منظر عارفی لمحہ موجود کا ممتاز نعت گو ۔ محسن اعظم ملیح آبادی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 12:24، 30 دسمبر 2017ء از ADMIN (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏نعت)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: محسن اعظم ملیح آبادی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

A young and brilliant poet Manzar Arfi's poetic genius has been introduced in the article place below. Some collection of selected poetry containing Naatia Text is also placed in order to strengthen critical point of view given on the poetry of Manzar Arfi. Simplicity and clarity of thought and content is an extensive quality of poetry presented here.

منظرؔ عارفی لمحۂ موجود کا ممتاز نعت گو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جناب منظرؔ عارفی عہدِ حاضر کے نہایت ذہین اور زیرک شعراء کے قبیل سے ہیں۔اِ ن کی شاعرانہ حیثیت مسلّم ہے۔ انہوں نے اُردو کی بیشتر معروف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ان کی تخلیقات، فن پر اُن کی مہارت اور ندرتِ بیان کی شہادت ہیں اُن کی شاعری مقصدی ہے ۔وہ ادب برائے زندگی کے مشّاق صورت گر ہیں۔ان کی شاعری میں زندگی ہے ۔وہ اپنی شاعری میں تحرّک کا درس دیتے ہیں۔جمود اُن کی شاعری کا حصّہ نہیں۔اُن کے یہاں سلیقۂ شاعرانہ بدرجۂ اتم موجود ہے۔اُنہوں نے حمد ونعت ،منقبت،غزل اور منظومات میں اپنی تخلیقات نہایت تازگیِ بیان کے ساتھ پیش کی ہیں۔وہ بچوں کے ادب پر بھی اختصاصی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔

منظرؔ عارفی نثر وشعر پر یکساں قدرتِ بیان رکھتے ہیں ۔چناں چہ انہوں نے بچوں کے لیے نثر میں ’’سب سے مہنگی گائے‘‘’’اے بیٹے‘‘’’ابوجہل کی پٹائی‘‘کے علاوہ نظم میں ’’فانوس‘‘اور ’’شعری کھلونے‘‘ جیسی بڑی کارآمدکتب لکھی ہیں۔اب ’’ہمارے پیارے رسولِ اکرم‘‘کے نام سے نہایت سادہ اورآسان زبان میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف یعنی نعت کا مجموعہ تصنیف کیا ہے۔منظرؔ عارفی ایک مبلغانہ شان رکھنے والے شاعر ہیں۔ وہ ایک نہایت راسخ العقیدہ مسلمان ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بچّے اچھی طرح واقف ہوجائیں۔اس عمر میں جو باتیں دل و دماغ میں راسخ ہوجاتی ہیں و ہ ہمیشہ قرطاسِ ذہن و دل پر مرتسم رہتی ہیں۔بچوں کے ادب پر جو کتابیں قدیم وجدید شعراء کی اب تک شائع ہو چکی ہیں ان میں منظرؔ عارفی کی لکھی ہوئی کتب اختصاص کا درجہ رکھتی ہیں۔ان کی کئی کتب کو مرکزی حکومت پاکستان اوربعض نجی ادبی اداروں نے ایوارڈ سے نوازاہے۔جو اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ بچوں کے ادب پر بھی اختصاص کے حامل فردہیں۔

منظرؔ عارفی کی شعری زبان نہایت شستہ اورشگفتہ ہوتی ہے ۔ان کے یہاں صوری ومعنوی زولیدگیِ بیان اورپیچیدگی نہیں ہے۔ فن پر اور زبان پر مکمل گرفت رکھتے ہیں۔حتی المقدور یہی کوشش کرتے ہیں سہلِ ممتنع میں اپنی گفتگو کا بھرپورابلاغ کردیں۔بچوں کی ذہنی و علمی اور نفسیاتی تناظر میں وہ اپنے مافی الضمیر کومصوّر کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔میری اس بات کی تصدیق ان کازیرِنظر کلام جس کانام ’’ہمارے پیارے رسولِ اکرم‘‘ہے کرے گا۔

