحمت ہیں۔ طبیعتاً نرم مزاج ہیں، اور مانند عود مہک رہے ہیں)
واللہ ربی لانفارق أمرہ
ما کان عیش یرتجی لمعاد
(بخدا اے میرے پروردگار! ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حکم سے خود کو علیحدہ نہیں کرسکتے، میرے پاس کوئی پونجی نہیں ہے جس سے بروز قیامت امید وابستہ کرسکوں۔)
لانبتغی ربا سواہ ناصراً
حتی نوافی صحوۃ المیعاد
(ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے علاوہ کسی کو اپنا محافظ ومددگار نہیں بنایا، یہاں تک کہ اچانک وقت معینہ کا لمحہ آدھمکا۔)
حسان بن ثابتؓ کو شعراء الرسول میں جو اعزاز حاصل تھا وہ دیگر شعراء کو نہیں، مختلف مواقع پر سرورکائنات نے اپنے دفاع کے لیے حکم کیا، سرورکائنات نے یہ بھی بتایا کہ آپ کو حضرت جبرئیل علیہ السلام کی تائید حاصل ہے، دیوان حسان میں ایسی بے شمار نعتیں ہیں جن سے حب رسول کے ریلے اٹھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ آپ کا ایک شعر ایسا ہے جس میں ہندوستانیت بھی جھانکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
فأمسی سراجاً مستنیرا وھادیاً
یلوح کما لاح الصقیل المھند
(وہ ذات اقدس ایک ایسا چراغ بن گئی جس سے روشنی طلب کی جارہی تھی، وہ ہندوستانی چمکدار تلوار کی طرح چمک رہا تھا۔)
ایک دوسرے قصیدے میں حسان بن ثابت کی محبتیں یوں اپنے وجود پر شاہد ہیں۔
فان أبی ووالدہ وعرضی
لعرض محمد منکم وقاء
(بیشک میرے باپ دادا اور میری عزت وآبرو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عزت وآبرو کے لیے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہمارے لیے سامان محافظت ہیں۔)
لسانی صارم لاعیب فیہ
وبحری لا تکدره الدلاء
(میری زبان مانند تیغ براں ہے جو عیب سے پاک ہے۔ اور میں بحر (بے پایاں) ہوں جسے بیشمار ڈول بھی گدلا کرنے سے قاصر ہیں۔)
عبداللہ بن رواحہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات اقدس کے لیے مندرجہ اسلوب اختیار کیا:
روحی الفداء لمن أخلاقہ شھدت
بأنہ خیر مولود من البشر
(میری ذات اس ہستی پر قربان ہے جس کے اخلاق شہادت پیش کررہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان سے (بہتر ہے)
عمت فضائلہ کل العباد
عم البریۃ ضوء الشمس والقمر
(اس کی کرم فرمائیاں تمام بندوں کے مابین عام ہیں، جس طرح آفتاب وماہتاب کی ضوء فشانیوں سے پوری دنیا فیض یاب ہے۔)
ولم تکن فیہ آیة بینة
کانت بدیھتہ تنبیک بالخیر
(اگر آیات بینات اس کے باب میں نازل نہ ہوئی ہوتیں تو خود اس کی فراست وذہانت اس کے محاسن کا پتہ دیتی۔)
کعب بن مالک بھی بھی شعراء الرسول میں شمار ہے، انھوں نے بھی متعدد قصائد عظمت رسول کی پیش کش میں منظوم کیا ہے:
فینا الرسول شھاب ثم یتبعہ
نور مضیء لہ فضل علی الشھب
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہمارے مابین شہاب (ثاقب) کے مانند ہیں، روشن کرنیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے پیچھے پیچھے چلتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو تمام ستاروں پر فوقیت حاصل ہے۔)
الحق منطقہ والعدل سیرتہ
فمن یحبہ الیہ ینج من تبب
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی گفتگو برحق ہے اور آپ کی زندگی مبنی بر عدل ہے پس جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی طرف بڑھ کر لبیک کہا وہ ہلاکت سے محفوظ ہوگیا۔)
یمضی ویذمرنا عن غیر معصیۃ
کأنہ البدر لم یطبع علی الکذب
(سرور کائنات ہمیں انقیاد واتباع پر اکساتے ہیں، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ماہ کامل ہیں جس کی فطرت میں کذب بیانی ہے ہی نہیں۔)
بدأ لنا فاتبعناہ تصدقہ
وکذبوہ فکنا أسعد العرب
(وہ بدر منیر طلوع ہوا تو ہم نے اس کی اتباع کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی اور کفار ومشرکین نے اس کی تکذیب کی، پس ہم عربوں میں خوش بختی کے سزاوار ہوئے۔)
نبی نضیر کی جلاوطنی کا ذکر کرتے ہوئے کعب بن مالک کہتے ہیں:
لقد خزیت بغدرتھا الحبور
کذاک ذو صرف یدور
(یہودی کاہنوں کے سردار بنی نضیر کی بے وفائیوں سے رسوا ہوئے، گردش روزگار کا پانسا اسی طرح پلٹتا رہتاہے۔)
نذیر صادق ادی کتاباً
وآیات بینات تنیر
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نذیر صادق ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے کتاب واضح آیات بینات پیش کیں)
فقالوا ما اتیت بأمر صدق
وأنت بمنکر مناجدیر
(یہودیوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم حقیقی معاملے کے ساتھ نہیں آئے، اسی بنا پر ہماری جانب سے انکار بالکل بجا تھا)
أيد اﷲ النبی برأی صدق
وکان اللہ یحکم لایجور
(اللہ تعالیٰ نے بنی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو صدق مقال سے سرفراز کیا اور اللہ کی حکمرانی جوروجفا سے پاک ہے۔)
فأیدہ وسلطہ علیھم
وکان نصیرہ نعم النصیر
(پس اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی نصرت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا مددگار کس قدر اچھا ہے۔)
مخضرم شاعر قیس بن عبداللہ نابغہ جعدی کی اہمیت کا اعتراف کھلے دل سے کیا گیا۔ آپ دین اسلام کو قبول کرنے کے بعد دربار رسول میں حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے آپ کے لیے دعائیں کیں۔ آپ پہلے شاعر ہیں کہ قصیدہ رائیہ کی صورت میں نعت رسول کو منظوم کیا۔
اتیت رسول اللہ اذا جاء بالھدی
ویتلو کتاباً بالمجرۃ نیرا
(جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ایک ایسی کتاب کی تلاوت کررہے تھے جو کہکشاں کی مانند روشن تھی۔)
اصید بن سلمیٰ نے اسلام لانے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے تئیں اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا:
بعث الذی ما مثلہ فیما مضی
یدعو لرحمتہٖ النبی محمداً
(اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شخصیت کو مبعوث کیا جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اللہ کی رافت ورحمت کے لیے نبی محمد کو وہ آواز دیتاہے۔)
ضخم الدسیعۃ کالغزالۃ وجھہ
قزناً تأزر بالمکارم وارتدی
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات مجموعہ اخلاق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا چہرہ ہرنی کی طرح خوبصورت اور مثالی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے خود کو بلند اوصاف کی جامہ میں لپیٹ لیا ہے۔)
فدعا العباد لدینہ فتتابعوا
طوعاً وکرھا مقیلین علی الھدیٰ
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے عباد اللہ کو دعوتِ دین دیا چنانچہ طوعاً وکرہاً اتباع کے لیے دوڑ پڑے تاکہ راہ ہدایت پر آسکیں۔)
عبداللہ بن عمرہ سلمی فتحہ مکہ کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو یوں یاد کیا:
وکنالہ دون الجنود بطانۃ
یشاورنا فی أمرہ ونشاورہٗ
(فوج کے علاوہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اصحاب خاص میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہم سے اپنے معاملہ میں اور ہم بھی ان سے مشورہ کرتے ۔)
دعانا فسمانا الشعار مقدماً
وکنالہ عوناً علی من ینافرہ
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ہمیں آواز دی اور فوج میں ہمیں لفظ خاص ’’مقدم‘‘ سے نوازا۔ اور ہم اس وقت اس شخص کے خلاف کھڑے ہوجاتے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے نفرت کرتا۔)
قبیلہ کنانہ کا ایک شخص اپنی نعت نبی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور لے کر حاضر ہے:
لک الحمد والحمد من شکر
سقینا بوجہ النبی المطر
(اے بار الٰہا! تو لائق ستائش ہے اور ستائش ہی تو شکر خداوندی کی علامت ہے، ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے چہرہ انور سے سیراب کیا گیا۔)
دعا اللہ خالقہ دعوۃ
إلیہ وأشخص منہ البصر
