خانوادۂ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری - الحاج سید مفیض الدین قادری

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 18:25، 1 اپريل 2018ء از ADMIN (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: الحاج سید محمد مفیض الدین قادری ( شاہ جہاں پور )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


خانوادۂ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت بڑی ہی نازک صنف ہے اور نعت گوئی کا شرف اللہ تعالیٰ سب کو عطا نہیں کرتا بلکہ جس پر اللہ ربّ العزت کا خاص کرم ہوتا ہے وہی نعتیہ شاعری کر سکتا ہے۔ عربی میں ’’نعت ‘‘ کے معنی توصیف و تمجیداور تعریف و بزرگی کے ہیں۔ عام طور پر لفظ نعت جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تعریف و توصیف کے لئے بولا جاتا ہے۔ حضرت حسان ، حضرت کعب ، حضرت ابنِ رواحہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نعتیہ اشعار بہت مشہور ہیں۔ صحابہ سے لیکر تا ایں دم تما م اہلِ ایمان حسب توفیق جناب رسول رسول اکرم ﷺ کی شان بیان کرتے آئے ہیں جس کا اظہار کبھی نعت کے اشعار کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی نثر کی عبارت کی صورت میں اور کیوں نہ ہو جبکہ آںحضور ﷺ سے عقیدت و محبت جزوِ ایمان ہے۔اہلِ ایمان کا نبی مکرم ﷺ کے ساتھ تعلق ر وحانی ہے لہٰذہ آپ کی مدح و توصیف ایمان و ایقان اور محبت قلبی کا تقاضہ ہے اور یہی ایمان کی افزودگی اور معراجِ کمالِ مومن ہے۔آں حضور ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے لاَ یُومِنُ اَحَدَکُم حَتیٰ اَکُونَ اَحَبّ اِلَیۃ مِن وَالِدِہٖ و َ وَلَدِہِ وَ الّناسِ اَجمَعیِن۔ یعنی تم میں سے اُس وقت تک کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ اس کے بیٹے اور تمام لو گوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

یہ محبت کا تقاضہ تھا کہ تمام اہلِ ایمان آں حضور ﷺ کی مدح و توصیف میں رطب اللّسان رہے۔ حضرت حسان بن ثابت جو شاعر رسول کے معزز لقب سے ملقّب ہیں فرماتے ہیں۔


و اجمل منک لم ترقط عینی

و اکمل منک لم تلد النّسأ

خلقت مبرا من کل ّ عیب

کانّک قد خلقت کما تشأ

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جس میں آپ نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ؎


وما مدحت محمداً بمقالی

و کن مدحت مقالی محمد

نعت گوئی رسول کریم ﷺ سے انتہائی قلبی تعلق اور بے پناہ محبت کی طالب و متاقاضی ہے اس میں سرشاری و سر مستی کے ساتھ شعور و ادراک کی ہم سفری بھی نہایت ضروری ہے۔ نعت کہنے والے جس شاعر کو یہ سب چیزیں ودیعت ہوئی ہوں وہی کامیاب نعت گو ہو سکتا ہے۔ المختصر ذیل کے مضمون میں ہم خانوادہ ٔ قادری کے اکابرین کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیں گے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

تعارف خانوادہ ٔ قادری:

خانوادہ ٔ قادری نے گزشتہ کئی صدیوں سے دینِ متین اور ملک و ملت کی بے لوث خدمات انجام دی ہیں۔ اس خانوادہ ٔ کے افراد نے ہندوستان کی آزادی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس خانوادہ سے علم و عمل کی جو کرنیں پھوٹیں انہوں نے ہندوستان کے علاوہ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کو بھی روشن کیا۔ تصنیف و تالیف شعر و سخن درس و تدریس و اعظ و نصیحت اصلاح و ارشادات اور رُشد و ہدایت کے ذریعے عوام کی خدمت ہر دور میں اس خانوادہ کا نمایاں کارنامہ رہا ہے۔

