نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

صبیح رحمانی
نعت ریسرچ سنٹر انٹرنیشنل
مطبوعات
نعت رنگ

دھنک

اداریہ

ابتدائیہ ۔ صبیح رحمانی

تحقیق

تنقید

===پروفیسر فتح محمد ملک (اسلام آباد) اقبالؔ اور گوئٹےؔ کا نغمۂ محمدی===


ABSTRACT: GOETHE was very much influenced by Islamic teachings. He dreamt to write Drama presenting high qualities of Islamic teachings in order to visualizing the most charismatic character of Prophet of Islam Muhammad (Peace be upon Him), but his dream could not come true. Only his poem for the praise of Prophet Muhammad (S.A.W) remained safe on the surface of literary scene. That poem caught attention of Allama Iqbal for the sake of translating the same into Persian. The article placed hereunder depicts some light on Goethe's interest in Eastern cultural beauty and ترچھا متنpurity of Islamic thoughts. The enmity can be reduced if Goethe's approach adopted by Western World today. Islam also invites attention towards teachings of Islam conforming to the teachings of followers of Scripture in Qur'aanic words 'Say (O Muhammad [peace be upon Him]"O people of the Scripture [Jews and Christians]! Come to a word that is just between us and you, that we worship none but Allah [Alone]".


گوئٹے کے اڑھائی صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات کا خیال کرتا ہوں تو مجھے کارل فان اوسیٹسکی کا ایک قول بے ساختہ یاد آ جاتا ہے۔ دائمیر ری پبلک میں گوئٹے کی کھوکھلی اور منافقانہ حمد و ثنا پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ:


’’جرمنی میں گوئٹے کا یوم سرکاری طور پر یوں منایا جاتا ہے جیسے وہ ایک شاعر اور پیغمبر نہ ہو بلکہ فقط افیون ہو‘‘۔(۱)


یہ کچھ دائمیر ری پبلک پر ہی موقوف نہیں بلکہ گوئٹے کے دورِ حیات سے لے کر آج تک نہ صرف جرمنی بلکہ ساری کی ساری مغربی دنیا میں گوئٹے کی اسلام شناسی اور مسلمان دوستی کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جا رہا۔اگر گوئٹے کے وسیع النظر اور انسان دوست روحانی مسلک پر عمل کیا جاتا تو نہ کل جرمن قوم یہودیوں کی نسل کشی کے انسانیت سوز جرائم میں ملوث ہوتی اور نہ آج عصر رواں کا نامور ترین تخلیقی فن کار گستر گر اس برلن میں جرمنی کے ایک سو سے اوپر تخلیقی فن کاروں کا جلوس لے کر سلمان رشدی کی حمایت میں نعرہ زنی میں مصروف پایا جاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ مغربی دنیا آج بھی گوئٹے کی اسلام اور مسلمانوں سے محبت کا راز سمجھنے پر آمادہ نہیں ہے۔اس کے برعکس دانتے اور والٹیر کے دیوانگی کی حدود کو چھوتے ہوئے مذہبی تعصب کو مزید ہوا دینے میں مصروف ہے۔اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حقارت کی اس فضا میں گوئٹے کے اڑھائی سو سالہ جشنِ ولادت نے مغربی دنیا کو ایک نادر موقع مہیا کیا ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے متعلق اپنی نفسیاتی بیماریوں کے لیے ایک نسخۂ شفا ڈھونڈے۔ خود گوئٹے بھی اپنے عہد کی بیماریوں کے لیے نسخۂ شفاکی تلاش میں ہی اسلامی مشرق کو روحانی ہجرت پر مجبور ہوا تھا۔ ڈاکٹر آرتھرریمی اپنی کتاب ’’جرمنی شاعری پر ایران اور ہندوستان کے اثرات‘ ‘ میں بتاتے ہیں کہ:


’’ہندوستان کی دیو مالا،ہندوستان کے مذہب اور اس کی دور از کار فلسفیانہ موشگافیوں سے گوئٹے کو کراہت محسوس ہوتی تھی۔ خصوصیت کے ساتھ دیومالائی جنات کو وہ حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا……شاید یہی وجہ ہے کہ گوئٹے کا مشرق سندھ، ایران، دنیائے عرب اور ترکی تک محدود تھا۔‘‘(۲)


ہندو مت اور ہندو مالتھالوجی سے گوئٹے کی بیزاری کا راز اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ ملت ابراہیمی یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں بنیادی روحانی یگانگت پر غور و فکر میں صرف کیا تھا۔ آغازِ شباب ہی میں گوئٹے نے یہودیت، عیسائیت اور اسلام پر تین سلسلہ وار ڈرامے تخلیق کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسلام کے موضوع پر اپنے مجوزہ ڈراما میں گوئٹے نے آنحضورV کی سیرت و کردار کو مرئی حیثیت دینے کا ارادہ کیا تھا۔ اپنی خود نوشت بعنوان ’’شاعری اور صداقت‘‘ میں گوئٹے نے دو صفحات پر پھیلے ہوئے ایک بیانیہ میں اس تمثیل کی تمنا کی صورت گری کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’میرے دل میں یہ خیال تقویت پکڑتا گیا کہ محمدV کی حیات طیبہ پر لکھوں جنہیں میں نے ہمیشہ صادق پایا اور جن کے نکتہ چینوں کو میں نے ہمیشہ گمراہ سمجھا۔جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو میں اس کام کے لیے بخوبی تیارتھا کیونکہ میں اس سے پیشتر آنحضورV کی حیات و کردار کا بنظرِ غائر مطالعہ کرچکا تھا۔ یہ تحریر ایک مناجات سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ (۳)


اس کے بعد گوئٹے عرب جاہلیت کے خلاف آنحضورV کے جہاد کے آغاز سے لے کر واقعہ معراج تک اسلام کی سرگزشت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:


’’ذہن اس احساس سے سر شار ہے کہ اسے اوپر ہی اوپر، اور بھی اوپر پرواز کرتے چلے جانا ہے۔ اسے ھواوّل، ھوالاخر، ھوالظاہر ، ھوالباطن تک پہنچنا ہے۔ اسے اس ہستی مطلق کے حریم تک پہنچنا ہے، تمام مخلوقات کی زندگی جس کے طلسم کن سے عبارت ہے۔ میں نے یہ مناجات ایک عجب گرمیٔ احساس کے ساتھ لکھی تھی۔ ہرچند یہ گم ہو چکی ہے مگر آسانی کے ساتھ اس کی بازیافت ممکن ہے۔ یہ اظہار و بیان کے تنوعات کے ساتھ گائی جا سکے گی۔ گاتے وقت وہ تصور پیش نظررکھنا ضروری ہوگا جو اس حمدیہ گیت کے تخلیقی عمل میں کارفرما تھا۔ یہ ایک قافلہ سالار کا تصور تھاجو اپنے خاندان، اپنے قبیلہ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔آوازوں کا زیروبم اور کورس کی مختلف شکلوں کا خاص اہتمام کیا جائے گا۔ دکھایا جائے گا کہ بعثت کے فوراً بعد محمدV نے اپنے فکر و احساس سے اپنے خاندان کو آگاہ کیا۔ آپ کی زوجہ محترمہؓ اور حضرت علیؓ سب سے پہلے خود اپنے قبیلہ کو مشرف بہ اسلام کرنے میں کوشاں ہیں۔ اس باب میں اتفاق اور عناد، حمایت اور مخالفت اپنے اپنے ظرف کے ساتھ متصادم ہیں۔ جدوجہد زور پکڑتی ہے ۔ فکری معرکہ تشدد اور خون خرابے کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے اور بالآخر ہجرت کا وقت آ پہنچتا ہے۔ تیسرے باب میں فتح و نصرت کا سماں، اللہ کے دشمنوں پر غلبہ، کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے اللہ کے دین کی سربلندی کے مناظر پیش کیے جائیں گے۔‘‘(۴)


قرآن کریم اور آنحضورV کے اسوۂ حسنہ کے گہرے مطالعہ اور بیشتر فنی سازو سامان جمع کر لینے کے باوجود گوئٹے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے کی روداد یوں بیان کرتے ہیں:


’’ایک صاحب کردار اور دانش مند ہستی پر ایک ابدی پیغام کے اثرات اور اس کے جذبہ و عمل، اس کے سودوزیاں کا رزمیہ پیش کرنا مقصود تھا…متعدد نغمات پہلے ہی تیار کر دیئے گئے تھے تاکہ موقع و محل کی مناسبت سے استعمال کیے جا سکیں مگر افسوس کہ اس متاع گم گشتہ میںسے فقط ایک چیز باقی رہ گئی ہے جو میرے مجموعۂ کلام میں ’’نغمۂ محمدV‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔(۵)


دنیا بھر کے نعتیہ کلام میں اپنا ثانی نہ رکھنے والا یہ ’’نغمۂ محمدV‘‘ بعد میں گوئٹے نے اپنے West Ostilcher Diwan میں شامل کر دیا تھا اور بعدازاں اسے علامہ اقبال نے ’’جوئے آب‘‘ کے عنوان سے فارسی کا خوبصورت پیرہن بخش دیا تھا۔ گوئٹے نے اپنے دیوان کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اور دیوان کے سرورق پر الدیوان الشرقی للمولف الغربی کی جس خوبصورت انداز میں خطاطی کی ہے اس سے عاشقانہ محنت کا راز بھی کھلتا ہے۔ ادھیڑ عمر میں جب وہ جواں سال شاعرہ ماریہ کی محبت میں مبتلا ہوئے تووہ بے خیالی میں کبھی ریت میں اور کبھی کاغذ پر اس کا نام عربی حروف میں لکھتے رہتے تھے۔ یہی عرصۂ محبت ان کے دیوان مشرقی کی تخلیق کا زمانہ ہے۔


اسلامی مشرق میں تخلیقی دلچسپی گوئٹے کے عنفوان شباب کا قصہ ہے۔ اکیس برس کی عمر میں جب وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سڑاسبرگ گئے تو وہاں اپنے وقت میں جرمن ادبیات کی ممتاز ترین شخصیت ہرڈر کے زیرِاثر اسلامی مشرق نے ان کے دل و دماغ کو اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ یہی کشش ہندوستان کے مغرب میں پھیلی ہوئی دُنیائے اسلام کے ساتھ ان کی اٹوٹ تخلیقی رفاقت کی صورت اختیار کر گئی۔ ہرڈر اٹھارہویں صدی کی جرمنی کا سب سے بڑا ماہر دینیات بھی تھا۔ اس کے زیرِ اثر گوئٹے صحائف آسمانی کے شاعرانہ حسن کی جانب متوجہ ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ابراہیم و موسیٰ سے ہوتا ہوا قرآن حکیم تک آ پہنچا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی وہ پکار اُٹَّھا:


’’اگر اسلام کا مطلب رضائے الٰہی کی اطاعت ہے تو ہم سب اسلام میں ہی جیتے ہیں اور اسلام ہی میں مرتے ہیں۔‘‘


اپنے ’’دیوانِ مشرقی‘‘ کی تفسیر و تعبیر کرتے ہوئے گوئٹے نے قرآن حکیم کی حقانیت کے اثبات میں لکھا کہ:


’’توحید، عبدیت اوررسالت……یہ تمام قرآنی تصورات، ہمارے پنے دینی عقائد سے گہری مماثلت رکھتے ہیں اور ہماری مقدس کتابیں ہی بڑی حد تک مسلمانوں کی مقد س کتابوں کا ماخذ ہیں۔ اساسی معاملات میں ہمارے اور ان کے عقائد اور ہمارا اور ان کا طرزِ فکر یکساں ہے۔‘‘


ملت ابراہیمی کی ساخت پرداخت اور نشووارتقاء سے اس گہری شناسائی کی بدولت گوئٹے مسلمانوں کے ادبیات و فنون سے محبت میں مبتلا ہو گیا۔ گوئٹے نے پینسٹھ برس کی عمر میں ہائیڈل برگ کی نوخیز شاعرہ ماریہ نافان ولمر کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی۔ اپنے دیوان میں ’’زلیخانامہ‘‘ کے زیرِعنوان اس داستان محبت کے احوال و مقامات کی پردہ کشائی کرتے وقت اس نے خود کو حاتم کہا اور ماریانا کی نظمیں بھی شامل کیں۔ یہ دیوان مسلمانوں کی عشقیہ شاعری سے تخلیقی اکتساب کی درخشندہ مثال ہے۔


گوئٹے نے آنحضورV کو ایک رواں دواں اور ابدیت بہ کنار جوئے آب سے تشبیہ دی ہے۔ ’’نغمۂ محمدV کا آخری بند یہ ہے:

دریائے پر خروش ز بند و شکن گزشت

از تنگنائے وادی و کوہ و دمن گزشت

یکساں چو سیل کردہ نشیب و فراز را

او کاخ شاہ و پارہ و کشت و چمن گزشت

بیتاب و تندوتیز و جگرسوز و بیقرار

در ہر زمان تازہ رسید او کہن گزشت

زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ می رود

در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود (ترجمہ علامہ اقبال)


پیغمبرِ اسلامﷺ سے یہ گہری عقیدت اور جبلی محبت اور اسلام کی انقلابی روح سے یہ جذباتی لگائو مغربی ادب میں اور کہیں نہیں ملتا۔ اقبال نے گوئٹے (۱۷۴۹ء تا ۱۸۳ء) کے ہم عصر غالب کو مخاطب کر کے کہا تھا:

ع گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے


گوئٹے واقعتا اپنے ہم عصر مسلمان شاعروں کا ہم نوا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس کی اسلام شناسی دنیائے مغرب کے لیے ہنوز پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔

آج سیمیوئل ہستگٹن (The Clash of Civilizations)کے سے سامراجی نظریہ ساز جب اسلامی تہذیب اور عیسوی تہذیب کے مابین تصادم اور ستیز کا رزمیہ گیت چھیڑتے ہیں اور مغربی دنیا کو دنیائے اسلام کے خلاف صف آر ہونے کی تلقین کرتے ہیں تو گوئٹے کا نغمۂ عشق رہ رہ کر میرے کانوں میں رس گھولنے لگتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب مغربی دنیا ’’مغنی نامہ‘‘، ’’زلیخا نامہ‘‘ اور ’’بندگی نامہ‘‘ کی سی عہد آفریں نظموں کے خالق گوئٹے کو افیون کی مانند استعمال کرنا ترک کر دیں گے اور آبِ حیات سمجھ کر انسانیت کی کھیتی کوسرسبز و شاداب کرنا شروع کر دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تو اسلامی اور مغربی دنیائیں باہم متصادم ہونے کی بجائے شیروشکر ہو جائیں گی اور اللہ کا یہ پیغام ہر سو گونجنے لگے گا:


’’اے اہلِ کتاب! آئو ہم تم اس کلمہ توحید پر متحد ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔‘‘

حواشی

"Official Germany celebrates Goethe not as poet and prophet but above all as opium" (Karl von Ossietzky as quoted by Peter Gray 1968 weimer Culture)

(2) The influence of India and Persia on the poetry of Germany (Newyork) 1966 pp.2021

"For India's mythology, its religion its abstrusest of philosophies he felt nothing but aversion. Especially hateful to him were the mythological monstrosities........After all. Goethe's Orient did not extend beyond Indus It was confirmed mainly to Persia and Arabia, with and occasional excursion into Turkey."

(3) "There developed with in me the plan of representing in the life of Mahomet whom I have never been able to regard as a imposter those courses which were so clearly seen by me in actual life, which lead much more to ruin than to salvation. A short time before I had studied with great interest the life of the oriental prophet, so when the thought came to me I was fairly well prepared. The piece begins with a hymn which Muhammad sings alone under the clear sky of night"....

4) The mind feels it must yet rise above itself; it rises to God the only One, the Eternal, the Absolute to whom all these splendid but limited creatures owe their existence I composed this hymn with great warmth of feeling it is lost, but might easily be restored for the purpose of a cantata, and would recommended itslef to the musician by the variety of its expression. But it would be necessary to imagine, as at that timewas the intention, the leader of a caravan with his family and a whole tribe, and so for the alteration of the voices and the strength of the choruses provision would be made. After Mahomet has thus convereted himself and communicated these feelings and thoughts to his family. His wife and Ali join him unreservedly. In the second act he himself endeavours, but Ali more vigorously, to extend this faith in the tribe. Here agreement and opposition show themselves according to the difference of character. The feud begins the strife becomes violent and Mahomet must fly in the third act he overcomes his enemies, makes his religion the public one, purifies the Kaba from idols.

(5) "All that genius can effect upon a man of character and intellect was to be represented, and how it wins and loses in the process. Several songs which were to be inserted, were composed beforehand., all that remains of them is that which stands among my poems my poems under the title Mahomet's Song. Pp.557-559" ٭٭٭


ڈاکٹر ناصر عباس نیر ّ نعت: کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروڈاکٹر ناصر عباس نیر ّ نعت: کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروضات کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروضات ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر ّ نعت

ڈاکٹر ناصر عباس نیر ّ نعت: کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی معروضات

ABSTRACT: The article placed below is based on analytical study of emotionality and religiosity takes place in the Genre of Naat .Depth of emotions and belief has been assessed in the light of creative instincts to find out poetic aesthetics in such poetry. Poetic forms have also been separately discussed being based on Forms and Content in order to signifying differences of both kinds of poetry. Sentiments of faith and belief aroused out of hatred of colonialism have also taken into account for the sake of highlighting under current spirit of poetic expressions.


