نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25 ۔ نعت نامے

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 20:19، 20 اپريل 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏محمد طاہر حسین ۔جھنگ)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


ڈاکٹر فتح محمد ملک۔اسلام آباد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

7/ ستمبر2014

عظیم مجلّہ ’’نعت رنگ‘‘ کا تازہ شمارہ پاکر بہت خوش ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔ زیرِ ترتیب شمارے کے لیے ایک مختصر سا مضمون آٹھ دس دِن تک ڈاک کے سپرد کردوں گا۔ اُمید ہے کہ آپ مع الخیر ہوں گے اور جب اسلام آباد تشریف لائیں گے تو اطلاع بخشیں گے۔

ڈاکٹر ریاض مجید[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

9/ مئی2015

نعت رنگ کو پچیسویں پڑاؤ مبارک ۔۔۔۔۔ ہر کام میں بہتر سے بہتر کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے آپ نے اس مرحلے پر ’نعت رنگ‘کے بارے میں مشاورت طلبی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اللہ کرے یہ خیرو برکت کا سبب ہو اور ’نعت رنگ‘ کے قارئین اور اہلِ قلم اخلاصِ نیّت سے ’نعت رنگ‘کو اپنے مفید مطلب مشوروں سے نوازیں۔

جیسا کہ ’نعت رنگ‘ کے قارئین کو علم ہے اس جریدے کا واحد مقصد اردو کی اصنافِ سخن میں سے نعت کو فکری اوصاف اور فنّی محاسن کے حوالے سے ایک ایسی بلیغ صنف کے طور پر پیش کرنا ہے جس میں ادبیاتِ عالیہ کے سارے محاسن کا عمدگی سے اظہار ہُوا ہو۔ اسے محض ایک مذہبی موضوع کا بیان نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی تخلیق میں صرف کی جانے والی مساعی، مہارت، ریاضت اور تخلیقی اقدار کے شمول کو بھی زیر جائزہ لایا جائے۔

مقامِ اطمینان ہے کہ ’’نعت رنگ‘‘ سے وابستہ اہلِ قلم نے اس صنف کو ایک اعلیٰ ادبی معیار کی حامل صنف کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کی ہے یہاں میں متعارف کو لغوی مفہوم کی بجائے تلازماتی حوالوں میں لے رہا ہوں مقدار کے علاوہ معیار سازی کے لئے کوشاں ذہنوں نے اردو شعریات کے ساتھ اردو تنقیدات میں بھی اس صنف کو ایک عالمانہ جہت سے روشناس کیا یہ رُوشناسی اور تعارف گزشتہ دہائیوں میں اتنا جاندار اور شاندار نہیں تھا جتنا نعت رنگ کی سعئ جمیلہ سے ہُوا( جان دار اور شان دار کے الفاظ کثرت استعمال سے اپنی وہ تازگی کھو چکے ہیں جو اِن الفاظ کے آغاز میں آج سے کئی صدیاں پہلے شامل تھی۔) میں قارئین کی توجہ پھر ان الفاظ سے وابستہ مفاہیم کی قدیم تازگی کی طرف لے جانا چاہتا ہوں ’’نعت رنگ‘‘ کی تنقیدی جہت نے اس صنف کے نہ صرف آفاق وسیع کئے بلکہ اس صنف کو معیار آشنا بھی کیا۔

جرائد کا تسلسل کئی حوالوں سے ادبی میلانات کو ایک واضح رُخ دیتا ہے اردو رسائل میں نقوش ، اوراق، فنون ، سیپ ایک طرح کے ادب (افسانہ ، نظم ، غزل وغیرہ)کی اشاعت کے باوجود میلانات اور پیشکش میں ایک دوسرے سے ذرا مختلف رہے ہیں دراصل رسائل کا وقت کے ساتھ ایک اپنا مزاج بن جاتا ہے ’’نعت رنگ‘‘ کا تنقیدی حصہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح معیار آشنا اور توازن رُو ہوا ہے یہ نعت ۔۔۔۔۔ خصوصاً تنقیداتِ نعت کے لحاظ سے خاص انفرادیت کا حامل ہے اسے نہ صرف بحال رکھنے بلکہ علمی و تحقیقی انداز سے اور زیادہ متوازن رکھنے کی ضرورت ہے۔

’’نعت رنگ‘‘ کے آئندہ شماروں کے لئے چند تجاویز ہیں (ان سے آپ کا یا قارئین نعت کا متفق ہونا ضروری نہیں)

۱۔ سرورق سے شروع کرتے ہیں سہ ماہی ’’آج‘‘ نے سادگی کے ساتھ رسائل کے جرائد کو ایک تازہ جہت سے رُوشناس کیا ہے اس کے شمارے سٹال اور لائبریری میں بڑے ہوئے دُور سے پہچانے جاتے ہیں ہر نئے شمارے پر رنگ کے فرق اور شمارہ کے نمبر سے’’ آج ‘‘کے الگ الگ پرچوں کی شناخت ہوجاتی ہے۔ نعت رنگ کے سرورق کو بھی ایک مخصوص شکل دی جا سکتی ہے۔ ہر شمارہ پر نعتیہ خطاطی کے نمونے بھی دیئے جا سکتے ہیں اسلام آباد سے چھپنے والے رسالے پیغام آشنا کی طرح ۔۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ بھی دیئے جاسکتے ہیں۔صوفی برکت کی مرتب کردہ کتاب ’’اسمائے نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں اسماء مبارکہ کی خطاطی حافظ یوسف سدیدی مرحوم نے کی ہے میں نے اپنی نعتیہ کتابوں سیدنا احمد ’’سیّدنا محمّد‘‘، سیّدنا الرّحیم، سیّدنا الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرورق کی خطاطی اسی کتاب سے لی ہے اور ان شاء اللہ آئندہ کتابوں کے عنوانات اور خطاطی بھی حافظ یوسف سدیدی مرحوم سے (بہ جذبہ تشکر و دعا)اخذ کرنے کا آرزومند ہوں ۔۔۔۔۔ نعت رنگ کے سرورق پر مستقلاً ایک خاص سائز کے بکس میں اس مبارک خطاطی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ حرمین شریف کی تاریخی تصاویر وغیرہ بدل بدل کر آتی رہیں اور باقی تمام سرورق ریورس میں ایک جیسے پس منظر (’آج‘ وغیرہ کی طرح)کے ساتھ ہر بار مختلف رنگ میں آتا رہے پُشتے پر شمارہ وار نمبر کے اندراج کے ساتھ ۔۔۔۔۔

۲۔ نو تصنیف ۔۔۔۔۔ کے عنوان سے غزل کے علاوہ نعتیہ قصائد اور مثنویات یا دوسری صنف سخن کی اشاعت کی طرح ڈالی جائے یہ حصہ تین چار صفحہ پر مشتمل کسی بھی صنف میں نو تصنیف نعت پارہ پر مشتمل ہو اَس طرح غیر محسوس طور پر ایک دو سالوں میں نعت کے باب میں پُر شکوہ اور محاسن شعری کی حامل اصناف (عام غزلیہ نعتوں کے علاوہ )تخلیق ہوں گی اور ان کی جمع آوری ہوسکے گی۔

۳۔اس نعت میں ۔۔۔۔۔ جیسے کسی عنوان سے بعض نعتوں کے فکری و فنی تجزیاتی مطالعے کی گنجائش پیدا کی جائے۔نئی اور آزاد نظم کے تعارف کے لئے بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں کئی رسائل نے نظموں کے تجزیاتی مطالعے شروع کئے تھے ایک ایک نظم پر تین تین چار چار اہل قلم کی آرا کو اس نظم کے ساتھ شائع کیا جاتا اس سے نظم کے کئی ہے پہلو سامنے آتے۔میرا جی کی کتاب اس نظم میں ایسے ہی جائزوں پر مشتمل ہے بعد میں مولانا صلاح الدین کے زیر اہتمام نکلنے والے جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور میں بھی ایسے جائزے شامل ہوتے رہے ۔۔۔۔۔ بعض بلیغ مفاہیم کی حامل نعتوں پر ایسے جائزوں سے تنقیداتِ نعت کی نئی جہتیں سامنے آئیں گی۔

۴۔ توضیحی مطالعات ۔۔۔۔۔ کسی خاص شاعر کی آٹھ آٹھ دس دس نعتیں مختصر تعارف اور تنقیدی کلمات کے ساتھ شائع کرنے کے لئے آنے والے شماروں میں ایک خاص گوشہ وقف کیا جا سکتا ہے۔(مختلف شاعروں کی ایک ایک نعت کے علاوہ )ایسے گوشوں کی اشاعت سے کسی شاعر کی تخلیقی مساعی کا ایک بھرپور تاثر سامنے آئے گا اور یوں زیر مطالعہ شاعر کے فکروفن کے کئی رخ بیک نظر سامنے آئیں گے۔میری نظر میں نعت رنگ کا اب تک سب سے توجہ طلب حصہ نعتیہ شاعری سے تعلق رکھتا ہے اس حصہ پر مزید محنت کی ضرورت ہے۔فکروفن میں بلاغت نادرہ کاری، ہئیت، لفظیات اور طرِزاد کی تازگی کے پیش نظر اس حصہ کو مقدار ساماں کی بجائے معیار آشنا کرنے اور رکھنے کی ضرورت ہے۔


۵۔ تدوینِ کا پہلو نظر انداز ہو رہا ہے ۱۸۴۰ سے ۱۹۴۰ تک سینکڑوں نعتیہ گلدستے نامے کی مناسبت سے نظمیں (میلاد نامے ،وفات نامے، معجزات نامے ، معراج نامے، پیغمبر نامے، جنگ نامے وغیرہ)شائع ہوئیں بیس چوبیس صفحات سے لے کر اسّی، سو صفحات تک یہ نعتیہ سرمایہ فراموش ہورہا ہے اگر نعت رنگ میں ہر بار ایک کاپی سولہ صفحات تدوینِ نعت کے ذیل میں محفوظ کئے جائیں تو ایسے مختصر نعتیہ کتابچوں کے تعارف کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ چند باتیں عجلت میں لکھ دی ہیں اگر ان میں ایک آدھ نکتہ کارآمد ہو تو اس پر غور کیجیے ورنہ نعت رنگ کے قلمکاروں اور قارئین پر چھوڑ دیجئے پچیس پرچوں کے بعد آئندوں پرچوں کی لے آؤٹ اور مندرجات کی ترتیب کیا ہوگی؟یہ وقت کے ساتھ خود بخود طے ہوجائے گا۔ نعت رنگ کے آغازِ سفر کے وقت اس بارے میں کون سوچ سکتا تھا اللہ تعالیٰ ایسے کاموں میں خود معاون و مدد گار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اکیسویں صدی نعت کی صدی ہے مجھے امید واثق ہے کہ تخلیق، تنقید، تحقیق، تدوین، ترتیب اور پیشکش ان شاء اللہ ہر شعبے میںیہ صنف معیار افزوں راستوں کی طرف گامزن ہوگی۔

’نعت رنگ‘ کے ذمّے ’نعت نما‘ کے عنوان سے اب تک کے شائع شدہ نعتیہ اثاثے کی سائنٹیفک بنیادوں پر مبسوط اشاریۂ کتب کی تدوین ہے اس کے لئے الگ مضمون درکار ہے ۔ جس میں اس کے لئے رہنما اصول اور ضروری تجاویز کی تفصیلات دی جائیں ۔۔۔۔۔ سو یہ کام پھر سہی۔


ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری۔کراچی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

17/ ستمبر2014

نعت رنگ ۲۴ موصول ہوا ۔یاد فرمائی پر ممنون ہوں ۔نعت رنگ اورآپ کے سفر کودیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔میں آپ کی ابتدائی زندگی سے واقف نہیں کہ قلم اٹھاؤں تو آپ کی شخصیت کے ذکر کے چھیڑتے ہی بول اٹھوں کہ ’’ہونہار بروے کے چکنے چکنے پات‘‘ لیکن اگر ایسا نہ کروں تب بھی آپ کی موجودہ زندگی کا رکھ رکھاؤ بول اٹھتا ہے کہ آپ کے ذوق و مزاج کا علم کیا ہے ؟ آپ کا شوق و مطالعہ ادب و فنونِ لطیفہ سے دل چسپی شعر کہنے اور پڑھنے کے اسلوب سے بروا کی ہونہاری کا انداز ہ کیا جاسکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے اگر دس پندرہ سال پہلے کی اٹھان نہ دیکھی تھی تو اس کا غم نہ تھا میں اسی قریبی مدت سے آپ کی زندگی کے انداز کو دیکھ کر رہا ہوں اور اسی دیدہ و مطالعے نے میرے دل میں ایک ایسا آئینہ بنادیاہے جس میں آپ کے گزشتہ دورکے تمام حسن و زیبائش کے ساتھ آپ کی تمام باتیں اور نظارے دل کے آئینے میں دیکھ سکتا ہوں۔زمانہ طالب علمی ہی میں آپ کی شاعری شہرت ہوچکی تھی خواہ کسی بڑے حلقے میں نہ سہی مگر آپ کے سامعین اورشایقین کا ایک حلقہ ضرور پیدا ہو گیا تھا لیکن نعت خوانی کی مجالس کے تعلق سے آپ کے حسنِ بیان کی خوشبو دوردور تک پہنچ چکی تھی۔

اسی زمانے میں آپ نے خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور تذکار مقدسہ کے مقصد سے ایک مجلہ علمی و دینی ’’نعت رنگ‘‘کے اجراکا فیصلہ کیا اگرچہ یہ کام نہ اس وقت آسان تھا اور نہ آج کے بہت ترقی یافتہ دور میں یہ کام آسان ہے میرا اشارہ مجلے کے کاغذی مجموعے کی اشاعت نہیں بلکہ علمی و دینی پہلو سے اس کی جامعیت ،تحقیق کے معیار زبان و بیان کی لطافت اور پیش کش حسن کی رنگینوں اور دل آویزوں کی طرف تھا اور سچ یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ آپ اس مقام کو کبھی حاصل نہ کر سکیں گے لیکن آج میں شرمندہ ہوں ،میں بھول گیا تھا کہ:

یس الانسان الاماسعی۔(النجم ۵۳۔۳۹)

انسان کو وہی ملتاہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

عزیز محترم آپ نے جس چیز کی آرزو کی تھی خدا سے جس چیز کو مانگا تھا اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کر دیا ۔آپ نے اپنی سعی و عمل سے خدا کو راضی کر لیا اورآپ کو کامیابی نصیب ہوئی اور میں اپنے تصورات میں کھویا اور خیالات میں ڈوبا رہا اور شرمندگی سے دوچار ہوا۔

اب ’’نعت رنگ‘‘ کی نیز یگیاں بیان سے باہر ہیں موضوعات کے شمار کی دشواری، وسعتوں کی پیمائش ناممکن ،جدت ترازیاں حیرت انگیز ،اسکالز کے لیے تحقیق کے بے شمار موضوعات ،تحقیق کے مآ خذ اپنے چاہنے والوں کے صبح و شام منتظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک کی حالت کچھ بھی ہو! وہ ترقی کرنے نہ کرے ’’نعت رنگ‘‘نے نعت بند ی میں اور اس کے حوالے سے دینی مسائل میں جو عظیم الشان تحریک پیدا کر دی ہے اس جیسا رنگ و روپ صدیوں پہلے تک نظر نہیں آتا میں اس کامیابی اور جدت طرازی کے لیے کہ صرف آپ ہی کو اس وجہ سے پہلے مبارک باد دینا نہیں چاہتا کہ آپ ’’نعت رنگ‘‘ کے مرتب ہیں بلکہ آپ کے معاونین ،مجلس مشاورت کے اراکین اور نعت رنگ کے اہل قلم جو کسی پہلو سے بھی نعت کے فن اس کے متعلقات یا کسی اور پہلو سے سو سو صفحے کا مضمون لکھیں یا کسی نے ایک صفحے کا خط لکھا ہو چوں کہ علم و تحقیق یا دین و ادب اور ہیکل نعت کی تعمیر میں سب کا حصہ ثابت ہے اس لیے میں عزیزی آپ کے ساتھ ان تمام حضرات کو بھی مبارک باد کا پہلے مستحق قرار دیتا ہوں میرے نزدیک ’’نعت رنگ‘‘ کے صفحات میں جس نے بھی کم و بیش جگہ پائی ہے وہ قابل فخر ہے۔

یہ بھی اللہ کافیضان ہے اس نے نعت رنگ کی برکات اور اس کے کاغذ ،کتابت اور کمپوزنگ اور اس کی سجاوٹ کی رنگینیاں صرف اسی حد تک محدود نہیں رہی ،بلکہ مطالعہ نعت کے عشق ،اس کی زبان کی لطافت ،اس کے اسلوب کے کمال حسن اور پیش کش کی دل ربائی کو قدرت نے چاند اور تاروں سے مزین زمین پر علم و فن کی ایک نئی دنیا آباد کر دی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں نعت کو جو اردو شاعری کی صنف سمجھی جاتی تھی ایک مستقل فلسفہ اور علم و فن تسلیم کر لیا گیا ۔

اس انقلاب میں بہت حد تک اس دینی وعلمی مجلّے ’’نعت رنگ‘‘ کی تاثیر ،مقالات اور ان کے مباحث کا حصہ بلکہ آپ کے اخلاص و مروت کا حصہ بھی شامل ہے۔میں نعت رنگ کے شمارہ ۲۵ کی اشاعت پرآپ کے دعا گو بھی ہوں اورنعت کوادبی صنف سخن کے اعتباراس کاجائز مقام دلانے کے لیے کی گئی کاوشوں کوبھی خراج تحسین پیش کرتاہوں۔


ڈاکٹرمعینؔ نظامی۔لاہور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

18/ستمبر 2014

امید ہے مزاج بخیر ہوں گے ۔نعت رنگ کے پچھلے تین شمارے اور اشاریہ موصول ہوا۔اس عنایت کے لیے آپ کا بے حد ممنون ہوں۔

۲۵ ویں شمارے کے لیے کوشش ہوگی کہ کوئی تحریر ارسالِ خدمت کرنے کی سعادت حاصل کرسکوں ۔دعا ہے کہ آپ استقامت سے خیر وبرکت کایہ کام جاری رکھ سکیں۔

رؤ ف نیازی۔کراچی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

10/ اکتوبر2014

نعت رنگ کا شمارہ ۲۴ ملا۔آپ نے بڑاکام کیاہے۔عصر حاضر میں نعت کا فروغ دیکھ کر دل خوش ہوتاہے آپ کی خواہش ہے کہ میں ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کچھ لکھوں سو چند پہلو جن پر میں غور کرتا رہا ہوں پیش کیے دیتا ہوں۔علم کائنات(cosmology)کی تاریخ ہیت دانوں astronomers)) کے مطابق ۳۵۰۰ سال پرانی ہے ہماری کائنات کے وجود میں آنے کی کھوج ا س کے مظاہر کے شاہدوں پر غور و خوض اورفکر و نظر کے ارتکاز کی ابتداء جن ممالک سے شروع ہوئی ان میں سیلون،چین، یونان، اٹلی، انڈیااور مصر شامل ہیں یہ اعزاز ارسطو (۳۸۴۔۳۲۲ق۔م) کو جاتاہے کہ اس نے اپنی تصنیف (Decaele on the Heavens)میں بیان کیا ہے کہ ہماری مقدس سرزمیں چھوٹے چھوٹے ۵۵ مقدس کرُوں کے درمیان چکر لگا رہی ہے ہماری زمین سے قریب ترین اور سب سے چھوٹا کرُہ چاند ہے ۔حشو و زوائد سے قطع نظر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ارسطو کا نقطۂ نظر دو ہزار سال تک تسلیم کیا جاتا رہا اسے مورخین کی آراء میں کیتھولک فرقہ نے اپنے مفاد میں استعمال کیا اور علم کائنات کی تفہمیت و فروغ کی راہ میں روڑا بنا رہا ۔(The Handy space Answer Book TM Visible Imfa press-1998,USA.P-12)

حیات و کائنات کی ایسی حقیقت مطلق جس جو فکر ی ،نظری اور علمی ،عملی تائید حاصل ہو اب تک ممکن نہیں ہو ا ہے پیش نظر موجودات ومظاہر کی حقیقت کو فلسفہ حتیٰ الامکان پرکھتا اور برتتاہے اس کا ہدف اور دائرہ عمل اورناموجوددونوں کی کنہُ تک پہنچنا ہے تاہم فلسفہ حتمی اور فیصلہ کن نتائج یایقین دہانیوں سے گریز برتتا ہے۔فشٹے اسے علم و آگہی، کانٹ علم انتقادیات، اورنٹشے اسے تخیل و تصور (Conception) اور ادرک یا احساس (Preception) کی ثانویت میں تقسیم کر کے اسے فلسفہ کی ذیل میں رکھتے ہیں ۔ایک اور جہت اخلاقی و مذہبی اقدار کا توارث اور تسلسل ہے جو تحقیق و تفتیش سے عبارت ہے یہ برٹرینڈ رسل سے منسوب ہے المختصر فلسفہ کا ارتکاز سے عاری مدوجزر اسے کہیں ٹھہرنے نہیں دیتا یہ گھڑی میں تولہ ،گھڑی میں ماشہ میزان معاشرتی زندگی میں اپنی معنویت اور افادیت کھو بیٹھتا ہے اس کے برعکس سائنسی پیش رفت او ر اس کے انکشافات بڑی حد تک معاشرہ کو سدھارنے میں ’ر اۂِ راست بردُ گرچہ دور ہست‘ کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ہر چند کہ سر جیمس کا اصرار ہے کہ سائنس جس مقام پر آکر سکوت واسقرار کا شکار ہو جاتی ہے فلسفہ وہاں سے اپنی پیشِ رفت کا آغاز کرتا ہے وۂپر نے فلسفہ اور سائنس دونوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سائنس ایک جسم ہے ،بے روح جسم اور فلسفہ روح ہے ،جسم کے بغیر گویا اس نے دونوں کوایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قرار دے کر زندگی کے پہیہ کو پھر رواں دواں کر دیا۔

فلسفہ ہو یا سائنس یہ اجتماعی کاوشوں سے صورت پذیر ہو تاہے جب کہ فن کار تن تنہا پوری انسانیت کے لیے محبت ،ہمدردی اور خیر کاپیغام لے کر طلوع ہوتا ہے ۔فن کار اپنی تخیلاّتی اور تخلیقی سوچ کو رنگوں یا لفظوں کا جامہ پہناتا ہے تو گویا اپنے فن اور ہنرمندی کے توسط سے اپنی جذباتی ،حسیاتی ، جمالیاتی اور تجزیاتی کیفیات کو قارئین ،ناظرین یا سامعین تک منتقل کرتاہے سامع ،قاری یاناظر اس سے جو کیف و سرور یا فکر ونظر کے جن نئے ابعاد سے متعارف ہوتاہے اس صورت حال کو میور ہیڈ حساس سامع ،قاری یاناظر کی فطری محرومیوں اور نارسائیوں کی طمانیت و تسکین کاباعث گردانتا ہے فن کا حسن و جمال تخیل کی شادابی میں گھل مل کر ایک صاحب ادراک اور ایک نفس مُطمِنہ کے حامل قاری سامع یاناظر کو سکون و آسائش مہیا کرتا ہے اس راحت رساں فن کار کومیور ہیڈ ’’آفاقی انسان‘‘ کہتاہے جومافوق الانسان آفاقیت پر محیط ہونے کے سبب کائنات کا نگراں اور محّرک ہونے کا استحقاق رکھتاہے اس نکتہ پر آکر ہماری نظریں ان تقدیس یافتہ ، قابل احترام بابرکت محسنن انسانیت پر آکر پڑ جاتی ہے جو اپنے اپنے زمان و مکان میں بحثیت انبیاء اکرام تشریف لائے خالق و مخلوق کے درمیان حد ادب کے رابطے اور ضابطے پیش کیے خالق و مخلوق کے درمیان عابدو معبود کی تفریق کو نمایاں کیا، جزا و سزا کا تصور دیا۔ آداب بندگی سکھائے رب العالمین کی آفاقیت اور حاکمیت کا درس دیا اور اس ابدالآباد کی حقانیت کے حضور سجدہ ریزی اور تضرع کی تلقین کی اسی رشد و ہدایت کی آخری کڑی سرور کونینصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفا ت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت زیبا ہو یا سیرت مُنزہ ایثار ہو یا انکسار ،فکر رسا ہو یا ذکر خدا، عفو و درگزرہو یا برداشت و صبر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر پہلو خالق کائنات کی رضامندی اور خوشنودی سے مشروط ہے ۔کیٹس (Johan Keats,1795-1821) نے سچ کہا ہے )"Beuty is truth, truth is beauyt" حسن صداقت ہے اور صداقت حسن ہے) حسن و صداقت کے اس پیکر جمیلصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے آنے والے خزف ریزے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کے لیے کسی گوہر نایاب سے کم نہیں ۔دین و دنیا کی سرخ روئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور نقوش قدم کی پیروی میں مضمر ہے۔

ہماری وجود یت(Existentialism) اور اس کی مظہر یات (Phenomenology)کا بنیادی قضیہ یہ ہے کہ ان دونوں میں اولیت یا ترجیح کس کو حاصل ہے ؟ فرد کے وجود کو یا اس کے اوصاف کو ؟ جرمن مفکر ہیڈ یگر(Martin Heidegger,1889-1976)اپنی تصنیف"Time and Being" (ہستی و زمان)میں ،فرد کی اس کائنات میں ہوئیت کو(Dasein) سے تعبیر کرتا ہے "Field Theory of Dasein" کے مطابق یہ کہیں ٹک کر نہیں بیٹھتا ۔موجودات سے بھری پوری دنیامیں اپنی ذات کو کھوجتا اور اس کی قدر کا تعین کرتاہے یہ ’وجود ‘فی العلالم بامعنیٰ اور بامقصد ہے اگر انسان اپنے مختصر عرصہ حیات میں بر وقت اپنے اہداف کی تکمیل کر لے تو فبہا بصورت دیگر پچھتاوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔’وجود‘ فی العالم کی عارضیت کو ہیڈگر 'Temporal Temporality'،(زمانی عارضیت ) کا نام دیتا ہے اس کی دانست میں مغربی فلسفہ وجودیت اور عدم وجودیت اپنی تفہمیت، وسعت اور کارکردگی میں ادھورا ،نامکمل اور غیر موثر ہے وہ پانچویں صدی (ق۔م) کے چینی فلسفی لازوئے اور سدھارتھ گوتم بدھ (۵۶۰تا۴۸۰،ق۔م) کی تعلیمات او ر نگارشات کو جو مذہبی عجز و انکسار، پارسائی ، خدا ترسی ،تقوی و پرہیزگاری اور دنیا وی لہو لعب سے پاک شفاف ہیں ان کو افضلیت دیتا ہے ۔جرمن مفکر ہیڈگر کے اس فلسفہ اور اس کی تعلیمات کو ساتر نے فرانس میں متعارف کرایا اور حتی الامکان فروغ دینے کی کوشش کی ۔

