نعت اوررسول اکرم کے تقاضے ، گوہر ملسیانی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 21:41، 12 جنوری 2018ء از ADMIN (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : گوہر ملسیانی۔ملتان

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

GoherMalsiyaanihaslaiddown some norms for Poets involved in devotional poetry to enlighten them about fragility and frailness of words to be used in praise of the Holy Prophet Muhammad (S.A.W). In order to strengthen his argument, he has quoted various verses of Qura'an and some Traditions i.e. Hadis besides some advises of poets themselves to make poets conscious at the time of creating devotional poetry. The article of Goher Malsiyaani is reflective of his knowledge of poetic norms and awareness of teachings of Islam in this connection. The content of devotional poetry need to be according to exact position of the Holy Prophet Muhammad (S.A.W) as laid down in the Quran and Sunnah and sentiments expressed therein should remain under the contour of knowledge, divinely given to Muslims.

نعت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خالقِ ارض وسما وات کے احسانات کا بحرِ بیکراں روزِ آفرینش ہی سے موجزن ہے ۔گونا گوں مخلوقات سے عالمِ جست وبود لبریز ومزین ہے ۔انصاف واکرام کایہ عالم ہے کہ گلشنِ انسانیت رنگا رنگ حسن وجمال ،نیرنگی فکر وخیال اورجذبہ ہائے قیل وقال کے ؟؟؟ سے روشن ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کہیں جلالِ ربانی کی فراوانی ہے ۔کہیں حسن وجمال رحمانی کی تابانی ہے اور کہیں عنایاتِ جاودانی کی جو لا نی ہے۔ انصام خسرو انہ کی کبریائی یہ ہے خالقِ کائنات نے فیصلہ فرمایا :

اِنِّی جَاءِل’ ٗفِی الْاَرْضِ خلیفۃً ط(البقرہ:۳۰)

’’یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔‘‘

کس قدر احسان عظیم ہے کہ انسان کواشرف المخلوقات بناکر خلافت کاتاج اس کے سر پر رکھ دیا ۔ پھر علم کا نور، حسنِ شعور احساسات کا سرور اوور تمیزِ حسنات وشرور سے نواز دیا۔یہ اکرام یہ انعامات اور یہ عنایات بے حد وحساب ہیں ۔

سب سے عظیم تو یہ احسان ہے کہ انسان کی رہنمائی کے لیے نبی آخر الزماں ، مہرِ درخشاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مبعوث فرمایا اور قیامت تک اس عالمِ فانی میں آنے والی ذرّیتِ آدم ؑ کا ہادی ومربّی بناکر بھیجا بلکہ اپنی آخری کتاب ،صحیفۂ آسمانی،قرآنِ حکیم بھی عطا کیا جوانسانی زندگی کا منشور ہے جو اسرار ورموز حیات سے معمور ہے ، جس میں علم وحکمت مستور ہے اس احسان کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں فرمادیا :

’’وہ جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت ملی ۔اسے حقیقت میں خیرِ کشید مل گئی ۔‘‘(البقرہ : ۲۶۹)

انسان کواس عطیۂِ علم وآگہی سے سوچنے ،سمجھنے ،فکر وتدبر کرنے کے اہم اور مستند زاویے اور قوتِ ادراک سے پرشوکت وثروت دائرے مل گئے ۔ان دائروں کے اندر خیالات وتصوارت ،عقلی دلائل واحساسات اور عظمتِ تحقیق وجستجو کے انعامات میں ،یہ قیمتی اور لاثانی تعلیمات جسے ودیعت ہوئیں وہ صاحبِ بصیرت وبصارت بن گیا۔ وہ فنونِ لطیفہ کے حسن وجمال کا پرستار بن گیا، اعجازِ فن کا طلب گا بن گیا اور رموزِ شعر وسخن کا راز دار بن گیا۔

عصرِ حاضر میں ماضی کی روایت کی طرح ہمیں چمنستانِ ادب میں مختلف منہاجِ ادب ملتے ہیں ۔ ان سب میں شعروسخن کے متنوع اور پُر تاثیر اظہار یے ہمیں اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔مگر میری سعی تحریر کے کینوس پراس وقت صنفِ نعت کے نقوش اپنی ضیائیں پھیلارہے ہیں ۔یہ شعر وسخن کی وہ ہردلعزیز صنف ہے جس میں سرورِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عقیدت ومحبت کے انوار وافکار کی ضیائیں جگ مگ جگ مگ کرتی ہیں اور اسلوبِ بیان کی حلاوتیں بحرِ قلب کی موجیں بنتی ہیں ۔یہ وہ صنفِ صبیح ہے جسے خالقِ علم وآگہی نے پسند فرمایا ہے بلکہ خود اس کو بیان کیا ہے اور اس کے لیے فرمان جاری کیا ہے :(سورۃ احزاب ۵۶)لکھنا ہے آیت:

’’بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم پردرود بھیجتے ہیں اے لوگو جوایمان لائے ہو ان پر درود بھیجو اورخوب سلام بھیجا کرو ۔‘‘

