اردو میں نعتیہ شاعری ۔ ایک جائزہ ۔ پروفیسر محمد اکرم رضا
مضمون نگار : پروفیسر محمد اکرم رضا
اردو میں نعتیہ شاعری از رفیع الدین اشفاق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق کا مقالہ 1976ء میں کراچی سے طبع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب اسلامی اقدار پر کاربند شخصیت ہیں۔ فارسی اور عربی پر گہرا عبور رکھتے ہیں جب کہ قرآن وحدیث بھی ان کے دائرۂ علم میں داخل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے دنیاوی تعلیم کے اداروں کے ساتھ ساتھ دینی علوم کے اداروں سے بھی بھرپور اکتسابِ فیض کیا۔ ان کا مقالہ ۶۸۴صفحات پر مشتمل ہے۔ طویل فہرست مشمولات اور اس موضوع پر پہلا مقالہ ہونے کی بنا پر اہلِ فکر کا موضوعِ سخن بن گیا۔
باب اول[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مقالہ کے بابِ اوّل میں بنیادی نوعیت کے مباحث ہیں، جن میں تعریف شامل ہے۔اس کے علاوہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فضائل و محاسن بیان کیے گئے ہیں۔ مقالہ نگار نے نعت کی قسمیں کچھ اس طرح بیان کی ہیں: رسمی نعت (ص ۶۰) مقصدی نعت (ص ۶۰ تا ۶۴) اصلاحی نعت (ص ۶۴ تا ۶۵)
باب دوئم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
دوسرے باب کا عنوان ہے ’’اردو شاعری کے مآخذ‘‘ جس سے مقالہ نگار کی مراد عربی، فارسی اور ہندی اثرات کو شاعری میں تلاش کرنا ہے۔ زمانۂ رسالت کے شاعروں میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ذرا طوالت سے ہے۔ جو اشعار حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصالِ رسول ﷺ کے بعد کہے مقالہ نگار نے انھیں مرثیہ میں شامل کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں:
"یہ قصائد تاریخ مدحِ رسولﷺ میں نہایت اہم ہیں۔ وہ مرثیے جن میں حزن، ملال اور بکا کے مضامین پائے جاتے ہیں حقیقت میں ثنائے رسولﷺ ہی میں داخل ہیں۔ اور عام مرثیوں سے اس طور مختلف ہیں کہ ان میں غمِ فراق کے اظہار کے ساتھ ساتھ ’’لقاء رسول فی الخلد‘‘کی تمنا پائی جاتی ہے۔ (ص۷۳)"
فارسی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے مقالہ نگار نے نعتیہ شاعری کو عہدِ سلمانی سے منسوب کیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں وضاحت کی ہے:
"فارس کے جن نعت گو شعرا کا ذکر کیا گیا (اوپر بہت سے نام گنوائے گئے ہیں) ان کا کلام ہندوستان میں فارسی نصاب کا ہمیشہ جزو بنا رہا اور فارسی کا ہندوستان میں جو مقام رہا ہے وہ بھی ظاہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی ادب کے اثرات اردو ادب پر نہایت گہرے ہیں۔ نعتیہ شاعری اس سے مستثنیٰ نہیں۔ (ص۹۰)"
اس باب میں مقالہ نگار نے محسن کاکوروی کے قصیدہ لامیہ کے ہندوانہ اور ہندو مزاج کی وکالت کی ہے۔ اگر خاص طو رپر دیکھا جائے تو اس قصیدہ لامیہ میں کفر سے اسلام کی طرف رجوع کرنے کا جذبہ غالب نہیں آتا۔ اس کی تلمیحات، استعارے اور اشارے مسلمانوں کے مخصوص طبقہ ہی میں سمجھے جاسکتے ہیں۔
باب سوئم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
فاضل مقالہ نگار نے اپنے مقالہ کے تیسرے باب میں اردو نعت گوئی کا جائزہ تاریخی ادوار کے لحاظ سے لیا ہے، قدیم دکنی دور سے آغاز کیا ہے اور پھر آہستہ آہستہ مختلف ادوارِ نعت گوئی سے گزرتے ہوئے عصرِحاضر میں آگئے ہیں۔ انھوں نے مولود ناموں، معراج ناموں، نورناموں، وفات ناموں، شمائل ناموں، تولد ناموں کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے منظومات نگاری کو شاملِ اشاعت کیا ہے۔"
