مالیگاؤں کانعتیہ ادب اوراشفاق انجم ۔ ظہیر قدسی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 13:16، 10 نومبر 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏تیسرا دور)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

ظہیر قدسی۔بھارت

مالیگاؤں کا نعتیہ ادب اوراشفاق انجم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Mali Gaoon is a prominent City in India where Urdu poetry flourished and various poets came out with their devotional poetry in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W). Dr. Ashfaq Anjum 's distinctive position has been reflected in this article to show his poetic characteristics particularly in genre of Naat . Comparison has also been done with other poets of similar genre to distinctively highlight unique diction and content of poetry of Dr. Ashfaq Anjum.

نعت وہ واحد اور متبرک صنف سخن ہے جس میں صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اس کی ابتدا خود حضور کی حیاتِ مبارکہ میں ہوئی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ اور [[کعب بن زہیر حضرت کعب بن زبیرؓ جیسے شعراء نے آپ کی شان اقدس میں نعتیہ قصائد کہے اور حضرت کعب بن زبیر کو حضور نے خوش ہوکر اپنی چادر عنایت فرمائی۔

اردو شاعری کے آغاز ہی سے دیگر اصناف کے ساتھ ہی نعت بھی کہی جانے لگی تھی۔ یہ ایسی متبرک اور پرکشش صنف سخن ہے کہ مسلم تو مسلم غیر مسلم شعراء نے بھی نعت گوئی کو اپنے لئے وجہ افتخار جانا ہے۔

مالیگاؤں، بھارت کی ریاست مہاراشٹر کا مشہور شہر ہے جہاں اردو بولنے، لکھنے، پڑھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اسے آج ساری دنیا میں اردو کا مرکز اور مسجدوں کا شہر کہا جاتاہے۔ یہاں بنکر برادری کی اکثریت ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد شمالی ہند سے، خصوصاً یوپی اور خاندیش کے مختلف علاقوں سے آنے والے مہاجرین نے مالیگاؤں کو اپنا وطن ثانی بنا لیا۔ مالیگاؤں میں ابتداً مالی سماج کے لوگ رہتے تھے جو کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ شمالی ہند کے مہاجرین یہاں پارچہ بافی کی صنعت کے لئے سازگار ماحول دیکھ کر یہیں کے ہو رہے اور ہاتھ ماگ (ہتھ کرگھا) پر رنگین ساڑی بننے کا کام شروع کیا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ پورے مہاراشٹر میں اور اس سے لگے ہوئے علاقوں میں بارڈر والی رنگین ساڑی (نوگزی ساڑی) کا چلن تھا۔ جب ذرا فراغت نصیب ہوئی تو وہ شعرو ادب کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ شمالی ہند میں پریس کی آمد کے بعد شاعری اور افسانہ نگاری کو پر لگ گئے۔ اخبارات و رسائل کی اشاعت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ پھر چوں کہ یہاں آنے والے اپنے ساتھ اپنی تہذیب، زبان، بول چال کا لہجہ بھی ساتھ لائے تھے اس لئے ابتداء میں بقول ڈاکٹر اشفاق انجم:

’’یہاں کی ابتدائی شاعری کا بہترین نمونہ وہ ہے جس میں خاندیشی اور فارسی زبان میں کہے گئے مرثیے اور مراٹھی آمیز نعت اور غزلیں ہیں۔‘‘ لیکن دھیرے دھیرے ان کی شاعری اور زبان سے خاندیشی اور فارسی کے اثرات ختم ہوتے گئے اور شعراء دبستانِ دہلی و لکھنؤ کی اتباع میں ٹکسالی اردو میں شعر کہنے لگے اور قنوج، میرٹھ، الٰہ آباد سے شائع ہونے والے رسائل اور گلدستوں میں شائع بھی ہونے لگے۔ ڈاکٹر اشفاق انجمؔ اپنے تحقیقی مقالے ’’شعرائے مالیگاؤں‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اب تک جو سب سے قدیم گلدستہ دستیاب ہوا ہے وہ ’’پیامِ عاشق‘‘ قنوج ہے جس کے ۱۸۹۲ء کے دو شمارے راقم کے پاس ہیں۔ا ن میں مالیگاؤں کے شعراء کا کلام بھی شائع ہوا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے مہاجرین میں شعراء اور ذی علم حضرات یقیناًشامل تھے جن کے ہاتھوں یہاں اردو نے آنکھیں کھولیں اور ادب کی شمعیں روشن ہوئیں۔‘‘

شعر و ادب کے بڑھتے ہوئے ذوق اور فراغت کے اثرات بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں نمایاں ہوئے اور مالیگاؤں سے ’’افتخار سخن‘‘، ’’معیارِ سخن‘‘، اور ’’بہار‘‘ نامی ماہانہ گلدستے شائع ہونے لگے۔ جن میں مقامی شعراء کے علاوہ برصغیر کے شعراء کی طرحی غزلیں اور نعتیں شائع ہوتی تھیں۔ ان کے علاوہ میرٹھ، الٰہ آباد، دہلی، لکھنؤسے نکلنے والے گلدستوں میں بھی مالیگاؤں کے شعراء کے کلام شائع ہوتے تھے۔

دورِ اوّل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر الیاس صدیقی اپنے مقالے ’’مالیگاؤں میں اردو نثر نگاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۱۸۸۵ء میں مالیگاؤں کے ایک شاعر عبدالکریم عطاؔ کا نعتیہ دیوان شائع ہوا۔ جو اردو لائبریری مالیگاؤں میں موجود ہے۔ا س میں شامل ایک نعت کے چند شعر:

دِلا ہم کو محمد کی حمایت ہے تو کیا غم ہے

اگرچہ کل کے دن بھی جو قیامت ہے تو کیا غم ہے

ہمیں حضرت کے کلمہ پاک کا ورد و وظیفہ ہے

اگرچہ قبر کی شدت نہایت ہے تو کیا غم ہے

رہیں گے مومنو خلد بریں میں عیش و عشرت سے

اگر دنیائے فانی میں مصیبت ہے تو کیا غم ہے

عطاؔ خاطر پریشاں ہو نہ محشر کے عذابوں سے

تجھے نعت نبی لکھنے کی عادت ہے تو کیا غم ہے

اس نعت کے ساتھ ہی بیسویں صدی کے آغاز میں کی جانے والی نعتیہ شاعری کا موضوع بہت محدود رہا۔ ’’شفاعت، دیدار کی حسرت، آپؐ کے در پر مرنے کی آرزو، مدینہ کا سفر‘‘ جیسے خیالات و جذبات ابتدائی دور کی نعتیہ شاعری کا خاصہ رہے ہیں۔ یہ نعتیہ شاعری بھی کسی وقتی ضرورت (مشاعرے، میلاد کی مجلس، ایام محرم وغیرہ) یا نعتیہ طرحی مشاعروں کی مرہونِ منت رہی۔ اس لئے جذبے کی شدت اس وقت کے شعراء کے کلام میں کم ہے۔ ہاں شاعری اور فکری و فنی لحاظ سے اس دور کی نعتیہ شاعری کی اہمیت اپنی جگہ، مگر اندرونی کیفیات اور دلی جذبات و عشق رسولؐ کی شدت خال خال ہی نظر آتی ہے۔ درج ذیل اشعار دیکھئے:

