عبد الستار نیازی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

نمونہ کلام

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا

بے کس کا آسرا ہے مدینہ حضور کا


پھر جا رہے ہیں اہل محبت کے قافلے

پھر یاد آ رہا ہے مدینہ حضور کا


تسکین جاں ہے راحت دل وجہ انبساط

ہر درد کی دوا ہے مدینہ حضور کا


نبیوں میں جیسے افضل و اعلی ہیں مصطفی

شہروں میں بادشاہ ہے مدینہ حضور کا


ہے رنگ نور جس نے دیا دو جہان کو

وہ نور کا دیا ہے مدینہ حضور کا


جب سے قدم پڑے ہیں رسالت مآب کے

جنت بنا ہوا ہے مدینہ حضور کا


قدسی بھی چومتے ہیں ادب سے یہاں کی خاک

قسمت پہ جھومتا ہے مدینہ حضور کا


ہر ذرہ ذرہ اپنی جگہ ماہتاب ہے

کیا جگمگا رہا ہے مدینہ حضور کا


ہو ناز کیوں نہ اس کو نیازی نصیب پر

جس کو بھی مل گیا ہے مدینہ حضور کا


ایسا طالب کوئی نہیں ہے ، جیسا حق تعالی ہے

ایسا طالب کوئی نہیں ہے، جیسا حق تعالی ہے

کوئی نہیں محبوب ایسا، جیسا کملی والا ہے


طہ کا سرتاج سجا ہے دوش پہ نور کا ہالہ ہے

آنکھوں میں مازاغ کا کجلا آپ خدا نے ڈالا ہے


دنیا کہتی ہے یہ حلیمہ تو نے نبیﷺ کو پالا ہے

میں کہتا ہوں تجھ کو حلیمہ میرے نبیﷺ نے پالا ہے


اپنی بخشش ، اپنی بھلائی کا یہ کام نکالا ہے

اپنے نبیﷺ کے گن گاتے ہیں جب سے ہوش سنبھلا ہے


دیکھنے والوں نے دیکھا ہے وہ بھی منظر آنکھوں سے

ستر پینے والے ہیں اور ودھ کا ایک پیالہ ہے


کون ہے جس نے پائی نہیں ہے عزت عظمت اس در سے

اس در کی تم بات نہ پوچھو وہ در سب سے اعلی ہے


جگمگ جگمگ ذرہ ذرہ روشن گوشہ گوشہ ہے

آمنہ بی بی کے چاند کا صدقہ گھر گھر نور اجالا ہے


کوئی نہیں غم توڑ لے رشتے مجھ سے نیازی یہ دنیا

میرا والی میرا آقا شہر مدینے والا ہے


اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا جو کرم مجھ پہ میرے نبیﷺ کر دیا

اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا جو کرم مجھ پہ میرے نبیﷺ کر دیا

میں سجاتا تھا سرکار کی محفلیں مجھ کو ہر غم سے رب نے بری کر دیا


ذکر سرکار کی ہیں بڑی برکتیں مل گئیں راحتیں عظمتیں رفعتیں

میں گنگار تھا بے عمل تھا مگر مصطفیﷺ نے مجھے جنتی کر دیا


لمحہ لمحہ ہے مجھ پر نبیﷺ کی عطا دوستو اور مانگوں میں مولا سے کیا

کیا یہ کم ہے کہ میرے خدا نے مجھے اپنے محبوب کا امتی کردیا


جو بھی آیا ہے محفل میں سرکار کی حاضری مل گئی جس کو دربار کی

کوئی صدیق فاروق عثمان ہوا اور کسی کو نبیﷺ نے علی کر دیا


جو در مصطفی کے گدا ہو گئے دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہو گئے

ایسی چشم کرم کی ہے سرکار نے دونوں عالم میں ان کو غنی کردیا


کوئی مایوس لوٹا نہ دربار سے جو بھی مانگا ملا میری سرکار سے

صدقے جاوں نیازی میں لج پال کے ہر گدا کو سخی نے سخی کر دیا


اللہ، غنی کیسی وہ پرکیف گھڑی تھی

اللہ، غنی کیسی وہ پر کیف گھڑی تھی

جب سامنے نظروں کے مدینے کی گلی تھی


نظروں سے لیے بوسے کبھی ہونٹوں سے چوما

اس شہر کی ہر چیز مجھے خوب لگی تھی


لج پالوں کے لج پال کی چوکھٹ پہ کھڑا تھا

قسمت میری اس در پہ کھڑی جھوم رہی تھی


اس نعت مقدس پہ ہر اک نغمہ تصدق

حسان نے جو نعت مدینے میں پڑھی تھی


کیفیت دل کیسے بتاوں تمہیں لوگو،

جب پہلی نظر گنبد خضری پڑی تھی


مجرم تھا کھڑا سر کو جھکائے ہوئے در پر

آنسو تھے رواں ایسے کہ ساون کی جھڑی تھی


اس شہر کے ذرے تھے چمکتے ہوئے تارے

ہر چیز وہاں نور کے سانچے میں ڈھلی تھی


لے ڈوبتے اعمال مرے مجھ کو نیازی

جا پہنچا مدینے مری تقدیر بھلی تھی


شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی

شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی

شراکتیں

صارف:تیمورصدیقی