باب چہارم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
باب چہارم کو قدما کا دور ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے اس دور کے شعرا کا بغائر مطالعہ کیا ہے اور ان کی تخلیقات پر گہری نظر رکھی ہے۔ لکھتے ہیں:
"یہ دور مثنوی اور قصیدے کے لیے مشہور ہے۔ نعتیہ مضامین کے لیے بھی شعرا نے انھی اصناف سخن کو اختیار کیا ہے۔ چناںچہ سودا کے ہاں ہم قصیدہ اور نوازش کے یہاں قصیدہ اور مثنوی پاتے ہیں۔ اس عہد کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ شعرا نے حضور اکرمﷺ کی سیرت پاک کو بالتفصیل احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں نظم کیا اور اسوئہ حسنہ کے وہ پہلو پیش کیے جن سے اصلاحِ اُمت کی صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ (ص۱۷۸)"
باب پنجم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
باب پنجم انتہائی مختصر ہے جو صرف چار صفحات پر محیط ہے۔ اس میں ایک ہی شاعر نظیر اکبر آبادی کا ذکر ہے۔
مقالہ نگار نے نظیر کے اس لگائو کا ذکر کیا ہے جو انھیں اقدارِ اسلامی اور ذاتِ محمدﷺ سے تھا۔ ان کے نعتیہ شعر میں شروع سے آخر تک رسولِ کریمﷺ کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اس میں عقیدت مندانہ بے اعتدالی نہیں۔
باب ششم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
باب ششم کو مقالہ نگار نے متوسطین کا دور قرار دیا ہے جس میں کرامت علی شہیدی، مومن خاں مومن، غلام امام شہید جیسے شعرا کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر اشفاق کے نزدیک جو اثرانگیزی اس زمانہ میں نعتیہ کلام کو حاصل ہوئی وہ اس سے پہلے کہیں نظر نہیں آتی۔ مقالہ نگار نے اس دور کی خصوصیات حسبِ ذیل بیان کی ہیں۔ زبان صاف اور شستہ ہے۔ تلمیحات اور استعارات کی قدرت اور رنگینی ہر دورکی نسبت زیادہ ہے۔ حالاں کہ یہ ڈاکٹر اشفاق کی ذاتی رائے ہے اس سے قبل کے اردو کے کئی شعرا ان سے زیادہ زبان کی شستگی، سلاست اور بے ساختگی کا نمونہ تھے۔ کرامت علی شہیدی اور غلام امام شہید واقعی شہدائے فکر و فن تھے مگر اور بھی تو تھے جنھوں نے اپنی زندگیاں محبتِ رسولﷺ پر نچھاور کردیں۔ اس باب میں انھوں نے زیر بحث شعرا کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔
باب ہفتم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
باب ہفتم متاخرین پر مشتمل ہے جس کے دو اہم ترین نام امیر مینائی اور محسن کاکوروی ہیں لکھتے ہیں:
یہ دور اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ یہاں نعت گو شعرا کا وہ طبقہ فروغ پاتا ہے جس نے حبِ رسولﷺ کے والہانہ اظہار میں مناسب اور نامناسب کے امتیاز کو نظر انداز کردیا۔ اب داخلی جذبات کے اظہار میں وہ مضامین بھی جگہ پانے لگے جن کی تشریح تصوف کی زبان میں ہوسکتی ہے۔ ان کا جواز شریعت میں کہیں نہیں ملتا‘‘ افسوس تو یہ ہے کہ ان شعرا کا تذکرہ کرتے ہوئے مقالہ نگار نے امیر مینائی اور محسن کاکوروی کا صحیح معنوں میں تفصیلی مطالعہ نہیں کیا۔
باب ہشتم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
