نعت اوررسول اکرم کے تقاضے ، گوہر ملسیانی
گوہر ملسیانی۔ملتان
ABSTRACT
GoherMalsiyaanihaslaiddown some norms for Poets involved in devotional poetry to enlighten them about fragility and frailness of words to be used in praise of the Holy Prophet Muhammad (S.A.W). In order to strengthen his argument, he has quoted various verses of Qura'an and some Traditions i.e. Hadis besides some advises of poets themselves to make poets conscious at the time of creating devotional poetry. The article of Goher Malsiyaani is reflective of his knowledge of poetic norms and awareness of teachings of Islam in this connection. The content of devotional poetry need to be according to exact position of the Holy Prophet Muhammad (S.A.W) as laid down in the Quran and Sunnah and sentiments expressed therein should remain under the contour of knowledge, divinely given to Muslims.
نعت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے
خالقِ ارض وسما وات کے احسانات کا بحرِ بیکراں روزِ آفرینش ہی سے موجزن ہے ۔گونا گوں مخلوقات سے عالمِ جست وبود لبریز ومزین ہے ۔انصاف واکرام کایہ عالم ہے کہ گلشنِ انسانیت رنگا رنگ حسن وجمال ،نیرنگی فکر وخیال اورجذبہ ہائے قیل وقال کے ؟؟؟ سے روشن ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کہیں جلالِ ربانی کی فراوانی ہے ۔کہیں حسن وجمال رحمانی کی تابانی ہے اور کہیں عنایاتِ جاودانی کی جو لا نی ہے۔ انصام خسرو انہ کی کبریائی یہ ہے خالقِ کائنات نے فیصلہ فرمایا :
اِنِّی جَاءِل’ ٗفِی الْاَرْضِ خلیفۃً ط(البقرہ:۳۰)
’’یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔‘‘
کس قدر احسان عظیم ہے کہ انسان کواشرف المخلوقات بناکر خلافت کاتاج اس کے سر پر رکھ دیا ۔ پھر علم کا نور، حسنِ شعور احساسات کا سرور اوور تمیزِ حسنات وشرور سے نواز دیا۔یہ اکرام یہ انعامات اور یہ عنایات بے حد وحساب ہیں ۔
سب سے عظیم تو یہ احسان ہے کہ انسان کی رہنمائی کے لیے نبی آخر الزماں ، مہرِ درخشاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مبعوث فرمایا اور قیامت تک اس عالمِ فانی میں آنے والی ذرّیتِ آدم ؑ کا ہادی ومربّی بناکر بھیجا بلکہ اپنی آخری کتاب ،صحیفۂ آسمانی،قرآنِ حکیم بھی عطا کیا جوانسانی زندگی کا منشور ہے جو اسرار ورموز حیات سے معمور ہے ، جس میں علم وحکمت مستور ہے اس احسان کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں فرمادیا :
’’وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت ملی ۔اسے حقیقت میں خیرِ کشید مل گئی ۔‘‘(البقرہ : ۲۶۹)
انسان کواس عطیۂِ علم وآگہی سے سوچنے ،سمجھنے ،فکر وتدبر کرنے کے اہم اور مستند زاویے اور قوتِ ادراک سے پرشوکت وثروت دائرے مل گئے ۔ان دائروں کے اندر خیالات وتصوارت ،عقلی دلائل واحساسات اور عظمتِ تحقیق وجستجو کے انعامات میں ،یہ قیمتی اور لاثانی تعلیمات جسے ودیعت ہوئیں وہ صاحبِ بصیرت وبصارت بن گیا۔ وہ فنونِ لطیفہ کے حسن وجمال کا پرستار بن گیا، اعجازِ فن کا طلب گا بن گیا اور رموزِ شعر وسخن کا راز دار بن گیا۔
عصرِ حاضر میں ماضی کی روایت کی طرح ہمیں چمنستانِ ادب میں مختلف منہاجِ ادب ملتے ہیں ۔ ان سب میں شعروسخن کے متنوع اور پُر تاثیر اظہار یے ہمیں اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔مگر میری سعی تحریر کے کینوس پراس وقت صنفِ نعت کے نقوش اپنی ضیائیں پھیلارہے ہیں ۔یہ شعر وسخن کی وہ ہردلعزیز صنف ہے جس میں سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عقیدت ومحبت کے انوار وافکار کی ضیائیں جگ مگ جگ مگ کرتی ہیں اور اسلوبِ بیان کی حلاوتیں بحرِ قلب کی موجیں بنتی ہیں ۔یہ وہ صنفِ صبیح ہے جسے خالقِ علم وآگہی نے پسند فرمایا ہے بلکہ خود اس کو بیان کیا ہے اور اس کے لیے فرمان جاری کیا ہے :(سورۃ احزاب ۵۶)لکھنا ہے آیت:
’’بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پردرود بھیجتے ہیں اے لوگو جوایمان لائے ہو ان پر درود بھیجو اورخوب سلام بھیجا کرو ۔‘‘
یہ درود وسلام اپنے اندرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی پیغمبرانہ شان رکھتا ہے بلکہ خاص طور پراطاعت و عقیدت کاحکم رکھتا ہے ۔رحمت اللعالمین اوراخلاقِ عظمیٰ کی مدحت وتعریف کے اظہار کی تقدیس رکھتا ہے۔جس طرح قرآن مجید میں دوسرے فرائض ادا کرنے کا حکم ہے ، اسی طرح درود وسلام بھیجنے کاحکم ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاارشاد گرامی ہے ،میرانام سنتے ہی درود وسلام بھیجو جو درود وسلام نہیں بھیجتا وہ بخیل ہے ۔ درود وسلام گویا حسنِ نعت کا جوازہے ۔ یوں نعت ہر مسلمان شاعر کی زندگی کااثاثہ اور جزوِ ایمان بن جاتی ہے ، جہاں فکر وخیال اسی کا جمال ہے بلکہ عمیق نظرسے دیکھیں تو نعت گو کے احساسات وجذبات کی آزمائش ہے بلکہ تذکارِ سید ابرار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اظہار و اسلوب کی پیمائش ہے کہ وہ قرینے سے اوصافِ سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو مدحت کی زیبائش وتابش میں بیان کرتا ہے یا اسلوب وطرزِ ادا میں محبت وعقیدت کو سمونے سے قاصر ہے ۔یادرہے اہلِ علم وعرفان نعت کو عروسِ حکمت ،جانِ شریعت اور حکمِ ربِّ کائنات کہتے ہیں۔
عربی ، فارسی اور اردو کے مدحت نگاروں کے کلام کا مطالعہ کریں تو اصناف ِ سخن میں نعت کہنے کی سعادت ،ودیعتِ خداوند بھی ہے ۔ ان کے اشعار میں ذہن ودل کاجو سرور وجوش شامل ہے وہ بھی عطا ئے ربانی ہے ۔پروفیسر محمد اقبال جاوید کے یہ نادر خیالات کس قدر موزوں اور درست ہیں کہ نعت گوئی کی توفیق اللہ کریم کے خصوصی انعامات میں سے ہے ۔یہ انھیں کو نصیب ہوتی ہے ،جنھیں نوازنا مقصود ہوتا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ:
’’حسن وشعور کے ادراک‘‘ سے خود جہانِ شعور وفراست حسین ہوجاتا ہے۔کسی مقدس شخصیت سے محبت کرنے والی عام شخصیت بھی حضورمنور ہوجاتی ہے۔‘‘(1)
ہم دیکھتے ہیں ،گلشنِ ادب میں اگر کہیں حسنِ مجازی کے گھونسلے ہیں تودوسری جانب شجرِ وقت پرروحانی حسن کے پائیدار آشیانے بھی درخشاں ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کرۂ ارض پرآسماں تاباں ہے ، اسی طرح چودہ سوسال سے ہرخطّۂِ زمیں پر سراجُ منیرا ،مظہرِ نورِ ربّ العلی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بعثت بھی ضوفشاں ہے ۔یہ حقیقتاً وہ دائمی صداقت ہے جو عہدِ موجود کی پیشانی پر بھی ضوبارہے اورحسن وجمالِ نعت کو بھی زرنگار کرتی ہے ۔ڈاکٹر ظہوراحمد یوں اظہار کرتے ہیں :
’’نعت کے دائرے کو محدود سمجھنادرست نہیں ،کیونکہ جتنا دائرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی نبوت ورسالت کاہے ،اتنا ہی دائرہ اوصافِ حمیدہ کاہے ۔ جونعت پر کام کرنے والوں کی کوششوں سے انسانیت تک پہنچ رہے ہیں تمام اسلامی زبانوں میں نعت اورسیرت پرسب سے زیادہ کام اردو زبان میں ہے‘‘۔(2)
اصنافِ سخن میں صنفِ نعت کا تنوع ،حق وصداقت کاآئینہ دارہے بلکہ اب تو تمنائے نعت ،نعت نگاروں کے لیے مثل آرزوئے کوثر ہے ۔ہرشاعر کاقلبِ تپاں ،روحِ ذوقِ فراواں اور فکر فروزاں متموج بحرِ بیکراں کی طرح عقیدت ومحبت فخرِ کون ومکان صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اظہار کے لیے ہر لمحے کوشاں ہے اور مجموعہ ہائے نعت کاظہور منصّۂِ شہود پر مانند پورش ژالہ ہے جو شعرائے نعت کی دلچسپی کا پرکشش حوالہ ہے۔ اس تخلیقِ نعت کی فراوانی کاتذکرہ ذرپروفیسر محمد اقبال جاوید کی رعنائی خیال میں فروزاں دیکھیے ۔
