"حفیظ تائب کی شاعری" کے نسخوں کے درمیان فرق
Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 11: | سطر 11: | ||
* [[ بادِ رحمت سنگ سنگ جائے ۔ حفیظ تائب | بادِ رحمت سنگ سنگ جائے ]] | * [[ بادِ رحمت سنگ سنگ جائے ۔ حفیظ تائب | بادِ رحمت سنگ سنگ جائے ]] | ||
* [[دے تبسم کی خیرات ماحول کو ۔ حفیظ تائب | دے تبسم کی خیرات ماحول کو]] | |||
نسخہ بمطابق 13:40، 24 مارچ 2017ء
ُُ
چند مقبول کلام
بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے
بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے
مدعا پایا ہے عرض مدعا کرتے ہوئے
بے نیاز نعمت کون و مکاں ہوتے گئے
کوچہ سلطان عالم میں صدا کرتے ہوئے
دیدہ و دل میں گل جلوہ سمٹتے ہیں کہاں
کب یہ صورت سامنے تھی التجا کرتے ہوئے
کب مجھے تھی جاں کی پرواہ ، کب مجھے تھا سر کا ہوش
سجدہ شکر ان کی مسجد میں ادا کرتے ہوئے
کوئی آنے جانے والا ہر گھڑی نظروں میں تھا
کھوئے یو نظارہ غار حرا کرتے ہوئے
لوگ چمکاتے چلے جائیں گے اپنے روز و شب
اسوہ سرکارﷺ سے کسب ضیاء کرتے ہوئے
رمز ہستی ، راز فطرت، سر ذات و کائنات
ہر خبر پائی تلاش مصطفی کرتے ہوئے
التفات سید سادات کب محدود ہے
وسعت دامن بھی دیتے ہیں عطا کرتے ہوئے
تھام کر دامن کو ان کے بے محاہا رو دیا
میں کہ گھبراتا تھا ان کا سامنا کرتے ہوئے
پرچم کشا جمال ہے شہر حبیبﷺ میں
پرچم کشا جمال ہے شہر حبیبﷺ میں
ہر نقش بے مثال ہے شہر حبیبﷺ میں
میری طرف بھی دیکھئے سرکارﷺ اک نظر
ہر لب پر اک سوال ہے شہر حبیبﷺ میں
بچھتا ہی جا رہا ہے ہر اک رہگذار پر
دل کا عجیب حال ہے شہر حبیبﷺ میں
جو زخم ہیں لگائے ہوئے روزگار کے
ان سب کا اندمال ہے شہر حبیبﷺ میں
کچھ ایسے غمگسار حرم کے ستون ہیں
کافور ہر ملال ہے شہر حبیبﷺ میں
منزل پہ آ گیا ہوں سفر جیسے کاٹ کر
آرام جاں بحال ہے شہر حبیبﷺ میں
تائب مدینے والے کے جلوے ہیں ہرطرف
نکھرا ہوا خیال ہے شہر حبیبﷺ میں
تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں
تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں
ٹھوکریں کھا کھا کے آ پہنچا تری سرکار میں
جس میں دل بستا ہے وہ دنیا مدینہ ہی تو ہے
دل میں کوئے یار ہے اور دل ہے کوئے یار میں
اسی کی بے مثلی میں کیا شک، ایک ہے وہ ایک ہے
یہ بھی اک بے مثل ہے کثرت کے لالہ زار میں
دوستو ، آقا ہمارا جامع اوصاف ہے
وصف سب نبیوں ے ہیں اک احمد مختار میں
آگیا جو در پہ تیرے وہ نہیں خالی پھرا
کیا کمی آقا ترے دربار گوہر یار میں
جاں آبروئے دس پہ فدا ہو تو بات ہے
جاں آبروئے دس پہ فدا ہو تو بات ہے
حق عشق مصطفیﷺ کا ادا ہو تو بات ہے
ہر لحظہ دل میں یاد رسول انامﷺ ہو
ہر دم لبوں پہ صل علی ہو تو بات ہے
سرکارﷺ کی رضا میں ہے اللہ کی رضا
ہر دم رضا رسولﷺ کی چاہ ہو تو بات ہے
دیتی ہے یہ پیام ہوائے دیار پاک
عشق نبیﷺ عمل کی بنا ہو تو بات ہے
ہر منزل حیات میں پیش نگاہ شوق
ارشاد خواجہ دوسرا ہو تو بات ہے
خیر الامم کی شان سے ہم سب ہیں سرفراز
انسانیت کا ہم سے بھلا ہو تو بات ہے
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصاف حمیدہ
سیرت ہے تری جوہر آیئنہ تہذیب
روشن ترے جلووں سے جہان دل و دیدہ
تو روح زمن ، رنگ چمن، ابر بہاراں