دنیا کو کوئی فرد نہ تو عقل کُل ہوتا ہے اور حرف آخر ۔خطا و نسیاں کا یہ پتلا حیات و کائنات کی پُر پیچ وادیوں میں دامن سمیٹے ،گرتا پڑتا ،ٹھوکریں کھاتا Zigzag Graph کی صورت اپنی مجوزہ منزل تک پہنچنے کی تگ و دو میں تن من دھن سب کچھ لٹاکر یقین سے نہیں کہ سکتا کہ وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا عمومی بشریت کا یہی وتیرہ اور طورطریق ہے یہ اعزاز نبیوں اور رسولوں کے حصہ میں آیا ہے جنہیں خالق کائنات نے’ بشریت کی تخصیصیت‘ کے ساتھ انسانیت کی فلاح اوربہبود کے لیے زندگی کے عمودی (up-right)گراف کے ساتھ اس طلسم حیات کی گوں ناگونی میں بھیجا گویا ایں سعادت بزور بازو نیست۔اس بشریت کی تخصیصیت سے بڑھ کر ایک آخری مقام تکمیلیت کا ہے اس کی واحد اور اپنی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی آخری الزماں رسالت مآب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو ’بشریت کا ملہ ‘ کے مقام پر فائز ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات لاثانی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر منظوم ہو یا منثور خیر الوراسے ماروا کی نا مختنم کائنات تک پھیلا ہواہے جہاں تک منظوم کا تعلق ہے تو ممکن ہے بعض اذہان میں یہ ابہام پیدا ہو کہ خود قرآن ’’سورہ الشعرا ‘‘ جومکی ہے دو سوستائیس (۲۲۷) آیتوں اور گیارہ (۱۱) رکوع پر مشتمل ہے اس میں آیت نمبر ۲۲۴،۲۲۵ اور ۲۲۶ کا بالترتیب اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

’’شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں کہ جو بہکے ہوئے ہیں ...........‘‘(آیت ۲۲۴) ص۱۰۴۲

’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک بیاباں میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں.......‘‘(آیت ۲۲۵)ص۱۰۴۲

’’اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں .............‘‘(آیت ۲۲۶) ص۱۰۴۲

آیت نمبر ۲۲۷ میں استشناء کی جو صورتیں ہیں وہ اس طرح ہیں :

سوائے ان کے جو ایمان لائے (۱) اورنیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا (۲) جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں (۳)۔

[قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر ص۱۰۴۳،مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس]

۱)ان شاعروں کا مستثنی قرار دیا ہے جو صداقت اور حقائق پر مبنی شاعری کرتے ہیں ۔ ص،۱۰۴۳،قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر ص ۱۰۴۳ ، مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس

۲) جو کافر شاعروں کو شاعری میں جواب دیتے ہیں ۔(مثلاًحضرت حسان بن ثابتؓ )، ص ۱۰۴۳، ایضاً

۳) حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو ،جبریل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں، ص۱۰۳۳،ایضاً

وجودی وحدت (Ontological Unity) اور عددی وحدت (Numerical Unity) دو مختلف النواع وحدتیں ہیں کلیات اور جزیات دونوں بیک وقت کسی ایک معروض (Object)میں موجود نہیں ہو سکتیں اگر وجودی وحدت پر اصرار ہے تو عددی وحدت سے انکار لازمی ہے اگر وجودی وحدت پر اصرار ہے تو عددی وحدت سے انکار لازمی ہے اگر عددی و حدت کا اقرار ہے تو وجودی وحدت سے دست برداری لازمی ہوگی گویا کل اور اجزاء میں سے کسی ایک عنصر (Factor) اپنا اثبات کرانے کے لائق ہو گا دوسرے عنصر کی نفی لازمی قرار پائے گی ایمانیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پہلے لات و منات کی نفی کی جائے اور پھر واحدہ لا شریک کی ذاتِ والاصفات کا صدقِ دل سے اعتراف کیا جائے اور اس اثبات کے بعد پھر دستِ دعا کسی غیر اللہ کے سامنے دراز نہ ہو یہ اعلیٰ و ارفع مقام و اصل باللہ کا ہے ۔

حاشہ للّلہ کوئی ذات ماسواخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلمکے ایسی نہیں جو واصل باللہ ہونے کااعزازرکھتی ہو ۔ایسی تقدیس یافتہ رہبر و محسن انسانیت شخصیت کی جس قدر تعریف و توصیف کی جائے وہ کم ہے یہی وجہ ہے کہ عہد رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آج تک ہر وہ شاعر جس نے حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں ،رفعتوں اور بشری بلندیوں کے بارے میں سوچا وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ نہ کچھ نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگیا کچھ شعرا کو بہت زیادہ کامیابی نصیب ہوئی اور انہوں نے شعرِ عقیدت ہی کہتے رہنا اپنا شعار بنا لیا ۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شعرا کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔واجب الاحترام ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی نے آسمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت ،افادیت، رفعت اورمعنویت کو دو مصرعوں میں سمیٹ کر گویا کوزے میں دریا بند کر دیا ہے ۔

آپ کے نام میں ہر لفظ کا مفہوم ملے

میرے سرکار ہیں ہر دور کی زندہ فرہنگ

شمائل ترمذی سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حسان بن ثابت کفار کے الزامات کا منظوم جواب دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں منبر کا اہتمام کرتے تھے تاکہ اس پر کھڑے ہو کر کفار کو للکاریں حضرت جابر بن سمرہؓ بھی گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اکرام کے ان اشعار سے لطف اندوز ہوتے تھے جو عہد جاہلیت کے بیانیہ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ اسی طرح حضرت ژیدؓ سے امُیّہ کے اشعار بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سماعت فرمائے ۔اس سے ثابت ہوگا کہ شاعری اسلام میں شجر ممنوعہ نہیں ہے ۔ مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاجذبہ عربی کے شعرا سے فارسی گویانِ عجم میں منتقل ہوا اور وہاں بڑے بڑے شعرا جن میں جامی ،قآنی ،فرید الدین عطار ،سعدی وغیرہ ہم نے نعتیہ اشعار کہہ کرحضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوخراجِ عقیدت پیش کیا۔ پھراردو زبان کی ابتدا ء ہی سے نعتیہ اشعار اردو شعری روایت کاحصہ بنتے رہے ۔فخر دین نظامیؔ نے مثنوی کدم راؤ پدم راؤ (جس کا زمانہ ،تصنیف ۸۲۵ھ تا ۸۳۹ ھ مطابق : ۱۴۲۱ ء تا ۱۴۳۵ء بتایا جاتاہے ) میں حمد کے بعد نعت ہی کہی ۔پھر تو یہ سلسلہ ایسا چلا کہ غیر مسلم شعرا بھی نعت کہنے لگے ۔

پاکستان میں نعتیہ ادب کے فروغ کی تو ایک تاریخ ہے ۔ یہاں نعتیہ شعری اقدار اس طور پھلی پھولیں کہ نعتیہ صحافت کاایک الگ میدان سج گیا۔ شعراے اردو نے بڑی کامیاب نعتیں کہیں ۔ حفیظ جالندھری ، ماہرالقادری ،بہزاد لکھنوی وغیرہ ہم سے لے کر حفیظ تائب ،عبدالعزیز خالد اور صبیح رحمانی تک بے شمار شعرا نے یہ سعادت حاصل کی ۔ اب نعتیہ شعری سرمائے میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اردو کی شائع ہونے والی شعری تخلیقات پر مبنی ۶۰222کتب نعتیہ اشعار پر مشتمل ہوتی ہیں۔

میں نے جون کیٹس کایہ قول نقل کیا تھا کہ ’’حسن صداقت ہے اور صداقت حسن ہے ‘‘ ۔۔۔اس قول کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسانی فطرت میں جو جمال پرستی رکھی گئی ہے وہ اپنی ارتفاعی Sublimity based))شکل میں ’’صداقت ‘‘ پرستی بن کر ان شخصیات کو محبوب بنادیتی ہے جو سراپا صداقت ہوتی ہیں ۔ یہ بات بلا خوفِ تردید ی کہی جاسکتی ہے کہ کائنات میں صرف اورصرف ایک ذاتِ محمدی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایسی ہے کہ جو بشریت کے محاسن کی تکمیلی شکل میں عالمِ بشری کو میسر آئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ذاتِ ستودہ صفات ہرراست فکر انسان کی محبوب ہے ۔ نعتیہ ادب کے فروغ کی اساس حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی اسی محبوبیت پر قائم ہے اور جوں جوں انسانی شعور ارتقائی منازل طے کرے گا انسان آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی کی طرف متوجہ ہوگا۔ لیکن آپ کی شان بیان کرنا آسان نہیں ہے اسی لیے خورشید رضوی نے کہا تھا:

شان ان کی سوچئیے اورسوچ میں کھو جائیے

نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے

اس تناظر میں ’’نعت رنگ‘‘کی خدمات لائق تحسین ہیں ۔میں آپ کے اورمجلس مشاورت کے تمام اراکین کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں اس کارخیر کا اجر عطا فرمائے۔(آمین)


ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔لاہور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

15/ستمبر 2014

نعت رنگ کا شمارہ ۲۴ اوراس کے بعد نعت نامے اور پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر جیسے تحائف موصول ہوئے ان علمی وادبی ارمغانوں کے لیے ممنون ہوں نعت رنگ سے ناواقف تو پہلے بھی نہیں تھا لیکن استیعاب کے ساتھ دیکھنے کاپہلی بار موقع ملا۔ تمجید سے لے کر مقالات تک اور فکروفن سے لے کر خطوط تک سب جگہوں پر عقیدت ہی کی نہیں حسن ذوق کی بھی کرشمہ کاری نظرآتی ہے جس سے دل خوش ہوااردونعت کے ادبی سفر کی جستجو میں ڈاکٹر عزیز احسن صاحب بہت دور تک گئے ہیں اور ایسے ایسے شعرا کے ہاں سے لولوئے لالہ ڈھونڈ لائے ہیں جن سے ادب کاعام قاری واقف بھی نہیں تھا یاوہ متجسس قارئین کی یادداشت سے بھی محو ہو چکے تھے ۔ ڈاکٹر سہیل شفیق صاحب نے تیزی سے اوجھل ہوتی مکتوب نگاری کی دنیا کو سنبھالا دیا ہے اور قیمتی خطوط کاایک وقیع مجموعہ اہل وطن کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔ آنے والے زمانے میں تو مکتوب نگاری ماضی کاایک فراموش شدہ قصہ بن چکی ہوگی اس لیے یہ مجموعہ خطوط صرف نعت نگاری کے حوالے ہی سے نہیں بلکہ اس دم توڑتی صنف ادب کے حوالے سے بھی اہم ہیں آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان کی نعت نگاری پر اپنا مضمون ارسال کررہا ہوں قبول فرمائیں۔


پروفیسر محمد اقبا ل جاوید۔گوجرانوالہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

4 /ستمبر2014

خط ،شخصیت کاعکس ہوتا ہے اور شخصیت مسّرت کے قہقہوں ،غم کے آنسوؤں ،بے نیازی کی داستانوں اور نیاز مندی کی تمناؤں سے عبارت ہے ۔خط ایک مختصر صنفِ سخن ہے ،یہ نثر میں غزل کے ایجاز کا اعجاز ہے ،اس کاحُسن ،اس کی ایمائیت ہے اوراس کا اختصار ،اس کی بلاغت ،یہ ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہے کہ اِس میں عرضِ سخن کا نیاز اور جوہرِ فن کا ناز دونوں موجود ہیں

خط ایک جہانِ راز ہے ،جس کے راز اگر سر بستہ رہیں توسینوں کو گہرہائے معانی کے دفینے بنادیں ،آشکار ہوجائیں توجذبے کی ساری دینا مُشک زار بن جائے ، حق یہ ہے کہ ’’ نعت نامے‘‘ نے میری بے کیف تنہا ئیوں کو فی الواقع ’’مُشک زار‘‘ بنادیا ، میں تب سے اب تک اپنی بے کیفیوں کواِسی سے بہلا رہا ہوں ۔یہ اس اعتبار سے ایک منفرد تالیف ہے کہ اس کے جملہ مکاتیب ’’نعت رنگ‘‘ سے متعلق ہیں اور ’’نعت رنگ‘‘ اُس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے زیبائی اور رعنائی لیتا رہا ہے اور لِے رہا ہے جووجہِ وجودکائنات ہے ، یہ مجموعۂ مکاتیب اِسی ذات والا صفات صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار سے مستغیر بھی ہے اور ایک عہد کی نعتیہ تاب وتب کا عکاس بھی :

انداز ہیں جذب اس میں سب شمعِ شبستاں کے

اک حُسن کی دنیا ہے خاکسترِ پرواز!

جناب محمد سہیل شفیق کی خدمت میں سلام اور دعائیں ۔اور کچھ ’’یو نہی سی‘‘تحریریں محض ’’خانہ پُری ‘‘کے لیے ۔


ڈاکٹرصابرؔ سنبھلی۔انڈیا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

13/اکتوبر 2014

ایک طویل مضمون کے بجائے تین چھوٹے چھوٹے مضمون بھیج رہا ہوں ۔تینوں کا موضوع بہرصورت نعت ہے ۔اب لکھا نہیں جاتا بلکہ بیٹھنے میں بھی پریشانی ہوتی ہے ۔ہائی اسکول کے سر ٹیفکیٹ میں تاریخِ ولادت ۱۵؍ جولائی ۱۹۴۱ء درج ہے ۔گٹھیانے مزید بے کار کردیا ۔کچھ نعتیں بھی ارسال کررہا ہوں ۔ اگر کوئی پسند ہوتو شامل اشاعت کرلیں ۔Four inoneصنعت کو فروغ دینا چاہتا ہوں مگر اکیلاہی گاڑی کھینچ رہاہوں کسی طرف سے ہم نوائی نہیں ہوئی ۔ایسی دو نعتیں آپ کو بھی بھیج رہا ہوں ۔ زبیر قادری کی جانب سے نعت رنگ کا اشتہار تو چھپا ہے ۔اس سے تویہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نمبر چھاپ لیا۔ آپ کے کہنے سے بھیج سکتے ہیں ۔شاید ابھی آپ کی بات نہیں ہوئی ہے ۔بُخل تو نہ کہیے کفایت کہہ لیجیے ۔سارا میٹر باریک پتنگی کاغذ پر لکھ کر بھیج رہاہوں ۔ڈاک خرچ میں کفایت ہو جائے گی ۔میرا خیال ہے آپ کو یا کمپوزر کو پڑھنے میں دشواری نہ ہوگی ۔امید ہے کہ مزاج گرامی بہ عافیت ہوگا ۔خداکرے سرحد بند ہونے پہلے میرے مضامین یہاں سے نکل جائیں ۔حالات کچھ اچھے نہیں معلوم ہوتے ۔


مفتی غلام حسن قادری۔لاہور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

10/اکتوبر2014

خیریت موجود وخیریت مطلوب ازاں بعد گذارش ہے کہ آپ کے تبرّکات باصرہ نواز ہوئے آپ نے بہت مہربانی فرمائی کہ ؂ بن مانگے دیا اور اتنا دیا کہ دامن میں ہمارے سمایا نہیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر بہترین صلہ عطا فرمائے ۔آمین ثمّ آمین بحرمۃ سیّد الانبیاء والمرسلین ۔علیہ واٰلٖہ افضلُ الصّلوۃ واکمل التّسلیم۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تواپنے شمارے میں شرح حَدائق بخشش میں سے ہی دوتین اشعار یاپوری ایک نعت کی تشریح لگا دیا کریں تو میرے لیے اعزاز بھی ہوگا اورآپ کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی یا پھر سے سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے ۔بارِدِگر آپ کا بہت شکری


ڈاکٹر ضیاء الرحمن ۔کوئٹہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

23/نومبر ؍2014

آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔خوشی اور شرمندگی بہ یک وقت نازل ہوئیں۔ خوشی اس بات کی کہ آپ نے یاد رکھا ،شرمندگی یوں کہ میں آپ اور آپ سے کیے ہوئے وعدوں کو بھول گیا ۔ پہلا ازالہ تویہ چند سطریں ہیں۔ دوسرا جواز یہ کہ میں مسلسل علالت میں رہا ۔دو ڈھائی ماہ اسی کی نذر ہوگئے۔بہ سلسلۂ معالجہ کراچی بھی جانا ہوادوہفتے اسپتال اور زبردستی کے تیمارداروں کے گھروں میں رہا۔اسی درمیان میں آپ کی تین کتابیں اور ۲۵ستمبر ۲۰۱۴ کاخط آیا ،مگر یہ چاروں چیزیں بند پڑی رہیں۔چار شکر گزاریوں کابوجھ لیے پھرتا ہوں ۔ازالہ کی ایک صورت یہ ہے کہ میں نے مقالے کے متعلقہ حصے کی عکسی نقل تیار کرالی ہے۔ مگر اسے ایسے ذریعے سے سپرد کرنا رہ گیا ہے جو تیز رفتار ہو۔انشاء اللہ ایک دو دن میں یہ بھی ہوجائے گا ۔اس سیاق وسباق میں میری معذرت خواہی کوقبول فرمائیں گے۔ نعت رنگ سے متعلق آپ کی فراہم کردہ کتابوں پرجو نگاہ ڈالی ہے اسے سرسری بھی نہیں کہا جاسکتا ۔اب طبیعت قدرے بحال ہوئی ہے اور روز مرہ کے کاموں کو رفتہ رفتہ جزو زندگی بنارہا ہوں لہٰذا مطالعے کاوقت فراہم ہوجائے گا۔پھر نعت اس کے مباحث اور ذکر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کس طرح ممکن ہے؟ پڑھناہوگا،پڑھ پڑھ کے سمجھنا ہوگا اور سمجھ سمجھ کے پڑھنا ہوگا ۔ آپ کی اس خدمت اور نیکی کاصلہ اجر کثیر کی صورت میں عطا ہوآمین۔

میرے معاونیں کیا ،معاون بھی نہیں ہے ۔سب کچھ مجھے خود کرنا پڑتا ہے۔صبح سے رات تک یونیورسٹی کے تعلیمی ،تدریسی اور انتظامی کام کرنا ہوتے ہیں۔پھروقت نکالتاہوں تودوسرے کام کرتا ہوں ۔ اس لیے جب بھی ممکن ہوا’’نعت ‘‘ پر ضرور لکھوں گا۔ اب تو آپ سے راہ ورسم پیدا ہوگئی ہے انشا ء اللہ نعت رنگ کے لیے ،کچھ تیار کرتے رہنے کی کوشش ،جاری رہے گی ۔محترم ڈاکٹر سید جاوید اقبال صاحب کابہت احسان ہے کہ وہ آپ جیسے احباب سے متعارف کرادیتے ہیں۔ ورنہ ہم تو بلو چستان میں دور بیٹھے ہیں۔ جو کچھ بھی کرلیں ہمیں کون جانتا ہے اور کسے فرصت ہے کہ ہمیں جانے اور نہ ہی ہمیں خود متعارفی کے سلیقے آتے ہیں۔کڑوی کسیلی پر پھر معذرت ۔

متعلقین کو حسب مراتب سلام ودعا کہیے گا۔ زندگی بہ خیر تواللہ بالمشافہ ملاقات کی راہ بھی ہم وار کرے گا۔انشاء اللہ (۲) ۲۷/دسمبر ؍۲۰۱۴

گرامی نامہ مرسلہ یکم دسمبر ۲۰۱۴ تاخیر سے ۱۲دسمبر کو موصول ہوا۔اس کے تشکر کے الفاظ میری ممنویت کوادا کرنے سے قاصر ہیں جواب اس سے بھی تاخیر سے لکھ رہاہوں جس کا کوئی جواز موزوں نہیں!ماسوائے اس کے کہ معذرت پیش کرنے پراکتفا کردوں۔

میری نگرانی میں نعت پر کوئی کام پی ایچ۔ڈی سطح پرنہیں ہواہے اورنہ ہی ہورہا ہے آپ نے توجہ مبذول کرائی ہے کوئی لائق ،باذوق اورنعت پر مطالعہ رکھنے والا طالب علم سامنے آیا تواس کی رضا سے یہ کام بھی انجام دینے کی کوشش کروں گا بہ شرط زندگی؟

’’بلوچستان میں اردو حمد ونعت‘‘کی عکسی نقول کی موصولی کا ایس ایم ایس موصول ہوگیا تھاجس سے تشفی ہوگئی تھی کہ مذکورہ مواد بہ حفاظت آپ تک پہنچ گیاہے ۔میں صبح سے رات تک یونیورسٹی میں واقعتا بہت مصروف رہتاہوں اس لیے اکثرایس ایم ایس جیسے مختصر ’’مکتوب جدید‘‘کے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتاہوں پھر رفتہ رفتہ بھول جاتاہوں کہ کس کو کیا کہناہے؟یہ خط ان سب کاازالہ جانیے۔آپ کی بھیجی گئی تینوں کتابیں (میں انہیں تحفے گردانتا ہوں)مطالعے سے گزری ہیں ۔ نئے ’’تحائف‘‘کا بے چینی سے منتظر ہوں۔اگر جنوری کے ہفتہ اول تک بھیجنا ممکن ہو تویونیورسٹی کے پتہ پرارسال کیجیے گا ورنہ یکم مارچ کے بعد زحمت کی گزارش کروں گا کیونکہ یونیورسٹی سردیوں کی تعطیلات کے سلسلے میں بند ہوجائے گی ۔امکانات میں ہے کہ میں جنوری یا فروری میں کراچی کا مختصر چکر لگاؤں آنا ہواتوآپ سے رابطہ بھی ہوگا اورنعت ریسرچ سینٹر کو بہ نفیس نفیس دیکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوجائے گی انشاء اللہ۔

بلوچستان میں رفتارِ تحقیق بہت سست روی سے آگے بڑھی ہے اب رفتہ رفتہ جوش تحقیق بلند ہونے لگا ہے ۔دور نزدیک کے مردوزن اردوتحقیق میں وارد ہورہے ہیں۔امیدہے ان میں سے چند بلندقامت محقق سامنے آجائیں گے یہ بات میںیہاں ہونے والی ’’سندی تحقیق‘‘کے پس منظر میں کہہ رہاہوں ۔ عمومی تحقیقی کی روایت پہلے بھی کم زور تھی اوراب اس سے بھی زیادہ دگرگوں ہے ۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر کے انتقال (وسط دسمبر ۲۰۱۴)کے بعد تویہ اوربھی مدھم ہوگئی ہے ۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جواررحمت میں جگہ عطافرمائے ۔آمین۔



ڈاکٹر اشفاق انجم۔ انڈیا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ کے میسیج اور پھر نعت رنگ نمبر ۲۴ دستیاب ہوئے۔ کئی ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے اس دوران بڑی الجھنوں میں مبتلا رہا۔ سوچا کہ ذرا سکون ملے تو رابطہ قائم کروں لیکن ایسا نہ وہ سکا۔

سید صاحب! میری عادت ہے کہ میں اپنی پریشانیوں میں احباب کو شامل کرنا مناسب نہیں سمجھتا کیوں کہ آج کل تو ہر کوئی اپنے آپ میں پریشان ہے۔ بہرحال، اس حال میں بھی آپ کی محبت نے نعت رنگ کے لئے ایک مضمون لکھوا ہی لیا۔پسند آئے تو شائع فرما دیجئے گا۔


ڈاکٹرناصر الدین صدیقی۔کراچی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

9/ستمبر 2014

مزاج گرامی! ’’نعت نامے‘‘ اور’’نعت رنگ ۲۴‘‘آپ کا محبت نامہ وکتاب برادرِ عزیز جناب پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق صدیقی حفظہ اللہ الباری کے توسط سے موصول ہوئیں ۔

بلاشبہ احقر کوآپ سے ۱۹۹۲ء سے ایک قلبی وروحانی تعلق حاصل ہے ۔اللہ رب العزت نے ’’ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے صدقے میں آپ کی کہی ہوئی نعتوں کو قبولیتِ عام و خاص عطا کیاہے اور جن محافل میں یہ نعتیں پڑھی جاتی ہیں وہاں ایک سماں بندھ جاتا ہے اور سامعین پر رقت طاری ہوجاتی ہے ، جو نعت گو کے جذبۂِ حُبِّ رسولصلی اللہ علیہ وسلمسے سرشار ہونے کا غماّز ہے ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں آپکو فروغِ نعت اور فروغِ حُبِّ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چُن لیا ہے اور آپ کو ایسے مخلصین ومحبین کاساتھ عطا کردیا ہے کہ : ’’انشا ء اللہ دینِ اسلام کی تبلیغ واشاعت کاکام، فروغِ حُبِّ مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اِس دارِ فانی سے لے کراُس دارِ بقا تک آپ اور آپ کے متعلقین ومعاونین کوبھی بقا سے ہمکنار کرے گا ۔‘‘

ضرورت اس بات کی ہے ویب سائٹ اورسی ڈیز کے نظام کو مزید مؤثر وفعّال بنایا جائے تاکہ کتابوں سے دور نئی نسل انٹر نیٹ کے ذریعے ایسے علمی وتحقیقی کاموں سے بھی استفادہ کرسکے ۔اس سلسلہ میں انٹر نیٹ پر بھی ’’اشتہاری مہم ‘‘ اور’’اجتماعی مکالمہ‘‘ کے پروگرامز پیش کیے جا سکتے ہیں ۔اللہ رب العزۃ ہم سب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور کامل اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور دنیا وآخرت میں سرخروئی نصیب کرے ۔

آمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین سیدنا محمدوعلیٰ آلہٖ واصحابہٖ اجمعین ۔


احمد صغیر صدیقی ۔کراچی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

3/ستمبر 2014

’’نعت رنگ‘‘ کا ۲۴ واں شمارہ میرے سامنے ہے۔۵۶۰ صفحات کا یہ مجلّہ ۸ مقالات ،۹ نعت نگار شعرا کے فکر وفن پر مبنی مضامین کتابی جائزے ۱۱نعتوں اور ۵ حمدوں پر مشتمل ہے ۔اس بار بھی’’نعت رنگ‘‘نے اپنے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا ہے اور موجودہ شمارہ اپنے Contentsکے اعتبارسے پچھلے شماروں سے کسی بھی طرح کم وقیع نہیں ہے۔