راہِ طیبہ میں مجھے پرواہ کیوں ہو خضر کی

شوقِ دل جب خود ہی میرا رہ نما ہو جائے گا

جو مدینے کی زیارت کے لئے جاتے ہیں

پیشوائی کے لئے ان کی ملک آتے ہیں

جو ہو جائے یاور مقدر ہمارا

تو مسکن ہو احمد کے در پر ہمارا

مدینے پہنچ جائیں صابر اگر ہم

عجب اوج پر ہو مقدر ہمارا

۱۹۰۰ء سے قبل کی نعتیہ شاعری ’’مدینے کی زیارت اور آپؐ کے در پر پہنچنے کی حسرت، شفاعت کی خواہش، عذاب سے نجات کی تمنا‘‘ تک محدود رہی اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مدینہ منورہ سے متعلق شنیدہ و محررہ باتیں ہی نظم کی گئیں۔ اس وقت غریبی اور مفلسی کے سائے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں چند ہی اصحاب استطاعت نے حج کی سعادت حاصل کی تھی۔

دوسرا دور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بلاشبہ بیسویں صدی کے آغاز سے تقریباً ۴۰ سال تک (ترقی پسند تحریک کے آغاز سے قبل تک) کو مالیگاؤں کی شاعری (نعتیہ و غزلیہ دونوں) دوسرے دور میں داخل ہو گئی تھی۔ اب مالیگاؤں کے شعراء شمالی ہند سے شائع ہونے والے رسالوں کے مطالعے اور ان میں کلام کی اشاعت کے سبب شاعری کے بدلتے رجحانات، نئے تشبیہ و استعارات اور تعلیم کی روشنی میں نئے خیالات و فکری روش میں تبدیلی کے خوگر ہو گئے تھے۔ اس لئے اس دور کی نعتیہ شاعری حسرت مدینہ اور قیامِ مدینہ کی گفتگو سے آگے بڑھ کر دلی جذبات کی آئینہ دار بن گئی۔ اسی کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے قیام، دینی تعلیمات کے فروغ نے شعراء کے خیالات کو وسعت دی اور وہ نعتیہ شاعری میں آپؐ کی سیرت و کردار کے واقعات بھی نظم کرنے لگے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ حسرتِ دیدار اور زادِ سفر کی مشکلات کا ذکر بھی نعت رسولؐ میں اپنی جگہ قائم رہا۔ یہ اشعار دیکھئے:

بخش دینے کو ہے اللہ کی رحمت اچھی

بخشوانے کو ہے حضرت کی شفاعت اچھی

آپ دکھلا دیں اگر پرتو عارض اپنا

تب میں جانوں گا میں اچھا مری قسمت اچھی

(حافظ مراد)

ہر شئے میں تیرے نور کا جلوہ ہے یا نبی

موسیٰ نہیں کہ طور سے ہو لَو لگی ہوئی

تشنہ ہوں عشقِ چشمِ جنابِ رسول کا

مرقد میں کیوں نہ آنکھ ہو میری کھلی ہوئی

بندگی کا ہے مزہ جب کہ ہو اُلفت تیری

بے نمک کھانے میں آتی نہیں لذت اچھی

ساری مخلوق ہوئی آپ کے باعث پیدا

سارے نبیوں سے ملی تم کو رسالت اچھی

مقصدؔ ہمارے شعروں سے آتی ہے بوئے مشک

مصروف وصفِ زُلف میں ہم صبح و شام ہیں

(مولانا اسحق مقصدؔ )

یہ نعتیہ اشعار واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کرتے ہین کہ دینی مدارس، دینی تعلیم اور اخبارات و رسائل اور کتابوں کے مطالعے نے شعراء کے خیال و فکر کو نئی جہتیں عطا کیں اور انھوں نے نعت میں آپ کے زلف و رخسار، شفاعت کے یقین کو نظم کرنے کے ساتھ ساتھ صنائع کا بھی برمحل استعمال کیا ہے۔ ’’بے نمک کھانے میں آتی نہیں لذت اچھی‘‘ اور ’’مقصد ہمارے شعروں سے آتی ہے بوئے مشک‘‘ اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے تیسری دہائی تک نعتیہ شاعری کا کینوس بھی وسیع ہو گیا تھا۔

تیسرا دور[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۹۳۶ء سے ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ اس تحریک سے نوجوان نسل میں سرمایہ داروں سے نفرت کے ساتھ خدا بیزاری کی لہر بھی چل پڑی تھی اور علامہ اقبال کو بھی کہنا پڑا تھا کہ:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

ایک طرف اردو نثر و نظم میں شدت پسندی، خدا بیزاری کے ساتھ غریبی مفلسی کا رونا، روٹی، کپڑا مکان کی ضرورت خاص موضوع بن رہے تھے تو دوسری طرف دین پسند شعراء و ادباء نے مذہبی اور اخلاقی قدروں کی حفاظت کی بھرپور کوشش کی اور حمدو نعت کے دامن کو ایک وسیع منظرنامے میں بدل دیا۔ اسی کے ساتھ اخلاقی اقدار اور سماجی، معاشرتی و تہذیبی ورثے کی حفاظت میں نظم اور مضامین لکھے جانے لگے۔ اس دور میں تعلیم کا دائرہ بھی وسیع ہو گیا تھا۔ برصغیر کے عوام انگریزی تعلیم کی طرف راغب ہو رہے تھے۔ سائنسی ترقی نے ملکوں شہروں کو ایک دوسرے کے قریب تر کر دیا تھا۔ا س کا اثر مالیگاؤں کی نعتیہ شاعری پر بھی ظاہر ہوا۔ اس دور کے شعراء دینی اور عصری درس گاہوں سے جڑے ہوئے تھے اس لئے اب نعت کے مضامین میں بھی تنوع اور نیا پن آ گیا تھا۔ اس دور میں بھی نعت و حمد کم کم کہی جاتی تھی مگر دینی مدارس سے جڑے ہوئے علماء اور اہل علم حضرات نے نعتیہ شاعری اور اخلاقی، سماجی، تہذیبی اور ملکی و ملّی مسائل کو اپنی غزل، نظم اور نعت و حمد کا موضوع بنایا۔

