پردے اٹھے نگاہ سے ہر شے نکھر گئی ۔ زکی کیفی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 19:18، 16 جنوری 2018ء از ADMIN (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏نعتیہ قصیدہ)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


شاعر: زکی کیفی

نعتیہ قصیدہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پردے اٹھے نگاہ سے ہر شے نکھر گئی

تنویر صبح رات کے رخ پر بکھر گئی


دشت وجبل سے نور کے کوندے لپک پڑے

کلیوں کے جام پھولوں کے ساغر چھلک پڑے


برگ و شجر نہال ہوئے ، جھومنے لگے

آپس میں ایک ایک کا منہ چومنے لگے


کرنوں کا رقص ہونے لگا برگ و بار پر

فردوس عکس ریز ہے ہر لالہ زار پر


باد نسیم مست ہے نکہت بدوش ہے

یہ نغمہ زن سکوت نوائے سروش ہے


تاریکیوں کا نام مٹا کر جہان سے

اتری عروس صبح نئی آن بان سے


بادل فضائے دہر پہ رحمت کے چھا گئے

آئی صدا کہ سرور کونین آگئے


پر نور کعبہ اور بھی پر نور ہو گیا

بطحا تمام جلوہ گہ طور ہو گیا


پائی جھلک جو ساقئ کوثر کے نور کی

زمزم سے موج اٹھی شراب طہور کی


اہل ستم کا رنگ اڑا ، زرد ہو گئے

آتشکدوں کی سانس رکی سرد ہو گئے


لات و ھبل کا دور حکومت گزر گیا

انسانیت کا طوق غلامی اتر گیا


بزم جہاں میں آج یہ کس کا ورود ہے

جبریل کے لبوں پر مسلسل درود ہے


انسانیت نے قرض سب اپنا چکا دیا

تخلیقکر کے جس کو خدا مسکرا دیا


جس کی طلب میں کی تھیں دعائیں خلیل نے

آمد کا اس کی مژدہ دیا جبرئیل نے


صدق و صفا کا پیکر پر نور آ گیا

لے کر حیات تازہ کا منشور آ گیا

بے آسرا نحیف لَبوں کو زبان دی

درِّ یتیم بن کے یتیمی کو شان دی


لُطف و کَرم کی ساری اَدائیں عَطا ہوئیں

زَخموں سے چُور ہو کے دُعائیں عَطا ہوئیں


اِنسانیت کے درد کا درماں کیا گیا

اِحسان و عدلِ زیست کا ساماں کیا گیا


وہ رحمتِ تمام وہ غمخوارِ بے کساں

ہَے جس کو نازِ فقر وہ سلطانِ دو جہاں


فخرُ الرّسُل ہے شافعِ روزِ حساب ہے

اُمّی لقَب ہے صاحبِ اُمّ الکتاب ہے


مظلوم عورتوں کو نئی زندگی ملی

عِفّت ملی، حُقوق مِلے، روشنی ملی


پاکیزگیٔ عِصمت و عِفّت کا پاسباں

احسان و عدل و جُود کا دریائے بیکراں


تزئینِ کائنات ہے جس کے جمال سے

بالا ہَے جو خِرد کے حُدود و خَیال سے


اِک انقلابِ تازہ بپا کردیا گیا

نسل و وطن کا فرق فنا کر دیا گیا


ادنٰی سا یہ کرشمہ ہے اس فیضِ عام کا

بازار سرد کردیا سودی نظام کا


روم و عجَم کا فرق مِٹا سب گَلے ملے

جِس نے رُسومِ جہل کُچل دیں قدم تلے


جس نے اگر جلال کے جوہر دکھا دئیے

بدر و اُحد نشانِ عزیمت بنا دئیے


رہزن جو تھے وہ ہادیٔ آفاق بن گئے

جاہل جو تھے معُلّمِ اخلاق بن گئے


ہر بات جس کی بن گئی دستورِ زندگی

تاریکیوں میں جاگ اُٹھا نُورِ زندگی


قُرآن جس کا خُلق ہے وہ رحمتِ تمام

جِس کیلئے ہوا ہے دَو عالم کا اِنصرام


جِس کے غلام فاتحِ ایران و شام ہوں

لاکھوں دُرود اُس پہ، ہزاروں سلام ہوں

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زیادہ پڑھے جانے والے کلام