شمارے کے با لکل ابتدا میں اہل قلم حضرات سے کچھ گزارشات شائع کی گئی ہیں اس میں ایک یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھا ہوا مسودہ کاغذ کے صرف ایک جانب لکھا ہوا ور خوش خط ہوناکہ اغلاط کا امکان نہ رہے۔اس ضمن میں ایک بات میری سمجھ میں نہیں آسکی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر مسودہ صاف صاف لکھا ہوتو کمپوز رکو پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے اور غلطیوں کا امکان کم ہوجاتا ہے (امکان نہ رہنے وا لی بات درست نہیں)مگرمیں یہ سمجھنے سے قاصر رہاہوں کہ کاغذ کے ایک طرف لکھنے سے غلطیاں ختم ہونے کا امکان کس طرح نہیں رہتا ؟میں سمجھتا ہوں کہ صرف ایک طرف لکھنے کے لیے یہ جواز درست نہیں بلکہ یہ کاغذ کازیاں ہے۔میں نے اپنا مسودہ کاغذ کے دونوں طرف لکھا ہے اس کے لیے معذرت خواہ ہوں تاہم صفحہ پر خاصہ بڑاحاشیہ دے دیا ہے تاکہ آپ اس جگہ کچھ لکھنا چاہیں تو لکھ سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کا ابتدائیہ خیال افروز ہے۔یہ بات بہر حال اطمینان کی ہے کہ نعت رنگ جیسے رسائل کی کاوشوں سے اب نعت گو شعرا میں بڑی حد تک بدعتوں سے احتراز کا شعور پیدا ہورہاہے۔

مدیر گرامی! آپ نے اپنی بات میں رسالے کی تاخیر سے آمد وغیرہ کی وضاحت کی ہے۔بے شک وہ اپنی جگہ مضبوط ہے تاہم عرض کرنا چاہوں گاکہ کسی بھی جریدے یا کتابی سلسلے کی آمد میں سال بھر سے بھی زیادہ تاخیر ہونے لگے تو اس پر خاصہ برا اثر پڑتا ہے ۔بہت سی باتیں پڑھنے والوں کے حافظے میں نہیں رہتی کچھ اس کی جگہ کسی اور جریدے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔اور بعض یہ سمجھ کر اسے ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ شاید بند ہوگیا ہے۔لہٰذا کوشش تویہی ہونی چاہیے کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر لے آئی جائے ۔دیر میں چھپنے والے جریدوں میں لکھتے ہوئے مجھ جیسے لکھنے والوں کوتو یہ خدشہ بھی لاحق رہتا ہے کہ پتا نہیں ان کی تحریر ان کی زندگی میں چھپ سکے گی یا نہیں ۔آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ جناب طاہر قریشی اور جناب شہزاد احمد کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی ہے ۔دونوں کو مبارک باد ۔جناب شہزاد احمد کو اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جانے سے وہ مرحوم شاعر شہزاد احمد سے الگ پہچانے جاسکیں گے۔جناب احمد جاوید کی لکھی حمد بہت پسند آئی ۔غالب عرفان کی حمد بھی عمدہ ہے ۔ تنویر پھول صاحب کی لکھی حمد میں آخری شعر کی بنت پر توجہ کی ضرورت تھی جویوں ہے:

پامال ہے یہ گلشن ہستی میں ہورہا

فریاد لایا پھول ہے تیری جناب میں

یہ شعر کوئی بہت کمزور اور اناڑی شاعر لکھتا تواس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا مگر......جناب خورشید رضوی کی لکھی حمد بھی اچھی ہے۔مگر اسے ’’صحیح‘‘ مقام پر نہیں لگایا گیا ہے۔

شمارے کا پہلا مقالہ ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان کاہے اور اپنی نوعیت میں الگ ہو نے کی وجہ سے خوب ہے ۔ان کی تحقیقی کاوش سراہے جانے کی مستحق ہے ۔قصیدۂ بانت سعاد بھی جناب مولانااسید الحق قادری کی محنت کا ثمر ہے انھوں نے شاعر کعب بن زہیر کے حالات اور فن سے متعلق معلومات باخبری بخشی ہے ان کا مقالہ اعلیٰ درجے کاہے ۔جناب ڈاکٹر افضال احمد انور نے اپنے مقا لے میں (معنویت لفظ نعت کی روشنی میں یکتائی مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم) جس ریسرچ کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے انھوں نے لفظ نعت کے کوئی ۲۵ عدد معنی سے ہمیں باخبر کیاہے اس لحاظ سے یہ مقالہ اور بھی باتوقیر ہوگیا ہے۔ڈاکٹرشہزاد احمد نے جم کر پاکستان میں نعتیہ صحافت کا جائزہ لیا ہے انھوں نے ایک زبردست تحقیقی کام کیا ہے ۔یہ مقالہ لکھنے پڑھنے والوں کے لیے ایک ریفرنس کاکام دیتا رہے گا ۔بھارت کے ڈاکٹر اشفاق انجم نے کچھ غیر منقوط حمد ونعت سے متعلق جو مقالہ لکھا ہے بلاشبہ قابل تحسین ہے ۔بھارت میں شاعری کی حالت کچھ بہتر نہیں انھوں نے جن راز پرتاپ گڑھی نامی شاعر کی غیر منقوط حمد کا ذکر کیا ہے ان کے اندر کوئی شاعرانہ اوپج موجود نہیں ۔بہرحال ڈاکٹر صاحب نے ان کی غلطیوں سے لوگو ں کو آگاہ کرکے اچھا کیا ہے کیونکہ آج کل شعری ادب کے قارئین بھی سخن فہمی سے فاصلے پر نظر آتے ہیں ۔حد یہ ہے کہ آج کل کے بہت سے مدیر بھی کسی ادبی ساکھ کے مالک نہیں انھیں چونکہ اچھی بری شاعری کی تمیز نہیں ہوتی وہ جو کچھ آتاہے چھاپ دیتے ہیں اس سے ہوتا یہ ہے کہ ایک تھرڈ کلاس شاعر سمجھنے لگتا ہے کہ وہ کوئی معمولی چیز نہیں۔اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے ’’ارم‘‘کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں ان سے سچی بات تو یہی ہے کہ بہت سے شعرا آگاہ نہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ منظرعارفی کے مقالے میں بھی نعت گوئی میں ’’ارم ‘‘کے استعمال پر تفصیل سے بات کی گئی ہے اور بہت وضاحت سے اس ضمن میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ان کا مضمون بھی پڑھنے کے لائق ہے۔جناب تنویر پھول نے حمدونعت میں الفاظ کے مناسب استعمال پر مقالہ لکھا ہے ۔ انھوں نے لکھا ہے شعرا ’’خیر الامم‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلمکی ذات اقدس کے لیے لکھتے ہیں جو درست نہیں کیونکہ خیرالامم سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہے یعنی اُمت مسلمہ میرے خیال میںیہ بات درست نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس طرح خیرالبشر درست ہے اسی طرح خیر الامم بھی درست ہے اور اُمم جمع ہے اُمت کی ۔اُمت کے معنی ہیں ۔گروہ جماعت وغیرہ اس سے صرف اُمت مسلمہ مراد لینا درست نہیں ۔تنویر پھول صاحب نے اپنے مضمون میں بقیہ جتنی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے سب درست ہیں اور شعرا کوان پر توجہ دینا چاہیے ۔ بعض تو بہت دلچسپ اغلاط ہیں مگر دیکھے کون ؟ انھوں نے کسی کا مصرعہ لکھا ہے:

’’ مدفن میرا طیبہ میں بنے اب کے برس بھی ‘‘

یعنی اب تک مدفن ان کا طیبہ میں بنتا ہی رہاہے اب کے برس بھی بننا چاہئے۔ خوب!انھوں نے ایک اور بات دلچسپ لکھی ہے کہ اسے ہمارے بے پناہ مشہور ڈاکٹر عامر لیاقت بڑے ترنم سے پڑھتے رہے ہیں ۔اور پھول صاحب کے جملے سے تو لگتا ہے کہ یہ نعت انھی کی لکھی ہوئی ہے ان کا جملہ ہے (ٹی وی میں عامر لیاقت آکر اپنی ایک نعت .........)پھول صاحب نے اپنے مقالے میں احمد ندیم قاسمی مرحوم کے کچھ اشعار لکھے ہیں کہ ان میں اتنا غرور پایاجاتا ہے ۔فرماتے ہیں (اللہ تعالیٰ سے) ’’میں تیرا فن ہوں یہی فن تیرا غرور ہوا تری انا کامری ذات سے ظہور ہوا ‘‘وغیرہ ) اب ذکر قاسمی صاحب کا چلا ہے تو سبھی جانتے ہیں کہ ان کی شاعری کسی رتبے کی نہیں تھی اس سے قبل بھی وہ ایک نظم میں لکھ چکے ہیں ’’انسان عظیم ہے خدایا ‘‘۔یعنی اللہ تعالیٰ کو تو معلوم نہیں لہٰذا شاعر بتارہاہے کہ انسان عظیم ہے ۔پھول صاحب کا یہ مضمون نہایت دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی ۔ڈاکٹر طاہر قریشی نے اپنے مقالے میں ایک مشکل موضوع کواٹھایا ہے اور ان عناصر سے آگاہ کرنے کی سعی کی ہے جو نعت کی تشکیل میں اہمیت رکھتے ہیں۔ صفحہ ۴۹۴ پر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کے الفاظ درج ہیں۔وہ کہتے ہیں ’’نعت کے عناصر کیا ہیں ؟اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اگر کوئی نقاد تمام عناصر کی نشان دہی کرنا چاہے.......تویہ کا رِمحال ہے‘‘۔ڈاکٹر قریشی نے بہرحال اپنی سی عمدہ کوشش کی ہے ۔

جریدے میں ’’فکروفن ‘‘کے حصے میں متعدد شعرا پر مختلف ناقدین نے قلم اٹھایاہے مثلا ڈاکٹر ریاض مجید نے لالۂ صحرائی کی غزوات نگاری پربات کی ہے ۔ڈاکٹر اشفاق انجم نے دادا میاں عطا کے بارے میں لکھا ہے ۔ڈاکٹر عزیز احسن نے سرور سہارنپوری کے فن کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے اپنے مقا لے میں ایک حدیث نوٹ کی ہے ۔’’اے اللہ روح القدس کے ساتھ حسان کی مدد فرما‘‘۔مجھے سمجھانے کے لیے بتائیں یہ’’روح القدس کے ساتھ‘‘کااضافہ کیوں کیا گیا ہے کیا’’اے اللہ حسان کی مدد فرما‘‘ کہنے سے مدد میں کمزوری آجاتی ہے ؟میں بہت معمولی آدمی ہوں ۔اعتراض نہیں کررہا ہوں صرف سمجھنا چاہتا ہوں کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ احادیث میں ملاوٹ بہت کی گئی ہے۔اختر بستوی پر ڈاکٹر سراج قادری اور حافظ افضل فقیر کی نعت گوئی پر جناب گوہر ملسیانی نے قلم اٹھایا ہے۔یہ سلسلے اچھے ہیں ۔نعت گو شعراسے متعارف کرانے کاعمل قابل ستائش ہے۔لیکن اچھا ہوگا کہ پہلے ان نعت گو شعرا پر جائزے پیش کئے جائیں جو عمدہ نعتوں کی وجہ سے کوئی بڑا مقام رکھتے ہیں مثلاً عبدالعزیز خالد رحمانی کیانی، مظفر وارثی ،حفیظ تائب ،حنیف اسعدی، مولانا ماہرالقادری وغیرہ ۔ڈاکٹر اسلم عزیز نے سید محسن نقوی کی نعت نگاری پرقلم اٹھایاہے ! مضمون تو اچھا ہے مگر ڈاکٹرصاحب نے یہ لکھنے کے بعد کہ ’’وہ نعت کے لیے وہ یوں الفاظ تلاشتا اور تراشتا ہے جیسے جوہری جواہرات کا انتخاب کرتا ہے‘‘۔متعدد ایسے اشعار بہ طور انتخاب لکھے ہیں جن سے ان کے تحسینی لفظوں کی نفی ہوتی ہے ۔دیکھیے یہ اشعار :

(۱) جبریل تیرے در کے نگہ بان کاہم مزاج /باقی ملائکہ تری گلیوں کے کوزہ گر

(۲) موج صبا کو ہے تیری خوشبو کی جستجو/جیسے کسی کے در کی بھکارن ہو دربدر

(۳) زلفوں سے خجل شب کی ستارہ بدنی ہے ۔

(۴) میں سایۂ طوبیٰ کی خنک رت سے ہوں واقف /مولا تری گلیوں کی مگر چھاؤں گھنی ہے۔

(۵) گلنار گھٹاؤں سے یہ چھلتی ہوئی چھاؤں

(۶) ظاہر ہوا اک پیکر صد رنگ بصد ناز

اب کیا میں تفصیل بھی بتاؤں کہ اشعار اور مصرعے کس طرح ظاہر کررہے ہیں کہ شاعر کو عمدگی سے الفاظ کے چناؤ کا طریقہ نہیں آتا؟ پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں ملائکہ کو گلیوں کے ’’کوزہ گر‘‘ کہا گیا ہے شاعر شاید یہ کہنا چاہتا تھا کہ باقی ملائکہ گلی کے بھکاری ہیں ۔ مگر اسے معلوم نہیں کہ ’’کوزہ گر‘‘برتن بنانے والے کوکہتے ہیں ۔اسے ’’دریوزہ گر‘‘کے معنی میں نہیں استعمال کیا جاسکتا ۔ اب دوسرا شعر دیکھیں ۔ موج صبا کو حضور کی خوشبو کی جستجو ہے۔اور وہ در بدر بھکارن کی طرح پھر رہی ہے ۔’’گویا اُسے یہ خوشبو مل ہی نہیں رہی ہے ۔حالانکہ اس خوشبو سے تو ساری دنیا مہک رہی ہے جناب ہمارے شاعر کی صبا کا جواب نہیں اور اسی طرح اس کی جستجو کابھی ۔ا ب تیسرے مصرعے کو دیکھیے ۔شاعر کہتا ہے کہ حضور کی زلفوں کے سامنے شب کی ستارہ بدنی خجل ہے۔اگر بالوں کی سیاہی کی تحسین پیش نظر تھی تو پھر شب کی تیرگی کا تذکرہ ہونا چاہئے تھا ۔’’ستارا بدنی‘‘کا یہاں کوئی محل نہ تھا۔مگر شاعر کواس کی سمجھ ہوتی توپھر بات بھی بن جاتی ۔ اسی طرح بعد کے شعر میں شاعر نے کہا ہے ’’گلیوں کی چھاؤں گھنی ہے‘‘ ہے ناکمال کی بات چھاؤں درختوں کے چھت وغیرہ تلے ہوتی ہے گلیوں میں نہیں ۔اور یہ گلیوں کا چھاؤں والا مصرعہ اس طرح اور بھی خراب ہوجاتا ہے جب ہم پہلے مصرعے میں ’’طوبیٰ کے سائے کی بات پڑھتے ہیں جو ایک درخت ہے۔‘‘آگے آئیے شاعر صاحب نے فرمایا ہے ۔’’گلنار گھٹائیں‘‘ ۔ہوسکتا ہوں شاعر نے دیکھی ہو ں ۔میں نے نہیں دیکھیں۔اور ممکن ہے شاعر کے مداح ڈاکٹر صاحب نے بھی دیکھی ہوں تواور بات ۔اور آخری مصرعے میں ’’مقصد تخلیق کائنات‘‘کی تخلیق کے لیے شاعر نے لکھا ہے ۔’’ظاہر ہوا اک پیکر صد رنگ بہ صد ناز‘‘۔مجھے ’’بہ صد ناز ‘‘ پر اعتراض ہے۔اس قسم کی باتیں شعرا اپنی معشوقاؤں کے لیے لکھتے ہیں۔ڈاکٹر اسلم عزیز صاحب مجھے معاف کریں ۔میں ان کے اس فتوے سے بھی متفق نہیں کہ محسن تقوی عصر حاضر کاایک ’’بڑا‘‘شاعر تھا۔

آگے کے حصے میں کچھ شعرا کے بارے میں خصوصی مطالعے ہیں۔یہ بھی ویسے ہی مقالے ہیں جو اس سے قبل کے حصے میں تھے ان میں بھی متعدد نعت گو شعرا کے فکر وفن سے تعارف کرایا گیا ہے۔حزیں صدیقی صاحب تواس دنیا میں نہیں ہیں مگر انھوں نے اپنے متعدد شعروں میں ’’کبریا‘‘کالفظ ’’خدا تعالیٰ‘‘کے لیے استعمال کیاہے جو درست نہیں یہ لفظ ’’بڑائی‘‘ کے معنی میں ہے معنی صفت ہے ۔اسم نہیں ۔ نعیم بازید پوری قا بل مبارک باد ہیں انھو ں نے ایک غیر مسلم کے ان خیالات کا ترجمہ ہمیں پڑھایا جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے احساسات لکھے تھے۔ان کی نظم بھی خوب ہے۔ڈاکٹر عزیز احسن کا انٹرویو دلچسپ تھاانھوں نے ہمیں ماہر القادری صاحب کی نعت سنائی۔کیاخوب ہے۔کیا خوب ہے وللہ۔انھوں نے ’’وتیرہ‘‘کو ’’وطیرہ‘‘لکھا ہے ۔نشاندہی میں کوئی حرج نہیں ۔اسی طرح انھوں نے جناب عبدالعزیز خالد کی سادہ سی نعتیہ نظم بھی سنائی ۔مجھے تو بہت ہی اچھی لکھی۔کاش وہ کوئی کتاب ایسی بھی لکھیں جس میں اُردو کی بہترین نعتیں موجود ہوں۔جناب ماہرالقادری ،اور عبدالعزیز خالد صاحب کی یہ دونوں نعتیں بہتریں نعتیں کہی جاسکتی ہیں ۔جناب رحمان کیانی کی تحریر بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی ۔جرمن شاعر کی نعت کا ترجمہ بہت اچھا لگا۔

اس سے آگے اس شمارے میں کتابوں پر تفصیلی مضامین ہیں ۔ان میں ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کا مضمون بہت اہم ہے جنھوں نے ایک غیر مسلم مصنف کی کتاب ’’ہمارے رسول‘‘کے بارے میں حقائق سے آگاہ کیا ہے ۔کاش کہ یہ مضمون مصنف ڈاکٹر دھر میندر کی نظر سے بھی گزرے اور وہ برا ماننے کے بجائے اس پر غور کریں ۔کچھ بھی ہو ڈاکٹر دھر میندر نے نیک نیتی سے کتاب مرتب کی ہوگی۔اب انھیں بہت سی باتوں کاعلم نہیں ۔یہ ایک الگ بات ہے انھیں ڈاکٹر سفیان کی باتوں پر توجہ دینی چا ہیے ۔پروفیسر انوار زئی کا مضمون بھی اچھا ہے اسی طرح ڈاکٹر عزیز احسن کا مضمون جو مزاح نگار انور مسعود صاحب کے نعتیہ کلام سے متعلق ہے اپنی جگہ ٹھیک ٹھاک ہے ۔انور مسعود صاحب کا مصرعہ ہے۔

زندگی دی نبض دے نغمے سریلے ہوگئے

ہمیں یہ معلوم ہوکر خوشی ہوئی کہ نبض نغمے بھی گاتی ہے اور یہ نغمے ’’کبھی کبھی‘‘سریلے بھی ہوجاتے ہیں ۔ڈاکٹر عزیزاحسن نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر طاہر قریشی کے کام سے ہمیں متعارف کرایا ۔ ڈاکٹر قریشی صاحب اپنے کام پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

حاصل مطالعہ کے حصے میں کتابوں پر مختصر تبصرے ہیں جو ڈاکٹر عزیز احسن نے کئے ہیں۔ان کے تبصرے اچھے مناسب اور متوازن ہیں ۔’’سلامتی کا سفر ‘‘ نامی کتاب (مصنف اعجاز رحمانی) پران کا تبصرہ خصوصیت سے پسندآیا۔شاعر کواسے نہایت توجہ سے پڑھنا چاہیے اوراحسن صاحب کی زرف نگاہی کی تعریف کرنی چاہیے ۔حمیراراحت کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر احسن نے شاعرہ کی ایک نعت کوٹ کی ہے اس میں مجھے دوشعر ایسے نظرآئے جوکسی بھی طرح نعت کے نہیں کہے جاسکتے ۔آپ انھیں غزل کا شعر ضرور کہہ سکتے ہیں ۔آپ بھی دیکھیں :

نہ زادراہ تھا کوئی نہ خوش گمانی تھی

بس ایک حرف دعا کا چراغ ہاتھ میں تھا

کوئی بھی آندھی کبھی ڈگمگاہ سکی نہ مجھے

اُجالا دل میں نہاں تھا چراغ ہاتھ میں تھا

(ویسے آخری مصرعے میں چراغ کاہاتھ میں ہونا اوراجالے کادل میں ’’چُھپا‘‘ ہونے کی بات بھی توجہ طلب ہے۔)اس حصے میں ایک اور کتاب پر بھی تبصرہ ہے یہ کتاب ہے جناب گوہر ملسیانی کی۔نام ہے ’’عصر حاضر ہے نعت گو‘‘۔تبصرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں عصر حاضر کے سارے نعت گو نہیں ہیں ۔ اس طرح نام مناسبت نہیں رکھتا ۔اسے MIS LEADINGکہا جاسکتا ہے۔ جناب گوہر ملسیانی نے اپنی ایک تحریر میں (جسے تبصرے میں کوٹ کیا گیا ہے)لکھا ہے۔ (میری طبع نازک پرتمام باتیں گراں گزریں )مجھے یہ جملہ دیکھ کر حیرت ہوئی ۔انکسار کاتقاضہ ہے کہ آدمی خود اپنی طبع کے لیے ’’نازک‘‘ وغیرہ نہ لکھے ۔بہرحال جناب گوہر ملسیانی نے لکھا ہے ۔ان کے کو ٹیشن سے معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون لوگ تھے جن کی باتیں شاعر کی طبع نازک پر گراں گزری تھیں نہ اس سے اس معروف نعت گو شاعر کانام معلوم ہوسکا جس کی تضحیک کی گئی تھی کہ بقول ان کے ان نام نہاد سخن وروں کا پتا چل سکا جنھوں نے نعت کو پروپیگنڈہ قراردیا تھا۔گوہرصاحب کو ایساکون سا خوف لاحق تھا کہ انھوں نے ان اسلام دشمن قوتوں کو Exposeنہیں کیا؟ڈاکٹر عزیز احسن صاحب سے معافی چاہتا ہوں لیکن ان کا یہ لکھنا کہ جناب گوہر ملسیانی ’’صاحب اسلوب ‘‘ شاعرہیں میری سمجھ میں نہیں آسکا ۔مجھے وہ صاحب اسلوب نظرنہیں آتے ذرا ان کا یہ شعردیکھیں:

حسن دلکش کابیاں ہے اوراک صحرا نشیں

اُم معبد کی زباں پرہیں شمائل آپ کے

کیا اس شعر میں انداز بیاں کچھ ایسا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ شاعر صاحب اسلوب ہے؟ویسے میرے خیال میں صاحب اسلوب ہونا کوئی ایسی محسن صفت بھی نہیں کہ اس پر بہت خوش ہواجائے ۔عموماً صاحب اسلوب شاعر کے ہاں بیان کی یکسائی اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ اُ س کاایک شعر پڑھیں یا دس لگتا یہی ہے کہ ایک ہی چیز پڑھی ہے۔ یقین نہ آئے توایک واقعی صاحب اسلوب شاعر سراج الدین ظفر کاشعری مجموعہ غزال وغیرہ پڑھ لیجئے۔ایک لطف کی بات اور ہے کہ اُم معبدنے حضور کا جو سراپا بتایا اُس میں اس کی ذہنی سطح بھی نظر آتی ہے کیونکہ وہ کوئی بہت پڑھی لکھی خاتون نہ تھی۔اس کے بیان سے چند سطریں ملاحظہ ہوں : ’’نہ توند نکلی ہوئی نہ چند یاکے بال گرے ہوئے.......‘‘

ذرا دیکھیے کیایہ بیان سراہے جانے کے لائق ہے ۔ہمارے گوہر ملسیانی صاحب نے اسے بہ طور خاص کوٹ کیا ہے ۔اس جگہ میں واضع طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں تحریروں اور تخلیات پر بات کرتا ہوں۔لکھنے والوں کی شخصیت میرا ہدف نہیں ہوتی ۔گوہر ملسیانی صاحب میرے لیے معزز اور محترم ہیں البتہ میں تمام اچھے لکھنے والوں سے زیادہ کڑے معیار کاتقاضہ ضرورکرتا ہوں انھیں برا نہیں ماننا چاہیے۔

اس باب میں شعرا کی تازہ نعتیں ہیں۔یہ حصہ برا نہیں ہے ۔خورشید رضوی صاحب سلیمان خمار اور رئیس احمد نعمانی کے چند اشعار متاثر کرتے ہیں۔

خطوط کاحصہ اس جریدے کا سب سے دلچسپ اور سب سے زیادہ پڑھا جانے والا حصہ ہوتاہے ۔ اس میں اب تک درجنوں ایسے نکات اٹھائے جاچکے ہیں اور ان پر بحث ہوچکی ہے جو مدتوں سے اذہان میں سوالیہ نشان قائم کئے ہوئے تھے (اگر ان خطوط سے یہ نکات مع جواب ایک جگہ جمع کرکے شا ئع کئے جائیں ۔تویہ ایک نہایت کارآمد کام ہوگا)مجھے اس حصے میں علامہ کوکب نورانی کی کمی محسوس ہو ئی۔اگر وہ کچھ خفا ہیں تو انھیں منا لینا چاہیے۔

جناب ریاض چودھری نے اپنے خط میں ڈاکٹر شعیب نگرامی کے مقالے کے بارے میں لکھا ہے کہ انھیں اس پر آڑے ہاتھوں لیا گیا میں سمجھتاہوں کہ اس طرح کی سوچ مناسب نہیں ۔ہم کو کھلے دل ودماغ کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ڈاکٹر نگرامی بہرحال کوئی جاہل آدمی نہیں۔ان کی باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔برا بھلا مت کہیں ۔ریاض صاحب نے خدا جانے کن لوگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے خوشامد کی ڈگڈگی بجاتے ہیں۔شاید ان کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جنھوں نے ڈاکٹر نگرامی کی حمایت کی تھی۔ایسی گفتگو موثر نہیں ہوتی۔ریاض چودھری صاحب نے ایک شعر لکھا ہے:

بعد مرنے کے چلے جائیں گے سب سے چھپ کر

ایک گھر ہم نے مدینے میں بنا رکھا ہے

اس شعرسے تو یوں لگتا ہے جیسے مدینے میں جو گھر بنایا گیا ہے وہ کوئی چرچ وغیرہ ہے اس میں شاعر چھپ کر جانے کی بات کررہاہے۔ عجیب ساشعر ہے ۔ایسے شعر بظاہر بھلے لگتے ہیں لیکن جب اِن میں اترا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ شعر ہے کیسا۔اور یہ کام ہماشما کا نہیں ہوتا ۔ تنقیدکی اہمیت بھی اسی لیے ہے ۔نعت کے اشعار غوروفکر چاہتے ہیں۔اپنے اسی مضمون میں خود ریاض چودھری صاحب نے ڈاکٹر اشفاق انجم کی تحریر سے ایک کو ٹیشن دیا ہے جویوں ہے۔

’’......اگر ایک بھی لفظ نامناسب در آئے توساری قضا کو مکدرکردیتا ہے‘‘

ریاض صاحب نے کسی ادبی ایجاد ’’اکائی‘‘کا ذکر تحریر فرمایاہے۔میں نے کبھی پڑھا نہیں۔ اگر کوئی نمونہ خط میں ہوتا تو بات کی جاسکتی تھی۔البتہ میں جب بھی اسطرح کی ادبی ایجادوں کاذکر سنتاہوں تومجھے ’’موجدّوں‘‘سے ہمدردی ہوجاتی ہے ۔حال میں ایک ناکام افسانہ نگار نے افسانوں کے میدان میں ایک نئی کہانی کی ایجاد کاسہرا اپنے سر باندھا ہے جوکسی بھی طرح کوئی نئی صنف نہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ ان ’’پوپلی‘‘کہانیوں کو بڑھاوا دینے والے بھی انھیں میسر آگئے ہیں ریاض چودھری صاحب کے خط سے ان کے جواں سال بھتیجے کی رحلت کی خبر ملی رنج ہوا ۔اللہ اسے جواررحمت میں جگہ دے ۔

خطوط میں ایک خط ڈاکٹر مستجاب ظافر صاحب کاہے۔انھوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں نے یعنی اس خاکسار احمد صغیر صدیقی نے’’لفظوں ‘‘کو مونث باندھا ہے حالانکہ یہ سارا قصور کمپوزر کاتھا۔ جس نے میرے مصرعے :

’’میرے آقا مجھے دلجوئی کے لفظوں سے نواز‘‘

میں ’’کے لفظوں ‘‘کے بجائے’’کی لفظوں‘‘لکھ دیا تھا ڈاکٹرظافر صاحب نے میری تنقیدی تحریرکے بارے میں بھی چند باتیں لکھی ہیں ان سے عرض ہے کہ مجھے شخصیت سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا میں تو تخلیقات پر بات کرتاہوں ۔میرا لہجہ یااسٹائل قدرے تلخ یا سخت ہوجاتا ہے ۔اس کامجھے اعتراف ہے لیکن یہ ان کے لیے ہی ہوتا ہے جنھیں میں اہم سمجھتا ہوں ۔اہم لوگوں سے میرا تقاضہ بلاشبہ سخت ہوتا ہے۔ہونا چا ہیے کہ ان کی غلطیاں ادب پر دوررس اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ڈاکٹر ظافر صاحب نے صفحہ ۵۵۸ پر اپنے خط میں لکھا ہے :

’’میں یہاں احمد صغیر صدیقی کے اٹھائے ہوئے نکات پر کچھ نہیں کہنا چاہتا‘‘

مجھے ان کی اس بات پر اعتراض ہے۔آخرکیوں وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے؟اگرمیری باتیں نادرست ہیں تو انھیں بتانا چاہیے۔اوراگر درست ہیں تو ایمانداری کاتقاضہ ہے کہ اِن کی تائید کی جائے۔

تنویرپھول صاحب نے اپنے خط میں’ ’ہمارے رسول‘ ‘اور ’’اللہ کے رسول‘‘کے بارے میں وضاحت کردی ہے۔عام طور پر ماضی میں وہ رسالے کے مشمولات پرشرح وبسط کے ساتھ بات کرتے رہے ہیں مگر اس بار ان کاخط سرسری بھی ہے اورمختصر بھی۔

میں رسالے کے قارئین سے چاہوں گا کہ وہ مضامین وغیرہ پر اپنی رائے ضرور دیا کریں۔ اس سے لکھنے والوں کو پتا چلتا رہتا ہے کہ خلق خدا انھیں کیا کہتی ہے۔اس طرح اصلاح کاراستہ نکلتا ہے۔ادب کی اصلاح ہوتی ہے اور ادیب کی بھی۔

ایک اور بات ۔جریدے میں مضامین پر انگلش میں ’’Abstract‘‘ لکھنے کی طرح ڈالی گئی ہے ۔ اچھی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ کام اُردو میں کیوں نہیں کیاگیا؟اُردو کے جریدے میں انگلش ایبسٹریکٹ کیوں؟ مدیر گرامی صاحب ۔یہ طرح جوآپ نے ڈالی ہے یہ مہنگی بھی پڑسکتی ہے۔اس میں ہر مضمون کوپہلے پڑھنا ضروری ہے تبھی اس کی کریم کو ایبسٹریکٹمیں منتقل کیاجاسکتا ہے چلو ابھی تو آپ کوکوئی ABLEآدمی میسر ہے جویہ کام کرسکتا ہے ۔لیکن اس کی عدم موجودی میں متبادل آسانی سے نہیں ملے گا ۔ کیونکہ اس میں ضرورت ہے ایک ایسے فرد کی جس کی انگریزی اوراُردو دونوں پرگرفت مضبوط ہواور جوادب سے بھی ربط رکھتا ہو۔اور جسے ادبی انگریزی لکھنی آتی ہو بہرحال یہ میرا معاملہ نہیں ۔مدیر گرامی آپ سنسکرت میں بھی ABSTRACTلکھا ئیں تو میراکیاجاتا ہے۔یہ بات تو میں نے بس یوں ہی لکھ دی ہے۔البتہ وہ دوسری ’’طرح‘‘جوآپ ڈالنے کاارادہ رکھتے ہیں وہ ٹھیک ہے یعنی لکھنے والوں کا یک سطری یا دوسطری تعارف آخر میں آپ سے گذارش ہے اگر میری تحریر آپ شائع فرمائیں تو کتابت کی پروف خوانی احتیاط سے ہونی چاہیے شمارے ۲۲ میں میں نے جو طویل خط لکھاتھا اس میں اس قدر اغلاط تھیں کہ جب میں نے اسے درست کیا تو صفحہ پرقتل عام کاساسماں تھا۔ظاہر ہے کہ میری تنقید ان الفاظ کے ساتھ تخلیق کاروں تک نہیں پہنچی ہوگی جو میں نے لکھے تھے اس طرح وہ بے جان اور بودی بھی ہوگئی تھی۔ یہی نہیں اس میں تو سطریں تک مِس کردی گئی تھیں اور بہت سی باتیں بے معنی ہو گئی تھیں۔اُمید ہے اس بار اِدھر خصوصی توجہ دیں گے اور چلتے ہوئے کام سے گریز کیا جائے گا ۔کتابت کی بہت زیادہ اغلاط رہ جانے سے پرچے کی نیک نامی بھی متاثر ہوتی ہے جسے آپ جیسا مدیر یقیناافورڈ کرنا پسند نہیں کرے گا۔



ڈاکٹر عبدالکریم ۔آزاد کشمیر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’نعت رنگ‘‘ارسال کرنے پر سراپا سپاس ہوں۔ موسم کی شدت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بروقت تبصرہ ارسال نہ کرنے پر معذرت ۔

’’نعت رنگ‘‘ کو ابتدائیہ اور اپنی بات کے علاوہ سات اجزاء میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں تمجید،مقالات ،فکروفن ،خصوصی مطالعہ ،مطالعات نعت ،مدحت اور خطوط شامل ہیں ۔نعت رنگ کا ابتدائیہ مہمان مدیر پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے تحریر کیا ہے اوراُن تمام کثافتوں کی نشاندہی کردی ہے جو برِ عظیم کے معاشرے میں سینکڑوں سال ہندوؤں کے ساتھ رہتے رہتے اسلام کے شفاف بدن سے چمٹ گئیں یا جنہوں نے اسلام کی سادگی کوآلودہ کردیا ۔

نعت وہ صنفِ سُخن ہے جو اِ ن کثافتوں سے سب سے زیادہ آلودہ ہوئی ۔ تاہم مقام شُکر ہے کہ عقیل صاحب جیسے صاحبِ فکر موجود ہیں جواُن وجوہات کادُرست تجزیہ کرکے صاف اورشفاف تصویر قاری کے سامنے رکھتے ہیں ۔ عقائد عام طور پر عقیدتوں سے ہی آلودہ ہوتے ہیں اور یہی سلوک اسلام کے ساتھ اور برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے ۔ کچھ اصناف میں مبالغہ آرائی کوفروغ دیا گیا اور پھر اُن کی بنیاد پرباقاعدہ ہمارے ہاں فقہی موشگا فیاں شروع ہوئیں ۔ وطنِ عزیز میں انقلاب بھی اب ان کے ساتھ نتھی کردیے گئے ہیں ۔فرقہ پرستی عروج پر ہے اور ہر فرقہ عقیدت کی بنیاد پر دوسرے کوگردن زدنی قرار دیتا ہے ۔اور جنت کے ٹکٹ تقسیم کرتا پھررہا ہے ۔

مقالات کا گوشہ اپنے اندر خوبصورت مقالے رکھتا ہے ۔اگر ایک طرف نعت اور نعتیہ عناصر پر بات ہے تو نعت گوئی میں لفظ ’ارم‘ کے استعمال پر سیر حاصل بحث بھی شامل ہے ۔دوسری طرف پاکستان میں نعتیہ صحافت پر ڈاکٹر شہزاد احمد کا ۱۰۲ صفحات کا طویل مقالہ موجود ہے جس کو پڑھنے کے لیے صبر اور تحمل کی ضرورت ہے ۔ غیر منقوط حمد ونعت پرڈاکٹر اشفاق انجم نے خوبصورت لیکن مختصر مقالہ تحریر کیا ہے ۔ اختتام خوبصورت الفاظ میں کیا ہے کہ ’’حمد ونعت میں بے راہ روؤں کوکسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ میری دانست میں غلط اشعار کہنے والوں کی گرفت نہ کرنے والے قارئین بھی اُتنے ہی گنہگار ہوں گے جتنے شعرا‘‘۔ تنویر پھول کاحمد ونعت میں الفاظ کے مناسب استعمال پر زور بجا ہے ۔اُنہوں نے کچھ اشعار لے کر اُن کو مثال کے طور پر پیش بھی کیا ہے جیسے ’’مدفن مرا طیبہ میں بنے اب کے برس بھی ‘ ‘پر آوا گون کے اثرات موجود ہیں ۔ اُستاد محترم ڈاکٹر شاکر اعوان صاحب کامقالہ ’’عہد رسالت میں نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘اُن کی کتاب میں پڑھ چکا ہوں ۔ فکروفن کاسب سے معیاری مقالہ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کا ’’ سرو سہارن پوری کی نعت گوئی ‘‘ لگا ۔ اُنہوں نے اپنے اس طویل مقالے میں حکیم صاحب کی نعتیہ شاعری پر تفصیل سے بات کی ہے ۔ حکیم صاحب اُن شعرا میں سے ہیں جن کی نعتیں کثافتوں سے پاک ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک باعمل اور صحیح العقیدہ مسلمان تھے ۔ اُن سے میں کئی بار ملا ۔ فقیر منش اورسادہ لوح تھے ، عزیز احسن نے بعض خوبصورت تبصرے کیے ہیں جیسے اس مصرع پر ’’بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات ‘‘ اور درست تجزیہ کیا ہے کہ صوفیانہ شطحیات کا دائرہ نبوت میں بھی شرک کی سطح پر پہنچ رہا ہے ۔ مقصودِ کائنات صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور اس وصف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی شریک نہیں ۔

معصوم بھی ،مظلوم بھی ،دامادِ نبی بھی

کافی ہے سہارے کے لیے آپؓ کا داماں

آپ کا یہ تحریر کرنا درست ہے کہ یہاں معصوم سے مراد ’’معصوم عن الخطا ء ‘‘ نہیں ۔ خصوصی مطالعہ کے تینوں مضامین بہترین ہیں ۔ڈاکٹر محمد آصف نے کمال مہارت سے حزیں صدیقی کی نعت گوئی پر قلم اٹھایا ہے اور اس کا حق اداکیا ۔اُنہوں نے صدیقی صاحب کی نعت کے اجتماعی اور انقلابی پہلوؤں پر بھی بات کی ۔اکثر شعرا کے ہاں نعت ذاتی واردات بن چکی ہے تاہم حزیں صدیقی کے ہاں یہ رنگ موجود ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے انقلابی پیغام پر بھی بات کی جیسے:

آدمی پر کُھلا مقصدِ زندگی

آدمیت بڑی معتبر ہوگئی

نعیم باز ید پوری کا ’’شا تم رسول صلی اللہ علیہ وسلمکی درخواست بریت‘‘خاصے کی چیز ہے اوراس طرح کے مضامین کاایک مسلسل سلسلہ ہونا چاہیے ۔ایسے مضامین واقعی ایمان افروز ہوتے ہیں۔ ارنوڈ گریٹ اور وارن ڈرون کی طرح کے کئی کردار ہیں جن کو سامنے لایا جانا چاہیے ،کاش سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین کی طرح کے کرداروں کوبھی وہ جرات تحقیق ملے جنہوں نے کافروں کو مسلمان کردیا ۔ مطالعات نعت کاسب سے خوبصورت مضمون ڈاکٹر ابو سفیان صاحب کاہے ۔انہوں نے ’’ہمارے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کاخوب تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ اس کتاب کے مؤلف ڈاکٹر دھر مندر ناتھ ہیں ۔

ابو سفیان تحریر کرتے ہیں کہ ’’تیسرے باب میں موصوف اس موضوع کاحق ادا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ قرآنیات اوراحادیث سے اُن کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ انہیں کیا پتہ کہ وحدت الشہود اور وحدت الوجود کااسلام اورذاتِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ’’رکھ لیا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاکہ رُسوائی نہ ہو‘‘ سے قرآن کے تصورِ الہ اور کان خلقہُ خلق القرآن کے خلاف تصویر اُبھرتی ہے ۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین فرق ہے ۔ اس فرق مراتب کو ملحوظ رکھنا ازحد ضروری ہے ۔ کیونکہ ایک خالق ہے دوسرا مخلوق ۔لیکن افسوس کہ بے شمار اہم شعرا نے اس فرقِ مراتب سے آنکھیں میچ لی ہیں ۔

خالی کوئی پلٹا ہی نہیں دَرسے نبی کے

ہندو ہو ، مسلمان ہو ،سکھ ہوکہ کوئی اور

اس طرح کے اشعار کاقرآن وسیرت سے کوئی تعلق نہیں ۔روضہ اقدس کی مٹی کا ماتھے پر لگانا سراسر ہندو تہذیب کے زیر اثر ہے جس کے ڈانڈے قشقہ کھینچے سے جا ملتا ہے :

غبار اُس روضہ اقدس کا ماتھے پہ لگاؤں گا

گزراپنا مدینے میں اگر مثل صبا ہوگا

افسوس کامقام ہے کہ اس طرح کے تصورات مسلم شعرا کے ہاں بھی موجود ہیں اور اُن پر علمی اعتراضات کوہمارا فرقہ پرست معاشرہ برداشت نہیں کرتا ۔ ڈاکٹر ابوسفیان درست طور پر مولف پر نوحہ خواں ہیں ’’کاش کہ یہ ہماری نوحہ خوانی ڈاکٹر دھر مندر ناتھ اور ایرانی سفارت خانہ نئی دہلی کے ثقافتی کونسلز ڈاکٹر علی رضا کو گوش گزار کراتی‘‘ ۔پروفسیر انوار احمدزئی نے ڈاکٹر عزیز احسن کے پی ایچ ڈی کے مقالے کاتحقیقی مطالعہ پیش کیاہے ۔نیز انہوں نے عزیز احسن کے نظریہ تحریر وتحقیق کی تعریف کی ۔’’باریاب‘‘ کاڈاکٹر عزیز احسن اور ’’عبدِ کامل ‘‘ کاڈاکٹر بشیر عابد نے پُر اثر مطالعہ پیش کیاہے ۔ مدحت میں شامل تمام تخلیقات اچھی ہیں تاہم رئیس احمد نعمانی کی تخلیق کے اشعار پراختتام کرتا ہوں :

مؤرخوں نے نمایاں نہیں کیاجن کو

بہت سے حادثے گزرے ہیں کر بلاکے سوا

بحکم شرح ،کہا جاسکے جسے ’معصوم‘

نہیں ہے کوئی ملائک اورانبیاء کے سوا

جوغارِ ثور میں بھی ہم نفس تھا ، آقا کا

بتاؤ کون تھا؟ صدیقِؓ باصفا کے سوا

عمرؓ حبیب خدا کے حبیب تھے ، اس کا

کرے گا نہ کوئی انکار ،اشقیا کے سوا

دو بنت پاک نبیؐ جس کی زوجیت میں رہیں

یہ رُتبہ کس کا ہے ؟ عثمانؓ باحیا کے سوا

خدا کے ایک ولی تھے ،علیؓ بھی ،سچ ہے ، مگر

نہیں ہے کوئی بھی مشکل کُشا خدا کے سوا

اللہ آپ اورآپ کی ٹیم کی صلاحیتوں میں برکت دے۔


فراست رضوی ۔کراچی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

4/جولائی 2014

’نعت رنگ‘ کادیدہ زیب شمارہ پروفسیر انوار احمد زئی صاحب نے عنایت فرمایا ،مضامین وکلام کے معیار ووقار نے متاثر کیا۔اس میں بطور مدیر آپ کی کاوشیں اوراخلاص نیت ہر مقام پر ظاہر ہے ۔پاکستان میں آپ نے اپنے اس جریدے کے ذریعے فروغ نعت اور نعت فہمی کی ایک ایسی تحریک کو جنم دیاہے ،جس کے ثمرات ابھی سے نمایاں ہونے لگے ہیں ۔

نعت لکھنا بقول عرفی تلوار کی دھار پر چلنے کا عمل ہے ۔تہذیب وادب کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ شعری جمالیات کا التزام آسان کام نہیں ہے ۔نعت نگاری کے لیے محض سرکارِ دوعالم ؐ کی محبت وعقیدت ہی کافی نہیں ہے ۔اس کے لیے اُس ذات عظیم کی حتی الامکان تفہیم بھی چاہیے ۔یوں تو حقیقت محمدیؐ کوخالق کائنات کے سوا کون جانتا ہے ۔مگر ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذہنوں میں ختمی مرتبت ؐ کاکیا تصور ہے ،یہ بات نعت نگاری میں بہت اساسی اہمیت رکھتی ہے ۔رسول کریمؐ کے مقام بشریت اور مقام نبوت کے متوازن تصور ہی سے ایک مودب اوراثر انگیز نعت تخلیق کی جاسکتی ہے ۔ یہاں غزل کے عام محبوب اور محب والی کیفیت زیبا نہیں ہے ۔ نعت آقا اورغلام کے رشتے پراستوار ہوتی ہے ۔یہاں برابری گستاخی ہے ۔ یہ حفظ مراتب کی دنیا ہے یہاں تعظیم کی کڑی شرطیں ہیں ۔اور انہی پابند یوں اور شرائط میں رہتے ہوئے ایک نعت نگار کواپنے جمال فن اور تخلیقی شعور کے نگ دکھا نے پڑتے ہیں ۔ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے نعت پر تنقید کاباقاعدہ آغاز کیااور قدیم اور جدید نعتوں کے مضامین اوراسالیب پر معروف اہل قلم سے انتقادی مقالات لکھوائے ۔جس کی وجہ سے ادب کے عام قاری کو نعت کاایک نیا شعور ملا۔

نعت پر تنقید کا مطلب دراصل نعت کے فن کا علمی اورادبی محاکمہ ہے ۔یہ بات ’’نعت رنگ ‘‘ کے وسیلے سے مجھ تک پہنچی ہے ۔ورنہ شروع شروع میں ’’نعت پر تنقید‘‘ کاجملہ سن کر دل ڈر جاتا تھا کہ کہیں یہ سوئے ادب نہ ہو۔ رفتہ رفتہ ’’نعت رنگ‘‘ کے شماروں سے خیال کی یہ دھند چھٹ گئی اور ادب تو نعت نگاری کے فنی ،لسانی اورادبی اصول بہت ہی واضح ہوکر ہمارے سامنے آچکے ہیں ۔ یہ کام محمد حسن عسکری سے شروع ہوا، ابو الخیر کشفی کی تحریروں میں اس کااحیاء ہواا ور پھر نعت رنگ نے اسے نعت کے مکمل تنقیدی دبستان میں تبدیل کردیا ۔ آپ اور آپ کے رفقاء کی کوششوں سے نعت پر تنقید ایک علا حدہ اور مخصوص مکتب فکر کی حیثیت اختیار کرچکی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ رحمت ہی سے آپ کو یہ توفیق ملی ہے ،کہ آپ پاکستان میں نعتیہ ادب کے فروغ اوراس کے تنقیدی دبستان کی تشکیل کاتاریخی کام انجام دے سکے ۔

اس تناظر میں صاحب نظر نقاد ومحقق اورعاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلمڈاکٹر عزیز احسن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’اردو کے نعتیہ ادب کے انتقادی سرمایے کا تحقیقی مطالعہ‘‘ایک روشن سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نعت شناسی کے حوالے سے تاریخ ادب میں یہ کتاب ہمیشہ زندہ رہے گی ۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے اس کتاب کے’’ پیش گفتار ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’سید صبیح الدین صبیح رحمانی ‘‘ میرے شکریے کے اس لیے مستحق ہیں کہ انہی کی تحریک پر میں نے تنقیدی مضامین لکھے اور انہی کے اصرار پر( ریٹائر منٹ کے بعد) پی ایچ ڈی کی سطح کا مقالہ لکھنے کا ڈول ڈالا ۔علاوہ ازیں نعتیہ ادب سے متعلق کتب کی فراہمی کی جان لیوا محنت سے بھی انھوں نے بہت حدتک بے نیاز کردیا ۔ ‘‘ گویا آپ ہی اردو کے نعتیہ ادب پر لکھے گئے اس وقیع تحقیقی مقالے کے محرک اور بنیاد گزار ہیں ۔ سرسید نے ۱۸۷۹ء میں حالی سے مسدس مدوجزر اسلام لکھوائی تھی اور ،آپ نے ڈاکٹر عزیز احسن سے اردو کے نعتیہ ادب پرایسی شاندار اور تحقیقی کتاب لکھوائی ۔میری نگاہ میں یہ مقالہ ’’نعت رنگ ‘‘ کے شجر ہی کی ایک علمی شاخ ہے ۔بلاشبہ یہ مراتب کاوش سے نہیں فیضان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عطا ہوتے ہیں۔

چونکہ خاتم النبیین ،شفیع المذنبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ساری امت مسلمہ کے لیے ایک مرکز اتحاد یکجہتی ہیں ۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہی نقطہ پر کار کائنات ہے ، اگر آپ نہ ہوتے توکائنات کایہ دائرہ کبھی وجود میں نہ آتا۔ خاکم بد ہن کون مسلمان ہے جو ختمی مرتبت رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کوآخری نبی نہ مانتا ہواور روز حشر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر یقین نہ رکھتا ہو۔ ہر مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ اور قرآن مجید سے آشنا ہوا۔ سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات نقطہ وحدتِ امت ہے ۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ’’نعت رنگ‘‘ کاہرشمارہ نعت شناسی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ منافرقوں کے خلاف اوراتحاد اسلامی کے لیے بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ ’’نعت رنگ‘‘ اپنی تحریروں کے ذریعے سے نعت نگاری اور نعت شناسی کے جو علمی وادبی معیارات قائم کررہا ہے ، ان معیارات کو برتنے اور برقرار رکھنے کے لیے تفسیر قرآن ،علم حدیث ،کتب سیر، تصوف ،تاریخ اسلام ،صرف نحو ،عروض ،ادبیات عالم اور لسانیات کا مطالعہ نا گزیر ہے ۔ گویا بلا واسطہ نعتیہ ادب کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم کے فروغ وترویج کاکام بھی’’نعت رنگ‘‘ کے توسط سے ہورہا ہے ۔

میرے نزدیک ’’نعت رنگ‘‘ نعت کے موضوع پر فقط ایک رسالہ ہی نہیں یہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر ہے ۔ یہ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلمکی ایک انجمن ہے ۔یہ اردو میں صنف نعت کے ادبی اصولوں کو علمی اور تنقیدی بنیادوں پر مرتب کرنے کی ایک خوبصورت کاوش ہے ۔ نعت رنگ سارے مسلمانوں کو محبت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے آفاقی مرکز پر جمع رکھنے کی ایک مخلصانہ سعی ہے ۔ یہ جریدہ ہمیں سیرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سنہری اصول یاددلاتا ہے اور ان پر چلنے کے ہمارے ارادے کوتقویت دیتا ہے۔

یہ جریدہ ہمیں نئی نئی علمی ،ادبی اوراسلامی علوم کی کتابوں کے مطالعے پر مائل کرتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ نعت رنگ نے کم وقت میں نعت کی تاریخ ،تنقید اورتحقیق پر کام کرنے والے منفرد اہل قلم کااپنا ایک حلقہ پیدا کرلیا ہے ۔ یہ جریدہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر اطہر سے مہکتا ایک چمن ہے جس میں تحسین وتوصیف کے رنگ برنگ پھول مہک رہے ہیں ۔

’’نعت رنگ‘‘ کے شماروں میں آپ نے نعت سے متعلق تقریباً سارے ہی اہم موضوعات پر مضامین ومباحث پیش کیے ہیں ۔ لیکن شاید اب بھی نعتیہ ادب کی تخلیق ،تنقید اور تحقیق کے کئی تازہ افق نادریافت ہوں گے کیونکہ یہ صنف جوئے کم آب نہیں بحر بیکراں ہے ۔ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں اور مختلف زبانوں میں کس طرح کا نعتیہ ادب لکھا جارہا ہے ، ان کی اصناف اور مضامین کی نوعیت کیاہے ؟ اس پر بھی تحقیق اور ترجمے کے لیے بڑی گنجائشیں موجود ہیں ۔

گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کار مغاں

ہزار بادۂ نا خوردہ در رگ تاک است

مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ’’نعت رنگ‘‘ اردو دنیا میں نعت شناسی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا ۔ میں آپ کی کامیابیوں کے لیے اور نعت رنگ کی مقبولیت اوراستحکام کے لیے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں ۔ خداوند آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے (آمین)


