"حفیظ تائب کی شاعری" کے نسخوں کے درمیان فرق
Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
* [[ متقدمین کو ہدیہ تبریک ۔ حفیظ تائب | متقدمین کو ہدیہ تبریک ]] | * [[ متقدمین کو ہدیہ تبریک ۔ حفیظ تائب | متقدمین کو ہدیہ تبریک ]] | ||
====آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے==== | ====آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے==== |
نسخہ بمطابق 22:08، 19 فروری 2017ء
حفیظ تائب کا مرکزی صفحہ
چند مقبول کلام
آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے
آنکھوں کو جسجتو ہے تو طیبہ نگر کی ہے
دل کو جو آرزو ہے تو خیرالبشرﷺ کی ہے
پالی ہے میں نے دین محمدﷺ کی سیدھی راہ
الیاس کی تلاش نہ حاجت خضر کی ہے
سرکارﷺ کی نظر ہے سبھی کچھ مرے لیے
مجھ کو طلب نہ جاہ کی ناسیم و زر کی ہے
جلوے بسے ہیں آنکھ میں ماہ حجاز کے
اب کیا مری نگاہ میں تابش قمر کی ہے
یا ذکر ہے مروت و خلق حضورﷺ کا
یابات بوے گل کی نسیم سحر کی ہے
آقا کی چشم لطف و عنائت سے پوچھئے
تائب جو منزلت مری اس چشم تر کی ہے
اللہ نے پہنچایا سرکارﷺ کے قدموں میں
اللہ نے پہنچایا سرکارﷺ کے قدموں میں
کیا کیا نہ سکوں پایا سرکارﷺ کے قدموں میں
دل کا تھا عجب عالم ان کے در اقدس پر
سر پر تھا عجب سایہ سرکارﷺ کے قدموں میں
وہ رب محمدﷺ کا تھا خاص کرم جس نے
عالم نیا دیکھلایا سرکارﷺ کے قدموں میں
جب سامنے جالی کے اشکوں کی سلامی دی
سو شکر بجا لایا سرکارﷺ کے قدموں میں
تارا تھا کہ جگنو تھا گوہر تھا کہ برگ گل
جو اشک کہ لہرایا سرکارﷺ کے قدموں میں
سانسوں کا تموج بھی اک بار لگا مجھ کو
وہ مرحلہ بھی آیا سرکارﷺ کے قدموں میں
وہ اپنے گناہوں کا احساس تھا بس تائب
جس نے مجھے تڑپایا سرکارﷺ کے قدموں میں
باد رحمت سنگ سنگ جائے
باد رحمت سنگ سنگ جائے
وادی جاں مہک مہک جائے
جب چھڑے بات نطق حضرت کی
غنچہ فن چٹک چٹک جائے
ماہ طیبہ کا جب خیال آئے
شب ہجراں چمک چمک جائے
جب سمائے نظر میں وہ پیکر
ذہن میرا دمک دمک جائے
فیض چشم حضور کیا کہنا
ساغر دل چھلک چھلک جائے
نام پاک ان کا ہو لبوں سے ادا
شہد گویا ٹپک ٹپک جائے
ارض دل سے اٹھے نوائے دزود
گونج اس کی فلک فلک جائے
رہنما گر نہ ہو وہ سیرت پاک
ہر مسافر بھٹک بھٹک جائے
چشم سرکارﷺ گر نہ ہو نگراں
نسل آدم بہک بہک جائے
کون وہ فرد ہے کہ جس کیلئے
دل فطرت دھرک دھرک جائے
مطلع کائنات پر تائب
نور کس کا جھلک جھلک جائے
بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے
بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے
مدعا پایا ہے عرض مدعا کرتے ہوئے
بے نیاز نعمت کون و مکاں ہوتے گئے
کوچہ سلطان عالم میں صدا کرتے ہوئے
دیدہ و دل میں گل جلوہ سمٹتے ہیں کہاں
کب یہ صورت سامنے تھی التجا کرتے ہوئے