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے اپنے خالق کو پکارا اور مکمل طور سے اس کی جانب متوجہ ہوئے اور اسی پر ٹکٹکی لگائے ہوئے تھے۔)
بہ اللہ یسقی بصوب الغمام
ومن یکفر اللہ یلق الغیر
(خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وجہ سے ہمیں موسلا دھار بادلوں سے سرفراز کیا۔ اور اللہ کے منکرین کی جھولی میں کذب وبطلان کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔)
عمر بن الفارض نے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تعریف وتوصیف کے لیے یہ طرز اختیار کیا:
أری کل مدح فی النبی مقصرا
وإن بالغ المثنی علیہ واکثرا
(میں ہر نعت نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو کوتاہی سمجھتا ہوں، گو کہ شاعر مبالغہ یا اس سے آگے کی حدوں کو پار ہی کیوں نہ کرگیا ہو۔)
إذا اللہ أننی بالذی ھو أھلہ
علیہ فما مقدراً ما تمدح الوری
(اللہ اس کی جس بھی انداز میں تعریف کرے وہ اسی کا اہل ہے۔ مخلوق اپنی تعریفات کے توسط سے اس پر قادر نہیں ہوسکتی۔)
شیخ شرف الدین محمد بن سعید بوصیری کی شخصیت دنیائے نعمت میں محتاج بیان نہیں (۱۶)بوصیری کے قصیدہ بردہ کے اثرات تمام زبانوں کے شعراء نے قبول کیے، کیوں کہ مختلف زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے ہیں۔ یہ نعت نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا ایسا ممتاز عنوان ہے جس کو اہل علم وادب نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ قصیدہ بردہ اپنی زبان، اپنی لفظیات اور اپنی فکر کی بنیاد پر اساسی کردار کا حامل ہے۔ اس سے حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی شعائیں پھوٹتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ یہاں اس تاریخی قصیدے کے چند اشعار یہاں نقل کیے جارہے ہیں۔
ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ
لکل ھول من الأھوال مقتحم
(ہر قسم کی نازل ہونے والی مصیبت کے وقت اسی شفاعت کی امیدیں بندھی ہوئی ہیں۔)
دعا إلی اللہ فالمستمسکون بہ
مستمسکون بحبل غیر منفصم
(اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا، پس ہم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ ہم ایک اٹوٹ رسی سے چمٹ گئے ہیں۔ )
فاق النبیین فی خلق وفی خلق
ولم یدانوہ فی علم ولاکرم
(اپنے چہرے بشرے اور اخلاقیات میں تمام انبیاء سے فائق ہے اور اس کی علم وشرافت میں وہ اس کی ہم سری نہیں کرسکتے۔)
کالزھر فی ترف والبدر فی شرف
والبحر فی کرم الدھر فی ھمم
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم شگوفے کے مانند تروتازہ ہیں ماہ کامل کی طرح شرافت میں مکمل ہیں۔ سمندر کی طرح فیاض اور زمانے کی طرح پختہ ارادوں کے حامل ہیں۔)
کأنما اللؤلؤ المکنون فی صدف
من معدنی منطق منہ ومبتسم
(گویا صدف کے چھپے ہوئے موتی ہیں۔ جس کا تعلق نطق وابتسام سے ہے، یہ گوئیاں اور نیم ریزیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کی ذات گرامی سے متسم ہیں۔)
یا اکرم الرسل مالی من الوذبہ
سواک عند حلول الحادث العمم
(اے تمام رسولوں میں سب سے مکرم! حوادث روزگار کی کثرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے علاوہ میرا کوئی نہیں ہے جس کے یہاں جاکر پناہ لوں۔)
ولن یضیق رسول اللہ جاھک لی
إذا الکریم تجلی باسم منتقم
(جس روزاللہ تعالیٰ اپنی صفتِ انتقام کے ساتھ (بروز حشر) نمودار ہوگا اس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی شان شفاعت میرے لیے تنگ دامنی کا ثبوت نہ دے گی۔)
یا نفس لاتقنطی من زلۃ عظمت
إن الکبائر فی الغفران کالعمم
(اے نفس! تو (اپنے) بڑے بڑے گناہوں کے باب میں ناامید نہ ہو، کیوں کہ گناہ کبیرہ بھی گناہ صغیرہ کی طرح معاف ہوجائیں گے۔)
لعل رحمۃ ربی حین یقسمھا
تأتی علی حسب العصیان فی القسم
(امید ہے کہ میرا رب (بروز حشر) جب اپنی رحمتوں کو عام کرے گا تو (گنہگاروں کو ) بھی ان کی نافرمانی کے باوجود حصہ دے گا۔)
یا رب واجعل رجائی غیر منعکس
لدیک واجعل حسابی غیر منخزم
(اے پروردگار! تو اپنے دربار میں میری امید کو میرے برعکس بنادے اور میرے حساب کتاب کو رسوائیوں سے پاک کردے۔)
سید علی رضوی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا یوں خاکہ پیش کیا ہے:
فأنت رسول اﷲ اعظم کائن
وأنت لکل الخلق بالحق مرسل
(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم آپ کائنات کے سب سے عظیم انسان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم تمام مخلوق کے رسول برحق ہیں۔)
علیک مدار الخلق إذ أنت قطبہ
وأنت منار الحق تعلو وتعدل
(تمام مخلوق کا انحصار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مخلوق کے قطب ہیں۔ آپ ایسے منارہ حق ہیں جو بلند کرتاہے۔)
فؤادک بیت اﷲ دارعلومہ
وباب علیہ منہ للحق یدخل
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا دل بیت اللہ کا دارالعلوم ہے اور اسی کے ذریعہ راہ حق تک رسائی ممکن ہے۔)
ینابیع علم اﷲ منہ تفجرت
ففی کل حی منہ ﷲ منھل
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دل سے معرفت خداوندی کے چشمے ابل رہے ہیں، پس ہر شخص چشمہ خداوندی تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے توسط سے پہنچ سکتاہے۔)
جدید شاعری میں حافظ ابراہیم کا ایک نمایاں مقام ہے۔ جدید مصری شعراء میں انھیں قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتاہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید شاعری میں ایک نئی فرہنگ اور نئی لفظیات کو رواج دینے میں حافظ ابراہیم کا حصہ رہا ہے۔ جدید ہجری سال ۱۳۲۷ھ کا آغاز ہوا تو آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا۔
وھاجر فیہ خیر داع إلی الہدیٰ
یحف بہ من قوۃ اﷲ عسکر
(اور ہدایت کی طرف دعوت دینے والے سب سے بہتر داعی نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت اختیار کی، اور اللہ کی مرضی سے ایک جم غفیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ارد گرد طواف کررہا تھا۔)
یماشیہ جبریل وتسعی وراۂ
ملائکۃ ترعی خطاہ وتخفر
(حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ان کے پیچھے فرشتے رواں دواں تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے قدم بہ قدم کی نگرانی کررہے تھے اور حفاظت پر مامور تھے۔)
بیسراہ برھان من اﷲ ساطع
ھدیً وبیمناہ الکتاب المطہر
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بائیں طرف اللہ کی جانب سے ایک واضح اورروشن دلیل تھی اور دائیں سمت میں کتاب مقدس تھی۔)
فکان أبواب مکہ رکبہٗ
وفی یثرب انوارہ تنفجر
(پس مکہ مکرمہ کے دروازوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے گھوڑے اور اونٹ تھے اور مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے انوار کی شعاہیں بہہ رہی تھی۔)
ابتداء میں احمد شوقی کا ذکر آچکا ہے۔ شوقیات کے تناظر میں قدرے اس کے مقام ومرتبہ پر روشنی بھی ڈالی گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شوقی کو عالمی حیثیت حاصل ہوئی، اپنے معاصرین شعراء میں اسے کہیں زیادہ محبوبیت ومقبولیت ملی۔ اپنے معروف قصیدہ ’’الہمزیۃ النبویۃ‘‘ (۱۸)میں یوں شان رسول میں نعت سرا ہے:
زانتک فی الخلق العظیم شمائل
یغری بہن ویولع الکرماء
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں موجودہ اوصاف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تزئین کی یہی اخلاق عالیہ تحریک تشویق کا باعث ہیں اور شرفاء کے اندر جذبہ اشتیاق پیدا کرتی ہیں۔)
وإذا سخوت بلغت بالجود المدیٰ
وفعلت مالا تفعل الأنواء
(اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سخاوت پر آئے تو سخاوت کی آخری حد کو پہنچے، اور حقیقت تو یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم وہ کچھ کردکھایا جو بارشیں بھی دکھانے سے قاصر ہیں۔)
وإذا خطبت فللمنابر ھزۃ
تعرو الندی وللقلوب بکاء
(اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم خطبہ دیتے تو منبر ومحراب پر ارتعاش طاری ہوجاتا۔ اور مجلس پر لرزاں چھاجاتا اور دلوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ )
سعدی عبیدحمزہ حسناری نے اپنے عشق رسول کو یوں باندھاہے:
بمدح رسولٍ أنشدوا وانثروا
من الدر شعراً بالمحاسن یعطر
(انھوں نے خوب صورت ترنم کے ساتھ مدح رسول پیش کی اور اشعار کو موتیوں کی طرح پرویا، انہی محاسن رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے سبب یہ اشعار معطر ہیں۔)
نبی سما بالمکرمات وإنہ
إلی البر نبراس وعنہ معبر
(مجدد شرافت کا حوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہیں اور وہ نیکیوں کا چراغ ہیں اور وہی تعبیر وتشریح بھی ہیں۔)
رحیم ، رحیب الصدر، فاحسن سماحۃ
وقلب رقیق بالفضیلۃ یعمر
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم رحم فرما کشادہ دل عفور ودرگزر کے فیضان اور درد مند دل کے حامل ہیں، جس کی لیب فصل وکرم سے کی گئی ہے۔)
طلعت علینا ھادیاً لصلاحنا
وإنک مبعوث وأنت مؤزر
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہم پر ہماری اصلاح کے لیے کتاب ہدایت بن کر طلوع ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم انتہائی مستحکم فرستادہ ہیں۔)
وأنت منار کلنابک نھتدی
ونترک فیک اللائمین ونہجر
(اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم منار (ہدایت) ہیں، ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے ہدایت یابی کے طالب ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دشمنوں کو ہم نے ترک کردیا اور ان سے دوری اختیار کرلی۔)
عبداللہ الحاج ذیاب عکیدی نے یوں مدح رسول کا آغاز کیا:
رسول اللہ یا نوراً تجلی
وبدراً ضاء فی جوف الظلام
(اے رسول خدا! تو نور بن کر روشن ہو اور بدر کامل بن کر ظلمت کدے میں روشن ہوا۔)
رسول اللہ فیک الشعر یحلو
وفیک القلب یشفی من سقام
(اے رسول خدا! تمہارے باب میں منظوم اشعار کتنے لذیذ (کتنے رغیب اور کتنے حبیب) ہیں اور تمہارے اشتغال سے دل بیماریوں سے نجات پاتے ہیں۔)
وھذبت النفوس بکل حرص
فأعطیت الدروس علی الدوام
(اور اے رسول خدا! تونے انسان کو حرص وآز سے نکال کر مہذب بنایا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے (انسانیت کو) دائمی تعلیمات دیں۔)
وقلبی فی ھواکم طارشوقا
فکنتم رمزجی والھیام
(اور میرا دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی محبت میں بھڑبھڑتارہا ہے۔ یقیناًآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی میرے اشتیاق اور میری پیاس کا حقیقی راز ہیں۔)
اب اس کے بعد ’’الاعتذار إلی اسد الأبرار‘‘ کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔ سب سے پہلے عبداللہ بن زبعری کا معذرت نامہ دیکھیے:
إنی لمعتذر إلیک من التی
أسدیتُ إذ أنافی الضلال أھیم
(میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور نامہ اعتذار لے کر کھڑا ہوں کہ میں پس پردہ تھا اور ضلالت وگمرہی کے اندھیروں میں بندتھا۔)
وأمد أسباب الردیٰ ویقودنی
أمر الغواۃ وأمرھم مشؤم
(اور میں ہلاکت کے دلدل میں پھنسا ہوا ہوں، گمراہ زدوں کی مجھ پر حکومت ہے اور اس کی حکومت وقیادت کا پڑاؤ نحوست وادبار پر ہے۔)
فالیوم آمن بالنبی محمد
قلبی ومخطئ ھذہ محروم
(آج نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر ایمان لاتا ہوں، میرا دل خطا کار اور حرماں نصیبی کا شکار ہے۔)
مضت العداوۃ وانقضت أسبابھا
وأتت أواصر بیننا وحلوم
(ایام عداوت لدگئے اور اس کے تانے بانے دم توڑ گئے اور اب ہمارے درمیان محبتیں اور صبروسکون پنپ رہے ہیں۔)
وعلیک من سمۃ الملیک علامۃ
نور أغروخاتم مختوم
(خداوندقدوس کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کوعلامت خاصہ سے نوازا گیا، آپ نور پرکشش اور خاتم مختوم بھی۔)
دنیائے نعت کے دو قصیدے ہمیشہ زریں حروف سے لکھے جاتے رہیں گے اور حب رسول کی دساتین حرزجاں بنائی جاتی رہیں گی، بوصیری کا قصیدہ بردہ اور کعب بن زہیر کا بانت سعاد (۱۹) ہمیشہ یوں ہی دربار رسالت کی عظمتوں کی یاد دلاتے رہیں گے۔ ان قصائد میں جہاں عقیدت مندیاں ہیں وہیں فکروفن اور فصاحت وبلاغت کی معرکہ آرائیاں بھی ہیں۔ دونو ں قصائد نے اردو نعت گو شعراء کے اذہان وقلوب کو متاثر کیا ہے۔ انھیں زاویے اور جہتیں عطا کی ہیں۔ یہاں ’’بانت سعاد‘‘ کے کچھ اشعار نقل کیے جارہے ہیں تاکہ ایمان افروز ہوائیں ہمارے زنگ آلود ایمان کو گرماسکیں۔
أنبئت أن رسول اللہ أو عدنی
والعفو عند رسول اللہ مأمول
(ہمیں خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ہمارے بارے میں (مارڈالنے کی) دھمکی دی ہے اور جب کہ اور دربار رسالت سے عفو و درگزر ہی کی امیدیں وابستہ ہیں۔)
فقد أتیت رسول اللہ معتذراً
والعذر عند رسول اللہ مقبول
(میں رسول اللہ کے پاس معذرت کے ساتھ حاضر ہوا، دربار رسالت میں معذرت خواہی مقبول ہے۔)
مھلاً ہداک الذی أعطاک نافلۃ
القرآن فیہا مواعیظ وتفضیل
(ذرا سنیے، اس اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو ہدایت بخشی ، نیز عطیہ قرآن عطا کیا جو مجموعہ نصائح ہے اور دیگر احکام کی تفصیل بھی ۔)
ان الرسول لنور یستضاء بہ
مہند من سیوف اللہ مسلول
(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ایک ایسے نور ہیں جس سے ضیاء پاشی کی جاتی ہے۔ اللہ کی تلواروں میں سے سونتی ہوئی ہندی تلوار ہیں۔)
وقال کل صدیق کنت آمله
لا ألھینک إنی عنک مشغول
(اور ہر ایک دوست جس سے میری امیدیں وابستہ تھیں کہنے لگا کہ مجھ سے دلچسپی نہ رکھنا میں تمہارے معاملے میں حصہ لینے والا نہیں ہوں، میں تو مصروف ہوں۔)
فقلت خلوا سبیلی لا أبالکم
فکل ما قدر الرحمن مفعول
(میں نے کہا دوستو! میرے راستے سے ہٹ جاؤ، مجھے تم لوگوں کی پرواہ نہیں، رحمن ورحیم کی طرف سے جو نوشتہ ہے وہ ہوکر رہے گا۔)
’’رثاء الرسول‘‘ کے حوالے سے کئی قصائد اس میں شامل ہیں ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وفات گوہ گراں تھی جو امت مسلمہ پر بجلی بن کر گری، ایسا سخت ترین اور اندوہ ناک وقت مسلمانوں پر کبھی نہ آیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر یہاں تک کہہ گئے کہ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وفات کا ذکر زبان پر لائے گا تو اس کی گردن اڑادوں گا۔ لیکن قرآن کریم نے آپ کی اس برانگیختگی کوفرو کردیا۔ رثاء الرسول میں انہی جذبات اور انہی آلام واحزان کو سمیٹا گیا ہے۔ آج تک مختلف زبانوں میں مختلف شعراء نے اسی رنج ودرد کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔ ان قصائد کو پڑھ کر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ آنکھیں برسنے لگتی ہیں۔ دل میں الاؤ جلنے لگتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان تہہ خاک ہوا۔ اگر غالب کو اس بڑے انسان کا خیال ہوتا تو گنجینہائے گراں مایہ پر آنسو نہ بہاتایا پرستار غالب رشید احمد صدیقی ’گنجہائے گران مایہ‘‘ کی زحمت نہ اٹھاتے۔ آئیے دیکھیے ’’رثاء الرسول‘‘ میں کیا کیا سوزشیں ہیں۔ کس کس طرح سے تجلیات رسول کو سمیٹا گیا ہے اور کن کن کلمات سے شمائل النبی کی ادائیگی کی گئی ہے:
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے جذبات کویوں جامۂ الفاظ پہنایا ہے:
لما رأیت نبینا متجندلاً
ضاقت علی بعر ضھن الدور
(جب میں نے اپنے نبی (کے جسد خاکی) کو پڑا ہوادیکھا تو کشادگی کے باوجود گھر مجھ پر تنگ ہو گئے۔)
فارتاع قلبی عند ذاک مھلکہ
والعظم منی ما حییت کسیر
(میرا دل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ہلاکت کے وقت تھرتھرا رہا تھا اور میں جب تک زندہ رہوں گا یہ میری ہڈیاں یوں ہی چور چور رہیں گی۔)
أعتیق ویحک إن حبک قد ثوی
فالصبر عنک ما نعیت یسیر