ایسے لوگوں میں محمد یوسف عزیزؔ ، مولانا جمال الدین لبیبؔ ، مولانا عبدالمجید وحیدؔ ، منشی سراج الدین سراجؔ شامل ہیں۔ عقیل رحمانی، منشی سراج اور محمد نذیر تابش ایسے شعراء ہیں جنھوں نے نعت کے سوا کسی اور صنف کو ہاتھ نہیں لگایا۔ زائر حرم عقیل رحمانی (متوفی ۱۹۷۷ء) کے پانچ نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔ (۱)نوائے عجم ۱۹۶۲ء ،(۲)شاہنامۂ حرمین ۱۹۶۶ء، (۳)جلوۂ فاراں ۱۹۶۸ء ،(۴)گلبانگ حجاز ۱۹۶۸ء ،(۵)گلزارِ حرم ۱۹۷۲ء۔ محمد نذیر تابش (متوفی ۲۰۱۵ء) کا نعتیہ مجموعہ ’’متاعِ تابش‘‘ ۱۱ ۰ ۲ ء میں شائع ہوا۔

متاع تابش کی شاعری ۱۹۴۰ء سے ۱۹۶۰ء کے درمیان کے حالات کے پس منظر میں کی جانے والی شاعری تھی۔ اس دورانیے میں مالیگاؤں میں کئی پریس جاری ہو چکے تھے مگر شعراء نے اپنے کلام کی اشاعت میں دلچسپی نہیں لی۔ خدا بھلا کرے ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب کا جنھوں نے ’’شعرائے مالیگاؤں‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر تمام شعراء کے غزلیہ و نعتیہ اشعار کو یکجا کر دیا۔ ذیل میں زائر حرم عقیل رحمانی اور تابش مالیگانوی کا کلام نمونتاً پیش خدمت ہے:

لوٹ آیا مدینے سے یہ قسمت کا ستم ہے

جاں کیوں نہ فدا ہو گئی اس بات کا غم ہے

انوار ہی انوار نظر آتے ہیں واللہ

جن آنکھوں میں سرمے کے عوض خاکِ حرم ہے

تم ہو عقیلِ زار کے آقا ، اتنا کرم ہو جائے خدارا

دور ہو اس کا ضعفِ بصارت صلی اللہ علیہ وسلم

(عقیلؔ رحمانی مرحوم)


ان کی بتلائی ہوئی راہ سے ہٹ کر مت چل

ان کی ہر بات کو مضبوطی سے پکڑے رہنا

اک ایسے رہ نما آئے اک ایسے شہ سوار آئے

ہزاروں سال کی منزل جو پل بھر میں گذار آئے

رحیمی ہو تو ایسی ہو کریمی ہو تو ایسی ہو

عزیزوں، دوستوں کیا دشمنوں پر جس کو پیار آئے

شب اسریٰ نمازوں کی کمی بیشی بہانہ تھی

خدا خود چاہتا تھا میرا پیارا بار بار آئے

(محمد نذیر تابش)

یہی وہ دور تھا جس میں ادیب مالیگانوی غزل کی پہچان بنے۔ مسلم نظم کے قافلہ سالار ہوئے۔ سہیل رباعیات کے بادشاہ ہوئے۔ اختر نظم،غزل، رباعی میں باکمال ہوئے۔ ان اساتذہ نے اپنے شاگردوں کی تربیت کے لئے ادبی انجمنیں قائم کیں اور ماہانہ طرحی نشستیں منعقد کی جانے لگیں اور مالیگاؤں برصغیر میں اردو کے محفوظ قلعے کے طور نمایاں ہونے لگا۔ ان اساتذہ نے نعتیں بھی کہیں مگر طرحی مشاعروں کے لئے لیکن ان کی نعتوں میں نیاپن اور بدلتی قدروں، تبدیل ہوتی ہوئی زبان کے اثرات بھی نمایاں تھے۔ مثلاً:

ایک پوشاک میں لاکھ پیوند ہیں

پھر بھی خوش حال ہیں پھر بھی خرسند ہیں

اس کے گھر میں نہیں ایک نانِ جویں

جس کی مٹھی میں دونوں جہاں بند ہیں

(ادیبؔ مالیگانوی)

سبز گنبد کے مکیں تم پو سلام

سرورِ دنیا و دیں تم پر سلام

جسم اطہر نور ، روح پاک نور

جلوۂ شمع یقیں تم پر سلام

(مسلمؔ مالیگانوی)

محمد مصطفی کے آستانے کا گدا ہوں میں

چٹائی لے گئی سبقت مری تخت سلیماں پر

اِسے کہتے ہیں اُلفت جو اویسؓ باصفا نے کی

کئے قربان دنداں اپنے سب حضرت کے دنداں پر

(منشی سراجؔ)

پئے تبلیغ دین حق امام المرسلیں آمد

گنہ گارانِ امت را شفیع المذنبیں آمد

بجاباشد اگر غارِ حرا نازد بجاہ خود

کہ آں جا وحئ اوّل بر امام المرسلیں آمد

(مولانا جمال الدین لبیبؔ)

ان تمام شعراء میں ادیب مالیگانوی مرحوم جو غزل کے امام تھے۔ جن کی شاعری میں گل و بلبل، جام و مینا، امیری غریبی، ناصح و محتسب جیسے استعاروں کے ساتھ نئی شاعری کی آہٹ بھی تھی۔

احساسِ عمل کی چنگاری جس دل میں فروزاں ہوتی ہے

اس لب کا تبسم ہیرا ہے اس آنکھ کا آنسو موتی ہے

ہم نے تو کبھی دیکھا ہی نہیں، تم کو ہے خبر دنیا والو

دن کیسے اچھے آتے ہیں رخ قسمت کیسے پلٹتی ہے؟

رکھ کے سر اُن کے آستانے پر

عشق ہنستا رہا زمانے پر

ادیب صاحب کی غزل نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ ان کے ترنم میں گھل کر سا رے ہندوستان میں پھیل گئی اور وہ آل انڈیا مشاعروں کے مقبول و کامیاب شاعر بن گئے۔ سارے برصغیر میں مشاعروں کے توسط سے انھوں نے بدلتی شاعری، عوام کے بدلتے رجحان کو دیکھا، سمجھا، پرکھا اور اسے اپنی شاعری میں برتا۔

