"ابتذال" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 9 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
{{بسم اللہ}}
{{بسم اللہ}}
ابتذال بطور شعری نقص اور نعت نگاری
ابتذال کے ذیل میں پہلے تو  چند حوالے ملاحظہ فرمائیے :۔
ابتذال کے  لغوی معنی بے ہودہ خرچ کرنا ،کھو دینا، بے اعتباری ،بے قدری ،پامالی ، اخلاقی  پستی ،عمومیت ، عامیانہ پن ، ہلکا پم اور کمینہ پن کے ہیں۔اسی سے مبتذل ہے جس کے معنی ذلیل ،حقیر، رذیل،سفلہ،کمینہ ،بے قدر اور خفیف کے ہیں اصطلاحاًشاعری میں رکیک بازاری ، عامیانہ فرسودہ اور پامال الفاظ و مضامین کا اظہار ابتذال کہلاتا ہے ۔گویا کہ ابتذال الفاظ کی سطح پر بھی ہوتا ہے اور مضامین کی سطح پر بھی مگر عام طور پر اسے الفاظ کی حد تک محدود سمجھا گیا ہے ۔
( منتخب ادبی اصطلاحیں از فخر الحق نوری ، مطبوعہ پولیمر پبلی کیشنر لاہور، 1990)
مولوی نجم الغنی رامپوری  بحر الفصاحت میں رقمطراز ہیں کہ :۔
‘‘ ذلیل و خوار و بے قدر الفاظ کا استعمال کرنا اور محاورۂ عوام لانا جس سے خواص پرہیز کریں ۔جیسے شبرات کی رات ، چاہ زمزم کا کا کنواں۔’’
صاحب کشاف تنقیدی اصطلاحات، پنڈت کیفی کا حوالہ نقل کرتے ہیں ۔
‘‘غیر ثقہ ، سوقیانہ الفا ظ و مضامین کلام میں لانا عوامیت اور رکاکت پیدا کرتا ہے اس سے کلام مبتذل ہوجاتا ہے ۔’’
(کشاف تنقیدی اصطلاحات از ابوالاعجاز حفیظ صدیقی ، مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،1985ء)
بہت سی کتب میں ابتذال کے حولے سے مولانا شبلی نعمانی صاحب کا ایک حوالہ بھی گونجتا ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے :۔
‘‘ابتذال کے معنی عام طور پر یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جو الفاظ عام لوگ استعمال کرتے ہیں وہ مبتذل ہیں ۔ لیکن سب میں ابتذال میں نہیں پایا جاتا ل۔ ابتذال کا معیار مذاقِ صحیح کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ مذاق صحیح  خود بتا دیتا ہے کہ یہ لفظ مبتذل اور سوقیانہ ہے۔’’
ایک حوالہ شمیم احمد کا بھی ملاحظہ فرمائیے :۔
‘‘ اشعار میں ایسے خیالات کا پیش کرنا جو مذاق سلیم اور لطافت ِ طبع پر بار گزرتے ہوں اور جنہیں رکیک اور سوقیانہ تصور کیا جاتا ہو ۔اصطلاحاً ایسے اشعار مبتذل کہلاتے ہیں ۔اس میں الفاظ کا بھونڈا استعمال اور کلام فحژ بھی شامل ہیں ۔’’
آپ نے حوالہ جات ملاحظہ فرمائے  آپ نے محسوس کیا کہ یہ سارا معاملہ اخلاقیات کے گرد گھومتا ہے ۔ہر زبان اپنے اندر ایک خاص اخلاقی نظام رکھتی ہے جسے اہل زبان اپنے اخلاقیات کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں ۔لہٰذا وہی الفاظ سوقیانہ کہلاتے ہیں یا انہی الفاظ کا استعمال ذوق سلیم پر گراں گزرتا ہے جسے بولنے والے یا جن کے معانی مروجہ اخلاقی نظام سے مزاحم ہوں۔
چونکہ اخلاقیات کے معیار بدلتے رہتے ہیں اس لیے ذوقِ سلیم کے پیمانے کیسےیکساں رہ سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے  کسی خیال ، کلام  یا لگظ کو ابتذال کے خانے میں رکھنا اس کے استعمال یا تخلیق کی تاریخ  اور بدلتے ہوئے اخلاقیات  کی گہری جانکاری ممکن نہیں ۔یہی وہ دروازہ ہے جہاں سے ابتذال کی بحث فلسفے میں داخل ہوجاتی ہے  اس لیے اسے ہم پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ۔
یہاں چونکہ بات ہم نعت رسول مقبول ﷺ کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ کسی نے بھی کبھی ابتذال کی بحث میں نعت مبارکہ کا شعر نہیں لکھا تو کیا سمجھا جائے کہ ابتذال کا نقص نعت کی تنقید سے متعلق نہیں ہے ۔اس لیے ہمیں پھر ایک بار نعت کی اخلاقیات سے  رجوع کرنا ہوگا جو کہ ایک دقیق موضوع ہے  اور اپنی جگہ ایک مکمل تحقیق کا تقاضا کرتا ہے ۔
یہاں ہم صرف اتنا مشورہ دے سکتے ہیں کہ نعت کا  ابتذال غزل کے ابتذال جیسا تو نہیں ہوگا ۔تاہم  خیال کے اعتبار سے نبی کریم ﷺ کی تعریف میں  حدود سے تجاوز کرنایا اسرائیلیات وغیرہ کو نعت میں باندھنا یا ایسے خیالات باندھنا جس پر شرعی گرفت ہوتی ہو اسے ابتذال سمجھ لینے میں کیا حرج ہے ، کیونکہ اس طرح کے مضامین سے سے نعت کے اخلاقیات کو ویسا ہی دھچکا لگتا ہے جیسا کہ ادبی اخلاقیات کو غزل میں  مروج ابتذال سے لگتا ہے ۔
نصیر احمد