نعت کا بنیادی موضوع ،نبی پاک V کی عظیم المرتبت ذات ِوالا صفات ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نعت کی صنفی شناخت بلحاظ موضوع ہے، بلحاظ ہیئت نہیں۔ یہیں نعت ادبی نقادوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی ہے۔یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ جو اصناف اپنی ہیئت کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں،وہ تخلیق کار کو موضوع لے کر ،اسلوب وتیکنیک کے انتخاب کی آزادی دیتی ہیں۔واضح رہے کہ اس آزادی کے بغیر کوئی شخص مبلغ تو ہوسکتا ہے ، تخلیق کار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی ان اصناف میں بھی ہے جو متعین موضوعاتی شناخت رکھتی ہیں؟ اس سوال کا دائرہ اگرچہ نعت کے علاوہ، حمد، منقبت ،شہر آشوب وغیرہ تک پھیلا ہواہے، مگر ہم اسے فی الوقت نعت تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔نعت کے اکثر نقاد اس سوال سے بچنا چاہتے ہیں، اور اس تصور میں پناہ لیتے ہیں کہ نعت ادب سے ماورا ایک مختلف قسم کا،اور ممتاز اظہارہے۔اسی بنا وہ نعت کے لیے تنقید کو روا نہیں سمجھتے۔اگر آپ نعت کا مطالعہ محض ایک مذہبی متن کے طور پر کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے ضمن میں کوئی بھی فنی ،جمالیاتی ،تنقیدی بحث بلاجواز محسوس ہوگی ،لیکن اگر آپ اسے ادبی ،فنی تخلیق قرار دیتے ہیں ،اور اس پر گفتگو کے لیے روایتی تنقید یا نئی تھیوری کی اصطلاحات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تو پھر مذکورہ سوال پرتامل ضروری ہے۔ہماری رائے میںدونوں طرح کی اصناف (ہیئت یا موضوع کی بنیاد پر تشکیل پانے والی )میں آزادی ممکن ہے۔مثلاًمخصوص ہیئت کی حامل اصناف جیسے غزل ،مثنوی ، آزاد نظم اور نثری نظم میں موضوعاتی تنوع کی آزادی ہے۔جب کہ موضوعاتی اصناف میں ہیئت کے انتخاب کی آزادی ہے۔اس آزادی کا خالص جمالیاتی مفہوم یا مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوتے ہیں ،جب ہم ہیئت و موضوع کے پیچیدہ تعلق پر دھیان کرتے ہیں۔ تفصیل میں گئے بغیر ہم کَہ سکتے ہیں کہ موضوع اور ہیئت کا رشتہ ،ہم آہنگی کی تلاش کی آرزو سے عبارت ہے،اور ہم آہنگی کی آرزو وہیں ہوتی ہے ،جہاں ثنویت اور فاصلہ موجودہے۔ چناں چہ ایک ہی موضوع جب مختلف ہیئتوں میں ظاہر ہوتا ہے تو اس میں ہم آہنگی کی کوشش بھی نئے نئے طریقوں سے ہوتی ہے۔نئی ہیئتوں اور موضوع و ہیئت میں ایک نئی سطح پر ہم آہنگی کی سعی کی بنا پرموضوعاتی یکسانیت کاجبر قائم نہیں ہوپاتا۔ علاوہ ازیں جہاں تک نعت کا تعلق ہے ،اس کا موضوع، دیگرموضوعاتی اصناف کے موضوع سے مختلف ہے۔نبی پاکV کی ذات وصفات ،سیرت و عمل خود اپنے اندر غیر معمولی تنوع رکھتے ہیں۔ گویاصنفِ نعت کی یک موضوعی خصوصیت،ذات و صفات ِ نبی V کے تنوع سے ،ڈی کنسرکٹ ہوجاتی ہے،اور اسی کے دوران میں نعت گو بہ طور تخلیق کاروہ آزادی حاصل کرلیتاہے جس کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ہے۔


تسلیم کہ ادبی تنقید اس بنیادی مفروضے کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتی کہ ادب ،ایک انسانی اور ثقافتی سرگرمی ہے،لہٰذا اس کے مطالعے کے لیے وہ سب طریقے جائز ہیں،جو انسان کی ذہنی اور ثقافتی دنیا کی تفہیم و تعبیر کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ نعت کا محرک عام طور پر د وقسم کے جذبات ہیں: عقیدت اور عشق۔ان دونوں کا محور ایک عظیم المرتبت ذاتِ گرامی V ہے ،لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دونوں جذبات انسانی دل میں موجزن ہوتے ہیں،اور اسی زبان میں ظاہر ہوتے ہیں جسے عام روزمرہ دنیا سے لے کر شعری اظہار کے لیے اختیار کیا جاتاہے۔نعتیہ شاعری کی زبان غزل ونظم کی زبان سے مختلف ہوسکتی ہے، مگر یہ انھی شاعرانہ وسائل کو بروے کارلاتی ہے ،جو دیگر شعری اصناف سے مخصوص ہیں۔دوسرے لفظوں میں بالواسطہ طور پر دو باتوں کو تسلیم کیا جاتاہے۔اوّل یہ کہ غیر معمولی عقیدت و عشق کے جذبات ،عام انسانی زبان اور رائج شاعرانہ وسائل کی نفی نہیں کرتے۔دوم یہ کہ نعت لکھنا بھی ایک انسانی تخلیقی عمل ہے ۔چوںکہ یہ دونوں باتیں نعت میں موجود ہیں ،اس لیے نعت کے معانی بھی ہیئتی تصور کیے جاسکتے ہیں۔ہیئتی معنی سے مراد وہ معنی ہے جو کسی پہلے سے موجود موضوع کاعکس نہیں ہوتا ،بلکہ متن کی تخلیق کے دوران میں وجود پذیر ہوتا ہے۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ نعت کا موضوع متعین ہونے کے باوجود ’نئے معانی ‘ کی تخلیق کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ اگر یہ نئے معانی نہ ہوں ،اور صرف چند ایک موضوعات کی،یکساں اسلوب میں تکرار ہو تواس کے ضمن میں ہم مذہبی عقیدت کے تحت خاموش احترام کا مظاہرہ کرسکتے ہیں،لیکن اس کے ادبی حسن کی داد کے جذبات محسوس نہیں کرسکتے۔ نعت میں ادبی حسن ،معنی آفرینی ایک ساتھ ہوتی ہے۔ نعت کی معنی آفرینی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہر چند یہ ایک ہیئتی عمل کی پیداوار ہے ،مگر یہ محض ایک لسانی کھیل نہیں ،بلکہ اس کا دائرہ مذہب، ثقافت، سماج اور انسانی نفسیات جیسے منطقوں میںاہم تبدیلیوںتک پھیلا ہے۔ ان سب کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں،صرف چند ایک کی طرف اشارات ہی کیے جاسکتے ہیں۔


نعت گوئی کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں ،تاہم ان میںعقیدت و عشق خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت ،کسی بات کو درست سمجھ کر اس پر دل کو مرتکز کرنا ہے۔کسی بات کو درست سمجھنے کے کئی طریقے اور ذرائع ہوسکتے ہیں:ذرائع میںخود آدمی کی اپنی صلاحیت ِ امتیاز اور دوسرے لوگ اور متون شامل ہیں ۔واضح رہے کہ کسی آدمی کی صلاحیت ِ امتیاز کبھی خود مختار نہیں ہوتی،اسے کسی ’اور‘ پر انحصار کرنا پڑتا ہے،یعنی دوسروں کی آرا، تحقیقات،کتب وغیرہ پر۔اسی طرح جو صاحبِ علم اور راوی مستند سمجھے جاتے ہیں،وہ بھی علم کا ذریعہ ہوتے ہیں۔نیز زبانی یا تحریری روایت ،اورالہامی متون خود علم اور ذریعۂ علم ہیں ۔سوال یہ ہے کہ عقیدت کا تعلق ،بات اور اس کی سچائی تک پہنچنے کے ذریعے سے ہے ،یا نہیں؟کیا ہر وہ بات جسے ہم کسی بھی ذریعے سے درست سمجھیں، اس کے سلسلے میں ایک طرح کا ،یا کئی طرح کے جذبات محسوس کرتے ہیں؟ ان سوالات کے سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں،کیوں کہ ہر آدمی کے یہاں ایک ہی شے ،یا ایک ہی تصور مختلف جذبات یا احساسات کو تحریک دیتاہے۔مگر ہم اتنا ضرور کَہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں تحسین کے جذبات پیدا کرتی ہے،جن کا تعلق باہر سے ہے ؛ان باتوں کی سچائی ہمیں آسودگی دیتی ہے، جن کا تعلق ہماری نفسی الجھنوں کے دور ہونے سے جنم لیتی ہے ،اور ان باتوں کی سچائی ہمارے دل میں احترام و عقیدت کے جذبات ابھارتی ہے،جن کا تعلق ہماری روح سے ہے۔احترا م و عقیدت کا تعلق ،ایک طرف خود کسی مخصوص بات سے ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے سے ہے۔ یوں عقیدت ،جن احساسات کی حامل ہوتی ہے ،وہ ذریعہ اور بات دونوں کو محیط ہوتے ہیں۔قیاساً کہا جاسکتا ہے کہ عقیدت اور عقیدے میںایک طرح کا ’انٹرپلے‘ ہوتا ہے؛دونوں ایک دوسرے کے ہم قریں ہوتے رہتے ہیں،اور دونوں میں لامتناہی طور پر مکالمہ جاری رہتاہے ۔بایں ہمہ کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ،جہاں عقیدت کا عقیدے سے تعلق نہیں ہوتا۔غیر مسلموں کی نعتوں میں عقیدت بدرجہ اتم ہوتی ہے ،مگر وہ مسلمانوں کے عقیدے میں شریک نہیں ہوتے۔


ان معروضات کی روشنی میں ہم کَہ سکتے ہیں کہ جب عقیدت ،نعت کی بنیاد بنتی ہے تو یہ ایک سادہ سا، سامنے کا ،عام سا معاملہ نہیں ہوتا۔ نعت کا تخلیقی عمل،محض چند بندھے ٹکے موضوعات تک محدود نہیں ہوتا۔یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں رسمیت کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ،مگر یہ ان شعرا کے یہاں ہوتا ہے ،جن کی نعتیہ شاعری کا محرک محض ثواب یا دنیوی اجرو شہرت ہوتے ہیں،لیکن جن شعرا کے یہاں حقیقی عقیدت موجود ہوتی ہیں،یعنی جنھوں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں نبی پاک V کی حقیقت کو محسوس کیا ہوتا ہے ،اور غیر شعوری انداز میں احترام و سپاس کے جذبات محسوس کیے ہوتے ہیں،ان کی شاعری رسمی نہیں ہوتی۔ تاہم شرط یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کی اعلیٰ درجے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض جذبہ ،شعر کے لیے کافی نہیں ہوتا؛وہ تو محرک ہوتا ہے ، اور محرک کیا کرسکتا ہے ،اگر معروض ِ تحریک کمزور یا سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت بہت سوں کے یہاں موجود ہوسکتی ہے ،مگر وہ خود اپنے آپ میں نعتیہ شاعری کا واحد محرک نہیں ہوسکتی۔یہ بھی درست ہے کہ عقیدت کا گہرا جذبہ ،کسی بھی دوسرے حقیقی،گہرے جذبے کی طرح اپنا اظہار چاہتا ہے ، مگر عقیدت ،نعت میں اسی وقت منقلب ہوتی ہے،جب شعر گوئی کی عمومی صلاحیت موجود ہو۔


عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتوں میں نبی پاک V کی ذات وصفات کی سچائی کی تقدیس ،ان کی کہی گئی باتوں،اور کیے گئے اعمال کی تکریم ،مدحت ہوتی ہے ۔ عقیدت کے تحت لکھی نعتوں میں اورثواب ومغفرت کی آرزوسے عبارت نعتوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ عقیدت تو ایک طرح سے ،سچائی اور اس کی عظمت کو خراج تحسین ہے؛عقیدت،بے غرض ہوتی ہے،یعنی خراج ِ عقیدت خود اپنا آپ انعام ہے ۔جب کہ ثواب و مغفرت کی نیت سے لکھی گئی نعتیں ،بہ ہر حال غرض رکھتی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ نبی صلعم کی ذاتِ گرامی مغفرت کا موجب ہے ،اور ان کی طرف رجوع بالکل جائز ہے ۔


مندرجہ بالا گزارشات سے واضح ہوگیا ہوگا کہ عقیدت کا موضوع بھی کئی پہلو رکھتا ہے؛ اس کی وحدت میں کثرت کا انداز ہوتا ہے۔سچائی ،اور اس کی عظمت کو پورے اخلاص کے ساتھ خراج پیش کرنے کا رویہ ابتدا تا آخر موجود رہتا ہے۔ مظفر وارثی کی معروف نعتیہ نظم،عقیدت کے بیشتر اجزا کی حامل ہے۔

مرا پیمبر عظیم تر ہے

کمال خلاق ذات اس کی

جمال ہستی حیات اس کی

بشر نہیں،عظمت بشر ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی

ذرا سے جَو ،ایک چارپائی

بد ن پہ کپڑے بھی واجبی سے

نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی

یہی ہے کل کائنات جس کی

گنی نہ جائیں صفات جس کی

وہی تو سلطانِ بحر وبر ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے


مظفر وارثی کی نعت میں،جو عمدہ شاعری کا نمونہ بھی ہے، عقیدت و عقیدے میں باہمی مکالمہ محسوس ہوتا ہے۔اب پنڈت دتاتریہ کیفی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے ،جن میں عقیدت موجودہے۔

ہو شوق نہ کیوں نعت ِرسولِ دوسرا کا

مضموں ہوعیاں دل میں جو لولاک لما کا

پہنچائے ہیں کس اوجِ سعادت پہ جہاں کو

پھر رتبہ ہو کم عرش سے کیوں غار ِ حرا کا


میر تقی میراور کلاسیکی عہد کے دیگر شعرا کے یہاں ،نعت کا موضوع عقیدت کے ساتھ ساتھ ثواب و مغفرت کا بھی ہوتا تھا۔مثلاً یہ شعر دیکھیے:

جلوہ نہیں ہے نظم میں حسنِ قبول کا

دیواں میں شعر گر نہیں نعتِ رسول کا


واضح رہے کہ اس وضع کے نعتیہ اشعار محض نعت گو کے دلی اخلاص کو ظاہر نہیں کرتے ،بلکہ ثقافتی سطح پرایک نئی نشانیات کو ۔۔۔یعنی کچھ نئی ثقافتی علامتوں اور رسمیات کوجو مخصوص معانی کی حامل ہوتی ہیں۔۔۔۔ متعارف کرواتے ہیں۔اس نشانیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مختلف سماجی وذہنی سرگرمیوں کی دنیویت میں مذہبی والوہی تقدیس شامل ہوتی ہے۔اور اس کے طفیل اس فاصلے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جو دنیویت اور مذہبیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،اور جس کے بڑھنے سے نہ صرف سماجی گروہوں میں نظریاتی تفریق گہری ہوتی ہے ،بلکہ گروہوں میں انتہاپسندانہ میلانات بھی پید اہوتے ہیں ۔یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ عقیدت کے تحت لکھی گئی نعتیں سماجی ہم آہنگی اور ثقافتی رواداری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔مثلاًخواجہ عزیر الحسن مجذوب کا ایک شعر ہے۔

اب بعد ِنعت ہرزہ سرائی کا منھ نہیں

مجذوب شعر کہنے سے معذور ہوگیا


ہرزہ سرائی سے مراد محض دیگر اصناف شعر نہیں، جن کی اہمیت شاعر کی نظر میں کم ہوجاتی ہے،بلکہ نعت کہنے والی زبان، مختلف نقطہ ء نظر ، مختلف مذہب ومسلک کے حامل لوگوں کے خلاف نازیبا الفاظ ادا کرنے سے ابا کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام طرح کے سماجی فساد ہرزہ سرائی سے شروع ہوتے ہیں۔اس بات پر بارِدگر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت چوں کہ اس زبان کے ذریعے ثقافت کا حصہ بنتی ہے،جسے سب مذاہب کے لوگ ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں، اس لیے عقیدت سے تشکیل پذیر ہونے والی نشانیات ہندئوں ، سکھوں اورد وسرے مذاہب کے شعرا کو بھی نعت لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ان کی نعتیں ،پیمبر اعظم V کی ذات کی بے غرضانہ مدحت کے ساتھ ساتھ ، یہ امر بھی باور کراتی ہیں کہ سچائی،اپنے لیے عقیدت مند خود پیدا کرلیتی ہیں،اور یہ عقیدت مند سماجی ہم آہنگی کی قابل قدر علامت ہوتے ہیں۔


عشق کا جذبہ ،عقیدت کا مقابل نہیں ،مگر عقیدت سے کہیں زیادہ گہرا ہے ۔عقیدت میں رسمیت ہوسکتی ہے ،مگر عشق میں نہیں؛عقیدت میں ایک طرح کی اجتماعیت ہے ،مگر عشق انفرادی ،داخلی ،موضوعی ہے۔اگر عقیدت کے تحت لکھی گئی نعت ایک ثقافتی کردار اداکرتی ہے ،تو عشق ِ نبی V میں لکھی گئی نعتیں، روحانی رفعت اور نفسیاتی قلبِ ماہیت ممکن بنانے کا غیر معمولی امکان رکھتی ہیں۔تاہم ایک فرد کی روحانی رفعت کبھی اس شخص کی ذات تک محدود نہیں رہتی؛چراغ کی مانند اس کی لو،ارد گرد کے افراد کی روحوں میں چھائی تاریکی کو مٹاتی ہے ،کبھی روحانی رفعت پانے والے کے عمل کے ذریعے، کبھی اس کے قول و گفتگو کے وسیلے سے ،اور کبھی سماج میں اس کی خاموش شرکت سے۔ واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جہاں عقیدت ہو،وہاں عشق بھی موجود ہو،مگر جہاں عشق ہوگا،وہاں عقیدت لازماً ہوگی۔دوسرے لفظوں میںکہا جاسکتا ہے کہ عشق،عقیدت کی انتہا بن سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں عشق بے بصر نہیں ہوتا؛ اس میں بھی سچائی پر یقین موجود ہوتا ہے۔عشق ِ نبی V ان عظیم صداقتوں پر اعتقاد کا حامل ہوتا ہے ،جن کا علم مستندمذہبی متون(تحریری وزبانی) کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔


عشق نبی V کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد V ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیV کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورت ِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیV میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی V کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ احمد جاوید کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:

کا ش اس بات سے محفوظ رہیںیہ لب وگوش

جو مرے سید وسردار نے فرمائی نہیں


گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی V کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذبہ محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول Vکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی، بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے)۔ جدید شاعری میں منفی قلب ِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورتِ حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، خالد احمد کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں۔

زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض ِعشق رسول ہوں

بڑی پاک خاک ہے یہ گلی، میں اسی کی دھول کا پھول ہوں


یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوئوں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلب ِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبیV کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی V میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوئوں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں   


عالم بشریت کی زد میں آسمان ۔۔۔یعنی وہ بلند ترین مقام ،جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،اور جس کے سبب،انسانی تخیل عظمت وبلندی کا تصور کرسکتا ہے۔۔۔کے ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی بساط کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نبیVکی معراج ،بشری دنیا کو یہ تحریک دیتی ہے کہ وہ خاک سے افلاک تک پہنچے۔یہی کچھ مقدس تجرید کے عشق میں ہوتا ہے۔

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول

کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول (بیدم وارثی)

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے

کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا (پیر نصیر الدین پیر)


مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے، مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول V سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی V کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوئوں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میںتعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگر اقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اقبال کی شاہکار نظم’ مسجد ِقرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی، اور جو تکمیلِ فن کا مظہر ہوتی ہے۔

مرد ِخد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ

عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام

تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو

عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام

عشق کی تقویم میں عصرِرواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

عشق دمِ جبرئیل ،عشق دلِ مصطفیٰ

عشق خدا کارسول ،عشق خدا کا کلام

عشق کے مضراب سے نغمہ ء تار حیات

عشق سے نورِحیات، عشق سے نارِحیات


آخر ی بات !اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔نعت اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں نعت کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میں جب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول V کی طرف رجوع کرنے لگے۔پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔ نعتیہ شاعری مذہبی قومی شناخت کی تشکیل کا ذریعہ بنی،لیکن اس موضوع پر گفتگو کسی اور موقع پر! ٭٭٭








فکروفن

  • داغؔ کے کلام میں حمد و نعت ۔ ڈاکٹر دائود رہبر
  • کلامِ محسنؔ کاکوروی ایک تنقیدی مطالعہ ۔ سلیم شہزاد
  • مسدس حالیؔ کا اسلوبیاتی مطالعہ ۔ ڈاکٹر محمد اشرف کمال
  • اقبال سہیل اور موجِ کوثر ۔ پروفیسر مولا بخش
  • حسرت موہانی کا شعرِ عقیدت ۔ خورشید ربانی
  • کلامِ رضا پر ایک نظر ۔ ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان
  • حافظ مظہرالدین جدید اُردو نعت کا پیش رو ۔ امین راحت چغتائی
  • اُردو نعت کا چہار چمن ۔ ڈاکٹر تحسین فراقی
  • میری نعت ۔ امین راحت چغتائی
  • افضل خاکسار کی نعتیہ شاعری ۔ ڈاکٹر رابعہ سرفراز
  • کیفِ مسلسل (مہرجہاں افروز-ایک تاثر) ۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید
  • عزیز احسن کا نعتیہ سفر، تہذیبی ورثے کی بازیافت ۔ کاشف عرفان
  • مشاہد حسین رضوی کی نعتیہ شاعری ۔ سلطان سبحانی ۳۵۸
  • منظر عارفی لمحہ موجود کا ممتاز نعت گو ۔ محسن اعظم ملیح آبادی

مکالمات

  • مذاکرہ: شرکاء:ڈاکٹر سید تقی عابدی، پروفیسر انوار احمد زئی، ڈاکٹر عزیز احسن، صبیح رحمانی، ڈاکٹر تنظیم الفردوس، آغا طالب، اطہر حسنین ۔ روئیداد: محمد جنیدعزیز خان
  • انٹرویو : سحر انصاری ۔ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر

مطالعاتِ / جائزے

  • دبستانِ کراچی کا نعتیہ منظرنامہ ۔ صبیح رحمانی
  • نعت رنگ شمارہ ۲۶ پر ایک نظر ۔ احمد صغیر صدیقی
  • نعت رنگ شمارہ ۲۶ کا تجزیاتی مطالعہ ۔ کاشف عرفان
  • خورشید ناظر کی نعتیہ خدمات ۔ ڈاکٹر نعیم نبی
  • شاہ محمد ولی الرحمن ولی نعمانی القادری ۔ منظر عارفی

ایوانِ مدحت

اثرؔ زبیری لکھنوی مولانا- تبسّمؔ، صوفی غلام مصطفی- اسعدؔ شاہجہاں پوری- اخترؔ الحامدی الرضوی- انورؔ مسعود - امجدؔ اسلام امجد- ریاض حسین چودھری- بدرؔ ساگری- انجم رومانی- ایاز ؔصدیقی- الطاف ؔاحسانی- صابرظفر- باقیؔ احمد پوری- آثمؔ نظامی- اسد ؔثنائی- بشیرؔ احمد بشیر- اخترؔ سہیل- احمد صغیر صدیقی- ضیاء الدین نعیم- کوثر نقوی- قاسم یعقوب - کاشف عرفان- منظر عارفی- نذرعابد - ازہرؔ درانی- اقبال حیدر


نظم بعنوان ’’نعت رنگ‘‘ (سمیعہ ناز، برطانیہ)

نعت نامے

ریاض حسین چودھری (سیالکوٹ)

۲۳؍مئی ۲۰۱۷ء


سیّد صبیح رحمانی صاحب … السلامُ علیکم … مزاجِ گرامی!