خانوادہ ٔ قادری کے مورثِ اعلیٰ حضرت سید محمد شیر الدین رحمۃا للہ علیہ ملک عرب سے ۳۸۱؁ھ مطابق ۹۹۲؁ء س میں ملتان اور جا لندھر ہوتے ہوئے ہندوستان تشریف لائے پہلے بدایوں میں قیام کیا اور بعد میں موضع مالوں ضلع شاہ جہاں پور میں مستقل رہائش اختیار کی۔ آپ کا سلسلہ ٔ نسب نبی کریم ﷺ کی نوئیں پشت میں بنی لوئی سے ملتا ہے۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’’ خطبات احمدیہ‘‘ مولف سر سید احمد خاں مطبوعہ لندن ۱۸۷۰؁ء۔

گزشتہ کئی صدیوں میں اس خانوادہ کی نمایاں شخصیات میں جو شہرت فخرِ ملک و ملت صدر جمہوریہ اعزاز یافتہ حضرت الحاج قاری سید نا ،مولانا پنڈٹ بشیر الدین قادری شاہ جہاں پوری قدّس سرہ کو نصیب ہوئی وہ دوسرے کسی فرد کے حصے میں نہیں آئی۔ آپ بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے ، اسلامیہ انٹر کالج ، شاہ جہاں پور میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔ مختلف زبانوں پر آپکو عبور حاصل تھا۔ آپ کی اعلیٰ علمی اور ملی خدمات کے صلے میں حکومتِ ہند کی جانب سے بدستِ صدر جمہوریہ جناب سرو پلی ڈاکٹر رادھا کرشنن نے قومی اعزاز National Award مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۶۱؁ء کو عطا کیا تھا۔ وزیر اعظم جناب پنڈت جواہر لال نہرو نے آپ کی سنسکرت زبانوں پر عبور اور بیدوں پر تحقیقی کارناموں کو دیکھ کر ’’ پنڈت‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ آپ تصانیفِ کثیرہ کے مالک تھے۔ آپ کی مایۂ ناز تصنیف ’’ تاریخ ِ ہندی قرون وسطیٰ ‘‘ ہند و پاک کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی مشہور ہے۔ آپ ایک فقیر منش اور درویش صفت انسان تھے۔ ساری زندگی شریعت و طریقت کی تصویر بن کر رہے۔ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بشارت کے مطابق ۱۲؍ شوّال المکرم ۱۳۸۸؁ھ کو حضرت شیخ عبد الحمید محمد سالم القادری بدایونی دام اقبالکم سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ ،مجیدیہ ، بدایوں شریف نے درگاہ عالیہ، قادریہ میں عرس قادری ، قدیری میں قل شریف سے قبل خلافت و اجازت سے نوازہ تھا۔ اس کے بعد آپ نے شاہ جہاں پور میں خانقاہ عالیہ، قادریہ ، بشیریہ، قائم کی یہ خانقاہ آج بھی رُشد وہدایت کی مرکز ہے۔ ( مزید تفصیل کے لئے دیکھئے خمخانہ ٔ محامد۔مولف نواب قادری۔ حیدر آباد )

ذیل کے مضمون میں ہم آپ کے ہی صاحبزادگان کی نعتیہ شاعری کا مطالعہ کریں گے۔

۱-سید محمد استخار الدین قادری یعقوبؔ:

آپ الحاج قاری سیدنا ، مولانا پنڈت بشیر الدین قادری شاہجہاں پوری قدّس سرہ کے خلفِ اکبر ہیں جو اس وقت آپ کی یادگار ہیں۔ بجنور انٹر کالج میں بحیثیت انگلش لکچرار درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد اس وقت ادبی اور علمی کارناموں میں مصروف ہیں۔ آپ کو اپنے والد ماجد سے خلافت و اجازت بھی حاصل ہے۔ حضرت یعقوبؔ صاحب کے شعر ی دیو ان’’ قصرِ جاں ‘‘ میں پروفیسر خالد حسن خاں رقم طراز ہیں :-

