ذوالفقار علی دانش
ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک 31 جنوری 1978 بروز منگل ملک خاندان کے چشم و چراغ عبدالحمید ملک کے گھرحسن ابدال ضلع اٹک میں پیدا ہوئے ۔
آپ کا تعلق شہر حسن ابدال ضلع اٹک کے مشہور و معزز اور قابلِ احترام گھرانے سے ہے ۔ آپ آبا و اجداد سے شہر حسن ابدال کے مالکان میں سے چلے آ رہے ہیں ۔ والدِ گرامی ، دادا ، پردادا سچے سُچے عاشقانِ رسول ہو گزرے ہیں ۔ آپ کے پردادا ملک گلاب خان کو غوثِ زماں ، فاتحِ قادیانیت حضورِ اعلیٰ سید پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ گولڑہ شریف سے خصوصی نسبت ، دوستی اور بیعت کا شرف حاصل تھا ۔ قرابت اس درجہ کی تھی کہ برصغیر پاک و ہند کے کسی بھی سفر میں جب آپ پیر صاحب کے ہمراہ نہیں ہوتے تھے تو وہ ہر پڑاؤ سے آپ کو بذریعہ خط و پوسٹ کارڈ آگاہ فرمایا کرتے تھے ۔ ان خطوط اور پوسٹ کارڈز کا پیشتر حصہ ابھی بھی ملک خاندان کے پاس سرمایہِ جاں کے طور پر محفوظ ہے ۔ حضرت پیر صاحب علیہ الرحمہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ان کے نام بے شمار خطوط سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وہ انھیں کس قدر عزیز رکھتے تھے ۔ حضرت پیر صاحب علیہ الرحمہ کے مریدین اور متعلقین میں آپ کو حضرت صاحب کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ حضرت پیر صاحب علیہ الرحمہ کی سسرال بھی حسن ابدال میں تھی اور پیر صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کا قیام حسن ابدال میں ان کی سسرال کے علاوہ ملک گلاب خان صاحب کے گھر ہی ہوتا تھا۔ خود پیر صاحب کا اپنا قیام بھی حسن ابدال میں اکثر ملک گلاب خان کے گھر (ڈاکٹر صاحب کے آبائی گھر) میں ہی ہوتا تھا اور یہیں سے آپ مختلف اوقات میں مختلف جگہ چلہ وغیرہ کے لیے بھی جاتے تھے ۔ اس قربت کو مزید مستحکم کرنے کی خاطر حضرت پیر صاحب علیہ الرحمہ نے اپنے سگے بھائی پیر سید محمود شاہ علیہ الرحمہ کی شادی ملک گلاب خان کی بیٹی سے کی ۔ یوں اس خاندان کو رشتہ داری کا شرف بھی عطا فرمایا ۔ یوں پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ کے سگے بھتیجوں اور ڈاکٹر صاحب کے والدین کا آپس میں سگے ماموں زاد اور پھپھو زاد بہن بھائی کا رشتہ ہے۔
والد صاحب اگرچہ خود شعر نہیں کہتے تھے لیکن بہت بلند پایہ ذوق رکھتے تھے اور اساتذہ کے ہزارہا اردو اور فارسی اشعار انھیں ازبر تھے اور اکثر و بیشتر انھیں گنگنایا بھی کرتے تھے۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب کے سب سے چھوٹی پھپھو کی شادی ملکِ عزیز کے معروف نعت گو شاعر ، برصغیر پاک و ہند میں فنِ تاریخ گوئی کے استاد (بقول پروفیسر سرور شفقت ، فنِ تاریخ گوئی کے آخری امام ) سلطان الشعرا جناب حضرت عبد القیوم طارق سلطانپوری علیہ الرحمہ سے ہوئی ۔ بچپن سے ہی ہر دو شخصیات کی رہنمائی اور سرپرستی ڈاکٹر صاحب کو حاصل رہی اور انھی کے زیرِ سایہ عمر کی منازل طے کرتے رہے ۔ تقاریر، قرات و نعت خوانی کا شوق بچپن سے ہی تھا اور والد صاحب اور طارق صاحب اس میں رہنمائی کا فرض سر انجام دیتے تھے ۔ گھر میں بھی سالانہ محافلِ میلاد کا اہتمام ہوتا تھا ۔ سلسلہِ طریقت میں آپ حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ کے پوتے پیر سید شاہ عبداالحق المعروف چھوٹے لالہ جی دامت برکاتہم العالیہ سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت ہیں ۔
