نعت نامے اورنقدِ نعت ،- ڈاکٹر داؤد عثمانی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 14:07، 27 مارچ 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏تنویر پھول:(48))
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

ڈاکٹرداؤد عثمانی۔ کراچی


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Dr. Dawood Usmani, has gone through the book NAAT NAMAY, a compilation work of Dr. Muhammad Sohail Shafiq comprising of letters received by Editor of Naat Rang. He has selected some highly attractive pieces from the letters and quoted them in order to show the significance of thought content of writings of various scholars who opined after in depth study of various volumes of Naat Rang. By such an approach of Dr. Dawood Usmani, the article, cited here, has become comprehensive review of Naat Namay. Quotations from the letters presented in the article are reflective of thirst to bring the criticism of Naat at such a standard that creative minds should become tuneful with the norms of higher poetry to achieve height of expressions to pay homage to Holy Prophet Muhammad (S.A.W).

’’ نعت نامے‘‘ اور نقد نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خط اس تحریر کا نام ہے جس میں مکتوب نگار اپنے جذبا ت ،احساسات اور نجی معاملات سے مکتوب الیہ کو آگاہ کرتا ہے ،یہ عمل کسی دور میں اتنا دلچسپ ،مفید ومعروف تھا کہ اُسے آدھی ملاقات کہا گیاجس کا سہرا مرزا غالب کے سر جاتا ہے جنھوں نے خط کو مکالمے میں بدل کر مکتوب الیہ کوحاضر کردیا اوربے زبان لفظوں کو زبان دے دی جس سے خط میں ایک نئی بات پیدا ہوگئی۔جسے نہ صرف اُس وقت کے مشاہیرِ علم و ادب نے اپنایا بلکہ بعد کے آنے والوں نے بڑی حد تک اُس کی پیروی کی۔

مکتوب نگارخط میں جہاں ذاتی حالات قلم بند کرتاہے وہیں ارادی و غیر ارادی طو ر پر اپنے عہد کی سیاسی ،معاشی ومعاشرتی ،تہذیبی و تمدنی اور علمی و ادبی تصاویر کی جھلکیاں بھی شخصی آئینے میں دکھاتا چلا جاتا ہے ۔

اس بات کوڈاکٹرنسرین ممتاز بصیر صاحبہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے:

’’ اپنے مراسلات کے توسط سے مکتوب نگار بعض حالات میں اپنی سوانح عمری کا بہت سا خام مواد مہیا کرتاہے ۔جو اس کے سوانح نگاروں کے لیے راست مآخذ کا کام بھی دیتے ہیں اس کے علاوہ اکثر و بیش تر وہ اپنے حالا ت بھی پیش کرتا رہتا ہے اور وقتاًفوقتاًمعاصرین کے احوال و کوائف کا تذکرہ اور ان پر تبصرہ بھی کرتا ہے جس کے باعث اُس کی تحریروں میں سوانح ،تاریخ اور تذکرے کے جھلکیوں کے علاوہ روزنامچے کے ایسے اجزاء سمٹ آتے ہیں جن کے ذریعے بہت سی سماجی بندشوں ،زندگی کی الجھنوں اور عصری حالات کے نشیب و فراز کا حال بھی معلوم ہوجاتا ہے‘‘(1)

مکتوب نگار ی میں اب پہلی سی بات نہیں رہی جس کی وجہ شاید ہماری زندگی میں جدیدٹیکنالوجی کا آنا ہو ۔مگر غنیمت ہے کہ ہمارے رسائل و جرائد کے مدیران کوماضی کے مقابلے میں کم ہی سہی مگر آج بھی بعض قارئین کی طرف سے خطوط لکھے جاتے ہیں’’ نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘(2)ایسے ہی مکاتیب کا مجموعہ ہے جو جریدے’’نعت رنگ‘‘کے مدیر معروف نعت گو شاعر و نعت خواں صبیح رحمانی کے نام لکھے گئے۔’’نعت رنگ‘‘زمرہ: رسائل و جرائد کی تاریخ میں وہ واحد موضوعاتی مجلہ ہے جس نے نعتیہ ادب میں تنقیدِ نعت کے موضوع پر پہلی سنجیدہ کوشش کی جس کی مبارک باد دیتے ہوئے ڈاکٹر وفا راشدی (3)نے لکھا کہ:

اس ’’صحیفۂ انوار‘‘ کا اجرا نہایت مبارک اور باعث خیر و برکت ہے۔ پاکستان تو کیا پورے برصغیر میں یہ اپنی نوعیت، معنویت، افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے وہ واحد مجلہ ہے جو صرف منظوم حمد و نعت اور حمدیہ و نعتیہ، افکار و معارف سے متعلق توصیفی مضامین پر حاوی نہیں ہوتا بلکہ خالص تحقیقی، تنقیدی اور علمی انداز کے مقالات پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ یہ امتیاز کسی اور رسائل و جرائد کو حاصل نہیں۔ علم و عرفان کے فروغ، ادب و معاشرت کی خدمت کا یہ ایک منفرد رنگ ہے(4)

اور مشفق خواجہ(5)نے تو پہلے شمارے کو دیکھتے ہی اکتوبر95 /10/12 کو لکھا تھا کہ :

’’آپ نے اس شمارے میں تحقیق و تنقید کے حوالے سے جو مضامین شائع کیے ہیں، اُن میں نعت گوئی کے تاریخی، فکری، جمالیاتی اور فنی پہلوؤں کے بارے میں بصیرت افروز مباحث ملتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے چند نعت گو شاعروں کے فکر و فن کا مطالعہ بھی موجودہ دور کی نعت گوئی کے اعلیٰ معیار کا اندازہ کرنے میں بڑی مدد دیتا ہے‘‘(6)

’’نعت نامے‘‘درحقیقت مطالعہ ہیں’’نعت رنگ‘‘ کا جسے محققین و ناقدین ،اہل علم و دانش اور صاحب الرائے احباب نے 1995 سے 2014 کے دوران صبیح رحمانی کے نام خطوط کی صورت میں ارسال کیے ۔ان میں سے بہت سے شائع بھی ہوئے ۔جنھیں پڑھ کر ڈاکٹر یونس اگاسکر(7) نے کہا:

خطوط کی تعداد اور دنیا کے چاروں کھونٹ سے آنے والے مکاتیب کے معیار و مزاج کو دیکھ کر یقین کر نا پڑتا ہے کہ’’نعت رنگ‘‘کی ایک واضح اور مستحکم برادری بن گئی ہے‘‘(8)اور محترم ڈاکٹر عزیزاحسن (9) نے ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ’’ان سے تو ادبی معرکوں کی ایک تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے ‘‘(10)اور محترم مصباح الدین شکیل (11)نے لکھا کہ’’ نعت رنگ ‘‘ کے خطوط دلچسپ اور ازیادِ علم کا ذریعہ بن رہے ہیں (12) ان مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مکاتیب کی ترتیب کا فریضہ عزیزی ڈاکٹر سہیل شفیق نے انجام دیا ہے ۔موصوف اس سے پہلے بھی تحقیق کاروں کی سہولت اور رہنمائی کے لیے اس طرح کے کارنامے سر انجام دے چکے ہیں جن میں ماہنامہ ’’معارف ‘‘،اعظم گڑھ میں جولائی 1912 تا دسمبر 2012 تک ارباب علم و فضل کے انتقال پر شائع ہونے والی تحریروں کا انسائیکلو پیڈیا ’’وفیات معارف‘‘ ماہنامہ ’’معارف ‘‘اعظم گڑھ کا نوّے سالہ اشاریہ ،رسالہ ’’ارمغانِ حمد‘‘، کراچی کا اشاریہ اور ’’نعت رنگ ‘‘کا اشاریہ جس کے متعلق ڈاکٹر ریاض مجید نے (13)لکھا کہ ’’مطالعاتِ نعت کے ذیل میں ’’نعت رنگ‘‘کے ا س اشاریے کو اہم حوالے کی حیثیت حاصل ہے اور نعت کے ریسرچ اسکالر ز مختلف جامعات میں ڈاکٹر سہیل کے اس اشاریے سے استفادہ کر رہے ہیں (14)قابل ذکر ہیں۔

’’نعت نامے‘‘ میں مجموعی طور پر ۱۸۵ مکتوب نگاروں کے ۵۱۲ خطوط شامل ہیں جس میں بیشتر تحقیقی و تنقیدی ،علمی و ادبی نکات پر مشتمل ہیں جس میں سات سات ،آٹھ آٹھ صفحات کے خط بھی ہیں جو کہ پورے کے پورے مقالے ہیں۔ان میں چند ایسے بھی ہیں جو مدیر کے ذاتی مراسم ،علمی روابط اور محبت نامے کے ذیل میں آتے ہیں ان میں بھی کہیں نہ کہیں نعت کا تذکرہ آہی گیا ہے خطوط کی ترتیب میں عزیزی سہیل نے جن باتوں کا خاص اہتمام اور خیال رکھا ہے وہ انھی کی زبانی سن لیجیے:

’’خطوط میں ذکر کردہ نعتیہ مقالات اور کتابوں کا حتی المقدور مکمل حوالہ ہر خط کے ذیل میں دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مکتوب نگاران اور خطوط میں ذکر کردہ شخصیات کے مختصر کوائف(تاریخ پیدائش و وفات، علمی وا دبی حیثیت، تصنیفات و تالیفات اور اعزازات کا ذکر) بھی خطوط کے ذیل میں کردیا گیا ہے۔اس سلسلے میں مرتب نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان کی فہرست کتابیات میں دیکھی جاسکتی ہے۔

خطوط کے متن میں چند ایک مقامات پر وضاحت کے لیے ایک لفظ کا اضافہ کرنا پڑا ہے ۔ اس لفظ کو چوکور خطوط وحدانی میں (یعنی [ ] کے درمیان) لکھا گیا ہے تاکہ اصل متن سے الگ رہے۔ آخر میں مکتوب نگاران اور صرف ان شخصیات کا اشاریہ]325[دیا گیا ہے جن کے مختصر کوائف خطوط کے ذیل میں دیے گئے ہیں۔

خطوط میں ذکر کردہ کتابوں اور مقالات کا اشاریہ مرتب نہیں کیا گیا ہے ‘‘ (15)

سہیل صاحب نے ان خطوط کو مرتب کرتے ہوئے جن چیزوں کو برتا انھیں دیکھ کر اور ان کے پچھلے کاموں کی روشنی میں محترم ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب (16) نے یہ رائے دی کہ :

’’اس مجموعے کو مزید افادیت سہیل شفیق صاحب نے اپنے اہتمام سے بخشی ہے، جنھیں جمع وترتیب اور حاشیہ نگاری کایوں بھی خوب سلیقہ ہے۔متن کی ترتیب اور ضروری قطع و برید سے موضوع کو نمایاں کرنے میں ان کا کمال یہاں ظاہر ہے۔پھر اس پر مستزاد ان کی کاوشِ خاص کے سبب مکتوب نگاروں اور متن کی موضوعی شخصیات پرتعارفی و تصریحی شذرات اس مجموعے سے استفادہ کرنے والوں اورساتھ ہی رجال سے عمومی دل چسپی رکھنے والوں کے لیے مزید مفید ثابت ہوں گے‘‘۔(17)

185 مکتوب نگاروں کے 512 خطوط کا نو سو چھتیس صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ ایک طرف مکتوب نویسوں کے احساسات ،جذبات، مطالعات ،تحقیق و تنقیدات،تاثرات اور علمی و ادبی نکات کا آئینہ ہے تودوسری جانب بعض خطوط میں ادبی شہ پاروں کی جھلکیاں بھی خوب دکھا ئی دیتی ہیں جس کی کئی خوبصورت مثالیں ہمیں ان مکاتیب میں نظر آتی ہیں جیسے حنیف اسعدی (18) کے خط کا یہ ابتدائیہ دیکھیے:

’’تم نے اپنے طورپر یہ سمجھ لیا ہے کہ میں مر چکا ہوں تو یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہے۔ میں واقعی مر چکا ہوں مگر یہ بات خاصی فکرمندی کی ہے کہ تم زمانۂ علالت میں آئے اور نہ بعد مرگ تعزیت کے لیے آئے۔ نہ پُرسا دیا۔ نہ فاتحہ میں شریک ہوئے۔ یہ رسمیں میں نے اکیلے ہی ادا کیں۔ اب اگر کبھی جی چاہے آنے کو تو پتا وہی ہے اس لیے کہ جس گھر میں رہتا تھا وہی اب میرا مقبرہ ہے‘‘(19)

اور چند سطریں پروفیسر شفقت حسین رضوی صاحب (20)کی بھی ملاحظہ ہوں :

’’بعد تسلیمات یہ حقیر و کم ترین قلم بردار اپنے چاہنے والوں اور نہ چاہنے والوں کی خدمت میں اس کے ذریعہ بقائمی ہوش و حواس، بلا جبر و اکراہ، حالت ذہنی صحت میں برضا و رغبت تحریر کرتا ہے کہ ساٹھ سال قلم گھسنے کے بعد چند زخم اور چند داغ لیے ادبی دنیا سے رخصت ہوتا ہوں۔ میں لکھنے کے عمل سے تائب ہوچکا۔‘‘(21)

جناب عاصی کرنالی صاحب (22)کا بھی یہ نثری نمونہ دیکھیے:

’’نعت رنگ‘‘ عطا ہُوا۔ خوب سے خوب تر۔ زیبا سے زیبا تر۔ زیادہ کاوش اور دقتِ نظری کا ثبوت۔ہر تحریر عمدہ،مفید المطالعہ، لائقِ استفا دہ ۔ لکھنے والوں کی ژرف نگاہی، وسعتِ مطالعہ اور معیار کی دلیل۔ میں نے ابھی جستہ جستہ مطالعہ کیاہے۔ نعت رنگ، کی اہمیت اور اقتضایہ ہے کہ اسے بغور پڑھنا چاہیے اور اس میں شامل سطر سطر،جملے جملے کا مطالعہ تعمق سے کرنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ نعت رنگ کا ہر شمارہ اور تخصص کے ساتھ موجودہ شمارہ اتنا پراز معنویت وافادیت ہے کہ طالبانِ علم وفن سے لے کر مطلوبانِ علم وفن تک اپنے اپنے ذوق، فہم اور شعوری سطح کے مطابق اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘(23)

اور اس کے ساتھ محترم ریاض حسین چودھری(24) کی بھی دلکش نثر کا لطف اٹھائیے:

’’پروفیسر محمد اکرم رضا ہمارا سرمایۂ افتخار ہیں، آقائے مکر م صلی اللہ وعلیہ وسلم کی نعت کے حوا لے سے قلم اُٹھاتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کائنات کا سارا حسن ان کے قلم کے ہم رکاب بارگاہِ حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم میں دست بستہ کھڑا ہو، لفظ لفظ میں مودّت کے چراغ جل اُٹھتے ہیں۔ ہر چند یہ تصویرِ ادب بن جاتا ہے ورق ورق پر ہجومِ مہِ و انجم اُمڈ پڑتا ہے‘‘(25)

نقوی احمد پوری (26)کا بھی ایک اقتباس پڑھیے:

’’نعت رنگ‘‘ کا کتابی سلسلہ نمبر۲ نظرنواز ہوا۔ سرورق دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ دل میں کیاکیا جذباتِ عقیدت بھڑکے۔ ذہن میں کیا کیا الفاظ محبت گونجے۔ روح نے کس کس طرح سرمستی میں رقص کیا۔کالی کملی والے کے تصور میں بے ساختہ سرورق کو چوم لیا... سرورق... انوار و تجلیات کی بارش۔ اس بارش میں ذاتِ باری کی طرف سے اعلان کرتی ہوئی ٹھنڈی، بھینی خوشگوار و مشکبار ہوا... ہوا کا اعلان ...ذاتِ بے نیاز کے اندازِ تخاطب کے والہانہ پن کا ترجمان ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ چمکتا دمکتا، ارفع و اعلیٰ، فضاؤں میں نور چھڑکتا ہوا مینار۔ خوش بوئیں لٹاتی ہوئی فصل بہار...علامتِ دلنشین... رحمۃ للعالمین... درود و سلام ہو اس رحمتوں کے تاج والے معراج والے نبی طاہر و مطہر پر اس کی آل پر، اس کے اصحاب پر اور اس کی ازواج پر‘‘ (27)

اس طرح کے اور بھی نثر پارے اپنے خاص اسلوب کے ساتھ آپ کو ان خطوط میں نظر آئیں گے تنقیدی اقتباسات سے پہلے چند تحقیقی اقتباس بھی دیکھ لیں کیونکہ تحقیق و تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔

ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد:(28)

’’ موصوف نے اپنے اسی مقالہ میں حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل شعر کا انتساب سبعہ معلقہ کے مشہورومعروف شاعر زہیربن ابی سلمیٰ کی جانب کردیا ہے۔موصوف نے ثانوی حوالہ میں العقد الفرید کا نام لکھا ہے:

وان احسن بیت انت قائلہ

بیت تقال اذا انشدتہ صدقا

واضح ہو کہ درحقیقت مولانا الطاف حسین حالی نے اس شعر کو تسامحاً زہیرابن ابی سلمیٰ کا اپنی معرکہ آرا تحقیق مقدمہ شعروشاعری کے صفحہ 94 پر لکھ دیا ہے۔ راقم نے 1977ء میں ’’اردوشاعری میں نعت‘‘ کے تحقیقی سفر کے دوران اس شعر کو زہیرابن ابی سلمیٰ کے دیوان میں نہیں پایا اور تلاش بسیار کے بعد اس کو یہ شعر علامہ ابن رشیق کی کتاب العمدہ کے صفحہ 73 پر ملا اور تب اس کو اس حقیقت کا علم ہوا کہ اس شعر کے تخلیق کار شاعر رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم حضرت حسان بن ثابتؓ ہیں۔ راقم نے اس واقفیت کا اظہار اپنی کتاب ’’نعتیہ شاعری کا ارتقاء‘‘ مطبوعہ 1988ء کے صفحہ114 پرکردیا ہے‘‘(29)

ڈاکٹر تحسین فراقی:(30)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ عاصی صاحب کو ان امور سے بھی اعتناء کرناچاہیے تھا۔ حواشی میں ایک جگہ انھوں نے ایک شعر مستغرق گناہیم، ہر چند عذر خواہیم... درج کرکے اسے معین الدین چشتی سے منسوب کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معین الدین چشتی کے نام سے جس دیوانِ فارسی کا ہمارے یہاں چلن ہے وہ ان کا نہیں معین الدین ہرویؔ کا ہے اور اگر میرا حافظ غلطی نہیں کرتا تو حافظ محمود شیرانی نے اپنے مقالات میں ایک جگہ اس کے معین الدین چشتی سے انتساب کو بہ دلائل غلط قرار دیا ہے‘‘(31)

حفیظ تائب :(32)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ غوث میاں نے پہلے بھی قیامِ پاکستان سے پہلے چھپنے والے بہت سے نعتیہ گل دستوں کا ذکر تو کیا ہے۔ انھوں نے اُس دور کے اہم ترین انتخاب ’’بوستانِ نعت‘‘کو دیکھ نہ سکنے کا اعتراف بھی کیا ہے، جب کہ راجا رشید محمود نے بجا کہا ہے کہ ’’اس انتخاب کی اہمیت اور افادیت آج بھی مسلّم ہے‘‘۔ بھائی غوث میاں کے ریکارڈ کے لیے عرض گزار ہوں کہ ’’بوستانِ نعت‘‘ کے مرتب احمدعلی سیف کلانوری خود بھی نعت نگار تھے۔ اُن کا انتخاب"۹"x۶ سائز کے ۲۷۲صفحات پر پھیلا ہوا ہے اور عمدہ کاغذ پر اشاعت پذیر ہوا تھا۔ یہ چھپا تو ’’فیروز پرنٹنگ ورکس۱۱۹ سرکلر روڈ لاہور میں تھا، لیکن اس کی اشاعت کا اہتمام نواب صادق پنجم شہریار بہاول پور نے کیا تھا۔ مرتب نے اس بات کا ذکر اپنے دو صفحات پر مشتمل مقدمہ بعنوان ’’وجہِ تالیف‘’ میں کیا ہے اور یہ تحریر انھوں نے ۱۷؍ذی قعدہ 1349 ہجری کے دن لکھی۔ اس مجموعہ میں ہر اہم شاعر کی نعتیں ردیف وار جمع کی گئی ہیں‘‘(33)

رشید وارثی:(34)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، حفیظ تائب صاحب سے سخت مغالطہ ہوا ہے۔ دیگر واعظوں کی طرح وہ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت حسانؓ منبر رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم پر بیٹھ کر مدحِ رسول بیان کرتے تھے۔ جب کہ تحقیقی بات یہ ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم کو ضعیف العمری کی وجہ سے وعظ کے لیے قیام میں زحمت ہوئی تو ۸ھ میں آپ کے لیے مسجد نبوی میں جھاؤ کی لکڑی کا منبر بنایا گیا (اور استوانہ کو دفن کردیا گیا) (فتح الباری)۔ اور اسی سال فتح مکہ کا واقعہ ہے۔ ۹ ہجری میں جب بنوتمیم کے وفد نے مدینہ منورہ آکر مفاخرت کی تو ان کے ایما پر آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ان کے شاعر کا جواب دینے کے لیے حضرت حسانؓ کو حکم دیا اور انھوں نے کھڑے ہوکر اسلام کی مدافعت میں اشعار سنائے۔اس کے بعد ایک چوکی نما منبر تیار کیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم مسجد نبوی میں حضرت حسانؓ بن ثابت کے لیے یہ منبر رکھواتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر حضور اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم کی مدحت بیان کریں (مدارج نبوت)۔ اس طرح اب یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت حسانؓ جس منبر کو اشعار سنانے کے لیے استعمال کرتے تھے وہ منبر رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم نہیں تھا بلکہ ایک چوکی نما Portable (نقل پذیر) منبر تھا جس پر وہ بیٹھ کر نہیں بلکہ کھڑے ہوکر مدحت گوئی فرماتے تھے۔ رہا رسولِ اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم کا منبر شریف، تو وہ تین زینوں پر مشتمل تھا۔ زمین سے پہلے دو زینے Steps قیام کے لیے استعمال فرماتے تھے اور تیسرے زینے پر آپ نشست فرماتے تھے۔ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی نشست والے حصہ پر بیٹھنے کے بجائے آپ کے قدم مبارک رکھنے والے دوسرے زینہ پر نشست فرماتے اور ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ادب کی وجہ سے زمین سے پہلے حصہ پر نشست فرماتے تھے۔ (یہ تمام باتیں متفق علیہ ہیں)۔ لہٰذا منبر رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم پر حضرت حسانؓ کے بیٹھنے کی بات بالکل غلط ہے۔ اس کو ذہن سے محو کر دینا چاہیے۔ کیوں کہ اس میں حضور اکرمصلی اللہ وعلیہ وسلم کی بے ادبی کا پہلو ہے‘‘(35)

ڈاکٹر عزیز احسن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ سیکڑوں مثنویاں لکھی گئی ہیں جن میں سے کچھ مطبوعہ اور کچھ غیر مطبوعہ ہیں۔ان مثنویوں کی ابتدا حمد و نعت ہی سے ہوئی ہے۔ چنانچہ اگر ہم ہر بار کسی ایک مثنوی سے نعت کے اشعار منتخب یا مکمل شکل میں ،نعت رنگ کی زینت بناسکیں تو ہماری یہ کاوش ، نعتیہ ادب کے مطبوعہ خزانے میں اضافے کا بھی باعث ہوگی اور تحقیقی آفاق کی وسعتوں کی راہ بھی ہموار کرے گی!‘‘(36)

تحقیق کے اور بھی نقوش ان مکاتیب میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ہمارا مقصد ان خطوط میں پوشیدہ تنقیدی نکات کو آ پ کے سامنے پیش کرنا ہے کیونکہ ان میں نقدِ نعت کے حوالے سے قابل قدر مواد موجود ہے جس سے نقد و نظر کی نئی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں آغاز استاد محترم ڈاکٹر سیدمحمد ابوالخیر کشفی صاحب(37) کے خط کے اقتباس سے کرتے ہیں جس میں نعتیہ نقد و نظر کے اشارے کیسے خوب صورت جذبے،احساس اور فکر سے آئے ہیں کہ سبحان اللہ حالانکہ بات ڈاکٹر عزیز احسن کی شعری گرفت اور حنیف اسعدی کی نعت گوئی پر ہو رہی ہے۔

’’َ .........عزیزاحسن صاحب نے جن شعراء کے اشعار پر گرفت کی ہے ان کے اچھے اشعار کے ذریعہ بھی اپنا نقطہ نظر واضح کیا ہے۔اس سے مجھے وہ حدیث یاد آئی کہ محبت اور بغض اللہ کے لیے ہو۔ اور پھر مسئلہ تو سرکارِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے آدابِ ثنا کا ہے۔ یہاں کسی شخصی اونچ نیچ کی کیاگنجائش۔ اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب میں وسعت پیدا فرمائے اور یہ بات ہماری سمجھ میں آسکے۔ہرچیز کا معیار اور پیمانہ حضرت سرورِ کائنات فداہ ابی وامی کی ذات گرامی ہے۔ سندہیں تو وہی امید ہے ہر شمارہ پہلے شمارے سے بہتر ہوگا امید کیا یقین ہے کیوں کہ یہ کاوش اس ذاتِ اکمل و اطہر سے متعلق ہے جو تکمیل کا معیار ہے۔

حنیف اسعدی بلاشبہ ہمارے عہد کے نہایت ممتازنعت گو ہیں غزل میں انھوں نے قائم رہنے والے نقش بنائے ہیں مگر یہ نقش گری ان کی نعت کا دیباچہ ہے۔ حنیف بھائی کی غزل میں بھی نعت کی کیفیت اکثر ابھرآتی ہے اور یہ اس بات کی شہادت ہے کہ وہ دوئی کو بہت پیچھے چھوڑآئے ہیں۔ قرآن حکیم نے اسلام کے بارے میں اہل ایمان سے کہا ہے کہ ’’اسلام میں پورے‘‘ داخل ہوجاؤ۔ حنیف بھائی کی نعت ان کی پوری ذات کا اظہار ہے۔شاعری اور نعت گوئی سے قطع نظر ان کے نفس اور ذات کی خوشبو میں بھی نعت کے کتنے ہی پہلو ہیں اس سلسلہ میں (میں حفیظ تائبؔ کا بھی نام لینا چاہتاہوں) جب آدمی کی خاموشی ثنا اور مدحت بن جائے توپھر اسے اور اس کے چاہنے والوں کو اور کیا چاہیے۔ ان کے کتنے ہی شعر اور مصرعے بہت سے پڑھنے والوں کی طرح میرے ذہن کا حصّہ بن چکے ہیں۔