کب مجھے تھی جاں کی پرواہ ، کب مجھے تھا سر کا ہوش
سجدہ شکر ان کی مسجد میں ادا کرتے ہوئے
کوئی آنے جانے والا ہر گھڑی نظروں میں تھا
کھوئے یو نظارہ غار حرا کرتے ہوئے
لوگ چمکاتے چلے جائیں گے اپنے روز و شب
اسوہ سرکارﷺ سے کسب ضیاء کرتے ہوئے
رمز ہستی ، راز فطرت، سر ذات و کائنات
ہر خبر پائی تلاش مصطفی کرتے ہوئے
التفات سید سادات کب محدود ہے
وسعت دامن بھی دیتے ہیں عطا کرتے ہوئے
تھام کر دامن کو ان کے بے محاہا رو دیا
میں کہ گھبراتا تھا ان کا سامنا کرتے ہوئے
پرچم کشا جمال ہے شہر حبیبﷺ میں
پرچم کشا جمال ہے شہر حبیبﷺ میں
ہر نقش بے مثال ہے شہر حبیبﷺ میں
میری طرف بھی دیکھئے سرکارﷺ اک نظر
ہر لب پر اک سوال ہے شہر حبیبﷺ میں
بچھتا ہی جا رہا ہے ہر اک رہگذار پر
دل کا عجیب حال ہے شہر حبیبﷺ میں
جو زخم ہیں لگائے ہوئے روزگار کے
ان سب کا اندمال ہے شہر حبیبﷺ میں
کچھ ایسے غمگسار حرم کے ستون ہیں
کافور ہر ملال ہے شہر حبیبﷺ میں
منزل پہ آ گیا ہوں سفر جیسے کاٹ کر
آرام جاں بحال ہے شہر حبیبﷺ میں
تائب مدینے والے کے جلوے ہیں ہرطرف
نکھرا ہوا خیال ہے شہر حبیبﷺ میں
تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں
تیرا مجرم آج حاضر ہو گیا دربار میں
ٹھوکریں کھا کھا کے آ پہنچا تری سرکار میں
جس میں دل بستا ہے وہ دنیا مدینہ ہی تو ہے
دل میں کوئے یار ہے اور دل ہے کوئے یار میں
اسی کی بے مثلی میں کیا شک، ایک ہے وہ ایک ہے
یہ بھی اک بے مثل ہے کثرت کے لالہ زار میں
دوستو ، آقا ہمارا جامع اوصاف ہے
وصف سب نبیوں ے ہیں اک احمد مختار میں
آگیا جو در پہ تیرے وہ نہیں خالی پھرا
کیا کمی آقا ترے دربار گوہر یار میں
جاں آبروئے دس پہ فدا ہو تو بات ہے
جاں آبروئے دس پہ فدا ہو تو بات ہے
حق عشق مصطفیﷺ کا ادا ہو تو بات ہے
ہر لحظہ دل میں یاد رسول انامﷺ ہو
ہر دم لبوں پہ صل علی ہو تو بات ہے
سرکارﷺ کی رضا میں ہے اللہ کی رضا
ہر دم رضا رسولﷺ کی چاہ ہو تو بات ہے
دیتی ہے یہ پیام ہوائے دیار پاک
عشق نبیﷺ عمل کی بنا ہو تو بات ہے
ہر منزل حیات میں پیش نگاہ شوق
ارشاد خواجہ دوسرا ہو تو بات ہے
خیر الامم کی شان سے ہم سب ہیں سرفراز
انسانیت کا ہم سے بھلا ہو تو بات ہے
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصاف حمیدہ
سیرت ہے تری جوہر آیئنہ تہذیب
روشن ترے جلووں سے جہان دل و دیدہ
تو روح زمن ، رنگ چمن، ابر بہاراں
تو حسن سخن، شان ادب، جان قصیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ
مضمر تری تقلید میں عالم کی بھلائی
میرا یہی ایماں ہے، یہی میرا عقیدہ
اے ہادی برحق تری ہر بات ہے سچی
دیدہ سے بھی بڑھ کر ہے ترے لب سے شنیدہ
اے رحمت عالم تری یادون کی بدولت
کس درجہ سکوں میں ہے مرا قلب تپیدہ
ہے طالب الطاف مرا حال پریشان
محتاج عنایت ہے مرا رنگ پریدہ
