وفیات نگاری
"خالد مصطفی " وفیات نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں [1]
وفیات نگاری دراصل تاریخ نگاری،سوانح نگاری اور تذکرہ نگاری کی ایک شاخ ہے اور وفیات نگاری کی ابتدا کا سہرامسلمانوں کے سر ہے ۔ اس موضوع پرعربی زبان میں ابوالحسن علی بن ابو بکر علی الھروی کی ’’الاشارات الی معرفتہ المزارات‘‘ نامی کتاب کواوّلیت حاصل ہے جو ۱۲۱۴ء میں شائع ہوئی ۔ بعد ازاں شمس الدین ابو العباس احمد بن ابراہیم بن ابی بکربن خلکان کی سات جلدوں پر مشتمل کتاب ’’وفیات الاعیان وانباء الزمان ‘‘۱۲۸۲ء میں شائع ہوئی جسے بہت شہرت حاصل ہوئی۔۱۳۵۷ء میں ذہبی کی کتاب ’’تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر والا علام ‘‘اور اس کے بعدعلامہ ابن کثیر کی کتاب ’’البدایہ والنہایہ ‘‘ اس موضوع پرلکھی جانے والی کتب میں شامل ہیں۔ابن کثیر کی یہ کتاب اگرچہ تاریخ عالم کے واقعات پر سنین وار لکھی گئی ہے لیکن اس کتاب میں سال بہ سال وفات پانے والے مشاہیر کا ذکر بھی ملتاہے۔ انگریزی زبان وادب میں فروبشر (Frobisher)نے ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ایک کتاب ’’ Frobisher,s New Select Collectoion of Epitaphs ‘‘ کے نام سے ۱۷۹۰ء میں لندن سے شائع کی ۔انگریزی زبان میں وفیات نگاری وکتبہ سازی پر اس کتاب کو اوّلیت حاصل ہے۔ وفیات نگاری متوفی کی صحیح تاریخِ وفات اور اس کی سیرت وخدمات پر ایک مختصر مگر جامع نوٹ ہوتا ہے۔اس صنف میں تنقید و تنقیح سے حتی المقدور گریز کیا جاتا ہے تاہم یہ حتمی اصول نہیں اور مرنے والے کی کمزوریوں کومہذب انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ عربی ، فارسی ، ترکی اور انگریزی زبانوں میں وفیات نگاری کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم اردو میں یہ صنف نو وارد ہے۔اردو میں وفیات نگاری کی ابتداء انیسویں صدی میں ہوئی۔۱۸۴۷ء میں سرسیّد احمد خان نے ’’آثار الصنادید‘‘تصنیف کی جسے ہم اردو میں وفیات نگاری کا نقطہ آغاز کہہ سکتے ہیں۔۶۱۴صفحات پر مشتمل اس کتاب کی ابتداء تقریظوں سے ہوتی ہے۔پہلے باب میں شہر سے باہرکی عمارات کا ذکر ہے۔دوسرے باب میں قلعہ معلی ،تیسرے میں شاہ جہاں آباداور چوتھاباب دلّی اوراہلِ دلّی کے بارے میں ہے۔ ’’آثار الصنادید‘‘ کے بعد ، مولوی بشیر الدین احمد کی ’’ واقعات ِ دارالحکومت دہلی ‘‘ اور مولوی نور احمد چشتی کی ’’تحقیقاتِ چشتی‘‘ جیسی کتب نے وفیات نگاری کے سلسلے کو آگے بڑھایا ۔مولوی نوراحمد چشتی نے ’’تحقیقاتِ چشتی‘‘۱۸۶۴ء میں سات سال کی شبانہ روز محنت کے بعد شائع کی۔۸۷۲ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں لاہور اور گردونواح کی عمارات کا احوال مذکور ہے۔مولوی نوراحمد چشتی نے یہ کتاب لاہورکے اسسٹنٹ کمشنر مسٹر ولیم کولڈ اسٹریم کی فرمائش پر تحریر کی تھی لیکن اس کتاب کے شائع ہونے سے قبل مولوی صاحب ہیضے کی وباء میں رحلت فرما گئے۔۱۸۷۰ء میں مفتی غلام سرور نے ’’مخزن ِ حکمت ‘‘ لکھی جس میں ۷۴ نامور لوگوں کی زندگی کے حالات قلم بند کئے تاہم یہ کتاب مکمل طور پر وفیات نگاری کی صنف کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔
بیسویں صدی میں اردو زبان میں وفیات نگاری کے کام کا آغاز حکیم حبیب الرحمان کی تصنیف ’’ آسودگانِ ڈھاکہ‘‘ سے ہوتا ہے ۔یہ کتاب ۱۹۴۶ء میں شائع ہوئی جس میں ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں مسلمان مدفونین کا احوال درج ہے ۔قیامِ پاکستان سے قبل وفیات نگاری کو فروغ دینے میں سید سلیمان ندوی (یادِ رفتگاں)سید صباح الدین عبدالرحمن (بزم ِ رفتگاں)اورعبدالماجد دریا آبادی (وفیات ِ ماجدی ) نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ ماہر القادری اور ستار طاہر بھی اس سفر میں پیش پیش رہے۔ہندوستان میں بھی وفیات نگاری پر خاصہ کام ہوا۔بشارت علی خان فروغ نے ’’وفیات مشاہیر اردو‘‘ڈاکٹر سید شاید اقبال نے ’’وفیات مشاہیر بہار‘‘ڈاکٹر ابو النصرمحمد خالدی نے ’’وفیات اعیان الہند‘‘(۱۹۸۵ء)اور مالک رام نے’’ تذکرۂ معاصرین‘‘ اور ’’تذکرۂ ماہ وسال ‘‘(۱۹۹۱ء)لکھ کراس کام میں اپنا حصہ ڈالا۔قیام پاکستا ن کے بعد کئی دہائیوں تک وفیات نگاری پر کوئی قابلِ ذکر کام نہ ہوا۔ ۱۹۷۰ء میں مولوی محمد شفیع کے مقالات کو ان کے بیٹے احمد ربانی نے مرتب کر کے ’’صنادید سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا۔ اس کے بعد اگلی دو دہائیوں میں پھر کوئی قابل ذکر کتاب خالصتاً وفیات نگاری کے حوالے سے سامنے نہ آسکی۔
نعت گوئی میں وفیات نگاری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
نعت گوئی میں وفیات نگاری کی ایک عمدہ مثال ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کا مرتب کردہ ’’وفیات معارف‘‘ (مطبوعہ: قرطاس پبلشرز، گلشن ا قبال کراچی، 2013ء) ہے۔ ’وفیاتِ معارف‘ ارباب علم و فضل کے انتقال پر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ (انڈیا) میں شائع ہونے والی تحریروں جولائی 1916ء تا دسمبر 2012ء کا مثالی انسائیکلوپیڈیا ہے جس کی اہمیت ہر دور میں مسلّم رہے گی