(اے عتیق! یہ کس قدر بربادی ہے کہ تمہارا محبوب آسودہ خاک ہوا، جب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جانے کی خبر ملی ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے باب میں صبر کرنا آسان ہے؟)
بالیتنی من قبل یھلک صاحبی
غیبت فی جدث علی صخور
(اے کاش میں اپنے دوست کے چل چلاؤ سے قبل قبر کے سپرد کردیا جاتا اور مجھ پر چٹانیں ڈال دی جاتیں۔)
حضرت علیؓ نے اپنے رنج والم کو یوں پیش کیا ہے:
أمن بعد تکفین النبی ودفنہ
بأثوابہ آسیٰ علی ھالک ثویٰ
(آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تجہیز انہی کپڑوں میں تکفین کے بعد کیا میں زیر زمین آسودہ شخص پر رنجور نہیں ہوں۔)
رزئنا رسول اللہ فینا فلن نری
بذاک عدیلا ما حیینا من الردی
(ہم اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے چلے جانے سے غم زدہ ہیں۔ سرزمین پر موجودہ لوگوں میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا ہم سر نہیں ہے۔)
وکان لنا کالحصن من دون أھلہ
لہ معقل حرز حریز من العدیٰ
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اپنے اہل وعیال کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے بھی قلعہ تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم دشمنوں سے بچاؤ کے لیے پناہ گاہ تھے۔)
وکنا بمرآہ نری النور و الھدی
صباح مساء راح فینا أو اغتدی
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حسین منظر سے صبح وشام ہم نے شعاعوں اور ہدایت کا مشاہدہ کیا، ہر شام و صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ضیاء پاشیوں کا یہی حال ہوتا۔)
لقد غشینا ظلمۃ بعد موتہ
نھاراً فقد زادت علی ظلمۃ الدجیٰ
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وفات کے بعد دن میں ظلمتیں ہم سے چمٹ گئیں بلکہ یہ تاریکیاں مزید گھنگھور وتاریکیوں کا سبب بن گئیں۔)
وضاق فضاء الأرض عنھم برحبہ
بفقد رسول اللہ إذ قیل قد مضی
(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جانے کی خبر دی گئی تو صحابہ کرامؓ پر یہ سطح زمین تنگ ہوگئی، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا استقبال کیا۔)
وفی کل وقت للصلوٰۃ یہیجہ
بلال ویدعو باسمہ کلما دعا
(اور ہر نماز کے وقت بلال اسے (حضرت علی) بے چین کردیتے ہیں اور جب جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا نام لے کر وہ پکارتے ہیں تو جسم میں اضطراب اٹھنے لگتا ہے۔)
ویطلب اقوام مواریث ھالک
وفینا مواریث النبوۃ والہدیٰ
(قومیں فوت ہونے کے بعد ترکے کی طالب ہوتی ہیں اور ہم میں نبوت اور ہدایت کے ترکے ہیں۔)
ابوسفیان بن حارث نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وفات پر بے پناہ گریہ وزاری کیا، اپنی اندرونی جراحت اور باطنی اضطراب کو یوں منظوم کیاہے:
أرقتُ فبات لیلی لا یزول
ولیل أخی المصیبۃ فیہ طول
(میں اشکبار تھا اور میری رات ڈھلنے کانام نہ لے رہی تھی اور اس دن (یوم وفات نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) برادر مصیبت کی رات انتہائی طویل تھی۔)
لقد عظمت مصیبتنا وجلت
عشیۃ قیل قد قبض الرسول
(یقیناًہماری مصیبت عظیم ہے اور وہ شام بھی نہایت گراں تھی جب اعلان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی روح قبض کرلی گئی ہے۔)
وذاک أحق ما سالت علیہ
نفوس الناس أو کادت تسیل
(لوگوں نے جس قدر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر آنسو بہائے ہیں وہ بالکل برحق ہے یہ آہ وبکا اتنا شدید ہے کہ گویا اصحاب گریہ کو بہالے جائے گا۔)
ویھدینا فلا تخشی ضلالاً
علینا والرسول لنا دلیل
(اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہمارے ہادی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنی گمرہی کا کوئی خوف نہیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہمارے قائد ہیں۔)
أفاطم ان جزعت فذاک عذر
وإن لم تجزعی ذاک السبیل
(اے فاطمہ! اگر تونے جزع وفزع کیا تو بجا ہے اور اگر تم صبر سے کام لیتیں تو وہ بھی ایک طریقہ ہے۔)
فقبراً بیک سید کل قبر
وفیہ سید الناس الرسول
(پس تمہارے ابو کی قبر درحقیقت شہر خموشاں کی سردار ہے، کیوں کہ اس میں سید الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم آسودہ ہیں۔)
حسان بن ثابت انصاری کا آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے خصوصی تعلق تھا اگر یہ کہا جائے کہ وہ آپ کے ادبی سکریٹری تھے تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ کیوں کہ دشمنان اسلام کی معرکہ آرائیوں کا جواب یہی دیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا ان پر خاصا اثر رہا۔ یہی اثر ان کے مراثی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
فبیناھم فی ذلک النور إذ غدا
إلی نورھم سہم من الموت مقصد
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا نور عامۃ الناس میں جگمگارہا تھا اچانک موت کا تیر ان کے نور میں جاگھسا۔)
فأصبح محمود إلی اللہ راجعاً
یبکیہ حق المرسلات ویحمداً
(پس محمود ومحبوب اللہ کی طرف جارہے ہیں، رسالت کی سچائیوں نے اس پر گریہ طاری کردیا اور وہ اس کی نعت سرائی کرتا ہے۔)
وأمست بلاد الحرم وحشا بقاعہا
لغیبۃ ما کانت من الوحی تعہد
(وحی محمدی کے رک جانے سے ازواج مطہرات کے شہروں میں وحشت کا ڈیرا ہے۔)
ومسجدہ فالموحشات لفقدہ
خلاء لہ فیہ مقام ومعقد
(اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے چلے جانے کی وجہ سے مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی جگہ خالی ہے، اب وہاں سکوت و صموت کا قیام وقعود ہے۔)
وبالجمرۃ الکبری لہ ثم او حشت
دیار وعرصات وربع ومولد
(اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا جمرہ کبری (سب سے بڑے شیطان کو کنکری مارنا) پر رمی جمار کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا، آج (آپ کے جانے کی وجہ سے) علاقوں، گھروں، محلوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی جائے پیدائش پر وحشت برس رہی ہے۔)
فابکی رسول اللہ یا عین عبرۃ
ولا أعرفنک الدھر، دمعک یجمد
(اے آنکھ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر آنسو بہاؤ، اور میں نے تمہیں زمانے کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیا کہ تمہارے آنسو کبھی خشک ہونے والے نہیں ہیں۔)
ومالک لاتبکین ذاالنعمۃ التی
علی الناس منہا سابغ یتغمد
(اے آنکھ! تو لوگوں کے محسن پر آنسو کیوں نہیں گراتی ہو، آپ کی کرم فرمائیوں سے آپ کی بخشش (معاشرے) پر چھائی ہوئی تھی۔)
فجودی علیہ بالدموع وأعولی
لفقد الذی لامثلہ الدھر یوجد
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر آنسوؤں کی بھرمار کردو اور چیخ چیخ کر روؤ اس عظیم ہستی کے چلے جانے پر جس کی مثال زمانے میں مفقود ہے۔)
وما فقد الماضون مثل محمد
ولا مثلہ حتی القیامۃ یفقد
(گزشتہ زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم جیسی چیز نہیں کھوئی گئی اور نہ ہی تا قیامت کسی ایسی چیز کا مفقود ہونا ممکن ہے۔)
مع المصطفی أرجو بذاک جوارہ
وفی نیل ذاک الیوم أسعی وأجہد
(میں بھی اپنے مصطفی کی جوار میں جانے کا خواست گار ہوں اور اس دن کی دستیابی کے لیے مستقل کوشاہوں۔)
سواد بن قارب کو جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو ان پر کیا گزری اسے دیکھیے:
جلت مصیبتک الغداۃ ، سواد
وأری المصیبۃ بعدھا تزداد
(اے سواد! صبح سویرے تم پر مصیبتوں کا پہاڑ گرپڑا، اور اس کے بعد تو مجھے سیل مصائب بڑھتا ہی نظر آرہا ہے۔)
أبقی لنافقد النبی محمد
صلی الالہ علیہ ما یعتاد
(فقدانِ ہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بعد ہمارے حصے میں بدستور ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہی باقی رہا۔)
حزنا لعمرک فی الفواد مخامراً
وھل لمن فقد النبی فؤاد
(سچ کہہ رہا ہوں کہ دل میں غم بسا ہوا ہے۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے کھونے والے کے پاس دل ہے؟)