ڈاکٹر اشفاق انجم کی شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر اشفاق انجم نے ایسے ہی شعراء اور ایسے ہی ادبی ماحول میں اپنا شعری سفر شروع کیا اور حضرت ادیب کی شاگردی اختیار کی۔ کچھ اشفاق انجم کا میلان طبع، کچھ حضرت ادیب مالیگانوی کی تربیت و اصلاح اور ترقی پسند تحریک کا عروج ساتھ ہی جدید شاعری کی گرم خشک ہوائیں، ان تمام عوامل نے انجم صاحب کی شاعری پر نمایاں اثر مرتب کئے اور انھوں نے اس طرح کے اشعار کہے:

دھوپ چڑھتی چلی آتی ہے بچالو مجھ کو

اپنے پیکر میں ذرا دیر چھپا لو مجھ کو

میں یہاں آیا ہوں تہذیب کا پیکر بن کر

گر سنبھلنا ہے تمہیں پہلے سنبھالو مجھ کو

جدید شاعری نے جب ترقی پسند شاعری پر ’’شب خون‘‘ مارا تو اس کا اثر انجم صاحب پر بھی پڑا۔ مگر انھوں نے لایعنی اشعار کہنے کی بجائے قدیم غزل کے مطالعے، ترقی پسند غزل کے انقلاب کے نعرے اور جدید شاعری کے صحرا اور کوہساروں سے ملا جلا ایک انفرادی لہجہ اپنایا جو فیض احمد فیض کی رومانیت، جاں نثار اختر کی غنائیت، احمد فراز کی عاشقی سے مل کر بنتا ہے۔

چراغ بن کر جلا کروں میں

ترے لئے اور کیا کروں میں

تم اپنی زلفوں میں رات باندھو

سحر کی خاطر دعا کروں میں

انجم صاحب کے نئے اسلوب (جدیدیت اور روایت کے آمیزے) کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ محرم الحرام کے ایام میں ایک غیر طرحی مسالمے میں انجم صاحب بھی شریک ہوئے اور سلام پڑھا۔ جس کا مطلع آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔

اک نظر دیکھ کے کہہ دیتا جو پیاسا پانی

آسمانوں سے کئی روز برستا پانی

شاعری اور ادب کی دیگر اصناف کے ساتھ تنقیدی مضامین بھی ان کے سب سے جدا طرز کے ہوتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انھوں نے بچپن سے جوانی کا تمام زمانہ شہر کے تعلیم یافتہ اور عمر دراز و جہاں دیدہ بزرگوں کے ساتھ گذارا ان سے چھیڑ چھیڑ کر ادبی اصطلاحات، فنی اصول و ضوابط پر بحث کی۔ اسی کے ساتھ ہر وقت کچھ نیا کرنے کی دھن، ترقی کرنے، علم میں اضافہ کرنے کے شوق نے انھیں ادبی، تعلیمی میدان میں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا حالانکہ بی اے، بی ایڈ کر کے وہ ایک مقامی ہائی اسکول میں معلم ہو گئے تھے مگر پیشہ معلمی سے جڑے رہنے کے ساتھ ہی ایم اے کیا۔ ’’تذکرہ شعرائے مالیگاؤں‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مہاراجہ سیاجی گائیکواڑ کالج مالیگاؤں میں لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہوا، ریڈر اور ہیڈ آف اردو پرشین ڈپارٹمنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پونہ یونیورسٹی میں اردو پرشین عربک بورڈ آف اسٹڈیز کے چیئرمن رہے ۔ اس دوران آپ کی رہنمائی میں کئی اسکالرز نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آج بھی اتر مہاراشٹر یونیورسٹی جلگاؤں میں ریسرچ گائیڈ ہیں اور سینئر نائٹ کالج مالیگاؤں میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرتے ہوئے ان کے اندر ایک نئے اشفاق انجم نے کروٹ لی اور انھوں نے صوفی ازم کا مطالعہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے مالیگاؤں کے نقش بندی، چشتی سلسلے کے بزرگ اور پیر طریقت صوفی نورالہدیٰؒ سے بیعت ہوئے۔ کالج کے اوقات سے فراغت کے بعد فرصت کے اوقات میں صوفی صاحبؒ اور دیگر علماء و مشائخ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ صوفی صاحب سے تصوف کی باریکیوں کو جاننے کی کوشش کی۔ سلوک کی کئی منزلیں طے کیں۔ اس طرح ان کی دنیا ہی بدل گئی۔ باطن کے ساتھ ظاہری وضع قطع بھی تبدیل ہو گئی۔ اس کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا۔ انھوں نے نعت کی پُربہار وادی میں قدم رکھا اور چند برسوں میں ہی ’’صلو علیہ وآلہٖ‘‘ نامی نعتیہ مجموعہ شائع ہو گیا۔ اس کے بعد ’’چراغِ معرفت‘‘ کے نام سے ان کے پیرومرشد و بزرگ صوفی نورالہدیٰؒ کے مختصر حالاتِ زندگی بھی منظر عام پر آئے۔

انجم صاحب نے دورانِ تحقیق جب شعرائے مالیگاؤں کا مطالعہ کیا تو ان کے شعری محاسن اور فن و زبان کی کمزوریوں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ان کا تجزیہ کیا۔ شعراء کے گھریلو، سماجی، معاشرتی، تعلیمی پس منظر میں اُن کی شاعری کا جائزہ لیا۔ اس محنت شاقہ کا اثر یہ ہوا کہ اُن کے اندر یہ شعور بیدار ہوا کہ شعر کیسے ہونے چاہئیں؟ اس پس منظر میں جب ہم ان کی نعتوں کے مجموعے ’’صلو علیہ وآلہٖ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس چیز کو نعت کے منافی سمجھتے ہیں خود بھی اس سے حتی الامکان اجتناب کرتے ہیں۔ ’’نعت رنگ‘‘ (پاکستان، شمارہ نمبر ۲۲) میں ان کا مضمون ’’نعت میں ضمائر کا استعمال‘‘ شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے لئے ضمائر کے استعمال پر بحث کی ہے۔ اس بات کو انھوں نے اپنے مجموعہ کے پیش لفظ میں بھی مختصراً ذکر کیا ہے اور آپ کے تعلق سے ضمائر کے استعمال میں خود بھی بے حد احتیاط سے کام لیا ہے۔ ذیل کے اشعار اس کی عمدہ مثالیں ہیں جن میں ذہن میں آنے والا جواب اور لفظ بھی ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ ہی ہوتا ہے۔

کس کے لئے وجود میں آئی ہے کائنات

اس دائرے کا نقطۂ پرکار کون ہے ؟

اک پل میں دو جہان کے رستے سمٹ گئے

توسن ہے کیسا ؟ صاحب رہوار کون ہے ؟

درج ذیل اشعار میں بھی ضمیر غائب میں ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ کا ہی محل صاف نظر آتا ہے