خیرات مجھے اپنی محبت کی عطا کر
آیا ہوں ترے در پہ بہ دامان دریدہ
یوں دور ہوں تائب میں حریم نبوی سے
صحرا میں ہو جس طرح کوئی شاخ بریدہ
خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے
خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے
مجھ پر نظر ازل سے شہ بحر و بر کی ہے
تابش میری نظر میں ہے اس رہگذار کی
جس پر نثار جلوہ فشانی قمر کی ہے
لب پر ہے بات خلق رسول کریمﷺ کی
آمد ریاض جاں میں نسیم سحر کی ہے
شاہد کیا ہے یاد مجھے پھر حضورﷺ نے
پھر کیفیت عجیب میری چشم تر کی ہے
یاد نبیﷺ ہو منزل عقبی میں ساتھ ساتھ
میری بس ایک یافت یہی عمر بھر کی ہے
دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبت دیکھنے والا
دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبت دیکھنے والا
وہ محبوب خداﷺ جذبوں کی وسعت دیکھنے والا
وہی ہے سنے والا ان کہے الفاظ چاہت کے
وہی ہے ان لکھے حرف ارادت دیکھنے والا
ہوا ہے کون جز مولائے سلمان و بلال اب تک
بجائے حسن و صورت، نور سیرت دیکھنے والا
مکان و لا مکاں کی شوکتیں زیر قدم اس کے
وہ موجود و عدم کی ہر ولایت دیکھنے والا
نہ جھپکی آنکھ جس کی رو بروئے جلوہ باری
سر قوسین ذات رب عزت دیکھنے والا
شبستان حرا کیونکر نہ بنتا مرکز عرفاں
کہ پہلے پہل نور نبوت دیکھنے والا
رسول اللہﷺ کی الفت سے ہر دل میں اجالا ہے
زمانے میں ہے یہ رنگ عقیدت دیکھنے والا
دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا
دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا
زمانے کی نگاہوں کو اجالا گنبد خضرا
گلستان جہاں میں زندگی پرور بہار اس کی
سر آفاق لہراتا سویرا گنبد خضرا
جو رنگ و بو کی دنیا سر زمیں شہر طیبہ ہے
تو خلد چشم و فردوس تمنا گنبد خضرا
فلاح و کامرانی کی بشارت اہل ایماں کو
گنہگاروں کو رحمت کا اشارا گنبد خضرا
حبیب کبریا سائے میں اس کے محو راحت ہیں
دو عالم میں اسی باعث ہے یکتا گنبد خضرا
شفائے خاطر امت، ہوائے کوچئہ حضرتﷺ
نگاہوں کی اداسی کا مداوا گنبد خضرا
خدا کا شکر تائب کی نگاہوں نے بھی دیکھا ہے
وہ ہر سینے کے اندر بسنے والا گنبد خضرا
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچہ حبیبﷺ ہے، پلکوں سے چل کے آ
امت کے اولیاء بھی ادب سے ہیں دم بخود
یہ بارگاہ سرور دیں ہے سنبھل کے آ
آتا ہے تو جو شہر رسالت مآب میں
حرص و ہوا کے دام سے باہر نکل کے آ
ماہ عرب کے آگے تری بات کیا بنے
اے ماہتاب روپ نہ ہر شب بدل کے آ
سوز و تپش سخن میں اگر چاہتا ہے تو
عشق نبیﷺ کی آگ سے تائب پگھل کے آ
مزید دیکھیں
حفیظ تائب | سید منظور الکونین | محمد علی ظہوری | عبدالستار نیازی | قاری زبید رسول | صدیق اسماعیل | سعید ہاشمی | ام حبیبہ
احمد رضا خان بریویلوی | مظفر وارثی