’’ یعقوبؔ صاحب کی وسعتِ نظر ، ذوقِ مطالعہ ، شوقِ مشاہدہ ، تنقید و ترجمہ اور بحور و اوزان کی دقیقہ رسی ایسی خداداد صلاحیتیں ہیں جن کے طفیل ان کی علمیت ، ادبیت ، شعریت اور صلاحیت کی گونج نہ صرف شاہجہاں پور ، بدایوں ، بجنور، میرٹھ ، دلّی بلکہ اردو کے دور دراز علاقوں میں محسو س کی گئی۔ ان کی طبعیت میںمتانت و قناعت ، سنجیدگی و بردباری ، مشق و محنت ، ریاضت و عبادت حکم و علم کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جس کے سبب ان کے خامہ ٔ گوہر فشانی پر کبھی جھنجھلاہٹ اور غصہ کے تیور ظاہر نہیں ہوتے ہیں مزاج میں استقلال طبعیت میں صلح جوئی فکر پر سفلیت کے بجائے عقلیت بلکہ شعریت غالب ہے کسی بھی شخص و شاعر کے لئے یہ خوبیاں اس کی سحریت اور شعریت کے لئے کافی ہیں۔ اپنی انہیں خوبیوں محبوبیوں اور کمالات کے باعث یعقوبؔ صاحب جس محفل میں ہوتے ہیں وہاں اپنی خوش کلامی اور شعر خوانی کا نہ صرف علم بکند کرتے ہیں بلکہ با ذوق سامعین اور اپنے ہم عصر شاعروں کو بھی متاثر کر دیتے ہیں۔ ‘‘

حضرت یعقوب ؔ کے چار دیوان اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہیں (۱) دھڑکنیں مطبوعہ ۱۹۶۵؁ء (۲) سازِ دل( مجموعہ قطعات و رباعیات ) مطبوعہ ۱۹۷۲؁ء (۳) لمحہ لمحہ آگہی ( اردو اکیڈمی۔ لکھنؤ سے انعام یافتہ ) مطبوعہ ۲۰۱۰؁ء (۴) قصرِ جاں مطبوعہ ۲۰۱۵؁ء

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

جہاں آپ نے دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے وہیں آپ بہترین نعت گو شاعر بھی ہیں۔ علم الحساب میں ۹۲؍کا عدد کائنات عالم کی ہر شئے میں دیکھ کر آپ نے فرمایا۔ ؎


محمدنہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘

نہ سورج چمکتا نہ تارے دمکتے

نہ کلیاں چٹکتیں نہ غنچے مہکتے

فضا مسکراتی نہ طائر چہکتے

نہ پانی برستا نہ چشمے چھلکتے

’’محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘

مناظر نہ ہوتے ہوائیں نہ ہوتیں

زمانے میں رنگیں فضائیں نہ ہوتئیں

لب ِ آرزو پر دعائیں نہ ہوتئیں

اذاں کی یہ دل کش صدائیں نہ ہوتئیں

’’محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘

ابوبکر کی یہ سخاوت نہ ہوتی

جہاں میں علی کی شجاعت نہ ہوتی

نبی کی اگر یہ عنایت نہ ہوتی

عطا آدمی کو بصیرت نہ ہوتی

’’محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘

خدا کا نہ ہم پر یہ احسان ہوتا

نہ اشرف جہاں میں یہ انسان ہوتا

نہ اسلام ہو تا نہ ایمان ہوتا

کسی کو خدا کا نہ عرفان ہوتا

’’محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘

سکون دلِ و جاں اطاعت نبی کی

خدا کی عبادت ہے الفت نبی کی

قراں سے بھی ثابت ہے عظمت نبی کی

زمانے کو لازم ہے طاعت نبی کی تا‘‘

’’محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا‘‘

آپ کی یہ مشہور نعت آج بھی خاص و عام کی زباں پر ہے۔ cce Pattern کی منظور شدہ کتاب ماہ ِ اردو ( مصنف راقم الحروف ) درجہ چہارم میں یہ نعت داخلِ نصاب ہے۔ المختصر آج دنیا میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ آپ ﷺ ہی کا صدقہ ہے۔ حدیثِ قدسی ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