کنا نحل بہ جنابا ممرعاً
جف الجناب فأجدب الروّاد
(ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی سرسبز وشاداب بارگاہ میں حاضر ہوا کرتے تھے آج یہ بارگاہ خشک پڑی ہے جس کی وجہ سے قاصدین تشنہ لب ہیں۔)
فبکت علیہ أرضنا وسماؤنا
وتصدعت وجداً بہ الأکبار
(آج ہمارے ارض وسما اس پر اشکبار ہیں،اور اس کی وجہ سے دلخراش غم لاحق ہوا۔)
یہ ہے صحابہ کرامؓ کی صورت حال کہ وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے انھیں پاگل بنادیا تھا۔ یہ حادثہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا کیوں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ان کی زندگی، ان کی روشنی، ان کی فکر امروز اور فکر فردا دونوں تھے۔ ان کی رضا ورغبت اور جلوت وخلوت کا دارومدار تھے، اگر ایسا محبوب مفقود ہوجائے تو انسان کی زندگی بے کیف ہوجائے اور بے کیفی اسے آغوش ظلمت کے سپرد کردے۔ اسی چیز نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے سے روک دیا تھا(۲۱)اور شہر یثرب ان کے لیے شہر آشوب بن گیا تھا۔
یا خیر من دفنت بالقاع أعظمہ
فطاب من طیبہن القاع والاکم
(اے اکرم الناس! تمہاری ہڈیاں گوشہ (حجرہ) میں مدفون ہیں۔ انہی کے حسن وجمال سے یہ گوشہ اور جسم اطہر کا لباس بھی حسین وجمیل ہوگیا ہے۔)
نفسی الفداء بقبر أنت ساکنہ
فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
(میں قربان ہوں اس قبر پر جس میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سکونت پذیر ہیں، اس میں (امراض امت کا) علاج بخشش اور کرم فرمائی ہے۔)
اس مجموعے کا ایک عنوان ’’دعوۃ الکئیب‘‘ ہے جس میں شعراء نے اپنی بے بسی اور لاچاری کااظہار کیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور دست بدعا ہوکر اپنے مسائل کاحل چاہتے ہیں ۔ انھیں یقین ہے کہ اگر آپ کے طفیل اللہ سے کچھ مانگا جائے تو وہ مل سکتا ہے۔ یہی حب رسول درد کادرماں ہے یہی اتباع رسول شدائد وشناعت کا سدباب ہے اور جاں نثارانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے لیے طمانیت قلب ۔ آئیے دیکھیے زہیر بن صرد جشمی کس طرح جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں درخواست گزار ہیں:
أمنن علینا رسول اللہ فی الکرم
بانک المرء نرجوہ وندخر
(اے رسول خدا! ہم پر کرم فرمائیے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی ایک ایسے انسان ہیں جن سے امید کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ہی سامنے دنیا وآخرت کی حاجات پیش کی جاتی ہیں۔)
أمنن علی بیضۃ قد عاقہا قدر
مشتت شملھا فی دھرھا غیر
(اے رسول خدا! اس شہر پرکرم فرماےئے جسے مقدر نے پٹخ دیا ہے اور آج اس کا شیرازہ بکھر گیاہے۔)
ان لم تدارکھم نعماء تنشرھا
یا أرجح الناس حلما حین یختبر
(اے ارجح الناس! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے ساکنانِ شہر کا خیال نہ رکھا تو اس کی نعمتیں تتر بتر ہوجائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم آزمائش کے وقت کھرے اترے۔)
أمنن علی نسوۃ قد کنت ترضعھا
وإذ فوک تملوہ من مخضبھا الدرر
(اے رسول خدا! صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ان عورتوں پر رحم فرمائیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم دودھ پیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ان کے ہرے چمکدار موتیوں سے اپنا منھ بھرلیتے تھے۔)
امام اعظم ابوحنیفہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، آپ نے اپنی فقہی بصیرت سے فقہی لٹریچر میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ اس فقہی بصیرت اور استخراجی مواہب کا معروف محقق محمدابوزہرہ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ابوحنیفۃ حیاتہ وعصرہ وآراۂ ‘‘ ( ۲۲)میں تحلیل وتجزیہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح علامہ شبلی نعمانی نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’سیرۃ النعمان‘‘ (۲۳)میں امام اعظم کے احوال وکوائف کے ساتھ آپ کی فقہی خدمات اور اس کے اثرات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ امام اعظم نے اپنی قیمتی تصنیف ’’کتاب الأم‘‘ (۲۴)کے ذریعہ علم فقہ کو آگے بڑھایا۔ بالعموم امام اعظم کو ایک فقیہ کی حیثیت سے جاناجاتا ہے جب کہ دنیائے شعر وادب میں بھی آپ کا ایک بلند مقام ہے۔ اللہ نے آپ کو غیر معمولی شاعرانہ کمال سے نوازا تھا۔ مرتب نے آپ کا ایک قصیدہ ’’النعمانیۃ‘‘اس مجموعہ میں شامل کیا ہے۔ جسے ’الخیرات الحسان‘‘ سے لیا گیاہے:
یا سید السادات جئتک قاصداً
أرجو رضاک وأحتمی بحماک
(اے سید السادات! میں ایک مقصد لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور حاضر ہوں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی رضا کا طالب ہوں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی زیر نگرانی رہنے کا خواست گار ہوں۔)
واللہ یا خیر الخلائق إن لی
قلبا مشوقاً لا یروم سواک
(یاخیر الخلائق! بخدا میں ایک وارفتہ دل کا مالک ہوں جس کا پڑاؤ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے سوا کوئی اور نہیں۔)
وبحق جاھک اننی بک مغرم
واللہ یعلم أننی أھواک
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حقیقی جاہ وجلال کی وجہ سے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا شیدائی بن گیا ہوں، اور اللہ بخوبی جانتا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا تمنائی ہوں۔)
أنت الذی لولاک ماخلق إمرء
کلا ولا خلق الوریٰ لولاک
(اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نہ ہوتے تو ایک ذی روح بھی سطح زمین پر نہ ہوتا اور یہ مخلوق بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بغیر وجود میں نہ آتی۔)
أنت الذی من نورک البدر إکتسی
والشمس مشرقۃ بنور بھاک
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کی ہے وہ ذات گرامی کہ جس کے نور میں بدر کامل ڈھل گیا۔ اور سورج بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کے نور سے روشن ہے۔)
یا مالکی کن شافعی فی فاقتی
إنی فقیر فی الوریٰ لغناک
(اے میرے مالک! تو میری فاقہ زدگی اور محتاجی میں میری دست گیری فرما ، میں مخلوق میں ضرورت مند ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے استغناء کا خواہش مند ہوں)
أنا طامع بالجود منک ولم یکن
لأبی حنیفۃ فی الأنام سواد
(میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی جودوسخا کا شیدائی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے علاوہ مخلوق میں ابوحنیفہ کاکون ہے؟)
فاجعل قراک شفاعۃ لی فی غد
فعسی أری فی الحشر تحت لواک
(کل (میدان حشر) میں آپ اپنی ضیافت کو میری شفاعت میں تبدیل کردیں، مجھے امید ہے کہ میدان حشر میں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جھنڈے تلے ہوں گا۔)
عبدالرحمن بن خلدون کو ایک مؤرخ اور ماہر عمرانیات کی حیثیت سے جاناجاتا ہے۔ تاریخ کیسے لکھی جائے مؤرخ کے اصول وضوابط کیا ہوں اور تاریخی واقعات کا تجزیہ کس طرح کیا جائے ان تمام موضوعات پر ابن خلدون نے بڑا استدلالی انداز اختیار کیا ہے۔ اسی طرح تہذیب وتمدن کا ارتقاء کیسے ہوا اور اسلامی تہذیب وثقافت کا دنیا پر کیا اثر رہا، اسلامی خلافت کا کیا مفہوم ہے اور خلیفہ کے اندر کن کن صلاحیتوں کا ہونا لازمی ہے؟ ان تمام پہلوؤں کا ابن خلدون نے بڑے سلیقے سے جائزہ لیا ہے۔ لیکن اس مؤرخ اور ماہر عمرانیات کے متعلق بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ابن خلدون ایک ادیب اور شاعر بھی تھا۔ یہاں ان کے چند اشعار حاضر ہیں:
ھب لی شفاعتک التی أرجو بھا
صفحاً جمیلاً عن قبیح ذنوبی
(مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اپنی شفاعت سے سرفراز کریں جس کے لیے میں پرامید ہوں اور میرے گناہوں کو مٹا کر مجھے ایک سندر سادہ پنّا جیسا بنادیں۔)