ریاض حسین چودھری۔سیالکوٹ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایک عرصے سے رابطے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکی شاید اس میں میرے ازلی تساہل ہی کا عمل دخل ہے پچھلے دو تین تین ماہ چیسٹ انفیکشن کی اذیت میں مبتلا رہا ہوں ۔کھانسی توبڑی حد تک ختم ہوچکی ہے لیکن بلغم ابھی باقی ہیں ۔خدا کاشکر ہے بلڈ پریشر اورشوگرکے جن قابو میں ہیں ۔اکھڑی ہوئی سانسیں بھی اعتدال کی راہ پرگامزن ہیں البتہ چلنے پھرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے آپ کو یادہے کہ ایک بارحاجی محمد رفیق الرفاعی کے ریسٹورنٹ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے گر پڑاتھا اورآپ نے سہارا دے کر اٹھایا تھا صورتحال مزید بگڑ چکی ہے۔قارئین سے التماس ہے کہ میرے لیے صحتِ کاملہ کی دعا فرمائیں۔اس سوچ میں گم رہتاہوں کہ اگر سرکار مدینہ نے طلب فرمالیا توچل کر حاضری دوں گا ۔کسی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ بڑھاپا بڑی مشکل سے گزرتا ہے ربِ کائنات کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جملہ جسمانی عوارض کے باوجود میرا بڑھاپا قابل رشک ہے،خضر حیات صاحب مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے ۔

کتنے دلکش ہیں بڑھاپے کے مرے شام و سحر

ایک اک لمحہ گذرتا ہے درِ آقا پر

تحدیث نعمت کے طورپر عرض کررہاہوں کہ اس سال ’’غزل کاسہ بکف‘‘کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ’’رزق ثنا‘‘اور ’’خُلاسخن‘‘پربھی صدارتی ایوارڈ مل چکاہے ۔رزق ثنا پرصوبائی ایوارڈ بھی ملاتھا۔اب کے ’’آبروئے ما‘‘پرصدارتی ایوارڈ (سندِامتیاز)بھی عطاہواہے۔

یہ سب تمھارا کرم ہے آقا

کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

’’زم زم عشق‘‘جس کا دیباچہ ڈاکٹر عزیز احسن نے تحریر فرمایاہے پریس میں ہے ممکن ہے اس تحریر کی اشاعت سے قبل آپ کے ہاتھوں میں ’’تحدیثِ نعمت‘‘ اور’’دبستان نو‘کو آخری شکل دے چکاہوں دس بارہ مسودے مزید ہیں وقت کم ہے اورکام بہت زیادہ ،جواللہ کو منظور۔

چراغِ نعت جلتے ہیں مرے چھوٹے سے کمرے میں

مرے آنگن کی چڑیاں بھی درودِ پاک پڑھتی ہیں

اجازت چاہتاہوں ۔خداحافظ ،احبا ب کی خدمت میں سلام۔


گوہر ملسیانی۔خانیوال[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دو مضامین ’’ ادب او ر صنفِ نعت کے تقاضے‘‘ اور ’’ اردو نعت حقائق کے آئینے میں‘‘ سہہ ماہی الزبیر، بہاولپور یا کسی اور جریدے میں شائع ہوئے تھے ،میرے ریکارڈ میں موجود تھے ان کی نقول ارسال کر رہا ہوں۔

کچھ شائع شدہ اور کچھ غیر شائع شدہ مقالات میرے پاس ہیں ،ان کو ’’مقالاتِ نعت‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں لانے کا ارادہ ہے ،چار تو وہ مقالے ہیں جو نعت رنگ میں شائع ہوئے ۔دو تین مقالے ہیں جو ’’نعت کے ارکانِ خمسہ‘‘ کے لیے تحریر کیے تھے ان میں دو تو تقریباً مکمل ہیں اور ایک ابھی شروع نہیں کیا ہے۔ میرا خیال ہے نعت رنگ پر مقالے کو مؤخر کر دوں تو یہ کتاب مکمل ہو جائے گی آپ کی رائے کا منتظر ہوں اگر اسی نعت رنگ کے شمارے میں نعت والے مقالے کو شامل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اسے تحریر کردوں۔ ہفتہ عشرہ میں ارسال کرسکوں گا ۔


سلیم اللہ جندران۔منڈی بہاؤالدین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

25/جولائی2014

آپ کا پیارا،محبت بھرا ،معلوماتی ، مفید، علمی ،تحقیقی تنقیدی کتابی سلسلہ ’’ نعت رنگ‘‘ شمارہ ۲۴ جولائی ۲۰۱۴ نظر نواز ہو چکا ہے یہ آپ کا خلوص کہ آپ مجھ ناچیز کو اعزازی یہ تحفہ پہنچا دیتے ہیں ساتھ پیشگی فون بھی کر دیتے ہیں۔یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنی نعتیہ کا وشوں کا دائر ہ کا ر نعت ریسرچ سنٹر تک بڑھا دیا ہے ماشاء اللہ !ماشاء اللہ!صد مبارک!

اللہ تعالی ٰ عزوجل حضور الصلوٰۃ والسلام کی لازوال ،لجپال،محبت ا ور قرب کا صدقہ آپ کو اس مبارک ،مستحسن ،مسنون ،مقدس ، محبوب کام کو آگے بڑھانے کے لیے اور اسے مستحکم بنیا دوں پر استوار کرنے کے لیے درکا ر بھر پور وسائل عطا فرمائے آپ کو بہترین افرادی ومادی ذرائع اور اعلیٰ درجہ کے اخلاص سے سرفراز فرمائے !نعت رنگ شمارہ نمبر ۲۳اور ۲۴ کے درمیانی وقفہ میں جامعہ کراچی سے تین احباب گرامی کی نعت پاک کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کے مقالات کی تکمیل بڑی مسرت افزا خبر ہے ۔ا نشاء اللہ یہ عمل محقیقن صاحبان اور ان کے محترم متعلقین کے لیے بارگاہ الہٰی و مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خوشنودی کا باعث ہے ۔ پاکستان میں تمام زبانوں میں پبلک ؍پرائیو یٹ سیکٹر میں ماسٹر ،ایم فل ،پی ایچ ڈی درجہ پر جتنے بھی مقالات قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک لکھے جاچکے ہیں اگر ان کا ایک مفصل ،جامع انڈیکس کوئی محقق تیار فرما دے تو یہ اس شعبہ میں عظیم خدمت ہو گی ۔لاہو ر سے ایک فاضل دوست جناب حاجی محمد یوسف ورک صاحب نے نعت مبارک کے موضوع پر پیش ہونے والے مطبوعات کو اپنی مختلف اشاعتوں میں اپنی شاہدرہ نعت لائبریری کی طرف سے شائع فرمایا ہے بہر حال اگر ’’پاکستانی جامعات و کلیات پر نعتیہ تحقیق ‘‘ کے عنوان کے طور پر مطبوعہ ؍غیر مطبوعہ ماسٹر/ماسٹر آف فلاسفی /ڈاکٹر آف فلاسفی لیول کے سبجیکٹ / ڈسپلن وائز مقالات کے مکانی و زمانی اشاریہ کے تحت اشاریے تیار ہو جائیں تو اس کی منفرد جہت ہو گی۔ اس کام کے دوران انگریزی زبان میں اس مجوزہ کام کے سلسلہ میں بووقت ضرورت راقم الحروف نعتِ پاک سے متعلقہ اپنے تین (۱) ایم ایڈ (۲)ایم اے (TEFL) (۳) پی ۔ایچ ۔ڈی درجہ کے تحقیقی مقالات کی تفصیل فراہم کر سکتا ہے ۔

رمضان المبارک کا حجتہ الوداع ہے ۔مبارک ،یادگار ساعتیں ہیں جو معز ز نعت گو ،نعت نگار ان نعت رنگ سلسلہ ۲۳،۲۴ چوبیس کے درمیان اپنے ابدی گھر روانہ ہو گئے ہیں ان کا کام انہیں انشاء اللہ اس دنیا میں رہتی دنیا تک زندہ رکھے گا اور دعا ہے کہ اُس جہاں بھی انہیں قرب خدا ومصطفےٰ علیہ الصلوۃ والعثناء کی برکا ت نصیب ہوں !اس نعت رنگ میں شامل محترم ڈاکٹر شہزاداحمد صاحب (کراچی) کا مضمون ’’پاکستان میں نعتیہ صحافت: ایک جائزہ ‘‘ماشاء اللہ بہت بڑا کا م ،عظیم علمی و تحقیقی سرمایہ ،وسیع معلوماتی خدمت او رپاکستان میں ارتقائے نعت کے لیے اہم پیش رفت ہے پھر عرض کررہا ہوں کہ مستبقل کا کوئی فاضل محقق آپ کے نعت ریسرچ سینٹر کے تعاون سے اگر ان عنوانات پر تحقیق کر لیں مثلاً:

۱)سرکاری و نیم سرکاری جامعات و کلیات (یونیورسٹیز ؍ کا لجز ) میں نعتیہ تحقیق

۲)پاکستان کے دینی مدارس میں نعتیہ تحقیق

تو اس موضوع پر میری محدود معلومات کے مطا بق ابھی بہت تحقیقی کام کی گنجائش اور ضرورت ہے دینی مدارس میں بھی شہادۃ للعالمیہ؍درس نظامی وغیرہ کے آخری سالوں میں مقالات لکھے جاتے ہیں ممکن ہے کہ نعت کے موضوع پر بھی بعض دینی مدارس نے عنوانات تجویز کیے ہوں!اس تناظر میں حمد و نعت کا مجموعی کام بھی سامنے آسکتا ہے اسے بھی شمار کرلیا جائے اور اس کی بھی indexing ہو جائے یہ مفید مددگار ہو گا۔

پیارے بھائی ! اگر آپ مسلسل ؍مستقل ہر نعت رنگ میں تازہ ترین نعتیہ مطبوعات پر ’’ریو یو سیکشن‘‘’Review-Supplement‘‘آخر میں شامل کرلیاکریں تو اس سے ’’نعت رنگ ‘‘کی افادیت میں مزید اضافہ ہوجائے گا اکثر تحقیقی جرائد میں کتب پر تبصرے کا کالم آخر میں شامل ہوتا ہے ۔ ماہرین کے تبصروں اور آراسے بھی قلم وفکر کے نئے زاویے پھوٹتے ہیں ماشاء اللہ ! اس شمارہ میں ’’حاصل مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے یہ حصہ شامل ہے ۵۱۴تا ۵۳۰ صفحات پر درج ہے بہتر اورواضح ہو گا کہ ہر کتاب پر تبصرہ نئے صفحے سے درج ہواگر زیر تبصرہ کتب کا Scannedٹائیٹل کا چھوٹا سا عکس ساتھ دے دیا جائے تو دلچسپی اور توجہ بڑھنے کا امکان زیادہ ہو تا ہے۔

اس خط کے دوسرے حصے میںآپ کے نعت ریسرچ سینٹر کی خدماتِ عا لیہ کی مزید وسعت کی خاطر راقم نے چند ایک معروضات نیک تمناؤ ں کے تحت تحریر کی ہیں خط کی اس دوسری فیز سے پہلے اس حصے کا اختتام اسی ’’نعت رنگ ‘‘ میں شامل ڈاکٹر عزؔ یزاحسن صاحب کے مضمون میں شامل جناب حفیظ تائب صاحب کے اس شعر پر کرتا ہوں:

ایک نگاہِ خاص ہے درکار شاہِ انبیا

یا رسول اللہ انظر حالنا

(ص:۵۰۵)

نعت ریسرچ سینٹر کی خدمات عالیہ کو مزید وسعت دینے کے لیے چندموضوعات پیش خدمت ہیں:

ا)ہرسال کسی سرکار ی؍نجی جامعہ کے ہال یا آڈیٹیورم میں ’’تحقیق وارتقائے نعت‘‘یا ’’نعت تحقیق وارتقا کے آئینے میں‘‘کے عنوان کے تحت کانفرنس کے بارے سوچا جائے۔

۲)سالانہ نعت کانفرنس کا عنوان مخصوص بھی سالانہ مقالات کی نسبت سے رکھا جاسکتا ہے۔

۳)اردو نعت کے ساتھ ساتھ نعت ریسرچ سینٹر کے لیے دیگر زبانوں میں نعت پر فروغِ تحقیق کے لیے دیگر زبانوں کے محققین نعت کے ساتھ بھی روابط استوار کیے جائیں ۔

۴)نعت مبارک پر تحقیق اور فروغ وارتقاء کے لیے اِس شعبہ کے اصحاب علم وفن کی مدد سے موضوعاتِ نعت کی فہرست مرتب کروائی جائے۔

۵)شعبہ اسلامیات ،شعبہ اردو ،شعبہ صحافت ،شعبہ عربی ،شعبہ انگریزی ،شعبہ فارسی ،شعبہ سندھی ، شعبہ پنجابی وغیرہ میں ماسٹر درجہ ، ایم ۔فل درجہ ،پی۔ایچ ڈی درجہ کے لیے مقالات کے عنوانات عصری تقاضوں کے پیش نظر نعت پر تحقیق کے لیے تجویز کرواتے جائیں ۔

۶)الیکٹرونک میڈیا ؍پرنٹ میڈیا کے کلچرل ونگز کے تحت منعقد ہونے والی محافلِ نعت کا بھی ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے اسائمنٹس لکھنے ،مضامین تحریر کرنے کی ترغیب دی جائے ۔

۷)سالانہ نعت کانفرنس میں اسلامیات ،عربی،صحافت،قرآن وسنت اور لسینگوا یجز (لسانیات) کے شعبہ جات کے ایسے مبارک نفوس جن کا اِس موضوع کی طرف خوب میلان ورجحان ہواُن کی مشاورت کے حصول کی سعی وکاوش فرمائی جائے۔

۸)یونیو رسٹیز کی سیرت چیئرز کے ساتھ اس سلسلہ میں ربط ومراسلت رکھی جائے۔

۹)ماہرین نصابیات ودرسیات کوماسٹر لیول پرمذکور ہ بالا متعلقہ شعبہ جات میں نعت مبارک کے موضوع پر ایک کورس ؍ایک پپر تشکیل دینا چاہیے اورایڈوانسڈ لیول پربھی یعنی ایم۔فل ؍پی۔ایچ ۔ڈی درجہ بھی کورسز میں ا س موضوع کی نمائندگی ہونی چاہیے ۔

۱۰)ملکی نصابیات ودرسیات کے لیے تدریسی کورسز میں نعت سے متعلقہ مواد کی ترتیب وتدوین کے دوران ’’انتخابِ نعت ٗبرائے نصابیات ‘‘ پر تحقیقی وفنی مضامین لکھے جانے چاہیں جن میں ضرورتِ نعت، اہمیتِ نعت،کلاس لیول سے متعلقہ موضوعاتِ نعت ،کلاس لیول سے متعلقہ ادبی محاسنِ نعت،کلاس لیول سے متعلقہ منتخب شدہ نعت پر مشقی وامتحانی سوالات کی تیاری وغیرہ جیسے عنوانات پربھی مقالات تحریر کرنے کی ضرورت ہے اس طرف قدم اٹھایاجائے۔

۱۱)اہلِ ثروت اوراہل دل نعت پاک جیسے مبارک ومستحسن تحقیقی کام کوپروان چڑھانے کے لیے ایسے اداروں کی معاونت کے لیے آگے بڑھیں اوران اداروں کو بہتروسائل اور اچھی سہولیات فراہم کرنے کے لیے مساعی فرمائیں۔

۱۲)نعت رنگ پر ریویوز زیادہ سے زیادہ تعداد میں ادبی وتحقیقی جرائد ،قومی اخبارات میں شائع کروائے جائیں ۔

۱۳)محقّقّینِ نعت کا نیشنل ؍انٹر نیشنل پینل ترتیب دیاجائے ۔ہر’’نعت رنگ‘‘ میں کسی ایک محققِ نعت کاانٹرویو شائع فرمایا جائے!

۱۴)پاکستان کی سرکاری وپرائیویٹ جامعات میں نعت پاک کے موضوع پر لکھے جانے والے معیاری اور مستند مقالات کی طباعت اور وسیع ترسیل کا نعت ریسرچ سنٹر کے فورم سے باقاعدہ اہتمام کیا جائے ۔اگر ممکن ہوسکے تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت مبارک پر تعلیم وتحقیق کے لیے ’’حَسّان فیلوشپ‘‘(سکالر شپ سکیم) کااجرا فرمایا جائے۔امید ہے اس میں عاشقانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے حصہ ڈالیں گے۔

۱۵) ۔(ا)نعت رائٹرز ۔(ب) نعت ریسرچرز ۔(ج)نعت ری سائیٹرز

(د)نعت کریکولم؍سلیبس ڈیزائنرز (مصنفین نعت)(تدوین کاران ؍ تشکیل کنندگان)

(محققین نعت) (نعت خوانان،نعت گویان)

Na'at Reciters

Na'at Writers

Na'at Researcher

Na'at Curriculum؍Na'at Designers

کے ہرزبان میں الگ الگ فورمزکی تشکیل پرتوجہ فرمائی جائے۔

۱۶)ارادے بلند ،عزائم پختہ،توکل برخدائے عزوجل، تمنّائے نظرِ عطائے مصطفےٰ علیہ الصلوٰۃ واللہ کے ہمراہ یہ امید ،خواہش اور سوچ بھی وقت کی ضرورت ہے کہ اِس نعت ریسرچ سنٹر کی چاروں صوبائی صدر مقامات پرذیلی شاخوں کاقیام بھی عمل میں آئے!(آمین ۔ثم آمین)

یاچاروں صدر مقامات پر روابط بہتر تشکیل ہوں۔


شاکرکنڈان ۔سرگودھا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

20/اگست 2014

آپ کی محبتوں کاتحفہ ’’پاکستان میں اردونعت کاادبی سفر‘‘ اور ’’ نعت نامے‘‘کی صورت موصول ہوا۔بہت ہی شکر گزار ہوں کہ اپنی عنایات سے نوازا۔

یہ دونوں کتابیں نعتیہ ادب میں بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں ۔ کل کا ادیب اس کی صحیح اہمیت سے آگاہ ہوگا ۔’’نعت نامے‘‘ کے مکاتیب جن پہلوؤں اور نعت کی جن جہتوں کواجاگر کرتے ہیں شاید آج تک لکھے جانے والے نعتیہ مقالے بھی ان کے پاسنگ نہیں ۔ان خطوط میں مختلف اذہان نے جن متنوع پہلوؤں پرسو چا یہ قابلِ تحسین بھی ہے اورقابلِ قدر بھی ۔آپ کو بہت بہت مبارک ۔

آپ سے میں نے عساکرِ پاکستان کے نعت نگاروں کے تذکرے کاوعدہ کیا تھا ۔ میں اُس پر کام کررہا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ ایک ہی دفعہ بھر پور کام کروں ۔دعا کریں ۔ فی الحال ایک اور مضمون حاضر ہے ۔ امید ہے پسند آئے گا ۔

اہلِ خانہ کو دعائیں ۔احباب کوسلام


رئیس احمد نعمانی۔علی گڑھ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

28/ستمبر2014

۱)’’نعت رنگ‘‘ ۲۴ کے ص ۵۳۹ پر نعت کی اشاعت کے لیے سپاس گذار ہوں ۔ اِس عرض کے ساتھ کہ نعت کے تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں ’’وہی ہے‘‘ کے بعد لفظ ’’حق‘‘ چھپنے سے رہ گیا ہے۔ جس سے شعر کے وزن اور معنیٰ دونوں پر منفی اثر پڑا ہے ۔

۲)فروغِ نو ’’اور‘‘ شعاعِ نوا ‘‘ دونوں پر تبصرہ ابھی آپ کے ذمّے باقی ہے ۔

۳)ایک نعت جو تادمِ تحریر حتماً غیر طبع شدہ ہے ،اِس خط کے ساتھ منسلک ہے ۔

۴)’’ہدیۂ سلام بہ حضورِ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی دس کاپیاں علیحدہ پیکٹ کی شکل میں پوسٹ کررہا ہوں ۔ کیا رسید کی توقع رکھوں؟

حضرت حسان بن ثابت کے نعتیہ قصائد کا منظوم ترجمہ زیرقلم ہے ۔ (کئی قصیدوں کا ترجمہ ہوچکا ہے) دعاکیجیے اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے قصیدوں کاترجمہ مکمل کرادے (آمین)

سعید بدر۔لاہور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

11/جولائی 2014

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ھمتا کوہے

حکمراں ہے اک وُہی باقی بُتانِ آزادی

آج آپ کی عنایت خسر وانہ کی بدولت نعت رنگ کا چوبیسواں شمارہ ڈاک کے ذریعے ملا۔ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کیونکہ طویل عرصہ کے بعد شائع ہواہے آنکھوں کوتازگی اوررُوح کو بالیدگی میسرآئی۔ اتنی خوشی کی بیان نہیں کرسکتا ۔ آپ سے بھی نصف ملاقات ہوگئی ۔

ٹائیٹل بہت ہی دلکش اور روح پرور ہے اوراس پر عبارت یہ کہ اللہ ٗربّ محمدصلی اللہ علیہ وسلم بے پایاں مسرت اس لیے ہوئی کہ اس سے قبل ایک صاحب ، اللہ کعبہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے ایک سفر نامہ (حجاز) شائع کرچکے ہیں ۔ایک احساس ہواکہ جیسے درمیان میں کوئی رکاوٹ ڈال دی گئی ہو ،حالانکہ کعبہ رکاوٹ نہیں لیکن جانے کیوں ،ہمیں اللہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی شے اچھی نہیں لگتی ۔آج ایک صاحب ٹی وی پر ’’حدیث‘‘ کے لفظ قرآنی آیات کی روشنی اللہ تعالیٰ سے منسوب کررہے ہیں کہ قرآن نے اللہ کے کلام کواور اللہ کی بات کو’’حدیث ‘‘ کہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔موصوف کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ لفظ رسول پاک سے مخصوص نہیں ہے ۔پتہ نہیں اس ایک ’’خاص طبقے‘‘ کوکیا ہوگیا ہے ۔وہ رسول پاکصلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کو گھٹانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔

نعت رنگ کے زیر نظر شمارے میں ایک بات خاص طورپر محسوس ہوئی کہ اس کے ۵۶۰ صفحات میں سے ۵۳۴ سے ۵۴۶ تک صرف ۱۲ صفحات میں ۱۰نعتیں شامل ہیں ،باقی سب کچھ تنقیدہی تنقید ہے گویا مختلف احباب اورقابل قدر اصحاب نے ’’نعت‘‘پر محض تنقید فرمانے کا ہی فریضہ ادا کیاہے خوبیوں کے ساتھ زیادہ تر خامیوں اورکمزوریوں کو اجاگر کیاہے۔تنقید نگار کا مزاج ہمیشہ خامیوں کی تلاش کرنا ہی ہوتاہے وہ اگر ’’حسن و قبح‘‘کی تلاش کے اس دلچسپ شغل میں نعت نگار کی تعریف یا تحسین کے چند جملے لکھتا ہے تو وہ درحقیقت ’’بزور وزن بیت ‘‘ کے عامل ہوتے ہیںیاپھر ان چند جملوں سے اس کامقصد خود خود کو ’’غیر جانبدار‘‘ثابت کرنا ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایسے تنقید نگار ابھی موجود ہیں جنھوں نے غالب واقبال اورظفر علی خاں پربھی نشتر زنی سے گریز نہیں کیا ۔ یہ کہنے سے میرایہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ان ’’بزرگوں‘‘سے غلطیاں نہیں ہوئیں یا ان کے اشعارمیں کہیں سقم موجود نہیں یاپھر وہ’’ معصوم عن الخطاء‘‘تھے یا ہیں ۔ایسا ہرگزنہیں لیکن فارسی اوراردو زبانوں میں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ ’’خطائے بزرگان گرفتن خطا است‘‘یعنی بڑوں اوربزرگوں کی غلطیوں یا کمزوریوں کو الم نشرح کرنا بھی ’’خطا ء‘‘کے زمرے میں آتاہے لیکن مغربی افکار سے مسحو ر ومرعو ب ہوکر ہم لوگ اپنے اجداد اوراسلاف کے تابناک اورخوب صورت چہروں پربھی دھبے لگانے پر فخر محسوس کرتے تھے ۔محترم المقام جناب صبیح رحمانی آپ نے جب نعت پر’’تنقید‘‘کا سلسلہ شروع کیا تھاتوراقم نے اس وقت بھی اُن سے اسی’’ خدشے ‘‘کا اظہار کیاتھا لیکن آپ اپنی دھن کے پکے ہیں آپ نے اس کام کوآغاز کرکے ہی دم لیاکیا’’تنقید نگار‘‘حضرات کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ نعت نگاروں پرہرپہلو اورہر گہرے گوشے سے حملے کریں اوربالخصوص اگر کوئی نعت نگار پسند نہ ہوتواس کی شامت ہی آجاتی ہے۔چاہیے تویہ کہ حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس صنف کو فروغ حاصل ہو۔

راقم کواس امر کا ذاتی تجربہ ہے کہ جن نوآموز شعراپربے جا تنقید کی گئی ،انہوں نے شعر کہنے سے ہی توبہ کرلی انہوں نے جب شعر کہنا ہی چھوڑ دیاتو نعت کیا کہنا تھی اس طرح نعت کو نقصان پہنچا۔کتابوں پر تبصروں کے دوران میں راقم کے اس قسم کے رویہ کی وجہ سے استاذمکرم ڈاکٹر وحید قریشی اورڈاکٹر انورسدید نے فرمایا:

ُُ’’اردو ادب میں ادیبوں ،شاعروں اوراہل قلم کا پہلے ہی ’’قحط‘‘ہے اگر آپ ان کی حوصلہ شکنی کریں گے تواس شعبہ میں مزید لوگ نہیں آئیں گے میرے رویے کی تبدیلی کے نتیجہ میں تبصرۂ کتب کے لیے رابطہ کرنے والے اصحاب کی تعداد بڑھنے لگی لیکن راقم نے موقع ملنے پر ہرقلمکار کوزبانی کلامی اس کی خامیوں سے آگاہ کردیا جس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔یہ بات واضح ہے کہ راقم کویہ دعوی نہیں کہ اُسے شعر و شاعری پرعبور حاصل ہے بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ راقم شعر وشاعری کے ’’ابجد‘‘سے بھی واقف نہیں اس کے لیے علم عروض پرعبور حاصل ہونا لازم اورمفید ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے اصحاب بھی تنقید کے ہتھوڑے اورکلہاڑے چلاتے ہیں جنھوں نے خود زندگی بھرایک نظم ،غزل یا نعت نہیں کہی ہوتی‘‘۔