’’ آگر آپ کی ذات نہ ہوتی تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا ‘‘ پوری نعت اسی مضمون کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیاں میں جہاں جائیں ہر طرف ہر چیز میں آپ کی رحمت کی نشانیاں ملیں گی۔

حضور ﷺ کی محبت انسان ، حیوان ، چرند ، پرند ، شجر و حجر اور کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔ ذرے ذرے نے جناب رسول اللہ ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دی۔ آپ چونکہ رحمت بن کر تشریف لائے ہیں لہٰذا آپ نے رحمت و شفقت کا جو نمونہ پیش کیا وہ نہ آج تک مل سکا اور نہ قیامت تک مل سکتا ہے۔ جناب یعقوبؔ صاحب کے یہ اشعار اس کے ضامن ہیں۔ ؎


سراپا محبت سراپا حقیقت

کرم بن کے آئے عطا بن کے آئے

کرے کس طرح ان کی تعریف یعقوبؔ

جو عالم میں شمس الضحیٰ بن کے آئے

جناب محمد رسول اللہ ﷺ سراپا رحمت کا خزانہ ہیں اور یہ خزانہ کسی ایک فرقہ کے لئے نہیں ، کسی ایک قوم کے لئے نہیں ، کسی خاص نسل کے لئے نہیں ، کسی خاص گروہ کے لئے نہیں اور کسی خاص ملک کے لئے نہیں بلکہ عالم کُل کے لئے ہیں۔ آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت کا سر چشمہ ہیں اس سلسلے میں جناب یعقوبؔ کے کچھ اشعار پڑھیے۔ ؎


انہیں کا نام نامی ہے محمد

جوہیں رحمت کفیل بے کساں ہیں

جو آیا ہے وہ شاہد ہے انہیں کا

رسولوں کے امیر کاروں ہیں

شبِ معراج میں بھی یاد رکھا

وہ امّت پر بہت ہی مہرباں ہیں

محمد آپ، احمد ذات والا

جمالِ حق دلیلِ کُن فکاں ہیں

ہمہ رحمت خبیرِ لا مکاں ہیں

وہ ختم المرسلیں جان جہاں ہیں

شعور زندگی کے پاسباں ہیں

خدا کا نور جانِ عاشقاں ہیں

وہ اوجِ منزلت آپ کی ذات

نصاب حق شفیعِ عاصیاں ہیں

۲۔ سید محمد ظہیر الدین قادری کوثر ؔ :

آپ ۱۹۶۱؁ء میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ کراچی میں عائشہ باوانی ڈگری کالج میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز تھے۔ اردو ، ہندی ، سنسکرت ، انگلش وغیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کو اپنے بھائی سید محمد معزالدین قادری شاہ جہاں پوری سے سلسلہ عالیہ، قادریہ، بشیریہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی۔ پروفیسر سید محمد ظہیر الدین قادری کوثر ؔ شاہ جہاں پوری کے مجموعہ کلام ’’ ارمغان سخن ‘‘ میں پروفیسر یٰسین خان بہارؔ استاذ شعبہ ٔ اردو لندن کالج آف آرٹس مینجمنٹ ، کرچی پاکستان لکھتے ہیں:-