إنی دعوتک واثقاً بإجابتی
یا خیر مدعو وخیر مجیب
(میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو اس اعتماد کے ساتھ آواز دی ہے کہ میری ضرورسنی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سب سے بہتر پکارنے والے ہیں اور سب سے عمدہ جواب دینے والے ہیں۔)
قصرت فی مدحی فان یک طیبا
فبما لذکرک من أریح الطیب
(میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مدح سرائی میں کوتاہ ہوں، پھر بھی اگر وہ خوبصورت ہے تووہ کمال صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ذکر (جمیل) کا ہے جس سے بڑی پیاری خوشبو اٹھتی ہے۔)
شیخ عبداللہ شیراوی رفاعی نے جب مدینہ منورہ کی زیارت کی تو ان کے دل میں حب رسول موجزن ہوگئی، انہی موجوں کی اس طرح قید کیا گیاہے۔
مقلتی! قد نلتِ کل الأرب
ھذہ انوار طہ العربی
(اے میری آنکھیں! تم نے اپنی تمام خواہشات پوری کرلیں، یہ اب (تمہارے سامنے) طہ عربی کے انوار ہیں۔)
یا رسول اللہ ! إنی مذنب
ومن الجود قبول المذنب
(اے رسول اللہ! میں گناہوں میں لت پت ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی دہلیز عفو درگزر سے گناہ گار کو قبولیت کی امید ہے۔)
یا نبی اللہ مالی حیلۃ
غیرحبی لک یا خیرنبی
(اے نبی اللہ ! یا خیر نبی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی محبت کے سوا میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔)
ویقینی فیک یا خیر الوریٰ
أن حبی لک أقویٰ السبب
(اے خیرالوریٰ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے تعلق سے پورا یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت کرنا ہی میرا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔) حسان الہند سید غلام علی آزاد بلگرامی کی شخصیت کے کئی زاویے ہیں۔(۲۵) انھیں عربی اور فارسی پر قدرت حاصل تھی۔عربی کے شاعر تھے اور فارسی کے تذکرہ نویس ، تذکرہ نویسی میں آپ کی ایک شناخت ہے، لیکن شاعری میں ایک شناخت بنانے سے قاصر رہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے آپ کی شاعری پر اچھا تبصرہ کیاہے۔ (۲۶)اور بتایا کہ اس پر ہندوستانیت غالب ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ایک بڑے نعت گو شاعر تھے طرح طرح سے حب رسول کی کرنوں کو قید کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی رگ وپے میں حب رسول سرایت کرچکی تھی۔ آپ کے چند اشعار سے آئیے اپنے حب رسول میں مزید رنگ بھریں۔
یا سیدی یا عروتی ووسیلتی
یاعدتی یا مقصدی مولای
(اے میرے سردار، اے میری رسی، اے میرا واسطہ، اے میرے سامان، اے میرے مقصد اور اے میرے آقا۔)
قد جئت بابک خاشعا متضرعاً
مالی ورائک کاشف الضراء
(میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے درپر خوف زدہ اور گڑگڑاتا ہواحاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے علاوہ مصیبت کا ٹالنے والا کوئی نہیں ہے۔)
ولک الوسیلۃ والفضیلۃ فی غد
ولأنت أقدم معشر الشفعاء
(کل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی کے لیے وسیلہ اور عظمت وفضیلت ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہی تمام گروہ شافعین میں سب سے مقدم ہوں گے۔)
أحسن إلی ضیف ببابک واقف
شان الکرام ضیافۃ الغرباء
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ان پر کرم فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دروازے پر کھڑا ہے۔ شرفاء کی شان ہی یہ ہے کہ وہ اجنبی لوگوں کی ضیافت کریں۔)
اس میں ایک باب ’’الاستبراک بالآثار‘‘ ہے جس کے قصائد میں نعلین شریفین کا مخصوص اندا ز میں ذکر کیا گیا ہے۔ شعراء اپنے وجود کو نعلین شریفین کے پیچھے ڈالنے کے خواستگار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے تسمہ بن جائیں تاکہ ان کی قسمت سنور جائے اور آنے والا دن ان کے لیے خوشگوار ثابت ہو۔ عرب شعراء نے حب رسول کو مختلف انداز دیا ہے۔ مجھے یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ عربی نعت گوئی میں تصنع اور تکلف نہیں ہے۔ ذات اکرم سے ان کی حقیقی وابستگی ہے۔ اردو شعراء کے یہاں آورد اور فنی زور آزمائی ہیں۔ اس میں اخلاص، دلی عقیدت مندی اور ذات افضل سے دینی لگاؤ ہے۔ بالخصوص پاکستان کے حوالے سے یہ کہنا ضروری ہے کہ نعت گوئی اور نعت سرائی ایک دھندا بنتا جارہا ہے اس دھندے سے دولت اور شہرت کمائی جارہی ہے۔ محلات تعمیر ہورہے ہیں اور تعیش کے سامان بٹورے جارہے ہیں۔ نسائی نعت سرائی نے تو مردوں کو پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ انھیں نعت سرائی سے زیادہ اپنی جامہ زیبی ، اپنی آرائش اور حنابازی کی فکر ہوتی ہے۔ اب بتائیے اس ہجوم دوراں میں حب رسول کا کہاں اتاپتاہے۔ بہر کیف اس باب سے چند اشعار پیش کیے جارہے ہیں۔
أذکرتنی من لم یزل ذکری لہ
یعتاد فی الأبکار والأصال
(تم نے مجھے اس شخص کی یاد دلائی جو مستقل میرے ذکر میں بسا ہوا ہے صبح وشام (اس کا ذکر کرنا) خاصہ ہے۔)
ولہا المفاخر والمآثر فی الدنا
والدین والأقوال والأفعال
(اور دین ودنیا اور اقوال وافعال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے مفاخر ومآثر حاصل ہیں۔)
لو أن خدی یحتذی بغلالہا
لبلغت ومن نیل المنی آمال
(اگر میرے رخسار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جوتے پہن لیتے تو میری امیدیں خواہشات کو پالیتں۔)
ابوبکر احمد ابن الامام ابومحمد عبداللہ بن حسین قرطبی نے بھی نعلین شریفین کے ذکر میں ایک مخصوص رنگ چھوڑا ہے۔
ونعل خضعنا ھیبۃ لبھائھا
وإنا متی نخضع لہا أبداً نعلو
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے نعلین شریفین کے حسن وجمال کے حضور ہم جھک گئے۔ اور ہم اس کے سامنے ہمیشہ جھکیں گے تاکہ بلندی کو پاسکیں۔)
فیضعھا علی اعلی المفارق إنہا
حقیقتہا تاج وصورتہا نعل
(پس تم اسے سر کی بلندی پر رکھ لو کیوں کہ حقیقتاً یہ تاج اورصورتاً جوتاہے۔)
اس کا ایک باب ’’الحنین إلی زیارۃ روضۃ النبی الأمین‘‘ ہے کہ انسان جب روضہ رسول پر حاضری دیتا ہے تو اس کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ اسے ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے جو آنکھوں کے سہارے بہنے لگتی ہے۔ اس کا اعمال نامہ نظروں میں چلنے لگا ہے وہ شفیع المذنبیین کے سامنے گڑگڑاتا اور آہ وزاری کرتا ہے تاکہ اس در عظیم سے کچھ لے کر لوٹے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرے۔ یہی رقت، یہی اشکباری اور یہی شرم ساری اس طرح کے قصائد میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کا ایک خوبصورت قصیدہ صبیح رحمانی نے بھی کہا ہے جس کا عنوان ’’مواجہ‘‘ ہے۔ اسے پڑھ کر انسان خود کو روضہ کے حضور کھڑا ہوا پاتاہے۔ علامہ ابن جابر اندلسی نے بھی اپنے اس طرح کے جذبات کو منظوم کیا ہے:
ھناء کم یا أھل طیبۃ قد حفا
فبالقرب من خیر الوریٰ حزتم السبقا
(اے اہل طیبہ! تم یقیناًلائق مبارک باد ہو، تم لوگ خیر الوریٰ کی قربت اختیار کرنے میں سبقت لے گئے۔)
فلایتحرک ساکن منکم إلی
سواھا و إن جار الزمان وان شقا
(تمہارا ہر شخص روضہ رسول کے سوا کہیں اور کا قصد نہیں کرتا گرچہ زمانہ قہر برپا کرے یا منتشر کردے۔)
فکم ملک رام الوصول کمثل ما
فھا أنتم فی بحر نعمتہ غرقی
(تم کس قدر خوش بخت ہو کہ تمہیں تمہارے رب کی توجہات حاصل ہیں۔ یہ کتنا خوب ہے کہ تم اس کے بحر عنایات میں غرق ہو۔)
ترون رسول اللہ فی کل ساعۃ
ومن یرہ فھو السعید بہ حقا
(تم سب ہمہ آن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی زیارت کرتے رہتے ہو اور جس شخص کو یہ زیارت دستیاب ہو یقیناًوہ خوش بخت ہے۔)
متی جئتم لا یغلق الباب دونکم
وباب ذوی الإحسان لایقبل الغلقا
(تم لوگ جب بھی آؤتمہارے لیے روضہ رسول کا دروازہ بند نہیں ہوگا، صاحب احسان کا دروازہ بند ہونا پسند نہیں کرتا۔)