=== مزید دیکھیے ===
ابتذال کے  لغوی معنی بے ہودہ خرچ کرنا ،کھو دینا، بے اعتباری ،بے قدری ،پامالی ، اخلاقی  پستی ،عمومیت ، عامیانہ پن ، ہلکا پن اور کمینہ پن کے ہیں۔اسی سے مبتذل ہے جس کے معنی ذلیل ،حقیر، رذیل،سفلہ،کمینہ ،بے قدر اور خفیف کے ہیں اصطلاحاًشاعری میں رکیک بازاری ، عامیانہ فرسودہ اور پامال الفاظ و مضامین کا اظہار ابتذال کہلاتا ہے ۔گویا کہ ابتذال الفاظ کی سطح پر بھی ہوتا ہے اور مضامین کی سطح پر بھی مگر عام طور پر اسے الفاظ کی حد تک محدود سمجھا گیا ہے  <ref> فخر الحق نوری، منتخب ادبی اصطلاحیں ،  پولیمر پبلی کیشنر لاہور، 1990 </ref>
 
=== ابتذال کی مزید تعریفیں ===
 
"ذلیل و خوار و بے قدر الفاظ کا استعمال کرنا اور محاورہ عوام لانا جس سے خواص پر ہیز کریں جیسے شبرات کی رات، چاہ زمزم کا کنواں " <ref> مولوی نجم الغنی رامپوری  بحر الفصاحت </ref>
 
"غیر ثشقہ، سوقیان الفاظ و مضامین کلام میں لانا عوامیت اور رکاکیت پیدا کرتا ہے ۔ اس سے کلام مبتذل ہو جاتا ہے" <ref> ابوالاعجاز حفیظ صدیقی, کشاف تنقیدی اصطلاحات، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،1985ء </ref>
 
* "ابتذال کے معنی عام طور پر یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جو الفاظ عام لوگ استعمال کرتے ہیں وہ مبتذل ہیں ۔ لیکن سب میں ابتذال میں نہیں پایا جاتا ۔ ابتذال کا معیار مذاقِ صحیح کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ مذاق صحیح  خود بتا دیتا ہے کہ یہ لفظ مبتذل اور سوقیانہ ہے۔" <ref> شبلی نعمانی </ref>
 
=== ابتذال کی وضاحت ===
 
یہ سارا معاملہ اخلاقیات کے گرد گھومتا ہے ۔ہر زبان اپنے اندر ایک خاص اخلاقی نظام رکھتی ہے جسے اہل زبان اپنے اخلاقیات کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں ۔لہٰذا وہی الفاظ سوقیانہ کہلاتے ہیں یا انہی الفاظ کا استعمال ذوق سلیم پر گراں گزرتا ہے جسے بولنے والے یا جن کے معانی مروجہ اخلاقی نظام سے مزاحم ہوں۔