یہ درود وسلام اپنے اندرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی پیغمبرانہ شان رکھتا ہے بلکہ خاص طور پراطاعت و عقیدت کاحکم رکھتا ہے ۔رحمت اللعالمین اوراخلاقِ عظمیٰ کی مدحت وتعریف کے اظہار کی تقدیس رکھتا ہے۔جس طرح قرآن مجید میں دوسرے فرائض ادا کرنے کا حکم ہے ، اسی طرح درود وسلام بھیجنے کاحکم ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاارشاد گرامی ہے ،میرانام سنتے ہی درود وسلام بھیجو جو درود وسلام نہیں بھیجتا وہ بخیل ہے ۔ درود وسلام گویا حسنِ نعت کا جوازہے ۔ یوں نعت ہر مسلمان شاعر کی زندگی کااثاثہ اور جزوِ ایمان بن جاتی ہے ، جہاں فکر وخیال اسی کا جمال ہے بلکہ عمیق نظرسے دیکھیں تو نعت گو کے احساسات وجذبات کی آزمائش ہے بلکہ تذکارِ سید ابرار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اظہار و اسلوب کی پیمائش ہے کہ وہ قرینے سے اوصافِ سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو مدحت کی زیبائش وتابش میں بیان کرتا ہے یا اسلوب وطرزِ ادا میں محبت وعقیدت کو سمونے سے قاصر ہے ۔یادرہے اہلِ علم وعرفان نعت کو عروسِ حکمت ،جانِ شریعت اور حکمِ ربِّ کائنات کہتے ہیں۔

عربی ، فارسی اور اردو کے مدحت نگاروں کے کلام کا مطالعہ کریں تو اصناف ِ سخن میں نعت کہنے کی سعادت ،ودیعتِ خداوند بھی ہے ۔ ان کے اشعار میں ذہن ودل کاجو سرور وجوش شامل ہے وہ بھی عطا ئے ربانی ہے ۔پروفیسر محمد اقبال جاوید کے یہ نادر خیالات کس قدر موزوں اور درست ہیں کہ نعت گوئی کی توفیق اللہ کریم کے خصوصی انعامات میں سے ہے ۔یہ انھیں کو نصیب ہوتی ہے ،جنھیں نوازنا مقصود ہوتا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ:

’’حسن وشعور کے ادراک‘‘ سے خود جہانِ شعور وفراست حسین ہوجاتا ہے۔کسی مقدس شخصیت سے محبت کرنے والی عام شخصیت بھی حضورمنور ہوجاتی ہے۔‘‘(1)

ہم دیکھتے ہیں ،گلشنِ ادب میں اگر کہیں حسنِ مجازی کے گھونسلے ہیں تودوسری جانب شجرِ وقت پرروحانی حسن کے پائیدار آشیانے بھی درخشاں ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کرۂ ارض پرآسماں تاباں ہے ، اسی طرح چودہ سوسال سے ہرخطّۂِ زمیں پر سراجُ منیرا ،مظہرِ نورِ ربّ العلی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بعثت بھی ضوفشاں ہے ۔یہ حقیقتاً وہ دائمی صداقت ہے جو عہدِ موجود کی پیشانی پر بھی ضوبارہے اورحسن وجمالِ نعت کو بھی زرنگار کرتی ہے ۔ڈاکٹر ظہوراحمد یوں اظہار کرتے ہیں :

’’نعت کے دائرے کو محدود سمجھنادرست نہیں ،کیونکہ جتنا دائرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی نبوت ورسالت کاہے ،اتنا ہی دائرہ اوصافِ حمیدہ کاہے ۔ جونعت پر کام کرنے والوں کی کوششوں سے انسانیت تک پہنچ رہے ہیں تمام اسلامی زبانوں میں نعت اورسیرت پرسب سے زیادہ کام اردو زبان میں ہے‘‘۔(2)

اصنافِ سخن میں صنفِ نعت کا تنوع ،حق وصداقت کاآئینہ دارہے بلکہ اب تو تمنائے نعت ،نعت نگاروں کے لیے مثل آرزوئے کوثر ہے ۔ہرشاعر کاقلبِ تپاں ،روحِ ذوقِ فراواں اور فکر فروزاں متموج بحرِ بیکراں کی طرح عقیدت ومحبت فخرِ کون ومکان صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اظہار کے لیے ہر لمحے کوشاں ہے اور مجموعہ ہائے نعت کاظہور منصّۂِ شہود پر مانند پورش ژالہ ہے جو شعرائے نعت کی دلچسپی کا پرکشش حوالہ ہے۔ اس تخلیقِ نعت کی فراوانی کاتذکرہ ذرپروفیسر محمد اقبال جاوید کی رعنائی خیال میں فروزاں دیکھیے ۔

’’جب جذبہ سیال ہوجائے ،جب فکر پگھل جائے ،جب آنکھ سراسر اشک بن جائے ،جب پورا وجود عشقِ جمالِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اداؤں میں جذب ہوجائے تو پھر نعت وثنا کی بارشِ الہام کوکون روک سکتا ہے ۔ کیاآپ طلوعِ آفتاب پر پابندی لگاسکتے ہیں؟ کیا موجِ صبا کو خرام سے روکا جاسکتا ہے ؟ کیا شگفتنِ گل کوآپ مؤخر کرسکتے ہیں؟ اگر یہ سب ناممکن ہے تو پھر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مدح طرازی اور نعت گوئی کوآپ کیسے ملتوی کرسکتے ہیں ‘‘۔(3) حقیقت یہ ہے کہ جب یہ جوش وجذبہ شاعر کے دل میں تحریک پیدا کرتا ہے تو عقیدت ومحبت کاجوازِ تخلیق بھی شاعر کے خیال وفکر پراثر انداز ہوتا ہے تو تخیل کی پرواز رفعتِ فلک کو شرمانے لگتی ہے ،جس سے اسلوب وطرزِ ادا کی بادِ بہار کا الفاظ وتشبیہات اور استعارات کونکہتِ تصورات و محاکات سے جگمگانے لگتی ہے بلکہ ریاضتِ شعر گوئی کوبھی تڑپا نے لگتی ہے اور مضامین جلیلہ کوبھی اذہان میں جگانے لگتی ہے ۔یوں نعت کا جلال وجمال بھی بے مثل وبے مثال بن جاتا ہے اور نعت نغمۂ کتابِ نور کا تابندہ مقال بن جاتی ہے جس سے حُبِّ احمدِ مختار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے بصائر چمکنے لگتے ہیں۔عشق ومحبت کے گلہائے عقیدت کے مناظر مہکنے لگتے ہیں ۔گلشنِ مدحتِ محبوبِ ستار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے غنچہ ہائے پُروقار چٹکتے لگتے ہیں ۔یوں نعتِ آفتابِ نو بہار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جملہ عناصر دمکنے لگتے ہیں۔ یہ صدیوں کا قصہ ہے بلکہ عصرِ حاضر کالازمی حصہ ہے ۔