اسی باب میں عبدالرحیم برعی کا قصیدہ ہے ۔ دیکھیے روضۂ رسول پر اپنی حاضری کو کس طرح پیش کیا ہے:
لقد شاقنی زوار قبر محمد
شوقی مع الزوار یسری ویدلج
(محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی قبر کی زیارت کرنے والوں نے میرے اندر زیارت کا اشتیاق برپا کردیا، بس میرا اشتیاق زائرین کے ساتھ شب (وروز) چلتا رہتاہے۔)
وأرتاح من أرواح أطیاب طیبۃ
إذا لمسک فی أرجاء ھا یتارج
(میں طیبہ کی خوشگوار ہواؤں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں، اس کے گوشے گوشے سے مشک (وعنبر) کی خوشبو آتی ہے۔)
بلادبھا جبریل یسحب ریشہ
وینزل من جو السماء ویعرج
(یہی وہ سرزمین ہے جہاں حضرت جبرئیل اپنے پروں کو گھسیٹتے تھے، فضاء فلک سے اترتے اور پھر واپس چلے جاتے تھے۔)
شیخ حسین دجانی مفتی یانانے روضہ اقدس کی زیارت کو یوں محسوس کیا:
إذا ھبت الأریاح من نحو طیبۃ
أھاج فوادی طیبہا وھبوبھا
(جب ہوائیں طیبہ سے ہوکر گزرتی ہیں، تو اس کی خوشگوار ومشک بار ہوائیں میرے دل کے اندر ہیجان برپا کردیتی ہیں۔)
فلا تعجبوا من لوعتی وصبابتی
ھوی کل نفس أین حل حبیبہا
(میرے سوزش (دل) عشق (بے پناہ) پر تمہیں استعجاب کیوں ہے؟ ہر انسان کا دوست جہاں بھی وہ اسے اسی طرح ٹوٹ کرچاہتاہے۔)
اس کا آخری باب ’’التسلیم علی صاحب جنات النعیم‘‘ ہے جس میں شعراء نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر درودوسلام بھیجا ہے۔ شیخ جمال الدین زکریاصرصری کااحساس یوں منظوم ہوا ہے:
یا نبی الہدی علیک السلام
کلما عاقب الضیاء الظلام
(اے نبی ہادی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پر سلام ہو جب جب ظلمتیں روشنی کا تعاقب کریں)
زادک اللہ رفعۃ وجلالاً
و بھاء اً و عزۃ لا ترام
(اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی لاجواب رفعت وجلالت اور شان وشوکت میں اضافہ فرمائیں۔)
قد قطعنا إلیک فجا عمیقاً
بقلوب بہا الیک آوام
(دور دراز، اور گہرے دروں سے ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی خدمت اقدس میں ہم حاضر ہوئے۔)
نطلب الفضل منک یا خیرھاد
فلدیک الإحسان والانعام
(اے سب سے بہتر ہادی ! ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے فضل وکرم کے طلب گار ہیں۔ یقیناًاحسانات وانعامات کاخزانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ہی پاس ہے۔)
امام عبدالرحیم برعی نے اس طرح رسول خدا کو ہدیہ تسلیم ارسال کیا ہے:
سلام علی ذلک الحبیب فاننی
إلیہ علی بعدی أحسن وأطرب
(اس حبیب پر درود وسلام ہو میں اپنے حبیب سے دوری کے سبب اظہار غم کررہا ہوں اور رنج سے نڈھال ہوں۔)
عسی یا رسول اللہ نظرۃ رحمۃ
إلینا وإلا دعوۃ لیس تحجب
(اے رسول اللہ ! ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے نظر کرم کی امید ہے، بغیر کسی حجاب کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو آواز لگانا چاہتے ہیں۔)
فثانیہ فی الغار الخلیفۃ بعدہ
لامتہ نعم الحبیب المقرب
(غار ثور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ثانی اثنین حضرت ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بعد آپ کی امت کے کس قدر قریبی دوست ہیں۔)
شیخ محمد بن قزح سبتی جن کا تعلق ساتویں صدی ہجری سے ہے ۔ انھوں نے بھی اپنے حبیب پر درودوسلام بھیجا ہے۔
صلوٰۃ وتسلیم ورحمیٰ بلاإنتھا
علی من غدا فذ الوجود وفردہ
(متواتر صلوٰۃ وسلام اور کرم فرمائیاں اس ذات گرامی پر جو عدیم المثال اور منفرد ہے۔)
علی العروۃ الوثقی، علی القمر الذی
علی الخلق ظل الأمن والمن مدہ
(درودوسلام اس مضبوط رسی پر اور اس چاند پر جس کی چاندنی امن واحسان بن کر مخلوق پر برس رہی ہیں۔)
علی منقذ الإنسان من حفر الردیٰ
ولولا سناہ کان فیھا یدھدہ
(درودسلام اس ذات اقدس پر جو انسان کو ہلاکت کے گڑھے سے نجات دلانے والی ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی روشنی نہ ہوتی تو یہ انسان اس گڑھے میں جالڑھکتا۔)
علی من لہ المجد الصمیم علی الذی
بہ شرف الرحمن آدم جدہ
(درودوسلام اس ہستی پر جسے حقیقی شرف حاصل ہے اور یہی وہ ذات ہے جس کے توسط سے ان کے باواآدم کو اللہ تعالیٰ نے شرف عطا کیا۔)
علی مجتبیٰ قد نور اللہ قلبہ
علی مصطفی قد طہر اللہ بردہ
(درود وسلام اس چنیدہ ذات پر جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ نے صیقل کردیا اور درودوسلام اس منتخب ہستی پر جس کی چادر کو ا للہ تعالیٰ نے پاک کردیا۔)
ابن معصوم نے مندرجہ کلمات کا صلوٰۃ وتسلیم کے لیے انتخاب کیا، جس سے اخلاص اور حب رسول جھلکتا ہے، اگر اندرونی حسیت اور ظاہری اقوال میں تطابق وترابط نہ ہو تو وہ تنافر وتضاد پوری طر ح سے نظر آتاہے۔ ابن معصوم کی معصومیت اپنے اظہار جذبات میں ہویدا ہے۔ یہ بات علامہ شبلی نے عربی اور فارسی کا موازنہ کرتے ہوئے تحریر کی ہے کہ عرب شعراء کی شاعری درحقیقت قلبی اظہار ہے اس میں منافقت کی آمیزش نہیں، جب کہ فارسی شاعری تصنع وتکلف سے گراں بار ہے۔ (۲۷)عرب شعراء کی قدیم روایت رہی ہے کہ اسی تقدیم صداقت میں انھوں نے اپنی جاں تک کا نذرانہ پیش کردیا جب کہ فارسی شعراء چھپ کر وار کرتے ہیں اگر آمنا سامنا ہوا تو دم دبا کر ا پنا راستہ ناپتے ہیں۔ در اصل بات یوں ہے کہ شی واحد ہی کا نام عرب وصداقت ہے۔ حضرت ابوسفیان سے جب دربار حبشہ میں حضرت محمدمصطفی کے متعلق ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا ان کا قائد جھوٹ بولتا ہے تو حضرت ابوسفیان اثبات میں جواب دینے جارہے تھے لیکن ان کی عربیت نے انھیں فی الفور جھنجھوڑ ا کہ کیا عرب بھی جھوٹ بولتا ہے؟ بہر کیف ابن معصوم کی معصومیت اور صداقت کو لے کر بات کچھ آگے نکل گئی۔ آئیے دیکھیے ابن معصوم نے کس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو یاد کیا ہے:
عبیدک الوافد فی سوحکم
یہدی سلاماً نشرہ أعطر
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا غلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دربار میں حاضری کے لیے آنے والا ہے، ہدیہ سلام پیش کرنے والا ہے، جس کا چھڑکاؤ کس قدر عطر بیز ہے۔)
یا سید الرسل سلام علی
وجہک وھو الکوکب الانوار
(اے سید الرسل! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے چہرہ روشن پر سلام ہو جو ستارہ روشن کے مانند ہے۔)
یا صفوۃ الحق سلام علی
مثواک وھو الاقدس الأزھر
(اے حق حقیقی! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تربت پر سلاموں کی بارش ہو، ایک نہایت مقدس اور تابناک ہیں۔)
یا ھادی الخلق سلام علی
سوحک وھی الموطن الافخر
(اے ہادی خلقت! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دربار پر سلام بھیجتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم تو بڑے ہی قابل افتخار مقام پر فائز ہیں۔)