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

’’کوثر ؔ صاحب نے آفتاب علم و دانش اور مہر زہد و تقویٰ کی روشنی میں آنکھ کھولی ہے۔ ان ضیا پاشیوں کے بہت کچھ اثرات ان کی ذات ، ان کی فکری دھارے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر حاوی نظر آتے ہیں۔ معلمی کا شعبہ ان کی میراث ہے اور شاعری ان کا تقاضائے فطر ت، شاعری اور ادب کی دنیا میں وہ ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں مختلف زبانوں کے شعر و ادب کو انہوں نے تعمق نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس لئے ان کی فکر میں گہرائی اور لہجے میں ایک دل کش توازن و متانت کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کے شعری خیالات تصوف کے پروردہ معلوم ہوتے ہیں۔اس لئے کہ عشق الٰہی اور تصوف ان کے خانوادہ کی میراث و متاع ِ حیات بھی ہے۔ کوثر ؔ صاحب کی جڑیں اپنے ماضی میں بہت گہری ہیں۔ وہ اپنے آبا و اجداد کے طرقِ زندگی ، ان کے علمی شغف اور ان کی راستبازی کے مقلد و مویّد ہیں بلکہ ان پر اپنے بزرگوں کی رسم عبودیت کے اثرات بھی پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ ‘‘

۱۴؍ فروری ۲۰۰۸؁ء کو مختصر علالت کے بعد داعی ِاجل کو لبیک کہا۔ نثر و نظم پر آپکو یکساں عبور حاصل تھا۔ نثر میں اسلام اور گہورہ ٔ مسعودی، سرمایہ ٔ حیات ، علم عروض پر ایک سرسری نظر ، شاہ راہِ علم و عمل وغیرہ کتب راقم کے مطالعہ میں ہیں۔

اس وقت آپ کے پانچ دیوان ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ (۱) گل دستہ ٔ کوثر ؔ مطبوعہ ۱۹۷۷؁ ء (۲) عکس ِ کوثر ؔ ۱۹۸۷؁ء (۳) ارمغان سخن ۲۰۰۲؁ء (۴) آبشار نور۔ مجموعہ نعت ومناقب مطبوعہ ۲۰۰۵؁ء(۵) فراغِ کوثر ؔ مطبوعہ ۲۰۰۷؁ء یہ تمام کتب ’’ کتب خانہ قادریہ، بشیریہ ‘‘ میں محفوظ ہیں۔

کوثر ؔ صاحب کا دل عشقِ رسول ﷺ سے سرشار ہے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے۔ اس میں والہانہ سوز و گداز اور عجیب سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ؎

آنکھوں میں وہی جلوہ دل میں وہی الفت

اے کاش مدینے کو لے جاؤں یہی حسرت ہے

دامن میں مرے کیا ہے ، ہیں اشک عقیدت کے

کیا پیش کروں آقا جو کچھ ہے محبت ہے

جناب کوثر ؔ شاہ جہاں پوری نے بڑے آسان اور سادہ الفاظ میں رسول اکرم ﷺ کی ذات وصفات اور شان کو بیان کیا ہے۔ اس سادگی میں جو عقیدت نظر آتی ہے وہ دقیق الفاظ میں ممکن نہیں۔ کوثر ؔصاحب نے عشق رسول سے متعلق کتنی سچی بات کہی ہے۔ ؎


ذات نبی حسین ہے بڑی خوش خصال ہے

نور خدا ہے پیکر حسن و جمال ہے

اک شانِ کِبریائی ہے تخلیق مصطفی

ذاتِ رسول پاک خدا کا جمال ہے

حضور پُر نُور ﷺ کی ذات اخلاق و سیرت کے اعتبار سے وہ منوّر آفتاب ہے جس میں ہر خوبی کی جھلک اور ہر حسن کا رنگ ہے۔ اس مضمون کو کوثر ؔ صاحب نے کس انداز میں بیان کیا ہے پڑھیے ا ور طلطف لیجئے ۔ ؎


مساوات اور اتحاد و اخوت

ہر اک کے لئے ہیں پیام محمد

جتنی بھی جہاں میں روشنی ہے

صدقے میں نبی ﷺ کے ہو رہی ہے

تفسیر حیاتِ مصطفی ﷺ تو

قران کی شکل میں ڈھلی ہے

جہالت کے اندھیرے میں جلا ئی علم کی شمع

عرب کیا عالم انسانیت کے آپ رہبر ہیں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس میں کوئی شک نہی کہ حضرت کوثرؔ شاہ جہاں پوری کا دل عشق رسول ﷺ سے سرشار ہے۔ ان اشعار میں عشقِ رسول کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ چند اشعار آپ بھی پڑھیئے۔ ؎