نعت کے تاریخی مراحل کا اگر مطالعہ کریں تو نعت کی روایت ابتدا ہی سے حسن وجمالِ شمائل اور محبت و مؤدت کے تصورات سے مزین نظرآتی ہے ۔اگر چہ نعت بطور صنفِ اصنافِ ادب کامقام نہیں رکھتی مگر شعرا اپنی منظومات میں نعت کے اشعار کہہ دیتے تھے ۔ ان کے ہاں سادہ اور نکھری ہوئی زبان ہوتی تھی ۔مکمل نعت کہنے کارواج نہ تھا۔ولیؔ دکنی کی نعت کے چند اشعار دیکھیے :

تیری محبت کارتن دل میں جتن سب ون !چھو

یامحمد دوجہاں کی عید ہے تجھ ذات سوں

حق نے لولاک لماحق میں محمدکے کہا

ان سوا کون سے مرسل نے یہ رتبہ پایا

مغفرت تیری ولیؔ سہل بلا ریب ہے کیوں

نام احمد صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم

کا جو لب پر تیرے ہر دم آیا

اس دور میں نعت میں بے احتیاطی نہیں تھی جو بعد میں در آئی ،قرآن وحدیث کے مطابق خیالات کے اظہار کی کوششی کی جاتی تھی ۔طبقہ متوسطین میں نعتیہ شاعری کوترقی نصیب ہوئی ۔یہ تین اشعار حاضر ہیں، جن میں زبان وبیان کی دلآمیزی ضوفشاں ہے اورعشق وعقیدت کے جذبات بھی موجزن ہیں۔

تمنا ہے درختوں پرترے روضے کے جا بیٹھیں

قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ ،قید کا

(شہیدی)

خدا کا راستہ تو نے بتایا

تو ہی ہادی ہے رہبر ، رہنما خاص

(لطفؔ )

ہے سنگ میں واں کے شررِ طور ہے پنہاں

کہیے خشت کو کہیے یدِ بیضائے مدینہ

غلام امام شہید)ؔ

عہدِ متاخرین تونعت کادرخشاں دورہے ۔نعت نگاری کے مراکز دوردور تک مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ محسن کاکوروی اور صحو ابو العلائی جیسے نعت کے چند شعرائے کرام نے اس دور میں فروغِ نعت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔نعت قندیلِ نور بن گئی ،فکرونظر کا شعور بن گئی اور گلستانِ ادب میں فصلِ بہار کا سرور بن گئی ۔توصیفِ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے صحابِ کرم کُھل کربرسنے لگے۔آفتابِ چرخِ معالیﷺ کے شہابِ نعم ہر طرف چمکنے لگے۔خلوص ومحبت ،تہذیب ومتانت اور شیفتگی اس عہد کی مدحت کاخاص انداز بن گئی چند اشعار دیکھیے :

یاد جب تجھ کو مدینے کی فضا آتی ہے

سانس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے

پیشانی ہے جزوِ مصحف رو

دس پارے کے دو رکوع ابرو

(محسن کاکوروی)

پاک پہ مائل نہ ہوا تھا سو ہوا

دل مرا عشق میں کامل نہ ہوا تھا سو ہوا

(شائق) ؔ

مرا دل ہے محوِ خیال محمد

وصالِ خدا ہے وصالِ محمد

(صحوابو العلائی)

1857 کی جنگِ آزادی کے بعد نعت کا جدید دور شروع ہوتا ہے اس میں نعت کے انوار بامِ عروج پر پہنچ گئے ۔الطاف حسین حالی نے نعت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بشری حقیقت کی ترجمانی کی مسدس لکھی ،پھر تکلف ،مبالغہ آرائی اور صنعت گری نہ رہی۔اسوۂ حسنہ اورصفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اجاگر ہوئے۔شبلی نعمانی ،نظم طباطبائی اوراحمد رضا خان بریلوی جیسی علمی شخصیات عشقِ سرور کائنات کواپنی نعتوں میں سمونے لگیں ۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال اور ظفر علی خان جیسی علمی ،ادبی آفاقی نظریۂ نعت کی حا مل شخصیات کے عہد کاآغاز ہوا ۔جنھوں نے حیاتِ طیبہ کے جاں نواز اور سینہ شگاف حالات وواقعات سے عقیدت ومحبت کی شمعیں جلائیں اور نعت کونئے اسلوب و بیان سے ضو بار کیا اور اپنے جذبات کے دلکش انداز سے سرشار کیا۔لیجیے چند اشعار میں حسن وخیال کے انوار دیکھیے۔

وہ دانا ئے سبل ختم الرسل ،مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا!

نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول ،وہی آخر

وہی قرآں،وہی فرقاں وہی یسٰیں وہی طاہا

(علامہ اقبال)

اے کہ تِرا شہود وجہِ نمودِ کائنات

اے کہ ترا فسانہ ،زینتِ محفلِ حیات

محمدمصطفےٰ گنجِ سعادت کے امیں تم ہو

شفیع المذنبیں ہورحمت للعالمیں تم ہو

(ظفر علی خاں)

نعت کی بو قلمونی اپنے اثرات وانوار کی قوسِ قزح پھیلاتی بڑھتی رہی،یہاں تک کہ بیسویں صدی کی آخری تین دہائیوں میں نعت کی مصوری اور معنوی رعنائیاں دست پذیر ہوئیں ۔ اظہار کی رنگینیوں سے بے نظیر ہوئیں اور صفتِ نعت کا مکمل روپ دھار کر اصنافِ سخن میں پُر کشش تنویر ہوئیں ۔جو نہی نعت اکیسویں صدی میں پہنچتی ہے ،اظہار کے ذوق وشوق کی ثروت ،سوز وگداز کی دولت اور عقیدت ومحبت کی رفعت سے مالامال ہوجاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ شعر وسخن کی وادیاں تذکارِ مظہرِانوارِ حق صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے زرخیز ہوجاتی ہیں، تقدیسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے نغموں سے اصنافِ شاعری لبریز ہوجاتی ہیں۔نعت کی روح کو تسکین دینے والے جذبات کو ان اشعار میں جمال انگیز ہوتے دیکھیے ۔

تو مہر لازوال سرِ مطلع ازل

تو طاقِ جاں میں شمعِ ابد سیدالوریٰؐ

حسنِ فطرت ،حسنِ موجودات، حسنِ کائنات

نورِ ایقاں نورِ جاں ،نورِ بصر خیرالبشرؐ

(حفیظ تائب)

افق پہ ذہن کے روشن ہے ماہِ عالمتاب

برس رہا ہے مری روح پہ سحاب کرم

جنونِ عشق محمدؐ جو سر میں رکھتے ہیں

عجب مقام جہاں ہنر میں رکھتے ہیں

(صبیح رحمانی)

نعتِ رسولِ کریم ؐسوز و گداز و سرور

نعتِ رسولِ کریم ؐ کیفِ شراب طہور

نعتِ رسولِ کریمؐ علم و خبر کا نزول

نعتِ رسولِ کریمؐ فکر و ہنر کا ظہور

(خالد علیم)

نغمۂ احمد مرسلؐ ہے مقدر اپنا

ہر صداقت ہے اسی ایک صدا میں شامل

(ابوالخیر کشفی)

ہر شام صبا میری سانسوں کے دریچے میں

توصیف محمدؐ کی قندیل جلا جانا

لفظوں کی دھنک ان کے جلووں کو ترستی ہے

ہونٹوں پہ درودوں کی تحریر سجا جانا

(ریاض حسین چودھری)

یہ سب ہے ترے عشق کااعجاز کہ مومن

تھم جائے تو کہسار ،اچھل جا ئے تو طوفان

(عاصی کرنالی)

تیری عظمت سے ہمیں وسعت کردار ملی

ہم کہ قطرہ تھے ہمیں بحر بنایا تونے

(عارف عبدالمتین)

خرد کی تیرہ شبی کی اگر سحر ہوجائے

توروح عشقِ محمدؐ سے معتبر ہوجائے

(عزیز احسن)

نعت کے یہ اشعار عصرِ حاضر میں فضائے نعت بھی نئے پیراہن ،جدید فکروخیال کے گلشن اورعشق ومحبتِ سید ابرار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے جوبن کی دھنک پھیلا کر نعت کے نئے رنگ کی ضیائیں دکھارہے ہیں۔ان میں عقیدت کی گلاب رتیں اوراسوۂ حسنہ کی شاداب ادائیں ہیں۔ نعت نگارانِ دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے سامنے بدلتے موسموں کی ضیائیں ہیں۔حرف وصورت کے نئے انداز نعت کائنات میں نئی منزلوں کواجاگر کررہے ہیں۔اسلوب وادا کی تازہ کاری اور عالمی سطح پر ابھرتی ہے بے قراری نے نعت کو جدید معاشرتی ،اقتصادی اورسماجی اجالوں سے بھی آشنا کیاہے۔ چنانچہ صنفِ نعت اپنی وسعت ،جدت اور عظمت سے اصنافِ سخن میں اپنے ادبی معیار کے لحاظ سے جلیل وجمیل ہے۔حسنِ بیان کے لحاظ سے بھی بال وپرِ جبریل ہے۔

یہ نعت کا سرسری اور مختصر ساجائزہ ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ نعت کیاہے اور کن مراحل میں نورانی کرنیں پھیلاتی ہوئی بدر کامل بنی ہے۔ اس تحریر میں نعت اور نعت گوشعراء کے محاسن ومصائب اور نقد ونظر کے حوالے سے گفتگو میرا مقصد نہیں ہے بلکہ صاحبِ جود وسخا، آفتاب ہدا اور خیرالوریٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے آداب کونعت نگاروں کے سامنے رکھتا ہے ۔جو قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں تاکہ شعرا اپنے نعتیہ اشعار میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ادب کو ملحوظ رکھیں۔

اہلِ کائناتِ نعت کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ قرآن وحدیث میں غوطہ زن ہوکر فہم وادراکِ مدحت اور علم وعرفانِ سیرت کے ٹولو پر جان تلاش کریں اور مدثر ومزمل ،احمدِ مرسل صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے احترام وعزت ،طہارت وعفت اورعظمت وعفت کے گلہائے رنگا رنگ مہکاتے ہوئے قرآن کے احکام اور سنت کے پیغام سے اکتسابِ نورکریں۔اس امرِ حقیقی کوذہن کی غذا بنائیں اور خیال وفکر کی ردا سجائیں کہ محبوب رب العالمین ،رحمت للعالمین ،شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور ہدیۂ نعت پیش کرنے کی جسارت کررہے ہیں،جن کی شان وعظمت اور فضیلت ورفعت کامداح خود خالقِ کائنات ہے ۔آپ ایک عام انسان نہیں ہیں خیرالبشر ہیں۔ جلالِ عظمتِ آدم ہیں، ہادیِ عرب وعجم ہیں۔بلکہ افضل الناس اوراعظم الناس ہیں۔شاہِ دوراں ،مرکزِ ایماں صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے خود فرمایا ہے، میں مقطعِ تنزیلِ خداہوں ،عبدہٗ اور رسولِ الا ہوں ۔اللہ تعالیٰ اس کی تائید فرماتا ہے:

قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الیّٰ انما الٰہ واحدہ (4)

’’کہہ دیجیے ۔(اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) کہ دراصل میں بھی تم ہی جیسا ایک بشر ہوں (مگر) میرے طرف وحی کی جاتی ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ بس تمہارا معبود تو الٰہِ واحد ہے ۔‘‘

ایک اور مقام پراللہ تعالیٰ نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اسی کیفیت کو اور انداز سے واضح کردیا :

ماکان محمد ابا احدٍ من رجا لکم ولکن رسول اللہ وخاتم انبیّین ط (5)

’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اورخاتم انبییّن ہیں۔‘‘

ان آیات میں ربِّ عالم نے ہمارے سامنے وہ رفعت وحقیقت رکھ دی ہے جو امّی لقب ، محبوبِ رب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو رسولِ مکرم کی حیثیت سے عطا کی ہے ۔یہ احترام وتوقیر قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ ضوفشاں ہے۔پورے قرآن کی تلاوت کیجیے کہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کانام لے کر خطاب نہیں کیا گیا ہے،کہیں عام انسان کی طرح نہیں بلایا گیا ہے بلکہ یا ایھا المزمل ،یاایھا المدثر اور یاایھا النبی کے محبت بھرے انداز سے خطاب کیاہے۔ اس حسین وجمیل طرزِ ادا سے خود بخود یہ ہدایت ملتی ہے کہ محسن انسانیت ،معدنِ حکمت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا نہایت درجہ احترام کیاجائے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ بابرکات کے بارے میں زبان وتحریر میں کوئی ایسی بات نہ آئے جوخلافِ شان وعظمت اور خلافِ ادب واحترام ہو۔اللہ تعالیٰ نے اصحابِ رسول کے لیے بھی یہ خاص حکم نازل فرمایا :

لاتجعلو دعاء الرسول بینکم کدعاءِ بعضکم بعضا ط ( 6)

’’تم رسول کے بلانے کو ایسا نہ سمجھو جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔‘‘

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کاایک اورحکم ضو بار ہوجاتا ہے:

یاایھا الذین آمنو الا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھر والہ بالقول کجھر بعضکم بعضٍ ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون (7)

’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ ان سے اونچی آواز میں بات کرو ،جس طرح تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘

سیدابرار ،احمدِ مختار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عزت وتوقیر کے لیے کس قدر خبردار کردیا گیا ہے۔صحابہ کرامؓ نے ان احکامِ ربانی پرپوری طرح عمل کیا اور دنیا کے سامنے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے جمالِ آداب اور حسنِ القاب کے عملی نمونے پیش کیے ۔یہ آیات اور کردارِ اصحابؓ نعت نگاروں کی تربیت اور رہنمائی کے لیے بے حد اہم ہیں تا کہ وہ اپنے اسلوب اوراظہارِ خیال کے لیے اپنا صحیح کردار اداکریں تقدسِ واحترامِ جامع الصفات صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے انوار کو پہنچے اشعار کی زینت بنائیں۔جناب عاصی کرنالی کی نظم ’’ آدابِ نعت گوئی‘‘ نعت کائنات سے محبت کرنے والے شعرا کی رہنمائی کرتی ہے۔ چند اشعار پر غور کیجیے۔

اے ثنا گوئے سیدِ کونینؐ

خود کو اس منزلت کے قابل کر

خود کو رکھ عشق کی کسوٹی پر

چہرہ آئینے کے مقابل کر

نعت کو کارِ بے خودی نہ سمجھ

دل کو علم و خبر کا حامل کر

جان اس راہ کے نشیب و فراز

جوش کو ہوش کا مقابل کر

نعت کی حرمتیں نگاہ میں رکھ

نعت کیا ہے شعور حاصل کر

ان آیات واشعار سے رہنمائی ملتی ہے کہ ہر نعت گو نعت کے قصرِ ایمان اور شعبۂ عرفان کے خصائص سے آگاہی حاصل کرے۔ سیرت طیبہ اوراسوۂ حسنہ کے انوار بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے معاملات زندگی ،فرائضِ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ارشادات سے شناسائی کی روشنی بھی پائے بلکہ خصوصاً کتابِ نور میں اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو حرزِ جاں بنائے حسن ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اخلاقِ عظیم اور فضیلت وتکریم کی ضیائیں ہیں۔ اس لیے ہر ناعت کا فر ض بنتا ہے کہ معلمِ علم حکمت کی عظمت وعزت کے انوا ر چنے اور نعت کی ریاضت کے وقت ادب واحترام سید عرب وعجم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے اسلوب وادا میں اپنی سروری کے جوہر دکھائے جوقابلِ تحسین بھی ہوں اور باعثِ عزت وسعادت بھی ہوں ۔ڈاکٹر سراج احمد قادری (بھارت) اسی کی جانب توجہ دلاتے ہیں:

’’نعت گوئی کے لیے میرے رسولِ اکرم سے واقفیت لازمی ہے ۔اس لیے اس فن میں حضورِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عادات واطوار، خصائل و فضائل کاذکر ہوتا ہے۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی سیرتِ پاک ،ان کے اسوۂ حسنہ ،خصائل وفضائل وغیرہ کی معلومات کے لیے قرآن وحدیث کامطالعہ نا گزیر ہے۔‘‘

اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے نعت گو واقف نہیں ہے،قرآن وحدیث کے مطالعہ سے بے بہرہ ہے ، جس واقعے کو نظم کرنا چاہتا ہے ،اس سے اس کی پوری واقفیت نہیں ہے توایسی صورت میں اس سے لغزش ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔(8)

گلشنِ نعت کی نکہتوں سے شامِ جاں اورذہن وخیال معطر کرنے والے اہلِ ہنر اوراہلِ نظر کی نگاہ میں نکاتِ قرآن وحدیث ضرور رہنے چاہیں مگر بعض اوقات شدتِ محبت اور سرشاری عشق میں مبالغہ آرائی اورسخن طرازی حد سے گزرجاتی ہے اورادب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔اس سلسلے میں قرآن وحدیث رہنمائی کرتے ہیں اور شاعر کو قدم قدم پر باور کراتے ہیں ۔

عرفیؔ مشاب ایں وہ نعت است نہ صحرا است

آہستہ کہ رو بردمِ تیغ است قدم را

ہشّدار کہ نتواں بیک آہنگ سرودن

نعت شہہِ کونینؐ ومدیحِ کے وجم را

ان خیالات وتنبیہات کی روشنی میں شمع رہِ عارفاں صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی کہتے ہوئے قرآن وحدیث کی ہدایت کو حرزِ جاں بتانے کی ضرورت ہے۔ یہاں اس سلسلے کے چند درخشاں احکامِ خدائے عزوجل اور نگارشاتِ ختم رسل کے انوار حاضر ہیں تاکہ فکر وشعور اور بیان کے ظہور کو ضو فشاں کرنے کاسبب بنیں :

انّا ارسلنک شاہدًا وّمبشرّاوّ نذیرًا oتؤمنو اباللہ ورسولہ وتعزّروہُ وتوقّروہ طوتسبحو ہ بکرۃ وّ اصیلاً (9)

’’بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو گواہی دینے والا،خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لاؤ اور تعظیم وتوقیر کرو اورصبح وشام اللہ کی تسبیح کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حقیقت واضح کردی ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مبشرونذیر بن کر مبعوث ہوئے ہیں اور کفارومشرقین اوراہلِ ظلم وجور کے لیے نذرو نذیر بھی ہیں ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم داعی الی اللہ اور سر چشمۂ ہدایت ہیں بلکہ رسولِ علم وحکمت کا مرتبہ رکھتے ہیں لہٰذا نعت کائنات کے شعرئے کرام کواپنی ہنر وری کارنگ دکھاتے ہوئے ان مراتب ومناصب کوملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا۔یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ:

’’انسانوں میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو مطاع بنایا گیا ہے، جن کی اطاعتِ کلی مطلوب ہے۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی توقیر تعظیم اور محبتِ قلبی بھی لازم قرار دی گئی ہے۔‘‘ (10)

سورۃالحجرات کی تیسری آیت بھی اسی کی تلقین کرتی ہے ،جس کا ترجمہ ہے:

’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی آواز سے بلند نہ کیاکرو اور نہ ان سے اونچی بات کرو جس طرح تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘

اسی کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمادیا:

’’بے شک جولوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں،ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔‘‘ظاہر ہوا کہ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاذاتی نام لے کر یامحمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم، یامحمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکہہ کر پکارنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے عقل ہیں۔سوچ لیجیے خالقِ کائنات نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی عزت وادب کا کس قدر خیال رکھا ہے۔ہر نعت گواپنے اشعار میں تخاطب کے انداز کواس عمل سے محفوظ رہنے کی سعی کرے تاکہ وہ بے عقل نہ قرار پائے۔‘‘

قرآن مبین کی اور کئی آیات بنیات میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی تعریف وتوصیف اورانعام واکرام کاتذکرہ ہے،ان کا مطالبہ بھی ناگزیر ہے۔فرمان باری ہے:

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الذین کلہ ولو کرہ المشرقین(11)

’’وہی توہے جس نے اپنا رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ سب ادیان پراس کوغالب کردے ،خواہ مشرکوں کو کتناہی ناگزیر گزرے۔‘‘

گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہادیِ برحق اور رسولِ دینِ متین ہیں۔مسلمانوں کی رہنمائی اور انسانوں کوضلالت اور دہریت سے بچانے والے ہیں، مسلمانوں کی زندگیوں کو سنوارنے والے اور خالقِ عالم سے محبت اور اطاعت کا گرویدہ بنانے والے ہیں ۔بے حد شفیق اور مہربان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمادیا:

لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمونین رؤف رحیم (12)

’’(اے لوگو!)تمہارے پاس ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے ،تمہاری فلاح کا وہ چاہنے والا ہے ۔ (بلکہ )ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘

یہ فضیلت عطائے ربانی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے دل میں امت کے لیے محبت وشفقت رکھ دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کواس کی بھلائی اورخیر خواہی کا خواہاں بنادیا ۔یہاں تک کہ امت کے مصائب اور تکالیف کااحساس عطا کیا اور بے حد رحمت ورافت کی خوبیوں سے نوازا۔اس سلسلے میں فرما دیا : وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (13)

’’اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہم نے تم کو نہیں بھیجا ہے مگر رحمت بنا کر جہان والوں کے لیے۔‘‘