زیرنظر شمارے کے ابتدائیہ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نے قدیم اورجدید نعت کے خدوخال پربحث کی ہے کہ:

’’ اصلاح بیداری کی تحریکوں اورمعاشرتی تقاضوں کے تحت زبان کے مزاج اوراظہار کی صورتوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اورجہاں گیت،بارہ ما سے اوردوہے جیسی عام اورپسندیدہ اصناف میں کمی واقع ہوتی ہے ،وہیں مسلمانوں میں قومی وملّی احساسات کے فروغ اوربیداری کی تحریکوں اور مذہبی مسالک کی باہمی کش مکشوں اورتنازعات کے نتیجے میں بھی جس میں مقام رسالت پربحث ومباحثہ بھی شامل ہے نعت نگاری نے ماضی یا عہد وسطیٰ کے مقابلے میں عہد حاضر میں بتدریج زیادہ مقبولیت اورتوجہ حاصل کی ہے‘‘

جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اب نعت کوادب کی صنف تسلیم کیاجانے لگا بہرحال بارہ ماسے اوردوہوں کی اصناف میں کمی کا نقصان بھی توہواہے۔ڈاکٹر صاحب نے ’’عینیت اورغیریت‘‘کے مسئلے کو خوب اجاگر کیاہے کہ ’’ذات احمد‘‘کی ’’میم‘‘سے جدا کرکے اُسے ’’احد‘‘بنانے کا عمل محسن کاکوروی جیسے شعرا کرام نے روارکھا لیکن عہد حاضر میں نعت نگاروں سے اس’’عمل‘‘اجتناب کرتے ہوئے حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتحسین کے معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اوراس کے لیے انہوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلمکا ’’سراپا‘‘بیان کرنے پرزور دینے کے بجائے ان کی سیرت طیبہ کے پہلو اجاگر کرنے پرزیادہ زور دیاہے اوراُن کی’’ تعلیمات ‘‘کوزیادہ عام کرنے کی سعی وکوشش کی جو قابل صدتحسین شعارہے۔

صفحہ نمبر ۲۵ پرنیویارک سے تنویل پھول صاحب درج ہے جب کہ صفحہ نمبر ۲۱۹ پر’’حمد ونعت میں الفاظ کا مناسب استعمال ‘‘کے عنوان سے تحریر میں صاحب تحریر کااسم گرامی ’’تنویر پھول‘‘درج ہے اپنی اس دلپسند تحریر میں تنویر پھول صاحب نے بڑی عمدگی کے ساتھ اُن اشعار کا ذکر کیاہے جن میں ان کے بقول ’’فنی اورمعنوی تسامحات‘‘موجود ہیں مثال کے طورپر مولاناظفر علی خاں کے مشہور شعر ہے:

وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

ایک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں

تنویر صاحب کا اعتراض ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک غار ’’غارحرا‘‘میں مراقبہ فرمایا تھااورشاعر نے ’’غاروں ‘‘استعمال کرکے مبالغہ آرائی کی ہے۔تنویر صاحب!اہل علم وادب نے اسے ’’شعری ضرورت‘‘کے تحت جائز قرار دیاہے لیکن آپ سائنس کے تحت دواوردوچار ہی کو ضروری سمجھتے ہیں۔اسی طرح احمد ندیم قاسمی کے حمدیہ شعر پران کایہ اعتراض بظاہر درست لگتاہے:

مگر جو سوچ لیامیں نے وہ ضرور ہوا

جب کہ حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ:

’’میں نے ارادوں کے ٹوٹنے سے ا پنے رب کو پہچانا۔‘‘

تنویرپھول کا یہ کہنا بہرحال درست اوربجاہے کہ حمد ہویانعت یا منقبت’’انداز ‘‘میں عاجزی وانکساری کی موجودگی ضروری ہے (بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہے راقم)مشہور رہے کہ:

با خدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار

بہرکیف تنویر پھول کی کاوش قابل قدر ہے نعتیہ اشعار میں احتیاط لازم ولا بدی ہے کیونکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ:

’’رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا نہ کرو . . . . . . . . . کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے کے سارے اعمال ہی ۱کارت جائیں اورتمہیں اس کی خبرنہ ہو۔‘‘

جناب منظر عارفی(کراچی)نے نعت گوئی میں لفظ ’’ارم‘‘کے استعمال کی مذمت کی ہے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ’’شداد‘‘کے بنائے ہوئے باغ کانام تھا اوربقول اُن کے ’’ارم‘‘جنت کانام بھی نہیں ہے بعض لوگ اس لفظ کو مجازاً جنت کے لیے استعمال کرتے ہیں راقم کے خیال میں اگر زبان سے الفاظ کوترک کرنے کے لیے یہ روش اوررویہ اختیار کیا گیا توپھر اردو زبان میں بلکہ پنجابی میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ’’خدا‘‘کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں جو فارسی میں ’’نمبردار‘‘یا ’’چوہدری‘‘کے معانی میں استعمال ہوتاہے اورحقیقت یہ ہے کہ کٹر توحید پرست لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ عشق پربھی اعتراض کرتے ہیں حکیم الامت نے محبت کے لیے عشق کے لفظ کو خوب استعمال کیا ہے اور اسے خاص معنیٰ عطاکردیے ہیں جس سے عشق الٰہی اور عشق رسول تراکیب عام استعمال ہورہی ہیں ۔اس روش کے تحت ہمیں بہت سارے الفاظ ترک کرنا ہوں گے جوفارسی یا ہندی زبان سے اردو میں درآتے ہیں یہ تو وہی رویہ ہوگا جو فارسی کے مشہور شاعر فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں اختیار کیا تھا اوراس نے بزعم خویش عربی الفاظ کا استعمال نہ کرکے خالص فارسی الفاظ استعمال کرکے’’عجم‘‘زندہ کرنے کی کوشش کی یہ رویہ آج بھی جاری ہے اس نے کہا :

عجم زندہ کردم بایں فارسی

بہرحال یہ منظر عارفی کا نکتہ نظرہے۔ شہر کراچی کے ڈاکٹر شہزاد احمد مایہ ناز محقق اورممتاز دانش ور ہیں انہوں نے ’’پاکستان میں نعتیہ صحافت..........ایک جائزہ‘‘کے عنوان کے تحت طویل اورمبسوط مضمون تحریر کیاہے اورپاکستان وہند میں شائع ہونے والے ’’نعت نمبروں‘‘کا مختلف حوالوں سے جائزہ پیش کیاہے۔ان کی یہ تحقیق قابل قدر اورقابل صد ستائش ہے لیکن معذرت کے ساتھ عرض کناں ہوکہ غالباً کمپوزر کی غلطی سے ’’گاہے بگاہے‘‘کا لفظ چھپ گیا ہے جواہل علم وادب کے نزدیک غلط ہے یہ لفظ فارسی زبان سے متعلق لفظ ہے جو دراصل ’’گاہ بہ گاہ‘‘ہے (جسے گاہ بگاہ بھی لکھا جاتاہے)یاپھر اسے ’’گاہے گاہے ‘‘لکھتے یا بولتے ہیں بصد معذرت عرض ہے کہ اس گرانقدر مضمون میں روزنامہ امروز کے ۱۹۸۶ء کے ’’رحمت اللعالمین‘‘نمبر کا ذکر نہیں کیا گیاہے جو نعت ہی کے حوالے سے راقم نے شائع کیاتھا آج کل کی طرح اس زمانے میں بھی اخبارات کے ہفت روزہ ایڈیشن جنھیں ’’سنڈے ایڈیشن‘‘کہاجاتا تھاصرف بیس یا چوبیس صفحات پر مشتمل ہواکرتے تھے لیکن راقم نے یہ’’نمبر‘‘۴۸ صفحات پر شائع کیا تھا اس سے قبل ۱۹۸۵ کے ہفت روزہ میں بھی ۲۴ صفحات میں بیشتر صفحات نعتیہ ادب پر مشتمل تھے یاد رہے کہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اورچھٹی اتوار کے بجائے جمعہ کو ہواکرتی تھی اس لیے اسے سنڈے ایڈیشن کے بجائے جمعہ ایڈیشن ہی کہتے تھے ۔

مزیدبراں راقم کو یادہے کہ ممتاز صحافی شورش کاشمیری نے بھی اپنی زندگی میں ’’ہفت روزہ چٹان ‘‘ کا رحمت للعالمین‘‘نمبر شائع کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا اسی شمارے سے متاثرہوکر راقم نے ’’رحمت للعالمین‘‘ ایڈیشن شائع کیا۔آخر میں ’’ہماری ملی شاعری میں نعتیہ عناصر‘‘پرعزت مآب ڈاکٹر عزیز احسن کا تبصرہ نما مقالہ شامل ہے یہ مقالہ ڈاکٹر طاہرقریشی کا رسئحہ فکرہے لیکن ڈاکٹر عزیز احسن کے تحریر وتبصرہ سے پتہ چلتاہے کہ یہ گراں قدر مقالہ ہے جس میں کم وبیش تمام شعراے کرام کے نعتیہ کلام کا عمدگی سے جائزہ لیا گیا ہے طاہر قریشی کی یہ کاوش بہرحال تعریف وتحسین کی مستحق ہے۔

مقالہ کے آخر میں اُن حضرات کے بارے میں بعض شعرا کے اشعار کا حوالہ پیش کیا گیا ہے جن کو پہلے بھارت سے ہجرت کرکے مشرقی بنگال (سابق مشرقی پاکستان)آناپڑا اورپھر سقوط ڈھاکہ کے بعد جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیاتو’’بہار‘‘کے صوبہ سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آنے والے اپنے ہی ملک میں ’’غیرملکی‘‘ٹھہرائے گئے اس لیے ان کا دکھ اورغم دوچند ہوگیا۔ایک شاعر نے خوب ترجمانی کی ہے:

عیاں ہے آپ پر ہم بے گھروں کا افسانہ

قبول کیجیے دو ہجرتوں کا نذارنہ

بس اک نگاہ کے طالب ہیں آبلہ پا ہم

عذاب دربدری بڑھ رہے ہے روزانہ

سقوط ڈھاکہ کے بعد لاکھوں لوگ اذیت ناک صورت حال کا شکار ہوئے بنگالیوں نے ’’غیربنگالیوں‘‘کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا ۔مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان نے بھی ایک محدود تعداد کو پاکستان آنے دیا باقی اب تک ڈھاکہ یا بعض شہروں میں مقیم ’’خیموں‘‘میں زندگی بسرکررہے ہیں نہ کوئی ان کا گھرہے اورنہ بار،بہرکیف وہ عذاب دہ زندگی سے دوچار ہیں۔

اہل پاکستان نے بھی چند برس تک سقوط ڈھاکہ کو یاد رکھا اس کے بعد’’ حقیقت ثابثہ‘‘کو قبول کرلیا۔یہی وجہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ پرشعری سرمایہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج کے پرنسپل اورنامور ادب اورمحقق ڈاکٹر سید عبداللہ ایک بارراقم کے بات چیت کے دوران میں فرمایا کہ:

’’ہم نے سقوط دہلی‘‘پربہت آنسو بہائے اوربہت کچھ لکھا لیکن ’’سقوط ڈھاکہ‘‘پر ہم نے نے خاموشی اختیار کرلی اورکچھ نہ کیا ۔یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر بالخصوص شعری سرمایہ ہونے کے برابر ہے ۔‘‘

’مدحت‘‘کے حصہ میں ڈاکٹر خورشید رضوی کی نعت خوب ہے مطلع ملا حظہ فرمایئے:

حمد سے نکلا ہوا نام محمد احمد

ور اس نام کا کیا خوب ہے احمد ،احمدؐ

ڈاکٹر ریاض مجید کی نعت کا مطلع بھی عمدہ اورجاں پرور ہے۔

طیبہ کی چند راتیں وہ مکے کے چند دن

آتے ہیں یاد،آج بھی وہ ارجمند دن

بہرحال ان کی نعت بھی جانداراورشاندار ہے ۔ڈاکٹر ریاض مجید کو ان کی نعتیہ کتاب پر حکومت پاکستان سے ۲۰۱۳ء میں ایوارڈ مل چکا ہے۔

جلے خیموں کے اندر سسکیوں کو چلنا پڑتا ہے

ریاضؔ اتنا بھی کب آساں ہے دشت کربلا بننا

ان کا یہ شعر کتنا دلنواز ہے :

بوقت حاضری سرکار دوعالمؐ کی چوکھٹ پر

بہت اچھا مجھے لگتا ہے حرفِ التجا بننا

پس نوشت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ملتان کے جناب گوہر ملسیانی نے ’’گلاب رُتوں کا شاعر‘‘کے دلکش عنوان کے تحت جناب حافظ محمد افضل فقیر کے بارے میں معلومات افزا اورروح پر تحریر پیش کی ہے وہ درویش منش لیکن بلند پایہ انسان تھے۔مشہور وشاعر اورنعت نگار حفیظ تائب کی معیت میں ان سے متعدد بارملاقات کا شرف حاصل ہو اوہ پہلے تواورئینٹل کالج میں پروفیسر کے منصب پرفائز تھے جب نعت کی طرف آئے اورروحانیت کا سفر شروع کیا توبس اللہ اور رسول مقبولصلی اللہ علیہ وسلمکے ہوکر رہ گئے۔ان کے پاس اپنی کہی ہوئی غزلوں کاکثیر ذخیرہ تھا لیکن ان کے عشق رسولؐ کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے کہ جب نعت کہنے لگے توغزلیات کے پیش بہا ذخیرے کوہم سب کے سامنے نذرآتش کردیا۔دوست احباب منع کرتے رہے لیکن وہ باز نہ آئے۔

جان جہاں کے دلکش اورجاں افروز عنوان کے تحت ان کے مجموعہ نعت کے حوالے جناب گوہر ملسیانی نے اس مرددرویش اوررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق پر نہایت عمدگی سے خامہ فرسائی کی ہے ان کا مزار ضلع شیخورہ پورہ کے ایک گاؤں کوٹ عبداللہ شاہ میں مرجع خاص وعام ہے لوگ وہاں سے آج بھی روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔

بقول گوہر ملسیانی حافظ محمد افضل فقیر نے عربی زبان میں بھی شعر کہے اور ۶۳ اشعار پر مبنی ایک قصیدہ لکھا۔انہوں نے رباعیات پرخصوصی توجہ دی اس سے قبل عربی زبان میں رباعی کا رواج نہ تھا کہتے ہیں کہ صرف ایک شاعر ابن الفارض کے سوا کسی نے رباعی نہ کہی۔اس لحاظ افضل فقیر دوسرے شاعر ہیں جنھوں نے عربی زبان میں رباعیات کہیں ۔وہ رباعی کے اوزان اخر جے اخرم سے خوب واقف تھے اسی طرح انہوں نے فارسی اورپنجابی میں بھی رباعیات کہیں ۔اردو زبان میں رباعی پیش خدمت ہے:

رسولؐ امیں کی محبت کے راہی

عنایت کو ہرگام پر دیکھتے ہیں

حبیبؐ خداکو تمام اہل ایماں

دل وجاں سے نزدیک تردیکھتے ہیں

ایک رباعی میں سیرت نبوی ؐ کا ذکر کس قدر عمدہ انداز میں کیاہے:

روشن ہیں سیرت نبویؐ کے تمام نقش

ہرجلوۂ کمال یہاں بے جواب ہے

طرز نبیؐ کو چھوڑ کے امت ہے لخت لخت

ناپید ہے سکون ،دل و دل اضطراب ہے

ایک دوسری رباعی میں بھی سیرت پاک کی تجلیات کا کس خوبی اورعمدگی سے اظہار کیا ہے:

جب دل ہو غم گردش ایام سے بیتاب

انؐ کی نگہ لطف ہی دیتی ہے دلاسا

ہردور میں ہے اس کی تجلی نظر افروز

تابندہ ہے سرکارؐ کی سیرت گہرآسا

ایک شعر میں خواہش حضوری کو کس سلیقے اورادب نے بیان کیا ہے:

گر وقت سمٹ جائے، یہ فاصلہ ہٹ جائے

قدموں سے لپٹ جائے ،دل فرطِ محبت سے

دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اُن جیسی عشق ومحبت کی وارفتگی ہم کو بھی عطا فرمائے ۔اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود وہ ’’چھوٹے افراد‘‘ کا احترام کرتے ۔بندہ ناچیز حاضری کے لیے پیش ہوتاتو فرماتے لو ! ’’باباجی‘‘ آگئے ۔ایک دن حفیظ تائب نے اعتراض کیا توفرمانے لگے !آپ کا کیا؟میں جو چاہوں ، کہوں۔یہ میری مرضی ہے ۔ایک دفعہ مجھ سے نعت سن کر تڑپ اُٹھے اوراشکبا رہوگئے ۔کہنے لگے کہ باباجی!تمہارے اشعار رُلا دیتے ہیں ۔جانے اشعار میں یہ اثرکہاں سے آگیا پھرمسکرا پڑے کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں اب ایسے لوگوں کو ۔


سید ضیاء الدین نعیم۔روالپنڈی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

24/ستمبر 2014

’’نعت رنگ ‘‘موصول ہوا۔بہت شکریہ۔

ماشاء اللہ تمہارے جذبے اورلگن نے ’’نعت رنگ‘‘کو نعتیہ ادب کا وقیع ترین کتابی سلسلہ بنادیاہے۔بالخصوص تحقیقی و تنقیدی کام نے گویا اربابِ ذوق کے لیے رہنما اصول متعین کردیے ہیں۔جزاک اللہ فی الدارین۔

محترم ڈاکٹر معین الدین عقیل کا ابتدائیہ نہایت قابل قدر ہے۔جناب حزیں صدیقی میرے استاد سخن ہیں۔اُن کی نعتیہ شاعری اورشخصیت کا ڈاکٹر محمد آصف صاحب نے بہت بسط وشرح سے جائزہ لیاہے۔خوشی ہوئی ’’نعت رنگ ‘‘زیرمطالعہ ہے۔تفصیلی تاثرات سے انشاء اللہ آگاہ کردوں گاکچھ نعتیں ارسال کررہاہوں۔رب العالمین تمہیں اپنی خاص عنایتوں کے سائے میں رکھے اور’’نعت رنگ‘‘کو اللہ کے بندوں کے لیے بیش از بیش فائدہ مند بنائے۔


تنویرپھولؔ ۔نیویارک[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

15/نومبر 2014

نیویارک میں برادرم فیروز احمد سیفی صاحب کی محبت اور کرم فرمائی کے طفیل ’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ نمبر ۲۴ نظر نواز ہُوا جسے پاکر دل باغ باغ ہو گیا، اُن کے لئے اور آپ کے لئے دل سے دعائیں نکلیں۔ یہ خبر بے انتہا مسرت کا باعث ہوئی کہ ’’نعت رنگ‘‘ کا اگلا شمارہ سلور جوبلی نمبر ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’نعت رنگ‘‘ مستقبل قریب میں اپنے عظیم سفر کی ۲۵ منزلیں طے کر لے گاسبحان اللہ ، ماشا ء اللہ ، جزاک اللہ۔

سر پر صبیح کے ہے سجا تاجِ ’’نعت رنگ‘‘

ممکن نہیں کہ دل سے ہو اخراجِ ’’نعت رنگ‘‘

اے پھولؔ ! جشنِ سیمیں مبارک صبیح کو

محبوب اہلِ دل کو ہے معراجِ ’’نعت رنگ‘‘

اب آئیے زیر نظر شمارے کے حوالے سے کچھ باتیں ہو جائیں ۔سر ورق پر بہت خوب صورتی سے ’’ اللہ ربّ محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ ‘ تحریر ہے یعنی :

گناہوں کو وہ پھولؔ ! بخشے گا بے شک

بڑا مہرباں ہے خدائے محمد

صفحہ نمبر ۲۵ پر راقم الحروف کی حمد کے ساتھ نام ’’ تنویر پھولؔ ‘‘ کی جگہ ’’ تنویل پھولؔ ‘‘ غلط کمپوز ہو گیا ہے ۔ صفحہ نمبر ۲۷ پرڈاکٹر اشفاق انجم کی جو حمد ہے اُس کے چھٹے شعر کا دوسرا مصرعہ’’ وہی کہ اخلاص و نشرح والا ، وہی کہ رعد و دخان والا ‘‘ شاعر کی نظر ثانی کا طلب گار ہے ، ’’ نشرح‘‘کی جگہ ’’فتح‘‘ (سورۃ الفتح) یا ’’ناس‘‘ ( سورۃ الناس) یا اسی کا ہم وزن کوئی لفظ استعمال ہوسکتا ہے ۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کا مقالہ ’’ پاکستان میں نعتیہ صحافت‘‘ ایک معلوماتی تحریر ہے ، موصوف نے حال ہی میں نعت کے موضوع پر پی ایچ ۔ ڈی کی سند حاصل کی ہے جس پرراقم الحروف کی طرف سے دلی مبارک باد۔ صفحہ نمبر ۲۲۳ پر راقم الحروف کے مضمون کی تیسری سطر میں ’ ’ حمد اور مناجات ‘‘ کی جگہ ’’حمد اور نعت‘‘کمپوز ہُوا ہے جو درست نہیں۔براہِ کرم جملہ اس طرح پڑھا جائے ’’سورۃ الفاتحہ حمد اور مناجات کی یک جائی کا مظہر ہے ‘‘ ۔ صفحہ نمبر ۲۲۵ پر لفظ ’’ارم‘‘ کے استعمال پر بحث کی گئی ہے جو معلوماتی ہے اور صفحہ نمبر۲۱۷ پر ایک دوسرے مقالہ نگار نے تحریر کیا ہے ’’ قرآن وحدیث اور دیگر مذہبی کتابوں میں جن آٹھ جنتوں کا ذکر ہے ’’ارم‘‘ ان میں شامل نہیں ہے ، اس حقیقت سے جاہل و کم علم شعرا بے خبر ہو سکتے ہیں ‘‘۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے ۔ اردو زبان میں لفظ’’ارم‘‘ کا حوالہ کسی مخصوص جنت یا جنت کے کسی حصے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مجازاََجنت یا بہشت مراد ہے ، فیروز اللغات ، نسیم اللغات اور جواہر اللغات سب اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں۔ جو لوگ لفظ ’’عشق‘‘ کی طرح اسے استعمال نہ کرنا چاہیں وہ نہ کریں لیکن استعمال کرنے والوں کو ’’ جاہل و کم علم شعرا‘‘ کہنا مناسب نہیں ۔ غالب ؔ جیسا بڑا شاعر بھی لفظ ’’ارم‘‘ کو اسی مفہوم میں استعمال کرتا ہے : ’’ خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں ‘‘ ۔

عربی میں تو لفظ ’’بہشت‘‘ بھی نہیں ہے ، کیا اسے بھی استعمال کرنا قابل اعتراض ہوگا؟ عربی میں ’’ رقیب‘‘ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے لیکن ہماری غزلوں میں اس کے دوسرے معنی ہیں۔

اردو میں لفظ ’’مولیٰ‘‘ سے مراد ’’آقا‘‘ ہے لیکن عربی میں اس سے مراد ’’ آزاد کیا ہُوا غلام ‘‘ بھی ہے۔ دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ کوئی لفظ کس مفہوم میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ حال ہی میں کچھ لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ گوشت اور دالوں کے آمیزے کو ’’حلیم‘‘ کہنا گناہ ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے ، اسے ’’حلیم‘‘ نہیں بلکہ ’’دلیم‘‘ کہا جائے ۔ یہ سب لایعنی باتیں ہیں اور زبان کو محدود کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر ’’حلیم‘‘ پر اعتراض ہے تو ’’ رقیب‘‘ اور ’’حکیم‘‘ کا کیا ہوگا؟ ’’ رقیب رُو سیاہ ‘‘ اور ’’ حکیم صاحب‘‘ ، ’’ حکیم جی‘‘ ا ن سب کو زبان سے خارج کرنا پڑے گا ۔ صفحہ نمبر ۲۳۴ پر نمرود کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ اُس نے بلند ترین مینار یا محل بنوایا تاکہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے معبود کو تلاش کرے لیکن قرآن پاک میں یہ بات نمرود نہیں بلکہ فرعون اور ہامان کے حوالے سے ہے ( سورۃ المومن آیات ۳۶ و ۳۷ ، نیز سورۃالقصص آیت نمبر ۳۸) ۔

ڈاکٹر محمد طاہر قریشی کا مقالہ ’’نعت اور نعتیہ عناصر‘‘ ایک وقیع تحریر ہے جس پر موصوف مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صفحہ نمبر ۴۷۴ پر نعت کا ایک شعر ہے :

رحمۃ للعالمیں ! ، خیرالامم

آپ ہی کا سب سے اونچا ہے علم

اس شعر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ’’خیر الامم ‘‘کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو درست نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فخر امم یا شاہِ امم صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہئے ۔ ’’ خیرالامم‘‘ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک نہیں بلکہ آپؐکی امت کو ’’خیر الامم‘‘ کہا گیا ہے (سورہ آل عمران ، آیت نمبر ۱۱۰ ۔ علامہ اقبال ؒ کی نظم ’’ بلادِ اسلامیہ ‘‘ میں ایک شعر ہے:

سوتے ہیں اس خاک میں خیرالامم کے تاجدار

نظم عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار

ڈاکٹر عزیز احسن کی تحریر ایک گراں قدر تحقیقی مقالہ ’’ہماری ملی شاعری میں نعتیہ عناصر‘‘ ایک قیمتی تحریر ہے جس میں ڈاکٹر محمد طاہر قریشی کے مقالے کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ ملی شاعری میں حمدیہ و نعتیہ عناصر کے حوالے سے راقم الحروف اپنے ملی نغموں کے مجموعے ’’ نغماتِ پاکستان‘‘ ( صدارتی ایوارڈ یافتہ ) میں شامل کچھ اشعار کا ذکر کرنا چاہتا ہے ۔ اس مجموعے کی ابتدا اس حمد اور نعت سے ہوتی ہے :

تو ہے سب سے بڑا ۔ تیرے ارض و سما

دہر میں جا بجا ۔ تیرا چرچا ملا

شکر تیرا خدا !

ملک پیارا دیا

پاک ہے یہ زمیں ۔ نام ہے دل نشیں

پرچمِ سبز ہے ۔خوب صورت،حسیں

شکر تیرا خدا !

ملک پیارا دیا

تیری رحمت ملی ۔ خوب دولت ملی

یعنی آزادی کی ۔ ہم کو نعمت ملی

شکر تیرا خدا !

ملک پیارادیا

کام اچھے کریں ۔ سچے مسلم بنیں

ہم کو توفیق دے ۔ تیری رہ پر چلیں

شکر تیراخدا!