کیوں نہ کوثر ؔجان دے دوں مصطفی کے عشق میں

جب نہیں کونین میں کوئی مثالِ مصطفی ﷺ

ان کا جلوہ ٔ دیکھنے والی نگاہیں ہو ں تو پھر

ہر طرف ، ہر سمت ، ہر سو ہے جمال مصطفی ﷺ

۳۔ سید محمد مُعزالدین قادری:

آپ اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی جاں نشیں اور خانقاہِ عالیہ ، قادریہ، بشیریہ، شاہ جہاں پور شریف کے پہلے سجادہ نشین تھے۔ ایف۔ آر انٹر کالج ، چندوسی میں درس و تدریس کی خدمات بحیثیت لیکچرار انجام دینے کے بعد ۳۰؍جون ۲۰۰۸ ؁ء کو سبک دوش ہوئے۔ آپ نے راقم الحروف کے والد ماجد مربّی اُستاذ اور پیر و مرشد ہیں۔ بے شمار لوگ آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہوکر فیض یاب ہوئے۔

حضرت والدِ ماجد کے مجموعہ مضامین قادری میں مولانا حضور احمد قادری پرنسپل دارلعلوم غوث الوریٰ ، شاہ جہاں پور رقم طراز ہیں:-

’’ آپ سراپا ایک علمی شخصیت ہیں منکسرالمزاج آپ کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔ حد درجہ متواضع کم گو وضعدار اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں۔ آپ ایسے با اخلاق اور با وقار ہیں کہ ایک بار ملنے کے بعد آپ سے باربار ملنے کا جی ہو تا ہے۔ آپ پر آپ کے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ آپ کو اپنے والدِ ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے جو علمی و روحانی وراثت ملی تھی اس کو بہت ہی سنبھال کر رکھا ہے۔ ‘‘

ماخوذ مضامین قادری اور اس کے مصنف میری نظر میں مطبوعہ ماہ نامہ اعلیٰ حضرت مارچ ۲۰۱۲؁ء۔

۲۵؍ جمادی الاوّل ۱۴۳۶؁ ھ ؍ ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۵؁ء صبح ۹؍ بجے بعد نماز چاشت داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ خانوادہ ٔ قادری کے اکابرین کی آخری آرام گاہ درگاہ عالیہ ، قادریہ واقع مولانا پنڈت بشیر الدین روڈ ، شاہ جہاں پور میں محوِ خواب ہیں۔

حضرت والد ماجد نے ایک درجن سے زیادہ کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ جس میں امن و شانتی مطبوعہ ۲۰۰۹؁ء اور مضامین قادری مطبوعہ ۲۰۱۰؁ء طباعت کی منزل سے گزر کر اربابِ علم سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ بقیہ غیر مطبوعہ تصانیف ’’ کتب خانہ قادریہ ، بشیریہ ‘‘ میں محفوظ ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں نعتیہ کلام بھی شائع ہو ئے جو آج بھی عام و خاص کی زبان پر ہیں۔

آپ کا نعتیہ کلام شاعرانہ استعداد ، تخیل کی بلند پروازی بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے والہانہ عشق اور رموز شاعری سے بھر پور آگہی کی عکاسی کرتا ہے ، فرماتے ہیں ۔ ؎


دیر و حرم میں ہے نہ کسی آشرم میں ہے

دل کو سکوں تو آپ کی چشمِ کرم میں ہے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

آنحضرت ﷺ کی مکمل زندگی ایک لفظ رحمت کی تفسیر ہے۔ اور رحمت کا حقیقی مفہوم اگر کہیں بتمام و کمال ادا ہو اہے تو وہ آں حضرت ﷺ ہی کی پاک زندگی ہے جو پوری انسانیت کے لئے نمونہ ٔہدایت ہے۔ حضرت والد ماجد کا یہ شعر اس کا ضامن ہے ۔ ؎