انہی اشعار پر یہ سلسلہ ختم کیا جارہا ہے کیوں کہ دس عناوین کے ایک سو چالیس نعتیہ قصائد کے ترجمے کے لیے طویل وقت درکار ہے۔ خدا کرے ان تمام نعتوں کے تراجم کا شرف کسی کو حاصل ہو۔ مرتب مجموعہ یٰسین اختر مصباحی اعظمی قابل صد افتخار اور قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اتنا خوبصورت اور علمی کام کیا، اس مجموعے میں وضاحت کی کوشش کی گئی ہے کہ دورِ جاہلی ، مخضرمی، اسلامی، اندلسی اور ہندوستانی شعراء نے کس کس طرح عربی نعتیہ شاعری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تصویر کشی کی ہے ، ان قصائد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے مقام ومرتبہ ،مکی ومدنی زندگی، ازواج مطہرات، صحابہ کرام، خلفاء راشدین، مدینۂ رسول، روضۂ رسول، دشمنان رسول، اور غزوات وسرایا پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ عربی نعت گوئی میں ایک استنادی حیثیت کا حامل ہے۔ مرتب کو اس کی ترتیب میں محنت شاقہ سے گزرنا پڑا ہوگا۔ اس محنت شاقہ سے ان کی آخرت سنور جائے گی اور یقیناًاللہ انہیں بڑے انعام واکرام سے نواے گا۔ اس کے مندرجہ مآخذ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ترتیب میں عالمانہ معیار کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ البخاری، الروض الانف، السیرۃ النبویۃ، مولد النبی، الفضل الموھبی، مجلہ التربیۃ الاسلامیۃ، وفاء الوفاء، مسالک الحنفاء، الاستیعاب، الحاوی، الإصابۃ، السیرۃ لابن اسحق، الخصائص الکبری، زاد المعاد، مجلۃ رابطۃ مکۃ المکرمۃ، مجلۃ ھدی الاسلام، شرح المواھب، عمدۃ القاری، تہذیب ابن عساکر، البدایۃ والنہایۃ، اسد الغابۃ، المجموعۃ النبھانیۃ، الروض المحمود، مجلۃ العالم الاسلامی، السیرۃ النبویۃ للسید احمد زینی، دیوان ابی الحسن علی بن أبی طالب، الخیرات الحسان، السبعۃ السیارۃ لکناؤ اور الشوقیات وغیرہ کی ورق گردانی کے بعد یہ مجموعہ ترتیب دیا گیا ہے۔ یقیناً’’دارالقلم‘‘ کے روح رواں نے ایک قابل ذکر کام کیا ہے اس سے مرتب کے دینی، علمی، اور ادبی مزاج کو سمجھاجاسکتا ہے۔ اس مجموعے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے راقم الحروف نے یہ مضمون ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ خدا کرے دنیائے نعت کی تزئین میں مولانا مصباحی اعظمی صاحب آئندہ بھی کوئی بڑا کام کرجائیں۔ اس چھوٹے سے مجموعہ پر دریا کو کوزے میں بند کرنے کی مثال صادق آتی ہے۔ ویسے بھی جو علامہ شبلی نعمانی ، قاضی اطہر مبارک پوری، اور علامہ اقبال سہیل کا ہم وطن ہو اسے اس طرح کا ہفت خواں طے کرنے کی عادت ہوہی جاتی ہے۔ صاحب ترتیب علم وفن کے شیدائی ہیں۔ خدا کرے کہ دنیائے علم وادب میں اسی طرح کے نقوش چھوڑتے جائیں آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور مستقلاً قلم وقرطاس سے لیس رہتے ہیں۔
حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
۱)عبداللہ عباس ندوی کی تصنیف ’’عربی میں نعتیہ کلام (بار اول، نامی پریس لکھنؤ، ۱۳۹۵ھ/۱۹۸۵ء) ۱۹۶ صفحات پر مشتمل ہے اس میں نعتیہ شاعری اور بعض نعت گو شعراء پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
۲)پروفیسر سید اشفاق رفیع الدین کی کتاب کا عنوان ’’اردو میں نعتیہ شاعری‘‘ ہے۔ ۱۹۷۶ء میں کراچی اردو اکیڈمی پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔ مولانا ندوی کی کتاب ’’شعراء الرسول ‘‘ (مکتبہ الفردوس، مکارم نگر، لکھنؤ) ۵۶۹، صفحات پر مشتمل ہے اس میں کعب بن مالک انصاری، حسان بن ثابت انصاری، عبداللہ بن رواحہ اور کعب بن زہیر بن ابی سلمی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے، خاکسار نے اس کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔ وضاحت کے لیے دیکھیے، شعراء الرسول ایک تعارف، ابوسفیان اصلاحی، نعت رنگ ، شمارہ:۹، ۲۰۰۰ء، ص:۱۳۶۔۱۶۸
۳)محمدصدرالحسن ندوی کا یہ مقالہ بعنوان ’’دراسات فی المدائح النبویۃ بالہند‘‘ ہے۔ یہ پروفیسر عبدالباری کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ مقالہ ۲۰۰۷ء میں معہد الدراسات الاسلامیہ اورنگ آباد سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔
۴)اس سمینار کی روداد کے لیے دیکھیے: ادب السیرۃ النبویۃ العربی فی العصر الحدیث، الطبعۃ الأولی، قسم اللغۃ العربیۃ وآدابہا جامعۃ علی کراہ الاسلامیہ ، الہند، نے ۲۰۱۲ء۔۲۰۱۳ء (صفحات ۲۸۰)
۵)وضاحت کے لیے دیکھیے: عربی شاعری میں حمدکا ارتقاء، ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی، نقوش قرآن نمبر، شمارہ: ۱۴۶، ۲۰۰۱ء، ادارہ فروغ اردو، لاہور، ۴/۵۸۵۔۶۵۸
۶)ابوالعتاہیہ: ابونواس اور اسماعیل صبری کی مدحیہ شاعری ، ابوسفیان اصلاحی، مجلہ نعت رنگ کراچی، شمارہ:۷، اگست ۱۹۹۹ء، ص:۱۴۳۔۱۷۴
۷)وضاحت کے لیے دیکھیے: تفسیر نظام القرآن، علامہ حمیدالدین فراہی، دائرہ حمیدیہ ، مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر اعظم گڑھ، ۱۴۱۱ھ/۱۹۹۰ء، ص: ۵۳۱۔۵۳۲
۸)وضاحت کے لیے دیکھیے: سیرۃ النبی ، علامہ سید سلیمان ندوی، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، یوپی ۲۰۰۳ء، ۴/۳۶۶۔۳۶۸
۹)تفسیر نظام القرآن، ص۵۳۱، مزید وضاحت کے لیے دیکھیے: مولانا حمیدالدین فراہی اور سید سلیمان ندوی ، ابوسفیان اصلاحی، مجلہ فکرونظر، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسالم آباد ، پاکستان، ذی الحجہ ۱۴۲ھ/جنوری۔مارچ ۲۰۰۱ء، ۳۸/۳، ص:۶۹۔۱۰۲
۱۰)وضاحت کے لیے دیکھیے: الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرۃ المحمدیہ، سرسید احمد خاں، نفیس اکیڈمی، کراچی، پہلا ایڈیشن مارچ ۱۹۶۴ء، ص:۴۱۳۔۴۹۳
۱۱)سرسید کی معروف کتاب ’’تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ والانجیل علی ملۃ الاسلام‘‘ میں بشارت رسول پر عالمانہ گفتگو کی گئی ہے۔ اور لفظ ’فارقلیط‘ کی حقیقت دریافت کی گئی ہے۔
۱۲)سیرۃ النبی ، علامہ شبلی نعمانی، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، یوپی ۲۰۰۳ء، ۱/۱۲۰
۱۳)یہ مقالہ بزبان عربی ہے، یہ تحقیقی مقالہ راقم الحروف کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ محترمہ کو علی گڑھ یونیورسٹی نے عربی زبان وادب میں پی ایچ.ڈی. کی سند عطا کی ہے۔
۱۴)شوقی اور اس کا قصیدہ ’’الہمزیۃ النبویۃ‘‘ ابوسفیان اصلاحی، مجلہ نعت رنگ کراچی، شمارہ: ۱۱، مارچ ۲۰۰۱ء، ص:۲۱۹۔۲۴۷
۱۵)وضاحت کے لیے دیکھیے: شعراء الرسول، ص:۱۲۳۔۳۷۹
۱۶)ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی نے قصیدہ بردہ کا منظوم ترجمہ کرکے صاحبان اردو پر احسان کیا، دیکھیے فروغ نوا، رئیس احمد نعمانی، مجلس مطالعات فارسی، علی گڑھ، شاعت اول ۱۴۳۰ھ/۲۰۰۹ء، ص:۹۷۔۱۳۹
۱۷)حافظ ابراہیم کے انتقال پر شوقی نے ایک مرثیہ کہا جس میں ان کی شاعرانہ حیثیت کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: الشوقیات، شوقی بک، مطبعۃ الاستقامہ، قاہرہ، ۱۳۷۶ھ/۱۹۵۶ء،۳/۲۲۔۲۴
۱۸)پورے قصیدے کے لیے دیکھیے: الشوقیات ،شوقی بک، مطبعۃ الاستقامہ، قاہرہ، ۱۹۵۳، ۱/۳۶۔۴۳
۱۹)وضاحت کے لیے دیکھیے: شعراء الرسول، ص:۵۹۷۔۵۱۳، ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی نے قصیدہ، ’’بانت سعاد‘‘ کا خوبصورت منظوم ترجمہ کیا ہے۔ یہ ایک بڑی خدمت ہے۔ اسی کے ساتھ اختصار کے ساتھ کعب بن زہیر کااچھا تعارف بھی پیش کیا ہے۔ دیکھیے: چراغ نوا، رئیس احمد نعمانی، اشاعت اول، ۱۴۲۱ ھ /۲۰۰۰ء، ص: ۴۰۔ ۵۴
۲۰)وضاحت کے لیے دیکھیے شعراء الرسول، ص:۱۲۳۔۳۷۹
۲۱)وضاحت کے لیے دیکھیے: داعی السماء، عباس محمود العقاد، دارسعد، مصر، ۱۹۴۵ء، ص:۱۷۵۔۱۷۸
۲۲)یہ کتاب اپنی جامعیت میں مثالی ہے۔ ۴۷۶ صفحات پر مشتمل ہے اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۵۵ء میں دارالفکر العربی سے شائع ہوا ہے۔
۲۳)’سیرۃ النعمان‘ مکتبہ برہان دہلی سے جمادی الاول ۱۳۷۶ھ/دسمبر ۱۹۵۶ء، میں شائع ہوئی ہے۔ ۲۲۲ صفحات پر مشتمل ہے اس کی سطور ۱۵دسمبر ۱۸۹۳ء کو علی گڑھ میں پائے تکمیل کو پہنچی تھیں۔
۲۴)امام شافعی کی یہ کتاب ’المطبعۃ الکبری الأمیریہ ببولاق مصر المحمیۃ‘ سے شائع ہوئی۔ اس کا پہلاحصہ ۲۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔
۲۵)آزاد بلگرامی کے حیات وآثار کے لیے دیکھیے: اردو دائرہ معارف اسلامیہ (زیراہتمام دانش گاہ پنجاب، لاہور) ۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء، ۱/۱۰۴۔۱۱۰، مزید دیکھیے: سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان (تالیف: السید غلام علی آزاد بلگرامی) تحقیق: الدکتور محمدفضل الرحمن الندوی السیوانی معہد الدراسات الاسلامیۃ ، جامعہ علی کرہ الاسلامیہ، علی کرہ (الہند، الطبعۃ الاولی ۱۹۷۶ء، (۹۔۰۱۔۹۹Introduction)
۲۶)وضاحت کے لیے دیکھیے: مقالات شبلی، (مرتب مولوی مسعود علی ندوی)، مطبع معارف، اعظم گڑھ، ۱۳۵۴ھ،۵/۱۱۸۔۱۳۵
۲۷)وضاحت کے لیے دیکھیے: موازنہ انیس وبیر، علامہ شبلی نعمانی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈمی، اپریل ۲۰۰۴ء، ص:۵۔۸