"اصغر سودائی" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
پروفیسر اصغر سودائی نے [[مرے کالج سیالکوٹ ]]اور[[ اسلامیہ کالج لاہور]]سے تعلیم حاصل کی اور [[گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ]] سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگئے۔ [[1965]]ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل بنے۔ | پروفیسر اصغر سودائی نے [[مرے کالج سیالکوٹ ]]اور[[ اسلامیہ کالج لاہور]]سے تعلیم حاصل کی اور [[گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ]] سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگئے۔ [[1965]]ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل بنے۔ | ||
[[1966]]ء میں انہوں نے[[ سیالکوٹ میں[[ علامہ اقبال کالج قائم کیا اور اس کے پرنسپل بھی رہے تھے۔ | [[1966]]ء میں انہوں نے[[ سیالکوٹ ]]میں[[ علامہ اقبال کالج ]]قائم کیا اور اس کے پرنسپل بھی رہے تھے۔ | ||
[[1984]]ء سے [[1986ء تک وہ[[ ڈیرہ غازی خان]] کے ڈائریکٹر ایجوکیشن کے منصب پر فائز رہے۔ | [[1984]]ء سے [[1986ء تک وہ[[ ڈیرہ غازی خان]] کے ڈائریکٹر ایجوکیشن کے منصب پر فائز رہے۔ | ||
نسخہ بمطابق 08:00، 27 دسمبر 2023ء
نامور اردو شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر اصغر سودائی کا اصل نام محمد اصغر تھا اور وہ 17 ستمبر، 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا اور 1945 میں مشہور نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الا اللہ‘‘ تخلیق کیا۔
پروفیسر اصغر سودائی نے مرے کالج سیالکوٹ اوراسلامیہ کالج لاہورسے تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار وابستہ ہوگئے۔ 1965ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل بنے۔ 1966ء میں انہوں نےسیالکوٹ میںعلامہ اقبال کالج قائم کیا اور اس کے پرنسپل بھی رہے تھے۔ 1984ء سے [[1986ء تک وہڈیرہ غازی خان کے ڈائریکٹر ایجوکیشن کے منصب پر فائز رہے۔
پروفیسر اصغر سودائی کے شعری مجموعوں میں شہ دوسراؐ اور چلن صبا کی طرح کے نام شامل ہیں۔
17 مئی 2008ء کو نامور اردو شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر اصغر سودائیسیالکوٹ میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہیں
ْ==== مشہور کلام ====
وہ اک یتیم، بے کس وتنہا کہیں جسے
نعتیہ مجموعے
ان کا ایک نعتیہ مجموعہ شہ ِ دوسرا ، 1989ء میں شائع ہوا ۔
مزید دیکھیے
احسان دانش | اصغر علی وڑائچ | موسی نظامی | منظور احمد | بہزاد لکھنوی | بہادر تابش | حامد حسن حامد | خالد شفیق | عارف امرتسری | فخر الدین گیاوی | اصغر سودائی | سیف زلفی | اکرم کلیم | سوز سکندر پوری | احسان قادری | اکرم علی اختر