حضور سامنے ہوں اور (آپ) جان نذر کروں

یہ التجا ، یہ تمنا ، یہ خواب ہے اللہ

محسوس ہو رہے ہیں (آپ) رگِ جاں سے بھی قریب

دیدار کر رہا ہوں خدا کی کتاب میں

ڈاکٹر اشفاق انجم نے جہاں حضور کے لئے ضمیر ’’آپ‘‘ استعمال کی ہے وہیں یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ انھوں نے ازراہِ ادب حضورکے اسمائے مبارکہ بھی نظم کرنے سے گریز کیا ہے۔ بیشتر انھوں نے ’’رسول کریم، نبی، حضور‘‘ جیسے القاب و خطابات پر اکتفا کی ہے اور ان کی اس شعوری کوشش نے ان کے کلام کو ایک نئے اسلوب اور جہت سے آشنا کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

اعزاز یہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہوا

پھر کوئی آسمان میں داخل نہیں ہوا

سورج زمین چاند فلک بلکہ کائنات

کوئی مرے نبی کے مماثل نہیں ہوا

پھولوں کا حسن رنگوں کی بوچھار کون ہے

آ ! دیکھ تو سہی پسِ دیوار کون ہے

اس کو بھی بخشا جس نے کلیجہ چبا لیا

دنیا میں ایسا صاحبِ ایثار کون ہے

پلک نہ جھپکی اس کے آگے اک لمحہ

آنکھیں ایسی ، ایسی بصارت کس کی ہے

بدن میں چاند کی تشکیل کر رہا ہوں میں

درود روح میں تحلیل کر رہا ہوں میں

لگا کے پائے مقدس کی خاک آنکھوں میں

چراغِ مردہ کو قندیل کر رہا ہوں میں

نبی نے دستِ کرم اس قدر کشادہ کیا

زمیں تو خیر ، فلک نے بھی استفادہ کیا

یہ طور و جلوہ نہیں کرسی و حضوری ہے

یہاں چراغ نے سورج سے استفادہ کیا

تہذیب و تمدن کا چشمہ پھوٹا ہے عرب کے صحرا سے

یہ حسن ثقافت حسنِ جہاں صدقہ ہے مرے صحرائی کا

دیکھا نہ چشم گرم سے رحمت پناہ نے

مہتاب بہہ نکلتا پگھل کے زمین پر

ظلمتوں میں بھنور رکھ دیا

ہر صنم توڑ کر رکھ دیا

سایہ کملی کا پایا جہاں

دھوپ نے اپنا سر رکھ دیا

انجم صاحب کے اس اسلوب یا رویے نے انہیں نئے طرز سے آشنا ہی نہیں کیا بلکہ مضامین کے تنوع کے ساتھ ہی ایسی ایسی زمینوں میں شعر کہنے کی توفیق عطا کی جن میں اب تک نعت کہنے کا کسی کو خیال بھی نہ آیا ہوگا۔ ملاحظہ ہو:

اس حیثیت سے یہاں تک قبول ہے دنیا

مرے رسول کے قدموں کی دھول ہے دنیا

رسولِ اول و آخر میں امتیاز ہے یہ

نبیؐ کا صدقہ ہے آدم کی بھول ہے دنیا

دنیائے دوں نگاہِ رسالت پناہ میں

روشن سا اِک چراغ ہے دستِ گناہ میں

مجھے خواہش نہیں ساری زمیں دے آسماں دیدے

مگر کوئے نبی میں ایک چھوٹا سا مکاں دیدے

کاسہ بکف ہمیں نہیں سرکار پاؤں میں

رکھ دی ہے بادشاہوں نے دستار پاؤں میں

سیہ گلیم پہ مقراضِ نور چلنے لگی

وہ چاند غار سے نکلا تو رات ڈھلنے لگی

شہ مدینہ کے جلوؤں کی آرزو اور میں

گلوں سے چاند ستاروں سے گفتگو اور میں

تمنا پابہ رکاب ہے گناہ زادِ سفر

لرز رہا ہوں کہ روضے کے روبرو اور میں

لپٹ کے دامن اقدس سے خوب رویا جائے

حیا سی آتی ہے یہ حسن آرزو اور میں

ڈاکٹر اشفاق انجم کے اس رویے نے ان کے اسلوب کو ایک اور خوبی سے آشنا کیا کہ انھوں نے نعت میں حمدیہ عناصر کی آمیزش سے ایک عجیب سا حسن پیدا کر دیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

الٰہی ! نور ہو نازل مکان خوشبو دے

پڑھوں درود تو میری زبان خوشبو دے

مرے مولا ! ترے محبوب کی توصیف کرنی ہے

میں عاجز ہوں میں گونگا ہوں مرے منہ میں زباں دیدے

ہم نے تو بس چاند کے ٹکڑے دیکھے ہیں

مالک وہ انگشت شہادت کس کی ہے

مجھے تو حشر میں ان کے حوالے کر دینا

ترے جلال سے اک اضطراب ہے اللہ

اللہ ربِ کریم کے دربار میں حاضری اور سرکارِ دو عالم کے در پر نذرانۂ درود و سلام کی سعادت حاصل کرنا ہر مسلمان کی تمنا و خواہش ہے۔ یہی کچھ جذبات و احساسات یقیناًانجم صاحب کے دل میں بھی ابتداء سے ہی رہے ہوں گے۔ صوفی صاحب سے بیعت ہو جانے کے بعد ان میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔ حرمین پہنچنے کی حسرت انھیں بے چین کرنے لگی۔ اسی کے ساتھ غزل گوئی کا مزاج، اس خواہش اور محرومی نے انھیں نعت گوئی پر آمادہ کیا اور وہ اپنی خواہش، اپنے جذبات و احساسات اور خیالات و اشعار کی صورت میں اللہ اور اس کے حبیبؐ کے حضور پیش کرنے لگے۔ ان اشعار میں بھی وہی تمام روایتی باتیں ہیں لیکن دلکش اسلوب اور علامات و استعارے کے خوبصورت استعمال سے ان کے اشعار میں ندرت کے ساتھ ساتھ دل آویزی بھی پیدا ہو گئی ہے۔