ملک پیارادیا

تو ہی رحمان ہے ۔ تو ہی منان ہے

ہر نفس پھولؔ پر ۔ تیرا احسان ہے

شکر تیرا خدا !

ملک پیارا دیا

مشاہدہ ہے کہ کچھ لوگ بلاسمجھے بوجھے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر بحث میں اپنی توانائیاں صرف کر تے ہیں،ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں اور فریق مخالف کوشیطان اور گمراہ قرار دیتے ہیں جبکہ سورۃالحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ، ہوسکتاہے وہ اُن سے بہترہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں مبتلا ہونا بہت بری بات ہے، جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں‘‘۔

یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے ، قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’شہیدوں کو مردہ نہ کہو ، وہ زندہ ہیں اور رزق پارہے ہیں لیکن تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ ظاہر ہے کہ نبی ؐ کادرجہ شہید سے بڑا ہے اس لئے ہمیں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں تردد کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ، یہ غیب کی باتیں ہیں اور ایمان کی پہلی شرط ہی غیب پر ایمان لاناہے(سورۃ البقرہ ،آیت نمبر ۳) ۔ اس بحث کے نتیجے میں ایسا نہ ہو کہ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی گستاخی سرزد ہو جائے اور سارے اعمال اکارت ہو جائیں(سورۃ الحجرات، آیات نمبر ۱ اور ۲) جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو عام لوگوں کی موت کی طرح سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بڑا بھائی سمجھو۔ اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ زمرہء علما میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ان لوگوں کو کیاہوگیا ہے؟ ذرا قرآن پر ہی غور کر لیتے کہ ازواج مطہراتؓ کو قرآن نے امہات المومنین قرار دیا ہے۔ جب وہ مسلمانوں کی مائیں ہیں تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کم از کم باپ کے برابر تو ہوئے ، بڑے بھائی کیسے ہو گئے؟اب آئیے وفات اور حیات کے مسئلے کی طرف ، قرآن میں حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے بھی وفات ( انی متوفیک ) کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے جبکہ وہ آسمان پر زندہ اٹھا لئے گئے (سورہ آل عمران،آیت نمبر ۵۵)۔دنیا کی دائمی زندگی کسی کو نہیں ملی ، ہاں شیطان کو قیامت تک کی زندگی اُس کی خواہش پر عطا کی گئی ہے۔ آخرت کی زندگی حسب مراتب عطا کی جاتی ہے جس کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ ایک بات یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ شہیدوں کو زندہ کہا گیا لیکن ان کی بیوائیں دوسری شادی کرسکتی ہیں جبکہ ازواج مطہراتؓ کے لئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا کرنا یاکسی کو اُن کے بارے میں ایسا سوچنا بھی سختی سے ممنوع ہے(سورۃ الاحزاب ،آیت نمبر ۵۳) ۔ یہ بھی دیکھیں کہ لفظ ایک ہی استعمال ہوتا ہے لیکن دیکھنا پڑتا ہے کہ یہ کس تناظر میں اور کس کے لئے استعمال ہوا ہے؟ ، قرآن میں فرمایا ’’ کل نفس ذآئقۃ الموت‘‘ ( ہر نفس کو موت کامزہ چکھنا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بھی لفظ ’’نفس‘‘ استعمال کیا ہے(سورۃ الانعام ، آیت نمبر ۱۲) ، نعوذ باللہ کسی کوغلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے قرآن کو مکمل طور پر سمجھنا چاہئے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نہیں۔ دونوں جگہ لفظ ’’نفس‘‘ ہے لیکن یہ دیکھا جائے گا کہ کس کے لئے ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات الحی القیوم ہے اس لئے یہاں نفس کے معنی دوسرے ہوں گے ، اسی طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو عام لوگوں کی طرح سمجھنا صریح غلطی ہے ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات ( دونوں کا دن پیر بتایاجاتاہے )کی تاریخوں کے بارے میں اختلاف ہے ، ولادت کی تاریخ ۹ ربیع الاول ، ۱۲ ربیع الاول اور اہل تشیع کی روایات میں ۱۷ ربیع الاول بتائی جاتی ہے جبکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی تاریخ وہ ۱۲ ربیع الاول نہیں بلکہ ۲۸ صفر بتاتے ہیں۔ بارہ وفات کے مہینے کی ترکیب عوام الناس کی زبان ہے جس طرح وہ صفرالمظفر کوتیرہ تیزی اور ذیقعد کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں ، اس کی کوئی مستند حیثیت نہیں ہے۔ شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کا معاملہ بھی نزاعی بنا لیا گیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ کوئی نظر اللہ تعالیٰ کی ذات کااحاطہ نہیں کر سکتی ، حضرت موسیٰ ؑ نے کوہ طور پر جو روشنی دیکھی تھی اور جسے وہ آگ سمجھے تھے ، وہ بھی اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہی تھا ، انھوں نے اسے دیکھا لیکن جب مزید کی خواہش کی تو تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے اپنی وسعت کے مطابق دیدار تو انھوں نے بھی کیا۔ اسی طرح شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر ہے حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلے میں زیادہ ہی دیکھا لیکن کتنا دیکھا؟ یہ ہمیں نہیں معلوم ، اسی لئے حضرت ابن عباسؓ کہتے تھے کہ معراج کی شب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ( اور قیامت میں جنتی بھی کریں گے جو حدیث سے ثابت ہے) جبکہ حضرت عائشہؓ کی روایت اس کے خلاف ہے لیکن جب معراج کا واقعہ ہوا تھا اُس وقت وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں نہیں آئی تھیں اس لئے اس مسئلے میں جھگڑنا نہیں چاہئے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ’’ فیوض الحرمین ‘‘ کے صفحہ نمبر ۳۳ پر مکہ مکرمہ میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس موقع پر انوار کے ظہور کا تذکرہ کیا ہے جو انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں خود محسوس کیا ۔ وہ رقم طراز ہیں : ’’ اس سے پہلے میں مکہ معظمہ میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد مبارک میں تھا ، میلاد شریف کے روز لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتے تھے اور وہ معجزے بیان کرتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ظاہر ہوئے تھے اور وہ مشاہدے جو اعلان نبوت سے پہلے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ یکبارگی انوار ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیاان آنکھوں سے دیکھا اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ فقط روح کی آنکھوں سے ۔ خدا جانے کیا امر تھا ان آنکھوں سے دیکھا یا روح کی ۔ پس میں نے تامل کیا تو معلوم ہواکہ یہ نور اُن ملائکہ کا ہے جو ایسی مجلسوں اور مشاہد پر موکل و مقرر ہیں اور میں نے دیکھا کہ انوار ملائکہ اور انوارِ رحمت ملے ہوئے ہیں‘‘ ۔ صفحہ نمبر ۳۵ پر رقم طراز ہیں : ’’ میں نے دیکھا آں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر امور میں اصلی صورت مقدس میں بار بار ، باوجودیکہ مجھے بڑی آرزو تھی کہ روحانیت میں دیکھوں نہ جسمانیت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ، پس مجھ کو دریافت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے رو ح کو صورتِ جسم میں کرنا اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول سے اشارہ فرمایا ہے کہ انبیاء نہیں مرتے اور اپنی قبروں میں نماز پڑھا کرتے ہیں اور انبیاء حج کیا کرتے ہیں، اپنی قبروں میں وہ زندہ ہیں وغیرہ وغیرہ اور جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا تو مجھ سے خوش ہوئے اور انشراح فرمایا اور ظاہر ہوئے اور یہ اس واسطے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں‘‘۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب ’’ فیوض الحرمین ‘‘ اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے :

https://archive.org/stream/Fuyooz-ulHaramainarabicWithUrduTranslation /00357_FUYOOZ-UL-HARAMAIN-ur#page/n6/mode/2up

وہ بھی زندہ ، شہادت ہے جس کو ملی

جان لو ، جاوداں کوئی اُن سا نہیں

پھولؔ ! بعد از خدا اُن کا ہے مرتبہ

خلق میں بے گماں کوئی اُن سا نہیں

لاہور سے شائع ہونے والے ایک جریدے میں دارالعلوم اٹک سے تعلق رکھنے والے ایک حافظ صاحب نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اپنی آخری علالت میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ قیامت کے دن میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی۔میں نے جواباََ لکھا کہ حدیث میں’’قیامت کے دن‘‘ کے الفاظ میں نے نہیں پڑھے ، یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے اور یہ ایک پیش گوئی ہے کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعداہل بیتؓ میں سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کی وفات ہوئی ۔ حافظ صاحب موصوف حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تردد کا شکارتھے اس لئے انھوں نے حدیث میں’’قیامت کے دن‘‘ کے الفاظ بڑھا دیئے۔ دراصل ہم حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح ادراک نہیں کر سکتے جس طرح شہدا کی حیات کا ، جو قرآن سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ نبی ؑ کا درجہ شہید سے بڑا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی ؒ نے اپنے ایک شعر میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس طرح کیا :

تو زندہ ہے واللہ ، تو زندہ ہے واللہ !

مری چشمِ ظاہر سے چھُپ جانے والے

صبیح رحمانی کا یہ خوب صورت نعتیہ شعر بھی اسی کیفیت کی عکاسی کر رہا ہے :

میں لب کشا نہیں ہوں کہ یہ جانتا ہوں میں

سنتے ہیں وہ صدائیں سکوتِ نگاہ کی

ایک صاحب نے راقم الحروف کے مجموعہ ء نعت ’’قندیل حرا‘‘ میں ایک نعت پڑھی جس کا مطلع یہ تھا:

آپ جیسا یا نبی ! باحوصلہ کوئی نہیں

کھا کے پتھر دشمنوں کو دے دعا،کوئی نہیں

فرمانے لگے ، نعت تو اچھی ہے لیکن آپ نے ’’ یا نبی !‘‘ کہہ کر اسے قابل اعتراض بنادیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کو اُن کی وفات کے بعد ’’ اے قائد اعظم !‘‘کہنے پر تو اعتراض نہیں کرتے ( میرا اشارہ اس مشہور شعر کی طرف تھا : یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران۔ اے قائد اعظم ! ترا احسان ہے احسان) لیکن نعت میں ’’یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘کہنے پر اعتراض کر رہے ہیں ! اس پر وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے ۔

حضرت امام زین العابدینؓ کے یہ اشعار بھی سند کی حیثیت رکھتے ہیں :

یا مصطفی ! یا مجتبیٰ ! اِر حم علیٰ عصیا ننا

مجبورۃ اعمالنا ذنب وّ طمع وّ الظلم

یا رحمۃ للعالمیں !اَد رِ ک لزین العابدیںؓ

محبوسِ ایدی الظالمیں فی الموکبِ و المزدحم

ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ اشعار حضرت امام زین العابدینؓ کے نہیں ہو سکتے کیونکہ ’’زین العابدین‘‘ اُن کا تعریفی لقب تھا اور وہ خود اسے اپنے لئے استعمال نہیں کرسکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنا تعریفی لقب ’’صدیق‘‘ اپنی مناجات میں بطور تخلص استعمال کیا ہے :

انت وافی انت کافی فی مھمّّات الامور

انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل

این موسیٰ ؑ این عیسیٰ این یحییٰ ؑ این نوحؑ

انت یا صدیقِ عاصِِ تب الی المولی الجلیل

جو لوگ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ جو سال میں ایک ایک مرتبہ آتی ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے کہ حدیث میں جمعہ کو بھی عید المومنین کہا گیا ہے جو سال میں ہر ہفتے ہی ہے ۔ عید اُس خوشی کے دن کو کہتے ہیں جو بار بار آئے ۔ یہ لوگ ’’بدعت بدعت‘‘ کی تکرار کرتے ہیں لیکن ’’بدعت سیۂ‘‘ اور ’’بدعت حسنہ‘‘کا فرق نہیں سمجھتے ۔ بدعت کا مطلب ہے نئی چیز ایجاد کرنا ، ’’البدیع‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسما ء الحسنیٰ میں شامل ہے جو اسی کا اسم فاعل ہے ۔ اچھی بات اچھی ہوتی ہے اور بُری بات بُری ہوتی ہے۔

اگریہ لوگ ہر نئی بات کو بدعت کہہ کر ممنوع قرار دیتے ہیں تو قرآن کو کتابی شکل میں لانے اور نماز تراویح کی پابندی کرنے کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ مساجد میں برقی پنکھے اور ایئر کنڈیشنر کیوں لگاتے ہیں؟اونٹ پر سواری کی جگہ کاریں اور ہوائی جہاز کیوں استعمال کرتے ہیں؟ خصوصاََ حج اور عمرے کے سفر کے لئے ۔ایک روایت میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صاحب نے رکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمدکے بعد حمداََ کثیراََ طیباََ مبارکاََ فیہ بھی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند فرمایا اور اُن کی تحسین کی ۔ یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ سعودی عرب والے جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے خلاف ہیں لیکن ہر سال اپنا قومی دن بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں ! اُن کے فلسفے کے مطابق تو یہ بھی بدعت ہے اس لئے ممنوع ہونا چاہئے ۔

حمد و نعت میں لفظ ’’عشق‘‘ استعمال کرنے کے خلاف جاپان کے ایک اردو اخبار میں ایک صاحب نے یہ بے تکی دلیل پیش کی کہ لفظ ’’عشق‘‘ بہت ہی خراب ہے ، کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی بہو سے عشق کرتے ہیں؟ اتنا خراب لفظ حمد و نعت میں کس طرح استعمال ہو سکتا ہے ! ۔ راقم الحروف نے انھیں جواب دیا کہ کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی بہو کا بوسہ لیتے ہیں؟آپ کے کہنے کے مطابق لفظ ’’بوسہ‘‘ بھی قبیح و مردود ٹھہرا پھر آپ حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ لفظ کس کے لئے اور کس تناظر میں استعمال ہو رہاہے ؟ خط طویل ہو گیا ہے اس لئے اب اجازت دیجئے۔ ای میل سے رابطہ رکھیے گا ۔

نعت رسول اللہ صل اعلی علیہ و سلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مرحبا صد مر حبا آمد شہ ذیشان کی

آپ کے آنے سے عزت بڑھ گئی انسان کی

آپ نے باتیں بتائیں سب کو ہیں رحمان کی

آپ سے امت کو ہے نعمت ملی قرآن کی

دونوں عالم میں بہاریں آپ کے فیضان کی

آپ ہیں اللہ کے محبوب اے پیارے نبی !

خواب میں پائی بشارت حضرتِ حسرتؔ نے تھی

آپ کا جلوہ جود یکھا،کھل گئی دل کی کلی

آج بھی تاریخ میں ہے قولِ حسرت موہانی یہی

آپ نے دی تھی بشارت ملک پاکستان کی

آپ کا احسان ہے بے شک ہراِک انسان پر

چشمِ رحمت آپ کی ہو اپنے پاکستان پر

ہم عمل کرتے رہیں سنت پر ا ور قرآن پر

گر عدو حملہ کرے ، ہم کھیل جائیں جان پر

آپ کی الفت جو ہے،بنیاد ہے ایمان کی

آپ ہی بدرالدجیٰ ؐہیں، آپ ہی نورالہدیٰ

ذکر بے شک آپ کا ،اللہ نے اونچا کیا

گلشن ہستی میں آقا !پھولؔ کی ہے التجا

ہم پہ رحمت کی نظر ، لطف وکرم کا در ہو وا

آپ ہی سے پائیں گے تسکین قلب و جان کی

انجمؔ نیازی۔راولپنڈی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

12/اکتوبر2014

آپ کے حکم کے مطابق اپنی کچھ مطبوعات جن کی کچھ جلدیں موجود تھیں ارسال کررہا ہوں ۔ فہرست حسب ذیل ہے ۔

۱۔حیات انسؓ ۲ ۔ترے جیسا کوئی سورج نہیں ہے (قصیدہ) ۳۔ مناجات ۴ ۔حرا کے مکیں ۵۔حراکے آفتاب ۶ ۔حرا کی خوشبو ۷۔ سیدنا صدیق اکبر (پہلا صحابی) ۸۔مرادِ مصطفی ۹۔ ذوالنورینؓ

۱۰۔ سیدنا علیؓ ۱۱۔ سیدنا امیر معاویہؓ ۱۲۔ سیدنا ابو موسیٰ عشریؓ ۱۳۔ ؟اولیاء ۱۴۔ آخری لمحہ (غزلوں کا مجموعہ ) ۱۵۔ ایک تنہا آدمی ( خود نوشت سوانح عمری )۱۶۔ روشن ہیں سب ستارے رسالتمآب کے صلی اللہ علیہ وسلم ۱۷۔ کرنیں ایک ہی مشعل کی ۔مندرجہ ذیل کتب مکتبہ الفقر ۲۲۳ سنت بورہ فیصل آباد سے بھی دست یاب ہیں۔

۱۔حسنین کریمینؓ ۲۔ سیدنا حمزہؓ ۳۔ سیّدنا ذوالنّورین ۴۔ سیّدنا علی المرتضیٰؓ ۵۔سیّدنا امیر معاویہؓ ۶۔ مرادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم (سیدنا عمرفاروق ) ان کے علاوہ مندرجہ ذیل کتابیں دارالامین لاہور ۵۶۸۷۸۰۰۔۰۳۰۷ سے مل سکیں گی ۔

۱۔میری امی جان حفصہؓ ۲۔ خدیجۃ الکبریٰؓ ۳۔ سیدنا عمر وبن العاص (زیرطبع)

مندرجہ ذیل کتب کے مسعودّہ جات طباعت کے لیے تیار ہیں ۔

۱۔ سیّدنا ابو عبیدؓ بن جراح ۲ ۔ سیّدنا سعد بنؓ ابی وقاص ۳۔ سیّدنا طلحہؓ ۴۔ سیّدنا عبدالرحمنؓ بن عوف ۵۔ سیدنا زبیرؓ بن الصوام ۶۔ بناتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۷ ۔ ام المومنین سیدہ امِ ؟ ۸۔ ام المونین سیدہ زینبؓ بنت حجش ۹۔سیّدہ ام المونین زینبؓ بنت خزیمہ ۱۰۔ صدیقہ کائنات (سیدہ عائشہ صدیقہؓ ) میں عمر کے آخری حصہ میں ۷۲ سال کراس کرچکا ہوں ۔چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے صحابہؓ وصحابیات پر کم از کم پچاس کتابیں لکھ جاؤں اللہ تعالیٰ مہلت اور توفیق عطا فرمائے۔ میں کتابوں کی رائیلٹی نہیں لیتا ۔ہر کسی کو چھا پنے کی اجازت دے دیتا ہوں ۔کبھی اس طرف تشریف آوری ہوتو زیارت کاشرف ضرور عطا کرنا ۔


محمد ثاقب رضا قادری۔لاہور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

12/مئی 2015

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ فقیر نے رد قادیانیت کے حوالہ سے ایک نیا رخ یعنی ’’سُنی صحافت‘‘ کو متعارف کروایا اور بحمداللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی ایک ضخیم جلد فروری ۲۰۱۵ء میں مکتبۂ اعلیٰ حضرت دربار مارکیٹ لاہور سے شائع ہو چکی ہے۔اب اس کی دوسری جلد اخبار اہل فقہ (امرت سر) کی فائلوں سے تیار کی جارہی ہے۔ یہ اخبار مولانا غلام احمد اخگرؔ امرت سری نے ۱۹۰۶ء میں جاری کیا اور تقریباً ۱۹۱۴ء تک جاری رہا۔ مولانا غلام احمد اخگرؔ نے نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے ایک ماہ وار رسالہ بھی جاری کیا تھا جس کا نام ’’گلستان رحمت‘‘ تھا۔ فقیر قادری کو اگرچہ اس کا کوئی شمارہ نہ مل سکا تاہم اخبار اہل فقہ کے متعدد شماروں میں اس کے اشتہار ضرور نظر سے گزرتے رہے چنانچہ انہی اشتہارات کی بنیاد پر فقیر نے رسائل حسن کے مقدمہ میں درج ذیل تحریر لکھ دی:

’’مولانا غلام احمد اخگر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے ہندوستان کی تاریخ کا سب سے پہلا نعتیہ رسالہ بنام’’گلستان رحمت‘‘ جاری کیا۔

مولانا اخگر لکھتے ہیں:

’’یہ نعتیہ رسالہ جو ہندوستان بھر میں اکیلا ہے ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۵ہجری المبارک(۴نومبر۱۹۰۷ء) کو پہلا پرچہ نکلا۔ عاشقان رسول کریم کے نور ایمانی کو جلا دینے والا اور قلب مخزون کو تسکین بخشنے والا ہے۔ کون مسلمان ہے جو رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام کی نعت پڑھنے سننے کا عاشق نہ ہو۔‘‘

(اہل فقہ، ۶دسمبر۱۹۰۷)

اس کے ہر شمارے کے لیے کوئی خاص مصرع طرح رکھا جاتا اور تمام شعراحضرات اسی پر نعتیہ کلام تحریر فرماتے۔شہنشاہ سخن، استاذ زمن مولانا حسن رضا خان حسن فاضل بریلوی سے ایک ملاقات میں مولانا اخگر نے جب اس رسالے کے اجراکا ارادہ ظاہر کیا تو مولانا حسن رضا نے اس کی تحسین فرمائی اور تاریخی قطعہ بھی تحریر فرمایا جو کہ حسب ذیل ہے:

اخگر نے کیا نعت میں گلدستہ وہ جاری

بلبل کی طرح غنچہ و گل جس پہ ہوں شیدا

اللہ یہ گلزار پھلے پھولے جہاں میں

ہر پھول سے ہو رنگ ترقی کا ہویدا

نکلے گی تاریخ حسنؔ شاخ قلم سے

انداز گلستاں کے ہیں گلدستہ سے پیدا

۱۳۲۵ھ

(کلیات حسن:۴۸۷۔۳۸۷ مطبوعہ اکبر بک سیلرز،لاہور)

کچھ روز قبل تحقیقی کام کی غرض سے پنجاب پبلک لائبریری (لاہور)جانا ہوا ۔ جناب امداد صابری صاحب کی کتاب ’’تاریخ صحافت اردو‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے فقیر کی نظر ایک رسالہ پر ٹھہر گئی جو کہ نعتیہ ادب کے فروغ میں ۱۸۹۵ء میں جاری ہوا تھا۔ چونکہ اس دریافت سے فقیر کی گذشتہ تحریر یعنی ’’گلستان رحمت‘‘ کو پہلا نعتیہ رسالہ قرار دینے کی تردید ہوتی ہے ۔ اب آپ کی خدمت میں ان دونوں رسائل کا تعارف پیش کر رہا ہوں ، کیونکہ نعتیہ ادب کے حوالہ سے آپ کا تحقیقی کام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے چنانچہ عرض یہ ہے کہ اس موضوع پر تحقیقی بنیادوں پر کام کیا جائے تاکہ سُنی صحافت کا ایک اور رُخ یعنی نعتیہ صحافت سے عوام و خواص متعارف ہوں ۔آپ کی سہولت کے لیے امداد صابری کی کتاب ’’تاریخ صحافت اردو‘‘ جلد سوم سے اس رسالہ کا تعارف نقل کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں: ’’گلدستہ مداح النبی‘‘۔یہ نعتیہ کلام کا ماہ نامہ گلدستہ جھجر ضلع رہتک سے ۱۸۹۵ء کو شائع ہوا۔پہلے سولہ (۱۶) صفحات پر ، بعد میں بیس (۲۰) صفحات پر نکلنے لگا تھا۔ مہتمم مولوی غلام احمد خاں بریاںؔ تھے۔ سالانہ چندہ ایک روپیہ تھا۔ نمونہ کا پرچہ ڈیڑھ آنہ میں ملتا تھا۔ مسلم پریس جھجر میں طباعت ہوتی تھی۔ اس گلدستہ میں نعتیہ کلام کے ساتھ اپریل ۱۸۹۷ء کے بعد سے ایک ناول بالاقساط چھپنے لگا تھا، اس وقت سے بیس صفحات ہو گئے تھے اور اس کی ابتدا مولانا بریاںؔ نے اپنے ناول ’’الحسنات‘‘ سے کی تھی۔ مولانا نے کتب تصوف بھی تالیف فرمائی تھیں۔‘‘

(تاریخ صفحات اردو ، جلد سوم، ص۶۵۵)

اپریل ۱۸۹۷کے شمارہ سے منتخب نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:

اس لیے سیر چمن کرتا ہوں گاہے گاہے

نکہت گل سے مجھے شاہ کی بُو آتی ہے

خاک ہم کیوں نہ رہِ عشق نبی میں چھانیں

جب وفا کی ہمیں ہر ذرّے سے بُو آتی ہے

مست ہو جائیں نہ کیوں سُونگھ کے خوشبو گل کی

یاد جب ختم رسل کی ہمیں خُو آتی ہے

جناب محمد عبدالحئی اخترؔ صاحب (طالب علم از امرت سر)

کیا صبا گلشن یثرب سے تُو آتی ہے

تجھ سے اللہ کے محبوب کی بُو آتی ہے

وصف گیسوئے محمد کا اثر نطق میں ہے

مشک سے بڑھ کے مرے شعر میں بُو آتی ہے

جناب سید مظہر حسین صاحب کے کلام سے کچھ اشعار:

میں مدینہ کو گیا اور نہ کعبہ پہنچا

وجہ کیا ہے ابھی اے موت کہ تُو آتی ہے

میں تو حضرت کا فدائی ہوں بتا دے اے حور

کیا سبب ہے کہ مرے سامنے تُو آتی ہے

جناب ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب ذبیح دہلوی :

جتنی بڑھتی ہے ترے لطف و کرم کی امید

اتنی عصیاں میں مرے نشوونما آتی ہے

جادۂ طیبہ گر اے شیخ بنے جائے نماز

نہر کوثر سے ابھی بہر وضو آتی ہے

جناب قمرالدین صاحب قمرؔ دہلوی شاگرد وحید الدین بیخودؔ دہلوی:

عشق احمد میں یہاں حشر کا بھی خوف نہیں

کیا ڈرانے کو شب غم مجھے تُو آتی ہے

مر مٹا خاک ہوا عشق محمد میں قمرؔ

سُونگھ لو خاک سے بھی عشق کی بُو آتی ہے

جناب حاجی تجمل حسین صاحب تجملؔ جلال پوری مقیم بمبئی:

تیری کیا بات ہے اے شفقت سلطان عرب

کام مظلوم کے ہر حال میں تُو آتی ہے

صف مستان نبی کا جو گذر ہوتا ہے

توڑ کر ساغر و مینا و سبو آتی ہے

گنبد روضۂ انور کو نظر زائر کی

کبھی چوم آتی ہے جا کر کبھی چھو آتی ہے

نزع کا وقت ہے محبوب خدا آتے ہیں

اے اجل کس نے بلایا ہے جو تُو آتی ہے

مرے اشعار نہ کیوں کر ہوں تجملؔ مقبول

عشق احمد کی ہر اک لفظ سے بُو آتی ہے

اللہ کرے کہ کوئی صاحب اس موضوع پر تحقیقی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے نعتیہ ادب کے فروغ میں سُنّی صحافت کے کردار کی تاریخ مرتب فرما دیں۔


شبیر انصاری۔کراچی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

17/ستمبر2014

اتوار ۱۴/ کو آپ سے فون پر جورابطہ ہواتھا اس کی پیش رفت میں’’میثاق ‘‘ کانسخہ ارسال خدمت ہے۔علاوہ ازیں بھائی صاحب محترم (سرشار صدیقی) کے نام مشاہیر کے خطوط اوران کے غیر مطبوعہ نعتیہ کلام کی ترسیل وفراہمی سے متعلق آپ کا پیغام محترمہ بھابھی صاحبہ کی خدمت میں بالمشافہ پہنچا دیا ہے۔امید ہے کہ اس اہم کام کی تکمیل چند دنوں میں ہوجائے گی۔محترمہ بھابھی صاحبہ سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے اطمینان بخش قرار دیا ہے۔


زاہد ؔ ہمایُوں۔راولپنڈی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

2/ستمبر 2014

اُمّید ہے کہ آں جناب کے مزاجِ گرامی بہ خیر وعافیّت ہوں گے ۔میں الخیر یونی ورسٹی ، اسلام آباد کیمپس میں پی ایچ ۔ڈی (اُردو) کااسکالر ہُوں ۔اہم ۔فِل ۲۰۰۷ء میں علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ، اسلام آباد سے کیا۔میرے مقالے کا موضوع مراثی انیس کے جمالیاتی عناصر (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) تھا۔ اپنے مقالے کی ایک کاپی آپ کی طرف منسلک کررہا ہوں۔آپ سے التماس ہے کہ اِسے کتابی شکل میں لانے کے لیے میری معاونت فرمائیں ۔میں آپ کا سایۂ شفقت حاصل کرنا چاہتا ہُوں ۔ میرے تحقیقی وتنقیدی مضامین ’’اخبارِ اُردو ‘‘ ،نالۂ دِل اور’’ نیرنگِ خیال ‘‘ میں چھپتے رہتے ہیں ۔ ’’اُردو زبان وادب کی تاریخ وتدریس وترویج ‘‘ کے نام سے میری ایک کتاب بھی چھپ چُکی ہے ۔ اُس کی ایک کاپی آپ کی محبتّوں کی نذرکررہا ہُوں۔

میں اُردو نَعْتْ کے موضوع پرکام کرنا چاہتا ہُوں ،آپ ازراہِ مہربانی اس حوالے سے بھی میری مدد کریں ۔اگر آپ میری طرف فہرست بھجوادیں ۔ایسی فہرست جِس میں درج ہوکہ اُردو نعت کے حوالے کِن کِن موضوعات پر کام ہوچُکا ہے ۔ یاکوئی ایسا مواد جواِس حوالے سے میری راہ نمائی کرسکے ۔تو مجھے بہت آسانی رہے گی ۔مُجھے پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے آپ کا پتا دیا ہے ۔ اُنھوں نے میرا بہت حوصلہ بڑھایا کہ آپ ہی میری راہ نمائی کرسکتے ہیں ۔ مُجھے اُمّید ہے کہ آپ میری گزارشات پُوری کرکے میری ہمّت بڑھا ئیں گے ۔میں آپ کی اِس کرم فرمائی پر تاحیات آپ کا سپاس گزار رہوں گا۔

اللہ عزّوجل آپ کو صحتِ کامل اور عُمرِ دراز عطا فرمائے ۔(آمین)

نوٹ: میں بے چینی سے آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا ۔شکریہ !مودّبانہ التماس ہے کہ میرے رہائشی پتے پر جواب ارسال کیاجائے ۔


محمد طاہر حسین ۔جھنگ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

7/نومبر2014

خیریت موجود عافیت مطلوب ! جناب کی ارسال فرمودہ کتب بہ ست ملک ربنواز صاحب موصول ہوئیں ، نعت کے حوالے سے ایسا وقیع کام دیکھ کر میں حیران رہ گیا ۔

ایک ادارہ کاکام کسی فردِ واحد سے انجام پانا یہ توفیقاتِ ایزدی سے ہی ممکن ہے۔

این سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اللہ رب العزت جناب کے علم وعمل اور عمر میں مزید برکتیں عطا فرمائے تاکہ ایسے علمی ،ادبی اورتحقیقی کاموں کا سلسلہ یوونہی چلتا رہے:

اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے

میں نے ’’نعت رنگ‘‘ پراپنی ناچیز رائے بطور تبصرہ قلمبند کی ہے جس کی ایک کاپی جناب کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں ،خانقاہ کا ترجمان مجلہ ’’آئینہ کرم‘‘ دسمبر کے آخر میں شائع ہوگا،اس میں بھی شامل کردی جائے گی ۔بندہ جناب کے ادارہ نعت ریسرچ سنٹر کیلیے تہ دل سے اپنے مولیٰ کریم کی بارگاہ میں دست بہ دُعا ہے کہ جیسے آپ کی منشاء ہے اللہ تعالیٰ اسے روز افزوں ترقی سے ہمکنار فرمائے ۔

این دُعا از من وازجملہ جہاں آمین باد


سمیعہ ناز۔ؔ برطانیہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بہت ہی مدت کے بعد ’’نعت رنگ‘‘ میں کچھ کہنے کی جسارت کر رہی ہوں۔اپنی کم فہمی کا ادراک ہے مجھے اسی باعث کچھ لکھنے سے ہمیشہ ہی گریز کرتی آئی ہوں اب کی بارخوشی دیدنی تھی کہ رہا نہ گیا۔آپ کو اور ’’نعت رنگ‘‘ کے تمام قارئین کو بہت بہت مبارک باد پیش کرنا چاہتی ہوں جو اس قدر خوش آئند بات ہوئی ہے۔’’ساتویں عالمی اُردو کانفرنس ۲۰۱۴‘‘ جوآرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منقعدہوئی اس میں پہلی بار آپ سب کی ان تھک کوششیں رنگ لائیں اور اُردو زبان اور نعتیہ ادب پربھی باقاعدہ پروگرام تشکیل دیا گیا ۔یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور ایک خوش آئند قدم ہے۔اور ہمیں اُمید ہے کہ اس بات کو ہمیشہ روا رکھا جائے گا کیونکہ بلاشبہ ہر دور نعت کا دور ہے۔

’’نعت رنگ‘‘ کے حوالے سے بات شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو ’’نعت رنگ‘‘ کے تمام قارئین اور بالخصوص جامعہ کراچی سے جن تین احباب نے نعت پر پی ایچ۔ڈی کے مقالات لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔جس میں ڈاکٹر عزیز احسن کا مقالہ’’اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ‘‘۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کا مقالہ ’’ اردو نعت ۔۔۔پاکستان میں ‘ ‘۔اور ڈاکٹر طاہر قریشی کا مقالہ’’ ہماری ملی شاعری میں نعتیہ عناصر‘‘کی تکمیل پر بہت مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔اللہ کریم ان کی اس عظیم کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے اور انہیں نعت کی خدمت کی مزید توفیق عطا ہوتی رہے ۔ آمین۔

’’نعت رنگ‘‘۲۳ تو بہت ہی مدت گذر جانے کے بعد خُدا خُدا کرکے میسر آیا اور جب تک مجھ تک پہنچا تب تک ’’نعت رنگ‘‘ ۲۴ پریس میں جا چکا تھا۔ممنون ہوں کہ ’’نعت رنگ‘‘ ۲۳ آپ نے محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے دست شفقت میں تھما دئیے ،جب وہ برطانیہ تشریف لا رہے تھے۔عزیز احسن بھائی صاحب کی از حد ممنون ہوں ،جنہوں نے ’’نعت رنگ‘‘کے ساتھ ساتھ اپنی تمام نادر کُتب مجھ ناچیز کو تحفے میں دیں۔اللہ کریم انکو ہمیشہ سلامت رکھے اور جس کام کا عہد انہوں نے لیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے اور ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ۔آمین

’’نعت رنگ‘‘۲۴کے لیے میں بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے حتی المقدور کوشش کی اپنی اتنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود کہ ’’نعت رنگ‘‘یوکے تک پہنچ جائے اور الحمد للہ ایک بار پھر سے عزیز احسن بھائی صاحب کے توسل سے ’’نعت رنگ‘‘ اور عزیز احسن بھائی صاحب کی کتاب’’ پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر ‘‘ بھی موصول ہوئی۔ جس کے لیے’’ تشکر‘‘ کا لفظ چھوٹا پڑ جاتا ہے۔اس کا اجر تو رب تعالیٰ ہی آپ احباب کو عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔

’’نعت رنگ‘‘ ایک خوبصورت دستاویز کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی ضیا سے روح و قلب منور ہوتے ہیں۔اللہ کریم اس کو مزید عروج عطا فرمائے اوریہ سب آپ تمام احباب کی شب و روز کی محنت کا ثمر ہے ۔خوبصورت اور دیدہ زیب سر ورق پر ’’ اللہ رب محمدصلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ سی پیاری تحریر قلب و جاں کو مسحور کرتی ہے۔ہمیشہ ہی ’’نعت رنگ‘‘میں نعت کے حوالے سے کچھ انوکھا اور اچھوتا کام اور سلسلہ ہی پڑھنے کو ملتاہے ۔جس کے لیے دل سجدہ ریز ہو جاتا ہے کہ رب تعالیٰ اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و رفعت کو کس خوبصورت انداز میں بلند فرماتا ہے ۔ ’’نعت رنگ‘‘ کی خصوصیت ہے کہ ہمیشہ انتساب میں علمی ،ادبی شخصیات کو یا د رکھا جاتا ہے اور ہر باراک نئی شخصیت کے نام ’’نعت رنگ‘‘ کا انتساب کیا جاتا ہے۔اس بار بھی بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ اپنے اکابرین کو کتنی محبت و خلوص کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔

’’ راجا رشید محمود، خالد شفیق اور ڈاکٹر افضال احمد انور کی نعت شناسی کے نام۔‘‘

’’نعت رنگ‘‘ کے تمام جملہ سلسلوں پر بات کرنا نہایت مشکل امر ہے تاہم چند ایک تحریروں پر ضرور کچھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہوں گی۔مقالات سب بہت عمدہ اور وقیع ہیں ۔ان میں شہزاد احمد صاحب نے جو ’’ پاکستان میں نعتیہ صحافت ‘‘ کا ایک جائزہ پیش کیا ہے، نہایت عمدہ کاوش ہے اور ایک وسیع معلوماتی ریسرچ بھی ۔ علاوہ ازیں مجھے تنویر پھول صاحب کا تحریر شدہ’’حمد و نعت میں الفاظ کا مناسب استعمال‘‘ اورمنظر عارفی صاحب کی تحریر’’نعت گوئی میں لفظ (ارم) کا استعمال‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگا اور میری گذارش ہے کہ اس پر مزید نگارشات ایک سلسلے کی صورت میں شامل کرنی چاہئیں تا کہ تمام نئے لکھنے والے استفادہ کریں۔اس کے علاوہ نعت گوئی پر تمام مضامین ایسے ہیں جیسے ’’نعت رنگ‘‘ میں بہار آگئی ہے رنگا رنگ پھول ہر سو مہک رہے ہیں اور سب کے قلب و روح معطر ہورہے ہیں۔میں ’’نعت رنگ‘‘میں تمام لکھنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔اللہ کریم آپ سب کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔آمین۔

ڈاکٹر عزیز احسن کے ساتھ ایک مصاحبہ!(انٹرویو)جسے محمد جنید عزیز خان صاحب نے تمام ’’نعت رنگ‘‘ کے قارئین کی نذر کیاہے ایک بے مثال کاوش اور نعت کی بہت بڑی خدمت ہے۔کیونکہ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی کہی ہوئی ہر بات نعت لکھنے والوں کے لیے اک سند کی حثییت رکھتی ہے ۔ایسے انٹرویو خال خال ہی ملتے ہیں۔میں ہدیہ تبریک پیش کرتی ہوں محمد جنید عزیز خان صاحب کو اس کاوش پر۔ایک تنقیدی جائزہ’’ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پروفیسر ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی صاحب نے پیش کیا ہے۔ جس میں غیر مسلم شعرا کی عقیدتوں کے پھول محبت رسول میں مہکتے ہوئے ملے، توآنکھیں برسنے لگیں ۔اور بے ساختہ جو نعتیہ شعر زبان پر آیاوہ شعر اور اس شاعر کا تذکرہ بھی اسی مضمون میں ملا۔

پروفیسر صاحب اپنی تحریر میں یوں رقم طراز ہیں:

’’ ہندو شعرا میں مہندر سنگھ بیدی سحر کا نام امتیازی حثییت کا حامل ہے، جن کے آداب و انداز میں انفرادیت ہے۔انہوں نے اپنے انداز و آہنگ سے ایک نئی نعتیہ شاعری کی بنیاد ڈالی ہے۔ان کا ایک شعر ان کی بقا کا ضامن ہے:

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چار ہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

مذکورہ شعر میں کس قدر اعتبار و اعتمادہے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کا اعلان کرنے میں کسی طرح کا خوف و ہراس نہیں۔نیز یہ کتنا قوی تر انداز ہے کہ آپ کی ذات گرامی پر صرف اُمت مسلمہ کا اختیار و اقتدار نہیں۔‘‘

پروفیسر انوار احمد زئی صاحب نے ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے مقالے’’ اردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ‘‘ کاایک جائزہ بہت خوبصورت اور جامع نقد ونظر کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جیسا کہ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب اور ان کے مقالے کا حق تھا،اور میں پروفیسر انوار احمد زئی صاحب کو اس شاندار تحریر پردل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ اورانہوں نے آغاز ہی ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے اس شعر سے کیا جو مجھے بے حد پسند ہے۔

اک صنف سخن جس کا تعلق ہے نبی سے

صد شکر کہ نسبت ہے طبیعت کو اُسی سے

پروفیسر انوار احمد زئی صاحب نے کیا خوبصورت بات لکھی ہے اس شعر کی مناسب تشریح بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے حوالے سے۔

’’منشور حیات کے اس واشگاف اور تفاخر آفریں اعلان نے عزیز احسن کو نعت گو شعرا کی صف میں تو داخل کرلیا ، مگر کیا صنف نعت سے طبیعت کی یہ نسبت اسی حد تک متقاضی تسلیم تھی۔شاید نہیں!!۔۔اسی لیے عزیز احسن نے خود کو نعت گوئی سے آگے بڑھ کر نعت کو بطور صنف دیکھنے اور دکھانے کا نازک، وقیع، دل آویز، دل رُبا مگر دل آزما کام بھی کرنے کا بیڑا اُٹھالیا۔ مانا کہ وہ تحقیق کی دل فگار راہوں میں صبر آزمائی اور ذہن آفرینی کی منزلوں سے قبل ،انتقادِ نعت کے مشکل مرحلوں سے گذر چکے تھے۔ ‘‘

پروفیسر صاحب مزیدڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ:

’’نعتوں کے مجموعے کی اشاعت سے گذر کر نعت گو کی حثییت سے بھی اپنا مقام حاصل کر چکے ہیں۔ جب شعر گوئی کی باریکیوں ، تنقید کی نزاکتوں اور تخلیق کے تقاضوں سے با مراد گذر ہو جائے تو پھر محقق کو تحقیق کی گہرائیوں اور گیرائیوں کی شناوری کا یارا ہوتا ہے۔ میں اس حوالے سے ڈاکٹر عزیز احسن کو اس منصب پر متمکن دیکھتا ہوں تو تسلیم بھی کرتا ہوں کہ:

جن کو دعویٰ ہو سخن کا یہ سنا دو ان کا

دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنو ر سہرا <ref> ابراہیم ذوق </ref>

ڈاکٹر عزیز احسن کے مقالے کے مطالعے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے یہ کام محض سند لینے کے لیے نہیں بلکہ سرکار والاصفات سے سند غلامی لینے کی تمنا میں کیا ہے۔ ‘‘

دل تو یہی چاہتا ہے کہ اس پر مزید بات کی جائے لیکن پروفیسر صاحب کی اسی آخری بات پر اکتفا کرتی ہوں جو انہوں نے ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے بارے میں تحریر کی ۔اور ان کے ایک اور خوبصورت شعرپراس تمام جائزے کا اختتام کیا۔

’’اس وسیع المطالعہ شخص کے مقالے کو پڑھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص اپنی فکری اپچ اور قلبی لگاؤ کے ساتھ دینی جذبے اور حُب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے سرشار ہو کر جس راستے پر چل پڑا ہے وہ اسے شخص سے شخصیت بنا رہا ہے اور وہ اپنے عشق کے زور پر منزل یاب بھی ہو رہا ہے۔۔۔بس اس کا یہی بڑا انعام ہے کہ اس ہنر آشنا کو حرف آشنائی کا بھی یارا ہے۔‘‘

شہر ابیات میں خامے کا سفر نازک ہے

مدح سرکا ر دو عالم کا ہنر نازک ہے

ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے ایک تحسین آمیز مطالعہ پیش کیا ہے۔ ’’باریاب ایک مطالعہ ‘‘جو کہ انور مسعود صاحب کی کتاب پرہے۔خط کی طوالت کے باعث شاید ہی میں کچھ مزید لکھتی لیکن جب سے یہ مضمون پڑھا ہے آنکھیں بار بار نم ہوئی جاتی ہیں اور تین دنوں سے اسی کوشش میں ہوں کہ اس خط کو مکمل کر دوں لیکن جیسے ہی میں اس مطالعے میں لکھے فارسی کے شعر کو پڑھتی ہوں میرے دل کی زمین میں ارتعاش پیدا ہونے لگتا ہے۔

ڈاکٹر عزیز احسن صاحب اپنے مطالعے میں لکھتے ہیں کہ ’’انور مسعود کے لیے بھی حفیظ تائب کی ترغیب ہی نعت گوئی کا محرک بنی۔ انور مسعود نے ’’تقدیم‘‘ میں لکھا ہے:

’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ حفیظ تائب مرحوم نے ایک روز دوران گفتگو میں فرمایا

کہ بلاشبہ نعت لکھنا آسان نہیں لیکن نعت ضرور لکھنی چاہیے کہ مدح پیغمبر بھی درود کے ذیل میں آتی ہے۔ لہٰذا اپنی بساط کے مطابق اس کار ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر عزیز احسن صاحب مزید تحریرکرتے ہیں کہ:

’’حفیظ تائب کی وہ بات انور مسعود کے دل میں گھر کر گئی اور انہوں نعت گوئی کے لیے ذہن کو آمادہ کر لیا۔مدینہ منورہ جاتے ہوئے ایک فارسی قطعہ کہا جس میں نعتیہ شاعری کا بلند آدرش ان کا رہنما بنا اورانہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے شایان شان ’’ حرف ثنا‘‘کی بھیک مانگی۔‘‘

یا سکو تم را بہ بزم خود پذیر

یا بدہ حرفے کہ شایانت بود

(یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یا تو میرا سکوت آپ اپنی بزم میں قبول فرما لیجیے یامجھے ایسا حرف عطا فرما دیجیے جو آپ کے شایانِ شان ہو!)

یہ وہ فارسی قطعہ ہے انور مسعود صاحب کا جس کو جتنی بار پڑھتی ہوں آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں۔اللہ کریم انہیں سلامت رکھے آمین۔

’’ یارکشائر ادبی فورم ‘‘ کی ایک خصوصی پیشکش۔۔۔’’ نعتیہ مشاعرہ ڈاکٹر عزیز احسن کے ساتھ‘‘

’’ یارکشائر ادبی فورم ‘‘ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کے تین برس کے قلیل عرصے میں ادبی ورکشاپ، مشاعروں، کتابوں کی تعارفی تقریبات کے علاوہ اور بہت سے اردو کے ادبی افق پر جگمگاتی معتبر شخصیات کے ساتھ تقریبات کا اہتمام کیا ۔لنڈن یوکے سے جناب رضا علی عابدی صاحب ،محترمہ بانو ارشد،پاکیزہ بیگ اور بین الاقوامی شخصیات میں، پاکستان سے جناب سیّد صبیح الدین رحمانی ،ڈاکٹر خورشید رضوی ،انتظار حسین، انور مسعود، امجد اسلام امجد، فاطمہ حسن، ڈاکٹر نجیبہ عارف ،سرور حسین نقشبندی،فرحت عباس شاہ، وصی شاہ،ریحانہ روحی، سعود عثمانی ،سیما غزل ، ڈاکٹر صغرا صدف ،سید ذبیب مسعود ، ذوالفقار علی حسینی سعودی عرب سے سلمان باسط صاحب تشریف لائے۔ابوظہبی سے ڈاکٹر صباحت واسطی صاحب۔ڈنمارک سے صدف مرزا، فرانس سے ثمن شاہ ،اٹلی سے نصیر ملک اور جرمنی سے توقیر عاطف صاحب۔

اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ایک حالیہ تقریب بہ اعزاز جنا ب ڈاکٹرعزیز احسن صاحب منعقد کی گئی۔دُنیائے نعتیہ اَدب میں جنا ب ڈاکٹرعزیز احسن صاحب کسی تعارف کے محتا ج نہیں ہیں ۔ کثیرالجہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک نعت نگار، نقاداور محقق ہیں۔ ’’نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ۔ایچ ۔ڈی کی سند بھی حاصل کرچکے ہیں۔ نعت ریسرچ سینٹرکراچی پاکستان کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ان کی نعتیہ ادب میں علمی،ادبی،تحقیقی و تنقیدی گوناگو ں خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے’’ یارکشائر ادبی فورم ‘‘نے ایک نعتیہ مشاعرے کی تقریب کا اہتمام لیڈز شہر میں کیا ۔

تقریب کی نظامت راقمہ(سمیعہ نازؔ ) نے کی۔تقریب کے آغاز میں سب سے پہلے صدارت کے لیے جناب ڈاکٹر مختار الدین احمد صاحب کو اور ’’ یارکشائر ادبی فورم ‘‘ کی چیئر پرسن محترمہ غزل انصاری صاحبہ کو سٹیج پر مدعو کیا گیا۔مہمان خصوصی کے لیے ایک مختصر لیکن جامع سا تعارف پیش کرتے ہوئے (راقمہ) نے جنا ب ڈاکٹرعزیز احسن صاحب کو سٹیج پر متمکن ہونے کی دعوت دی۔

سب سے پہلے تسنیم حسن صاحبہ کو دعوت کلام دی گئی ۔ اس کے بعد (راقمہ) نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔ محترم اشتیاق میرؔ صاحب نے اپنا کلام سنایا ۔ محترمہ غزل انصاری صاحبہ نے حمدیہ و نعتیہ کلام حاضرین کی سماعتوں کی نذر کیا۔ اس کے فورا بعد مہمان خصوصی جنا ب ڈاکٹرعزیز احسن صاحب کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی ۔انہوں نے کمال محبت سے تمام حاضرین کا فرداََ فرداََ شکریہ ادا کیا۔اور اپنے ارشادات و کلام سے تمام حاضرین و سامعین کو نوازا۔ ان کے کلام کو سن کر حاضرین نے بے اختیارخوب داد دی اور ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔آخر میں صدر محفل محترم ڈاکٹر مختا ر الدین احمد صاحب نے اپنے نعتیہ کلام اور رباعیات سے تمام سامعین و حاضرین کو نوازا۔گو کہ موسمِ سرما کے با عث باہر سردی تھی مگر ہال میں محبت و ستائش کی گر می سے ماحول خو شگوار رہا۔

لیڈز،بریڈفورڈ،ڈیوزبری ،رادرھم اور دیگر شہروں سے احباب کی شرکت رہی۔ جن میں خصوصی ذوق و شوق کے ساتھ آنے والوں میں پرویز اقبا ل صاحب، محترم ڈاکٹر راغب صاحب، محترم قیوم صاحب،محترم ڈاکٹر خالد ضیا صاحب (اسلام آباد ، پاکستان ) شامل ہیں۔

تقریب کے آخر میں محترم ڈاکٹرعزیز احسن صاحب کی اہلیہ محترمہ طلعت عزیز صاحبہ کو پھولوں کی شکل میں ’’ یارکشائر ادبی فورم ‘‘ کی جانب سے محترمہ تسنیم حسن صاحبہ نے ہدیہ تہنیت پیش کیا۔ ایک اعزازی ایوارڈ ’’ یارکشائر ادبی فورم ‘‘کی جانب سے ڈاکٹرعزیز احسن صاحب کو ڈاکٹر خالد ضیا صاحب نے پیش کیا۔ آخر میں ’’یارکشائر ادبی فورم‘‘ کی چیئر پرسن غزل انصاری صاحبہ نے تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خصوصی طور پر جنا بڈاکٹرعزیز احسن صاحب اور انکی اہلیہ کی شرکت پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔اور یوں ایک خوبصورت اور یادگار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔


ساجد صدیق نظامی۔لاہور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے معذرت کے ساتھ عرض کررہاہوں کہ آپ کی توجہ اورمہربانی اوریاد دہانی کے باوجود بروقت نعت رنگ کے لیے مضمون تیار نہ کرسکا۔ ۱۲ نومبر ۲۰۱۴ کو یہ مضمون تیارکرکے لیپرڈ کورئیر سروس کے حوالے کردیا مگر وہ واپس آگیا ۔وجہ تبدیلی پتہ تھی جو پتہ میں نے نعت رنگ شمارہ ۲۳ سے نقل کیا تھا بعدازاں کوشش میں رہا کہ آپ کا موجودہ پتہ دریافت کرسکوں۔بردرام رفاقت علی شاہد کی مہربانی سے یہ پتہ حاصل ہوا۔بعد کو پھر میری کوتاہی اورتساہل آڑے آگیا نتیجہً اب یہ ارسال کیا جارہاہے جس شمارے میں جگہ ہووہاں شائع کرنے کا فیصلہ کرلیجیے۔

۱۹۳۸ میں ایوب الرحمن عثمانی نے گلدستہ محسن کاکوروی کی شرح لکھ کرلاہور سے شائع کروائی تھی اس میں قصیدہ مدیح خیرالمرسلین کی بھی عمدہ تشریح موجودہے اگر اس قصیدے کی شرح نعت رنگ کے کسی شمارے میں شائع ہوتوقارئین کے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہوگی۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25