اللہ - لفظ اللہ کا عروضی وزن
لفظ " اللہ " ل پر تشدید کی وجہ سے چار پانچ حروفی آواز ال لا ہ دیتا ہے ۔ اور عروض کے مطابق یہ "مفعول" کے وزن پر ہے ۔ تاہم بعض شعراء ضرورت ِ شعری کے تحت اسے فعلن اور بعض اوقات صرف فعل [ بسکون ع ] بھی باندھ لیتے ہیں ۔
مفعول کے وزن پر مثالیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اللہ نے پہنچایا سرکارﷺ کے قدموں میں
کیا کیا نہ سکوں پایا سرکارﷺ کے قدموں میں
اللہ کے احساس کا احساں کوئی کم ہے
سارا ہی کرم اس در ِ والا کا کرم ہے
فعلن کے وزن پر مثالیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اللہ اللہ ، آقا ؐ آقاؐ کیسی منزل ، کیسا رستہ
اللہ اللہ ، آقاؐ آقا واحد منزل ، تنہا رستہ
فعل کے وزن پر مثالیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اللہ اللہ شہ کونین جلالت تیری
فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام، اللہ اللہ
تخفیف کی مخالفت میں آراء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ڈاکٹر عزیز احسن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
"مجھے بھی اس بات پر اصرار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کو مخفف نہیں کرنا چاہیے، چاہے شعری ضرورت کچھ ہی کیوں نہ ہو، اس فعلِ قبیح سے بچنا لازمی ہے ۔ اللہ کا لفظ پانچ حرفی ہے(بروزن مفعول) اور اس کا ہر لفظ پورا پڑھا جاتا ہے۔اس لیے اسے کسی طور چار حرفی (بر وزن فعلن) بنا کر نہیں لکھنا چاہیے" [1]