ربنا لک الحمد از سعود عثمانی

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 14:59، 24 جولائی 2021ء از ADMIN 3 (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Saud Usmani.jpg

مضمون نگار : سعود عثمانی

ڈاکٹر افتخار الحق کی ربنا لک الحمد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پاکستان کے شمالی علاقوں میں شاہراہ ریشم پر سفر کرتےہوئے ایک عجیب مقام آتاہے ۔بلندہوتے جائیے تو آخر وہ جگہ آجاتی ہے ۔یہاں پہاڑوں کے تین عظیم سلسلے ملتے ہیں۔ہمالیہ ،قراقرم اورکوہ ہندوکش ۔ہمالیہ جو دنیا کی دس بلند ترین چوٹیوں میں سے نو کا مسکن ہے ۔قراقرم جس میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا آشیانہ ہے اور ہندو کش جس میں ترچ میر کی خوبصورت چوٹی کا گھر ہے۔اسی جگہ بل کھاتا ، شور مچاتا دریائے گلگت عظیم دریائے سندھ سے ملتا ہے ۔اسی نقطے پرگلگت اور سکردو کی وادیاں یک جان ہوتی ہیں ۔یہ سنگم ہے اور اسے یکتا ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جگلوٹ نامی اس قصبے کا وہ منظر دیکھنے کے لیے سفر کرکے جانا چاہیے کہ یہ منظر کسی اور جگہ نہیں مل سکتا۔

اظہار کی شاہراہ ریشم پر سفر کرتے ہوئے ایک عجیب مقام آتاہے ۔بلند ہوتے جائیے تو آخر وہ جگہ آجاتی ہے ۔یہاں پہاڑوں کے کئی عظیم سلسلے ملتے ہیں ۔ہیبت،عظمت،عقیدت اور محبت ۔ان میں سے ہر پہاڑی سلسلہ بلند ترین چوٹیوں کا گھر ہے ۔یہاںخیالات،احساسات، مشاہدات اور تجربات کے عظیم دریا آپس میں ضم ہوتے ہیں ۔یہاں وادیاں یک جان ہوتی ہیں اور ان سے ہر طرف راستے نکلتے ہیں ۔یہ سنگم ہے اور اسے یکتا ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔حمد نامی اس مقام کا منظر دیکھنے کے لیے سفر کرکے وہاں پہنچنا چاہیے کہ یہ منظر کسی اور جگہ نہیں مل سکتا۔

کیاکبھی آپ نے غور کیا کہ نثر ہو یا شاعری ۔حمد پر آکر سب کیفیات یک جان ہوجاتی ہیں ۔

ذرا سورہ ء سبا کی وہ آیت پھر پڑھیے

"اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے داؤد کو خاص اپنے پاس سے بڑا فضل عطا کیا تھا۔(ہم نے حکم دیا کہ ) اے پہاڑو! اس کی حمد میں آواز کے ساتھ آواز ملاؤاور اے پرندو! تم بھی"

کیا اس ایک ہی آیت میں قرآن کریم نے پیغمبر(علیہ السلام)کی خصوصیت ،اس کے معجزے کا کمال،اس کی شاعری کی تاثیر،اس کے لحن کی تعریف ،اس کے دل سے پھوٹنے والی حمدیں ،ان حمدوں کا جمادات اور ذی روح پر اثر اور خود شعر کی اثر پذیری ،سب جہات کے دروازے نہیں کھول دئیے ؟شاعری کی اس سے زیادہ تعریف کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی تعریف لفظ کا خالق کرے ۔ شاعری کا اس سے زیادہ اثر کیا ہوسکتا ہے کہ اس پر جمادات جھومنے لگیں اور ہم آہنگ ہوجائیں۔اور جابجا قرآن کریم یہ کہنا بھی نہیں بھولتا کہ ہم نے داؤد کوزبور عطا کی ۔کبھی زبور پڑھیے ۔ایک شاکر دل سے پھوٹنے والی حمدیں یہاں سے وہاں اس طرح سیراب کرتی ہیں جیسے شفاف اور مترنم ندی کے کنارے حد نظر تک لالہ زار بچھا ہوا ہو۔اور رنگ رنگ کے لاکھوں پھول ہریالی سے پھوٹتے ہوں۔زبور کی حمدیں دل پر اثر کرتی ہیں حالانک ہم صرف ترجمہ پڑھ سکتے ہیں ۔اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اصل میں یہ کیا ہوں گی ۔اور اس سے شاعری خاص طور پر اس صنف کا انسانوں کے لیے الہامی ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے۔


کیفیات کا اتصال کہاں ہوتا ہے ؟ مجازی محبوب سے وصال ممکن ہے ، یہ اتصال ممکن نہیں ۔اسی لیے یہ سنگم جسے دیکھنا نصیب ہوجائے یا جو اس مقام پر قیام کرلے وہ بڑا خوش نصیب ہے ۔میں رسمی اور فرمائشی شاعری کی بات نہیں کر رہا لیکن سچ یہ ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ قابلِ رشک لگے جن کا اس معاملے میں دماغ اور دل ایک ساتھ دھڑکتا ہو۔ان کی نبض ان کے لفظ میں بھی مرتعش ہو ۔یہ توپیغمبروں کی سنتیں چلی آتی ہیں ۔سنتِ ابراہیمی ۔سنتِ داؤدی ۔جو لوگ ادا کرتے ہیں وہ منتخب ہیں ۔یاد رکھیے ۔سنت داؤدی ادا کرنے والے خاص ہیں اور کم کم ۔

یہ بات کہنا مشکل ضرور ہے لیکن بہت ضروری بھی ہے کہ حمد،نعت،سلام،منقبت وغیرہ میں بہت سے لوگ شاعری کے ان معیارات اور لوازمات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جن کا اطلاق غزل ،نظم سمیت ہر صنف سخن میں ہوتا ہے ۔ وجہ یہ کہ دل پوری طرح شاعری میں شامل ہوتا ہی نہیں اور شعر کے پیچھے پوری تخلیقی طاقت شامل کرتے ہی نہیں ۔ دوسرے یہ کہ حمد و نعت موجب ثواب سمجھ کر کہی جاتی ہیں ۔ یہ مقصد پورا ہوگیا تو بس۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ اصناف کم معیاری شاعری کی اجازتیں نہیں بلکہ اعلٰی ترین درباروں میں اعلٰی ترین تحفے پیش کرنے کا اذن ہیں۔کم حیثیت تحفہ ٍپیش کرنے پر کسی کا دل راضی ہوتا ہے تو اس کی قسمت ۔لیکن اعلٰی شاعر کا دل کمزور شعر پر کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔

اچھا شاعر ہونا اور صاحب دل ہونا ۔ یہ دونوں مل کر بھی بعض اوقات اس توفیق کی طرف نہیں لاتے جس کا نام حمد ہے ۔یہ توفیق جسے ملے اسے شکر کرنا چاہیے۔میں بھی اپنے لیے،آپ کے لیے اس توفیق کی دعا کرتا ہوں اوراس سنگم تک پہنچنے کے لیے سفر کرتا ہوں۔