نعت رنگ ۲۶ موصول ہوا۔ حسب معمول دیر آید درست آید والے محاورے پر ایمان لاتے ہی بنی۔ تلاشِ ذات کا سفر بھی اجتماعی شعور کا ہی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ آپ نے ابتدایئے میں سچ کہا ہے کہ ادب و تہذیب کا کام اپنے اظہار میں بے شک فردیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی صورت گری میں سماجی رجحانات اور گروہی رویے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ واقعی فن خلا میں تخلیق نہیں ہوتا۔ ہدایت آسمانی کے انکار سے جنگل کا قانون سکہ رائج الوقت ٹھہرتا ہے۔ نام نہاد دانشور نجانے کیوں انسانی معاشروں کو حیوانی معاشروں کا رزق بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ شاعرِ مشرق نے بہت پہلے خبردار کردیا تھا کہ:

ع جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


اب تو بعض صورتوں میں دین کی آڑ میں چنگیزی کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ دہشت گردی اسلام کی ضد ہے۔ لیکن ہمارے جرمِ ضعیفی کی وجہ سے اسلام دہشت گردی کے مترادفات میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کیا آزادی مادر پدر آزادی کا نام ہے، کیا تمام اخلاقی اقدار کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دینے کا نام روشن خیالی ہے۔

ع محو حیرت ہوں کہ دنیا کیاسے کیا ہو جائے گی


اپنے تہذیبی، ثقافتی اور روحانی وجود کے اندر جھانک کر دیکھئے ہر اُفق پر شہرِ حضور کی روشنی پُرفشاں نظر آئے گی۔ ہر لمحہ محو ثنا ہے، ہر ساعت محو درود ہے، فضائے عشق محمد میں گم ہو جانا ہی زندگی کی معراج ہے۔ مادر پدر آزادی مانگنے والے پتھر اور دھات کے زمانے کو آواز دے رہے ہیں، غار کی زندگی کی طرف لوٹ جانا کہاں کی ترقی پسندی ہے؟


ڈاکٹر اشفاق احمد انجم صاحب نے میرے تین اشعار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے :

مدینے کے جزیرے میں مری کشتی بھی آپہنچی

خزانہ سامنے ہو تو بھلا نقشہ میں کیا مانگوں

ریاضِ خوش نوا کو بھی رعایا میں رکھیں شامل

محمد کی غلامی کی خدا کی انتہا مانگوں

چراغِ نعت جلتے ہیں مرے چھوٹے سے کمرے میں

مرے آنگن کی چڑیاں بھی درودِ پاک پڑھتی ہیں


آیئے ڈاکٹر صاحب کے تنقیدی ارشادات کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں:


(i) ’’مدینہ ’جزیرہ‘ تو نہیں ہے۔‘‘


(ii) ’’پہلا مسئلہ تو ’غلامی کی انتہا‘ کا ہے۔یہ کیسی ہوتی ہے؟ دوسرے ردیف ’مانگوں‘ غلط ہے یعنی ریاض اور مانگنے والا یہاں دو الگ الگ شخصیتیں ہو جاتی ہیں۔ مطلب مانگنے والا ’ریاضِ خوشنوا‘ کے لیے مانگ رہا ہے۔ جبکہ ریاض خود اپنے لیے مانگ رہا ہے۔ اس صورت میں ردیف مانگے ہونی چاہیے۔ نیز جب خدا سے مانگا جارہا ہے تو ’رکھیں‘ صیغہ جمع قطعی غلط ہے۔ اسے ’رکھے‘ ہونا چاہیے تھا‘‘۔


(iii) ’’چھوٹے سے کمرے میں صرف ایک ہی چراغ کافی ہے، ’جلتے‘کی بجائے ’جلتا‘ بہتر ہوتا۔ اس کے علاوہ شجر و حجر کے تعلق سے تو روایاتِ صحیحہ موجود ہیں کہ یہ سب تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے ہیں۔ لیکن یہ روایت کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتی کہ چڑیاں درود شریف پڑھتی ہیں۔ اور اگر ’چڑیاں‘ سے ’مراد‘ گھر کی بچیاں ہیں تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ گھر کی بجائے آنگن میں کیوں پڑھتی ہیں؟ نیز چراغِ نعت صرف آپ کے کمرے میں جلتاہے؟‘‘


میں اس تنقید کے جواب میں کیا کہوں، آپ نے میری صحت کاملہ کے لیے دعا کی ہے، محبتوں کا بے حد شکریہ، پائوں کا زخم بڑی حد تک مندمل ہو چکا ہے۔ باقیات سے نبردآزما ہوں، مزید دُعائوں کی ضرورت ہے، گردے کے انفیکشن کا مسئلہ بھی آپڑا ہے۔

٭٭٭


ڈاکٹرعزیز ابن الحسن (اسلام آباد)


۲۲؍اگست۲۰۱۶ء


آپ کی ارسال کردہ ساری کتابیں مل گئی ہیں اس خوبصورت علمی تحفے پردل کی گہرائیوں سے میں آپ کاممنون ہوں۔ یہ میرے لیے اور میرے طلبہ کے لیے مستقل طورپر علمی معاونت کاسامان ہے۔ اوراس موضوع پرکام کرنے والے ہمیشہ آپ کے ممنون رہیں گے۔ بہت شکریہ۔


ہم آپ کو معیار کے ۴ شمارے بھجوارہے ہے۔ازرہِ نوازش ان کے پہنچنے کی اطلاع فرمائیں ۔ دفتری ریکارڈ کے لیے معیار کے ایڈریس پراپنا فون نمبراورای میل ایڈریس بھجوادیں ۔تاکہ آئندہ بھی آپ سے رابطہ رہے۔

٭٭٭


ڈاکٹر عزیز ابن الحسن (اسلام آباد)


۲۸؍مارچ۲۰۱۷ء


’’نعت رنگ‘‘ شمارہ نمبر ۲۶ موصول ہوا۔ایک روحانی مسرت میسرآئی۔یہ شمارہ حضور پاک کی ثنا اورمدحت کے بہت سے رنگوں کونمایاں کرتاہے۔ یوںتواسی ’’نعت رنگ‘‘ میں نثر وشعر کے کئی زاویوں سے آنحضرت کے رفعتِ شان کی عکاسی کی گئی لیکن خاص طورپر مجید امجد کی رسالے ’’الفلاح‘‘ کے نومبر ۱۹۳۷ء کے شمارے سے شامل نعت پر مضمون اور ’’نعت‘‘ پڑھ کرایک کیف طاری ہوگیا۔


خاص طور پراس نعت کے معراج نامہ کے انداز واسلوب نے بہتر اثرچھوڑا ۔مجیدامجد کی نعت کا یہ شعر بطور خاص پسند آیا۔

حوروں نے آسمانوں کے ایواں سجا دیے

ہیں سب یہ اہتمام برائے رسول آج


آپ کایہ شمارہ نعتیہ ادب کی تاریخ میں اپنے معیار اورقدری حوالوں سے بہت اہمیت کاحامل ہوگا۔اللہ پاک آپ کے اس مقدس کام کو اپنی نظرِ کرم سے نوازے ۔آمین !

٭٭٭


خورشید رضوی (سعودی عرب)


۱۷؍جون۲۰۱۷ء


میں گزشتہ ایک ماہ سے جدہ میںہوں۔مزید ایک ماہ قیام کے بعدانشاء اللہ انگلستان کا قصد ہے۔امید ہے کہ پاکستان واپسی اکتوبر کے آغاز میںہوگی۔ میراپاکستانی موبائل یہاں قابل استعمال نہیں البتہ اس پرپیغام وصول ہوجاتے ہیں۔آپ کا پیغام بسلسلہ ارسال کتاب رات دیکھا۔امیدہے آپ نے ای۔ایم۔ای سوسائٹی کے پتے پربھیجی ہو گی۔ملازم وہاں موجود ہیں۔ڈاک محفوظ رہتی ہے مگر مجھے اکتوبر ہی میں مل سکے گی۔بہرحال اس کی اشاعت پرمبارکباد قبول کیجیے۔عید قریب ہے۔اس کی تہنئت بھی قبول فرمائیے۔

٭٭٭


امین راحت چغتائی (راولپنڈی)


۱۸؍اپریل۲۰۱۷ء


کھڑکی میں سے اندر آنے والی سورج کی روشنی میں بیٹھ کر آپ کوخط لکھ رہاہوں۔دونوں مضامین پہلے کے لکھے پڑے ہیں ۔سوچا تھااپنی نثری کتاب میں شامل کرلوں گا ۔


بہرحال اب آپ کی نذرہیں ۔


ب س: پہلے حافظ مظہرالدین ؒ والا مضمون شائع فرمادیں ۔

٭٭٭


ڈاکٹر اشفاق انجم ( مالیگائوں ، بھارت)


نعت رنگ شمارہ نمبر۲۶ پڑھ کر خوشی بھی ہوئی اورصدمہ بھی ہوا۔ خوبصورت اور وقیع مضامین کے پہلو بہ پہلو نعتیہ ادب کی قد آور اور ممتاز شخصیات کی رخصتی سے دل میں کسک سی محسوس ہورہی ہے۔ ابھی چند دنوں قبل اطلاع ملی کہ محترم ریاض حسین چودھری صاحب بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون-


مرحوم چودھری صاحب نے میرے مضمون ’’نعت میں منفی عناصر ‘‘ (مطبوعہ نعت رنگ ۲۵) کے ایک حصے پر تھوڑی برہمی کیساتھ اپنے خط میں لکھا تھا کہ،


’’ ڈاکٹر اشفاق انجمؔ نے اپنے احتجاجی مضمون ’’نعت میں منفی عناصر‘‘ میں جو اعتراضات اٹھائے ہیں اگر انہیں سو فیصد درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے کہاں لازم آتا ہے کہ آج کی نعت کے بہت بڑے ذخیرے کو اور شعرأ کی ایک بڑی تعداد کو دریا برد کردیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں جو اشعار درج کیے ہیں ان میں اکثر قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت ہیں بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے نعت کے اشعار ہیں ہی نہیں ۔ انہیں ضرور دریا برد کیجیے۔ کوئی صاحب ایمان آپ کی مخالفت نہیں کرے گا۔ خدا خالق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مخلوق ، افضل ترین مخلوق ، بے مثل بشر؟

ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر


(لیکن) نعت کے عظیم الشان سرمائے کو نظر انداز کردینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ’’شانِ محشر‘‘ اور ’’مرثیۂ شفاعت‘‘ کو واوین میں لکھ کر تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مدینہ منو ّرہ کے ذکر جمیل کو نعت سے خارج کرنے کی منصوبہ بندی کیا رنگ لائے گی؟ کل گنبد خضریٰ، موجب اقدس، روضۂ رسول در حبیب، وادیٔ بطحا اور خلد طیبہ کی معطر گلیوں کے ذکر کو بھی شجر ممنوعہ قرار دیا جائے گا۔ معجزات کے ذکر کو بھی نعت کے دائرے سے خارج کرنے پر اصرار کیا جائے گا۔ ڈاکٹر اشفاق انجمؔ صاحب ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دکھی امّت پہلے ہی اَن گنت خانوں میں تقسیم ہوکر اپنی اجتماعی قوت سے محروم ہوچکی ہے۔ اسے ایک پلیٹ فارم پر لانے کی سعی کیجیے، بکھری ہوئی ملّت اسلامیہ کو اتحاد کادرس دیجیے۔ ‘‘ (ص ۶۲۳، ۶۲۴)


مرحوم ریاض حسین چودھری صاحب نے کسی اور کا ٹھیکرا میرے سر پھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ’’شانِ محشر‘‘ اور ’’مرثیۂ شفاعت‘‘ اور ’’معجزات‘‘ وغیرہ پر اعتراضات کا تعلق مجھ سے نہیں ہے۔ ہاں! میں نے یہ ضرورلکھا ہے،


’’بیشتر شعرأ ایسے ہیں جو نعت کے مفہوم و مقصد ہی سے ناواقف ہیں اور ایسے ایسے مضامین نظم کرجاتے ہیں جن کا نعت سے کسی طور تعلق نہیں ہوتا۔ یہ لوگ تو ’’مدینہ شریف‘‘ کی مدح و تعریف کو بھی نعت کہتے ہیں۔ ‘‘ (نعت رنگ ۲۵، ص ۲۷۷)


میرا مضمون پڑھتے وقت پتہ نہیں چودھری صاحب کی ذہنی کیفیت کیا تھی کہ وہ اس قدر برہم ہوگئے ، میرے ان جملوں سے تو ان کی تحریر کی تائید نہیں ہوتی ، میں تو سمجھتا تھا کہ میر ے اس جملے ،

’’ لوگ تو مدینہ شریف کی مدح و تعریف کو بھی نعت کہتے ہیں۔‘‘

کی تفہیم نعت رنگ کے قارئین کے لیے مشکل نہیں ہوگی ورنہ میں ایک جملہ یہ بھی بڑھا دیتا کہ،

’’لوگ‘ ‘مدینہ شریف کی مدح و تعریف کو بھی نعت کہتے ہیں جبکہ اسے ’’منقبت ‘‘ کہا جائے گا۔‘‘


اس کی تائید ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کے ان جملوں سے بھی ہوتی ہے،


’’ نعت کا لفظ اپنے آپ میں مخصوص معنی رکھتا ہے یعنی اس سے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح مراد لی جاتی ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی دوسرے بزرگ یا اصحاب و امام کی تعریف بیان کی جائے تو اسے ’’منقبت‘‘ کہیں گے۔ ( نعت رنگ ۲۶، ص ۲۴)


اپنے بیان کی وضاحت کے لیے میں نے کچھ اشعار بھی درج کردیئے تھے جن کا نعت سے دور کا بھی علاقہ نہیں ۔ مثلاً

خاک جل کر ہوتے ہیں تو ہوں رسالت کے عدو

یا نبی کے ہم تو بس نعرے لگاتے جائیں گے

اتراتے پھر رہے ہیں جو نجدی

کب ہو گا انہیں زوال آقا

ندائے یا رسول اللہ لگاتے ہی رہیں گے ہم

جلانا تجھ کو نجدی ہے وطیرہ اہل سنت کا

جب زبانیں سوکھ جائیں پیاس سے

جام کوثر کا پلا احمد رضا !!


ہر ذی شعور میری جسارت سے متفق ہوگا کہ انہیں نعتیہ اشعار کسی صورت نہیں کہا جاسکتا، اس وضاحت کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ممکن ہے کچھ قاری ریاض حسین چودھری صاحب کی تحریر سے متاثر ہوئے ہوں تو ان کے ذہن اس تعلق سے صاف ہوجائیں۔


اللہ چودھری صاحب کی مغفرت فرمائے ، مجھ پر ان کی برہمی کا سبب صرف ان کا نعت سے خلوص اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی۔


شمارہ نمبر ۲۶ کا آغاز فراغ روہوی کی غیر منقوط حمد سے ہوتا ہے۔ میر ے خیال میں اس کی ردیف (عکس در عکس) حمدکے لیے مناسب نہیں ہے۔

کہاں کوئی رہا ہے عکس در عکس

وہی ہم کو ملا ہے عکس در عکس


اللہ کا عکس؟؟ فراغ صاحب نے عکس اور اصل کا فرق ملحوظ نہیں رکھا ہے۔ علاوہ ازیں ایسی کسرتی تخلیقات یعنی تحتہ النقاط، فوق النقاط، واسع الشفتین وغیرہ اپنے الفاظ کا گورکھ دھندہ بن کر رہ جاتی ہیں ان میں تاثیر و جاذبیت نام کو نہیں ہوتی۔ یہی حال ڈاکٹر صابر ؔسنبھلی کی Four in oneکا ہے۔ فراغؔ صاحب کی دوسری حمد کا شعر ہے،

فلک کیا ، خلا کیا، زمیں کیا، سمک کیا،مکاں لامکاں کیا دیار حرم کیا

درونِ کلیسا، درونِ شوالہ خداتھا، خدا ہے، خدا ہی رہے گا(ص ۲۰)


میر ے خیال میں یہ شعر کفر و شرک تک جا پہنچا ہے یعنی کلیسا اور شوالے میں پہلے بھی خدا تھا آج بھی اور کل بھی رہے گا!؟ یعنی مسجد ، مندر، رام رحیم میں کوئی فرق نہیں ہے؟ علاوہ ازیں اولیٰ مصرعے میں ’’کیا‘‘ منفی معنی دیتا ہے یعنی فلک ، خلا، زمین، سمک ، مکاں لا مکاں، دیارِ حرم کی کیا حیثیت ہے خدا (تو) درونِ کلیسا، درونِ شوالہ کل بھی تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا!!


ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کا مضمون ’’نعت ، بحیثیت صنف سخن‘‘ اہم مضمون ہے۔ ہمارے بعض ناقدین صرف مخصوص موضوع اور کوئی مخصوص ہیئت نہ ہونے کی بنا پر نعت کو ’’صنف سخن‘‘ تسلیم نہیں کرتے جبکہ یہی ناقدین ’’مرثئے‘‘ کو صنف سخن کا درجہ دیتے ہیں جبکہ یہ بھی موضوعی صنف ہے اور جو لوگ ’’مسدس‘‘ کو اسکی ’’ہیئت‘‘ قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ اسکی مسدسی ہیئت تو انیسؔ و دبیرؔ کی وجہ سے مقبول ہوگئی ورنہ ان سے قبل اور آج بھی مسدس کو مرثئے کی حتمی ہیئت تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس طرح رباعی کی ہیئت تسلیم شدہ ہے، آج بھی دیگر شعری ہئیتوں میں مرثئے کہے جارہے ہیں اس لیے جس طرح مرثئے کو موضوع کے اعتبار سے صنف سخن کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح نعت کو بھی ’’صنف سخن ‘‘ تسلیم کرلینا چاہئے۔


ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کا مضمون ’’نعتیہ مجموعوں میں تقاریظ ، دیباچوں اور مقدمات میں تنقیدی رویّوں کا جائزہ‘‘ حسب سابق بہت عمدہ ہے۔ مجھے ڈاکٹر موصوف کا یہ رویّہ بہت پسند ہے کہ وہ نئے نئے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اور اس کا تنقیدی رویہ نہایت مثبت ہوتا ہے۔ کلام کے حسن و قبح کی تشخیص میں وہ کمال رکھتے ہیں اور بلاخوف و تردّد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔


دیباچہ ، تفریظ یا مقدمہ نگاری بڑی ذمہ داری کا کام ہے جس کا مقصد کتاب اور صاحب کتاب پر جچی تلی اور صحیح رائے کا اظہار ہوتا ہے۔ (اس میں دیباچہ نگار کی علمی حیثیت بھی دائو پر لگی ہوتی ہے) لیکن آج کل بیشتر اہل قلم اسے آمدنی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ کتاب چاہے جیسی ہو ’’معاوضہ‘‘ مناسب ہونا چاہیے بس!!