اپنے ہر جرم پہ محسوس ہوا

آپ ؐنے دیکھ لیا ہو جیسے

اور بظاہریہ سیدھا سادا مگر نہایت بلیغ مصرع

نام ایسا کہ ثنا ہو جیسے

جس آدمی نے اسم محمدصلی اللہ وعلیہ وسلم کو یوں جان لیا ہو، نعت کا کون سا مرحلہ ہے جو اس کے لیے مشکل ہوگا ان کی نعت گوئی تو معرفت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مسلسل سفر ہے اور میرے عزیز! تم تو جانتے ہو کہ یہ سفر کبھی نہ ختم ہونے والا ہے۔ دنیا کی ہر زبان کے سارے محترم لفظ، اظہار اور امکانات سرکار انسانیت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خلق کیے گئے ہیں۔ حنیف بھائی نے طبع موزوں، سلگتے ہوئے دل اور چشم نم کو وسیلہ نعت بنادیا ہے اور ان کی ہرکاوش کے پیچھے وہ اشارہ موجودہے جو ہر بڑی انسانی کاوش کی تحریک بنتا ہے۔

اس طرف کا اگر اشارہ نہ ہو

طبع موزوں بہم نہیں ہوتی

کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ لفظوں کے معانی لغت میں نہیں ملتے بلکہ اچھے اور بڑے اہلِ قلم کی نظم ونثر میں ملتے ہیں‘‘۔(38)

اس کے بعد احمد صغیر صدیقی صاحب کے مراسلے سے چند سطریں پیش خدمت ہیں جس میں انھوں نے مدیر ’’نعت رنگ‘‘ کی توجہ اس بات کی جانب دلائی کہ:

’’آپ نے اداریے ’’احوال‘‘ کے آغاز پر لکھا ہے ’’آغاز رب رحمن ورحیم کے نام سے ثنائے رسول ہاشمی صلی اللہ وعلیہ وسلم کے بعد‘‘ یہ ترتیب آپ کی توجہ چاہتی ہے اصولاً حمد ربی پہلے اور ثنائے رسولص لی اللہ وعلیہ وسلم بعد میں ہونی چاہیے‘‘۔(39)

معبود و عبد کے مرتبے اوراس کے اظہار میں ہمیشہ احتیاط برتنی چاہیے اس میں بے احتیاطی ہمارے ایمان کی حدوں کو چھو لیتی ہیں دیکھیے محترم ادیب رائے پوری کو جب انھیں ایک ہی شعر میں اللہ اور رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کا ذکر کرنا پڑا تو کس طرح کیا :

خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفی نہ کرے <ref> مکمل کلام پڑھیے </ref>

ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے

آگے چل کر [[[احمد صغیر صدیقی | صدیقی صاحب]] آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم کے نام کے ساتھ لکھے جانے والے القاب کے بابت قابل غور بات لکھتے ہیں:

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ جو القاب مستعمل ہیں مثلاً ’’مولائے کل‘‘، ’’آقائے دوجہاں‘‘، ’’سرکاردوعالم‘‘ وغیرہ۔ میں ان پر اکثر غور کرتا ہوں یہ تمام القاب مجھے رب رحمان ورحیم کے محسوس ہوتے رہے ہیں مثلاً آقا ومولا تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مولائے کل‘‘ کہا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیاکہیں گے؟ ہمارے سامنے ’’رحمت للعالمین‘‘ ، ’’رسول مقبول‘‘، ’’نبی کریم‘‘، ’’حبیب خدا‘‘ وغیر ہ جیسے القاب بھی تو ہیں بہرحال میری خواہش ہے کہ اس طرف بھی کوئی صاحب علم مضمون نگار توجہ دے تو کیا ہی اچھی بات ہوگی اگر علامہ اقبال اور مولانا حضرات کچھ کہتے ہیں تو اسے سند بناکر سب کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ بذریعۂ تحقیق غلط اور درست کا فیصلہ کیا جائے‘‘۔(40)

پھر سوالیہ اندا ز میں اسی بات کو یوں پوچھنا:

’’ ایک بات ضرور پوچھوں گا کہ کیا یہ القاب(مولائے کل، سرکارِ دوعالم وغیرہ) حضوراکرمصلی اللہ وعلیہ وسلم کے سامنے بھی رائج تھے اور کیا صحابہؓ ان کا استعمال کرتے تھے؟(41)

اور آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے لیے ’’تو‘‘یا ’’آپ‘‘ کے استعمال پر اپنا یہ موقف پیش کیا ۔

’’ نعت میں ’’تو‘‘ یا ’’آپ‘‘ کے استعمال <ref> مزید دیکھیے : نعت میں ضمائر کا استعمال </ref> کا ذکر بھی چھیڑا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اُردو میں ’’آپ‘‘ کا ضمیر بھی ہے اور ’’تو‘‘ کا بھی۔ تاہم بات وہی ’’حسن نیت‘‘ کی ہے اور اسے سبھی جانتے ہیں‘‘۔(42)

نعتیہ شاعری میں خیال ،لفظوں کے انتخاب عروض اور مضمون کی جانب کس حد تک توجہ درکار ہے اور کس حد تک دی جارہی ہے ،ا س حوالے سے دیکھیے اورغور کیجیے۔

احمد صغیر صدیقی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’مدحت‘‘ کے حصّے میں تابش دہلوی صاحب، جناب عبدالعزیزخال صاحب اور حمایت علی شاعر وغیرہ کی نعتیں اچھی لگیں کچھ نعتیہ شعر بہت پسند آئے:

ان کی یاد کے صدقے

قلب کو حرا کہیے

(اعجازرحمانی)

سرور حرف دعا کیسا مستجاب ہوا

زباں کو حوصلہ مدح آنجناب ہوا

(سرور بارہ بنکوی) اسی نے تلخ نوائی کی تیرگی میں کیا

زمینِ دل پہ محبت کا آسماں روشن

(صبیح رحمانی)(43)

لیکن اس شعر پر گرفت کی۔

زادِ حیات اسوۂ نبی کریم ہو

انور سدید کا ہے یہ ارمان یا رسول

اس شعر کی نثر بنایئے۔ یارسول انور سدید کا ارمان ہے کہ زادِ حیات اسوہ نبی کریم ہو۔لگتا ہے اسوہ نبی کریم کوئی اور چیز ہے۔ جس کی فرمائش رسول سے کی جارہی ہے۔ حالاں کہ کہنا یوں تھا کہ یارسول انور سدید کا ارمان ہے کہ ان کا زادِ حیات آپ کا اسوۂ ہو۔ شاعر اچھی طرح بات لکھ نہیں سکا ‘‘۔(44)

ڈاکٹر اشفاق انجم:(45)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’یہ دھماکہ کن فیکون تھا کہ یہ کائنات سنور گئی

کئی آسمان بکھرگئے مگر اک زمین نکھر گئی

’’ کن فیکون‘‘ سائنسی نقطۂ نظر Big Bang Theoryکی طرح کوئی ’’دھماکہ‘‘ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کائنات اک دھماکے سے معاً وجود میں آگئی جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ’’ اللہ نے چھ دنوں ( فی ستۃ ایّام ۔ سورہ الم سجدہ) میں کائنات کی تخلیق کی۔ ’’کئی آسمان بکھر گئے ‘‘ بھی محل نظر ہے۔ اللہ نے آسمان بکھیرے نہیں بلکہ ایک خاص ترکیب اورخصوصیت کے ساتھ خلق کیے ہیں‘‘۔(46)

’’میرے اسلوب کو ندرت کی ارم بھی ہو عطا

لہجہ وہ دے کہ جو فردوس سماعت ہوجائے

’’ ارم ‘‘ شداد کی بنائی ہوئی جنت کا نام ہے۔ میں نعت و حمد میں خصوصاً اس لفظ کے استعمال کے حق میں نہیں ہوں۔(47)

تنویر پھول:(48)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’گزشتہ سال بارہ ربیع الاول کی شب پی ٹی وی کراچی سینٹر سے ایک نعتیہ مشاعرہ پیش کیا گیا، ایک معروف نعت گو شاعر نے طائف کی سنگ باری کا حوالہ دیتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم کے لیے ’’سنگسار‘‘ کا لفظ استعمال کیا:

کیا لاؤگے طائف کا کوئی ایسا مسافر؟

جو ان کی طرح راہ میں ’’سنگسار‘‘ ہوا ہو!

یہ لفظ نہایت قابل اعتراض ہے کیوں کہ ’’سنگ باری‘‘ اور ’’سنگساری‘‘ میں بڑا فرق ہے۔ موخر الذکر پتھر مار مار کر ہلاک کردینے کو کہتے ہیں جو شریعت میں بدکاری کی سزا ہے۔ فنی اعتبار سے بھی شاعر موصوف کا یہ مصرعہ سقیم ہے کیوں کہ انھوں نے ’’سنگسار‘‘ بر وزن ’’سنسار‘‘ استعمال کیا ہے، جو غلط ہے۔ ’’سنگسار‘‘ میں نون غنہ نہیں ہے بلکہ اس کا اعلان ہوگا، جس کی وجہ سے مصرعہ ساقط الوزن ہوکر بحر سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ذرائع ابلاغ کو احتیاط برتنی چاہیے۔(49)

’’عصرِ حاضر کے ایک معروف نعت گو اپنی نعت میں اکثر اس مفہوم کا شعر پڑھتے ہیں کہ ’حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم نے خلل کے چراغ بجھا دیے۔‘ چراغ ہمیشہ اچھے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اگر ’خلل کے چراغ‘ کہنا درست ہے تو پھر ’جہالت کی شمع‘ اور ’باطل کا نور‘ کہنے میں کیا مضائقہ ہے؟ اسی طرح ایک شاعرہ کی نعت کا یہ مصرع دیکھیے ’کفر کے روشن ایوانوں میں آکے اندھیرا کس نے کیا؟‘ یہ مصرع بھی قابلِ اعتراض ہے۔ کفر کے ایوانوں کو روشن کہنا درست نہیں اور اندھیرا کہنا اچھا فعل نہیں، جسے حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم سے منسوب کرنا کھٹکتا ہے‘‘۔(50)

خالد شفیق:(51)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’کس قدر پاکیزہ اور عظیم خواہش ہے:

تمنا ہے کہ ہو وہ نام نامی آپ کا آقاؑ

میں جو لفظ آخری بولوں میں جو لفظ آخری لکھوں

اور پھر یہ مشاہدہ:

زباں کو تاب گویائی نہیں رہتی مدینے میں

صدا دیتی ہے لیکن چشمِ تر آہستہ آہستہ

اور پھر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے:

جو اہلِ دل ہیں، مدینے کی سمت جاتے ہوئے

متاعِ نعت بھی زادِ سفر میں رکھتے ہیں

حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کی سیرت کا بیان بھی قابل دید ہے:

گفتگو خوش بو کے لہجے میں سکھائی آپ نے

خارِ نفرت چن لیے دے کر محبت کے گلاب

۔۔۔

نکل آئیں گے حل سب مسئلوں کے چند لمحوں میں

حیاتِ مصطفیؑ کو سوچنا اول سے آخر تک

صبیح کا ’’جادۂ رحمت‘‘ حال کے اُفق پر ایک رخشندہ و تابندہ مستقبل کے طلوع کی نشان دہی کر رہا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘۔(52)

پروفیسر خواجہ محمد سبطین شاہ جہانی:(53)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’جناب عرش صدیقی[54] صاحب کے ایک شعر سے متعلق گزارش کروں گا۔ جس میں انھوں نے لفظ ’’بدنصیب‘‘ نظم کیا ہے۔ ’’بد‘‘ کا لفظ باندھنا مناسب نہیں نعت کے ادب کے خلاف ہے۔ عرش صاحب کا شعر:

کیا خوش نصیب تھے کہ ترے در پہ آگئے

کیا بدنصیب ہیں کہ چلے ہیں یہاں سے ہم(55)

شوکت عابد:(56)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’علامہ] شہزاد مجددی[صاحب کی نعت بھی کمال کی ہے اتنی سادہ، پر اثرا ور باوقار نعتیں میری نظر سے کم ہی گزری ہیں۔ خصوصاً یہ شعر

یہ نکتہ ہی شہزاد معراج میں تھا

کہ رستے کو خود رہنما دیکھ آئے (57)

ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ :(58)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’خدا سے جو سنی ہے آپ نے سچ سچ بتائی ہے

سچ سچ بتائی ہے میں سُوے ادب ہے۔ یوں کرسکتے تھے ’وہ سب بتائی ہے‘۔

یعقوب تصور صاحب کی نعت کا مطلع ہے:

عظمتِ تخلیق کا ہر اک کمال ان کے لیے

حسنِ کائنات اوصافِ جمال ان کے لیے

’حسنِ کائنات‘ کو وزن میں ’حسنِ کائے نات‘ پڑھنا ہوگا جو غلط ہے۔ اسی نعت کے بارھویں شعر میں یہ لفظ اصلاً درست استعمال ہوا ہے۔شعر بھی پڑھ ہی لیجیے:

ان کی اقلیمِ بصیرت میں ہے ساری کائنات

بازیِ طفلاں ہے کارِ دانیال ان کے لیے

دوسرے شعر میں قافیہ فِعَال لائے ہیں:

گردشِ ارض و سما تاروں کی چال ان کے لیے

دوجہاں کا ذرّہ ذرّہ ہے فعال ان کے لیے

حالاں کہ اس معنی میں لفظ فعّال عین مشدد کے ساتھ ہے۔ فعال کے معنی لغت میں کچھ اور ہیں جن کا یہ محل نہیں۔

ایک مصرع ہے:

چاند، سورج، زحل، زہرہ، مشتری، مریخ سب

اس میں زحل بروزن فِعْل استعمال ہوا ہے جب کہ لفظ زحل بروزن فَعَلْ ہے‘‘۔(59)

حافظ عبد الغفار حافظؔ :(60)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ اعلیٰ حضرت کے جن اشعار کو بحر سے خارج قرار دیا ہے وہ یہ ہیں:

سب نے صفِ محشر میں للکار دیا ہم کو

اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے

زائر گئے بھی کب کے دن ڈھلنے پہ ہے پیارے

اُٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے

ہم دل جلے ہیں کس کے، ہٹ فتنوں کے پرکالے

کیوں بھونک دوں اک اُف سے کیا آگ لگائی ہے

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ضرورتِ شعری کی بنا پر حرفِ علت گرایا جاسکتا ہے اور یہ قاعدہ اتنا عام ہے کہ ہر شاعر اس سے واقف ہے۔ مرزا داغ دہلوی مرحوم کا ’’قصیدۂ اردوئے معلی‘‘ بہت مشہور ہے۔ اپنے اس قصیدہ میں وہ فرماتے ہیں:

وزن سے ہرگز نہ کوئی حرف گرنا چاہیے

ہاں مگر گرنا الف اور واؤ کا ہے روا

دوسری بات یہ کہ بعض مصرعے ذوالبحرین ہوتے ہیں اور انھیں دو بحروں میں پڑھا جاسکتا ہے۔ مثلاً علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

اقبال کا یہ شعر فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کے وزن پر ہے، مگر اس کا پہلا مصرع ذوالبحرین ہے اور وہ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کے وزن پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص دونوں مصرعے مختلف اوزان پر پڑھ کر علامہ اقبال پر اعتراض کردے تو کیا کوئی عقل مند شخص اسے تسلیم کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ یہی صورتِ حال اعلیٰ حضرت کے مذکورہ تینوں اشعار میں ہے‘‘۔(61)

اس طرح کئی مقامات پر نعتیہ شاعری پر تنقیدی آرا کااظہار موجود ہے۔ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد نے صحیح اور سچی بات کہی ہے کہ:

’’عالمی امن و امان کی ضمانت صرف ختمی مرتبت صلی اللہ وعلیہ وسلمکے پاس ہے ۔کیونکہ آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم رحمت بے کراں او ر فیضان بے نہایت کے منبع و مخرج ہیں‘‘۔(62)

اس موقع پر پروفیسر محمد اقبال جاوید صاحب(63) کی یہ اچھی اورخوش کن بات بھی پڑھ لیں :

’’دور حاضر کو نعت کا دور کہا جاتا ہے ۔نعت نے اس دور میں جو وسعت حاصل کی ہے وہ یقیناًقابل قدر ہے ویسے ہر دور نعت ہی کا دور رہا ہے نعت تو ایسی بہار ہے جو بے خزاں ہے۔ایک ایسا نغمہ ہے جو فصل بہار کا محتاج نہیں۔بلکہ لالہ و گل ،رعنائیوں کی بھیک اس سے مانگتے ہیں حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کا ذکر تو بلند و بالا تھا،ہے اور رہے گا اگر یوں کہا جائے تو شاید بہتر ہو کہ ہمارے دور نے اپنے تشخص کو پالیا ہے اور بھٹکتی ہوئی انسانیت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ وہی ایک در ہے جہاں تمناؤں کے اضطراب کو آسودگی نصیب ہوتی ہے یہی ایک دیوار ہے جو آبلہ پاؤں کا واحد سہارا ہے اور وہی ایک راستہ ہے جہاں شوق ہی رہرو،شوق ہی رہبر اور شوق ہی منزل ہو تاہے ۔آج کے قلم اگر نعت سراہیں تو اسی احساس کی شدت کا نتیجہ ہے۔اس دور نے اگر آفتاب کو پہچان لیا تو احسان آفتاب پر ہر گز نہیں ہے یہ تو ثبوت ہے اس بات کا کہ دیکھنے والے کی نگاہ سالم اور سمت درست ہے اور یہ بھی محبوب کی عطا ہے محب کا فخر نہیں‘‘۔(64)

ان نعت ناموں میں مکتوب نگاروں نے نقدِ نعت ،آدابِ نعت ،مشکلاتِ نعت، فیضِ نعت اورنظریۂ نعت کے متعلق اپنے خیالات ،احساسات اور جذبات کو کس طرح بیان کیا ہے ذرا دیکھیے:

ڈاکٹر اشفاق انجم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت، نہایت مقدس و محترم صنف سخن ہے لہٰذا اس کی تقدیس و طہارت کا تقاضا ہے کہ مضامین و افکار بھی ایسی ہی صفات کے حامل ہوں ۔ ان کے اظہار کا ذریعہ زبان ہے تو اس کا بھی صحیح اور پاکیزہ و شستہ ہونا لازمی ہے۔ اس لیے الفاظ کا انتخاب انتہائی غو ر و فکر اور احتیاط کا طالب ہے ۔ اگر ایک بھی نامناسب لفظ در آیا تو وہ ساری شعری فضا کو مکدر کردیتا ہے۔ زبان کے ساتھ فنِ شاعری اور عروض کا علم بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ یہی شاعری کی اساس ہیں۔مضمون کتنا ہی اعلیٰ ہو، زبان کتنی ہی عمدہ ہو، بیان لاکھ خوب صورت سہی لیکن اگر شعر میں فنی عیب یا عروض کی خامی موجود ہو تو وہ ایک زنگ آلود آئینے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔

نعت گوئی کے لیے ان خصوصیات کے علاوہ حقیقت و صداقت کیساتھ سنّت و شریعت ، سیرتِ پاک، قرآن و حدیث کا قابل قدر علم اور اس کی پاسداری بھی لازم ہے‘‘۔(65)

’’سیّد صاحب !

میں نے ’’نعت رنگ‘‘ ۲۲ کی مشمولات میں جو کچھ بھی پایا محسوس کیا، اسے بلامبالغہ بیان کردیا میرا مقصد کسی کی تنقیص و تضحیک ہرگز نہیں ہے۔ معاملہ چوں کہ نعت اور حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کا ہے اس لیے ضروری خیال کیا کہ جو عیوب و نقائص نظر آئے ان کی نشان دہی کردوں، ممکن ہے مجھے بھی کہیں شعر فہمی میں غلطی ہوگئی ہو اس لیے قارئین ’’نعت رنگ‘‘ سے رہنمائی کا خواہش مند ہوں‘‘۔(66)

پروفیسر محمد اقبال جاوید[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت گوئی اگر تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے تو نعت گوئی پر تنقید کہیں دشوار تر ہے۔ یوں ہی قلم کی شطرنج بچھانے کا فائدہ، اسی لیے مزاج کو تنقیدی نہیں، تحسینی بنا لیا ہے۔ میں نے گزشتہ دنوں اپنے ایک محترم نعت گو دوست کو عرض کیا کہ گاہے گاہے غزل کہہ لیا کرے کہ غزل سے اسلوب وادا کو رنگ ڈھنگ اور آہنگ ملتا ہے اور یہی آہنگ، نعت کے فکری گداز کو ’’تیرنیم کش‘‘ بنا یاجائے گا۔ جسے حافظ لدھیانوی نے بات کرنے کی ادا کہا ہے وہ ادا غزل سے ملتی ہے(67)

امین راحت چغتائی:(68)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’میں تو ان [ڈاکٹر سیدمحمد ابوالخیر کشفی]کے پہلے ہی جملے’’جب بھی شاعرمحدود سے لامحدود کی طرف سفر کرتا ہے تو وہ حمدونعت کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘پر جھوم جھوم گیا۔(69)

ڈاکٹر انور مینائی:(70)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مصداق ہے۔ شاعر رسولصلی اللہ وعلیہ وسلم، دربان رسولصلی اللہ وعلیہ وسلم اور خادم رسولصلی اللہ وعلیہ وسلم ہونے کے دعووں کے بجائے شاعر کو چاہیے کہ حفظ مراتب کو ملحوظ رکھے اور خاکساری کا پہلو اختیار کرے‘‘۔(71)

ڈاکٹر تحسین فراقی:(72)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’دراصل بات یہ ہے کہ بڑی شاعری کی طرح بڑی مذہبی شاعری بھی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خبر نظر کا، علم عین کا اور گوش آ غوش کا روپ نہ دھار لے۔ ہمارے نقادوں کے صنفِ نعت سے اعراض کا ایک سبب شاید یہ بھی رہا ہو کہ اس کا بڑا حصہ محض رسمی اور رواجی رہا ہے اور جذباتِ عشق، محض بیان کی حد تک مطلوب رہے ہیں بالعموم عشقِ سرورِ کونینصلی اللہ وعلیہ وسلم شاعر کے لیے Living Presence نہیں بن سکا‘‘۔(73)

پروفیسر جگن ناتھ آزاد:(74)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’علامہ اقبال کی نظم’’ذوق وشوق‘‘ کا ذکر دیکھا میں بھی اسے نعت ہی کہتا ہوں حمد نہیں کہتا۔ پروفیسر عبدالمغنی کے ساتھ اس موضوع پر دو ایک بار گفتگو بھی ہوچکی ہے۔ لیکن وہ بضد ہیں اور مصر بھی کہ یہ نعت نہیں حمد ہے‘‘۔(75)

شاہ رشاد عثمانی:(76)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ آپ نے مطالعۂ نعت کی ایک نئی طرح ڈالی ہے جو بے حد مفید و مستحسن ہے مگر اسے تنقید نعت کے بجائے نعت کا شرعی محاسبہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ آج اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ اردو نعت کا مطالعہ اسلامی فکر اور شریعت محمدی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی روشنی میں کیا جائے اس لیے کہ نعت گوئی ایک مشکل اور نازک فن ہے، ذرا سی لغزش شاعر کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے، عقیدہ و ایمان اور عشق و محبت کی ہم آہنگی اور خلوص وابستگی کے بغیر کوئی شاعر نعت کا ایک شعر نہیں کہہ سکتا اور نہ اس کے کلام میں تاثیر ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ عرفی جیسا خودپسند اور متکبر شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اُٹھتا ہے، اس کے نزدیک نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے:

عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا است

آہستہ کہ رہ بردم تیغ است قدم را (77)

اردو نعت عصری آگہی، ملّی شعور اور اجتماعی درد کا مرقع ہے۔ خصوصاً عصرحاضر میں ملت اسلامیہ پر مصائب و آزمائش کا طوفان ٹوٹ پڑا ہے، اس کی بھرپور عکاسی نعتیہ شاعری میں بھی ہوتی ہے‘‘۔(77)

ریاض حسین چودھری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’یہ اکیس ویں صدی کی پہلی دہائی ہے۔ نقد و نظر کے پیمانے بھی تبدیل ہورہے ہیں، شہرِ ادب میں تازہ کاری کی مسلسل بارشوں سے فرسودگی اور بوسیدگی کا زنگ بھی اُتررہا ہے۔ آج کی نعت اعلیٰ حضرت کے زمانے کی نعت سے بہت مختلف ہے۔ نعت کی کائنات بھی ہر آن پھیلتی جارہی ہے۔ اگرچہ نعت گو کا اساسی رویہ وہی رہے گا جس سے ایوانِ نعت روزِ ازل سے گونج رہا ہے۔ لیکن سوچ اور اظہار کے ارتقائی سفر کے مختلف مراحل پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا، ہر زمانے کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، اس کا ڈکشن بھی بڑی حد تک بدل جاتا ہے۔ آج کے نقاد کو بھی اَن گنت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اب ادبی منظرنامہ نئے رنگوں کی رنگ آمیزی سے بڑی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔ نعت وہ واحد صنفِ سخن ہے جس نے تمام اصنافِ سخن میں اپنے وجود کو منوایا ہے حتیٰ کہ نثر میں بھی نعت کے خوب صورت نمونے مل جاتے ہیں‘‘۔(79)

نعتِ حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کی ایک دستاویز ہے جو انفرادی اور اجتماعی رویوں کی آئینہ بردار ہے۔(80)

غیرمشروط اور غیرمتزلزل کومٹ منٹ کا پہلا صلہ یہ عطا ہوتا ہے کہ تخلیقی سطح پر سوچ اور اظہار کے مقفل دروازے خودبخود کھلنے لگتے ہیں۔ تخیل کے پرندوں کو تازہ ہواؤں سے دائمی وابستگی کا ادراک ملتا ہے اور لفظ و معانی کی فضائے بسیط میں اونچی پرواز کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ نے اپنے جس تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس کے نقوشِ پا اتنے تابندہ اور روشن ہیں کہ بہت سے دوسرے اربابِ وفا پر بھی سفر کے مراحل آسان ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ثنائے حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کی خنک ہواؤں کے قافلے کے رواں دواں رہنے کا چرچا خوش بوئیں ہی نہیں، دھنک کے رنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ نمبر۲۲ پھولوں کی اپنی خوش بوؤں، دھنک کے انھی رنگوں اور آفتابِ ادب کی اسی روشنی کا عکسِ جمیل نظر آتا ہے۔(81)

’’ثنائے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم‘‘ کے ضمن میں میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ شہر غزل، نعت گو کی تربیت گاہ ہے۔ رموزِشعر سے آشنائی ضروری ہے۔ نعت گو کو شعر کی باریکیوں، نزاکتوں اور لطافتوں سے آگاہ ہونا چاہیے جمالیاتی قدروں کی پاسداری کا اہل ہو تو اسے اقلیم نعت میں داخلے کی اجازت ملنی چاہیے، آنسوؤں سے وضو کرنے کا سلیقہ جانتا ہو تو قلم اٹھائے۔ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ وعلیہ وسلم میں ہد یہ نعت پیش کیا جائے تو نعت فنی حوالے سے بھی اعتبارو اعتماد کے معیارات پر پورا اُترتی ہو۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا

یہاں تو ذرا سی بھی لغزش یا شوخی سوئے ادب میں شمار ہوگی اس لیے احتیاط اور ادب پہلی شرط ہے‘‘۔(82)

سعید بدر:(83)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ اس طرح آج کل کے نقاد حضرات، تنقید کے شوقِ فراواں کے ضبط میں مبتلا ہوکر ایسی ایسی بے پر کی ہانک جاتے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ مثال کے طورپر ’’حسنِ ازل‘‘ کی ترکیب سے ’’محبوبِ حقیقی‘’ مراد لے لیا ہے۔ حالاں کہ اصل ترکیب ’’حسنِ ازل کی نمود‘‘ ہے۔ جوش استدلالیت میں ڈاکٹر موصوف نے ’’نمود‘‘ کو نظرانداز کردیا ہے جس سے دراصل معانی واضح ہوجاتے ہیں‘‘۔(84)

حکیم محمد سعید:(85)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعتیہ شاعری دراصل پل صراط پر چلنے سے بھی مشکل کام ہے کیوں کہ یہاں معمولی سی بے احتیاطی بھی دین ودنیا میں خسارہ کا سبب بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے میدان نعت گوئی کو ایک ایسی ’’ادب گاہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو عرش سے بھی ’’نازک تر‘‘ ہے اور جہاں ’’جنیدوبایزید‘‘ جیسے صاحبان بصیرت بزرگوں کے بھی ہوش گم ہوجاتے ہیں‘‘۔(86)

سلطان جمیل نسیم:(87)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’مولانا الطاف حسین حالی نے شاعروں، خصوصاً غزل گو شاعروں کے لیے جو پندنامہ لکھا ہے یعنی مقدمۂ شعر و شاعری... اس میں غزل اور مضامین غزل کے بارے میں جو اندازِ نقد اختیار کیا گیا ہے اس معیار پر خود مولانا حالی کی غزل پوری نہیں اُترتی۔ مقدمۂ شعرو شاعری کی اہمیت اور قدر و قیمت اپنی جگہ لیکن جذبات و خیالات کا بہاؤ اور تخلیقی جذبہ... تنقید کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لیکن اس کے باوجود تنقید ہی تربیت کا باعث ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ابوالخیرکشفی صاحب نے نعت کے موضوعات پر ایک بصیرت افروز مضمون تحریر فرمایا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے تو میں بالکل ہی متفق ہوں کہ دوسروں سے الگ اپنی راہ تراشنے کے شوق میں، جدت کے گرداب میں بہت سے شاعر پھنس جاتے ہیں۔ یوں وہ زبان سے غفلت برتتے ہیں اور نئے موضوعات تک رسائی حاصل کرنے کی جگہ اپنے اسلوب کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔(88)

پھر ایسے شاعروں کو جو اپنی راہ تراشنے کے شوق میں جدت کے گرداب میں پھنس جاتے ہوں..... زبان سے غفلت برتتے ہوں اور اپنے اسلوب کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہوں، ہمارے کشفی صاحب کا مشورہ یہ ہے کہ وہ مطالعۂ حدیث اور مشاہدۂ کائنات کے ذریعہ ہی رسول اکرمصلی اللہ وعلیہ وسلم کی حقیقی عظمت کی بارگاہ میں بار پاسکتے ہیں..... بھائی! ہمارا شاعر تو رسالے کا بھی وہی صفحہ پڑھتا ہے جس پر اس کاکلام بلاغت نظام شائع ہوا ہو...... اور جو شاعر ’’پڑھے لکھے‘‘ ہونے کے دعویدار ہیں وہ مشاہدۂ کائنات اور مطالعۂ قرآن و حدیث کے بجائے دیگر فلسفیوں کی کتاب پڑھتے ہیں۔ نعت صرف ضرورتاً کہتے ہیں یعنی ریڈیو، ٹی وی کے مشاعروں کے لیے۔(89)

اردو میں جب سے شعروادب لکھا جارہا ہے اس وقت سے حمد و نعت بھی کہی جارہی ہے لیکن برکت و تبرک کے لیے.....اس جذبے سے بلند ہوکر جن شعرائے کرام نے نعت کو ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے اپنایا ان میں حضرت محسن کاکوروی، امیر مینائی، احمد رضاخان بریلوی کے نام خصوصیت سے لیے جاسکتے ہیں۔ اب رہی بات علامہ اقبال کی ..... انھوں نے واقعی حمد اور نعت کو ایک نیا رخ دیا ہے اور کشفی صاحب کے مطالبہ پر پوری اترتی ہے...... یعنی اقبال کے یہاں قرآن و حدیث کا مطالعہ اور کائنات کا مشاہدہ نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑوں سے نسبت ہی بڑا بناتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری اسی وجہ سے سے بلند تر ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے اکتساب نور کرتے ہیں۔ اب رہی مولانا الطاف حسین حالیؔ کی نظم’’مدّو جزر اسلام‘‘ تو اس کے ادبی محاسن اپنی جگہ لیکن برادرِ محترم جمال پانی پتی صاحب نے نہایت پتے کی بات کہی ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’انھوں نے (مولانا حالیؔ نے) اس بات پر غور نہیں کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کی بے مثل بشریت اور عبدیت کاملہ کو ہم جیسے عام انسانوں کی سطح کے برابر لانے سے نعت گوئی کا حق تو رہا درکنار، خود ایمان کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘‘(90)

ہمارے بزرگ جو کچھ لکھ گئے ہیں ہم اس سے ہدایت بھی حاصل کرسکتے ہیں اور عبرت بھی بشرطیکہ دیدۂ بینا رکھتے ہوں...... آپ شاید میرے اس مشورے پر ہنس دیں لیکن میں اپنے نوجوان اور جدید شعراء کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ جس طرح دنیا کا کوئی بھی فن...... گانے بجانے سے لے کر.....کرکٹ، فٹبال اور شاعری تک بغیر سیکھے نہیں آتا...... اس لیے وہ جس شعبے سے بھی متعلق ہوں اس کے بارے میں پرانی سے پرانی اور نئی سے نئی ہر اہم بات ضرور سیکھیں اور معلوم کریں...... خاص طور سے نئے شاعروں کو یہ چاہیے کہ وہ مطالعہ اور مشاہدے کے ساتھ ساتھ جو ائمہ فن آج موجود ہیں ان سے بھی رہنمائی حاصل کریں۔ اس لیے کہ شاعری میں مشکل ترین صنف نعت ہے...... ذرا سے ڈگمگائے اور گئے۔(91)

نعت شاعری کا وہ رُخ ہے جس میں غزل یا نظم کی طرح موضوعات کے تنوع کی گنجائش نہیں ہے اور شاعر کو جولانئ طبع کے اظہار کا موقع کم سے کم تر ملتا ہے۔ اس لیے کہ ایک مخصوص موضوع کا پابند رہتے ہوئے، احترام و عقیدت کا اظہار ایک نہایت ہی مشکل ترین مرحلہ ہے۔ محض اسلوب اور اندازِ بیان کے نت نئے تجربات کے سہارے نعت گوئی میں جتنی گنجائش تھی وہ اساتذۂ فن نے پوری طرح برت لی ہے‘‘۔(92)

سلیم یزدانی:(93)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ہر شعر کہنے والا نعت نہیں کہہ سکتا ہے۔ اس کے لیے شعری سلیقہ، رسول اللہصلی اللہ وعلیہ وسلم سے عشق، رسالت کے تقدس سے آگہی، مقامِ رسالت کا شعور اور لفظوں کو موتیوں کی طرح شعری مالا کا روپ دینا آنا ضروری ہے کہ کوئی لفظ مقامِ رسالت کے منافی نہ ہو اور کوئی شعر تقدسِ رسالت کے خلاف نہ ہو اور یہ سب اُس وقت آتا ہے جب وہ ایک تہذیبی روایت، ماحول فضاے ربانی سے گزر رہا ہو جس کی برتر مثال حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کے دور کی مدنی زندگی ہے کہ حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کا ہر صحابی حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کے عشق سے سرشار نظر آتا ہے۔(94)

شعر فہمی کا تعلق براہِ راست شعری حسیت سے ہوتا ہے اور یہ ہر سخن فہم کی الگ ہوتی ہے، کم تر سطح سے کچھ اور نظر آتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ قطرے میں قطرہ بھی نظر نہیں آتا، لیکن شعری حساسیت کا ایک وہ مقام ہے کہ قطرہ گہر نظر آنے لگتا ہے یا پھر قطرے میں سمندر موجیں مارتا نظر آتا ہے(95)

جس ذاتِ گرامی کی تشریف آوری مومنوں کے لیے نعمت ہے، جس کی نبوت انسانوں کے لیے نعمت ہے، اُس کا ذکر بھی نعمت ہے اور نعمت کے اعتراف کی ایک شکل ہے واما بنعمت ربک فحدث۔( سورۃ الضحیٰ) اور ذکرِ رسالت مآبصلی اللہ وعلیہ وسلم کی عظمت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اس سورہ سے سورۃ الناس یعنی اختتامِ قرآن تک سورۃ کی تلاوت کے ساتھ تکبیر کہنا سنت ہے۔ حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ کے اعترافِ کبریائی کی ایک صورت ہے‘‘۔(96)

سمعیہ ناز اقبال:(97)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر ریاض مجید کے نزدیک نعت کا تصور اور اس کی تشکیل کیا ہے؟ ان کا کہنا ہے:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے عشق و عقیدت اور محبت کو نعت کے لوازمات میں اساس اور بنیاد کا درجہ حاصل ہے۔ نعت گو شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ سے والہانہ عقیدت و شیفتگی رکھتا ہو۔ وہ جس قدر آپ کے عشق میں سر شار ہوگا اسی قدر اس کے کلام میں کیف اور اثر پیدا ہو گا۔حفیظ جالندھری نے دین حق کے لیے حضور کی غلامی کو شرطِ اوّل قرار دیاہے محمدصلی اللہ وعلیہ وسلمکی غلامی دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے۔اسی طرح تخلیق نعت کے لیے آپ کی محبت کو ایک لازمہ کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک شاعر نظمیں اور غزلیں تو لکھ سکتا ہے لیکن اس کے دل میں محبت رسول کی چمک موجودنہ ہو تو اچھی اور کیفیت انگیز نعت کبھی نہیں لکھ سکتا۔ اس میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے دل میں محبت رسول کی باضابطہ پرورش کی ہے۔ اپنی فکرو نظر کی تربیت کی ہے اور قلب و روح کو احتیاط و احترام کا خو گر بنایا ہے ورنہ جذبات ہمیشہ دامن احتیاط چھوڑ کر اِدھر اُدھرنکل جانے کے عادی ہیں‘‘۔(98)

شان الحق حقی:(99)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ حُبّ رسول مسلمان کا جزو ایمان ہے، اور اس کا اظہار بصورت نعت ایک فطری اور اندرونی تقاضا ہے۔ چناں چہ کوئی بیرونی تحریک یا تقریب بھی تخلیقی ذہن کو اس طرف بآسانی مائل کر سکتی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اب وہ جوش و جذبہ جسے بڑی طاقتیں اپنے مفید مطلب سمجھتی تھیں اور اسے ہوا دینے پر مائل تھیں، انھیں کھٹکنے لگا ہے۔ اب وہ اسے تقویت دینے کی جگہ اسے دبانے پر مائل ہیں۔ مگر بقول مولانا ظفر علی خاں:

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

مذکورہ تاریخی پس منظر سے قطع نظر، ثنائے رسول بھی صلوٰۃ و سلام کی طرح، ہمارا محبوب مشغلہ، بلکہ فریضہ اورایک مبارک ادبی روایت ہے‘‘۔(100)

پروفیسر سید شفقت حسین رضوی:(101)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’میرے خیال میں نعت میں جو سراپا نگاری کی جاتی ہے وہ ذات گرامی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی محض مجاز کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ تخاطب کے لیے ’’تو‘‘ اور ’’تیرا‘‘ کی ضمیریں میرے دل میں چبھتی ہیں۔(102)

اردو میں نعت گوئی چار نوع کی ہے۔

۱۔ وہ نعت جو جذبۂ صادق اور خلوص بے پایاں کے ساتھ لکھی گئی ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ قاری اور نعت خواں پر پڑھنے کے دوران ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

۲۔ کمالِ فن کے اظہار کے لیے لکھی گئی نعت، اس کا اثر دل پر کم ہوتا ہے۔ البتہ دماغ غور و فکر پر مائل ہوتا ہے۔ اس کی داد دی جاتی ہے اس سے کیف طاری نہیں ہوتا۔

۳۔ روایت کی پاسداری میں کہی جانے والی نعت۔

۴۔ بس یوں ہی کہی ہوئی نعت! جب سب کہتے ہیں تو ہم کیوں نہ کہیں، کے جذبے سے وجود میں آنے والی نعت۔ ذرا سی توجہ سے ہر نعت کو ان میں سے کسی قسم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں (۱) اور (۲) کے امتزاج سے جو نعت وجود میں آتی ہے وہ ہر اعتبار سے کامیاب ہوتی ہے‘‘۔(103)