اس دینی وروحانی ماحول میں ڈاکٹر صاحب کوعشقِ رسول کی دولت ورثے میں ملی ۔ آپ نے ابتدائی پرائمری تعلیم حسن ابدال پبلک اسکول سے حاصل کی ۔ سرسید کالج واہ کینٹ سے مڈل کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا ۔ بعد ازاں کیڈٹ کالج کوہاٹ میں میرٹ سکالرشپ پر صوبہ پنجاب کی اکلوتی سیٹ پر سیلیکٹ ہوئے ۔ میٹرک تک کیڈٹ کالج کوہاٹ میں تعلیم حاصل کی ، ایف ایس سی سائنس ڈگری کالج واہ کینٹ سے کی ۔ بعد ازاں سن 97- 1996 پشاور میں میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ۔ اسی دوران سن 2000 میں پینجاب یونیورسٹی سے سوشیالوجی اور فارسی میں بھی گریجویشن کی ۔ بعد ازاں سن 2012 میں کینٹ ہومیوپیتھک میڈیکل کالج حسن ابدال سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ اسی سال ہیلنگ انرجی کے سرٹیفیکیٹ کورسز بھی کیے ۔ کچھ عرصہ واہ کینٹ اور حسن ابدال میں کلینک بھی کیا لیکن بوجہ مصروفیت و صحت کے مسائل کے اسے خیر باد کہہ دیا ۔ آج کل آپ اپنی آن لائن میڈیکل ٹرانسکرپشن کی فرم چلا رہے ہیں اور امریکہ کے ایک کارڈیالوجی کلینک سے وابستہ ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ اپنی مادرِ علمی کیڈٹ کالج کوہاٹ کے ایکس کیڈٹس کی ایسوسی ایشن کوہاٹینز ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر بھی فائز ہیں ۔ آپ شفا انڑنیشنل ہسپتال اسلام آباد سے وابستہ کِنڈل فاؤنڈیشن کے گزشتہ تین سال تک جوائنٹ سکیرٹری رہے اور آج کل بطور سیکرٹری پریس ، انفارمیشن اور میڈیا خدمات سرانجام دے رہے ہٰیں۔ ادبی طور پر آپ ملک گیر ادبی تنظیم چوپال پاکستان کے اسلام آباد ریجن کے صدر کے عہدے پر فائز ہیں ۔ اس کے علاوہ محفلِ نعت پاکستان اسلام آباد ، بزمِ حمد و نعت اسلام آباد ، لوح و قلم فاؤنڈیشن واہ کینٹ کے رکن ہیں ۔
حال ہی میں 25 دسمبر 2016 کو آپ نے حسن ابدال میں محفلِ نعت پاکستان اسلام آباد کے فروغِ نعت کے مقدس مشن کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے حسن ابدال اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں اس کی ایکسٹینشن محفلِ نعت پاکستان حسن ابدال کے نام سے قائم کی اور اس کے بانی ٹھہرے اور محفلِ نعت پاکستان حسن ابدال کے سکیرٹری کے طور پر ماہانہ نعتیہ مشاعروں کا انعقاد کر رہے ہیں ۔
اسکول و کالج کے تمام تر دور میں نہ صرف یہ کہ ہمیشہ ایکیڈیمکس میں ٹاپ پوزیشن پر رہے بلکہ بہترین نعت خوان ، مقرر اور قاری بھی رہے ۔ قریباً 13 - 2012 میں کچھ عرصہ عربی صرف و نحو کے اسباق جناب علامہ افضل منیر صاحب صدر مدرس جامعہ گلزارِ مدینہ حسن ابدال سے پڑھے ۔
شعر کہنے کا آغاز غالباً چھٹی کلاس میں 1988 میں کیا ۔ دانش تخلص کرتے ہیں اور قلمی نام ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش ہے ۔ ابتدا میں کافی عرصہ غزل اور نظم و نثر کی طرف مائل رہے ۔ قریباً سن 2000 میں نعت کا پہلا شعر کہا ۔ شاعری میں کوئی باقاعدہ استاد نہیں رہا ، کسی حد تک حضرت طارق سلطانپوری علیہ الرحمہ سے کبھی کبھار رہنمائی لیتے تھے ۔ لیکن بوجہ ادب و احترام کبھی ان کے سامنے کسی مشاعرے میں یا ویسے اپنا کلام سنانے کی جرات نہیں کی ۔ سن 2014 میں والدِ گرامی علیہ الرحمہ کے وصال اور پھر اگلے ہی سال سن 2015 میں طارق سلطانپوری علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد باقاعدہ نعت گوئی کے میدان میں آئے ۔ اور کچھ اس انداز سے کہ نعت گوئی ہی ان کا حوالہ بن گیا فلللہ الحمد ۔ خود اپنی ایک نعت کے مقطع میں اس فخر کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں
میں دانش اپنے مقدر پہ کیوں نہ ناز کروں کہ نعت گوئی ہی اب تو مرا حوالہ ہے ۔