علاوہ ازیں بعض حضرات تعلقات اور دوستی کے پا س ولحاظ میں مارے جاتے ہیں اور کتاب و صاحب کتاب کے تعلق سے وہ کچھ لکھ جاتے ہیں جو خودان کی اپنی علمی و ادبی حیثیت کے منافی ہوتا ہے جس سے ان کی ہی حیثیت مجروح ہوتی ہے۔ ایسی کئی ’’قدآور شخصیات‘‘ میرے علم میں ہیں جو معاوضے پر یہ کام کرتی ہیں اور تو جیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ ’’ہمارے نام سے کتابیں بکتی ہیں تو ہم معاوضہ کیوں نہ لیں!!


اپنے مجموعۂ کلام ’’فصیل بے چراغ ہے‘‘ کے لیے ایک صاحب سے دیباچہ کی فرمائش کی ۔ انہوں نے لکھا بھی اسی دوران حلقۂ ادب میں یہ بات بڑی تیز ی سے گردش کرنے لگی کہ جناب نے مجید کوثر اور عادل فاروقی سے دیباچہ نگاری کا معاوضہ کے ایک ہزار اور پانچسو روپئے وصول کیے، مجھ تک یہ بات پہنچی تو میں نے اپنے مجموعے میں ان کا دیباچہ شامل نہیں کیا۔ ان کے ایک دوست نے وجہ پوچھی تو میں نے صاف کہدیا کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ لوگ مجھے بھی کوثر اور عادل کی صف میں نہ شامل کرلیں۔ خیر۔۔۔ عزیز احسن صاحب نے بقانظامی کی جم کر کھینچائی کی ہے اور ہونی بھی چاہیے تھی اس قسم کے شعری رویوں کی سختی سے مخالفت کی جانی چاہیے تا کہ آئندہ کوئی شاعر ایسی جرأت نہ کرے۔


سیّد یحییٰ نشیط صاحب نے غالبؔ کی مثنوی ’’ امر گہر بار‘‘ کے ایک حصے ’’بیان معراج‘‘ میں بڑی محنت کی ہے لیکن ا ن کی نگارش لائق ستائش نہیں ہے بلکہ قابل گرفت ہے کیوں کہ یہ قرآن و حدیث سے متصادم ہے۔


حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امّ ہانی ؓ کے یہاں استراحت فرمارہے تھے کہ حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے حرم شریف لائے جہاں آپؐ کا سینۂ مبارک چاک کیا اور سنہری طشت میں آبِ زم زم سے دھویا، پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہوکر جبرئیل ؑ کیساتھ بیت المقدس پہنچے جہاں انبیاء کی امامت فرمائی اور پھر وہاں سے عالم بالا کا سفر شروع ہوا۔


غالبؔ نے اپنی مثنوی میں قمر کو فلکِ اوّل ، عطارد کو دوم، زہرہ کو سوم، ثمر کو چہارم، مریخ کو پنجم ، مشتری کو ششم اور زحل کو ہفتم فلک بتا یا ہے جبکہ یہ علم نجوم کی اصطلاحیں ہیں ۔


نشیطؔ صاحب نے ’’فلک اور سما‘‘ کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھا ۔ فلک قرآن کے مطابق وہ اجرام فلکی ہیں جو متحرک ہیں جنھیں سائنسی و جغرافیائی اصطلاح میں ’’سیّارہ‘‘ کہتے ہیں اور علم نجوم کی اصطلاح میں یہ ’’ستارہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ (ستارہ شناس اور ستارہ شناسی کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے) اور یہ ہمارے نظامِ شمسی کا حصہ ہیں ایسے کئی نظام شمسی خلا میں موجود ہیں ان کے علاوہ غیر متحرک روشن اجرام (ستارے) آسمانوں کی زینت ہیں(جو شیطانوں کو مارے جاتے ہیں) یہ تمام کے تمام ’’تحت السما‘‘ یعنی حقیقی آسمانوں سے نیچے ہیں جو لوگ ’’فلک‘‘ کو ’’سما‘‘ جانتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔


نشیط صاحب نے غالب کے بیان کی وضاحت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر تمام افلاک (قمر ، شمس وغیرہ) پر پھیل گئی تھی اور ہر فلک پر آپ کا شاندار استقبال ہوا، سب مفروضات ہیں اگر ایسا ہی ہوتا تو پہلے آسمان کادربان جبرئیل ؑ کی دستک پر یہ نہ پوچھتا کہ کون؟ اور جواب ’’جبرئیل‘‘ ملنے پر یہ بھی نہ پوچھتا کہ ’’تمہارے ساتھ اورکون ہے؟ کیا انہیں طلب کیا گیا ہے؟؟ (ہر آسمان پر یہی صورت ِ حال پیش آئی) اس سوال و جواب سے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ سبع سماوات کے دربانوں کو بھی آپؐ کی آمد کی اطلاع نہیں تھی ورنہ وہ بھی افلاک کے دروازوں پر پھولوں کی مالائیں لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے کھڑے ہوتے!!


اسی طرح وہ تمام روایات بھی ضعیف ہیں کہ حوریں شاندار میک اپ اور گٹ اپ میں آپ V کی آمد کی منتظر تھیں۔ جنت کو بقعۂ نور بنادیا گیا تھااور ان کے خوبصورت لبوں پر طربیہ نغمات بھی رہے تھے۔ واقعۂ معراج تو اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ آپ V کی روانگی اور واپسی کا وقفہ ایسا ہے کہ عقلِ انسانی باور نہیں کرسکتی یعنی حضرت امّ ہانیؓ کے دروازے کی کنڈی کی حرکت بند نہ ہوئی تھی کہ آپ V سیرافلاک اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری دے کر واپس بھی لوٹ آئے۔


قرآن و حدیث میں سبع سماوات کا ذکر ہے اور ہر آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء ؑ سے ملاقاتیں کیں ان کے نام بھی افلاک کی ترتیب کے ساتھ درج حدیث ہیں جبکہ غالبؔ کی مثنوی میں اس سفر کی روداد بے ترتیب ہوگئی ہے جس کا اظہار خود نشیط صاحب نے بھی کیا ہے۔


نشیط صاحب نے غالب کو ماہر علم نجوم کی حیثیت سے پیش کیا ہے جبکہ غالب نے اپنی مثنوی میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس زمانے میں عام سی باتیں تھیں۔ دہلی میں اس علم کے ماہرین اورکتابیں موجود تھیں اور آج بھی عملیات کی کتابوں میں ستاروں ، بروج انکے اثرات اور اس قسم کی تمام باتیں تفصیل سے موجود ہیں۔(نقش سلیمانی اور شمع شبستانِ رضا ملاحظہ ہوں) نجوم کی اصطلاحات سے واقفیت اور اسکے اسرار و رموز کا علم دو علاحدہ چیزیں ہیں اس کی واضح مثال غالبؔ اور مومنؔ ہیں، مومن کا شمار ان کے عہد کے نابغۂ روزگار ستارہ شناسوں میں ہوتا تھا جبکہ غالبؔ کے ستارہ شناس ہونے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میر حسنؔ کی مثنوی ’’سحر البیان‘‘ میں بھی علم نجوم کی بہت ساری اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں جبکہ میر حسن ستارہ شناس یا نجومی نہیں تھے۔غالبؔ کی معلومات اس علم سے متعلق سرسری سی تھیں اس میںانہوں نے مریخ کو سب سے زیادہ روشن سیارہ کہا ہے جبکہ سائنس اور نجوم دونوں کے مطابق ’’مشتری‘‘ سب سے زیادہ روشن ہے۔


غالبؔ کے بیانات کی تصدیق کے لیے نشیط صاحب نے اقبالؔ کے جاوید نامہ کو پیش کیا ہے اور انہوں نے بڑی غلطی کی ہے۔ اقبالؔ نے جاوید نامہ میں چاند پر (فلکِ قمر) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’جہاں دوست ‘‘ یعنی شنکر اور گوتم سے ملاقات اور امر پالی کا ذکر کیا ہے۔


کیا یحییٰ نشیط صاحب بتا سکتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کے متذکرہ ’’جہاں دوست‘‘ شنکر اور گوتم و امرپالی کا کہیں ذکر آیا ہے؟ اور کیا اقبالؔ ، شنکر بھگوان، گوتم ، امر پالی، بھگوان نٹ راج کے وجود کے قائل تھے!؟ جبکہ اسلامی عقیدے میں ان کی کہیں بھی گنجائش نہیں ہے۔


نشیط صاحب کے مضمون میں بہت سارے جھول ہیں، بہتر ہوتا کہ وہ اپنے مضمون میں مذہبی روایات اور مفروضات کے ذکر کی بجائے صرف مثنوی کی ادبی حیثیت اور شاعرانہ اظہار کے عمدہ نمونے کے طور پیش کرتے تو بہتر ہوتا کیوںکہ غالبؔ نے شعری تقاضوں کے مدنظر احادیث اورعلم نجوم دونوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔


ڈاکٹر ریاض مجید صاحب کا مضمون’’برسبیلِ نعت، تلفظ و اِملا‘‘ بھی بہت عمدہ ۔بعض اصحاب کا اِملا تو درست ہوتا ہے لیکن تلفظ اللہ ُ غنی!! اور جن کا املا درست نہیں ہے تو ان کی علمیت معلوم !!


ڈاکٹر مولا بخش نے اپنے مضمون ’’حمد و نعت کی شعریات‘‘ میں بڑی سچی بات کہی ہے،


’’حمد و نعت کی شاعری کا اہم موتیف عام شاعری ہی کی طرح احساسِ جمال اور احترامِ آدمیت ہے نیز اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ ہے یا اپنی ثقافتی اقدار و مداولات کی فنی پیش کش ہے۔محمد V صرف ایک نبی کا نام نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت ،اقداروروایات، اصول و نظریات ، حق و باطل ، نشست و برخاست، طرزِ زندگی، روحانی اسرار اور خدا اور کائنات کے درمیان ایک برزخ کا نام بھی ہے ۔اس لیے نعت کا موضوع پوری زندگی کو حاوی ہے اور اس مرکز پر شاعری وسیع الہئیتی کا تقاضہ کرتی ہے۔ ‘‘ ص ۱۱۱


نعت کا یہی موضوع اور وسیع الہئیتی بلکہ کثیر الہئیتی اسلوب اسے ایک مستقل صنف سخن کہلانے کا مستحق قرار دیتے ہیں۔


کاشف عرفان صاحب کی ماورائی باتیں خالص ادبی ذہن کے حامل افراد کے لیے کسی معمے سے کم نہیں ہیں۔ ہاں! سائنس سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ خاصے کی چیز ثابت ہونگی۔


ڈاکٹر نسیم الدین فریس کا مضمون ’’دکنی مثنویوں میں نعت‘‘ اپنے کلاسک کی بازیافت کہا جاسکتا ہے۔ دکنی زبان و ادب اور خاص طور پر اس کے شعری مضامین شمالی ہند کے اردو شعرأ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے جس کا اعتراف میرؔ نے بھی کیا ہے

ع ’’معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا‘‘


اوردکن کا یہ معشوق ولیؔ دکنی کے سوا اور کون تھا؟


گوہر ملسیانی صاحب کا مضمون ’’اردو نعت میں انوارِ قرآن‘‘ اچھا مضمون ہے لیکن انہوں نے بعض سقیم اشعار بھی جمع کردیئے ہیں جو طبع پر گراں گزرتے ہیں ، مثلاً

شب و روز مشغولِ صلی علیٰ ہوں

میں وہ چاکرِ خاتم الانبیاء ہوں

(سردار عبدالرب نشتر ص۱۷۹)


اس شعر میں ’’چاکر‘‘ یعنی نوکر محل نظر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شب و روز درود بھیجنا چاکری یا نوکری ہرگز نہیں ہے۔

رہتی ہے درودوں کی حسیں آس مرے پاس

آئے نہیں اس واسطے وسواس مرے پاس

(مسرور بدایونی ص ۱۷۹)


شعر میں ’’درودوں کی حسیں آس ‘‘کا مطلب میری تو سمجھ میں نہیں آیاکہ یہ کس قسم کی آس ہے؟ علاوہ ازیں رہتی کی مناسبت سے ’’آئے‘‘ کی بجائے ’’آتے‘‘ کا محل ہے اور درود کی جمع ’’درودوں‘‘ کس قاعدے سے بنائی گئی ہے؟

رحمت للعالمین، یٰسین و طٰہٰ، ص، ق،

جبرئیل آداب سے پیغامِ حق لاتے رہے

(سیّد افتخار حیدر ص۱۸۱)


شعر میں آداب کی بجائے’’ادب‘‘ کی ضرورت ہے۔

وہ محمد ہیں احمد بھی محمود بھی، حسنِ مطلق کا شاہد بھی مشہود بھی

علم و حکمت میں وہ غیر محدود بھی ظاہراً اُمّیوں میں اٹھایا گیا

(کرم حیدری ص ۱۹۷)


ثانی مصرعے میں ’’اُمّیوں میں اٹھایا گیا‘‘ عجیب ٹکڑا ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُمّی نہیں تھے بلکہ اہلِ عرب اُمّی تھے!!اس کے علاوہ ’’غیر محدود ‘‘ بھی اردو میں غیر فصیح ہے ’’لامحدود‘‘ مستعمل ہے۔

کیونکر ڈریں نہ تجھ سے عدو ، شاد دوست ہوں

پایا خطاب تو نے بشیر و نذیر کا

(احقر بہاری ص ۱۹۷)


احقرؔ صاحب نے ’’بشیر و نذیر‘‘ کی رعایت سے ’’ڈریں ، عدو، دوست، شاد‘‘ استعمال کیا ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ڈرانے آئے تھے خود سے نہیں!! مصرع یوں ہونا تھا،

’’کیوں نہ ڈریں خدا سے عدو ، شاد دوست ہوں‘‘

پیکر نور اے سراجِ منیر

ہے یہ خورشید میں تری تنویر

(اثر صہبائی ص۱۹۷)


’’یہ‘‘ حشو قبیح ہے۔

حفیظ ثابت صاحب کا مصرع ہے،

ع روحِ رواں کی ہے صدا صلی علیٰ نبیّنا (ص ۲۷۹)

مجھے ’’روحِ رواں‘‘ کی ترکیب سے متعلق کچھ کہنا ہے،


’’روح اور رواں‘‘ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں میرے خیال میں ان میں اضافت لگانا غلط ہوگا۔ ہم معنی الفاظ میں اضافت کی بجائے ’’وائو عطف‘‘ لگایا جاتا ہے۔ اس مقام پر ایک نکتہ یہ بھی بیان کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ’’روح‘‘ کا جسم میں کہیں ایک مقام متعین ہے یعنی یہ ’’رواں‘‘ نہیں ہے یعنی سارے جسم میں بہہ نہیں رہی ہے کہ اسے روح کیساتھ ترکیب دیا جائے، اسکے علاوہ رواں کا ایک مطلب ’’جان‘‘ بھی ہے جو صرف جانوروں سے متعلق ہے یعنی جانوروں میں صرف جان ہوتی ہے ’’روح‘‘ نہیں اس لیے انہیں ’’جانور یا جاندار ‘‘ کہتے ہیں۔ روح صرف انسانوں میں ہے اور اسی لیے یہ مکلف بھی ہے۔ اس لیے ’’روحِ رواں‘‘ کی بجائے ’’روح و رواں‘‘ استعمال کرنا چاہیے۔ ‘‘


اس تعلق سے ماہرین لسانیات کی گراں قدر آراء کا منتظر ہوں۔


فاروقی صاحب غیر مسلم نعت گو شعرأ پر مسلسل مضامین لکھ رہے ہیں ۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے ۔ ’’جین و کرسچین نعت گو شعرأ ‘‘ یقینا معلوماتی مضمون ہے جو نعتیہ ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔


’’مجید امجد کی ایک نایاب نعت ‘‘ ڈاکٹر محمد افتخار شفیع صاحب کی امجدؔ سے عقیدت کا اظہار ہے ورنہ نعت میں کئی جگہ جھول ہے، مثلاً

ہے جبرئیل محو ثنائے رسول آج

ہے عاشق رسول ، فدائے رسول آج

(مجید امجد ص ۲۴۱)


ثانی مصرے میں ’’آج ‘‘ حشوہے!! آج سے عموماً ’’دن‘‘ مراد لیا جاتا ہے جبکہ یہاں بات ’’رات ‘‘ کی ہورہی ہے۔ وہ بھی واضح نہیں کہ یہ رات کونسی ہے!؟ علاوہ ازیں ’’عاشقِ رسول اور فدائے رسول‘‘ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ یا جبرئیل ؑ!!؟

درج ذیل مصرعے بھی محل نظر ہیں،

اور ہے خدا فدائے لقائے رسول آج

ہے آستانِ قدس پہ پائے رسول آج


کیا خدا تعالیٰ عاشقانہ جذبات رکھتاہے جو وہ رسول کے حسن پر فدا ہوجائے اور آستانِ قدس پر پائے رسول سے کیا مراد ہے؟ کرسیٔ الٰہی پر پائے رسول ؟؟ یہاں ’’آستان‘‘ کی بجائے ’’آسمان‘‘ کہا جاتا تو اس بے حرمتی سے شاعر محفوظ ہوجاتا ۔

حسنِ ازل کے چہرے سے پردے سرک گئے

حسنِ ازل ہے مستِ ادائے رسول آج


حسنِ ازل کے چہرے سے پردے سرکیں گے تو رسول مست ہونگے یا حسنِ ازل؟ اور اگر پہلے مصرعے میں ’’حسنِ ازل ‘‘سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو یہ مفتیانِ شرع متین کے لیے مسئلہ پیدا کرسکتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ’’حسنِ ازل‘‘ کے چہرے پر ایسے کونسے دبیز پردے پڑے ہوئے تھے کہ اللہ اسکے پار دیکھ نہیں سکتا تھا؟؟

ٹھکرا رہا ہے قیصر و کسریٰ کی سلطنت

یہ امجدؔ حزیں یہ گدائے رسول آج


کیا کسی نے امجد صاحب کو قیصر و کسریٰ کی حکومت آفر کی تھی جسے وہ ٹھکرارہے ہیں!؟ جو چیز ہماری ملکیت نہ ہو اسے ٹھکرانا کونسا کمال ہے؟


ڈاکٹرصابر سنبھلی کا مضمون ’’حدائقِ بخشش کے صنائع بدائع پر ایک اور نظر‘‘ اس سے قبل بھی ’’دبستانِ نعت‘‘(عادل آباد، بھارت) کے پہلے شمارے کے صفحات ۵۷ تا ۶۱ پر شائع ہوچکا ہے۔ جو صابر سنبھلی صاحب کے لیے حیرت انگیز ہیں اور اہلِ ادب جن کا آج تک نام طے نہیں کرسکے و ہ صدیوں سے ادبی کتابوں میں اپنے ناموں کیساتھ موجود ہیں ، مثلاً تجنیس تام، تجنیس ناقص، تجنیس مرکب وغیرہ اب یہ الگ بات ہے کہ صابر صاحب ان الفاظ میں صنعت بتارہے جن میں صنعت ہے ہی نہیں مثلاً یہ شعر،

ہے تو رضاؔ ترا ستم جرم پر گر لجائیں ہم

کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں

(ص ۲۴۳)


شعر پر صابرصاحب ’’بجائے۔ بجائے‘‘ میں صنعت بتاتے ہیں لیکن انہیں اگر صنعت کا نام معلوم نہیں ، وہ تجنیس تام کہتے ہوئے جھجکتے ہیں کیوںکہ اس میں تجنیس تام ہے ہی نہیں۔ تجنیس دو الفاظ میں ہوتی ہے یہاں بجائے بجاتا ہے میں (ء) زائد ہے اور دوسرے بجائے کا اِملا ’’بہ جائے‘‘ ہوتا اور ’’بہ‘‘ کوئی لفظ نہیں ہے کہ اسے صنعت مرکب ہی سمجھ لیا جائے۔


صابرؔ صاحب مضمون پر بحث کرتے کرتے بحور و عروض میں الجھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ’’ واسع الشفتین‘‘ کی صنعت سے متعلق احمد رضا صاحب کے اشعار مثال میں پیش نہ کرنے پر مؤلف’ بحرا لفصاحت ‘ مولانا نجم الغنی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہیں جیسے نجم الغنی نے کوئی بہت بڑا گناہ کردیا ہو!!