شاعرِموصوف کاپہلا نعتیہ مجموعہ’’اللہ کی سنّت ‘‘مرکزی حکومتِ پاکستان سے ایوارڈ یافتہ نہایت پُر اثر نعتوں کا مجموعہ ہے۔ان کے دوسرے نعتیہ مجموعے کا نام ’’روحِ ایماں‘‘ہے۔ غزلوں کے دو مجموعے ’’پاؤں میں گرداب ‘‘اور ’’بساطِ عشق سے کارِسخن تک‘‘نہایت اعلیٰ غزلوں سے مزین ہیں۔ان کا تغزل نہایت عمدہ ہے ۔معاشرہ وعمل حیات و کائنات، کے مسائل پر بڑے مقصدی اور فکر انگیز اشعار ان کی زینت ہیں۔’’کمالِ سخن‘‘ان کی حمدوں کا مجموعہ ہے۔’’انہی مشعلوں سے دیے جلے‘‘منظوم احادیثِ پاک کا مجموعہ ہے جس پر انہیں قومی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا۔’’تم مِری منزل نہیں‘‘ان کے افسانوں کا مطبوعہ مجموعہ ہے۔وہ تصنیف و تالیف کے علاوہ تحقیق وتنقید کے جادے کے بھی مسافر ہیں۔۲۰۱۷ء میں ان کی ایک وقیع تحقیق جو کراچی کے ۲۵۱صاحبِ مجموعہ نعت گوشعرا کے تذکرے اور انتخابِ نعت پر مشتمل ’’کراچی کادبستانِ نعت‘‘کے نام سے ’’نعت ریسرچ سینٹر کراچی ‘‘کے زیرِ اہتمام منظرعام پر آئی ہے۔ نیز ایک اور تحقیقی کتاب بنام’’مناقبِ امام حسین اور شعرائے کراچی‘‘۱۷۵ شعراء کے تذکرے اور مناقبِ امام حسین رضی اللہ عنہ پر مشتمل ۲۰۱۷ء میں نعت ریسرچ سینٹر کراچی کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکی ہے۔ بحیثیت شاعر وہ لمحۂ موجود کے بہترین شعراء میں سے ہیں۔ان کا اپناایک جدا لب و لہجہ ہے جس میں دلکشی بھی موجود ہے اور تازگی بھی ۔ان کا اسلوبِ بیان سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت رواں اورسریع التاثیر ہے۔ان کی شاعری خواہ کسی موضوع کی ہو بے حد موثر ہے۔ ان کا کلام فن کے اعتبار سے بھی معتبر اورعروضی اصول کے تحت بھی مستند ہے۔یہی وہ شاعرانہ خوبیاں ہیں جو کسی شاعر کو انفرادیت کاتاج پہناتی ہیں۔انتقادی تناظر میں وہ ایک بالغ نظراور جدیدفکرونظر کے بہترین شاعر ہیں۔ انہوں نے شاعری مقصدو منشا کے تحت کی ہے۔اس لیے اس میں شعری زندگی بدرجۂ اتم موجود ہے۔

منظرؔ عارفی نہایت سلیم الطبع انسان ہیں۔ ان کی صالح طبیعت اورفکرونظر کی روح ان کے کلام میں بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ان کی شاعری میں جو بھی احساسِ جمال ہے وہ دل کو چھوتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ان کی شاعری استحسانی حسن و جمال رکھتی ہے۔اردو شاعری کے منظر نامے میں ان کی حیثیت و مرتبہ ومقامِ شاعرانہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔موجود ہ دور میں جو شعراء فکری طور پر ممتاز ہیں اُن میں ان کانام شامل نہ کرناادب کے ساتھ بددیانتی ہے۔شاعر کاادبی مقام اس کی اچھی شاعری سے متعین کیاجاتا ہے ۔اُن کی شاعری اچھی ہی نہیں بہت اچھی ہے۔