آپ کے ہجر میں یوں آنکھ سے آنسو نکلے

جیسے ظلمت میں چمکتے ہوئے جگنو نکلے

نبی کے ہجر میں ایسے اداس رہتا ہوں

قفس میں جیسے پرندہ دکھائی دیتا ہے

ظلمتوں میں بھنور رکھ دیا

ہر صنم توڑ کر رکھ دیا

میں یہاں دل مدینے میں ہے

درمیاں میں سفر رکھ دیا

جب کہا یا محمد مدد

بادباں پر بھنور رکھ دیا

درج بالا اشعار سے جہاں ان کے جذبات کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی حسرتوں، تمناؤں اور محرومیوں کا احساس ہوتا ہے۔ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاعری کے تبدیل ہوتے منظر نامے، بدلتے اسلوب نے ان کی نعتیہ شاعری کو ایک نیا پن نیا طرز بیان دیا اور نئی جہتوں میں قدم بڑھانے میں بڑی مدد کی ہے۔ جس طرح سلیم کوثر، افتخار عارف اور منور رانا نے نعت میں جدید لفظیات تشبیہہ و استعارے کے ساتھ ایک نیا انداز بیان اختیار کیا ہے۔ مثلاً سلیم کوثر کے یہ شعر:

اس کی خوشبو سے معطر ہے مرا گھر سارا

آپ کے شہر سے اک آدمی آیا ہوا ہے

دیوار پہ لکھا تھا کبھی نامِ محمد

اب تک ہے اُجالوں کا بسیرا مرے گھر میں

نبی کا ذکر کرو اور راستے میں رہو

درود پڑھتے رہو اور رابطے میں رہو

افتخار عارف کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:

مدحتِ شافعِ محشر پہ مقدر رکھا

میرے مالک نے مرے بخت کو یارو رکھا

میں نے خاکِ درِ حسان کو سرمہ جانا

اور ایک ایک سبق نعت کا ازبر رکھا

منور رانا کے بھی چند شعر بطور مثال پیش ہیں:

ہاں مجھ کو سزا دینے کیلئے تو چھین لے ایک اک چیز مگر

ہونٹوں پہ محمد رہنے دے آنکھوں میں مدینہ رہنے دے

ایک لمحے کی بھی چھٹی نہ مدینے میں ملے

قید ہو جاؤں تو کنجی نہ مدینے میں ملے

جس طرف آنکھ اُٹھاؤں ترے جلوے مل جائیں

چاہے اک پھول کی پتی نہ مدینے میں ملے

جدید شاعری کی انھیں خنک اور تازہ ہواؤں میں انجم صاحب نے بھی اپنے دل کے درد کو روشن کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔

حضور دید کی خواہش ہے ، اور چراغِ حیات

ہوا کے رخ پہ سرِ رہ گذار رکھتے ہیں

بس ایک شب کا بسیرا نصیب ہو جائے

جہاں اُترتے ہیں تاروں کے قافلے آقا

پرو دیا ہر اِک انساں کو ملکِ وحدت میں

تمام بکھرے قبیلوں کو خانوادہ کیا

یہ طور و جلوہ نہیں کرسی و حضوری ہے

یہاں چراغ نے سورج سے استفادہ کیا

مسکراتا رہا تازہ رہا ہر موسم میں

دل تھا یا سینۂ اطہر میں گلِ تر رکھا

اردو کی شیرینی اور لطافت میں جدید شاعری کی نئی لفظیات نے جہاں اضافہ کیا وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مابعد جدیدیت کے نام پر:

سورج کو چونچ میں لئے مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کے پردے کھینچ دیئے رات ہو گئی

اس قسم کی شاعری اور اس سے کہیں زیادہ بے معنی یا معماتی شاعری بھی ہو رہی ہے۔ اس کا اثر نعت گوئی پر بھی پڑا اور سلیم شہزاد کو اس طرح کا نعت کا شعر کہنا پڑا:

حطب ، حمالہ ، گردن ، مونج رسی

حصار حاویہ میں بوالہب ہے

مانا کہ یہ سورۂ لہب سے استفادہ ہے مگر عام قاری کی پہنچ سے دور ہے۔ ایسی نعتیہ شاعری کے ساتھ مالیگاؤں میں روایتی انداز کی نعت بھی کہی جاتی رہی جو شاعر (متشاعر) کے گلے اور ترنم کے باعث قبولِ عام کی منزل میں ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ایسی روایتی نعتوں میں سچے جذبوں کی اثر پذیری اور آنکھوں میں نمی لے آنے کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ بقول ڈاکٹر ہارون فرازؔ :

’’اردو نعت گوئی میں اسلوب کی یکسانیت بہت واضح ہے جب کہ عہد حاضر کا جدید ذہن آج کچھ نیا پن چاہتا ہے۔ طرزِ بیان اور فکر کے نئے آفاق کا خواہش مند ہے۔ ’’صلو علیہ وآلہٖ‘‘ میں جدید علامات، تشبیہات اور استعارات کے سبب تازگی، نئے پن اور نئی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ نئی غزل کے معتبر شاعر ڈاکٹر اشفاق انجم نے جب تصوف کی مقدس وادی میں قدم رکھا تو نعت گوئی پر بھی بھرپور توجہ دی۔اس لئے ان کے یہاں طرزِ ادا کا انوکھا پن بھی ہے اور سلیقہ مندی بھی، ان کے یہاں عاشق کا سوز، عشق کی سر مستی و بے خودی ضرور ہے مگر شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ اس کا شعور ہر وقت بیدار رہتا ہے اس لئے قلم کو کہیں لغزش نہیں ہونے پاتی اور یہی نعت گوئی کی پہلی شرط ہے۔‘‘ ۱؂ اس پس منظر میں درج ذیل اشعار ڈاکٹر ہارون فراز کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں:

معجزہ ہے یہ درود و نالۂ شب گیر کا

ہو گیا ہے موم ہر حلقہ مری زنجیر کا

روضۂ اقدس پہ دل گم ، عقل گم ، آواز بند

آنسوؤں کے بیچ موقعہ تھا کہاں تقریر کا

ناز ہے مجھ کو ، نبی کے حلقۂ بیعت میں ہوں

بس کہ احساں مند ہوں اشفاق اپنے پیر کا

مجھے بھی شوق ہے معراج پر پہنچنے کا

رخِ رسول کے دیدار کی تمنا ہے

جگر میں درد ہے آنکھیں لہولہان مگر

مرض شدید ہو بیمار کی تمنا ہے

میں آسماں کے تلے جل رہا ہوں برسوں سے

حضور سایۂ دیوار کی تمنا ہے

آج نعتیہ شاعری بھی دو قسم کی ہو گئی ہے۔ ایک مشاعرے اور ترنم سے پڑھی جانے والی نعتیہ شاعری۔ دوسری کتابوں، رسالوں میں شائع ہونے والی نعتیہ شاعری۔ اس فرق کو سمجھنے کے لئے یوں سمجھئے مشاعروں اور ترنم والی شاعری میں سیرت کے چند مخصوس اور کچھ ضعیف احادیث سے ماخوذ واقعات ہی نظم کئے جاتے ہیں جو عوام کے ذہن پر فوراً اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف رسالوں اور کتابوں کی شاعری میں سیرت کے اچھوتے واقعات، معجزات اور کردار کو پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس پس منظر میں ہم اشفاق انجم کی نعتیہ شاعری کا مطالعہ کریں گے تو درج ذیل عنوانات کے تحت نعتیہ شاعری کی انفرادیت نمایاں ہوگی۔معراج پر لاکھوں اشعار کہے جا چکے ہیں اشفاق انجمؔ کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