اسی قبیل سے حافظ عبدالغفار حافظ (کراچی) کا مضمون ’’حدائق بخشش کے متن کا المیہ‘‘ ہے ۔ حضرت احمد رضا کا شعر ہے،

سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

سونے والوں جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے

(ص ۲۵۰)


اس کے تعلق سے حافظؔ صاحب لکھتے ہیں،


’’شرر مصباحی نے اس کا وزن ’’فعل فعولن فعلن فعل فعل فعولن فعولن فع‘‘ بتایا ہے جو غلط ہے۔


حافظؔ صاحب نے اسے غلط تو کہہ دیا لیکن صحیح وزن نہیں بتایاجو ضروری تھا۔ تنقید یہ نہیں کہ کسی چیز کو غلط کہہ دیاجائے بلکہ اس کی تصحیح بھی کی جانی چاہیے۔


’’کرناٹک میں اردو کی نعتیہ شاعری‘‘ شاہ رشاد عثمانی صاحب کا کافی معلوماتی مضمون ہے لیکن انہوں نے بھی بعض سقیم اشعار نقل کیے ہیں، مثلاً

وہی نظر ہے زمانے میں کامیاب نظر

جو نقش پائے محمد کو ڈھونڈتی ہوگی

(منیر احمد حامیؔ ،ص ۲۵۸)


شعر کی ردیف ضائع ہوگئی ، یہاں ’’ہوگی‘‘ کی بجائے ’’ہے‘‘ کی ضرورت ہے۔

جو شخص مصطفیٰ کا مددگار ہوگیا

اللہ پاک اس کا مددگار ہوگیا

(سورجؔ کرناٹکی ،۲۵۹)


شعر میں قافیہ نہیں ہے اور اگر ’’مددگار‘‘ کو قافیہ تسلیم کریں تو ’’ایطائے جلی‘‘ کا عیب ہے۔ اس میں تجنیس تام بھی نہیں ہے۔


ڈاکٹر محمد سہیل شفیق (کراچی) کا مضمون ’’انجمن ترقی اردو میں ذخیرۂ نعت و منقبت‘‘ محققین کے لیے خاصے کی چیز ہے۔


احمد جاوید کا مضمون نئے لکھنے والوں کے لیے ہدایت نامہ ہے ۔ آجکل ایسے مضامین کی سخت ضرورت ہے کیوںکہ اکثرشعرائے کرام نعت کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔


محمد جنید عزیز خان کا مذاکرہ بھی متذکرہ بالا مضمون کی توسیع ہے اور بہت خوب ہے۔ پروفیسر سحر انصاری اور عزیز احسن معتبر ناقدین میں شمار ہوتے ہیں ان کی آرا اور تنقید بے حد نپی تلی ہوتی ہے ۔ اللہ انہیں تادیر سلامت رکھے۔ آمین!


’’فکر و فن‘‘ کے تحت شامل تقریباً تمام مضامین ٹھیک ٹھاک ہیں انفرادی کوششوں کی ستائش بھی ضروری ہے لیکن اس میں بھی اشعار کے انتخاب میں احتیاط ضروری ہے ورنہ شعروں کا انتخاب مضمون نگار کو رسوا بھی کرسکتا ہے۔

اختر ہوشیارپوری کے یہ اشعار بھی محل نظر ہیں،

زمانہ تو یہاں سے ہے وہاں تک

محمد ہیں مکان و لامکاں تک

(ص ۳۶۴)


’’زمانہ‘‘ توخود ’’اللہ‘‘ ہے (والعصر) جو ساری کائنات کو محیط ہے تو پھر یہ ’’مکان و لامکاں‘‘ اور ’’یہاںسے وہاںتک‘‘ کیا ہے؟

کب بامِ افق پر کچھ دھیرا ہے

سورج تو حرا سے پھوٹتا ہے

(ص ۳۶۴)


’’سورج کا پھوٹنا‘‘ عجیب بات ہے لوگ جدّت کے زعم میں زبان و حقائق سے روگردانی کرنے لگے ہیں ۔ کل کوئی صاحب یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’گنگا جمنا، راوی چناب، ہمالیہ سے اُگتے ہیں ۔اسکے علاوہ یہاں ردیف ’’ہے‘‘ کی بجائے ’’تھا‘‘ کا محل ہے ویسے سورج تو آج بھی افق ہی سے طلوع ہوتا ہے۔


احمد جاوید (بھارت) کے مضمون ’’وسیم بریلوی: نئی نعت کا پیشرو شاعر‘‘ میں وسیم بریلوی کے صرف ۹؍ اشعار پیش کیے گئے ہیں جن میں ایک بھی ’’نعت‘‘ کا شعر نہیں ہے۔ احمد جاوید صاحب نے زبردستی غزل کے اشعار کو نئی نعت کے عنوان سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مضمون کا پہلا ہی شعر عیب دار ہے،

کھڑی ہیں دست بستہ خوشبوئیں پھولوں کی پلکوں پر

کسی کا جیسے نعت پاک کہنے کا ارادہ ہے

(ص ۳۷۷)


اوّل تو پھولوں کی پلکیں نہیں ہوتیں، اساتذہ نے برگِ گل، دامنِ گل، کفِ گل، تبسمِ گل وغیرہ اور چشمِ نرگس جیسی تراکیب نظم کی ہیں۔ ’’پھولوںکی پلکیں‘‘ تو قیاس میں بھی نہیں آتیں ۔ یہاں کچھ رعایت کریں تو ’’نرگس کی پلکوں ‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ نرگس کو آنکھ سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’’کسی کا‘‘ قطعی مہمل ٹکڑا ہے اس کی بجائے ’’ہمارا جب سے‘‘ کہا گیا ہوتا تو شعر مزہ دے جاتا۔ اسی طرح،

فلک کو میزبانی کی سعادت جب ملی ہوگی

تو بے چاری زمیں کی رات آنکھوں میں کٹی ہوگی


شعر میں ’’ہوگی‘‘ شکّیہ صیغہ ہے اور زمانہ ماضی ہے تو یہاں ہوگی نہیں ’’تھی‘‘ کا محل ہے۔


ص ۴۱۵ پر نظیر رضوی الہ آبادی کا شعر ہے،

دشمن ہوئے اخلاقِ شہ دیں سے مسلماں

یہ معجزۂ خلق ہے یہ شانِ نبی ہے


مصرعۂ اولیٰ میں زبردست تعقید معنوی ہے یعنی مصرعے کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ

’’اخلاقِ شہِ دیں سے مسلمان دشمن ہوئے‘‘ جبکہ شاعر کی مراد ہے کہ اخلاقِ شہ دیں سے دشمن (بھی) مسلمان ہوگئے۔

کافور کیا جس نے زمانے کی سیاہی

وہ روشنیٔ شمع فروزانِ نبی ہے

(ص۴۱۵)


’’کافور کیا‘‘ غلط ہے ’’کی‘‘ چاہیے۔ روشنیٔ شمع فروزاں‘‘ بھی عجیب سی ترکیب ہے۔ فروزاں کا مطلب بھی روشن ہی ہے۔ اردو ترجمہ کریں تو ’’روشن شمع کی روشنی‘‘ ہوگا یعنی ’’روغنِ آملہ کا تیل!!‘‘

سیّد الکونین ہے جس کا لقب

رحمت دارین ہے جن کا خطاب

(ضیااحمد ضیا ،ص۴۸۷)


’’جس‘‘ اور’’جن‘‘ میں شتر گربہ کا عیب ہے۔

معیار ہے دنیا کے لیے اسوۂ حسنہ

سرنامۂ توحید کے ہیں نقشِ حسیں آپ

(عبدالکریم ثمر ،ص۴۸۸)


لفظ ’’حَسَنہ ‘‘ ہے ’’ حُسْنہ‘‘ نہیں۔ مصرعۂ ثانی میں واحد جمع کا عیب ہے یعنی ’’سرنامۂ توحید کے ہیں نقشِ حسیں آپ‘‘ چاہیے۔

سرمایۂ حیات ہے سیرت رسول کی

اسرارِ کائنات ہے سیرت رسول کی

(ساغرؔ صدیقی، ص ۴۸۸)


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تو ایک کھلی کتا ب ہے ’’اسرار‘‘ سے اس کا دور کا بھی علاقہ نہیں ہے ، یہاں اسرار کی بجائے ’’اظہار ‘‘ ہوناچاہیے تھا۔

چہروں سے برسنے لگے انواریقیں کے

ایمان سے ہونے لگی قلبوں کی صفائی

(فدا خالدی، ص۵۰۶)


قلب کی جمع ’’قلبوں‘‘ غیر فصیح ہے ’’قلوب‘‘ کہتے ہیں۔

وہ دلبر حق سرورِ کونین کہ جس کے

جبرئیلِ امیں در پہ کریں ناصیہ سائی

(ایضاً)


جبرئیل ؑ کی درِ نبی پر ناصیہ سائی کی کوئی سند ہے؟ یا پھر شعرائے کرام اپنی کرامتوں سے جبرئیل ؑ کو درِ نبی پر سجدے پر سجدے کروائے جارہے ہیں!؟

ترے جلو میں حدیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں

ازل ابد سے ادھر بھی خرام کرتا ہوں

(عارف عبدالمتین ، ص۵۰۶)


حدیں ٹوٹتی ہیں ’’پھوٹتی‘‘ نہیں ! عارف صاحب بتائیں گے کہ ازل ابد سے ادھر کونسی جگہ ہے جہاں وہ خرام کرتے ہیں؟؟

وہ لمحہ جو کہ تری یاد سے تہی گزرے

میں اپنے آپ پر اسکو حرام کرتا ہوں

(ایضاً)


شاعر کی زندگی میں یقینا ایسے لاکھوں لمحات گزرے ہوں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے تہی ہونگے یعنی شاعر کی زندگی کاایک بہت بڑا حصہ ’’حرام‘‘ ہوگیا!! ایسے بے تکے دعوے نیکی و ثواب کی بجائے عذاب کا باعث بن جاتے ہیں۔

بھینی بھینی خوشبو سے گھر مہکا ہے

شب کو خواب میں آنے والے کیسے ہونگے

(ع۔م۔مسلم ، ص۵۱۲)


اوّل تو کسی قرینے سے یہ نعت کا شعر لگتا نہیں دوسرے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے خواب میں آتے ہیں تو اپنے مکمل وجود اور واضح خدوخال کیساتھ تشریف لاتے ہیں اس صورت میں’’ آنے والے کیسے ہونگے‘‘بے معنی سوال ہے۔

سبیل اور صراط ہے اور روشنی ہے

اک عبد مولا صفات ہے اور روشنی ہے

(افتخار عارف، ص۵۱۴)


شعر میں ’’سبیل‘‘ سے کیا مراد ہے کچھ پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعت کا شعر ہے یا منقبت کا !!تیسرے یہ کہ کوئی عبد کسی حال میں ’’مولا صفات‘‘ نہیں ہوسکتا۔ ’’خالق ‘‘ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو کسی بندے میں نہیں ہے۔


افتخار عارف صاحب نے صراط ، صفات، ساتھ، صلوٰۃ بطور قافیہ استعمال کیے ہیں۔ اہل ہند ط۔ ۃ۔ ت۔ وغیرہ کا تلفظ ’’ت‘‘ سے کرتے ہیں لیکن لکھتے توصحیح ہیں۔ مملکت اہلِ عرب میں ان کا تلفظ بالکل جدا ہے اس لیے اصل تلفظ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ورنہ لوگ چراغ ، آگ، باغ، ناگ، قمیص، رئیس، خبیث جیسے الفاظ بھی ہم قافیہ استعمال کرنے لگیں گے۔ ماہرین لسانیات اورعروض دانوں نے عفوظی قوافی کو مکتوبی قوافی کے مماثل تسلیم نہیں کیا ہے تو قوافی کے لیے مکتوبی شکل میں یکسانیت لازمی ہے۔

محمد مصطفیٰ نے کس قدر اعجاز فرمایا

شتر بانوں کو شاہوں کی طرح ممتاز فرمایا

(خالد بزمی، ص۵۱۵)


’’اعجاز فرمایا‘‘ یہ کونسی زبان ہے؟

کھلتا ہے جو بابِ ذکرِ طائف

ہوجاتی ہے آنکھ آنکھ نم ناک

(سلیم شہزاد، ص ۵۱۶)


’’آنکھ آنکھ‘‘ غیر فصیح ہے ۔ہر ایک آنکھ بھی کہا جاسکتا تھا۔

فرمایا! انا مدینۃ العلم

اس قول نے سب فسوں کیے چاک

(ایضاً)

فسوں چاک نہیں کیا جاتا ’’توڑا‘‘ جاتا ہے۔


سلیم شہزاد قوافی کے پیچاک و فتراک میں الجھ کررہ گئے ہیں اس لیے ان کے یہاں شعریت نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔

ایک ذرّہ سے آسمانوں تک

نقش ہے جا بجا محمد کا

(ماجد الباقری، ص۵۱۷)


ایک ذرّہ !! کونسا؟ ذرّ ے ذرّے سے آسمانوں تک ہونا چاہیے تھا۔ نیز ’’نقش ہے‘‘ کی بجائے ’’نقش میں‘‘ چاہئے۔


طلعت سلیم کا مصرع ہے،

’’ہوائیں جس کی بوجھل آپ کی خوشبو سے رہتی ہیں‘‘ (ص۵۲۰)


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے کوئی ایسا لفظ نہیں استعمال کرنا چاہیے جس کے منفی معنی بھی نکلتے ہوں۔ ’’بوجھل‘‘ بادلوں اور ہوائوں کے لیے ا ستعمال ہوتا ہے، سو ٹھیک لیکن بوجھل کے معنی ہیں کثیف، تکدّر، گرانی، وزنی، بھاری، ظاہر ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو نہ کثیف کہی جاسکتی ہے اورنہ ہی گراں!! مصرع یوں بھی ہوسکتا تھا،

ع فضا جس کی معطر آپ کی خوشبو سے رہتی ہے


نسیم سحر(ص۵۲۲) اور افتخار عارف (ص۵۱۴) کی نعتیں ہم ردیف ہیں اورحق تو یہ ہے کہ نسیم سحرکی نعت افتخار عارف سے بہتر ہے۔

کلیم حاذق صاحب نے ’’ بُزُرْگ‘‘ کو ’’بُزْرُگ‘‘ نظم کیا ہے۔


’’ تمہارے بزرگ اوّل کا یہ ارفع کرشمہ تھا‘‘ (ص۵۲۶)


احسن زیدی کا مطلع ہے،

غروب تیرہ شبی اور طلوع صبح جمال

تری نظر کا کرشمہ تری جبیں کا جمال

(ص۵۲۷)


’’غروبِ تیرہ شبی‘‘ عجیب سی ترکیب ہے۔ نہ شب غروب ہوتی ہے نہ تیرگی!؟ غروب تو آفتاب ہوتا ہے۔

وہی فردوس کی خوشبو معطر ان سے چاروں سو

کہاں شب رنگ زلف ایسی یوں ہندی تل کہاں مہکا

(احسان اکبر، ص۵۳۰)


شعر میں ’’چاروں سو‘‘ غیر فصیح ہے ’’چہار سو‘‘ یا ’’چاروں طرف/سمت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ’’ہندی تل‘‘ کیا چیز ہے اور اس کی خوشبو کیسی ہوتی ہے؟

ٹھنڈا کر ڈالا صدیوں کی آتش کو

بادل سے کوندا اترا تھا ، دیکھا تھا

(منیر سیفی ، ص۵۳۱)


’’کوندا اترنا‘‘ غلط زبان ہے ’’کوند ا لپکتا ہے‘‘ اور یہ بجلی کی ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے جو جس شئے پر پڑتی ہے جلا ڈالتی ہے اور اگر ’’کوندا‘‘ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں تو شاعر کو ہزاروں استغفار کرنا چاہیے۔

کس نے زخموں پر شبنم سے ہاتھ رکھے

کوئی ہمارے بیچ آیا تھا ، دیکھا تھا

(ایضاً)


شعر یوں ہونا تھا،

کس نے زخموں پر شبنم سا ہاتھ رکھا

کوئی ہمارے بیچ آیا تھا ، دیکھا تھا


عیادت کے لیے آنے والے زخموں پر دونوں ہاتھ نہیں رکھتے !!


رہِ عرفاں دکھائی آپ نے پروازؔ بندوں کو

بشر جس راستے سے ماورا تھا آپ سے پہلے

(محمد یعقوب پرواز، ص۵۳۳)


شعر میں زبردست تعقید معنوی ہے، اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے ،


’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بشر جس راستے سے ماورا تھا (اسے) پروازؔ نے رہِ عرفاں دکھائی‘‘ اللہ کی پناہ!! ’’ماورا‘‘ پہلی بار ’’نامعلوم /اجنبی ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتے دیکھا ہے۔

ان کی نسبت سے مجھے سارا جہاں جانتا ہے

ورنہ میں کیا ہوں مجھے کوئی کہاں جانتا ہے

(علی رضا، ص ۵۳۷)


’’جہاں اور کہاں‘‘ میں ایطائے جلی کا عیب ہے۔

شوقِ دیدار میں ہوتی ہیں جو سطریں تخلیق

سننے والا انہیں اعجاز بیاں جانتا ہے

(ایضاً)


سطریں سنی نہیں پڑھی جاتی ہیں۔

میں بھی ہوتا کہ انہیں دیکھتا رہتا ہر دم

عکس جلوہ مری بینائی میں اترا ہوتا

(ڈاکٹر اشرف کمال، ص۵۴۴)


نور کا عکس نہیں ہوتا!! عکس کو ’’ ان کا‘‘ کردیں تو!