میں نے ان کا سارا کلام بالاستیعاب پڑھا ہے اور ان پر انتقادی رائے بھی لکھی ہے۔ انتقادی تناظر میں ان کا اکثر کلام عہدِموجود کے معتبر اور ثقّہ شعراء کے کلام کا ہم پلّہ ہے ۔وہ سینئر شعراء کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔وہ شاعری میں کسی طرح کمزور محسوس نہیں ہوتے۔انتقادی اصول، شاعر کو جن نکات کے تحت بڑاشاعر کہتے ہیں وہ اسرارو رموزِشاعرانہ اورخوبیاں ان کے یہاں وافر انداز میں موجود ہیں۔اچھی شاعری کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔کلام خود بتاتا ہے کہ شاعری کس مقام و مرتبے کی ہے ۔ناقد کاکام یہ ہے کہ شاعری کی خوبیاں واضح کردے ۔باقی سلیم الحواس قاری خود اس کا شاعرانہ مرتبہ و مقام مقرر کر لیتے ہیں۔

میری نظر میں منظرؔ عارفی انفرادیت کے حامل شاعر ہیں۔ان کے یہاں کلام میں شعری خوبیاں وافر ملتی ہیں۔اس لیے وہ کامیاب اورممتاز شاعروں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ان کا سرمایۂ سخن ادبِ عالیہ کی تمام خوبیوں کاحامل ہے۔

سطور بالا میں میں نے منظرؔ عارفی کے بچوں کے لیے لکھے گئے جس نعتیہ مجموعے ’’ہمارے پیارے رسولِ اکرم‘‘کا ذکر کیا ہے ۔ربیع الاول ۱۴۳۸ھ بمطابق ۲۰۱۷ء میں ’’آفاق لیڈرز کلب‘‘ اسلام آباد نے اس کو۲۰۱۷ء ’’رحمت للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) ادبی ایوارڈ‘‘ (کیش ، شیلڈ ، ڈگری)سے نوازاہے۔بلا انتخاب قارئین کے مطالعے کے لیے میں چند نعتیں پیش کررہاہوں اپنی اس بات کاایک بار پھر اعادہ کرتے ہوئے کہ ’’اچھی شاعری کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔کلام خود بتاتا ہے کہ شاعری کس مقام ومرتبے کی ہے‘‘۔

حمدِ باری تعالیٰ ۔ روز و شب کا مرے سفر مولا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

روز و شب کا مرے سفر مولا

تیری طاعت میں ہو بسر مولا

ہے گناہوں کا اعتراف مجھے

در گزر مولا ! در گزر مولا

تیرے مدّاح ، تیرے جنّ و بشر

تیرے وصّاف ، بحر و بر مولا

تو نہیں کِس کا خالق و مالک

تو نہیں کِس کا چارہ گر مولا

تو ہی دیتا ہے دولتِ احساس

تو ہی کرتا ہے دیدہ ور مولا

تیری دہلیز پر ہے سجدہ ریز

میرا دل ہو ، کہ میرا سر مولا

کوئی کیسے اِدھر اُھر بھٹکے

تُجھ کو معبود مان کر مولا

تجھ ہی سے مانگتا ہوں رزقِ حلال

تجھ ہی سے مانگتا ہوں گھر مولا

مجھ کو ہر گز کہیں اماں نہ ملے

تو مدد پر نہ ہو ، اگر مولا

میرے لہجے کو دے مسیحائی

میرے لفظوں کو دے اثر مولا

منظرِؔ عارفی پہ چشمِ کرم

ہر گھڑی مولا ، عمر بھر مولا

نعت ۔ آؤ ثنا کریں درِ خیرالانام کی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آؤ ثنا کریں درِ خیرالانام کی

یہ مصطفی کا در ہے یہاں با ادب رہو

اللہ کو پسند بہت ہے وہ آدمی

اے کاش یہ دُعا بھی ہماری قبول ہو

مولا ہماری عمر اطاعت میں ہو بسر

جب تک زمیں پہ ایک بھی ہے اُن کا اُمتی

منظرؔ ! تم اُن کا دامنِ رحمت نہ چھوڑنا

قسمت بدل رہی ہے وہاں خاص و عام کی

پیشانیاں جھکی ہیںیہاں صبح و شام کی

تعمیل کر رہا ہے جو اُن کے پیام کی

پائیں خدا سے طیبہ میں عزّت قیام کی

تیرے حبیبِ پاک علیہ السلام کی

محفل سجی رہے گی درود و سلام کی

وہ لاج رکھنے والے ہیں اپنے غلام کی

نعت ۔ آپ نے جَگ روشنی سے بھر دیا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ نے جَگ روشنی سے بھر دیا