شوکت عابد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ نعت کی تنقید ..... بھائی کانٹوں پر تیز رفتاری سے چل کر بچ نکلنا آسان کام نہیں۔ یہ کام کشفی ؔ صاحب جیسا کشف و کرامات والا آدمی ہی کرسکتا ہے‘‘۔(104)

شہزاد منظر:(105)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ نعت گوئی کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اگر یہ صدق جذبے سے کی جائے تو اس میں بڑا اثر ہوتا ہے، لیکن اگر اسے فیشن اور تقلید کے طورپر اختیار کیا گیا تو اس میں وہ تاثر اور والہانہ پن پیدا نہیں ہوتا جس کے بغیر نعت، نعت نہیں ہوتی‘‘۔(106)

محمد فیروز شاہ:(107)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ نعت درحبیبصلی اللہ وعلیہ وسلم پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے۔(108)

سیرتِ سرکارصلی اللہ وعلیہ وسلم پر تو لکھنا بھی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ہے، ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتا... یہ بڑے نصیب کی بات ہے... وہاں سے اِذن نہ ملے تو قلم لکھ نہیں سکتا، ذہن سوچ نہیں سکتا، لفظ بول نہیں سکتا، حرف وجود نہیں پاتا اور جذبہ بے نمو درہتا ہے۔ یہاں تو آرزو کو بھی باوضو ہونا پڑتا ہے۔ تب تحریر میں تاثیر کی خوش بو نکھرتی ہے جو دلوں کو اپنی جاگیر بناتی چلی جاتی ہے اور لاریب دل سے بڑی جائیداد اور کوئی نہیں...(109)

عشق تذکرۂ جمالِ یار سے سرشار ہوتاہے اور عشق ہی عمل کی واحد کلید ہے۔ یوں نہ ہوتا تو دانائے راز ’’عشق پر اعمال کی بنیاد‘‘ رکھنے کی تلقین نہ کرتے۔ کامرانیوں کی تاریخ میں فقط اہلِ عشق ہی کی جولانیوں کی سچی کہانیاں رقم ہیں۔ سو میں سمجھتا ہوں کردار و عمل کی استواری اور پائیداری عشق کی کامگاری اور سرشاری کے بغیر ممکن ہی نہیں اور عشق حسنِ صورت سے وابستہ ہوکر حسنِ سیرت پر فدا ہوتا ہے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ سرکارصلی اللہ وعلیہ وسلم کے سراپا مبارک کا بیان اور سیرتِ طیبہ کی تحسین و تکریم دونوں اطاعت رسولصلی اللہ وعلیہ وسلم اور نعت گوئی کے لیے ضروری ہیں۔ دراصل نعت گوئی درِ حبیبصلی اللہ وعلیہ وسلم پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے!‘‘(110)

مولانا مبارک حسین مصباحی:(111)

’’اردو شاعری کی حیات و ترنگ کے لیے نعتیہ شاعری نے آبِ حیات کا کام کیا۔ اے کاش اردو ناقدین اسے محسوس کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی فکر و ہمت کو مزید

استحکام عطا فرمائے۔ آمین‘‘(112)

محمد علی صدیقی شیداؔ بستوی:(113)

’’اور نعت محض چند رسمی عقائد تک محدود نہ رہے‘‘ کھٹکتی ہے کیوں کہ ’’نعت‘‘ تو اظہار عقیدے ہی کا نام ہے اس میں رسمی اور غیررسمی کی کوئی تفریق نہ ہونی چاہیے‘‘۔(114)

ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط:(115)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’ محمدعبدالحکیم شرف قادری صاحب نے یہ اشکال کیا ہے کہ... ’’حمدوثنا دونوں کا معنی تعریف ہے۔ نبی اکرمصلی اللہ وعلیہ وسلم کی ثناہوسکتی ہے تو حمد کیوں نہیں ہوسکتی۔اسی قسم کا اعتراض بہت پہلے مولاناکوکب نورانی صاحب نے بھی شمارہ نمبر۶ میں اُٹھایا تھا۔ ان دونوں حضرات سے گزارش ہے کہ نعت کی جگہ لفظ ’’منقبت‘‘ کا استعمال جیسا مناسب محسوس نہیں ہوتا اور ’’حمدکبریا‘‘ کو کبھی ہم ’’نعت کبریا‘‘ نہیں کہتے کیوں کہ اصطلاحاً نعت حضورصلی اللہ وعلیہ وسلم کی تعریف ہے اور حمد اللہ رب العزت کے لیے مستعمل ہے۔ اس مروّجہ اصطلاح کی استعمال کی جگہ تبدیل کردی جائے تو معنی میں اشتباہ پیدا ہوجائے گا۔ اس حقیقت سے یہ دونوں صاحبان واقف ہیں۔ لیکن ان کا اس پر بہ ضد ہونا ان کی ہٹ دھرمی ہے۔ ادبی اور شرعی نقطۂ نظر سے میں سمجھتا ہوں یہ رویہ مناسب نہیں۔(116) آخر میں اس تنقیدی ،تحقیقی ،تاثراتی ،عروضی،لفظی،اصلاحی، تعریفی،ادبی شہ پارے اور مراسلۂ محبت و عقیدت ’’نعت نامے ‘‘کی اہمیت و افادیت پر محترم ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی رائے پڑھ کر اس مکاتیب کے دفتر کو بند کیجیے۔

’’ انھوں نے مکاتیب کواب موضوعاتی مطالعے کے ایک ماخذکے طور پر بھی یکجا کردیاہے۔مشاہیر کے مکاتیب کے مجموعے یا انتخابات تو بکثرت شائع ہوتے اور زیرِ مطالعہ آتے رہے ہیں لیکن موضوعاتی مکاتیب یا مکاتیب کو موضوعات کے تحت یکجا کرنے اور انھیں بطور ماخذ استعمال کرنے کا خیال ہماری اس روایت میں یکسر انوکھا اور اسی اعتبار سے مفید بھی ہے۔ اب نعت کا اور اس کے فن و رجحانات کا مطالعہ ان مکاتیب کی روشنی میں بھی کیا جاسکتاہے،جو اس مجموعے میں شامل ہیں‘‘۔(117)

چلتے چلتے دو شعر آپ کے شعری ذوق کی نذر جو ان مکتوب نگاروں نے اپنے مکاتیب کی زینت بنائے ہیں:

بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر

ایک گھر ہم نے مدینے میں بنا رکھا ہے (118)

۔۔۔

ثنا تیری بیاں کیا ہو، صفت تری رقم کیا ہو؟

نہ اس قابل زباں نکلی نہ اس لائق قلم نکلا(119)

)(

حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نوٹ:حواشی میں شامل تمام تعارفی نوٹ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی ‘‘سے ماخوذ ہیں۔

۱۔ بصیر۔نسرین ممتاز،ڈاکٹر ’’خط کا مفہوم،تعریف اوراردو مکتوب نگاری کی روایت‘‘،مشمولہ : ’ ’ تحقیق ‘‘ (ششماہی)، مکتوبات نمبر(۱)،شعبہ اردو،سندھ یونیورسٹی،جام شورو،۲۰۱۲ء۔ص۷

۲۔ مرتب،ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، نعت ریسرچ سینٹر، کراچی ،بار اوّل ،جولائی ۲۰۱۴،۲۰۱۴ء

ؔ۳۔ وفا راشدی(۱۹۲۶۔۲۰۰۳ء)،اصل نام: عبدالستار خان، ممتاز دانشور، محقق، مورخ، ادیب، شاعر، مترجم،سینےئر اسکالر : انجمن ترقی اردو پاکستان، معتمد اعزازی: دائرہ علم و ادب پاکستان (کراچی)، کتب: ’’بنگال میں اردو‘‘، ’’سنہرا دیس‘‘، ’’پیامِ نو‘‘،’’مہران نقش‘‘، ’’جہان رنگ و بو‘‘، ’’کیف و عرفان‘‘، ’’کیفیات غالب‘‘، ’’حیات وحشتؔ ‘‘، ’’خالد: ایک نیا آہنگ‘‘، ’’سحرِ حلال‘‘، ’’آہنگِ ظفر‘‘، ’’اردوکی ترقی میں اولیائے سندھ کا حصہ‘‘ (پی ایچ۔ڈی کا مقالہ)، ’’کلکتہ کی ادبی داستانیں‘‘، ’’تذکرہ علمائے سندھ‘‘، ’’میرے بزرگ میرے ہم عصر‘‘ (خاکے)، ’’داستان وفا‘‘ (خود نوشت)۔ ص۸۹۰

۴۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۸۸۹

۵۔ مشفق خواجہ (۱۹۳۵ء۔۲۰۰۵ء)، نام خواجہ عبدالحئی، تخلص مشفقؔ ، محقق، نقاد، ادیب، شاعر، کالم نگار، سابق مدیر: سہ ماہی ’’اردو‘‘ و ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ و ’’تخلیقی ادب‘‘(کراچی)، ۱۹۵۷ء تا ۱۹۷۳ء انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔ کتب: ’’تذکرۂ خوش معرکہ زیبا‘‘،(ترتیب و تدوین)، ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطات اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘ (ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘ (شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘ (ترتیب و تدوین)۔۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۶ء، تک مختلف موضوعات پرکم وبیش پانچ سو فیچر لکھے۔۱۹۹۸ء میں حکومت پاکستان نے علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ ص۸۰۴

۶۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۸۰۲

۷۔ پروفیسر ڈاکٹر یونس اگاسکر(پ: ۱۹۴۵ء)، مصنف، محقق، نقاد، مدیر: ’’ترسیل‘‘ ممبئی، سابق صدر: شعبۂ اردو و گرودیو، ممبئی یونیورسٹی، کتب: ’’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘‘ (پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ)، ’’تلاشِ فن‘‘،’’فکرو فن اور فکشن‘‘، ’’مراٹھی ادب کا مطالعہ‘‘، ’’Arabic for everyday use‘‘۔ ص۹۲۳

۸۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۹۲۲

۹۔ڈاکٹر عزیزؔ احسن (پ:۱۹۴۷ء)،اصل نام :عبدالعزیز خان ولد عبدالحمید خان، شاعر، ادیب، محقق، نقاد، کتب: اردو نعت اور جدید اسالیب (۱۹۹۸ء)، تیرے ہی خواب میں رہنا (۲۰۰۰ء)، نعت کی تخلیقی سچائیاں (۲۰۰۳ء)، کرم و نجات کا سلسلہ (۲۰۰۵ء)، ہنر نازک ہے (۲۰۰۷ء)، شہپرِ توفیق (۲۰۰۹ء)، نعت کے تنقیدی آفاق (۲۰۱۰ء)، رموزِ بے خودی کا فنی و فکری جائزہ (۲۰۱۱ء)، امیدِ طیبہ رسی (۲۰۱۲ء)۔ ص۶۸۵

۱۰۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۳۰

۱۱۔ شاہ مصباح الدین شکیل (پ: ۱۹۳۱ء) مصنف، محقق، مورخ، سیرت نگار، کتب: ’’سیرت احمد مجتبیٰ‘‘ (صدارتی ایوارڈ یافتہ)، ’’نشاناتِ ارضِ قرآن‘‘، ’’نشاناتِ ارضِ نبوی‘‘، ’’معراج النبی‘‘، ’’آخری آسمانی کتاب‘‘، ’’مسجد نبوی کا تاریخی جائزہ‘‘، ’’بسم اللہ کی تفسیر و تشریح‘‘، ’’حضرت امیر حمزہ‘‘، ’’سیرت النبی البم‘‘۔ ص۸۰۶

۱۲۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۸۱۱

۱۳۔ ڈاکٹرریاض مجید (۱۹۴۲ء)، نام: ریاض الحق، تخلص ریاض، پروفیسر گورنمنٹ کالج فیصل آباد، تصانیف: ’’اردو میں نعت گوئی‘‘ (پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ) ’’پس منظر‘‘، ’’گزرتے وقتوں کی عبادت‘‘، ’’نئی آوازیں‘‘ (مرتب)، رفحان میں ایک شام‘‘(مرتب)، ’’انتخاب روشنی‘‘(مرتب)، ’’خاک‘‘، ’’حی علی الثناء‘‘ (پنجابی زبان میں نعتیں)، ’’اللھم صل علی محمد‘‘ (نعت و منقبت)، ’’سیدنا محمد‘‘ (نعت)، ’’اللھم بارک علیٰ محمد‘‘، (نعت)۔ اعزاز: ’’حی علی الثناء‘‘ کو ۱۹۹۱ء میں اور ’’اللھم صل علی محمد‘‘ کو ۱۹۹۴ء میں صدارتی سیرت ایوارڈ دیا گیا۔ ص ۸۲۶

۱۴۔ مجید ،ریاض ، ڈاکٹر، ’’نعت نامے :بنام صبیح رحمانی‘‘،مشمولہ:نعت نامے بنام صبیح رحمانی ‘‘ ،محولہ بالا،ص۲۱

۱۵۔ شفیق ، محمد سہیل،ڈاکٹر،’’معروضات‘‘، مشمولہ:نعت نامے بنام صبیح رحمانی ‘‘ ،محولہ بالا،ص ۳۱