حافظ عبدالغفار حافظؔ صاحب کے ’’قصیدۂ نعت رنگ‘‘ پر ’’ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جو نامناسب ہے۔ ویسے قصیدہ اچھا ہے مطلع میں ذرا سی ترمیم کردیں تو بہتر ہوگا یعنی ’’اردوزباں‘‘ کی جگہ ’’خیر اللہ‘‘ رکھ دیں ۔ حافظ صاحب کا مطلع یوں ہے،

فخر پاک و نازش ہندوستاں ہے نعت رنگ

بالیقیں ’’اردو زباں‘‘ کا ترجماں ہے نعت رنگ

(ص ۵۴۵)


کاشف عرفان صاحب کی نعت اچھی ہے اس کے مطلعے اور مقطعے پر کچھ کہنا چاہوں گا۔

اس رنگِ محبت کے اثر میں ہوں ابھی تک

گھر لوٹ بھی آیا ہوں ، سفر میں ہوں ابھی تک

(ص ۵۵۰)


’’رنگ ‘‘ کی جگہ ’’جذب‘‘ زیادہ بہتر ہوتا۔

کاشف ابھی آلودہ ہے خواہش سے مرا دل

پتھر ہوں مگر کانِ گہر میں ہوں ابھی تک


’’گہر‘‘ کان میں نہیں ’’سیپ‘‘ میں ہوتا ہے ۔ ثانی مصرع یوں ہوتا تو،

ع ’’گوہر ہوں مگر ’’کانِ حجر‘‘ میں ہوں ابھی تک‘‘

کاشف صاحب سے ’’کانِ حجر‘‘ ترکیب داد چاہوں گا۔

یہ وہ صنف ہے جس کو فرشتے ہاتھوں ہاتھ سمیٹتے ہیں

یہ وہ چیز ہے جو سرکار کو جاکر دکھائی جاتی ہے

(ڈاکٹر شعیب، ص۵۵۲)


درود شریف کے تعلق سے تو سند موجود ہے کہ فرشتے درود شریف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچاتے ہیں لیکن ’’صنف‘‘ کے تعلق سے ایسی کوئی روایت یا سند !! شعرأ کو کم از کم نعت میں بد احتیاطی سے بچنا چاہیے۔

یہ احسان شعیبؔ ہے مجھ پر کالی کملی والے کا

یہ سوغات مدینے سے مجھ کو بھجوائی جاتی ہے

(ایضاً)


کونسی سوغات ؟ اس قسم کے دعوے کا شاعر کے پاس کوئی جواز بھی ہے؟

حجلۂ جاں تری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے

گوشۂ دل میں نہاں غارِ حرا لگتا ہے


(سیّد ابرار سالک ، ص۵۵۳)


’’اٹھتا ہے اور لگتا ہے‘‘ میں تقابلِ ردیفین کا عیب ہے۔

شدت یاس میں پڑھتا ہوں میں جب حرفِ درود

کاسۂ سر ترے قدموں میں جھکا لگتا ہے

(ایضاً)


یہ ’’ حرف درود‘‘ کیا ہے؟ کیا درود سے الگ کوئی چیز ہے؟؟


مولانا عبد الرحمن جامیؔ کی نعت میں کمپوزنگ کی بہت ساری خامیاں ہیں اس کے علاوہ جہاں جہاں فارسی شعر یا عبارتیں شائع ہوئی ہیں ان میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرورملتی ہے اس طرف توجہ دیجیے۔

اس شمع ہدایت سے ملتی ہے ضیا سب کو

جاری ہے مدینے پر فیضان محمد کا

(محمد شفیق اعوان، ص۵۵۷)


ثانی مصرعے میں ’’مدینے‘‘ کی بجائے ’’زمانے‘‘ ہوتا تو شعر آفاقی ہوجاتا ۔


صفحہ ۶۵۹ پر مجید اللہ قادری صاحب نے ایک شعر درج کیا ہے،

اور بھی ارض وطن میں ہیں ولے

سب شماروں سے جدا ہے نعت رنگ


شعر میں ’’شماروں‘‘ کی بجائے ’’رسالوں‘‘ کا محل ہے شاعر نے شمارے اور رسالے کافرق ملحوظ نہیں رکھا ۔


تنویر پھول صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں،


’’نعت نامے میں احمد صغیر صدیقی صاحب کا مکتوب زیر نظر آیا۔ افسوس کہ ان کو راقم الحروف کی حمد کا یہ سادہ سا مقطع پسند نہیں آیا،

پامال ہے یہ گلشن ہستی میں ہو رہا

فریاد لایا پھول ہے تیری جناب میں

(ص۶۶۳)


احمد صغیر صدیقی صاحب کو مقطع پسند نہیں آیا تو اس کی وجہ بھی صاف ہے کہ یہ فصاحت و بلاغت اور صرف و نحو کے اصولوں پر کھرا نہیں اترتا۔ شعر اگر اس طرح ہوتا تو صدیقی صاحب کو یقینا پسند آتا،

پامال ہورہا ہے خس و خار کی طرح

فریاد پھول لایا ہے تیری جناب میں


نعت رنگ شمارہ نمبر ۲۶ کے بیشتر مضامین عمدہ ہیں ۔ شعری حصہ کمزور ہے مجھے صرف ان تین اشعار نے متاثر کیا ؛

کس بلیغ انداز میں ساری دعائیں مانگ لیں

دل نے بس اک بار رو کر رحمت عالم کہا

(سیّد قمر حیدر قمر، ص ۵۴۰)

وہ ساعتِ نایاب جو گزری تھی حرم میں

اس شام میں زندہ ہوں ، سحر میں ہوں ابھی تک

(کاشف عرفان ، ص۵۵۰)

جب سے آنکھوں میں بسا گنبد خضریٰ کا جمال

زرد پتّے کو بھی دیکھوں تو ہرا لگتا ہے

(سیّد ابرار سالک، ص ۵۵۳)

٭٭٭


پروفیسر غلام رسول عدیم (گوجرانوالہ)


فقیر اپنی تمام تر فکری و روحانی بے بضاعتیوں کو لیے سست نہاد تو تھا ہی سست گام بھی ہے۔ پیرانہ سالی کے ساتھ مختلف عوارض جسمانی کے حصار میں ہے۔

جن دنوں آپ سے رسم و راہ ہوئی اُنہی دنوں سعادتِ عمرہ سے بہرہ یاب ہوا۔ واپسی پر ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا جس سے میں صاحب فراش ہو گیا، لکھنا پڑھنا جزوی طور پر تو موقوف تھا ہی ادارۂ فیضان القرآن میں درس و تدریس قرآن کا سلسلہ بھی رُک گیا۔ مسجد میرے گھر سے متصل ہے وہاں تک جانا بھی دوبھر ہو گیا۔ بعدازاں کرسی نشینی کے سہارے مسجد میں جانے کے قابل ہوگیا۔


تاہم ع ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا، کے مصداق یکے بعد دیگرے کئی اسباب تاخیر جمع ہوتے گئے۔ +۷۹ ہوں۔ صالحیت عمل تو پہلے بھی نہ تھی صلاحیت کار بھی معدوم ہوتی جارہی ہے۔ یہ سطور امتثالِ امر میں لکھ دی ہیں ورنہ کنجکاوی کے قابل نہیں، کنج گرفتگی اور گوشہ گیری میں عافیت پاتا ہوں۔ کہیں آنے جانے، سیر و سفر سے بھی معذور ہوں ہاں شدید ضرورت کے تحت ہو تو ہو۔نہ اشتیاق تشہیر نہ آرزوئے ستائش سُمعہ و شہرت سے بھاگتا ہوں کہ یہ ظالم بہت سی خوبیوں کو زائل کردیتی ہے۔تاہم ؎

ایک گوشہ نشیں فقیر ہوں میں

اس فقیری میں بھی امیر ہوں میں

کبھی عدیم الفرصت تھا اب محض عدیمؔ۔


میرے محب گرامی حضرت شیخ الحدیث محترم مولانا زاہد الراشدی کبھی فون پر احوال پرسی کرتے ہیں تو ازراہِ تفنن طبع کہتے ہیں:


’’عدیم صاحب کہیں موجود ہیں‘‘؟ (غائبانہ تخاطب کے ساتھ) کیونکہ لفظ عدیم قتیل و جریح کے وزن پر بمعنی مجروح و مقتول کی طرح مبنی علی المفعول بمعنی معدوم بھی ہے۔


میں یہ شعر پڑھ دیتا ہوں ؎

عدم میں رہتے تو شاد رہتے تمہیں بھی فکرِ ستم نہ ہوتا

جو ہم نہ ہوتے تو دل نہ ہوتا، جو دل نہ ہوتا تو غم نہ ہوتا


اس پر جانبین سے شگفتگی طبع اور راحت دل و جاں کا قدرے ساماں ہو جاتا ہے۔


گزشتہ سال ہی سے کچھ نعتیہ اشعار زبان پر رہتے، میں اکثر اوقات انھیں زیر لب گنگناتا رہتا، کبھی کبھی فرطِ شوق اور ان دل سے نکلے ہوئے اشعار سے آنکھیں بھیگ جاتیں یقینا ع دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے، شاید یہ اشعار آبدار کسی اخبار میں دیکھے تھے، مگر ان کے تاثراور تاثیر سے قلب حزیں کے چشمے اُبل پڑتے۔ دل کو سکون اور آسودگی بخشتے، شاعر کے والہانہ پن کی داد دیتا، خود کو ایک کیف و رنگ کی فضا میں پاتا۔سوچتا جانے کتنے ایسے دوسرے لوگ بھی ان کی دل پذیری اور سحر آگیں رنگ و آہنگ سے میری طرح بیک وقت اضطراب و التہاب اور سکینت و طمانیت کی بوقلموں کیفیات سے اپنے آپ کو دوچار پاتے ہوں گے۔


ایک روز یکایک ایک انجانی مگر ورطۂ محبت میں ڈوبی ہوئی شخصیت کی جانب سے زاویہ نشیں کو کراچی سے فون آیا۔ میرے محترم و مکرم دوست اور دیرینہ رفیق کار پروفیسر محمد اقبال جاوید کے توسط سے فون کرنے والی شخصیت نے اپنا تعارف کرایا۔ ان کی رس بھری باتوں اور طرزِ گفتگو سے بے حد متاثر ہوا۔ اس کنج گرفتہ کو جن الفاظ سے یاد کیا گیا اس پر خجالت بھی محسوس کی اور اپنی بے بضاعتی بھی کہ فون کرنے والی بھرپور شخصیت کو میری کوتاہ قامتی پر دراز قامتی اور تردامنی و کوتہ دامنی پر دراز دامنی کا مغالطہ ہوا۔


ساتھ ہی انھوں نے ازراہِ محبت اپنی چند تصانیف ارسال کرنے کی بھی نوید سنائی۔ ابھی دو تین دن ہی گزرے تھے کہ میرے نام پانچ چھ کتابیں، نہایت قیمتی کتابیں بذریعہ ڈاک موصول ہوئیں۔ کھول کر دیکھا تو ایسے لگا کہ ایک محبت و وارفتگی کے حصار میں محصور کرنے والا خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ کتابوں کے ورق اُلٹتا جاتا اور ورطۂ حیرت میں ڈوبتا جاتا۔ ایک سرسری مطالعے اور ورق گردانی نے مجھے ایک مرعوب کن گرفت میں لے لیا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ میں اپنے بڑے بیٹے پروفیسر سرجن ڈاکٹر مدثر رسول (ایف آر سی ایس، یوکے) کے ہمراہ، مارچ ۲۰۱۷ء میں عمرے کی سعادت سے بہرہ یاب ہو کر سفر حجاز سے واپس آیا تھا۔ ابھی حرمین شریفین کی کیف بار اور تجلی ریز فضائیں دل و دماغ پر مستولی اور روح کی گہرائیوں میں اُتری ہوئی تھیں۔ شب و روز کعبہ مقدسہ کی نورپاشی ساعتیں اور روضہ رسول V کے کیف بار لمحے، لمحہ بہ لمحہ اُنہی فضائو ںمیں لیے پھرتے تھے کہ یہ انمول خزانہ ہاتھ آگیا۔


جب ’’سرکار کے قدموں میں‘‘ "Reverence Unto His V feet" کی ورق گردانی کی تو صفحہ ۲۷ پر پہنچ کر اس بے نام مسرت اور رنگ و نور میں ڈوبی ہوئی کیفیت کا احساس جاگ اُٹھا کہ بیاں سے باہر ہے۔ تڑپا دینے والے یہ شعر پڑھے :

حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے

سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے

حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے

حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے


ان چھ اشعار پر مشتمل ساری نعت نے بالخصوص مندرجہ بالا دو شعروں نے میری ساری سوچوں کو جکڑ لیا اور ایک ہی نقطۂ ماسکہ پر لا ڈالا۔ میری ساری کائنات روح و تن سمٹ سمٹا کر اور لپٹ لپٹا کر ایک اسی نقطے پر مرکوز ہوگئی۔


یہی وہ اشعار تھے جو گزشتہ سال سے کئی بار زیر لب بھی رہے اور بالائے لب بھی۔


سفر حجاز سے پہلے ان شعروں کی نغمگی میرے کانوں میں رس گھولتی۔ میں سرشاری کے عالم میں اس ساعت رنگیں کا منتظر رہتا جب ؎

کاش مجھے بھی پنکھ لگیں اور میں بھی پہنچوں

پی سنگ رہ کر شیام نگر سے پھر نہ لوٹوں


یقین کامل تھا کہ ان شاء اللہ ضرور پردۂ غیب سے کوئی ایسا انتظام ہو گا کہ یہ بے نوا غلام سلام کے لیے حاضر ہو۔ سو جو بالقوۃ (Potentially) میرے مقدور میں تھا بالفعل (Actually) ظہور پذیر ہوا۔


وجدان کہتا ہے عالم بالا کی فضائوں میں ان اشعار آبدار اور میرے ہونٹوں کے ارتعاش نے پذیرائی کے اسباب پیدا کر دیئے جن کے سبب ان اشعار سے درِ قبول کو کھٹکھٹانے میں بڑی مدد ملی۔


جب آپ کا فون آیا تو میں نے مشافھۃً بھی اس scenario کا ذکر کیا تھا۔


اس شاہکار کی ورق گردانی… نہیں نہیں… شعر انہضامی کرتے کرتے جب صفحہ ۳۹ پر پہنچا تو… ’’ہیں مواجہہ پہ ہم‘‘ نے گویا یوں جکڑ لیا کہ حسرت آئی تھی کاش یہ آبدار موتی درِ اقدس کی حاضری سے پہلے میرے علم میں ہوتے تو مواجہہ شریف کے سامنے ان کو اس قدر دہراتا کہ ع یہ جاں رسد بہ جاناں یا جاں ز تن برآید، کا سماں بندھ جاتا۔


ردیف ’’ہیں مواجہہ پہ ہم‘‘ کے لیے دل میں تردد سا پیدا ہوا کہ اگر ’’ہم مواجہہ پہ ہیں‘‘ ہوتا تو شاید بہتر ہوتا کہ ’’ہم‘‘ کا تقدم اپنی بے چارگی، درماندگی کے اظہار اور اس سے متصل ’’مواجہہ‘‘ کی تکرار شاید زیادہ اثر انگیز ہوتی کہ ’’ہم‘‘ اپنی ساری بے سروسامانیوں کے باوجود اس مقام رفیع پر پورے عجز و الحاح کے ساتھ کھڑے ہیں جہاں جنیدؒ و بایزیدؒ نفس گم کردہ آتے ہیں، جب بھی اس ردیف کو دہرایا تو بے اختیار ’’ہم مواجہہ پہ ہیں‘‘ کے الفاظ زباں سے ادا ہوئے کہ میرا ذوق ان الفاظ کو اسی طرح سے ادا کرنے پر راضی تھا، تاہم مُصر نہ تھا۔


لیکن بعد میں خیال گزرا کہ آپ جیسے خوش فکر، خوش گو، نغزگفتار، محبت میں ڈوبے ہوئے نعت خواں و نعت نگار، نقد شعر پر ماہرانہ دسترس رکھنے والے شعر شناس کی فکرِ فلک رس سے یہ امر مستور نہ ہوگا۔


خیال ہی خیال میں سوچا کہ ممکن ہے اُنھوں نے محسوس کیا کہ ’’ہم مواجہہ پہ ہیں‘‘ میں ’’ہم اور مواجہہ کے لفظی اتصال سے حرف میم مکرر لانے سے عیب تنافر کی بو آتی ہے۔ یوں اُنھوں نے تکرار میم سے دامن بچاتے ہوئے ’’ہیں مواجہہ‘‘ کو مقدم رکھ کر ’’ہم مواجہہ‘‘ پر ترجیح دی، بہرصورت میں سمجھتا ہوں کہ یہ امر بھی ان کی فنی مزاولت اور معاییر شعر میں جزرسی اور نکتہ آفرینی پر دال ہے۔


جہاں تک ’’نعت رنگ‘‘ کا تعلق ہے وہ محبتوں کے دلآویز نغمات پر مشتمل مسکراتے آنسوئوں کی ایسی لڑی ہے کہ اس عِقدِ لآلی میں کیف و رنگ بھی ہے، نور و نکہت بھی، چاند تاروں کی جلوہ ریزیاں بھی ہیں اور گلہائے مدحت کی خوشبو میں بسی کرنوں کی سیڑھیوں سے اُترنے والی الہامی کیفیتیں بھی ہیں۔ نعت رنگ دلوں میں فریفتگی و شیفتگی کے بے پناہ سمندر اٹھانے والی منہ زور، متلاطم موجوں کا سیل تجاج اور رقعہ بر رقعہ دوختہ ’’مرقع‘‘ Anthology ہے جس میں عشاقِ رسالت مآب V کے لیے سامانِ اضطراب ہے۔ متاع طمانیت ہے خستہ حال بے قراروں کے لیے قرارِ جان ہے۔ میں سمجھتا ہوں آپ اس دور میں نعت خواں و نعت شناس حضرات کی صف اوّل ہی میں نہیں امامت کے منصب پر کھڑے ہیں۔


جہاں تک آپ کی نعت گوئی اور نعت نگاری کا تعلق ہے وہ ’’شعر برائے شعر گفتن‘‘ کے قائل ہی نہیں۔ عشق رسول V میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔ ان کیفیاتِ وارفتگی و سرمستی میں ڈوب ڈوب جانا آپ کا اختصاص و امتیاز ہے۔ آپ اس بحر محبت کے شناور ہیں جو ناقابل یافت Fathomless ہے، ناقابل رسائی Unaccessable ہے۔

یہ عطائے رب کریم ہے یہ عطائے رب کریم ہے۔


دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا گو ہوںکہ ربِّ کریم اپنے رسول کریم V کے نعلین پاک کے صدقے آپ کو اس میدان میں گوئے بلاغت اور جوگان فصاحت کے جوہر دکھانے کے ہزاروں مواقع فراہم کرے اور آپ کے ذریعے خلق خدا کے دلوں میں سرکارِ دو عالم V سے گہرا تعلق خاطر پیدا فرمائے۔ وہ تعلق خاطر جس کی بنیادیں محکم، مستحکم و استوار ہوں وہ تعلق خاطر عقیدت افزا بھی ہو اور عمل انگیز بھی جو منتج ہو سچی اتباع رسول V پر۔ اس لیے کہ

ع اِنَّ الْمُحِبَّ لمن یُحِبُّ مُطِیْع

مالک تو کریمی و رسول تو کریم

صد شکر کہ ہستیم میانِ دو کریم


پس تحریر: آپ نے فرمایا تھا کہ کلام میری ’’امانت‘‘ ہے سو حاضر ہے :

سپر دم بتو مایۂ خویش را

تو دانی حسابِ کم و بیش را


تاخیر کے لیے حرفِ اعتذار ! ممکن ہو تو ’’نعت رنگ‘‘ کے خصوصی پرچے اور اپنا باقی کلام بھی مرحمت فرمائیں۔

ع باُمید آنکہ عزرم بنوازشت پذیری

٭٭٭


ڈاکٹرنذر عابد (مانسہرہ)


۳؍مئی۲۰۱۶ء


آپ کے مؤقرادارے ’’نعت ریسرچ سینٹر‘‘ کی طرف سے درج ذیل مطبوعات بصد شکریہ وصول کی جاتی ہیں:

۱۔نعت رنگ، اگست ۲۰۱۵ سلور جوبلی نمبر

۲۔ڈاکٹر عزیز احسن اورمطالعاتِ حمدو نعت مرتّبہ صبیح رحمانی

۳۔ نعت رنگ کے پچیس شمارے :ایک اجمالی تعارف


اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے روحانی تسکین ہوتی ہے کہ آپ کے ادارے نے اب تک نعت جیسی مقدّس صنفِ سخن کے حوالے سے تخلیقی ،تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اِس سلسلے میں آپ اور آپ کے رفقاء کی مساعیٔ جمیلہ لائق صد تحسین ہیں۔ بلاشبہ یہ خدمت توفیقِ الٰہی اورحضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی نگاہِ التفات کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ کریم آپ کو توفیقِ مزید ارزانی فرمائے۔


شعبۂ اُردو ہزارہ یونیورسٹی کے لیے اعزاز ہے کہ ’’نعت رنگ‘‘ کی ادبی وعلمی خدمات کے حوالے سے ایم فل کی سطح کاایک تحقیقی مقالہ یہاں سے تکمیل کے مراحل سے گزر چکاہے۔آپ کویہ جان کر مسّرت ہوگی کہ ہمارے شعبے سے حمدو نعت کے حوالے سے تین مزید مقالے بھی مکمل ہوچکے ہیں۔