عظمت و فضیلت کی بخششیں اور عطائیں قرآن مجید کی بہت سی صورتوں میں ضوفشاں ملتی ہیں جو دعوتِ فکر دیتی ہیں اور افضل الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے حضور گلہائے عقیدت ومحبت پیش کرنے کے عمل کی رہنمائی کرتی ہیں کیونکہ یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی شان وشوکت کی مظہر ہیں جو فرماتا ہے :

النبی اولیٰ بالمؤنین من انفسکم وازواجہ امھتھم (14)

’’بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم تو اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پرمقدم ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘

معلوم یہ ہوا یہ کہ محبوبِ ستار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا مسلمانوں سے اور مسلمانوں کا سرورعالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے جو تعلق ہے وہ تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالاتر نوعیت کاہے ۔کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور اہل ایمان کے درمیان ہے ذرہ برابر بھی کوئی نشبت نہیں رکھتا ۔رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق ورحیم اوران کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیرخواہ ہیں ۔۔۔ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محبت رکھیں ۔اپنی رائے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی رائے کواور اپنے فیصلے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے فیصلے کومقدم رکھیں اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ہر حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کریں (15)اس کے ساتھ ہی یہ خصوصیت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ازواجِ مطہراتؓ بھی امہات المومنین ہونے کی وجہ سے ادب واحترام اورعزت اکرام کے لائق ہیں۔ ان کے بارے میں غیر مہذب بات منہ سے نکالنا اوران کی شان کے خلاف کوئی بات تحریر میں لانا گناہ ہے ۔ چنانچہ عزت و احترام کی جملہ ہدایات نعت نگاروں کے لیے درخشاں نکات ہیں تاکہ ان کی تخلیقات دنیا میں باعثِ التفات اورآخرت میں ذریعۂ نجات ہوں۔

اللہ تعالیٰ کی کتابِ مبیں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ تاجدارِ ملک ہدایت پیغمبرِ دین فطرت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی احادیثِ حسین و متین بھی انسانی زندگی کے علم وعرفان اور خیال وفکر جاوداں کی غماز ہیں ۔ان پرغور وفکر شاعر انِ نعت کے لیے روشنی بھی ہیں اور اردو ادب کے لیے دل کشی بھی ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے ان سے ضیائیں حاصل کیں اور ضیائیں بانٹیں بلکہ اہل قلم کے لیے پُرکشش اسلوب کی ادائیں پیش کیں۔سراج منیر کی چند جانفزا شعاعیں بکھیرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ حضرت براء بن عاربؓ بیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کی شرائط تحریر کرنے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے حضرت علیؓ سے فرمایا:

’’لکھو!بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ فیصلہ ہے جو محمد رسول اللہ نے کیاہے۔‘‘ حضرت علیؓ نے یہ عبارت لکھ دی ۔اس پر مشرقین نے کہا اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو رسول مانتے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اتباع کرلیتے ، لہٰذا اس کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھو، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے حضرت علیؓ کوحکم دیا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹادو ۔حضرت علیؓ نے عرض کیاواللہ میں اسے کبھی نہیں مٹاؤں گا توسرورِ انبیا صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا ،اچھا مجھے اس کی جگہ دکھاؤ۔

حضرت علیؓ نے جگہ دکھائی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے خود اسے مٹادیا ۔ (16)

یہ ہے ادبِ رسالت جوہر صحابیؓ کے دل میں موجزن تھا ۔اصحاب رسول توجان قربان کردیتے تھے مگر اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ سید وآقا خیر الوریٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے احترام وآداب کاخیال رکھتے تھے۔ اسی طرح سیدالابرار صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے شمائل ،دل کش خصائل ، تنہائی میں استراحت جودوسخاوت اورحسنِ وجاہت کے آداب کوسب سے زیادہ مقدم رکھتے تھے۔ پھر مدینہ منورہ ،مسجدِ نبوی کے آداب کے ساتھ ساتھ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی احادیث بیان کرنے میں بھی مؤدب رہتے تھے۔آج بھی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے فکروخیال ،اسلوب واندازِ بیاں کوآدابِ جلیلہ کے ؟؟کی کرنیں ضوبار کرتی ہے اور خصوصاً سیرتِ مقدسہ ،اسوۂ حسنہ اور اعمالِ طیبہ کے احترام واکرام کی ضائیں نعت گوئی کی حسین اداؤں کو منور کرتی ہیں۔

اَدبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے یہ پُر بہار قرینے ہمیں اصحابؓ سے ملے ہیں جو ہر نعت گو کا علمی ،ذہنی اور فکری سرمایہ ہونا چاہیے ۔علاوہ ازیں گستاخانہ سرورِ کائنات کی تادیبی سزائیں بھی سامنے رہنی چاہیں کہ ان کا انجام اس دنیا میں کیا ہوا اورآخرت میں عذاب عظیم توان کا منتظر ہے۔ان ظالموں کاکردار کیاتھا اورکس کس انداز سے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو جسمانی اور ذہنی تکلیفیں پہنچائیں ۔مثلاً ابو لہب ،نصر بن حارث ، کعب بن اشرف،عبداللہ بن خطل،عاصر بن طفیل،ابی بن خلف، حویرث بن نقید ،عقبہ بن ابی معیط ،ابو عفک یہودی اور بہت سے دوسرے کفار ومشرقین جوباعث آزاد ہوئے۔انجام کے طور پرقتل کیے گئے یااللہ تعالیٰ کی شدید گرفت میں آئے لعنت اللہ علی کاذبین وکافرین۔