۱۶۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل (پ: ۱۹۴۶ء)، محقق، مورخ، نقاد، پروفیسر و صدر، شعبہ اردو، کراچی یونیورسٹی، ڈین فیکلٹی اوف لینگویجزاینڈ لٹریچر، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد؛ پروفیسر و صدر: شعبۂ اردو، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد۔چند کتب کے نام:’’تحریک آزادی میں اردو کا حصہ‘‘ (پی ایچ۔ڈی کا مقالہ)، ’’نوادراتِ ادب‘‘، ’’پاکستانی غزل: تشکیلی دور کے رویے اور رجحانات‘‘، ’’امیر خسرو فرد اور تاریخ‘‘، ’’پاکستان میں اردو ادب: محرکات و رجحانات کا تشکیلی جائزہ‘‘، ’’تحریک پاکستان کا تعلیمی پس منظر‘‘، ’’تحریک آزادی اور مملکت حیدرآباد‘‘، ’’اقبال اور جدید دنیائے اسلام: مسائل، افکار اور تحریکات‘‘، ’’اخلاقی تعلیم‘‘، ’’دکن اور ایران: سلطنت بہمنیہ اور ایران کے علمی و تمدنی روابط‘‘، ’’مسلمانوں کی جدوجہد آزادی: مسائل، افکار اور تحریک‘‘، ’’تحریک پاکستان اور مولانا مودودی‘‘، ’’پاکستان میں اردو تحقیق۔ موضوعات اور معیار‘‘۔ حال ہی میں علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں شہنشاہِ جاپان کی جانب سے آپ کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ORDER OF THE RISING SUN دیا گیا ہے۔ ص۸۲۳۔۸۲۴

۱۷۔ عقیل ، معین الدین،ڈاکٹر،’’پس ورق تبصرہ ‘‘،مشمولہ:نعت نامے بنام صبیح رحمانی ‘‘ ، محولہ بالا ، ۲۱۰۴ء

۱۸۔حنیفؔ اسعدی (۱۹۱۹۔۲۰۰۵ء)، شاعر وادیب، نعت گو، نعتیہ مجموعہ: ’’ذکر خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ’’آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم‘‘۔آپ کے والد اسعدؔ شاہجہانپوری بھی معروف شاعر تھے۔ص۲۹۱

۱۹۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۲۹۰

۲۰۔سید شفقت حسین رضوی (۱۹۲۷۔۲۰۱۰ء)، ادیب، محقق،نقاد، افسانہ نگار،استاد: نیشنل کالج کراچی، کتب: ’’اردو کے یورپین شعراء‘‘، ’’بندے اور ان کی تاریخ‘‘، ’’سراج اورنگ آبادی (شخصیت و فن)‘‘، ’’مولانا حسرت موہانی‘‘، ’’دیوان مہ لقا بائی چندا‘‘، ’’حسرت موہانی(کتابیات)‘‘،’’مضامین حسرت موہانی‘‘، ’’فیضان دکن‘‘، ’’مخدوم محی الدین، حیات اور ادبی خدمات‘‘، ’’بیگم حسرت موہانی، حیات و سیرت‘‘، ’’اذکار دکن‘‘، ’’اردو میں حمد گوئی‘‘، ’’نعت رنگ کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ‘‘ و دیگر۔ ص۴۷۸

۲۱۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۴۷۸

۲۲۔عاصی کرنالی (۱۹۲۷۔۲۰۱۱ء)، نام: شریف احمد، تخلص: عاصیؔ ، شاعر، ادیب، محقق، نقاد،کتب: ’’اردو حمدو نعت پر فارسی شعری روایات کا اثر‘‘ (پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ)، ’’رگِ جاں‘‘، ’’جشنِ خزاں‘‘، ’’چمن‘‘، ’’میں محبت ہوں‘‘ (نظم و غزل)، ’’مدحت‘‘، ’’نعتوں کے گلاب‘‘، ’’حرفِ شیریں‘‘(نعت)، ’’جاوداں‘‘ (سلام و منقبت)،’’تمام و ناتمام‘‘ (کلیات شعری)، ’’خاصانِ خدا کربلا میں‘‘ (مرثیے)، ’’چہرہ چہرہ ایک کہانی‘‘ (افسانے)، ’’لبِ خنداں‘‘ (طنزو مزاح)، ’’اپنی منزل کی طرف‘‘ (سفر حج)، ’’چراغِ نظر‘‘ (انشائیے، خاکے، طنزو مزاح،مقالات)۔ص ۵۸۷

۲۳۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا، ص۶۰۰

۲۴۔ریاض حسین چودھری (پ: ۱۹۴۱ء)، شاعر، ادیب، صدر شعبہ ادبیات: تحریک منہاج القرآن، کتب: ’’زرِ معتبر‘‘، ’’رزقِ ثنا‘‘، ’’تمنائے حضوری‘‘ (طویل نعتیہ نظم)، ’’متاعِ قلم‘‘، ’’کشکولِ آرزو‘‘، ’’سلام علیک‘‘۔ص۳۷۷

۲۵۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۳۸۲

۲۶۔نقوی احمد پوری، شاعر، ادیب۔ص۸۸۴

۲۷۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۸۷۸

۲۸۔ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد(۱۹۴۱ء)، ادیب، محقق، ریڈر ، صدر شعبہ اردو، مہاتما گاندھی، پی۔جی۔ کالج فتح پور(انڈیا)، کتب: ’’اردو شاعری میں نعت‘‘ (پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ) و دیگر۔ ص۱۰۳

۲۹۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۱۰۴

۳۰۔ڈاکٹر تحسین فراقی (پ: ۱۹۵۰ء)، اصل نام: منظور اختر، محقق، نقاد، شاعر، استاد شعبۂ اردو، یونیورسٹی اورینٹل کالج، لاہور،ناظم: مجلس ترقی ادب، لاہور، مدیر: ’’صحیفہ‘‘، ’’مخزن‘‘،’’ مباحث‘‘ لاہور، مدیر اعلیٰ: اردو دائرہ معارف اسلامیہ، لاہور۔ کتب: ’’مولانا عبدالماجد دریا بادی: احوال و آثار‘‘ (پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ)، ’’جستجو‘‘، ’’عجائباتِ فرنگ‘‘، ’’نقدِ اقبال: حیاتِ اقبال میں‘‘، ’’افادات‘‘، ’’اقبال: چند نئے مباحث‘‘، ’’مطالعۂ بیدل: فکرِ برگساں کی روشنی میں‘‘، ’’مغربی جمہوریت: اہلِ مغرب کی نظر میں‘‘، ’’نقشِ اول‘‘، ’’شاخِ زریاب‘‘ ودیگر۔ص۲۴۴

۳۱۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۲۴۵۔۲۴۶

۳۲۔پروفیسر حفیظ تائب (۱۹۳۱۔۲۰۰۴ء)، اردو اور پنجابی کے نامور نعت گو شاعر،ادیب، سیرت نگار،کتب: ’’صلو علیہ وآلہ‘‘(اردو نعت)، ’’سِک متراں دی‘‘(پنجابی نعت)، ’’وسلموا تسلیما‘‘(اردو نعت)، ’’وہی ےٰسین وہی طٰہٰ‘‘ (اردو نعت)، ’’لیکھ‘‘ (پنجابی نعت)، ’’بابِ مناقب‘‘ (تذکرہ نعت گو شعراء)، ’’پن چھان‘‘ (پنجابی تنقید)، ’’پنجابی نعت‘‘ (تحقیقی جائزہ)، ’’کوثریہ‘‘، ’’کتابیاتِ سیرتِ رسولؑ ‘‘ (۱۹۷۳ء تا ۱۹۸۷ء) ۔ص۲۸۲

۳۳۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۲۸۰

۳۴۔رشید وارثی (پ: ۱۹۴۷۔۲۰۰۹ء)،اصل نام: عبدالرشید خان، نعت گو شاعر،صحافی، مدیر: ’’فلک پرواز‘‘ (پی آئی اے)، صدر: بزمِ وارث، کتب: ’’خوشبوئے التفات‘‘(حمدو نعت و مناقب)، ’’اردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘، ’’عالمِ اسلام کی شرح درودِ تاج‘‘ ودیگر۔ ص۳۵۴

۳۵۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۳۵۵

۳۶۔ ایضاً،ص۶۸۷

۳۷۔ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی (۱۹۳۲۔۲۰۰۸ء)، فرزندِ ثاقبؔ کانپوری،محقق، ادیب، نقاد، سابق صدر، شعبۂ اردو، جامعہ کراچی، رکن مجلسِ ادارت: ’’مضراب‘‘ کانپور، ’’قومی زبان‘‘ کراچی، ’’مہر نیمروز‘‘ کراچی، ’’منزل‘‘ نیویارک، ’’اردوئے معلٰی‘‘جاپان، کتب: ’’اردو شاعری کا تاریخی و سیاسی پس منظر ۱۷۰۷ء سے ۱۸۵۷ء‘‘ (پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ)، اعزازات: داؤد ادبی ایوارڈ (۱۹۷۵ء)، قومی سیرت ایوارڈ(۱۹۹۱ء)۔ ص۳۹

۳۸۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۳۵۔۳۶

۳۹۔ایضاً، ص۴۴

۴۰۔ ایضاً، ص۴۵

۴۱۔ ایضاً، ص۴۹۔۵۰

۴۲۔ ایضاً، ص۷۸

۴۳۔ ایضاً، ص۴۴۔۴۵

۴۴۔ ایضاً، ص۸۷۔۸۸

۴۵۔ڈاکٹر اشفاق انجم، شاعر، ادیب، محقق، صدر شعبہ اردو، فارسی (ایم۔ ایس۔جی کالج) مالیگاؤں،کتب: ’’صلوا علیہ وآلہ‘‘، ’’پس نوشت‘‘، ’’اولیائے اسلام‘‘ (ڈائرکٹری) و دیگر۔ص۱۱۵

۴۶۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۱۱۴۔۱۱۵

۴۷۔ ایضاً، ص۱۱۷

۴۸۔تنویر پھولؔ (۱۹۴۸ء)، اصل نام: تنویر احمد صدیقی، شاعر و ادیب، نگراں (کورنگی زون): حرا فاؤنڈیشن پاکستان (رجسٹرڈ)، کتب:’’ گلشنِ سخن‘‘، ’’خوشبو بھینی بھینی‘‘،’’ تنویرِحرا‘‘، ’’رشک باغ ارم‘‘، ’’دھواں دھواں چہرے‘‘، ’’زبورِ سخن‘‘، ’’قندیل حرا‘‘، ’’چڑیا تتلی پھول‘‘، ’’نغماتِ پاکستان‘‘، ’’ارحم الراحمین‘‘۔ص ۲۴۷

۴۹۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۲۴۷

۵۰۔ ایضاً، ص۲۴۸۔۲۴۹

۵۱۔خالدؔ شفیق (پ: ۱۹۳۲ء)، اصل نام: محمد خالد بٹ،کتب: ’’عالم افروز‘‘، ’’نعت سوغات‘‘ (پنجابی)۔ص۳۱۴

۵۲۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۳۱۴

۵۳۔پروفیسر شاہ محمد سبطین شاہجہانی (پ:۱۹۳۹ء)، سجادہ نشین درگاہ عالیہ حبیبیہ رحمانیہ صابریہ پاکستان، کتب: ’’حسنِ تحریر‘‘، ’’تاریخ اردو ادب کا پہلا سہروی مشاعرہ‘‘، ’’بربطِ جمال‘‘، ’’نذرانۂ عقیدت‘‘، ’’صد صلوٰۃ و سلام‘‘۔ ص۴۰۵

۵۴۔عرش صدیقی (۱۹۲۷۔۱۹۹۷ء)، اصل نام: ارشاد الرحمن، شاعر، نقاد، ماہر تعلیم، افسانہ نگار، بانی: اردو اکیڈمی ملتان، پرنسپل: ملتان پوسٹ گریجویٹ کالج، صدر: شعبۂ انگریزی، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، کتب: ’’دیدۂ یعقوب‘‘، ’’محبت لفظ تھا میرا‘‘، ’’ہر موج ہوا تیز‘‘، ’’کالی رات دے گھنگھرو‘‘، ’’کملی میں بارات‘‘، ’’باہر کفن سے پاؤں‘‘ (افسانے)، ’’عرش صدیقی کے سات مسترد افسانے‘، ’’تکوین‘‘، ’’محاکمات‘‘، ’’ارتقاء‘‘۔ص۴۰۵۔۴۰۶

۵۵۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۰۵

۵۶۔شوکت عابد(پ: ۱۹۵۳ء)،شاعر، ادیب، استاد: شعبۂ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی، کتب: ’’شاعری میرا تعارف نہیں‘‘، ’’جسے دل کہیں‘‘ (نظمیں)، ’’اشکِ رواں‘‘ (نعتیہ مجموعہ)۔ص ۵۲۰

۵۷۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۵۲۶

۵۸۔ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ ، شاعر، ادیب، نقاد، دانشور، سجادہ نشین آستانۂ چشتیہ نظامیہ( پٹنہ، بہار)، صدر شعبۂ اردو وفارسی، رئیس کلےۂ ہیومینٹیز، ویر کنورسنگھ یونیورسٹی، آرہ (بہار)۔ کتب: ’’شہاب سخن‘‘، ’’شایگاں‘‘، ’’نقد سنجش‘‘، ’’اردو کی نعتیہ شاعری‘‘، ’’شاہ اکبر دانا پوری (حیات و شاعری)‘‘ (پی ایچ۔ڈی کا مقالہ) ۔ص۵۵۹

۵۹۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۵۶۷

۶۰۔حافظ عبدالغفار حافظؔ (پ: ۱۹۴۸ء)، شاعر، ادیب، کتب :’’ قصیدۂ رسول تہامی‘‘ (۱۹۹۸ء)،’’ارمغان حافظ‘‘ (۲۰۰۲ء)، ’’نگار عقیدت‘‘، ’’بہشت تضامین‘‘۔ ص۶۴۵