۱۔ ع ۔س مسلم کی نعت گوئی

۲۔ہزارہ میں اُردو نعت کی روایت

۳۔ پاکستانی اُردو غزل میں حمدیہ ونعتیہ عناصر


ہمیں آپ کی مزید راہنمائی اوردُعاؤں کی ضرورت رہے گی۔

٭٭٭


ڈاکٹرنذر عابد (مانسہرہ) [بذریعہ ای۔میل]

۱۶؍اپریل۲۰۱۷ء


رسالہ ’’نعت رنگ‘‘نعتیہ ادب کے فروغ کا ایک ایسا بابرکت کتابی سلسلہ ہے جوپچھلے کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ نعت کے تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی زاویوں کو اجاگر کرنے میں نمایاں خدمات پیش کرتا چلاآرہاہے۔اس سلسلے میںسیّدصبیح الدین رحمانی اور ان کے معاونین کی کاوشیں لائق ِصدتحسین وقابل رشک ہیںکہ جن کی بدولت اس کتابی سلسلے کوعلمی وادبی حلقوں میں خصوصی مقام ومرتبے کاحامل گرداناجاتاہے۔


شعبۂ اردو،ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کویہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کی ایک سکالر حلیمہ بی بی نے ’’نعت رنگ‘‘کی ادبی خدمات کے حوالے سے ایم فل کی سطح کاایک تحقیقی مقالہ ڈاکٹرمحمدسفیان صفی کی نگرانی میں مکمل کیا۔مقالہ نگار نے اپنے نگران کی رہنمائی میں نعتیہ ادب کے فروغ میں رسالہ ’’نعت رنگ‘‘کی ادبی خدمات کامطالعہ پیش کرتے ہوئے اپنی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کاثبوت دیاہے۔اس مقالے کی کامیاب تکمیل پر حلیمہ بی بی کو ہزارہ یونیورسٹی کی طرف سے ایم فل کی سندعطاکی جاچکی ہے۔


اب یہ مقالہ نعت ریسرچ سنٹر،کراچی کے زیرِاہتمام کتابی صورت میں شائع کیاجارہاہے۔ان تمام مراحل کی تکمیل سیّدصبیح الدین رحمانی کی ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔شعبہ ٔ اردو ہزارہ یونیورسٹی ان کی مساعی جمیلہ کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمیشہ ان کا ممنون رہے گا۔

٭٭٭


تنویر پھولؔ ( نیویارک)


بھائی صبیح رحمانی صاحب ، السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ


۲۴ دسمبر ۲۰۱۶ ء کو انجمن تبلیغ الاسلام نیویارک کے سالانہ نعتیہ مشاعرے میں کافی عرصے بعدآپ سے ملاقات، مصافحہ اور معانقہ کے خوشگوار لمحے باعث صد مسرت ہوئے۔ اس کے بعد پاکستان میں آپ نے میرے بھتیجے کو’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ نمبر ۲۶ عنایت فرمایا جس کے لیے آپ کا بے حد ممنون ہوں ۔ اس سے قبل صاحب کتاب نعت گو شعراء کا ضخیم تذکرہ ’’ کراچی کا دبستان نعت‘‘ بھی نظرنواز ہوا جس کے لیے آپ اور مولف دونوں قابل مبارک باد ہیں ۔ سورہ یوسف کی آیت نمبر ۷۶ سے مزین ’’نعت رنگ‘‘ شمارہ ۲۶ کا خوش رنگ سرورق بہت پسند آیا ، مضامین نثر و نظم کاانتخاب بھی خوب ہے جس کے لیے آپ مبارک باد کے مستحق ہیں تاہم کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ پر مزید توجہ کی ضرورت ہے ۔ آپ کا لکھا ہوا ’’ابتدائیہ‘‘ بہت وقیع اور روح پرور ہے ، یہ حقیقت ہے کہ ارضیت اور دہریت کے طوفان نے انسانی قدروں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور جو لوگ صرف زبان سے مذہب کا نام لیتے ہیں وہ بھی تصورِ آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں، اس موضوع پر راقم الحروف کی ایک مختصر تحریر اس لنک پردیکھی جا سکتی ہے

http://www.urdubandhan.com/bazm/viewtopic.php?f=2&t=7795


ڈاکٹر عزیز احسن کا مقالہ’’نعتیہ مجموعوںمیںتقاریظ، دیباچوںاورمقدمات میںتنقیدی رویوںکا جائزہ‘‘ بغور پڑھنے کا متقاضی ہے۔ صاحب تحریر نے ایک اہم موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور لطیف اثر مرحوم کے بے وزن کلام کے بہت سے اشعار بطور ثبوت نقل کیے ہیں ۔ ڈاکٹرصاحب نے درست فرمایا ہے کہ ’’مقدمہ نگاری کی اہمیت اس وقت کم ہوجاتی ہے جب اصل کتاب میں کوئی شعر شعری یا شرعی معیارات سے فروتر پایاجاتا ہے اور دیباچہ، تقریظ یا مقدمہ نگار اس کی نشاندہی نہیںکرتا۔ ایسی صورت میںنعتیہ شاعری کے باذوق قاری کے ذہن کو بڑا دھچکا لگتا ہے‘‘۔ اس سلسلے میںیہ حوالہ دینا بے جا نہ ہوگا کہ پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر تاجدار عادل صاحب نے راقم الحروف کے پاس رفیع الدین راز صاحب کی کتاب’’روشنی کے خد وخال‘‘ تبصرے کے لیے بھیجی ، اس تاکید کے ساتھ کہ تبصرہ بے لاگ کیا جائے۔ جب یہ تبصرہ شائع ہوا تو کچھ لوگ چیں بجبیں ہوگئے۔ وہ تبصرہ ملاحظہ کیجیے :


’’روشنی کے خد و خال‘‘ معروف شاعر جناب رفیع الدین راز کی شعری تخلیق ہے جو مسدس کی شکل میں ہے۔ پہلا حصہ دور جاہلیت سے آغاز اسلام تک اور دوسرا دور نبوت سے اسلام کے عروج تک ہے جس میں خلفائے راشدینؓ، ازواج مطہراتؓ اور خانوادہ ء نبی Vکا ذکر بھی شامل ہے۔ کتاب کا نام شاعر کے اس مصرع سے ماخوذ ہے: سایہ ء جسمِ محمد V،روشنی کے خدّو خال۔ کتاب سلیقے سے مجلد شائع ہوئی ہے اور سرورق پر سورہ نمل کی آیت نمبر ۳۰ طغرے کی شکل میں موجود ہے۔ یہ آیت دراصل ملکہ ء سبا بلقیس کا قول بیان کرتی ہے جو حضرت سلیمان ؑ کے مکتوب کے بارے میں ہے۔ کتاب کاانتساب سرور کونین Vکے نام کیا گیا ہے۔ کتاب کا بیک ٹائٹل تابش دہلوی ، محشر بدایونی، ڈاکٹر اسلم فرخی،شبنم رومانی،انجم اعظمی،مشفق خواجہ،قمر ہاشمی، اور کریم بخش خالد کی ستائشی آراء سے مزین ہے۔ان بڑے ناموںکے موجود ہوتے ہوئے کچھ کہنا مناسب نہیںلگتا اور مجھے کریم بخش خالد کی اس رائے سے اتفاق بھی ہے کہ ’’ان کے شعروں میں ایک پراسرار تقدس اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے‘‘ ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ بڑے سے بڑا شاعر بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کا کلام نقائص سے یکسر پاک ہے کیوںکہ یہ اللہ کا کلام تو ہے نہیں،خاکی بشر کا کلام ہے ۔


ڈاکٹر ابوالخیر کشفی صاحب نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ راز صاحب نے اپنے مسدس کے ٹیپ کے مصرع(مرحبا ! صلّ علیٰ اے آئنہ ! اے روشنی!) میں سب حقائق کو سمو دیا ہے لیکن بصد ادب عرض ہے کہ منفی پہلو اور دور جاہلیت کی منظرکشی کرتے وقت اس مصرع کی تکرار بری طرح کھٹکتی ہے اور مفہوم غلط تاثر دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے(یہ رائے تاجدار عادل صاحب کی ہے جس سے مجھے بھی اتفاق ہے) مثال کے طور پر ان مصرعوں کے ساتھ ۔ (۱) جیسے ویرانے میںہو ندّی کوئی سوکھی ہوئی ۔ ( ۲) ہر طرف توہین حوا ، چار سو بے حرمتی ۔ ( ۳) کیسا رب اور کیسا قرآں، کون سا دین نبیV ہاں مثبت پہلو بیان کرتے وقت یہ مصرع بڑے کام کا ہے ۔ مثال کے طور پر یہ خوب صورت بند ملاحظہ کیجئے :

کام صدیوں پر محیط اور عمر اتنی مختصر

آپ Vکے نقش کف پا کے اُجالے دیکھ کر

محو حیرت ہیں سبھی، کیا فکر ،کیا قلب و نظر

میں ثنا شیشے کی لکھوں یا ثنائے شیشہ گر

کیا کروں یہ نوک خامہ سوچتی ہی رہ گئی

مرحبا  ! صلّ علیٰ اے آئنہ ! اے روشنی !


اس مسدس میں کچھ مقامات پر تذکیر و تانیث کی غلطیاں ہیں مثلاََ صفحہ نمبر ۹۱ پر ’’مخلوق‘‘ اور صفحہ نمبر ۱۴۳ پر ’’گود‘‘ کو بطور مذکر استعمال کیا گیا ہے ۔ صفحہ نمبر ۱۷۰ پر ’’محمد Vکے سپاہ‘‘ کی جگہ ’’محمد V کی سپاہ‘‘ ہونا چاہئے اور ’’منفرد ہیں‘‘ کی جگہ ’’منفرد ہے‘‘ درست ہوگا ۔ اسی طرح صفحہ نمبر ۲۵۲ پر ایک شعرہے : یہ سلامِ بندگی ہے خانماں برباد کی : مرحبا صل علیٰ اے آئنہ! اے روشنی! ۔ پہلامصرع آخر میں’’کی’’ نہیں بلکہ’’کا‘‘ کا تقاضا کر رہا ہے ۔

واحد اور جمع کی غلطیاں بھی موجود ہیں ۔ صفحہ نمبر ۱۸۷ پر ایک مصرع ہے : لرزہ بر اندام تھے اک اک پرستار بتاں: ’’اک اک ‘‘کے ساتھ ’’تھے‘‘ درست نہیں ۔ صفحہ نمبر ۱۴۰ پر ’’احکام‘‘ کو واحد باندھا گیا ہے جبکہ یہ ’’حکم‘‘ کی جمع ہے اسی طرح صفحہ نمبر ۲۲۳ پر ’’سلاسل‘‘ کو واحد باندھا گیا ہے  : جس کی نسبت ظلم سے ہو ، اُس سلاسل سے جہاد : تلفظ کی غلطیاں بھی کھٹکتی ہیں ۔ صفحات ۱۳۷ ، ۱۴۴ ، ۱۶۳ اور مزید تین مقامات پر لفظ ’’وحی‘‘ کا تلفظ غلط ہے ، اس میں حائے حطی مکسور نہیں بلکہ ساکن ہے ۔ صفحہ نمبر ۱۵۶ پر لفظ ’’نفی‘‘ میں ’’ف‘‘ کو مشدّد باندھا گیا ہے ، یہی غلطی صفحہ نمبر ۲۲۱ پر دہرائی گئی ہے ۔ ’ہم سے نفّی ہو رہی ہے سورہ ء قرآن کی‘‘ ۔ صفحہ نمبر ۱۸۳ پر ’’ معرکہ‘‘ کی جمع ’’معرکائوں‘‘ غلط ہے ۔ صفحہ نمبر ۱۵۹ پر ’’نسل و مٹی‘‘ کی ترکیب غلط ہے ۔’پاک ہے یہ نسل و مٹی جیسے احساسات سے‘۔ ’’مٹی‘‘ ہندی زبان کا لفظ ہے اس لیے ’’ نسل اور مٹی‘‘ کہا جائے گا ۔ اسی طرح صفحہ نمبر ۱۷۰ پر ’’چاہت بدوش‘‘ اور صفحہ نمبر ۱۸۵ پر’’ سگ ِ پیاسا‘‘ کی تراکیب بھی غلط ہیں۔ صفحہ نمبر ۲۲۴ پر ’’ قتل عدو‘‘ کی جگہ ’’قتال عدو‘‘ استعمال کیا گیا ہے اور ’’قتال‘‘ میں ’’ ت‘‘ مشدّد باندھا گیا ہے جو غلط ہے ۔


راز صاحب نے اکثر مقامات پر قرآنی سورتوں کے حوالے دیئے ہیں جو ان کی قرآن فہمی کا مظہر ہیں اور اس سلسلے میں وہ قابل مبارک باد ہیں ۔ مثال کے طور پر صفحہ ۲۱۳ تا صفحہ ۲۱۶ سورہ حشر، سورہ رحمن اور سورہ ماعون کے حوالے دیئے گئے ہیں ۔ صفحہ نمبر ۲۲۰ پر سورہ نساء اور سورہ نور کے حوالے ہیں۔ صفحہ ۲۴۷ پر سورہ کوثر اور صفحہ ۲۴۸ پر سورہ آل عمران کے حوالے ہیںجو مستحسن امر ہے ۔


کچھ تاریخی غلطیاں بھی ہیں ۔ صفحہ نمبر ۹۷ پر غزوہ ء خندق کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے : ’’ آپ ؐ کی نسبت سے ٹھہرا ہے یہ غزوہ آخری ‘‘ ۔ حالانکہ اس کے بعد اور بھی غزوات ہوئے ہیں مثلاََ غزوہ ء حُنین اور غزوہ ء تبوک وغیرہ ۔ خلفائے راشدین ؓ کے دورِ حکومت کے تذکرے کے بعدپھر حیات طیبہ کے مختلف ادوار کا ذکر ہے، اگر ترتیب درست کر لی جاتی تو بہتر ہوتا ۔ صفحہ ۱۹۱ پر حضرت عثمان غنیؓ کی شان میں راز صاحب کا مصرع ہے : ’’ گھر میں جو کچھ تھا میسر ، نذر کر بیٹھے غنی ؓ ‘‘ لیکن یہ واقعہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے منسوب ہے ، حضرت عثمان غنی ؓ سے نہیں۔


علامہ اقبال نے اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں کہا ہے : پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس ۔ صدیق ؓ کے لیے ہے خدا کا رسول V بس ۔


صفحہ نمبر ۲۳۳ پر حضرت خالد ؓ بن ولید سے پہلے ’’ ابن قاسم‘‘ (محمد بن قاسم) کی سپہ سالاری کا ذکر ہے جبکہ محمد بن قاسم کا زمانہ دور ِ رسالت اور خلفائے راشدین ؓ کے بعد ولید بن عبدالملک کے دور کا ہے ۔ صفحہ نمبر ۲۵۲ پر آخری بند کا مصرع ہے : ’’ ہو قبول افتد مِرے آقا V! سلامِ بندگی‘‘ ۔ ’’ہو‘‘ کے ساتھ ’’افتد‘‘ کا استعمال محل نظر ہے ۔ اس کا صحیح استعمال اس فارسی مصرع میں موجود ہے : ’’ گر قبول افتد زہے عز و شرف‘‘ ۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں بھی کھٹکتی ہیں ، مثال کے طور پر صفحہ ۱۸ پر ’’ ثور‘‘ کو ’’ ژور‘‘ ، صفحہ نمبر۲۳ پر دو مرتبہ ــ’’اذن‘‘ کو ’’ازن‘‘ اور صفحہ ۱۳۴ پر ’’ سفیان‘‘ کو ’’صفیان‘‘ لکھا گیا ہے ۔ ان تمام باتوں کی نشاندہی کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے ایڈیشن کی طباعت کے وقت ان کا خیال رکھا جائے، اس سے تنقیص یا دل شکنی ہرگز مقصود نہیں ۔ آخر میں رازصاحب کا ایک بہت ہی خوب صورت بند جو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے ، ملاحظہ فرمائیے :

سو بڑے ناموں کی اِک فہرست ہے دیوار پر

روشنی ڈالی گئی ہے ایک اک کردار پر

پرتوِ دست ِ ہنر کی ضو ہر اِک دستار پر

ہر نظر جاکر ٹھہرتی ہے اُسی سردارV پر

سو بڑے ناموں میں پہلا نام ہے نام نبی V

مرحبا ! صل علیٰ اے آئنہ ! اے روشنی ! ‘‘


صفحہ نمبر ۳۳۵ پر لفظ ’’ عشق‘‘ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عجمی شعراء نے اس کا استعمال کیا ہے یعنی عربی میں اس کا استعمال نہیں ہُوا جبکہ ’’درود تاج‘‘ جو ظاہر ہے کہ عربی ہے ، اس میں حضور V کو ’’ راحت العاشقین‘‘ کہا گیا ہے ۔ صفحہ نمبر ۳۸۵ پر جو نعت ہے اس کے مطلع کا دوسرا مصرع یہ ہے : ’’کوئی کیا بتائے لیکن تو کیا ہے کیا نہیں ہے‘‘ ۔ استفہامیہ ’’ کیا‘‘ کو ہمیشہ ’’ کا‘‘ کے وزن پر باندھا جاتا ہے جبکہ اس مصرع میں دوسرے ’’کیا‘‘ کا وزن مختلف ہو نے کی وجہ سے مصرع بحر سے خارج ہوگیا ہے ۔ ( متفاعلن فعولن متفاعلن فعولن)


صفحہ نمبر ۴۹۲ پر ’’ کراچی کا دبستان نعت ، ایک مطالعہ ‘‘ قند مکرر محسوس ہوا ، پھر یاد آیا کہ یہ تحریر اُس کتاب میں بھی بطور مقدمہ شامل ہے ۔ اس کتاب کے حوالے سے یہ عرض ہے کہ اس میں اکثرمقامات پر ’’ صلّ علیٰ‘‘ کو ’’ صلی علیٰ‘‘ لکھا گیا ہے (مثلاََ صفحہ نمبر ۳۹)جو درست نہیں ۔ درود ابراہیمی میں بھی ’’ صلّ علیٰ ‘‘ ہے جسے ہم ہرنماز میں پڑھتے ہیں ۔ یہ ضخیم تذکرہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جسے آپ نے منظرعارفی صاحب سے مرتب کراکے قابل تحسین کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس میں ایک صاحب کتاب نعت گو شاعر ساجد امروہوی کا تذکرہ شامل نہیں ہے جن کے نعتیہ مجموعے کا نام’’ عرفانِ مدینہ‘‘(سن اشاعت ۲۰۰۳ء) ہے ۔ صفحہ نمبر۲۹۶ پر مولف نے ایک او ر تذکرے ’’ نعت کی بہاریں‘‘ کا ذکر کیا ہے یعنی وہ تذکرہ ان کی نظر سے گزر چکا ہے ۔ اس تذکرے میں ساجد امروہوی کاانٹرویو اور ان کی کتاب ’’عرفان مدینہ‘‘ کا ذکر ہے ۔ دوسری اشاعت میں ان کا تذکرہ شامل کیا جاسکتا ہے ۔


’’نعت رنگ‘‘ صفحہ ۵۰۶ پر جو نعتیہ قصیدہ ہے اُس کے سر مقطع شعرمیں ’’ طٰہٰ‘‘ میں حائے حطی کا اضافہ غلط ہے (دیکھئے سورہ طٰہٰ) ۔ صفحہ ۵۰۷ پر شعر نمبر ۱۰ میں’’ جلالت‘‘ کو ’’جالت‘‘ کمپوز کیا گیا ہے ۔ صفحہ ۵۰۸ پر مقطع کے پہلے مصرع میںکچھ چھوٹ گیا ہے جس کی وجہ سے مصرع کا وزن متاثر ہوا ہے۔صفحہ ۵۴۰ پر دوسرے شعر میں’’تمتمائے‘‘ کو ’’تمتائے‘‘ کمپوز کیا گیا ہے ۔