یادرکھنا چاہیے کہ ادب واحترام کے خلاف اشارہ،استعارہ تشبیہہ ،لفظ، محاورہ غرض یہ کہ ایک ایک نقطہ بھی قابلِ گرفت ہے اور اس کا غیر محتاط استعمال نعت کے حسن کو گہنا دیتا ہے اوردنیا وآخرت میں بڑے خسارے کا موجب ہے ایک مرتبہ پھر مجھے کہنے دیجیے کہ ادبِ رسول کسی عام فرد بشر کا ادب نہیں یہ اللہ تعالیٰ کاادب ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔

’’اے ایمان والو! تم اللہ اوررسول سے سبقت نہ کیا کرو اوراللہ سے ڈرتے رہو ۔بے شک وہ سننے والا،جاننے والا ہے ۔‘‘ (17)

بلکہ اللہ تعالیٰ نے خبردار بھی کیا ہے کہ تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ایمان کا تقاضا ہے۔عشق وعقیدت کاتقاضا ہے۔ اس کائنات میں افضل الانسان کی محبت کاتقاضا ہے۔اعظم الناس کی اطاعت کاتقاضا ہے۔ یہ تعظیم تواللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے۔یہی حکم الحاکمین نے فرمایا ہے:

قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم (18)

’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو میری پیروی کرو۔اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اوروہ تمہارے گنا ہ معاف کردے گا ۔اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘

اس تقاضائے تعظیم ومحبت کاصلہ مغفرت اوررحمت ربِّ کائنات ہے جو بہت بڑا انعام ہے۔لیکن اس کے برعکس اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی نافرمانی ان کے احکام کی خلاف ورزی اور احترام وتعظیم میں معمولی سی کمی بھی اعمال کی بر بادی ہے اور دنیا ؤ آخرت کی نامرادی ہے۔عصرِ حاضر میں نعت گوئی کی ایک اور روش کااظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں جو حالیؔ کی مسدس مدوجزرِ اسلام کی پیروی میں چل نکلی ہے جو حالیؔ کی مغرب پرستی اورسرسید احمدخان کی پیروی میں ہے۔یہ قرآن حکیم کی آیت کے پہلے حصے انا البشر مثلکم کے حوالے سے ہے اور اس بشریت پرزور دیاجاتا ہے جیسا کہ حالیؔ نے مسدس میں اختیار کیا۔وہ اسی آیت کے دوسرے حکم کو دو فورِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ آیت یوحیٰ اِلیّٰ ایک اور پیغام بھی دیتی ہے۔

اگرچہ یہ صحیح ہے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی یہ صفات ،’’خطا کار سے درگزر کرنے والا ‘‘ اور’’اپنے پرائے کاغم کھانے والا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی محبت اور ہمدردی کی اعلیٰ تعریف ہے مگر یوحیٰ اِلیّٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی روحانی جہت کوبھی سامنے لاتا ہے اور اس کی وضاحت بھی کرتا ہے کہ ماینطقُ عن الھویٰ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے بلکہ جو اللہ تعالیٰ بتاتا ہے وہی بیان کرتے ہیں۔لہٰذا ہر شاعرِ نعت کے خیال وفکر میں دونوں حیات موجود رہنی چاہیں۔سا تھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ احادیثِ کتب سۃ کے علاوہ دیگر احادیث کی کتب میں بہت سی صغیف اور موضوع حدیثیں شامل کرلی گئی ہیں جن کی مسندات مشکوک ہیں۔ ان کو روایت اور درایت کے حوالے سے دیکھ لینا چاہیے اورقرآن کی تصریحات کے خلاف پاک نہیں یاان کی صفات کو نعت کہتے ہوئے اسلوب وبیان کی زینت نہ بنانا چاہیے ۔ایسا نہ ہوکہ نعت رحمت ومحبت کی بجائے زحمت وخسارہ بن جائے ۔

آج تو جدید تحقیق کی روشنی میں سائنسی اور تحقیقی انداز سے بہت سے افکار ومباحث دعوتِ فکر دیتے ہیں۔خاص طور پر ’’نعت رنگ کراچی‘‘ میں نقد ونظر کاسلسلہ بے حد جامع اور فکر انگیز موجود ہے۔ جس کے مقالات نعت کو نکھارنے اور نعت نگاروں کی فکری اور روحانی زاویوں سے رہنمائی کے انوار دے رہا ہے۔اس کا مطالعہ بہت سے عقدے سلجھا دے گا نعت کہنے سے پہلے وارداتِ قلبی کو قرآن وحدیث کی کسوٹی پر ضرور پرکھیے۔تاکہ شدتِ عقیدت ومحبت میں ادب واحترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔

مقالہ نگار کے حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1)نعت میں کیسے کہوں ۔ص ۳۰۔۳۱

2)ماہنامہ نعت لاہور ،اگست ستمبر ۱۹۹۸ء

3)نعت میں کیسے کہوں ۔ص۱۲

4)سورۂ الکہف :۱۱۰

5)سورۂ الاحزاب:۴۰

6)سورۂ النور:۶۳

7) سورۂ الحجرات:۲

8)نعت رنگ ۱۹،ص۱۶۶

9)سورۂ الفتح ۔۸۔۹

10) نعت گوئی اوراس کے آداب

11)سورۂ الصف :۹

12)سورۂ التوبہ:۱۲۸

13)سورۂ الانبیاء: ۱۰۷

14)سورۂ الاحزاب:۶

15) تفہیم القرآن ۴،ص ۷۱

16) صحیح مسلم ج ۳،ص۱۳۱

17) سورۂ الحجرات :۱

18) سورۂ آل عمران:۳۱

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زبان و بیان آداب ِ نعت
نعت خواں اور نعت خوانی نعت گو شعراء اور نعت گوئی
شخصیات اور انٹرویوز معروف شعراء