اے امّتی تو اُسوہ ٔ خیر البشر پہ چل

تیری نجات آپ کے نقشِ قدم میں ہے شہر مدینہ کی کیا بات کی جائے جو مکمل جنت ہے۔ خود سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ جنت کے خطوں میں سے ایک خطہ ہے۔ اسی سلسلے میں حضرت والد ماجد فرماتے ہیں۔ ؎


فردوس میں ہے اور نہ باغِ ارم میں ہے

جینے کا لطف روضۂ شاہ امم میں ہے

تخیل کی بلند پروازی کا نمونہ پیش ہے فرماتے ہیں ۔ ؎


ارضِ حرم بھی رو کشِ فردوس ہے مگر

جینے کا لطف روضۂ شاہ امم میں ہے

عشقِ رسول عقید ہ ٔ ایمان ہے۔ بغیر عشق رسول کے ایمان کا مل نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں۔ ؎


یادِ حبیب مجھ کو ستاتی ہے بے طرح

حالِ دِل تباہ مری چشمِ نم میں ہے

خوشبو جو ان کے گیسوئے پرپیچ و خم میں ہے

عنبر میں ہے نہ کیسر و مشکِ ختن میں ہے

عشق رسول ایسا فزوں تر ہوا ہے اب

سرخی بڑھا رہا ہوں میں کچھ غم کے باب میں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

حضور اکرم ﷺ کی ذات با برکت عالی صفات تمام اخلاق و خصائل صفاتِ جمال میں اعلیٰ و ارفع ہے۔ ان تمام کمالات و محاسن کا احاطہ انسانی قدرت و طاقت سے باہر ہے کیوں کہ وہ تمام کمالات جن کا عالم امکان میں تصور ممکن ہے سب کے سب نبی کریم ﷺ کو حاصل ہیں۔ تمام انبیأ و مرسلین آپ کے آفتاب کمال کے چاند اور انوار جمال کے مظہر ہیں۔ حضرت کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


تھے بے شمار وصف رسولوں میں اے معزؔ

ہر ایک وصف ان کا شفیع الامم میں ہے

کچھ اشعار اور پڑھئے ۔ ؎


کیا اور بھی کوئی ہے جو ان کا جواب ہو

نور خدا ہے روئے رسالت مآب میں

سُن لیجئے اے شاہ امم دل کی دھڑکنیں

اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہوں تمھیں اضطراب میں

۴۔ سید محمد ظفر الدین قادری :

آپ کئی خوبیوں کے مالک تھے نعت گوئی میں ملکہ حاصل تھا۔ نعت گوئی میں آپ کو ’’ حاجی عبد الباری یادگار نعتیہ ایوارڈ ‘‘ ۲۷؍ستمبر ۱۹۷۰؁ء کو عطا کیا گیا تھا۔ شیریں گفتگو ، لبوں پر مسکراہٹ مزاج میں عاجزی خدمتِ خلق وغیرہ اوصاف آپ میں وِراثتن موجود تھے۔

کچھ عرصے تک مدرسہ رحمانیہ شاہ جہاں پور میں اور عرصہ ٔ دراز تک مدرسہ بحر العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ خانقاہ عالیہ، قادریہ ، بشیریہ میں قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے۔ بے شمار مخلوق خدا آپ کے اس علمی فیضان سے مستفیض ہوئی۔ آپ نے شرفِ بیعت اپنے والدِ ماجد سے حاصل کی۔