۶۱۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۶۴۸۔۶۴۹

۶۲۔ ایضاً ،ص۹۹

۶۳۔محمد اقبال جاوید(پ: ۱۹۳۶ء)، پروفیسر شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج، گوجرانوالہ ، مدیر: ادبی مجلہ ’’مہک‘‘ (گورنمنٹ کالج گوجرانولہ)، کتب: ’’قرآن حکیم اردو منظومات کے آئینے میں‘‘، ’’مضامینِ شورش‘‘، ’’مرقع چہل حدیث‘‘،’’بیسویں صدی کے قرآن نمبر‘‘، ’’بیسویں صدی کے رسول نمبر‘‘، شعری التجائیں‘‘،’’ کعبہ پر پڑی جو پہلی نظر‘‘،’’ نعت میں کیسے کہوں‘‘، ’’تیرا وجود الکتاب‘‘، ’’مخزن نعت‘‘ (انتخابِ نعت)، ’’اردو کے دس عظیم شاعر‘‘، ’’تعمیرِ ادب‘‘، ’’نقشِ ادب‘‘،’’لوح بھی تو قلم بھی تو‘‘ (مرتبہ)، ’’نگارشاتِ شورش‘‘ (مرتبہ)، ’’قلم کے چراغ‘‘، ’’مولوی محمد شریف۔ علم و معرفت کے تناظر میں‘‘، ’’قرآن حکیم ایک طالب ہدایت کی نظر میں‘‘ و دیگر۔ ص۱۹۴

۶۴۔جاوید، محمد اقبال،پروفیسر،’’نعت میں کیسے کہوں‘‘،نعت ریسرچ سینٹر ،کراچی ،جنوری ۲۰۰۹،ص ۸۶۔۸۷

۶۵۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۱۳۳

۶۶۔ ایضاً، ص۱۴۸

۶۷۔ ایضاً، ص۱۹۷

۶۸۔امین راحت چغتائی (پ:۱۹۳۲ء )، ممتاز شاعر، ادیب اور نقاد، کتب: نعتیہ مجموعہ ’’محرابِ توحید‘‘ (حکومت پاکستان کی طرف سے اوّل انعام یافتہ کلام) ۲۰۰۷ء، شعری مجموعے ’’بھید بھنور‘‘ (۱۹۸۶ء) ، ’’بامِ اندیشہ‘‘ (۲۰۰۸ء) ، ’’ذرا بارش کو تھمنے دو‘‘ (۲۰۱۱ء)، ’’دشتِ شب‘‘ (۲۰۱۳ء) تنقیدی و تحقیقی مضامین کے دو مجموعے ’’دلائل‘‘ (۱۹۹۳ء) اور’’ردِّ عمل‘‘ (۲۰۰۶ء) ، تفسیری مضامین کا مجموعہ ’’قرآن اور نظامِ کائنات ‘‘( ۲۰۰۰ء) اورتحقیقی کتاب ’’مغل مکتبِ مصوری،سولہویں صدی عیسوی‘‘ (۲۰۰۲ء)۔ ص۲۳۱۔۲۳۲

۶۹۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۲۳۲

۷۰۔ شاعر،ادیب،ص۲۳۸

۷۱۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۲۳۷

۷۲۔ڈاکٹر تحسین فراقی کے بارے میں تفصیلات حاشیہ نمبر ۳۰ میں ملاحظہ کیجیے۔

۷۳۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۲۴۴

۷۴۔جگن ناتھ آزادؔ (۱۹۱۸۔۲۰۰۴ء)،ممتازشاعر، ادیب، محقق، ماہرِ اقبالیات، پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی (۱۹۷۰۔۱۹۸۰ء)، تصانیف: ’’بے کراں‘‘، ’’ستاروں سے ذروں‘‘، ’’وطن میں اجنبی‘‘، ’’نواے پریشاں‘‘، ’’کہکشاں‘‘، ’’بوئے رمیدہ‘‘، ’’جستجو‘‘، ’’گہوارۂ علم و ہنر‘‘، ’’آئینہ در آئینہ‘‘ (شعری مجموعے)، ’’روبرو‘‘ (خطوط کا مجموعہ)، ’’نشانِ منزل‘‘ (تنقیدی مضامین)، ’’اقبال اور اس کا عہد‘‘، ’’اقبال اور مغربی مفکرین‘‘، ’’اقبال اور کشمیر‘‘، ’’اقبال ۔شخصیت اور شاعری‘‘، ’’اجنتا‘‘، ’’دہلی کی جامع مسجد‘‘، ’’کولمبس کے دیس میں‘‘(سفرنامۂ امریکاو کینیڈا)۔ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان و ہندوستان کی حکومتوں نے کئی اعزازات سے نوازا۔ص۲۶۷

۷۵۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۲۶۸

۷۶۔شاہ رشاد عثمانی، شاعر، ادیب ، محقق، کتب: ’’اردو شاعری میں نعت گوئی‘‘، ’’ادب کا اسلامی تناظر‘‘۔ص۳۴۷

۷۷۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۳۴۵

۷۸۔ ایضاً، ص۳۴۶

۷۹۔ ایضاً، ص۳۸۳

۸۰۔ ایضاً، ص۳۸۵

۸۱۔ ایضاً، محولہ بالا،ص۳۸۵

۸۲۔ایضاً، ص۳۹۲

۸۳۔محمد سعید احمد بدر قادری (پ: ۱۹۴۰ء)، شاعر، ادیب، نعت گو، مدیر: ’’برقاب‘‘، ’’دلیلِ راہ‘‘۔ ص۴۲۳

۸۴۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۱۷

۸۵۔حکیم محمد سعید (۱۹۲۰۔۱۹۹۸ء)، نامور طبیب، ادیب، سماجی و سیاسی شخصیت، سیاح و سفرنامہ نگار، بانی: مدینۃ الحکمت کراچی، صدر: پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی، گورنر صوبہ سندھ (۱۹ جولائی ۹۳ء تا۲۲ جنوری ۹۴)، چند کتب کے نام: ’’نورستان‘‘، ’’اخلاقیات نبوی‘‘، ’’قرآن روشنی ہے‘، ’’ تعلیمات نبوی‘‘، ’’سائنس اور معاشرہ‘‘، ’’ارضِ قرآنِ حکیم‘‘، ’’داستانِ حج‘‘، ’’یورپ نامہ‘‘، ’’جرمنی نامہ‘‘، ’’کوریا کہانی‘‘، ’’داستانِ لندن‘‘، ’’درۂ خیبر‘‘، ’’سعید سیاح اردن میں‘‘، ’’سعید سیاح امریکا میں‘‘، ’’سعید سیاح ترکی میں‘‘، ’’سعید سیاح چین میں‘‘، ’’ماہِ سعید‘‘، ’’یہ جاپان ہے‘‘، ’’اکیسویں صدی کی جانب‘‘، اعزازات: ۱۹۶۶ء میں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیاز سے نوازا، ۱۹۸۳ء میں کویت فاؤنڈیشن برائے سائنس نے ’’کویت پرائز برائے طب اسلامی‘‘ عطا کیا۔ص۴۲۹

۸۶۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۳۰

۸۷۔سلطان جمیل نسیم (پ: ۱۹۳۵ء)، صباؔ اکبر آبادی کے فرزند، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار،صدا کار، کتب: ’’جنگ زمین خوشبو‘‘، ’’حامد منزل‘‘، ’’کھویا ہوا آدمی‘‘، ’’سایہ سایہ دھوپ‘‘، ’’ایک شام کا قصہ‘‘،’’میں آئینہ ہوں‘‘، ’’جنگل زمین خوشبو‘‘۔ ص۴۳۴

۸۸۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۳۱

۸۹۔ ایضاً، ص۴۳۱

۹۰۔ ایضاً، ص۴۳۱۔۴۳۲

۹۱۔ ایضاً، ص۴۳۲

۹۲۔ایضاً، ص۴۳۴

۹۳۔سلیم یزدانی، ادیب، کالم نویس، سیرت نگار، متعدد کتب کے مصنف۔ص۴۴۵

۹۴۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۴۱

۹۵۔ ایضاً، ص۴۴۳

۹۶۔ ایضاً، ص۴۴۴

۹۷۔سمیہ ناز اقبال(پ: ۱۹۶۹ء)، شاعرہ، نعت گو، نعت خواں، نگراں: نعت ریسرچ سینٹر، یو کے۔ ص۴۵۳

۹۸۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۵۷۔۴۵۸

۹۹۔شان الحق حقّی(۱۹۱۷۔۲۰۰۵ء)،شاعر، ادیب، محقق، مترجم، ماہر لسانیات، نائب مدیر: ’’آج کل‘‘، مدیر اعلیٰ: ’’ماہِ نو‘‘(کراچی)، رکن و معتمد: ترقی اردو بورڈ(کراچی)، ڈائرکٹر: یونائیٹڈ ایڈورٹائزر (کراچی)،چند تصانیف و تالیفات: ’’انتخابِ ظفر‘‘، ’’انجان راہی‘‘(ترجمہ امریکی ناول)، ’’تارِ پیراہن‘‘ (منظومات)، ’’دل کی زبان‘‘، ’’پھول کھلے ہیں رنگ برنگے‘‘ (منظومات)، ’’نکتۂ راز‘‘ (تنقیدی مقالات)، ’’لغاتِ تلفظ‘‘، ’’آپس کی باتیں‘‘، ’’افسانہ در افسانہ‘‘ (خودنوشت سوانح)، ’’حرفِ دل رس‘‘، ’’اوکسفرڈ انگریزی اردو لغت‘‘، ’’شاخسانے‘‘۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے ’’تمغۂ قائداعظم‘‘(۱۹۶۹ء) اور ’’ستارۂ امتیاز‘‘(۱۹۸۶ء) عطا کیا۔ ص۴۷۱

۱۰۰۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۷۰

۱۰۱۔ سید شفقت حسین رضوی کے بارے میں تفصیلات حاشیہ نمبر ۲۰ میں ملاحظہ کیجیے۔

۱۰۲۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۴۷۷

۱۰۳۔ایضاً، ص۴۷۷

۱۰۴۔ایضاً، ص۵۲۲

۱۰۵۔شہزاد منظر (۱۹۳۳۔۱۹۹۷ء)، اصل نام: ابراہیم عبدالرحمن عارف، ادیب، نقاد، افسانہ و ناول نگار، صحافی، دانشور، کتب: ’’علامتی افسانے کے ابلاغ کا مسئلہ‘‘، ’’جدید اردو افسانہ‘‘، ’’غلام عباس ایک مطالعہ‘‘، ’’پاکستان میں اردو تنقید کے پچاس سال‘‘، ’’مشرق و مغرب کے چند مشاہیر ادبا‘‘، ’’پاکستان میں اردو افسانے کے پچاس سال‘‘، ’’اندھیری رات کا مسافر‘‘، ’’ندیا کہاں ہے تیرا دیس‘‘، ’’سندھ کے نسلی مسائل‘‘۔ص۵۵۳

۱۰۶۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۵۵۲

۱۰۷۔محمد فیروز شاہ (۱۹۵۲۔۲۰۰۸ء)،شاعر، ادیب، پروفیسر: شعبہ اردو گورنمنٹ کالج میانوالی، کتب: ’’دریچہ‘‘ (۱۹۸۶ء)، ’’طلوع‘‘ (۱۹۸۹ء)،’’ تھل دریا‘‘(۱۹۹۲ء)، ’’برنگِ خوابِ سحر‘‘(۲۰۰۰ء)، ’’شہرِ شب میں چراغاں‘ ‘ (۲۰۰۳ء)، ’’باوضو آرزو‘‘ (۲۰۰۴ء)۔ ص۷۲۳

۱۰۸۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۷۲۲

۱۰۹۔ایضاً، ص۷۲۴

۱۱۰۔ایضاً، ص۷۲۶

۱۱۱۔مولانامبارک حسین مصباحی(پ: ۱۹۶۷ء)، عالم دین، ادیب، محقق، مدیر: ماہنامہ’’ اشرفیہ‘‘، مبارکپور،کتب: ’’شہرخموشاں کے چراغ‘‘ و دیگر۔ ص۷۸۱

۱۱۲۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص۷۸۱

۱۱۳۔محمد علی صدیقی، شیداؔ بستوی، شاعر، ادیب، صدر: انتظامی کمیٹی، جامعہ حنفیہ، بستی( انڈیا)، نعتیہ تخلیق: ’’الصلوٰۃ والسلام‘‘۔ ص ۷۹۲

۱۱۴۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۷۹۲

۱۱۵۔ڈاکٹر سید یحیےٰ نشیط (پ: ۱۹۵۰ء)،ادیب، محقق، رکن: رابطہ ادب اسلامی،رکن مجلسِ ادارت: بال بھارتی اردو (پونے)، نگراں برائے پی ایچ۔ڈی: امراؤتی یونیورسٹی،کتب: ’’اردو میں حمدو مناجات‘‘، ’’حرف حرف معتبر‘‘، ’’مراٹھی اردو کے تہذیبی رشتے‘‘، ’’مراٹھی اردو کے باہمی روابط‘‘، ’’استوری فکر و فلسفہ اردو شاعری میں‘‘، ’’اردو رباعیات میں ہندوستانی عناصر‘‘، ’’ف۔ س۔ اعجاز ہشت پہلو فنکار‘‘، و دیگر۔ ص۸۹۶

۱۱۶۔ شفیق ، محمدسہیل، ڈاکٹر، ’’نعت نامے بنام صبیح رحمانی‘‘،محولہ بالا،ص ۹۰۱

۱۱۷۔ایضاً، پس ورق

۱۱۸۔ایضاً، ص۳۹۳

۱۱۹۔ ایضاً، ص۱۹۸


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت


نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25