آٹھواں باب پچاس صفحات سے زیادہ پھیلائو رکھتا ہے۔ اس میں مقالہ نگار نے بطور خاص دورِ جدید کے شعرا کو سامنے رکھا ہے۔ اس میں حالی، شبلی اور نظم طباطبائی کو شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹراشفاق نے حالی کی نعت گوئی کا تفصیل سے جائزہ لیاہے۔ حالی کی پہلی شاعری میں اسوئہ حسنہ کا ذکر ہے لیکن یہ محض روایت کی پابندی نہیں۔ حالی کی شاعری کا تذکرہ ان پر مدلل تبصرہ ہے۔ حالی کے متعلق کہتے ہیں:
"اس میں اسلوبِ بیان کی ندرت اور مضامین کی صداقت اپنے حسنِ انداز میں ہر جگہ جلوہ گر ہے اور نعتیہ ادب میں اس حسنِ خوبی میں کم ملتی ہے۔ ساتھ میں مسدس کے نعتیہ بند اپنی سادگی اور پُرکاری کی وجہ سے امتیازی خصوصیت رکھتے ہیں۔ (ص۳۶۵)"
شبلی میں تخلص نام کو نہیں ملتا ان کا رنگِ شاعری اصلاحی ہے۔ شبلی کانعتیہ کلام کم ہے لیکن مقصدی ہے۔ اس دور کے جید عالماحمد رضا خاں بریلوی گزرے ہیں جو اپنے تبحر علمی کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں شاعر کی حیثیت سے کم مشہور ہیں۔ ایک ہزار کتابوں کے مصنف تھے۔ اردو کی طرح عربی اور فارسی پر بھی گہرا عبور تھا۔ نعتیہ کلام میں ان کا دیوان ’’حدائقِ بخشش‘‘ غیرمعمولی شہرت رکھتا ہے۔ جس میں مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ اتنے بڑے عالم کی نعتیہ شاعری نے زمانے بھر کوورطہء حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ اس قدر مشہور اور معتبر محدثِ کامل نعت کے لیے وقت کیسے نکالتا ہوگا اور پھرنعت بھی وہ جو زمانے کو نہیں بلکہ زمانوں کو متاثر کررہی ہے۔ ڈاکٹر اشفاق نے پاس ادب کے ساتھ حضرت مولانا کا ذکر کیا ہے۔ نظم طباطبائی کو انھوں نے استاد شاعر کا درجہ دیاہے جس کا شہرہ چار سو پھیلا ہوا تھا۔ ڈاکٹر اشفاق لکھتے ہیں:
"دورِ حاضر نعتیہ شاعری کے لیے انتہائی عروج کا زمانہ ہے جس نے اقبال، عزیز لکھنوی، امجد حیدر آبادی، حفیظ جالندھری اور ماہر القادری جیسے نام ور شعرا پیدا کیے۔ ان اصحاب نے حضورﷺ کی سیرت کو مصلحانہ، حکیمانہ اور استادانہ رنگ میں پیش کیا۔ اور نعتیہ ادب کو شعری دل آویزیوں سے مالامال کردیا۔(ص۶۷۴)"
ڈاکٹر اقبال کے نعتیہ محاسن کا دل کھول کر جائزہ لیتے ہیں۔ ظفر علی خاں کو بھی فراموش نہیں کرتے اور باور کراتے ہیں کہ یہ وہ انقلابی شعرا تھے جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے سوئے ہوئے مقدر کو اپنی شاعری سے بیدار کردیا۔ اسی طرح وہ اس دور کے نام ور ہندو شعرا کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ جو مسلمان تو نہیں ہوئے مگر ان کی نعتیہ شاعری فکر و فن کے لحاظ سے کتنے ہی مسلم شعرا سے آگے ہے۔
ہم ڈاکٹر اشفاق کے مقالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے آخر میں ڈاکٹر نجم الاسلام کی رائے پیش کرتے ہیں:
"بہرکیف بعض اہم شعرا کے نعتیہ کلام پر تبصرہ کے ضمن میں نعتیہ شاعری کے میلانات و رجحانات کے متعلق خاصے مفید نکات پیش کیے گئے ہیں۔ مصنف کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ دورِ جدید کے نعتیہ کلام میں حکیمانہ بصیرت، مصلحانہ تقدس، مجتہدانہ انداز اور شاعرانہ دلآویزیوں نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایراد و ایزاد کی گنجائشوں کے باوجود یہ ایک اہم تحقیقی مقالہ ہے جو مفید معلومات اور مباحث سے پرُ ہے اور اس موضوع پر تقدم بھی رکھتا ہے۔ (صریر خامہ، حوالہ مذکورہ ص ۱۳۷، اردو میں نعت گوئی، پروفیسر شفقت رضوی)