راقم الحروف کے مطالعہ میں آپ کی غیر مطبوعہ تین تصانیف ہیں۔ جو خانودہ ٌ قادری کے اکابرین کے آبائی کتب خانہ قادریہ ، بشیریہ میں محفوظ ہیں۔ (۱) تاریخ اردو ادب (۲) تنقید و تبصرہ (۳) اردو کے مشہور شعرأ فن شاعری میں آپ کو مہارت حاصل تھی زیادہ تر کلام ضائع ہو گیا کچھ نعت اور منقبت راقم کے پاس محفوظ ہیں۔ آپ مخصوص ترنم میں نعت شریف پڑھتے تھے۔ راقم الحروف نے بارہا آپکا کلام سنا ہے۔ کلام ضائع ہونے کا آپ کی مسلسل علالت تھی۔ اس سبب آپ کا کلام محفوظ نہ رہ سکا اور نہ اشاعت کی منزل کی سے گزرا۔ ۱۴؍ذی قعدہ ۰ ۱۴۳؁ھ مطابق ۳؍نومبر ۹ ۲۰۰؁ء کو بعد نماز تہجد داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ درگاہ عالیہ، قادریہ میں اپنے والد کے پائیں آرام فرماہیں۔

ظفرؔ شاہ جہاں پوری کے کلام میں والہانہ عشق کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ کے اشعار پڑھنے کے بعد ایمان کو جِلا حاصل ہوتی ہے اور آپ کا تمام کلام عشق رسول ﷺ کا ترجمان ہے۔ ؎


شفاعت کارِ مشکل ہر کسی سے ہو نہیں سکتا

بجز اس ذات اقدس اور کسی سے ہو نہیں سکتا

سکوں بخشا جہاں کو آپ کی ذات مقدس نے

کہ جو اس دور کی شائستگی سے ہو نہیں سکتا

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

حضرت ظفرؔ شاہ جہاں پوری کے کلام میں اکثر وبیشتر جو ایک خوبی نظر آتی ہے وہ ان کے واردات قلبی کی عکاسی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


زندہ ہیں اگر آ جائے گا وہ دن بھی ظفر ؔ انشا اللہ

دیکھیں گی نگاہیں مری اللہ کا گھر انشا اللہ

ہم اہلِ محبت دیکھیں گے آہوں کا اثر انشا اللہ

پیغام حضوری دے گا ہمیں طیبہ کا سفر انشا اللہ

معذور سہی، مجبور سہی ، نادار سہی ، ناچار سہی

روضے پہ لُٹائیں گے جاکر اشکوں کے گُہر انشا اللہ

دیوانہ جائے گا جھوم کے جب سرکار کے روضے کی جانب

حیرت سے فرشتے دیکھں گے انداز سفر انشا اللہ

جس طرح دیار اقدس تک اربابِ محبت پہنچے ہیں

اک روز ظفرؔ ہوگا یوں ہی اپنا بھی سفر انشا للہ

جناب ظفرؔ شاہ جہاں پوری کے نعتیہ اشعار پڑھنے سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ سہل اور انتہائی آ سان زبان میں کہے گئے ہیں۔ جو ذہن میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ ان اشعار میں ان تمام خوبیوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ ؎


غلام قادری نے جب پُکارا یا رسول اللہ

دیا ہے آپ نے بڑھ کر سہارا یا رسول اللہ

بلا کر اپنے روضے پر مٹا دو بے کلی دل کی

یہ دوری اب نہیں مجھ گوارا یا رسول اللہ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

ظفرؔ صاحب کے یہ اشعار ان کے پختہ عزم و حوصلہ کی سچی اور صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ جو عشقِ رسول ﷺ کی دلیل ہیں۔ فرماتے ہیں۔ ؎


پکڑ کر روضہ ٔ انور کی جالی دم نکل جاتا

کچھ ایسا اَوج ہوتا ستارہ یا رسول اللہ

مدد فرمایئے میری ، مدد کو آیئے میری

بڑی مشکل سے ہوتا ہے گزار ا یا رسول اللہ

یہی ہے آرزو میری یہی ہے آرزو باقی

ترے روضے کا میں کر لوں نظارہ یا رسول اللہ

کیا ہے چاند دو ٹکڑے فقط اک اشارے میں

کرم کا کیجئے مجھ پر اشارہ یا رسول اللہ

عجب عالم ہے اس دل کا نہ پوچھو کیفیت اس کی

دکھا دو اب ظفرؔ کوبھی نظارہ یا رسول اللہ

مزید دیکھیے =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سانچہ:بکس مضامین

نئے صفحات