مہرباں مائیں بنا دیں آپ نے

علم ، صبر و شکر ، ایثار و وفا

ہر صحابی کو ، ہر اہلِ بیت کو

آپ نے ہر شخص کے کشکول کو

آپ نے تو دیکھتے ہی دیکھتے

آپ نے اخلاص بخشا ، شرم دی

آپ نے اخلاق کی تکمیل کی

آقا نے منظرؔ ! ہمیشہ کے لیے

آپ ہی نے آخرت کا ڈر دیا

آپ نے باپوں کو مشفق کر دیا

آپ نے اُمت کو ہر گوہر دیا

اِک انوکھا آپ نے پیکر دیا

اُس کی سوچوں سے زیادہ بھر دیا

بُت پرستوں کو خدا کا کر دیا

آپ نے احسان کا جھومر دیا

آپ نے سچائی کا جوہر دیا

قوتِ باطل کا سر خم کر دیا

نعت ۔ جہاں تک روشنی ہی روشنی ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جہاں تک روشنی ہی روشنی ہے

رسولِ حق کی سب جلوہ گری ہے

جو اُن کا ماننے والا ہے سچا

وہی اللہ کا محبوب بھی ہے

اُنہیں مت بھول جانا، میرے بچّو!

اُنہیں کو یاد رکھنا زندگی ہے

رسول اللہ کے احکام مانے

اِسی میں آدمی کی بہتری ہے

خدا بھی اُس کا ، جنت بھی ہے اُس کی

جسے خوشنودی اُن کی مل گئی ہے

شعور و فہم بانٹے ہیں اُنہوں نے

اُنہیں کے در سے دانائی ملی ہے

تصور میں اُنہیں لا کر تو دیکھو

بڑائی کیا ہے ، کیا شے سادگی ہے

اگر منظرؔ ! ہے آقا سے تعلق

تو سمجھو پار کشتی لگ گئی ہے

نعت ۔ جُڑے جو رہیں ہم شہِ دوسَرا س[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جُڑے جو رہیں ہم شہِ دوسَرا سے

اطاعت سے اُن کی ہیں کیوں دُورہم سب

اُنہوں نے ہمیں دولتِ علم بخشی

اُنہوں نے عطا کی ہمیں سر بلندی

اُنہوں نے ہمیں نا اُمیدی سے روکا

اُنہوں نے ہماری بھلائی کی خاطر

ہمیں ماننا چاہیے اُن کا احساں

ہمیں جو بھی اعزاز حاصل ہے منظرؔ !

تعلق ہمیشہ رہے گا خدا سے

محبت اگر ہے ہمیں مصطفی سے

اُنہوں نے ہی چمکایا فن کی ضیا سے

اُنہوں نے اُٹھایا ہمیں خاکِ پا سے

اُنہوں نے دیے ہم کو ہر جا دلاسے

بڑے پیار سے مانگا ہم کو خدا سے

کہ ہم ہیں مسلماں تواُن کی عطا سے

خدا نے دیا ہے اُنہیں کی رضا سے

نعت۔ رسولِ خدا جان ایمان کی ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

رسولِ خدا جان ایمان کی ہیں

کہاں تک گِنے گا کوئی اُن کے احساں

جو اُن کے لیے جان دے ،جانتا ہے

جو تصدیق کرتی ہیں شانِ نبی کی

وہ تلوار سے جھکنے والی نہیں تھیں

بہت ہی زیادہ تھیں راہیں جو مشکل

انہوں نے وہ ساری ہی چیزیں بتادیں

رسولِ خدا کے مدینے کی گلیاں

ہمارے نبی کے اشارے پہ منظرؔ !

رسولِ خدا روح قرآن کی ہیں

رسولِ خدا کان احسان کی ہیں

رسولِ خدا آبرو جان کی ہیں

وہ آیات واللہ قرآن کی ہیں

انہوں نے جو قومیں مسلمان کی ہیں

اُنہوں نے وہ راہیں بھی آسان کی ہیں

جو ہیں فائدے کی ، جو نقصان کی ہیں

بڑی محترم ہیں ، بڑی شان کی ہیں

صحابہ نے جانیں بھی قربان کی ہیں