چونکہ اخلاقیات کے معیار بدلتے رہتے ہیں اس لیے ذوقِ سلیم کے پیمانے کیسےیکساں رہ سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے  کسی خیال ، کلام  یا لفظ کو ابتذال کے خانے میں رکھنا اس کے استعمال یا تخلیق کی تاریخ  اور بدلتے ہوئے اخلاقیات  کی گہری جانکاری ممکن نہیں ۔یہی وہ دروازہ ہے جہاں سے ابتذال کی بحث فلسفے میں داخل ہوجاتی ہے


=== شراکتیں ===
[[نصیر احمد، لاہور ]]


=== مزید دیکھیے ===
[[ابتذال]] | [[اتصال]] | [[اثقال]] | [[اخلال]] | [[املاکی اغلاط]] | [[بدفضائی]] | [[بے معنی]] | [[تثلیم]] | [[تذکرو تانیث کی اغلاط]] | [[ترکیب کے ساتھ اعلان نون]] | [[تعقیب]] | [[تعقید]] | [[تقدیم و تاخیر]] | [[تکرار]] | [[تطویل]] | [[تکلف]] | [[تلفظ کی اغلاط]] | [[تنافر | تنافر حروف | تنافر کلمات]] | [[توارد]] | [[توالی اضافت]] | [[حشو  ]] | [[دولخت]] | [[ذم کا پہلو]] | [[سرقہ ]] | [[سست بندش]] | [[سوءادب]] | [[شتر گربہ ]] | [[ضعف تالیف]] | [[ضعف خاتمہ]] | [[ضعف نظم]] | [[ضلع جگت کی بے لطفی]] | [[ نا موزونیت]] | [[شکست ناروا]] | [[عیوب ردیف]] | [[عیوب قوافی ]]  | [[غرابت لفظی]] | [[غلط العام]] | [[غلط العوام]] | [[غیر شاعرانہ الفاظ کا استعمال]] | [[فارسی الفاظ کے آخر کی ہ]] | [[فارسیت]] | [[کراہیت سمع]] | [[کہ اور نہ کا صیحح تلفظ]] | [[حصر]] | [[تو سے پہلے 'جو کا استعمال]] | [[الفاظ کے استعمال میں عدم احتیاط]] | [[مبالغہ]] | [[متروکات ]] | [[محاورہ روز مرہ کی اغلاط]] | [[مخالفت لغت]] | [[مقدرات]] | [[منع صرف]] | [[منع نحو]] |  [[واحد جمع کی اغلاط وغیرہ]] |
[[ابتذال]] | [[اتصال]] | [[اثقال]] | [[اخلال]] | [[املاکی اغلاط]] | [[بدفضائی]] | [[بے معنی]] | [[تثلیم]] | [[تذکرو تانیث کی اغلاط]] | [[ترکیب کے ساتھ اعلان نون]] | [[تعقیب]] | [[تعقید]] | [[تقدیم و تاخیر]] | [[تکرار]] | [[تطویل]] | [[تکلف]] | [[تلفظ کی اغلاط]] | [[تنافر | تنافر حروف | تنافر کلمات]] | [[توارد]] | [[توالی اضافت]] | [[حشو  ]] | [[دولخت]] | [[ذم کا پہلو]] | [[سرقہ ]] | [[سست بندش]] | [[سوءادب]] | [[شتر گربہ ]] | [[ضعف تالیف]] | [[ضعف خاتمہ]] | [[ضعف نظم]] | [[ضلع جگت کی بے لطفی]] | [[ نا موزونیت]] | [[شکست ناروا]] | [[عیوب ردیف]] | [[عیوب قوافی ]]  | [[غرابت لفظی]] | [[غلط العام]] | [[غلط العوام]] | [[غیر شاعرانہ الفاظ کا استعمال]] | [[فارسی الفاظ کے آخر کی ہ]] | [[فارسیت]] | [[کراہیت سمع]] | [[کہ اور نہ کا صیحح تلفظ]] | [[حصر]] | [[تو سے پہلے 'جو کا استعمال]] | [[الفاظ کے استعمال میں عدم احتیاط]] | [[مبالغہ]] | [[متروکات ]] | [[محاورہ روز مرہ کی اغلاط]] | [[مخالفت لغت]] | [[مقدرات]] | [[منع صرف]] | [[منع نحو]] |  [[واحد جمع کی اغلاط وغیرہ]] |
=== حواشی و حوالہ جات ===