ہو سلسلۂ کاہکشاں یا مہ و انجم

سرکار کا نقش کف پا جاگ رہا ہے

مجھے بھی شوق ہے معراج پر پہنچنے کا

رُخِ رسول کے دیدار کی تمنا ہے

کون پہنچا عشق کی معراج تک

یہ شرف کس کا ملا صلی علیٰ

اک پل میں دو جہان کے رستے سمٹ گئے

توسن ہے کیسا ؟ صاحب رہوار کون ہے ؟

معراج کی شب ہے صل علیٰ تو مانگ لے جو کچھ مانگ سکے

یہ رات وصالِ یار کی ہے موقع ہے سخن آرائی کا

مدینہ جانے کی حسرت، گنبد خضریٰ اور روضۂ اقدس پر حاضری، اپنی بے بسی، بے سروسامانی، عشق رسول جیسے عنوانات ہر اردو شاعر، چاہے اس نے نعتیں کم ہی کہی ہوں، سب کے یہاں ملتے ہیں مگر وہی سادے انداز میں ’’لگا دیں گے بستر درِ مصطفی پر‘‘، ’’کاش میں روضۂ اقدس کا کبوتر ہوتا‘‘، ’’خاکِ پا چوم لوں حسرت ہی رہی‘‘، ’’عشق میں آپ کے مرجانے کو جی چاہتا ہے‘‘تقریباً ہر شاعر کی نعت میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہی مفہوم ملتا ہے۔ اس کے برخلاف جب ہم اشفاق انجم کی نعتیہ شاعری میں تلاش کرتے ہیں تو یہی حسرت، بے کسی، بے سروسامانی، آپ سے دوری کے و ا قعا ت نئی لفظیات کے ساتھ انوکھے انداز میں سامنے آتے ہیں جو نہ صرف دل کو چھو جاتے ہیں بلکہ ذہن میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند شعر دیکھئے:

آنکھوں کی تسلی کیا کہئے محرومِ غبارِ راہ سے ہے

دل ٹوٹ نہ جائے انجم کا اس عاشق کا سودائی کا

پہنچا دے کوئی مجھ کو نبی کی جناب میں

لکھ دوں گا ساری نیکیاں اس کے حساب میں

زیارت ، زیارت ، زیارت ، زیارت

فقیروں کی انجم یہی اِک صدا ہے

جس کے کنکر ہیرے موتی ، شام و سحر ہیں سونا چاندی

شہر مدینہ ہم کو دکھا دو صلی اللہ علیہ وسلم

میں طوفاں میں گھرا ہوں اور مدینے کا ارادہ ہے

مجھے پتوار دے کشتی کو میری بادباں دیدے

حسرتِ دیدار جب حد سے سوا ہو جائے ہے

بوسہ لے لیتا ہوں انجم روضے کی تصویر کا

دیدار نبی کے روضے کا سرمہ ہے مری بینائی کا

خالی ہے مگر زنبیل مری رونا ہے شکستہ پائی کا

نبیؐ کے عشق میں کچھ ایسا جذب طاری تھا

سفر خلا کا بھی انجم کے پاپیادہ کیا

ہے جن کو حوصلہ کہ پڑھیں گے نمازِ عشق

خاکِ درِ رسول سے پہلے وضو کریں

اس تمنا میں تڑپتا ہوں مرا جاتا ہوں

جاگتی آنکھوں سے میں گنبد خضریٰ دیکھوں

اس وقت لطف ملتا ہے عشقِ رسول میں

آنکھیں لہو فشاں رہیں سینہ جلا کرے

سلیم کوثر کی ایک مختصر سی نظم ہے جس میں انہوں نے مدینہ میں زندگی گذارنے اور وہیں مر جانے کی آرزو بیان کی ہے جو جدت اور ندرت میں اپنی مثال آپ ہے۔

اے کاش مدینہ جاؤں کبھی

کوئی ایسا کام نکل آئے

جو صرف مجھی کو آتا ہو

جو صرف مجھی کو کرنا ہو

وہی کرتے کرتے جینا ہو

وہی کرتے کرتے مرنا ہو

اے کاش مدینہ جاؤں کبھی

انھیں آرزوؤں کا اظہار انجم صاحب نے بھی بالکل اچھوتے انداز میں کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح لفظوں میں اپنی دلی کیفیات کو بیان کیا ہے کہ وہ کیفیات سب کے دل کی آواز معلوم ہونے لگتی ہیں۔

حضور سامنے ہوں اور جان نذر کروں

یہ التجا یہ تمنا یہ خواب ہے اللہ

ملا کے خاکِ مدینہ میں سرخرو کر دے

یہاں غلام کی مٹی خراب ہے اللہ

ممکن نہیں پر ایک تمنا ہے کیا کروں

دو گز زمین چاہئے سرکار پاؤں میں

نعت گوئی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اشعار میں اپنی اور مسلمانوں کی حالتِ زار بیان کر کے آپ سے دعا کی گذارش، شفاعت کی تمنا اور پستی و بربادی کا منظر آپ کے حضور پیش کیا جائے جس کی اولین مثال ہے مولانا حالی کی ’’اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے‘‘ اس کی اتباع میں شعرائے کرام نے بھی آپ کے حضور استغاثہ پیش کیا ہے مگر اس میں اکثر نے آپ کو (نعوذ باللہ) اللہ کے اوتار کا درجہ دے دیا ہے۔ مگر اس طرح کی فریاد میں بھی انجم صاحب نے بے حد احتیاط سے کام لیا ہے۔ ’’فریاد‘‘ کے عنوان سے انجم صاحب کی نظم کے کے کچھ شعر ملاحظہ ہوں:

حضور ملت بکھر رہی ہے ، ہماری صورت بگڑ رہی ہے

سیاہی آنکھوں میں پھر رہی ہے دلوں کی دنیا اجڑ رہی ہے

حضورؐ ظلمت کی کیا شکایت ہے روشنی روشنی کی دشمن

لہو خود اپنے لہو کا پیاسا ہے زندگی زندگی کی دشمن

چمکتے گنبد ہیں مسجدوں کے منارے بے حد بلند آقا

نمازیوں سے صفیں ہیں خالی تماشے ہیں دل پسند آقا

بھلا کے سب روح کے تقاضے بدن کو علماء سجا رہے ہیں

نمازیں اجرت پہ ہو رہی ہیں امام روزی کما رہے ہیں

امیر دولت میں کھیلتے ہیں غریب و مسکیں ترس رہے ہیں

کہیں لبوں پر گلاب شبنم ، کہیں پہ آنسو برس رہے ہیں

نئے زمانے کی روشنی میں ہماری نسلیں بھٹک رہی ہیں

ردائیں امت کی بیٹیوں کے سروں سے آقا سرک رہی ہیں

غموں سے انجم ہے دل شکستہ خوشی کا کچھ اہتمام آقا

دہائی آقا ، دہائی آقا ، درود آقا ، سلام آقا

اسی کے ساتھ ان اشعار پر بھی غور کیجئے:

کٹیں گے کیسے تمنا کے راستے آقا

چراغ جیسے مرے خواب بجھ گئے آقا

ہر ایک سمت سے یلغار ہے مصیبت کی

میں چھوڑ بیٹھوں نہ امید ، حوصلے آقا

مجھے سنبھالئے میں اس زمین پر ہوں جہاں

رتھوں کے ساتھ ہی چلتے ہیں زلزلے آقا

یہاں سکون میسر نہیں کسی صورت

دیار امن و اماں میں بلائیے آقا

تمام قوم پریشاں ہے صرف میں ہی نہیں

خدا کے واسطے لطف و کرم مرے آقا

ان اشعار میں انجم صاحب نے اپنی اور مسلمانوں کی حالت زار بیان کی ہے اور آپ سے لطف و کرم، مہربانی، شفاعت اور دعا کی ہی گذارش کی ہے۔ اس کے ساتھ انجم صاحب نے حمد اور دعا و مناجات میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے جذبات کو سادے مگر جدید لفظیات اور اسلوب کے ساتھ اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ حمد کے دو تین اشعار ملاحظہ ہوں:

قلم میں رنگ انوکھے کہاں سے آتے ہیں

خیال ذہن کے رستے کہاں سے آتے ہیں

دراز ہے نہ جھروکے ہیں آسمانوں میں

ہوائے خلد کے جھونکے کہاں سے آتے ہیں

دلوں میں پیار کے جذبات کون بھرتا ہے

یہ ماہ تاب سے چہرے کہاں سے آتے ہیں

’’صدف‘‘ میں کون پروتا ہے خوش نما موتی

’’گلاب جیسے فرشتے‘‘ کہاں سے آتے ہیں

اسی طرح مناجات کے یہ اشعار بھی اپنے آپ میں ایک زمانے کے درد کو سمیٹے ہوئے ہیں۔

خوابوں کی تعبیر دکھا دے اللہ سائیں

یا ان کو زنجیر پنہا دے اللہ سائیں

میرے گھر میں کچھ کرنیں تو آ جائیں گی

ہمسایوں کے دیپ جلا دے اللہ سائیں

میرے اندر ویرانی سی ویرانی ہے

تو چاہے تو سورگ بنا دے اللہ سائیں

انجم کا دل رکھ لے ورنہ ڈر لگتا ہے

دیواروں سے سر ٹکرا دے اللہ سائیں

نئے اسلوب، جدید لفظیات، دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے الفاظ، اظہار کا انوکھا انداز، یہ اور ایسی بہت سی باتیں اشفاق انجم کی نعتیہ شاعری کے خصوصیات کہی جا سکتی ہیں۔صلو علیہ وآلہٖ،د راصل اطاعت الٰہی، عشق رسول اور راہِ سلوک کے راہی کے دل کی آواز ہے جو صفحۂ قرطاس پر آنے کے بعد ہر دل کی آواز بن جاتی ہے کیوں کہ اشفاق انجم کی نعتیہ شاعری حمدو نعت کے مروجہ راستے سے جدا اور مشاعروں کی نعتیہ شاعری سے پرے سچے اظہار کی شاعری ہے۔ اس سلسلے میں میں مزید کچھ نہ کہتے ہوئے صلو علیہ وآلہٖ میں شامل بشر نواز (اورنگ آباد دکن) کے مضمون ’’پل صراط‘‘ کے اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ بشر نواز صاحب تحریر فرماتے ہیں:

’’اشفاق انجم بیسویں صدی کے چھٹے اور ساتویں دہے کے درمیان اپنی شناخت بنانے والے شعراء میں شامل ہیں۔ ان شعراء میں لسانی او رہیئتی تجربوں کی جسارت بھی تھی۔۔۔۔۔ اشفاق انجم کی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے اس دور میں بھی اپنے آپ کو’’تنقیدی ترغیبات‘‘ سے بچائے رکھا اور غیر ضروری تجربوں یا زبان و بیان سے چھیڑ چھاڑ کی بجائے اپنے سچے اظہار پر توجہ مرکوز رکھی۔ چنانچہ ان کے یہاں روایت کے احترام اور تجربے کی ضرورت کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جو اچھی شاعری کی اولین شرط ہے۔ اپنی ذہنی تربیت، احترام روایت ہی کی وجہ سے ان کے یہاں شروع سے ہی دعائیہ اور حمدیہ لہجے کی جھلکیاں ملتی ہیں جو ۸۵۔۸۰ء کے بعد نئی غزل میں زیادہ روشن ہوا۔

زیر نظر نعتیہ کلام کو میں اسی رجحان کی توسیع سمجھتا ہوں۔ا شفاق انجم مذہبی اور علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہب سے لگاؤ، عشق رسول اور اطاعت الٰہی اس خانوادے کے مزاج میں شامل ہے۔ اشفاق انجم نے یہ تمام اثرات شعوری اور غیر شعوری ہر دو طرح سے قبول کئے۔۔۔۔۔ اردو کی نعتیہ شاعری میں عام طور پر غزل کا رنگ غالب آ جاتا ہے اور شاعر غزل کے محبوب کی طرح حضورؐ کے حسن و جمال پر اکتفا کرنے لگتا ہے۔۔۔۔ اشفاق انجم نے نعت گوئی کی اس عمومی اور بڑی حد تک سطحی روش سے ہٹ کر اپنی راہ نکالی ہے۔ انھوں نے حضور اکرمؐ کے حسن و جمال سے زیادہ ان کے اسوۂ حسنہ پر توجہ دی ہے۔۔۔۔ میں خصوصی طور پر اس طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ اشفاق انجم کی نعتیں سراپا نگاری سے زیادہ کردار نگاری کی حامل ہیں۔‘‘

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ڈاکٹر ہارون فراز، صلو علیہ وآلہٖ، ٹائٹل فلیپ

۲۔بشر نواز، دیباچہ صلو علیہ وآلہٖ، مطبوعہ ۲۰۰۱ء