تو حسن سخن، شان ادب، جان قصیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ
مضمر تری تقلید میں عالم کی بھلائی
میرا یہی ایماں ہے، یہی میرا عقیدہ
اے ہادی برحق تری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے ترے لب سے شنیدہ
اے رحمت عالم تری یادون کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ
ہے طالب الطاف مرا حال پریشان
محتاج عنایت ہے مرا رنگ پریدہ
خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں ترے در پہ بہ دامان دریدہ
یوں دور ہوں تائب میں حریم نبوی سے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخ بریدہ
خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے
خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے
مجھ پر نظر ازل سے شہ بحر و بر کی ہے
تابش میری نظر میں ہے اس رہگذار کی
جس پر نثار جلوہ فشانی قمر کی ہے
لب پر ہے بات خلق رسول کریمﷺ کی
آمد ریاض جاں میں نسیم سحر کی ہے
شاہد کیا ہے یاد مجھے پھر حضورﷺ نے
پھر کیفیت عجیب میری چشم تر کی ہے
یاد نبیﷺ ہو منزل عقبی میں ساتھ ساتھ
میری بس ایک یافت یہی عمر بھر کی ہے
دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبت دیکھنے والا
دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبت دیکھنے والا
وہ محبوب خداﷺ جذبوں کی وسعت دیکھنے والا
وہی ہے سنے والا ان کہے الفاظ چاہت کے
وہی ہے ان لکھے حرف ارادت دیکھنے والا
ہوا ہے کون جز مولائے سلمان و بلال اب تک
بجائے حسن و صورت، نور سیرت دیکھنے والا
مکان و لا مکاں کی شوکتیں زیر قدم اس کے
وہ موجود و عدم کی ہر ولایت دیکھنے والا
نہ جھپکی آنکھ جس کی رو بروئے جلوہ باری
سر قوسین ذات رب عزت دیکھنے والا
شبستان حرا کیونکر نہ بنتا مرکز عرفاں
کہ پہلے پہل نور نبوت دیکھنے والا
رسول اللہﷺ کی الفت سے ہر دل میں اجالا ہے
زمانے میں ہے یہ رنگ عقیدت دیکھنے والا
دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا
دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا
زمانے کی نگاہوں کو اجالا گنبد خضرا
گلستان جہاں میں زندگی پرور بہار اس کی
سر آفاق لہراتا سویرا گنبد خضرا
جو رنگ و بو کی دنیا سر زمیں شہر طیبہ ہے
تو خلد چشم و فردوس تمنا گنبد خضرا
فلاح و کامرانی کی بشارت اہل ایماں کو
گنہگاروں کو رحمت کا اشارا گنبد خضرا
حبیب کبریا سائے میں اس کے محو راحت ہیں
دو عالم میں اسی باعث ہے یکتا گنبد خضرا
شفائے خاطر امت، ہوائے کوچئہ حضرتﷺ
نگاہوں کی اداسی کا مداوا گنبد خضرا
خدا کا شکر تائب کی نگاہوں نے بھی دیکھا ہے
وہ ہر سینے کے اندر بسنے والا گنبد خضرا
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچہ حبیبﷺ ہے، پلکوں سے چل کے آ
امت کے اولیاء بھی ادب سے ہیں دم بخود
یہ بارگاہ سرور دیں ہے سنبھل کے آ
آتا ہے تو جو شہر رسالت مآب میں
حرص و ہوا کے دام سے باہر نکل کے آ
ماہ عرب کے آگے تری بات کیا بنے
اے ماہتاب روپ نہ ہر شب بدل کے آ
سوز و تپش سخن میں اگر چاہتا ہے تو
عشق نبیﷺ کی آگ سے تائب پگھل کے آ
مزید دیکھیں
حفیظ تائب | سید منظور الکونین | محمد علی ظہوری | عبدالستار نیازی | قاری زبید رسول | صدیق اسماعیل | سعید ہاشمی | ام حبیبہ
احمد رضا خان بریویلوی | مظفر وارثی