’’جب جذبہ سیال ہوجائے ،جب فکر پگھل جائے ،جب آنکھ سراسر اشک بن جائے ،جب پورا وجود عشقِ جمالِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اداؤں میں جذب ہوجائے تو پھر نعت وثنا کی بارشِ الہام کوکون روک سکتا ہے ۔ کیاآپ طلوعِ آفتاب پر پابندی لگاسکتے ہیں؟ کیا موجِ صبا کو خرام سے روکا جاسکتا ہے ؟ کیا شگفتنِ گل کوآپ مؤخر کرسکتے ہیں؟ اگر یہ سب ناممکن ہے تو پھر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مدح طرازی اور نعت گوئی کوآپ کیسے ملتوی کرسکتے ہیں ‘‘۔(3) حقیقت یہ ہے کہ جب یہ جوش وجذبہ شاعر کے دل میں تحریک پیدا کرتا ہے تو عقیدت ومحبت کاجوازِ تخلیق بھی شاعر کے خیال وفکر پراثر انداز ہوتا ہے تو تخیل کی پرواز رفعتِ فلک کو شرمانے لگتی ہے ،جس سے اسلوب وطرزِ ادا کی بادِ بہار کا الفاظ وتشبیہات اور استعارات کونکہتِ تصورات و محاکات سے جگمگانے لگتی ہے بلکہ ریاضتِ شعر گوئی کوبھی تڑپا نے لگتی ہے اور مضامین جلیلہ کوبھی اذہان میں جگانے لگتی ہے ۔یوں نعت کا جلال وجمال بھی بے مثل وبے مثال بن جاتا ہے اور نعت نغمۂ کتابِ نور کا تابندہ مقال بن جاتی ہے جس سے حُبِّ احمدِ مختار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بصائر چمکنے لگتے ہیں۔عشق ومحبت کے گلہائے عقیدت کے مناظر مہکنے لگتے ہیں ۔گلشنِ مدحتِ محبوبِ ستار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے غنچہ ہائے پُروقار چٹکتے لگتے ہیں ۔یوں نعتِ آفتابِ نو بہار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جملہ عناصر دمکنے لگتے ہیں۔ یہ صدیوں کا قصہ ہے بلکہ عصرِ حاضر کالازمی حصہ ہے ۔
نعت کے تاریخی مراحل کا اگر مطالعہ کریں تو نعت کی روایت ابتدا ہی سے حسن وجمالِ شمائل اور محبت و مؤدت کے تصورات سے مزین نظرآتی ہے ۔اگر چہ نعت بطور صنفِ اصنافِ ادب کامقام نہیں رکھتی مگر شعرا اپنی منظومات میں نعت کے اشعار کہہ دیتے تھے ۔ ان کے ہاں سادہ اور نکھری ہوئی زبان ہوتی تھی ۔مکمل نعت کہنے کارواج نہ تھا۔ولیؔ دکنی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے :
تیری محبت کارتن دل میں جتن سب ون !چھو
یامحمد دوجہاں کی عید ہے تجھ ذات سوں
حق نے لولاک لماحق میں محمدکے کہا
ان سوا کون سے مرسل نے یہ رتبہ پایا
مغفرت تیری ولیؔ سہل بلا ریب ہے کیوں
نام احمد صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم
کا جو لب پر تیرے ہر دم آیا
اس دور میں نعت میں بے احتیاطی نہیں تھی جو بعد میں در آئی ،قرآن وحدیث کے مطابق خیالات کے اظہار کی کوششی کی جاتی تھی ۔طبقہ متوسطین میں نعتیہ شاعری کوترقی نصیب ہوئی ۔یہ تین اشعار حاضر ہیں، جن میں زبان وبیان کی دلآمیزی ضوفشاں ہے اورعشق وعقیدت کے جذبات بھی موجزن ہیں۔
تمنا ہے درختوں پرترے روضے کے جا بیٹھیں
قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ ،قید کا
خدا کا راستہ تو نے بتایا
تو ہی ہادی ہے رہبر ، رہنما خاص
(لطفؔ )
ہے سنگ میں واں کے شررِ طور ہے پنہاں
کہیے خشت کو کہیے یدِ بیضائے مدینہ
عہدِ متاخرین تونعت کادرخشاں دورہے ۔نعت نگاری کے مراکز دوردور تک مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ محسن کاکوروی اور صحو ابو العلائی جیسے نعت کے چند شعرائے کرام نے اس دور میں فروغِ نعت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔نعت قندیلِ نور بن گئی ،فکرونظر کا شعور بن گئی اور گلستانِ ادب میں فصلِ بہار کا سرور بن گئی ۔توصیفِ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے صحا