حالیہ نسخہ بمطابق 12:31، 8 مارچ 2018ء


ابتذال کے لغوی معنی بے ہودہ خرچ کرنا ،کھو دینا، بے اعتباری ،بے قدری ،پامالی ، اخلاقی پستی ،عمومیت ، عامیانہ پن ، ہلکا پن اور کمینہ پن کے ہیں۔اسی سے مبتذل ہے جس کے معنی ذلیل ،حقیر، رذیل،سفلہ،کمینہ ،بے قدر اور خفیف کے ہیں اصطلاحاًشاعری میں رکیک بازاری ، عامیانہ فرسودہ اور پامال الفاظ و مضامین کا اظہار ابتذال کہلاتا ہے ۔گویا کہ ابتذال الفاظ کی سطح پر بھی ہوتا ہے اور مضامین کی سطح پر بھی مگر عام طور پر اسے الفاظ کی حد تک محدود سمجھا گیا ہے <ref> فخر الحق نوری، منتخب ادبی اصطلاحیں ، پولیمر پبلی کیشنر لاہور، 1990 </ref>

ابتذال کی مزید تعریفیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"ذلیل و خوار و بے قدر الفاظ کا استعمال کرنا اور محاورہ عوام لانا جس سے خواص پر ہیز کریں جیسے شبرات کی رات، چاہ زمزم کا کنواں " <ref> مولوی نجم الغنی رامپوری بحر الفصاحت </ref>

"غیر ثشقہ، سوقیان الفاظ و مضامین کلام میں لانا عوامیت اور رکاکیت پیدا کرتا ہے ۔ اس سے کلام مبتذل ہو جاتا ہے" <ref> ابوالاعجاز حفیظ صدیقی, کشاف تنقیدی اصطلاحات، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،1985ء </ref>

  • "ابتذال کے معنی عام طور پر یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جو الفاظ عام لوگ استعمال کرتے ہیں وہ مبتذل ہیں ۔ لیکن سب میں ابتذال میں نہیں پایا جاتا ۔ ابتذال کا معیار مذاقِ صحیح کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ مذاق صحیح خود بتا دیتا ہے کہ یہ لفظ مبتذل اور سوقیانہ ہے۔" <ref> شبلی نعمانی </ref>

ابتذال کی وضاحت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ سارا معاملہ اخلاقیات کے گرد گھومتا ہے ۔ہر زبان اپنے اندر ایک خاص اخلاقی نظام رکھتی ہے جسے اہل زبان اپنے اخلاقیات کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں ۔لہٰذا وہی الفاظ سوقیانہ کہلاتے ہیں یا انہی الفاظ کا استعمال ذوق سلیم پر گراں گزرتا ہے جسے بولنے والے یا جن کے معانی مروجہ اخلاقی نظام سے مزاحم ہوں۔

چونکہ اخلاقیات کے معیار بدلتے رہتے ہیں اس لیے ذوقِ سلیم کے پیمانے کیسےیکساں رہ سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے کسی خیال ، کلام یا لفظ کو ابتذال کے خانے میں رکھنا اس کے استعمال یا تخلیق کی تاریخ اور بدلتے ہوئے اخلاقیات کی گہری جانکاری ممکن نہیں ۔یہی وہ دروازہ ہے جہاں سے ابتذال کی بحث فلسفے میں داخل ہوجاتی ہے

شراکتیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نصیر احمد، لاہور

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابتذال | اتصال | اثقال | اخلال | املاکی اغلاط | بدفضائی | بے معنی | تثلیم | تذکرو تانیث کی اغلاط | ترکیب کے ساتھ اعلان نون | تعقیب | تعقید | تقدیم و تاخیر | تکرار | تطویل | تکلف | تلفظ کی اغلاط | تنافر حروف | تنافر کلمات | توارد | توالی اضافت | حشو | دولخت | ذم کا پہلو | سرقہ | سست بندش | سوءادب | شتر گربہ | ضعف تالیف | ضعف خاتمہ | ضعف نظم | ضلع جگت کی بے لطفی | نا موزونیت | شکست ناروا | عیوب ردیف | عیوب قوافی | غرابت لفظی | غلط العام | غلط العوام | غیر شاعرانہ الفاظ کا استعمال | فارسی الفاظ کے آخر کی ہ | فارسیت | کراہیت سمع | کہ اور نہ کا صیحح تلفظ | حصر | تو سے پہلے 'جو کا استعمال | الفاظ کے استعمال میں عدم احتیاط | مبالغہ | متروکات | محاورہ روز مرہ کی اغلاط | مخالفت لغت | مقدرات | منع صرف | منع نحو | واحد جمع کی اغلاط وغیرہ |

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]