صفحہ ۵۴۲ پر دوسرے شعر میں اضافت کے بغیر ’’رمز آشتی‘‘ مفہوم نہیں دے رہا ہے اور اضافت کے ساتھ مصرع بحر سے خارج ہے۔ اسے اس طرح کیا جاسکتا ہے: کہ وجہ ِزندگی و آشتی اسم ِ محمدV ہے۔


صفحہ ۵۴۸ پر مطلع کے قوافی ’’سلامت‘‘ اور ’’علامت‘‘ ہیں ، اس وجہ سے دیگر قوافی میں بھی ’’ ل ا م ت‘‘ ہونا چاہئے جیسے ’’ملامت‘‘ ۔ علاوہ ازیں چوتھے شعر میں تقابل ردیفین ہے جسے اس طرح دور کیا جا سکتا ہے : ’’تو وہ چراغ جو نورِ ازل سے ہے روشن‘‘ ۔ صفحہ ۵۵۷ پر مطلع میں ’’ کہ‘‘ کی جگہ ’’کے‘‘ غلط کمپوز ہُوا ہے ۔


صفحہ نمبر ۶۰۲ پر مرحوم ماجد خلیل صاحب ( اللہ تعالیٰ اُن کی اور ہماری مغفرت فرمائے) کے ایک مصرع کا حوالہ ہے ۔ عرض ہے کہ راقم الحروف نے وہ مصرع اس طرح تجویز کیا تھا : ’’ اِک لفظ سے بنے ہوئے جہاں میں‘‘ کی جگہ ’’ اِک لفظ کن سے بنے جہاں میں‘‘ یا ( اِک حرف ِ کن سے بنے جہاں میں ) ۔ اس طرح تبدیل شدہ صورت( اک کن سے بنے ہوئے جہاں میں) میں حرف ’’ ک‘‘ کی وجہ سے جو تنافر پیدا ہورہا ہے،اس سے بچا جاسکتا تھا۔


ریاض حسین چودھری صاحب نے اپنے مکتوب میں بالکل درست فرمایا ہے کہ نعت کے عظیم الشان سرمائے کو نظرانداز کردینا کہاںکی دانشمندی ہے؟ یہ ممکن نہیں کہ آج کی نعت کے بہت بڑے ذخیرے کو اور شعرا کی ایک بڑی تعداد کو (جن میں قدیم شعرا بھی شامل ہیں) دریابرد کر دیاجائے ۔ راقم الحروف خود اپنی نعتوں میں تو اور تم استعمال کرنے سے حتی الامکان گریز کرتا ہے لیکن اس معاملے میں شدت پسندی کا قائل نہیں ۔


ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب نے کمپوزنگ کی بے شمار خامیوںکی طرف توجہ دلائی ہے ، اس معاملے میںراقم بھی اُن کا ہم نوا ہے۔ جو شعرا ’’ صلّ علیٰ ‘‘ کو حضور اکرم V کا اسم گرامی سمجھتے ہیں، وہ غلطی پرہیں لیکن جو اسے ’’صلّ علیٰ محمد ‘‘ کے مخفف کے طور پراستعمال کرتے ہیںوہ درست ہیں جس طرح ’’بسم اللہ‘‘ کہہ کر پورا تسمیہ مراد لیتے ہیں اور ’’ الخ‘‘ مخفف ہے ’’ الیٰ آخرہ‘‘ کا ۔ صفحہ ۶۴۱ پر’’رحمۃ للعالمین‘‘ V لکھتے وقت ’’ ل‘‘ سے پہلے الف لکھا گیا ہے جو زیادہ ہے اور سورۃ الانبیا کی آیت سے مطابقت نہیںرکھتا۔ صفحہ نمبر ۶۴۵ پر پیرزادہ قاسم صاحب کے مصرع میں’’تردامنی‘‘ کیاستعمال پر اعتراض درست نہیں، تردامنی کا مطلب ہے خطاکاری یعنی گناہگاری ۔ ایک مشہور شعر ہے : تردامنی پہ شیخ!ہماری نہ جائیو ٭ دامن نچوڑ دیںتو فرشتے وضو کریں ۔ صفحہ نمبر۶۴۸ پر قمر وارثی صاحب کے مصرع ’’ خواہشِ دیدِ نبی Vکس کو نہیں ہے لیکن‘‘ پر اعتراض درست نہیں ۔ ’’ دید‘‘ کے معنی ’’نگاہ اور نظر ‘‘ کے علاوہ ’’ دیدار اور نظارہ‘‘ بھی ہیں جیسا کہ نسیم اللغات ( جس کے مرتبین میں آغامحمد باقر نبیرہ ء آزاد بھی شامل ہیں)میں صفحہ نمبر ۴۹۰ پر درج ہے ، نیز ملاقات(دیدار) کے خواہش مند کے لیے’’دیدخواہ‘‘ استعمال ہوتا ہے(بحوالہ فیروزاللغات ، صفحہ نمبر ۶۷۰) ۔ صفحہ نمبر ۶۴۱ پر ’’رحمۃ للعالمین‘‘ V میں ’ ل‘ سے پہلے ’ الف‘ لگا یا گیا ہے جو سورۃ الانبیا کی مشہور آیت سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ صفحہ نمبر ۶۴۷ پر یہی غلطی دہرائی گئی ہے۔


صفحہ نمبر ۶۴۷ پر عزیز احسن صاحب کی نعت کے اس شعر پر اعتراض کیا گیا ہے : اے شافع امم V! ہے تمنائے عاصیاں ٭ نوبت کبھی نہ آئے سوال و جواب کی، اعتراض ہے کہ سوال و جواب تو لازمی و ناگزیر ہیں، ان سے کسی حال مفر نہیں ۔ ’’ شافع امم‘‘ V پر بھی اشفاق صاحب کو اشکال ہے ۔ اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ صحیح بخاری ، حدیث نمبر ۴۷۱۳ میں ہے کہ حضور V نے فرمایاکہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوںگا …… اُس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہوگی …… سورج بالکل قریب ہوجائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بے قراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہوجائے گی ۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہوگئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کرے ؟…… حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیا نفسی نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ کسی اور کے پاس جائو ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کہیں گے کہ محمدVکے پاس جائو ۔ سب لوگ آنحضرت V کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ V اُن کی شفاعت فرمائیں گے۔ ( اس حدیث کے آخر میں بغیر حساب کے جنت میں جانے والوں کا ذکر بھی ہے ) ۔ درود تاج میں بھی آپ V کو ’’ شفیع الامم‘‘ V کہا گیا ہے ۔ ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ جب تمام انبیا ؑ شفاعت کرنے سے انکار کردیں گے تو حضرت نوح ؑ کی کشتی میں سوار ہونے والوں ، حضرت عیسیٰ ؑ کے حوار یین اور اصحاب کہف وغیرہ کی شفاعت کون کرے گا ؟ ظاہر ہے کہ انبیائے سابقین پر اُن کے دور میں جو لوگ ایمان لائے ہوں گے وہ بھی مومن ہوں گے اور آپ V کی شفاعت سے بہرہ مند ہوں گے ۔


صفحہ نمبر ۶۴۹ پر اجمل سراج صاحب کے مصرع ’’ کہ دے کے آپ Vکو بھیجا گیا ہدایت خاص‘‘ پر اعتراض درست نہیں کیوںکہ ’’بھیجا گیا‘‘ ’ ہدایت‘ کے لیے نہیں بلکہ ’’ آپ‘‘ V کے لیے استعمال ہُوا ہے ، اس کی نثر اس طرح ہوگی : کہ آپ V کو خاص ہدایت دے کے بھیجا گیا۔


صفحہ نمبر ۶۵۱بپراشفاق انجم صاحب نے اپنے مصرع ’’ وہی ہے اخلاص و نشرح والا ، وہی ہے رعد و دخان والا‘‘ کے بے وزن ہونے کے بارے میں وضاحت چاہی ہے اور وضاحت نہ کرنے پر اعتراض کیا ہے۔ عرض ہے کہ راقم الحروف نے اپنی بات کو بالکل عام فہم سمجھ کر اس کی وضاحت ضروری نہیں سمجھی تھی ۔ ظاہر ہے کہ ’’ نشرح ‘‘ بر وزن ’’ فعلن‘‘ ہے جبکہ بحر میں صرف ’’ فاع‘‘ کی گنجائش ہے ، اس لیے ’’ نشرح ‘‘ کی جگہ ’’ فتح‘‘ یا ’’ناس‘‘ یا اسی کے ہم وزن یعنی ’’فاع‘‘ کے وزن پر کسی لفظ کے استعمال کی تجویز دی گئی تھی ۔ اشفاق صاحب کی حمد کی بحر یہ ہے :


’’مفا علاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن ‘‘ ( ۴ بار ) ۔ مذکورہ بالا مصرع بحر میں نہیں ہے کیوںکہ تقطیع میں حرف ’’ ح ‘‘ بحر سے خارج ہے ۔ تقظیع کر کے خو د دیکھ لیں یا کسی عروض داںسے سمجھ لیں۔

ویسے شاید یہ تقطیع سمجھ میں آجائے :


وہی ہ اخ لا ص و نش رَح وا لا وہی ہ رَع دو دخا ن وا لا

مفا ع لا تن م فا ع ؟ لا تن مفا ع لا تن مفا ع لا تن


غالب ؔ کا مصرع ’’ دوزخ میںڈال دو کوئی لے کر بہشت کو‘ ‘ سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا گیا ہے ، پہلا مصرع بھی تو دیکھیں :

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ :


حضرت رابعہ بصری کا قول بھی اسی طرح ہے کہ میں نہ جنت کی طمع میں اور نہ دوزخ کے خوف سے اُس کی عبادت کرتی ہوں بلکہ خالص اُس کی رضا کی طالب ہوں ۔

اُس کی رضا سے کام ہے ، جو کچھ عطا کرے

ہم کو غرض سقر سے ، نہ باغِ جناں سے ہے


یہ ضرور ہے کہ غالبؔ نے ’’ شوخیاں‘‘ بھی کی ہیں لیکن یہاں شوخی نہیں بلکہ سنجیدگی ہے اور ’’خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں‘‘ میں بھی شوخی نہیں ہے ۔


صفحہ نمبر ۶۳۴ پر اشفاق انجم صاحب نے درست فرمایا ہے کہ پاروں کی تقسیم اجتہادی ہے جو بعد میں کی گئی ۔  جو لوگ ایک ہفتے میں قرآن مجید ختم کرتے تھے وہ منزلوں کے حساب سے تلاوت کرتے تھے ( قرآن پاک میں ۷ منزلیں ہیں ) ۔ ایک مہینے میں ختم کرنے والوں کے لیے قرآن پاک کو تیس برابر حصوں میں تقسیم کیا گیا یہاںتک کہ چوتھے پارے کی آخری آیت پانچویں پارے کی پہلی آیت سے تشدید کے ذریعے مربوط ہے ۔    


صفحہ نمبر ۶۵۷ پر احسان اکبر صاحب نے ’’ مزّ مّل‘‘ کے درست تلفظ ( ز اور م پر تشدید کے ساتھ) کی بات کی ہے ۔ ایک نجی گفتگو میں حضرت راغب مراد آبادی مرحوم نے راقم الحروف سے کہا تھا کہ لوگ اکثر ’’ مزمل‘‘ اور ’’حرمین‘‘ کا تلفظ غلط کرتے ہیں ، مزمل میں حرف ز اور میم نمبر ۲ پر تشدید ہے اور حرمین جمع ہے حرم کی اس لیے ح اور ر دونوں پر زبر ہے یعنی درست تلفظ ہے حَ رَ مَ ی ن ۔ اس بات کی تصدیق درود تاج سے بھی ہوتی ہے ۔صفحہ نمبر ۶۶۱ ، سطر نمبر ۴ میں ’’ السلام ُ علیک ایہا النبی V ! ‘‘ میں ہائے ہوز کی جگہ حائے حطی درست نہیں ۔


اوپن ہارٹ سرجری کی وجہ سے سینے اور پشت میں تکلیف ہے، دعائوںمیں یاد رکھنے کی درخواست ہے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے ، ریاض حسین چودھری صاحب ، ڈاکٹر صابر سنبھلی صاحب اور تمام بیماروں کو جلد از جلد مکمل تندرستی عطا فرمائے ، آ مین ۔ سب کو سلام کہیے اور ای ، میل سے رابطہ رکھیے ۔

٭٭٭


ڈاکٹر ذکیہ بلگرامی (کراچی)


نعت رنگ کا ۲۶ واں شمارہ میرے سامنے ہے۔اس سے قبل کہ اس شمارے کے بارے میں اپنے خیالات کااظہارکروں، میں جناب صبیح رحمانی کومبارک باد دینا چاہوں گی کہ ۲۰ سال کی انتھک محنت کے بعد نعت رنگ کے ۲۵ شمارے نکال کر عاشقانِ رسول V کے لیے دلبستگی کاسامان فراہم کیا ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پوری دنیامیں فروغ نعت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا اورخوش اسلوبی سے ہدف کوحاصل کرلینا اللہ کی مدد اوراس کی خاص الخاص رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار خوبیوں سے نوازا ۔وہ ایک اچھے نعت گوشاعر، خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنے کادلکش انداز سننے والوں کو ان کااسیر بنادیتاہے۔اس کے ساتھ ہی ان کی سادگی اور پروقار انداز نے اپنی علیحدہ شناخت بنائی ہے۔


نعت ناموں میں سعدسیٹھی(برطانیہ) کالکھاہوا مکتوب پڑھا۔ اسے پڑھ کر برطانیہ میں نعت ریسرچ سینٹر میں ہونے والی تقریب کااحوال پڑھنے کوملا نعت ریسرچ سینٹر کی طرف سے ایوارڈ ملنے پر جناب ڈاکٹر عزیز احسن صاحب اور سید صبیح رحمانی کوبے حد مبارک باد۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اسی طرح کامیابیاں اورکامرانیاں عطا فرماتا رہے۔ ( آمین)


اس کے بعد ڈاکٹر اشفاق انجم (بھارت) کے خط کی طرف آتی ہوں ۔ان کی پوری تحریر بے حد جاندار اور دلچسپ لگی۔ نعت جیسے سنجیدہ موضوع کوجس خوبصورتی سے تنقید کانشانہ بنایاہے دل باغ باغ ہوگیا۔مثال کے طور پر :

ہواکے جھونکوں میں خوشبو بسی ہوئی ہے وہاں

درود پڑھتا ہے اک اک شجر مدینے میں


آپ لکھتے ہیں کہ شجر حجر… کے درود پڑھنے کی روایت کہیں نظر نہیں آئی !! مدینے کے شجر ہیں تودرود پڑھیں گے اور مکہ شریف کے شجر ذکر کریں گے !؟اسی طرح ایک انگلی سے کہیں چاند بھی شق ہوتا ہے۔


’’ایک انگلی سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حضور نے چھری کی طرح انگلی چاند پر پھیری اوروہ سالگرہ کے کیک کی طرح شق ہوگیا !!‘‘


مثالیں سب ہی بے مثال ہیں۔ زیادہ لکھنے کی طاقت بھی نہیں مگر میں نے پورے مضمون کو بہت Enjoyکیا۔ہاں مجھے ان کی ایک بات سے اختلاف ہے وہ کہتے ہیں قرآن پاک کو تیس پاروں کے بجائے تیس ابواب میں تقسیم کیاجائے۔ ڈاکٹرصاحب ایساممکن نہیں ہے۔ باب کا مطلب ہے Chapterایک کادوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ یہاں یہ حال ہے کہ پوراقرآن کریم سورتوں کے ذریعہ جڑا ہواہے سوائے چار سپاروں کے ۔۱۷،۲۸ ،۲۹،۳۰ان سپاروں میں مکمل سورتیں ہیں کوئی حصہ باہر نہیں ہے الٓمٓ شروع ہوکر ۱۴ ویں سپارے پر ختم ہوتا ہے۔ پھر ۱۵ ، ۱۶ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔۱۸ سپارہ جاکر ۲۵ ویں پر ختم ہوتا ہے ۔پھر ۲۶ ،۲۷ جڑے ہوئے ہیں۔آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تیس پاروں کی تقسیم کس نے کی ہے ۔


بعض حضرات کایہ خیال ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے مصاحف نقل کراتے وقت انھیں تیس صحیفوں میں لکھوایا تھا لہٰذا یہ تقسیم آپ ہی کے زمانے کی ہے۔ (تاریخ القرآن ازمولاناعبدالصمد صارم ۔ص ۱۸۱)


۳۰ سپاروں کی تقسیم محض (اس لیے کی گئی ہے کہ ایک سپارہ روز پڑھ کر( بچے ،بڑے) ایک مہینہ میں قرآن حکیم ختم کرلیں۔ بعض صحابہ کرام اور تابعین کامعمول تھاکہ وہ ہر ہفتہ ایک قرآن ختم کرلیتے تھے اس مقصد کے لیے اسے ۷ منزلوں میں تقسیم کیاگیا۔


حضرت اوس بن حذیفہ فرماتے ہیں کہ: میں نے صحابہ سے پوچھا کہ آپ نے قرآن کے کتنے حزب بنائے ہیں توانھوں نے جواب دیا کہ ایک حزب ۳ سورتوں کادوسرا ۵،تیسرا ۷ ،چوتھا ۹، پانچواں ۱۱ اور چھٹا ۱۳ سورتوں کااور آخری حزب آخر تک (سورۃ فاتحہ کوقرآن حکیم کادیباچہ کہاجاتا ہے اس لیے اس کو منزل شامل نہیں کیاگیا)


اگرسورۃ فاتحہ کومنزل شامل نہ بھی کریں تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔سورۃ فاتحہ ہرحال میں قرآن حکیم کی سورۃ نمبر ایک ہی رہے گی۔


یہ درست ہے کہ سورتوں کی ترتیب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے لیکن کس عمدگی سے کی گئی ہے کہ سات منزلیں آسانی سے بن گئیں بالکل برابر ۔بہرحال سپاروں کی تقسیم ہویا منزلوں کی یہ کام صحابہ کرام یاتابعین نے کیا اور وہ لوگ جوکام کرگئے ہم اس میں کوئی تبدیلی لانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے آج کے دور کامولانا ،مفتی یاعالم خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو ان حضرات کامقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اس لیے اس قرآن میں کسی قسم کی ردو بدل خواہ وہ عنوان کی ہی کیوں نہ ہو نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا علم بہت محدود ہے اورہم اس کے اسرار ورموز سے ناواقف ہیں۔(یہ میری ذاتی رائے ہے آپ اس سے اختلاف کرسکتے ہیں)۔


جناب گوہر ملسیانی ۔خانیوال کامضمون اردو نعت میں انوار قرآن پڑھا۔ بے حداچھا لگا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبV کے لیے جس جس طرح سے قرآن پاک میں تذکرہ کیاآپ نے بہت عمدگی اور خوبصورتی سے اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے۔


اللہ تعالیٰ نے حضور V کو کبھی نام لے کر مخاطب نہیں کیا جیسا کہ آپ نے لکھا ہے مگر ہاں اللہ تعالیٰ نے انھیں یٰاَیُّھَاالنَّبِیُّ بھی کہاہے۔ اس مضمون میں لکھے گئے تمام اشعار بہت خوب ہیں

گفتگو یاد کریں کھول کے قرآن حکیم

پھر انھیں لفظ ومعانی کاسمندر لکھیں


صبیح رحمانی کے اس شعر کے ساتھ ہی میں اپنا قلم بند کررہی ہوں۔


نعت رنگ میں یہ میرا پہلا خط ہے سوچا تھا چند لائنیں لکھ کر بھیج دوں گی( اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے) مگر قلم ہاتھ میں آجائے توپھر رکتا کہاں ہے۔ اب اجازت، زندگی رہی تو پھر بات ہوگی۔ اللہ نگہبان۔

٭٭٭

عطیات کتب برائے نعت ریسرچ سینٹر

نعت ریسرچ سینٹر کی مطبوعات

نعت ریسرچ سنٹر، کراچی کی مطبوعات

مزید دیکھیے

نعت رنگ